جا و بیجا تعلیم کے نقصانات

نمرہ

محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم خوش رہا کرتے تھے مگر پھر ہمیں سکول میں جمع کرا دیا گیا۔

اس فیصلے کے دوررس نتائج برآمد ہوئے اور اس قدر کہ آج تک ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلا اور سب سے خطرناک دھچکا تو ہماری خوشی کو لگا اور اس ادا سے کہ وہ غریب آج تک اس صدمے سے سنبھل نہیں سکی۔ لاعلمی نعمت ہے کی سچائی ہماری سمجھ میں بہت دیر سے آئی اور خدا جانے نظام تعلیم کے ناخداؤں کی سمجھ میں کب آئے گی۔ لیکن ہم کہ الجھی پیچیدہ تحریریں لکھنے پر بہت کچھ برا سن چکے ہیں، اپنی کہانی کرانولوجکل آرڈر میں کہیں گے۔

سچ یہ ہے کہ اس جمع کرائے جانے کے بعد سکول، کالج اور یونیورسٹی کا زمانہ ہم نے اکثر تو صبح سویرے روتے دھوتے گزارا۔ خیر ہمارا وقت گزر جاتا تھا، کلاس میں اور ادبی پروگراموں میں کبھی کبھار جانے اور لوگوں اور چیزوں پر فقرے اور شعر کسنے سے ۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نے مارک ٹوئن کی ہدایت پر عمل کیا اور سکول یا کالج یا یونیورسٹی والوں کو اپنی تعلیم میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی۔ کچھ ہم نے سیکھا، کچھ لوگوں نے مگر زیادہ تر ہمیں اپنا گریجویٹ اور بیروزگار رہنا یاد ہے، اس دور کے اختتام پر۔ اس میں بھی اول تو ہمیں لوگ سرے سے ہی پوچھتے نہ تھے انٹرویو کو، اور پھر ہماری ایک دوست نے کہ جنھیں ہماری ہم سے زیادہ فکر تھی، ایک جگہ سفارش کی جس سے ہماری بیروزگاری تمت بالخیر تک پہنچی۔ خیر پر تو ہمیں شک ہی ہے کیونکہ بعد میں انھوں نے ہم سے بات چیت قطعی بند کر دی حالانکہ ہم وہاں اتنا برا کام بھی نہیں کرتے تھے، لیکن بھئی انسان تو نہ اس وقت ہماری سمجھ میں آتے تھے اور نہ اب آتے ہیں۔

اس دور میں لوگ ہماری انجینئری کو پھر بھی برداشت کر لیا کرتے تھے لیکن پھر ہمیں اٹھا کر پھینک دیا گیا ایک فینسی شمینسی یونیورسٹی میں۔ انھوں نے جب ہمیں واپس نکالا تو ایسا لڑھکایا کہ آج تک لڑھکتے پھرتے ہیں۔ اب لوگ کبھی کبھار بلا لیتے ہیں گفتگو کے لیے تو وہ بھی شاید اس شوق میں کہ اُدھر کی لڑکی کی شکل تو دیکھیں ذرا۔ ایک جگہ انٹرویو دینے پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہماری شاعری کی بدنامی وہاں ہم سے پہلے پہنچ چکی ہے۔ گمان ہے کہ اسی باعث ہمیں سبھاؤ سے انکار کر دیا گیا، اور وہ بھی چار مہینے بعد، اور وہ بھی ہمارے اگلوانے پر۔

اگلوانے کا بھی قصہ خوب ہے کہ ہمیں یہ تمیز ایک دم نہیں آئی بلکہ آہستہ آہستہ ہم نے نوکری کی درخواستوں کے جواب ڈی کوڈ کرنا سیکھے ہیں۔ ہمارے ہاں کی کمیونیکیشن کا سب سے اہم اصول تو یہ ہے کہ نہیں ایک برا لفظ ہے اور اتنا کہ اس سے زیادہ برا کچھ نہیں۔ ادھر ادھر سے سنا ہے کہ لوگ معاملات زندگی میں نہ کی بندوق استخارے کے کندھے پر رکھ کر چلایا کرتے ہیں۔ معاملات دفتر میں چونکہ اس کا ذکر نہیں کیا جا سکتا تو اس کا سیدھا سا نعم البدل ہے کہ حرف نفی، جواب میں ڈالنے کے بجائے اس کے وجود کے ساتھ جوڑ دیا جائے یعنی سرے سے جواب دینے سے انکار کر دیا جائے۔

شروع شروع میں تو ہم نہایت جزبز ہوئے کہ لوگ ہم سے بات کرتے کرتے غائب کیوں ہو جاتے ہیں اور ہماری ای میلوں کا جواب بھی نہیں دیتے اور اس حد تک کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ای میلیں نہیں بلکہ fraaandship ریکویسٹیں بھیج رہے ہیں۔ یوں بھی ہمارا خیال ہے کہ ہمارا کام درخواستیں کرنا نہیں بلکہ منظور کرنا ہے، کچھ یوں بھی کہ کم کام ہوتا ہے اس میں۔ لیکن پھر لوگ یونہی تو نہیں کہتے کہ ہمیں خوش فہمی اور صرف خوش فہمی میں کمال حاصل ہے ۔

مغرب میں ہزار کام سیدھے طریقے سے ہوتے ہوں گے مگر انھوں نے انکار کرنے کو ایک پیچیدہ آرٹ کے درجے تک پہنچا رکھا ہے۔ اُدھر کے گریجوئیٹ سکولوں اور اِدھر کی کمپنیوں میں یہی فرق ہے کہ اُدھر سے ہمیں اس قسم کے نامے وصول ہوتے ہیں :

عزیزی نمرہ

آپ کی درخواست موصول ہوئی اور عقیدت سے پلکیں جھکانے کے بعد پڑھی گئی۔ جی خوش ہوا اور آپ کا اسم گرامی دیکھ کربھلا کون کم ذوق خوش نہ ہو گا؟ نام کی نغمگیت تو ایسی ہے کہ پڑھ سن کر بہتی آبشاروں کا خیال آتا ہے اور دور دراز مندروں میں بجتی پراسرار گھنٹیوں کا۔ البتہ کام، یا ان کی مکمل عدم موجودگی، کی بات اور ہے۔ آپ اپنی زندگی کے پانچ سے لے کر آٹھ سال ہمیں دان کرنا چاہتی ہیں، کہاں ہم کہاں یہ مقام اللہ اللہ! ہماری کور نصیبی سے معاملہ کچھ یہاں آ اٹکا ہے کہ یہ رینکنگ ایجینسیاں بہت کم نمبر دیتی ہیں ہمارے گریجوئیٹ پروگرام کو۔ بچارے کا نام لسٹ میں بہت اوپر ٹانگ دیتے ہیں اور لوگ باگ اتنی تعداد میں درخواستیں بھیجا کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ! سیلاب آیا کرتا ہے ڈاک خانے میں سالانہ۔ یوں تو آپ سا امیدوار کون ہی ہے ہمارے ہاں، مگر ہیہات کہ اس اندھی لاٹری میں آپ کی باری نہیں آ سکی۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جہاں جلوہ افروز ہوں گی، وہاں سب کچھ جگمگا اٹھے گا، ماضی سے لے کر مستقبل تک۔ ہم آپ اور کائنات کے اس مشترکہ، درخشاں کل کے لیے دعاگو ہیں بلکہ مصلے پر بیٹھنے والے ہیں۔

محبتی
ایکس پروگرام کی وائے ایڈمن

اتنا تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سے اس قسم کا شاعرانہ رکھ رکھاؤ برداشت نہیں ہوتا اور اگر ہم اس کمیٹی میں شامل ہوتے تو لوگوں کو صرف ایک جلی نو یا ایک بڑا سا سرخ کاٹا بھیجا کرتے۔ بھیجنا یوں کہ جواب نہ دینا بالکل تہہ میں گری ہوئی حرکت ہے۔ البتہ اگر کچھ لکھنا ضروری ہی ہو تو یوں ہونا چاہیے ہمارے مطابق:

جو کچھ بھی

آپ کی درخواست ردی کی ٹوکری میں ہے اور درخواست کے ڈالر ہمارے اکاؤنٹ میں۔ جی تو چاہتا ہے کہ آپ کو ایک آئینہ بھیجا جائے تاکہ آپ اپنی صورت ملاحظہ کر سکیں اور تفصیل میں۔ ایک عدد پڑھنے کا چشمہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمارے ادارے کا نام پڑھ لیں، جس سے محبت کا آپ کو دعوی ہے۔ دعوی البتہ انتہائی لغو ہے کہ اگر سچ ہوتا تو آپ کا غبار بھی ہمارے کیمپس بلکہ سٹیٹ سے دور بیٹھتا۔ ہمارا نام اپنے کم علم قلم پر لانے سے قبل ان معاملات کی نزاکتوں کا احساس کرنا ضروری تھا، آخر ہمارا کوئی نام ہے اور کیا ہی نام ہے۔ آپ کو تو انٹرنیٹ پر ہماری عمارتوں کی تصویریں دیکھتے ہوئے بھی لحاظ آنا چاہیے۔

بیزار
ایکس پروگرام کی وائے ایڈمن

لیکن یہاں کپلنگ کو یاد کریں گے کہ بھئی بہت بعد ہے مشرق اور مغرب میں اور پھر ایسے سیدھے سادے نامے ہم کیوریوسٹی کو بھیجیں تو بھیجیں، زمین پر تو کسی کو نہیں لکھ سکتے۔ خیر اب ہم لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں یعنی اپنے انباکس کی ویرانی دیکھ کر فریق ثانی کا مدعا سمجھ جاتے ہیں۔ ہم میں ہنر کی شدید کمی اپنی جگہ مگر ایسی موشگافیاں اور نازک خیالیاں اگلے زمانے کے شعرا کو کہاں نصیب تھیں۔ حالانکہ ہم لوگوں سے اس انداز میں جواب مانگا کرتے ہیں کہ دے دیں تو ہم سمرقندوبخارا نچھاور کر دیں، جواب دیکھے بغیر ہی۔ حافظ کی طرح اپنی مرضی کا جواب تھوڑا ہی درکار ہے ہمیں۔ ہماری ساری بددماغی اپنی جگہ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خا را، یعنی بڑی کارپوریشنوں کو، پھر چاہے ان کے پاس دفتر کا دروازہ تک اپنا نہ ہو۔ ہماری اور ایک دوست کی انکار شدہ فہرست اس قدر طویل ہو گئی ہے کہ ہم اگر پرسنل ہونا شروع کریں تو ہر قسم کے ہارڈوئیر سافٹوئیر سے چھٹی ہو جائے۔ پھر سلیٹ ہاتھ میں لیے گھوما کریں اور گرد آلود انسائکلو پیڈئیے کھنگالا کریں۔

درویش کے قہر کی طرح اس کی جھنجھلاہٹ بھی اپنے آپ پر اترتی ہے۔ ہمیں اگر کہیں سے اپنی لوح نصیب کی جھلک دکھلا دی جائے اور اس پر پیشے کے ڈبے میں دائمی بیروزگار درج ہو تو ہم صبر کر لیں۔یوں بھی قسمت پر رونا دھونا بےکار لوگوں کا کام ہے اور ہم اس قدر بھی بےکار نہیں۔ ہمیشہ سے سمجھتے آئے ہیں کہ ہر تکلیف دہ امر کو یا تو تبدیل کیا جائے یا چپ چاپ اس پر صبر کیا جائے کہ جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں۔ شور سے ہمیں کوفت ہوتی ہے یوں بھی اور سٹیٹس کو کی تبدیلی میں بہت توانائی خرچ ہوتی ہے۔ یوں بھی خوشی کا تعلق جب اندر سے ہے تو اس کے لیے باہر کی ضرورت ہی کیا۔ ایپیک ٹیٹس غلامی میں خوش رہا کرتا تھا تو ہم تو پھر بھی ایک آزاد خاتون دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے برف پھانک کر خوش رہتے تھے، اب گرد پھانک کر خوش رہیں گے۔

لیکن مسئلہ سب کا سب یہی ہے کہ ہم اپنی قسمت کے لکھے کی جھلک نہیں دیکھ سکتے اور اس چکر میں مارے جاتے ہیں یعنی ادھر ادھر کے فون دیکھ کر گمان کرتے ہیں کہ کسی کو ہماری ضرورت ہے۔ پھر جب اس امید کا ڈراپ سین ہوتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ کہیں لفافے میں کچھ ڈال کر بھیج دیں یا سوشل میڈیا پر لوگوں سے بحث شروع کر دیں لایعنی یعنی شدید نارمل قسم کی۔ اگر ہم اپنے اندر سے ایک، صرف ایک سرکٹ نکلوا سکتے تو امید کی تاریں نکلوا دیتے۔ ہمارے سب مسائل دراصل اس کی وجہ سے ہیں ورنہ توقع اٹھنے کے بعد کون کس کا گلہ کرتا ہے۔

خیر بیروزگاری تو تعلیم کا ایک ضمنی اثر یا سائیڈ ایفیکٹ ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ہم سے خوش رہنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ ہم نہ تو کسی کے کہے کو چپ چاپ قبول کرتے ہیں اور نہ لکھے کو۔ کیا ہے اور کیوں ہے، کب سے ہے اور کب تک رہے گا اور پھر جس وجہ سے ہے وہ بھی کیوں ہے قسم کے سوال ہمارے بستے میں ہر وقت پڑے رہتے ہیں۔ ویسے یہ تھوڑا انجینئرنگ کا مسئلہ ہو تو ہو، ہمارے نظام تعلیم کا زیادہ نہیں۔ ہمیں کچھ خود سے ہی بات بے بات جرح کرنے اور ہر سلائی کے بخیے ادھیڑنے کی عادت ہے۔ ان فلسفوں کی بات اور مشکل ہے جن کے ہجے بھی کبھی کبھار بتانے پڑتے ہیں لوگوں کو جبکہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی انرجی کم ہوتی جاتی ہے۔ ہم تو کم عمری میں بھی دادی اماں ہوا کرتے تھے کاسموس کی اور اب تو لڑکے بالے باقاعدہ آنٹی کہتے ہیں ہمیں۔

ایک صحیح غلط کے پیچھے ہم بہت بھاگا کرتے ہیں اور وہ بھی بائنری نہیں بلکہ باقاعدہ گرے سکیل میں۔ ہم ان کی آرزو رکھیں تو الگ بات ہے ورنہ سیدھے سادے یک لفظی جواب ہمارے اپنے پاس اب کہاں رہ گئے ہیں کسی کے لیے۔ کبھی کبھار ان لوگوں کو شک کے بجائے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اپنی ہی رائے پر یقین رکھ سکتے ہیں، چاہے اسے ادھار لینے کے بعد ہی سہی۔ ہم سے کسی قسم کا سوال پوچھ کر دیکھ لیا جائے تو جواب میں اس کے آٹھ دس ممکنہ جواب بتاتے ہیں، ہر ایک کے ماخذ اور ٹھیک غلط ہونے کی پروببلٹی کے ساتھ۔ کوئی دن جاتا ہے کہ اپنے ہر بیان کے ساتھ ایک افزوں تر یا ہائر آرڈر سٹیٹسٹکس جوڑنا شروع کر دیں گے کہ بھئی ہم کہتے تو یہ ہیں مگر اس کے درست ہونے کی پرابیبلٹی کا گراف کچھ یوں ہے۔

ٹھیک ہے کہ ہماری بیٹری اب کم دیر چلتی ہے مگر اب کچھ کچھ باتیں تھوڑی بہت سمجھ میں آنے لگی ہیں ،کبھی کبھار۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو صبر آ جاتا ہے، خود اپنے آپ پر بھی اور دنیا پر بھی۔ ہم جیسے ہیں ویسے ہیں اور دنیا جیسی ہے ویسی ہے اور پھر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ جب ہم شروع سے ہی کہیں فٹ نہیں بیٹھتے اور نہ دنیا ہمیں کہیں فٹ بٹھاتی ہے تو اس میں جی برا کرنے کی کیا بات ہے۔ مس فٹ ہیں تو یوں ہی سہی اور پھر ہم کوئی ایکوئژن یا تھیورم یا الگوردم تھوڑا ہی ہیں کہ سمجھے جانے کی تمنا رکھیں دل میں۔ خود اپنی سمجھ میں یوں نہیں آتے کہ احمق ہیں تو احمقوں کو بھی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن ہم اپنی ڈائمینشنیلیٹی ریڈکشن فقط اس شوق میں نہیں کر سکتے کہ لوگ ہمیں آسانی سے ویژوئلائز کر سکیں۔

خوش رہنے کا معاملہ یہ ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اپنی خوشی کا بندوبست کرنا اس کی اپنی ذمہ داری ہے، دنیا کی نہیں اور پھر وہی سب سینیکا اور مارکس آریلئیس کے دلائل وغیرہ۔ جرح کرنے کی عادت کارآمد ہوتی ہے ہے مگر ہر جگہ نہیں اور لوگوں کی گرائمر اور منطق مرمت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے تعلقات کی خرابی کے۔ اپنے معاملات زندگی ہی اگر خود مرمت کر لیے جائیں تو بہت سے بڑھ کر کافی ہے، ایک انسان اور ایک زندگی کے لیے۔
 

سید ذیشان

محفلین
وش رہنے کا معاملہ یہ ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اپنی خوشی کا بندوبست کرنا اس کی اپنی ذمہ داری ہے، دنیا کی نہیں اور پھر وہی سب سینیکا اور مارکس آریلئیس کے دلائل وغیرہ۔ جرح کرنے کی عادت کارآمد ہوتی ہے ہے مگر ہر جگہ نہیں اور لوگوں کی گرائمر اور منطق مرمت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے تعلقات کی خرابی کے۔ اپنے معاملات زندگی ہی اگر خود مرمت کر لیے جائیں تو بہت سے بڑھ کر کافی ہے، ایک انسان اور ایک زندگی کے لیے۔

حاصلِ مضمون!
 

نکتہ ور

محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم خوش رہا کرتے تھے مگر پھر ہمیں سکول میں جمع کرا دیا گیا۔

آپ کی درخواست ردی کی ٹوکری میں ہے اور درخواست کے ڈالر ہمارے اکاؤنٹ میں۔

جی تو چاہتا ہے کہ آپ کو ایک آئینہ بھیجا جائے تاکہ آپ اپنی صورت ملاحظہ کر سکیں

سٹیٹس کو کی تبدیلی میں بہت توانائی خرچ ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا پر لوگوں سے بحث شروع کر دیں لایعنی یعنی شدید نارمل قسم کی۔

خیر بیروزگاری تو تعلیم کا ایک ضمنی اثر یا سائیڈ ایفیکٹ ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ہم سے خوش رہنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔
ہم نہ تو کسی کے کہے کو چپ چاپ قبول کرتے ہیں اور نہ لکھے کو۔ کیا ہے اور کیوں ہے، کب سے ہے اور کب تک رہے گا اور پھر جس وجہ سے ہے وہ بھی کیوں ہے قسم کے سوال ہمارے بستے میں ہر وقت پڑے رہتے ہیں۔ ویسے یہ تھوڑا انجینئرنگ کا مسئلہ ہو تو ہو، ہمارے نظام تعلیم کا زیادہ نہیں۔ ہمیں کچھ خود سے ہی بات بے بات جرح کرنے اور ہر سلائی کے بخیے ادھیڑنے کی عادت ہے۔ ان فلسفوں کی بات اور مشکل ہے جن کے ہجے بھی کبھی کبھار بتانے پڑتے ہیں لوگوں کو جبکہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی انرجی کم ہوتی جاتی ہے۔ ہم تو کم عمری میں بھی دادی اماں ہوا کرتے تھے کاسموس کی اور اب تو لڑکے بالے باقاعدہ آنٹی کہتے ہیں ہمیں۔

مس فٹ ہیں تو یوں ہی سہی اور پھر ہم کوئی ایکوئژن یا تھیورم یا الگوردم تھوڑا ہی ہیں کہ سمجھے جانے کی تمنا رکھیں دل میں۔
خود اپنی سمجھ میں یوں نہیں آتے کہ احمق ہیں تو احمقوں کو بھی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔

خوش رہنے کا معاملہ یہ ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اپنی خوشی کا بندوبست کرنا اس کی اپنی ذمہ داری ہے، دنیا کی نہیں اور پھر وہی سب سینیکا اور مارکس آریلئیس کے دلائل وغیرہ۔ جرح کرنے کی عادت کارآمد ہوتی ہے ہے مگر ہر جگہ نہیں اور لوگوں کی گرائمر اور منطق مرمت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے تعلقات کی خرابی کے۔ اپنے معاملات زندگی ہی اگر خود مرمت کر لیے جائیں تو بہت سے بڑھ کر کافی ہے، ایک انسان اور ایک زندگی کے لیے۔
 
Top