جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا - پرویز اختر

فرخ منظور

لائبریرین
جب میں نے یہ کتاب کھولی تو یہی غزل میرے سامنے آئی اور اسکا ایک شعر تو جیسے میرے لئے ہی تھا کہ -
سوتا نہیں تھا میں توکبھی فرشِ سنگ پر
آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا

پوری غزل میں انسانی نفسیات اور انسانی رویوں کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی ہے - کہتے ہیں‌ کہ جو سامنے کی چیز ہو اس پر انسان توجہ نہیں دیتا یعنی جو بہت ظاہر ہوں - جسکی وجہ سے بہت ظاہری چیزیں مخفی ہو جاتی ہیں - پرویز یہی کرتا ہے کہ وہ آپ کو ان بہت ظاہری چیزوں کی طرف توجہ دلا کر انہیں مخفی ہونے سے بچاتا ہے - یہ وہی تجربات ہیں جو ہم روزانہ کرتے ہیں لیکن ان پر توجہ نہیں دیتے -
تھے سب ہی سوگوار پتا چل گیا مگر
کِس کِس کو دکھ ہوا تھا پتا ہی نہیں چلا

منصف نے بس سزائیں بتائیں، سبب نہیں
مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں چلا

ان باتوں کو شاید ہم اپنی گفتگو کا حصہ بھی بناتے ہیں لیکن کبھی ان کو شاعری میں ڈھالنے کا خیال شاید پرویز کے سوا کسی کو نہیں آیا اور یوں یہ بظاہر بے وقعت چیزیں بہت قیمتی اور گراں قدر لمحات بن گئے ہیں جسے آپ بار بار پڑھ کر جینا چاہتے ہیں - جیسے آپ اپنی ہی کوئی پرانی البم کھول کر اپنا ہی نظارہ کر رہے ہوں - اور بظاہر وہ کچھ سال پہلے عام سے لمحات اب آپ کو یادگار لگ رہے ہوں - پرویز کی شاعری ہمیں اپنے آپ کو دوبارہ کسی اور رخ سے دکھاتی ہے اور اپنے آپ کی دوبارہ دریافت کرواتی ہے - میرا ایک دوست کل یہ کتاب پڑھ کر آبدیدہ ہوگیا کیونکہ اسے بھی پرویز اختر کی یہ کتاب اپنی پرانی فوٹو البم لگ رہی تھی -
 
Top