محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ایک غزل تصحیح کے لیے پیشِ خدمت ہے
تو پھر بتائو تمہیں سچ کی جستجو کیوں ہے
فریب کھائے ہووں کے نقوشِ پا ہیں یہ
انھی پہ چلیے تو منزل کی آرزو کیوں ہے
عذاب جھیل چکا ہوں زمانے بھر کے سب
یہی ہے عشق تو پھر اتنی ھاو ھو کیوں ہے
جو شہرِ ذات کی پہنائیوں میں ڈوب چکا
اسے نشے کے لیے حاجتِ سبو کیوں ہے
جنوں کی آخری منزل پہ آخرش پہنچے
خلیل اب تمہیں احساسِ رنگ و بو کیوں ہے
محمد خلیل الرحمٰن
غزل
جب اس کی آنکھ سے ٹپکے کو تم نے سچ جانا
تو پھر بتائو تمہیں سچ کی جستجو کیوں ہے
فریب کھائے ہووں کے نقوشِ پا ہیں یہ
انھی پہ چلیے تو منزل کی آرزو کیوں ہے
عذاب جھیل چکا ہوں زمانے بھر کے سب
یہی ہے عشق تو پھر اتنی ھاو ھو کیوں ہے
جو شہرِ ذات کی پہنائیوں میں ڈوب چکا
اسے نشے کے لیے حاجتِ سبو کیوں ہے
جنوں کی آخری منزل پہ آخرش پہنچے
خلیل اب تمہیں احساسِ رنگ و بو کیوں ہے
محمد خلیل الرحمٰن