سعود عثمانی جانا انجانا ۔ سعود عثمانی

بعض پرانی نظمیں پرانے لباس کی طرح ہوجاتی ہیں .پہنا بھی نہیں جاسکتا اور دیرینہ محبت کو چھوڑا بھی نہیں جاسکتا.
آج ایک پرانی ڈائری میں سے یونی ورسٹی کے دور کی وہ نظم نکل آئی جو نہ میری کسی کتاب میں موجود ہے نہ شاید کسی رسالے میں چھپی ہے
.پتہ نہیں اب اس کا کیا بنے گا.ممکن ہے یہ کبھی منہ زور ہوکر خود کو چھپوانے پر مجبور کردے.ابھی تو اس کی محبت نے دل جکڑا ہے تو فیس بک کے دوستوں کی نذر ہے.
جانا انجانا
. ........
یہ جان رکھنا کہ زندگی کی ہر ایک ساعت رواں دواں ہے
یہ دھیان رکھنا
کہ چند لمحوں کی یہ رفاقت بس ایک چھوٹی سی داستاں ہے
یہ ختم ہوگی تو یوں لگے گا کہ جیسے دھندلا سا خواب کوئی
نظر کی حد پر سراب کوئی
ذرا یہ سوچو کہ حافظے کا کھلا سمندر
نہ جانے کتنے رفیق و ہمدم سمو چکا ہے
رفیق چہرے جو نام تک اپنے کھو چکے ہیں
وہ سارے ساتھی جو اب فراموش ہوچکے ہیں
بھلا ہی دینا اگر یونہی وقت کا عمل ہے
تو یہ اٹل ہے
کہ مدتوں بعد یوں بھی ہوگا
اگر سرِ راہ اتفاقاً کبھی جو ہم تم کہیں ملیں گے
تو اپنے دل میں یہی کہیں گے
کہ اِس کا چہرہ تو آشنا تھا
خبر نہیں اس کا نام کیا تھا
یہ شخص جانے کہاں ملا تھا
(سعود عثمانی )
 
بہت خوبصورت نظم۔
زندگی کی ایک تلخ حقیقت کو اجاگر کرتی۔
نجانے کتنے ہی پرانے دوست احباب یاد آ گئے، کہ جن سے ملے زمانہ گزر گیا۔
 
Top