الف عین
لائبریرین
۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کی سراسیمگی اور پریشانی کو دیکھ کر مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی میں جو یادگار اور تاریخ ساز تقریر فرمائی وہ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے اور اہلِ ہندوستان کے لئے نسخۂ کیمیاء ہے۔اِس تقریر کا متن، من و عن ذیل میں درج ہے:
’’عزیزانِ گرامی۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی زنجیر ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لئے شاہ جہاں کی اس یاد گار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں۔ میں نے اِس زمانہ میں بھی، کہ اِس پر لیل و نہار کی بہت سی گردِشیں بیت چکی تھیں، تمہیں خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دِلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔ آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیّٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہے اُس کے عہدِ شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و اِنکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صِراطِ مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘‘
سچ پوچھو تو اب میں ایک جمود ہوں یا ایک دُور افتادہ صدا جس نے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مقام میں نے پہلے دِن اپنے لئے چُن لیا تھا، وہاں میرے بال و پر کاٹ لئے گئے ہیں یا میرے آشیانے کے لئے جگہ نہیں رہی بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دامن کو تمہاری دست درازیوں سے گِلہ ہے۔ میرا احساس زخمی ہے اور میرے دِل کو صدمہ ہے۔ سوچو تو سہی تم نے کون سی راہ اختیار کی۔ کہاں پہنچے اور اب کہاں کھڑے ہو؟کیا یہ خوف کی زندگی نہیں اور کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آگیا۔ یہ خوف تم نے خود فراہم کیا ہے۔
ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیاتِ معنوی کے لئے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس کو چھوڑو۔ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہوا ہے نہایت تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں لیکن تم نے سُنی ان سُنی برابر کر دی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اُس کی رفتار تمہارے لئے اپنا ضابطہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ وقت کی رَفتار تھمی نہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ جن سہاروں پر تمہارا بھروسہ تھا وہ تمہیں لا وارِث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کر گئے ہیں،وہ تقدیر جو تمہاری دماغی لغت میں مشیت کی منشا سے مختلف مفہوم رکھتی ہے۔ یعنی تمہارے نزدیک فقدانِ ہمّت کا نام تقدیر ہے۔
انگریز کی بساط تمہاری خواہش کے بر خلاف اُلٹ دی گئی اور راہ نمائی کے وہ بت جو تم نے وضع کئے تھے، وہ بھی دغا دے گئے حالانکہ تم نے سمجھا تھا کہ یہ بساط ہمیشہ کے لئے بچھائی ہے اور اُن ہی بتوں کی پوجا میں تمہاری زندگی ہے۔ میں تمہارے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا اور تمہارے اضطراب میں مزید اِضافہ میری خواہش نہیں لیکن اگر کچھ دُور ماضی کی طرف پلٹ جاؤ تو تمہارے لئے بہت سی گرہیں کھُل سکتی ہیں۔ ایک وقت تھا، میں نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کا احساس دِلاتے ہوئے تمہیں پکارا تھا اور کہا تھا:
’’جو ہونے والا ہے اُس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔ ہندوستان کی تقدیر میں بھی سیاسی انقلاب لکھا جا چکا ہے اور اِس کی غلامانہ زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائے حُرِّیت سے کٹ کر گِرنے والی ہیں۔ اگر تم نے وقت کے پہلو بہ پہلو قدم اُٹھانے سے پہلو تہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا تو مستقبل کا مورِّخ لکھے گا کہ:
’’تمہارے گروہ نے جو سات کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا،ملک کی آزادی کے بارے میں وہ روَیّہ اختیار کیا جو صفحۂ ہستی سے محو ہو جانے والی قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان آزاد ہے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ وہ سامنے لال قلعہ کی دیوار پر آزاد ہندوستان کا جھنڈا اپنے پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے۔ یہ وہی جھنڈا ہے جس کی اُڑانوں سے حاکمانہ غرور کے دِل آزار قہقہے تمسخر کیا کرتے تھے۔‘‘
یہ ٹھیک ہے کہ وقت نے تمہاری خواہشوں کے مطابق انگڑائی نہیں لی، بلکہ اُس نے ایک قوم کے پیدائشی حق کے احترام میں کروٹ بدلی ہے اور یہی وہ انقلاب ہے جس کی ایک کروٹ نے تمہیں بہت حد تک خوف زدہ کر دیا ہے۔ تم خیال کرتے ہو کہ تم سے کوئی اچھی شے چھن گئی اور اُس کی جگہ بُری شے آ گئی۔ یہ واقعہ نہیں واہمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بُری شے چلی گئی اور اچھی شے آ گئی۔ ہاں تمہاری بے قراری اِس لئے ہے کہ تم نے اپنے تئیں اچھی شے کے لئے تیار نہیں کیا تھا اور بُری شے کو ہی نجاتِ مادِّی سمجھ رکھا تھا۔ میری مراد غیر ملکی غلامی سے ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے مدّتوں حاکمانہ طمع کا کھلونا بن کر زندگی بسر کی ہے۔ ایک دِن تھا جب تم کسی جنگ کے آغاز کی فکر میں تھے اور آج اِس جنگ کے انجام سے مضطرِب ہو۔ آخر تمہاری اِس عجلت پر کیا کہوں کہ اِدھر ابھی سفر کی جستجو ختم نہیں ہوئی اور اِدھر گمراہی کا خطرہ درپیش آگیا ہے۔
۔۔۔۔جاری
’’عزیزانِ گرامی۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی زنجیر ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لئے شاہ جہاں کی اس یاد گار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں۔ میں نے اِس زمانہ میں بھی، کہ اِس پر لیل و نہار کی بہت سی گردِشیں بیت چکی تھیں، تمہیں خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دِلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔ آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیّٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہے اُس کے عہدِ شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و اِنکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صِراطِ مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘‘
سچ پوچھو تو اب میں ایک جمود ہوں یا ایک دُور افتادہ صدا جس نے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مقام میں نے پہلے دِن اپنے لئے چُن لیا تھا، وہاں میرے بال و پر کاٹ لئے گئے ہیں یا میرے آشیانے کے لئے جگہ نہیں رہی بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دامن کو تمہاری دست درازیوں سے گِلہ ہے۔ میرا احساس زخمی ہے اور میرے دِل کو صدمہ ہے۔ سوچو تو سہی تم نے کون سی راہ اختیار کی۔ کہاں پہنچے اور اب کہاں کھڑے ہو؟کیا یہ خوف کی زندگی نہیں اور کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آگیا۔ یہ خوف تم نے خود فراہم کیا ہے۔
ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیاتِ معنوی کے لئے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس کو چھوڑو۔ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہوا ہے نہایت تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں لیکن تم نے سُنی ان سُنی برابر کر دی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اُس کی رفتار تمہارے لئے اپنا ضابطہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ وقت کی رَفتار تھمی نہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ جن سہاروں پر تمہارا بھروسہ تھا وہ تمہیں لا وارِث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کر گئے ہیں،وہ تقدیر جو تمہاری دماغی لغت میں مشیت کی منشا سے مختلف مفہوم رکھتی ہے۔ یعنی تمہارے نزدیک فقدانِ ہمّت کا نام تقدیر ہے۔
انگریز کی بساط تمہاری خواہش کے بر خلاف اُلٹ دی گئی اور راہ نمائی کے وہ بت جو تم نے وضع کئے تھے، وہ بھی دغا دے گئے حالانکہ تم نے سمجھا تھا کہ یہ بساط ہمیشہ کے لئے بچھائی ہے اور اُن ہی بتوں کی پوجا میں تمہاری زندگی ہے۔ میں تمہارے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا اور تمہارے اضطراب میں مزید اِضافہ میری خواہش نہیں لیکن اگر کچھ دُور ماضی کی طرف پلٹ جاؤ تو تمہارے لئے بہت سی گرہیں کھُل سکتی ہیں۔ ایک وقت تھا، میں نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کا احساس دِلاتے ہوئے تمہیں پکارا تھا اور کہا تھا:
’’جو ہونے والا ہے اُس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔ ہندوستان کی تقدیر میں بھی سیاسی انقلاب لکھا جا چکا ہے اور اِس کی غلامانہ زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائے حُرِّیت سے کٹ کر گِرنے والی ہیں۔ اگر تم نے وقت کے پہلو بہ پہلو قدم اُٹھانے سے پہلو تہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا تو مستقبل کا مورِّخ لکھے گا کہ:
’’تمہارے گروہ نے جو سات کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا،ملک کی آزادی کے بارے میں وہ روَیّہ اختیار کیا جو صفحۂ ہستی سے محو ہو جانے والی قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان آزاد ہے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ وہ سامنے لال قلعہ کی دیوار پر آزاد ہندوستان کا جھنڈا اپنے پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے۔ یہ وہی جھنڈا ہے جس کی اُڑانوں سے حاکمانہ غرور کے دِل آزار قہقہے تمسخر کیا کرتے تھے۔‘‘
یہ ٹھیک ہے کہ وقت نے تمہاری خواہشوں کے مطابق انگڑائی نہیں لی، بلکہ اُس نے ایک قوم کے پیدائشی حق کے احترام میں کروٹ بدلی ہے اور یہی وہ انقلاب ہے جس کی ایک کروٹ نے تمہیں بہت حد تک خوف زدہ کر دیا ہے۔ تم خیال کرتے ہو کہ تم سے کوئی اچھی شے چھن گئی اور اُس کی جگہ بُری شے آ گئی۔ یہ واقعہ نہیں واہمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بُری شے چلی گئی اور اچھی شے آ گئی۔ ہاں تمہاری بے قراری اِس لئے ہے کہ تم نے اپنے تئیں اچھی شے کے لئے تیار نہیں کیا تھا اور بُری شے کو ہی نجاتِ مادِّی سمجھ رکھا تھا۔ میری مراد غیر ملکی غلامی سے ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے مدّتوں حاکمانہ طمع کا کھلونا بن کر زندگی بسر کی ہے۔ ایک دِن تھا جب تم کسی جنگ کے آغاز کی فکر میں تھے اور آج اِس جنگ کے انجام سے مضطرِب ہو۔ آخر تمہاری اِس عجلت پر کیا کہوں کہ اِدھر ابھی سفر کی جستجو ختم نہیں ہوئی اور اِدھر گمراہی کا خطرہ درپیش آگیا ہے۔
۔۔۔۔جاری