جب اساتزہ کا آنا ہی ٹھہرا تو ہماری اصلاح بھی ہو جائے

مغزل

محفلین
شکریہ بابا جانی ، -

اظہر بھیا، معذرت یوں لکھتے ہیں‌، ذ کے لیے شفٹ زیڈ کا بٹن ہے، ا لف پر پیش کے لیے شفٹ پی ، زیر کے لیے شفٹ ڈاٹ اور زبر کے شفٹ کامہ استعمال ہوتا ہے ،
وقوف کا استعمال کرنے کے کوشش کیجے تا کہ کم از کم نئے پڑھنے والوں کے آسانی ہو۔ ‌’’ تم سے ملنا تھا ، کیے پھر سے بہانے، آئے ‘‘ --والسلام
 
تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا ، تجھ کو دکھانے آئے

اک مدعو نامہ لئے دوستوں کی مجلس کا
بڑی امید سے ھم، تجھ کو بلانے آئے


جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، قصّّے سنانے آئے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی ، دوست پرانے آئے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے، تجھے دوست بنانے آئے


آستادِمحترم
اب ملاحظہ کیجیے اور اگر ممکن ہو تو از راہِ کرم شعر نمبر 2 کے مصارع کی تقطیع بھی کر دیجیے خاص مصرع تانی کی
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اک مدعو نامہ لئے دوستوں کی مجلس کا
بڑی امید سے ھم، تجھ کو بلانے آئے

پہلا مصرع تو بحر میں ہی نہیں، اس کی تقطیع؟
دوسرا مصرع
بڑی امّی۔۔ فاعلاتن
د سِ ہم تج۔۔ فعلاتن
کُ بلانے۔ فعلاتن
آئے۔۔ فعلن
 
تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا ، تجھ کو دکھانے آئے

ہم نکالیں گے رستہ بھی ملاقاتوں کا
اِسی امید پہ ھم، تجھ کو بلانے آئے


جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، قصّّے سنانے آئے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی ، دوست پرانے آئے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے، تجھے دوست بنانے آئے

آستادِ گرامی ،
شرمندہ ہوں بات دیر سے سمجھ آتی ہے، شاید اب ٹھیک ہو؟
یہ بھی فرمائے گا کہ اگر مقطع یوں ہو تو کیسا رہے گا؟
وقت تو ہے کہ گزرتا ہی نہیں ہے اظہر
وصل کے لمہے جنہیں گزرے زمانے آے

والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
ہم نکالیں گے رستہ بھی ملاقاتوں کا
اِسی امید پہ ھم، تجھ کو بلانے آئے
تو بحر میں نہیں ہے، پہلا مصرع یعنی، یوں بحر میں لایا جا سکتا ہے
ہم نکالیں گے کوئی رستہ ملاقاتوں کا
ہم نکالے۔ فاعلاتن
گِ کوئی رس۔ فعلاتن
تَ ملاقا۔ فعلاتن
تو کا۔۔ فعلن

مقطع جو اس بار لکھا ہے وہ بھی وزن میں ہے۔
 
جزاک اللہ خیر و العافیہ آستاد کریم

تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا ، تجھ کو دکھانے آئے

ہم نکالیں گے کوئی رستہ ملاقاتوں کا
اِسی امید پہ ھم، تجھ کو بلانے آئے

جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، قصّّے سنانے آئے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی ، دوست پرانے آئے

وقت تو ہے کہ گزرتا ہی نہیں ہے اظہر
وصل کے لمہے جنہیں گزرے زمانے آے
 
Top