کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ابوشامل

محفلین
باب ہشتم
اسلام اور ثقافت
چھٹی فصل میں ہم بتا چکے ہیں کہ اسلام کے پہلے رُکن کا پہلا جُز یہ ہے کہ بندگئ مطلق صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے اور لا الہ الا اللہ میں اسی مفہوم اور مقتضٰی کی شہادت ادا کی جاتی ہے ۔ اس رکن کا دوسرا جُز یہ ہے کہ اس بندگی کی تفصیل اور صحیح کیفیت جاننے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے ۔ "محمد رسول اللہ" کی شہادت میں اِسی امر کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔ اللہ کی بندگئ مطلب کی عملی صورت یہ ہے کہ صرف اللہ کی ذات کو اعتقاداً، عملاً اور قانوناً تسلیم کیا جائے ۔ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو بھی خدائی کا منصب حاصل ہے اور نہ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی شخص یہ تصور رکھ سکتا ہے کہ خدا کے سوا کسی مخلوق کی عبادت بھی کی جا سکتی ہے یا کسی کو حاکمیت کا مقام دیا جا سکتا ہے ۔ گزشتہ صفحات میں ہم یہ بات بھی واضح کر آئے ہیں کہ عبودیت، عقیدہ اور عبادات کا صحیح مفہوم و مدعا کیا ہے ۔ زیرِ بحث فصل میں ہم بتائیں گے کہ حاکمیت (Sovereignty) کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اس مفہوم کا ثقافت (Culture) کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟
شریعتِ الٰہی کا دائرۂ کار
اسلامی نظریہ کی رو سے اللہ کی حاکمیت کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ قانونی احکام صرف اللہ سے اخذ کیے جائیں، اور پھر انہیں احکام کی طرف فیصلوں کے لیے رجوع کیا جائے اور انہیں کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ اسلام میں خود "شریعت" کا مفہوم بھی محض قانونی احکام کے دائرے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ حکمرانی کے اصولی ضوابط، اُس کے نظام اور اُس کی مختلف تشکیلات تک بھی محدود نہیں ہے ۔ شریعت کا یہ محدود اور تنگ تصور اسلامی شریعت اور اسلامی نظریہ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ اسلام جس چیز کر شریعتِ الٰہی کہتا ہے وہ اُس پوری اسکیم پر حاوی ہے جو اللہ تعالٰی نے انسانی زندگی کی تنظیم کے لیے وضع فرمائی ہے ۔ فکر و نظر کے ضابطے بھی اس میں شامل ہیں اور اصولِ حکمرانی بھی، اصولِ اخلاق و تمدن بھی اس دائرے میں آئے ہیں اور قوانینِ معاملات اور ضوابط علم و فن بھی شریعتِ الٰہی انسانی فکر و نظر کے ہر زاویے کا احاطہ کرتی ہے ۔
ذاتِ الٰہی کے بارے میں انسان کا تصور ہو، یا کائنات کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر، مادی دنیا ہو جو انسان کے ادراک اور مشاہدے کی زد میں ہے ، یا ماورا الطبیعت حقائق، جو انسانی حواس و ادراک کی گرفت سے باہر ہیں، زندگی کا تکوینی دائرہ ہو یا تشریعی، انسان کی حقیقت و ماہیت کا سوال ہو یا اس کائنات میں خود انسان کی حیثیت کی بحث، شریعتِ اسلامی انسانی زندگی کے ان تمام گوشوں سے بحث کرتی ہے ۔ اسی طرح زندگی کے عملی شعبوں مثلاً سیاست و معاشرت اور اقتصاد و عدالت اور ان کے اساسی اصول و قواعد سے بھی شریعت اسلامی صَرف نظر نہیں کرتی، بلکہ چاہتی ہے کہ ان کے اندر بھی خدائے واحد کی عبودیت کاملہ کا سکہ رواں ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی عمل داری اُن قانونی احکام پر بھی قائم کرنا چاہتی ہے جو ان عملی شعبہ ہائے حیات کی تنظیم کرتے ہیں (یہ وہی چیز ہے ، جسے بالعموم آج کل "شریعت" کا نام دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ شریعت کا یہ تنگ اور محدود مفہوم اُس وسیع تر مفہوم کو ہرگز ادا نہیں کرتا جو اسلام میں اختیار کیا گیا ہے ۔) اخلاق اور معاملات کے ضابطوں میں یہ شریعت کار فرما ہوتی ہے ، اور اُن اقدار اور پیمانوں کے ذریعہ اس شریعت کا اظہار ہوتا ہے جو معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اور اشیاء اور اعمال کا وزن اور قیمت طے کرتے ہیں۔ علی ہٰذا القیاس یہ شریعت علم و فن کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہوتی ہے اور تمام فکری کاوشوں اور فنی سرگرمیوں میں اس کا ظہور ہوتا ہے ۔ ان میں بھی ہم اُسی اللہ کی رہنمائی کے محتاج ہیں جس طرح جدید اور محدود مفہوم کے قانونی احکام میں ہم ہدایت الٰہی کے حاجت مند ہیں۔
چنانچہ جہاں تک حکومت اور قانون کے باب میں حاکمیتِ الٰہی کو تسلیم کرنے کا سوال ہے وہ ہماری گزشتہ بحثوں میں واضح ہو چکی ہوگی۔ اسی طرح اخلاق و معاملات اور معاشرے کی اقدار اور رد و قبول کے پیمانوں کے اندر حاکمیتِ الٰہی کے نفاذ کی ضرورت بھی کسی نہ کسی حد تک امید ہے واضح ہو چکی ہوگی۔ اس لیے کہ معاشرے کے اندر جو قدریں پائی جاتی ہیں، رد و قبول کے جو پیمانے رائج ہوتے ہیں، اخلاق اور معاملات کے جو ضابطے جاری و ساری ہوتے ہیں وہ بلا واسطہ اُن تصورات سے ماخوذ ہوتے ہیں جو اُس معاشرے پر غالب ہوتے ہیں، اُن کے سوتے بھی اُسی سرچشمہ سے پھوٹتے ہیں جہاں سے ان تصورات کی تہ میں کار فرما عقیدہ ماخوذ ہوتا ہے ۔
لیکن جو بات عام لوگوں کے لیے تو کُجا خود اسلامی لٹریچر کے قارئین کرام کے لیے بھی باعث حیرت و استعجاب ہوگی وہ یہ ہے کہ فکری اور فنی میدانوں میں بھی اسلامی تصوّر اور ربانی ماخوذ و منبع کو ہی لازماً ہمارا مرجع اور راہنما ہونا چاہیے ۔
فن (آرٹ) کے موضوع پر ایک مستقل کتاب منصۂ ظہور پر آ چکی ہے جس میں اس موضوع پر اس نقطۂ نظر سے کلام کیا گیا ہے کہ تمام فنی کاوشیں در حقیقت انسان کے تصورات اور اس کے وجدان و انفعال کی تعبیر ہیں۔ اور انسان کے وجدان میں ہستی اور زندگی کی جو اور جیسی کچھ تصویر پائی جاتی ہے وہ اُس کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جنہیں اسلامی تصور نہ صرف کنٹرول کرتا ہے بلکہ ایک مومن و مسلم کے وجدان میں ان کی تخلیق بھی کرتا ہے ۔ کیونکہ اسلامی تصور کائنات، انسان کی ذات اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہوتا ہے اور ان تمام پہلوؤں کا ان کے خالق سے جو تعلق ہے اُس کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اس کا خصوصی موضوع ہے : انسان کی حقیقت اور اِس کائنات کے اندر اُس کی حیثیت، اس کا مقصدِ وجود، اس کا فرضِ منصبی، اور اس کی زندگی کی اقدارِ حقیقی !! یہ سب اسلامی تصور کے ضروری اجزا ہیں کیونکہ اسلامی تصور محض ایک فکری اور تجریدی ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ، فعال، اثر انگیز اور محرک حقیقت کا نام ہے جو ان تمام جذبات و تاثرات و پر تصرف کرتا ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔
الغرض فکر و فن کا مسئلہ اور فکر و فن کو اسلامی تصور اور ربانی منبع سے وابستہ کرنے کی بحث تاکہ اس پہلو میں بھی اللہ کی بندگئ کامل کا اظہار ہو ہم سے مفصل گفتگو کا تقاضا کرتی ہے ، اور جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا ہے عہد حاضر کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بلکہ خود ان مسلمانوں کے لیے بھی جو اللہ کی حاکمیت اور قانون سازی کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں یہ بحث نرالی اور اچھوتی بحث ہوگی۔
وہ علوم جن میں انسان وحی الٰہی کا پابند ہے
مسلمان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے معاملہ میں جس کا تعلق عقیدہ، ہستی کے عمومی تصور، عبادات، اخلاق و معاملات، اقدار و معیارات، سیاست و اجتماع، معیشت کے اصول و قواعد، انسانی سرگرمیوں کے محرکات کی توجیہ، یا انسانی تاریخ کی تعبیر سے ہو اللہ کے سوا کسی اور ماخذ و منبع سے رہنمائی اور روشنی حاصل کرے ۔ اسی طرح مسلمان اس امر کا بھی پابند ہے کہ وہ اس رہنمائی اور روشنی کے حصول کے لیے ایسے مسلمان کو ذریعہ بنائے جس کے دین و تقویٰ پر اُسے اعتماد ہو اور جس کے عقیدہ و عمل میں تضاد اور دو رنگی نہ ہو۔
 

ابوشامل

محفلین
وہ علوم جن میں انسان وحی الٰہی کا پابند نہیں ہے
البتہ مسلمان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ علوم مجروہ کو مسلمان اور غیر مسلم سبھی سے حاصل کر سکتا ہے مثلاً کیمیا (Chemistry)، طبعیات (Physics)، حیاتیات (Biology)، فلکیات (Astronomy)، طب (Medicine)، صنعت (Industry)، زراعت (Agriculture)، نظم و نسق (Administration) (صرف فنی پہلو کی حد تک)، ٹیکنالوجی، فنونِ حرب (فنی پہلو سے ) اور انہی جیسے دوسرے اور علوم و فنون، اگرچہ اصل الاصول یہ ہے کہ مسلم معاشرہ جب وجود پذیر ہو جائے تو وہ خود کوشش کرے کہ ان تمام میدانوں کے اندر یہ صلاحیت بافراط پیدا کرے ۔ اس لیے کہ یہ تمام علوم و فنون فرضِ کفایہ ہیں۔ ان کے اندر کچھ لوگوں کا خصوصی مہارت اور قابلیت پیدا کرنا ضروری ہے اور اگر یہ صلاحیتیں پیدا نہ کی جائیں گی اور ایسی فضا بھی مہیا نہ کی جائے گی جس میں یہ صلاحیتیں اُجاگر ہوں، پروان چڑھیں، رو بعمل ہوں اور مفید نتائج پیدا کریں تو پورا معاشرہ بحیثیت مجموعی گناہ گار ہوگا۔ لیکن جب تک یہ سب کچھ میسر نہ آئے مسلمان کو اجازت ہے کہ وہ یہ علوم و فنون اور ان کی عملی تشریحات مسلم اور غیر مسلم سبھی سے حاصل کر سکتا ہے ، اور مسلمور غیر مسلم دونوں کی کاوشوں اور تجربوں سے استفادہ کر سکتا ہے ، اور مسلم اور غیر مسلم کو بلا تفریق یہ خدمات سونپ سکتا ہے ،۔ یہ ان امور میں شامل ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : "انتم اعلم بامور دنیاکم" (تم اپنے دنیاوی امور کو زیادہ بہتر سمجھتے ہو)۔ ان کا تعلق ان امور سے نہیں ہے جو حیات و کائنات کے بارے میں مسلمان کے تصور سے تعلق رکھتے ہیں یا انسان اور انسان کے مقصدِ تخلیق اور انسان کی ذمہ داری کی حقیقت اور ارد گرد کی کائنات سے انسان کے تعلقات کی نوعیت اور خالقِ ہستی کے ساتھ اس کے تعلق سے بحث کرتے ہیں۔ ان کا تعلق ان اصول و ضوابط اور قوانین و شرائع سے بھی نہیں ہے جو فرد اور جماعت کی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں۔ اخلاق و آداب اور رسوم و روایات اور ان اقدار و معیارات سے بھی ان کا تعلق نہیں ہے جن کو معاشرے میں سیادت حاصل ہوتی ہے اور جو معاشرے میں اپنے نقش و نگار ابھارتے ہیں لہذا ان علوم کے حصول میں مسلمان کو یہ خطرہ نہیں ہے کہ اس کے عقیدہ میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے گی یا وہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گا۔
لیکن جہاں تک انسانی جدوجہد کی توجیہ کا تعلق ہے خواہ وہ جدوجہد انفرادی صورت میں ہو یا اجتماعی صورت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس جدوجہد کا تعلق براہ راست انسان کی ذات اور انسانی تاریخ کے نظریات سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جہاں تک کائنات کے آغاز، زندگی کی ابتداء اور خود انسان کی ابتداء کی تعبیر و توجیہ کا تعلق ہے تو چونکہ ان سب امور کا ماوراء الطبعیات (Metaphysics) سے ہے (اور کیمسٹری، فزکس، فلکیات اور طب وغیرہ سے اس کا تعلق نہیں ہے ) اس لیے ان کی وہی حیثیت ہے جو انسان کی زندگی اور انسانی تگ و دو کو منظم کرنے والے اصول و ضوابط اور قوانین و شرائع کی ہے ۔ ان کے رشتے بلا واسطہ عقیدہ و تصور سے ملتے ہیں۔ لہذا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان امور کو مسلمان کے سوا کسی اور سے حاصل کرے بلکہ یہ اُسے صرف اُسی مسلمان سے حاصل کرنے چاہئیں جس کے دین و تقویٰ پر اُسے کامل بھروسہ ہو، اور اُسے پختہ یقین ہو کہ وہ ان امور میں صرف اللہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔ اصل غرض یہ ہے کہ مسلمان کے احساس و شعور میں یہ حقیقت پوری طرح جاگزیں ہو جائے کہ ان تمام امور کا تعلق عقیدہ سے ہے ، اور وہ یہ اچھی طرح جان لے کہ ان امور میں وحی الٰہی سے روشنی اخذ کرنا اللہ کی بندگی کا لازمی تقاضا یا اس شہادت کا ناگزیر نتیجہ ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔
اس میں البتہ کوئی قباحت نہیں کہ ایک مسلمان ان امور میں جاہلی تحقیقات اور کاوشوں کے تمام نتائج و آثار کھنگال ڈالے ، لیکن اس نقطۂ نظر سے نہيں کہ وہ ان امور کے بارے میں ان سے اپنے لیے تصور و ادراک کا مواد حاصل کرے بلکہ صرف یہ جاننے کے لیے کہ جاہلیت نے کیا کیا انحراف کی راہیں اختیار کی ہیں اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ان انسانی گمراہیوں کو ختم کیوں کر کیا جا سکتا ہے ، اور کس طرح انسانی کج رویوں کو راست روی میں تبدیل کر کے انسان کو اسلامی تصور حیات اور اسلامی عقیدہ کے تحت صحیح اصولوں سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے ۔
انسانی علوم پر جاہلیت کے اثرات
فلسفہ، تاریخِ انسانی کی تعبیر، علم النفس (بہ استثنا ان مشاہدات اور اختلافی آراء کے جو تعبیر و توجیہ سے بحث نہیں کرتیں)، اخلاقیات، مذہبیات اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ، سماجی اور عمرانی علوم (مشاہدات، اعداد و شمار اور براہِ راست حاصل کردہ معلومات کو چھوڑ کر صرف ان نتائج کی حد تک،جو ان معلومات اور مشاہدات سے کشید کیے گئے ہیں اور وہ اساسی نظریات جو ان کی بنیاد پر مترتب ہوتے ہیں) ان تمام علوم کا مجموعی رُخ اور نصب العین قدیم اور جدید، ہر دور میں، اپنے جاہلی عقائد اور خرافات سے براہِ راست متاثر رہا ہے ، بلکہ جاہلی معتقدات و خرافات پر ہی اُن کی عمارت تعمیر ہوتی رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم میں سے بیشتر علوم اپنے بنیادی اصولوں میں مذہب سے متصادم ہیں اور مذہب کے تصور سے بالعموم اور اسلامی تصور سے بالخصوص کھُلی یا چھُپی عداوت رکھتے ہیں۔
انسانی فکر و علم کے یہ گوشے اُس اہمیت کے حامل نہیں ہیں جو کیمسٹری، فزکس، فلکیات، حیاتیات اور طب وغیرہ کو حاصل ہے ، بشرطیکہ مؤخر الذکر علوم صرف عملی تجربات اور عملی نتائج کی حد تک ہیں، اور اس حد کو پھاند کر فلسفیانہ تاویلات و توجیہات (خواہ کسی صورت میں ہوں) تک تجاوز نہ کریں۔ جیسا کہ مثلاً ڈارون ازم نے حیاتیات میں مشاہدات کے اثبات و ترتیب کا کام سر انجام دیتے دیتے اپنی جائز حدود پھلانگ کر بلا کسی دلیل وحجت کے بلکہ بلا کسی ضرورت کے ، محض جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نظریہ بھی پیش کر دیا کہ زندگی کے آغاز اور اُس کے ارتقاء کے لیے طبعی دنیا سے بالاتر کسی قوت کا وجود فرض کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
مسلمان کے پاس ان معاملات کے بارے میں اپنے پروردگار کی طرف سے ضروری اور اٹل معلومات پہنچ چکی ہیں، اور وہ اس درجہ اعلٰی و ارفع ہیں کہ ان کے مقابلے میں انسانی معلومات اور کاوش نہایت مضحکہ خیز اور ہیچ معلوم ہوتی ہے ، مگر اس کے باوجود انسان اس دائرے میں دخل اندازی کا مرتکب ہوتا ہے ، جس کا تعلق براہ راست عقیدہ اور بندگئ رب سے ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
وہ علوم جن میں انسان وحی الٰہی کا پابند نہیں ہے
البتہ مسلمان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ علوم مجروہ کو مسلمان اور غیر مسلم سبھی سے حاصل کر سکتا ہے مثلاً کیمیا (Chemistry)، طبعیات (Physics)، حیاتیات (Biology)، فلکیات (Astronomy)، طب (Medicine)، صنعت (Industry)، زراعت (Agriculture)، نظم و نسق (Administration) (صرف فنی پہلو کی حد تک)، ٹیکنالوجی، فنونِ حرب (فنی پہلو سے ) اور انہی جیسے دوسرے اور علوم و فنون، اگرچہ اصل الاصول یہ ہے کہ مسلم معاشرہ جب وجود پذیر ہو جائے تو وہ خود کوشش کرے کہ ان تمام میدانوں کے اندر یہ صلاحیت بافراط پیدا کرے ۔ اس لیے کہ یہ تمام علوم و فنون فرضِ کفایہ ہیں۔ ان کے اندر کچھ لوگوں کا خصوصی مہارت اور قابلیت پیدا کرنا ضروری ہے اور اگر یہ صلاحیتیں پیدا نہ کی جائیں گی اور ایسی فضا بھی مہیا نہ کی جائے گی جس میں یہ صلاحیتیں اُجاگر ہوں، پروان چڑھیں، رو بعمل ہوں اور مفید نتائج پیدا کریں تو پورا معاشرہ بحیثیت مجموعی گناہ گار ہوگا۔ لیکن جب تک یہ سب کچھ میسر نہ آئے مسلمان کو اجازت ہے کہ وہ یہ علوم و فنون اور ان کی عملی تشریحات مسلم اور غیر مسلم سبھی سے حاصل کر سکتا ہے ، اور مسلمور غیر مسلم دونوں کی کاوشوں اور تجربوں سے استفادہ کر سکتا ہے ، اور مسلم اور غیر مسلم کو بلا تفریق یہ خدمات سونپ سکتا ہے ،۔ یہ ان امور میں شامل ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : "انتم اعلم بامور دنیاکم" (تم اپنے دنیاوی امور کو زیادہ بہتر سمجھتے ہو)۔ ان کا تعلق ان امور سے نہیں ہے جو حیات و کائنات کے بارے میں مسلمان کے تصور سے تعلق رکھتے ہیں یا انسان اور انسان کے مقصدِ تخلیق اور انسان کی ذمہ داری کی حقیقت اور ارد گرد کی کائنات سے انسان کے تعلقات کی نوعیت اور خالقِ ہستی کے ساتھ اس کے تعلق سے بحث کرتے ہیں۔ ان کا تعلق ان اصول و ضوابط اور قوانین و شرائع سے بھی نہیں ہے جو فرد اور جماعت کی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں۔ اخلاق و آداب اور رسوم و روایات اور ان اقدار و معیارات سے بھی ان کا تعلق نہیں ہے جن کو معاشرے میں سیادت حاصل ہوتی ہے اور جو معاشرے میں اپنے نقش و نگار ابھارتے ہیں لہذا ان علوم کے حصول میں مسلمان کو یہ خطرہ نہیں ہے کہ اس کے عقیدہ میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے گی یا وہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گا۔
لیکن جہاں تک انسانی جدوجہد کی توجیہ کا تعلق ہے خواہ وہ جدوجہد انفرادی صورت میں ہو یا اجتماعی صورت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس جدوجہد کا تعلق براہ راست انسان کی ذات اور انسانی تاریخ کے نظریات سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جہاں تک کائنات کے آغاز، زندگی کی ابتداء اور خود انسان کی ابتداء کی تعبیر و توجیہ کا تعلق ہے تو چونکہ ان سب امور کا ماوراء الطبعیات (Metaphysics) سے ہے (اور کیمسٹری، فزکس، فلکیات اور طب وغیرہ سے اس کا تعلق نہیں ہے ) اس لیے ان کی وہی حیثیت ہے جو انسان کی زندگی اور انسانی تگ و دو کو منظم کرنے والے اصول و ضوابط اور قوانین و شرائع کی ہے ۔ ان کے رشتے بلا واسطہ عقیدہ و تصور سے ملتے ہیں۔ لہذا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان امور کو مسلمان کے سوا کسی اور سے حاصل کرے بلکہ یہ اُسے صرف اُسی مسلمان سے حاصل کرنے چاہئیں جس کے دین و تقویٰ پر اُسے کامل بھروسہ ہو، اور اُسے پختہ یقین ہو کہ وہ ان امور میں صرف اللہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔ اصل غرض یہ ہے کہ مسلمان کے احساس و شعور میں یہ حقیقت پوری طرح جاگزیں ہو جائے کہ ان تمام امور کا تعلق عقیدہ سے ہے ، اور وہ یہ اچھی طرح جان لے کہ ان امور میں وحی الٰہی سے روشنی اخذ کرنا اللہ کی بندگی کا لازمی تقاضا یا اس شہادت کا ناگزیر نتیجہ ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔
اس میں البتہ کوئی قباحت نہیں کہ ایک مسلمان ان امور میں جاہلی تحقیقات اور کاوشوں کے تمام نتائج و آثار کھنگال ڈالے ، لیکن اس نقطۂ نظر سے نہيں کہ وہ ان امور کے بارے میں ان سے اپنے لیے تصور و ادراک کا مواد حاصل کرے بلکہ صرف یہ جاننے کے لیے کہ جاہلیت نے کیا کیا انحراف کی راہیں اختیار کی ہیں اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ان انسانی گمراہیوں کو ختم کیوں کر کیا جا سکتا ہے ، اور کس طرح انسانی کج رویوں کو راست روی میں تبدیل کر کے انسان کو اسلامی تصور حیات اور اسلامی عقیدہ کے تحت صحیح اصولوں سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے ۔
انسانی علوم پر جاہلیت کے اثرات
فلسفہ، تاریخِ انسانی کی تعبیر، علم النفس (بہ استثنا ان مشاہدات اور اختلافی آراء کے جو تعبیر و توجیہ سے بحث نہیں کرتیں)، اخلاقیات، مذہبیات اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ، سماجی اور عمرانی علوم (مشاہدات، اعداد و شمار اور براہِ راست حاصل کردہ معلومات کو چھوڑ کر صرف ان نتائج کی حد تک،جو ان معلومات اور مشاہدات سے کشید کیے گئے ہیں اور وہ اساسی نظریات جو ان کی بنیاد پر مترتب ہوتے ہیں) ان تمام علوم کا مجموعی رُخ اور نصب العین قدیم اور جدید، ہر دور میں، اپنے جاہلی عقائد اور خرافات سے براہِ راست متاثر رہا ہے ، بلکہ جاہلی معتقدات و خرافات پر ہی اُن کی عمارت تعمیر ہوتی رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم میں سے بیشتر علوم اپنے بنیادی اصولوں میں مذہب سے متصادم ہیں اور مذہب کے تصور سے بالعموم اور اسلامی تصور سے بالخصوص کھُلی یا چھُپی عداوت رکھتے ہیں۔
انسانی فکر و علم کے یہ گوشے اُس اہمیت کے حامل نہیں ہیں جو کیمسٹری، فزکس، فلکیات، حیاتیات اور طب وغیرہ کو حاصل ہے ، بشرطیکہ مؤخر الذکر علوم صرف عملی تجربات اور عملی نتائج کی حد تک ہیں، اور اس حد کو پھاند کر فلسفیانہ تاویلات و توجیہات (خواہ کسی صورت میں ہوں) تک تجاوز نہ کریں۔ جیسا کہ مثلاً ڈارون ازم نے حیاتیات میں مشاہدات کے اثبات و ترتیب کا کام سر انجام دیتے دیتے اپنی جائز حدود پھلانگ کر بلا کسی دلیل وحجت کے بلکہ بلا کسی ضرورت کے ، محض جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نظریہ بھی پیش کر دیا کہ زندگی کے آغاز اور اُس کے ارتقاء کے لیے طبعی دنیا سے بالاتر کسی قوت کا وجود فرض کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
مسلمان کے پاس ان معاملات کے بارے میں اپنے پروردگار کی طرف سے ضروری اور اٹل معلومات پہنچ چکی ہیں، اور وہ اس درجہ اعلٰی و ارفع ہیں کہ ان کے مقابلے میں انسانی معلومات اور کاوش نہایت مضحکہ خیز اور ہیچ معلوم ہوتی ہے ، مگر اس کے باوجود انسان اس دائرے میں دخل اندازی کا مرتکب ہوتا ہے ، جس کا تعلق براہ راست عقیدہ اور بندگئ رب سے ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
ثقافت اور صیہونیت
یہ بات کہ ثقافت ایک انسانی میراث ہے ، یہ کسی مخصوص وطن سے مقیّد نہیں ہے ، نہ اس کی کوئی مخصوص قومیت ہے اور نہ اس کا کسی معیّن مذہب سے رشتہ ہے یہ بیان سائنسی اور فنی علوم اور ان کی علمی تشریح کی حد تک تو صحیح ہے ۔ بشرطیکہ ہم ان علوم کو دائرہ کار کو پھاند کر اس حد تک تجاوز نہ کر جائیں کہ ان علوم کے نتائج کی فلسفیانہ تعبیر (Metaphysical Interpretations) کرنے لگیں، اور انسان، اور انسان کی تگ و دو اور انسانی تاریخ کی فلسفیانہ تاویل میں پڑ جائیں۔ اور فن و ادب اور وجدانی تعبیر کے مظاہر تک کی فلسفیانہ توجیہ کر ڈالیں۔ لیکن ثقافت کے بارے میں یہ نظریہ جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے دراصل عالم یہودیت کی مختلف چالوں میں سے ایک چال ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ تمام حدود و قیود کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میں سر فہرست عقیدہ و مذہب کی حدود و قیود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پامال کر دیا جائے تاکہ یہودیت کا زہر تمام دنیا کے جسم میں جب وہ بے حس، خمار آلود اور نیم جاں ہو چکی ہو، با آسانی سرایت کر جائے اور پھر یہودیوں کو دنیا کے اندر اپنی شیطانی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ ان سرگرمیوں میں سرِفہرست سودی کاروبار ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ تمام انسانیت کے خون و پسینہ کا حاصل ان یہودی اداروں کے قبضہ میں چلا جائے جو سُود کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔
اسلام کے نزدیک ان تمام سائنسی اور فنی علوم اور ان کے عملی تجربات کے پس منظر میں دو قسم کی ثقافتیں کارفرما ہیں۔ ایک اسلامی ثقافت جو اسلام کے نظریۂ حیات پر قائم ہے اور دوسری جاہلی ثقافت جو بظاہر مختلف النوع مناہج پر قائم ہے مگر درحقیقت ان سب کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے ، اور وہ ہے فکر انسانی کو الٰہ کا مقام دینے کا داعیہ اور ادعا، تاکہ اُس کی صحت و عدم صحت کو پرکھنے کے لیے اللہ کو مرجع نہ قرار دیا جائے ۔ اسلامی ثقافت انسان کی تمام فکری اور عملی سرگرمیوں کو محیط ہے ، اور اُس کا دامن ایسے اصول و قواعد اور مناہج و خصائص سے مالا مال ہے جو نہ صرف ان سرگرمیوں کی مزید نشوونما کی ضمانت دیتے ہیں بلکہ ان کو حیاتِ ابدی اور حُسن بھی عطا کرتے ہیں۔
یورپ کے تجرباتی علوم اسلامی دور کی پیداوار ہیں
اس حقیقت سے کسی کو بے خبر نہ رہنا چاہیے کہ تجرباتی علوم (Empirical Sciences) جو عہدِ حاضر میں یورپ کی صنعتی تہذیب کی روح رواں ہیں، ان کی جنم بھومی یورپ نہیں ہے بلکہ اندلس اور مشرق کے مسلم ممالک کی اسلامی یونیورسٹیاں ہیں۔ ان علوم کے بنیادی اصول اسلام کی اُن تعلیمات اور ہدایات سے اخذ کیے گئے تھے جن میں کائنات اور اس کی فطرت اور اُس کے سینے میں مدفون طرح طرح کے ذخائر وخزائن کی جانب واضح اشارے موجود ہیں۔ بعد میں اسی نہج پر یورپ کے اندر ایک مستقل علمی تحریک برپا ہوئی، اور کشاں کشاں وہ ترقی اور تکمیل کے مراحل طے کرتی رہی۔ اس عرصہ میں عالم اسلام کا یہ حال ہوگیا کہ وہ اسلام سے دور ہوتا چلا گیا۔ جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں یہ علمی تحریک پہلے جمود اور سہل انگاری کا شکار ہوئی اور پھر بتدریج ختم ہو گئی۔ اس کے خاتمہ میں متعدد عوامل کو دخل تھا۔کچھ عوامل اس وقت کے اسلامی معاشرے کی داخلی ساخت میں مضمر تھے ۔ اور بعض کا تعلق اُن لگاتار حملوں سے تھا جو صلیبی اور صیہونی دنیا کی طرف سے اسلامی دنیا پر اس عرصے میں کیے گئے ۔ یورپ نے اسلامی دنیاسے تجرباتی علوم کا جو طریقِ کار اخذ کیا تھا اس کا رشتہ اس نے اس کی اسلامی بنیادوں اور اسلامی معتقدات سے کاٹ دیا۔ اور بالآخر جب یورپ نے چرچ سے ، جو خدائی بادشاہت (Heavenly Kingdom) کی آڑ لے کر انسانوں پر مظالم توڑ رہا تھا، قطعِ تعلق کیا تو اِسی افراتفری کے دوران میں اُس نے تجرباتی علوم کے اسلامی طریقِ کار کو بھی اللہ کی ہدایت سے محروم کر دیا ۔ یوں یورپ کا فکری سرمایہ مجموعی طور پر ہر دور اور ہر جگہ کے لیے جاہلی فکر کی طرح ایک بالکل ہی نئی چیز بن کر رہ گیا جو اپنی فطرت و بنیاد میں اسلامی تصور سے نہ صرف اجنبی تھا بلکہ اسلامی تصور کے بالکل متضاد بھی تھا، اور اس سے سربسر متصادم تھا۔ بنا بریں ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ صرف اسلامی تصور زندگی کے اصول و قواعد کو اپنا مرجع ٹھیرائے اور صرف تعلیمات خداوندی ہی سے نورِ بصیرت حاصل کرے ۔ اگر وہ ان تعلیمات کو براہِ راست اخذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو فبہا ورنہ اگر اسے یہ قدرت حاصل نہ ہو تو کسی ایسے خدا پرست مسلمان سے انہیں حاصل کرے جس کے دین و تقویٰ پر اُسے بھروسہ ہو اور جسے وہ پورے قلبی اطمینان کے ساتھ اپنا ذریعہ علم بنا سکتا ہو۔
علم اور ذریعۂ علم میں انفصال درست نہیں ہے
یہ نظریہ کہ علم الگ چیز ہے اور ذریعۂ علم الگ، اسلام اس نظریہ کو ان علوم کے بارے میں تسلیم نہیں کرتا جن کا تعلق عقیدہ کی ان تفصیلات سے ہے جو ہستی و زندگی، اخلاق و اقدار، عادات و رسوم اور انسانی نفس اور انسانی جدوجہد سے متعلق گوشوں کے بارے میں انسان کے نقطۂ نظر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ بے شبہ اسلام اس حد تک تو رواداری برتتا ہے کہ ایک مسلمان کسی غیر مسلم کو یا ناخداترس مسلمان کو کیمسٹری، فزکس، فلکیات، طب، صنعت و زراعت، ایڈمنسٹریشن اور ایسے ہی دوسرے فنون میں اپنا ماخذ علم بنائے ، اور وہ بھی ان حالات میں جب کہ کوئی ایسا خدا پرست مسلمان نہ مل رہا ہو جو ان فنون کی تعلیم دے سکے ۔۔۔۔۔۔۔ بعینہٖ یہی صورت آج ان لوگوں کو درپیش ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ یہ مسلمان اپنے دین اور اپنے طریقِ حیات سے دور ہو چکے ہیں، اور اسلام کے اس تصور کو فراموش کر چکے ہیں جو اُس نے خلافت الٰہی کے مقتضیات کو سرانجام دینے اور ان علوم و تجربات اور مختلف النوع صلاحیتوں کے بارے میں پیش کیا ہے جو امورِ خلافت کو منشائے الٰہی کے تحت سر انجام دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔ بہرحال علوم مجروہ کی حد تک اسلام مسلمان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی غیر مسلم کو اپنا ذریعہ بنا لے ، مگر وہ اس کو اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے عقیدہ کے اصول، اپنے تصور حیات کی اساسات، قرآن کی تفسیر، حدیث اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح، تاریخ کا فلسفہ، حرکت کی فلسفیانہ تعبیر، اپنے معاشرے کی عادات و اطوار، اپنی حکومت کا نظام، اپنی سیاست کا ڈھنگ، اپنے ادب و فن کے محرکات بھی غیر اسلامی مآخذ سے حاصل کرے یا کسی ایسے مسلمان کو ان کا ذریعہ بنائے جس کا دین ناقابل اعتماد ہو اور جو تقویٰ اور خدا خوفی سے عاری ہو۔
یہ بات آپ سے وہ شخص کر رہا ہے جس نے پورے چالیس سال کتب بینی میں گزارے ہیں اور اس پورے عرصے میں اُس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسانی علم و تحقیق نے مختلف گوشوں میں جو نتائج مہیا کیے ہیں اُن کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے ۔ علم و تحقیق کے کچھ شعبے وہ تھے جن میں تخصص (Specialise) کر رہا تھا اور کچھ گوشوں میں اُس نے طبعی میلان اور فطری رغبت کے تحت خاک چھانی۔ اس سرمایۂ علم و آگہی کے انبار کو لے کر جب اُس نے اپنے اصل عقیدہ اور تصور کے سرچشموں کی طرف رجوع کیا اور اُن کا مطالبہ کیا تو اُسے معلوم ہوا کہ جو کچھ اُس نے آج تک پڑھا ہے وہ اِن اتھاہ خزانوں کے مقابلے میں نہایت حقیر اور ہیچ میرز ہے (بلکہ اسے حقیر اور ہیچ میرز ہونا ہی چاہیے ) وہ اس بات پر نادم نہیں ہے کہ اُس نے اپنی زندگی کے چالیس سال کن چیزوں میں گزارے ۔ کیوں کہ اس مدت میں اس نے جاہلیّت کے پوست کندہ حالات معلوم کرلیے ہیں، اُس نے جاہلیّت کی گمراہیوں کو بچشمِ سر دیکھا ہے ، جاہلیّت کی بے مائیگی کا مشاہدہ کیا ہے ۔جاہلیّت کی پستی کا اندازہ کیا اور اُس کے کھوکھلے ہنگاموں اور مصنوعی ہنگامۂ ہاؤ ہوکو دیکھا ہے ، اُس کے غرور و استکبار اور دعووں کو خوب پرکھا ہے ۔ اور اُسے یقین ہوگیا کہ ایک مسلمان علم کے ان دونوں(متضاد) ذریعوں (ذریعہ الہیٰ اور ذریعہ جاہلیت) سے بیک وقت مستفید نہیں ہوسکتا۔
بایں ہمہ یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے کیونکہ معاملہ اس سے کہیں بالا ہے کہ اس میں کسی شخص کی ذاتی رائے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے ، میزان الہیٰ میں اس معاملے کا جو وزن ہے اُس کے مقابلے میں کسی مسلمان کی رائے پر اعتماد یا عدم اعتماد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو اللہ اور اس کے رسول کا فرمان ہے ، اور اسی فرمان کو ہم اس معاملے میں حکم ٹھیراتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اس معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف اُسی طرح رجوع کرتے ہیں جیسا کہ اہلِ ایمان کا شیوہ ہونا چاہیئے کہ وہ باہمی اختلافات کے فیصلہ کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں، خاتمہ المسلمین کے بارے میں یہود اور نصاریٰ جو شر انگیز عزائم رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا ہے :
وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَہلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِہم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہمُ الْحَقُّ فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّی يَأْتِيَ اللّہ بِأَمْرِہ إِنَّ اللّہ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (بقرہ: 109(
اہلِ کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کُفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اپنے نفس کے حَسد کی بنا پر۔ اس کے بعد کہ ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے ، پس تم عفو و در گزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافد کردے ۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے ۔
وَلَن تَرْضَی عَنكَ الْيَہودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہمْ قُلْ إِنَّ ہدَی اللّہ ہوَ الْہدَی وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہوَاءہم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّہ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ (بقرہ: 120)
یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے ۔ اور اگر تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے ان(یہود و نصاری) کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدگار تمہارے لیے نہیں ہے ۔
يَا أَيُّہا الَّذِينَ آمَنُوَاْ إِن تُطِيعُواْ فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ (آل عمران: 100)
اے ایمان والو! اگر تم نے ان اہلِ کتاب میں سے کسی گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں پھر کفر کی طرف پھیرلے جائیں گے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک جسے حافظ ابو لعیلی نے بروایت حماد اور شعبی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ، قرآن کے بیانات کی مزید تشریح کرتا ہے ، آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تسئا لوا اھل الکتاب عن شئ فانہم لن یھدوکم وقد ضلّوا ، و انکم اما ان تصدقو بباطل، و اما ان تکذبوا بحق، و انہ وا اللہ لو کان موسی حیّاً بین اظھرکم ما حل لہ الا ان یتبعنی
اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں دریافت نہ کرو یہ تمہیں سیدھی راہ نہیں بتائیں گے ، یہ تو خود راہ گم کردہ ہیں۔ اگر ان کی بات پر گئے تو یا تو تم کسی باطل کی تصدیق یا کسی صحیح بات کی تکذیب کردو گے ۔ خدا کی قسم اگر موسیٰ بھی تمہارے درمیان زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی میرے اتباع کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کرنا جائز نہ ہوتا۔
جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بارے میں یہود و نصاری کا یہ خطرناک عزم قطعی اور واضح شکل میں بیان فرما دیا ہے تو اس کے بعد یہ انتہائی بلادت اور کم نظری کی بات ہوگی کہ لمحہ بھر کے لیے یہ خوش فہمی رکھی جائے کہ یہود و نصاریٰ اسلامی عقائد یا اسلامی تاریخ کے بارے میں جو بحث کرتے ہیں یا وہ مسلم معاشرے کے نظام ، یا مسلم سیاست یا مسلم معیشت کے بارے میں جو تجویز پیش کرتے ہیں وہ کسی نیک نیتّی پر مبنی ہوسکتی ہیں، یا ان سے مسلمانوں کی بہبود ان کے مدِّنظر ہوتی ہے ، یا وہ فی الواقع ہدایت اور روشنی کے طالب ہیں، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے واضح اعلان اور قطعی فیصلے کے بعد بھی ان کے بارے میں یہ حُسن ظن رکھتے ہیں اُن کی عقل و دانش ماتم کے قابل ہے ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ " قل ان ھدی اللہ ھو الھدی" (کہہ دیجیے کہ اللہ ہی کی ہدایت اصل ہدایت ہے )۔ اس ارشاد نے یہ بات بھی معیّن کردی کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہی وہ واحد مرجع و ماخذ ہے جس کی طرف مسلمان کو اپنے سارے معاملات میں رجوع کرتا چاہیے ۔ ہدایت الہیٰ سے اعراض کے بعد سوائے گمراہی اور بے راہ روی کے اور کچھ نہ حاصل ہوگا۔ بلکہ اللہ کے سوا کوئی اور ایسا منبع سرے سے موجود ہی نہیں ہے جس سے ہدایت اور روشنی حاصل ہوسکتی ہو، مذکورہ بالا آیت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی دراصل سچّی ہدایت ہے تو اس صیغۂ حصر سے بیان ہی یہ ثابت کرنا ہے کہ وحی الہیٰ کے بعد جو کچھ ہے ضلالی دزیغ، گمراہی ٹیڑھ اور بدبختی ہی ہے ۔ آیت کا یہ مفہوم و مدّعا اس قدر واضح ہے کہ اس میں کسی شک اور تاویل کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
قرآن میں یہ قطعی حکم بھی وارد ہے کہ اس شخص سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے ، جو اللہ کے ذکر سے رُو گردانی کرتا ہے اور صرف دنیا طلبی ہی اُس کا مطمح نظر اور مدار جستجو ہے ۔ قرآن نے ایسے آدمی کے بارے میں یہ وضاحت بھی کردی کہ و ہ صرف ظن و تخمین کا پجاری ہے اور علم و یقین کی اُسے ہوا تک نہیں لگی ہے ۔ قرآن مسلمان کو ظن و تخمین کی پیروی سے منع کرتا ہے ، اور جس شخص کی نگاہ حیاتِ دنیا کی ظاہری چمک دمک پر ہی اٹک کر رہ گئی ہو قرآن کے نزدیک وہ جو ہر علم اور صحتِ نظر دونوں سے محروم ہوتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّی عَن ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلاَ الْحَيَاۃ الدُّنْيَا • ذَلِكَ مَبْلَغُہم مِّنَ الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّكَ ہوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِہ وَہوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اہتَدَی ( النجم : 29۔30)
جس شخص نے ہماری یاد سے منہ موڑ رکھا ہے اور وہ دنیا کی زندگی کے سوا کوئی اور خواہش نہیں رکھتا تو اُس پر دھیان نہ کر۔ ان کے علم کی انتہا صرف یہاں تک ہی ہے ۔ تیرا پروردگار خوب جانتا ہے اُس شخص کو جو اللہ کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور اُس شخص کو جو راہِ راست پر چلا۔
يَعْلَمُونَ ظَاہرًا مِّنَ الْحَيَاۃ الدُّنْيَا وَہمْ عَنِ الْآخِرَۃ ہمْ غَافِلُونَ (روم : 7)
وہ صرف دنیا کی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔
یہ سطح بین ، ظاہر پرست اور علم حقیقی سے بے خبر وہی شخص ہوسکتا ہے جو اللہ کے ذکر سے غافل ، اور صرف ناپائیدار حیاتِ دنیا کا طلب گار ہو، عہدِ حاضر کے تمام سائنس دان اور ماہرین فن کا یہی حال ہے ۔ یہ لوگ جس علم کے علمبردار ہیں یہ وہ علم نہیں ہے جس کے بارے میں ایک مسلمان اس کے حامل پر یکسوئی سے اعتماد کر سکتاہو، اور بے چون و چرا اُس سے اخذ و استفادہ کرتا چلا جائے ۔ بلکہ اس علم معاملے میں مسلمان صرف اس قدر مجاز ہے کہ خالص علمی حد تک اُس سے استفادہ کرے ۔ لیکن اُسے زندگی کے بارے میں اور نفس انسانی اور اس کے تصوّراتی متعلقات کے بارے میں اُس کی پیش کردہ تعبیر و توجیہ پر دھیان نہ دینا چاہیئے ۔ یہ وہ علم بھی نہیں ہے جس کی قرآن نے تعریف و توصیف کی ہے ۔ ارشاد ہوتاہے کہ :
"ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون" ( کیا اہل علم اور علم سے خالی لوگ برابر ہوسکتے ہیں)۔ جو لوگ ایسی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے بے محل ان سے استدلال کرتے ہیں وہ یکسر غلطی پر ہیں ۔ علم کے بارے میں یہ فیصلہ کن اور خطِ امتیاز قائم کرنے والا بیان جس آیت میں وارد ہوا ہے وہ آیت یہ ہے :
أَمَّنْ ہوَ قَانِتٌ آنَاء اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَۃ وَيَرْجُو رَحْمَۃ رَبِّہ قُلْ ہلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (زمر : 9)
کیا وہ جو اللہ کی بندگی کرتا ہے رات کے اوقاتِ سجود و قیام میں ، اور آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امّید رکھتا ہے بتادیں کہ کیا برابر ہیں وہ لوگ جو سمجھ رکھتے ہیں اور وہ جو بے سمجھ ہیں ۔ بے شک عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔
یہ بندۂ حق جو رات کی تنہائیو ں میں خدا کے آگے سر افگندہ ہوتا ہے ، قیام و سجود میں اپنے خالق سے محوِ سرگوشی و مناجات ہوتا ہے ،آ خرت کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتا ہے ۔ اپنے رب سے رحمت کی اُمید سے قلب و نظر کو فروزاں رکھتا ہے ، یہی و ہ خوش بخت انسان ہے جو صیحح معنوں میں دولتِ علم سے بہرہ یاب ہے اور یہی وہ علم ہے جس کی طرف آیت بالا نے اشارہ کیا ہے ۔ یعنی ایسا علم جو اللہ کی طرف انسان کی رہنمائی کرتا ہے ، تقویٰ اور راستبازی کی نعمت سے اُسے ہمکنار کرتا ہے ۔ یہ وہ علم نہیں جو انسانی فطرت کو مسخ کردیتا ہے اور اُسے الحاد اور انکارِ خدا کی راہِ کج پر ڈال دیتا ہے ۔
علم کا دائرہ صرف عقائد، دینی فرائض و واجبات اور احکام و شرائع کے علم تک ہی محدود نہیں ہے ، علم کا دائرہ نہایت وسیع ہے ۔ اس کا تعلق جتنا عقائد و فرائض اور شرائع سے ہے اتنا ہی قوانینِ فطرت اور خلافتِ الٰہی کی مصلحت و مفاد کے تحت ان قوانین کی تسخیر سے بھی ہے ۔ البتّہ جس علم کی بنیاد ایمان پر نہیں ہوتی وہ اُس علم کی تعریف سے خارج ہے جس کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے اور جس کے حاملین کی وہ مدح و ستائش کرتاہے ، اساس ایمان کے درمیان اور اُن تمام علوم کے درمیان جن کا تعلق نوامیس کا ئنات اور قوانین فطرت سے ہے ۔(مثلاً فلکیات، حیاتیات، طبیعات ، کیمیا اور طبقات الارض ) ایک مضبوط رشتہ پایا جاتاہے ۔ یہ سارے کے سارے وہ علوم ہیں جو اللہ کی ہستی کا کُھلا کُھلا ثبوت پیش کرتے ہیں بشرطیکہ بھٹکی ہوئی انسانی خواہشات کے تصرف میں نہ آجائیں اور انہیں اللہ کے تصّور سے عاری نہ کردیں، جیسا کہ فی الواقع یورپ میں علمی ترقی کے دور میں یہ افسوس ناک صورتِ حال پیش آ چکی ہے ۔ دراصل یورپ کی تاریخ میں ایک ایسا دور آیا جب علماء اور ظالم و جفا کار چرچ کے درمیان انتہائی تکلیف دو اور نفرت آگیں اختلافات پیدا ہوگئے ، جن کے نتیجے میں یورپ کی تمام تر علمی تحریک خدابیزاری کی راہ پر چل پڑی۔ اس تحریک نے یورپ میں زندگی کے ہر پہلو پر اپنے دُور رَس اثرات ڈالے ، بلکہ یورپ کے پُورے نظام فکر کا مزاج ہی بدل کررکھ دیا، ان زہر آگیں اثرات کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف چرچ اور چرچ کے نظریات و معتقدات کے خلاف ہی آتش غیظ و عداوت نہ بھڑ کی ، بلکہ مجموعی طور پر خود مذہب کا تصّور بھی نفرت و عناد کی لپیٹ میں آگیا یہاں تک کہ یورپ نے علم و دانش کے تمام میدانوں میں جو کچھ فکری سرمایہ مہیا کیا وہ سارے کا سارا مذہب کی عداوت سے لبریز ہوگیا۔ خواہ وہ ماوراء الطبیعی فلسفہ ہو یامجرّد علمی اور فنّی تحقیقات ہوں جن کا بظاہر دین سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
یہ تو آپ نے جان لیا کہ مغرب کا اندازِ فکر اور پھر علم کے ہر میدان میں اس کی فکر کا تمام تر سرمایہ آغاز کا ر ہی میں جس اساس و بنیاد پراستوار ہوا ہے اُس کی تہہ میں مسموم اثرات کار فرما تھے جو مذہب کی عداوت اور مذہت بیزاری کے پیدا کردہ تھے ۔ اس کے بعد یہ جان لینا دشوار نہیں رہتا کہ مغرب کا فکری سرمایہ اور اس کے انداز میں بحیثیتِ مجموعی اسلام کے خلاف شدید عداوت و نفرت کے جذبات کیوں پائے جاتے ہیں ۔ اسلام کے خلاف اس نفرت کا مظاہرہ خاص طور پر دیدۂ دانستہ کیا جاتا ہے ، اور اکثر حالات میں سوچی سمجھی ہوئی اسکیم کے تحت بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ اولاً اسلامی عقائد و تصوّرات کی پاکیزہ عمارت کو متزلزل کیا جائے اور پھر رفتہ رفتہ اُن اساسات ہی کو مسمار کردیا جائے جو مسلم معاشرے کو دوسرے معاشروں سے ممیزّ کرتی ہیں۔ اس ناپاک سازش کا علم ہونے کے بعد بھی اگر ہم اسلامی علوم کی تدریس میں مغربی انداز فکر اور مغربی سرمایۂ فکر پر تکیہ کریں گے تو اس سے بڑھ کر شرمناک تساہل اور ناقابل معافی کوتاہی کو ئی نہ ہوگی۔ بلکہ ہمارے لیے یہ بھی لازم ہے کہ خالص سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرتے وقت بھی، جیسے ہم حالات حاضرہ میں مغربی مآخذ سے لینے پر مجبور ہیں ، محتاط رہیں، اور ان علوم کو فلسفہ کی پرچھائیوں سے دُور رکھیں۔ اس لیے کہ یہی وہ فلسفیانہ پرچھائیاں ہیں جو بنیادی طور پر مذہب کی بالعموم اور اسلام کی بالخصوص ضد اور اور نقیض واقع ہوئی ہیں۔ اور ان کا معمولی سا اثر بھی اسلام کے پاکیزہ و شفاف چشمہ کو مکدر کرنے کے لیے کافی ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
باب نہم
مسلمان کی قومیت
مسلمانوں کی اجتماعی تنظیم کی بنیاد
جس ساعتِ سعیدہ میں اسلام نے نوعِ انسانی کو اخلاق و اقدار کا نیا تصور دیا، اور ان اخلاق و اقدار کے حصول کا نیا آستانہ بایا، اُسی ساعتِ سعیدہ میں اس نے انسان کے باہمی تعلقات و روابط کا ایک نیا تصور بھی عطا کیا۔اسلام کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلقات کو درست کرے ۔ اور انسان کو یہ بتائے کہ پروردگارِ عالم ہی وہ واحد با اختیار ہستی ہے جس کی بارگاہِ عزت سے اُسے اپنی زندگی کی اقدار اور رد و قبول کے پیمانے حاصل کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ اُسی نے اُسے خلعتِ ہستی اور سرمایۂ حیات ارزانی فرمایا ہے ۔ اپنے روابط اور رشتوں کے بارے میں بھی اُسی ذات کو مرکز و مرجع سمجھے جس کے ارادۂ کُن فکاں سے وہ عدم سے وجود میں آیا ہے اور جس کی طرف اُسے آخر کار لوٹ کر جانا ہے ۔ اسلام نے آ کر پوری قوت و صراحت کے ساتھ انسان کو یہ بتایا کہ اللہ کی نظر میں انسانوں کو باہم جوڑنے والا صرف ایک ہی رشتہ ہے ۔ اگر یہ رشتہ پوری طرح استوار ہو گیا تو اس کے مقابلے میں خون اور مؤدت و الفت کے دوسرے رشتے مٹ جاتے ہیں:
لاَ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہ وَرَسُولَہ وَلَوْ كَانُوا آبَاءہمْ أَوْ أَبْنَاءہمْ أَوْ إِخْوَانَہمْ أَوْ عَشِيرَتَہمْ (مجادلہ: 22)
جو لوگ اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان بھی رکھتے ہیں ان کو تم نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں گو وہ اُن کے باپ اور بیٹے اور بھائی اور اہلِ قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔
دنیا کے اندر اللہ کی پارٹی صرف ایک ہے ۔ اس کے مقابلے میں دوسری تمام پارٹیاں شیطان اور طاغوت کی پارٹیاں ہیں:
الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 76)
جن لوگوں نے ایمان کاراستہ اختیار کیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کاراستہ اختیار کیا ہے ، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں نہایت کمزور ہیں۔
اللہ تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ،اس کے ماسوا جو راستہ ہے وہ اللہ سے دور لے جانا والا ہے :
وَأَنَّ ہ۔ذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوہ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِہ (انعام: 153)
یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستے پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے ۔
انسانی زندگی کے لیے صرف ایک ہی نظامِ حق ہے ، اور وہ ہے اسلامی نظام۔ اس کے علاوہ جتنے نظام ہیں وہ عینِ جاہلیت ہیں:
أَفَحُكْمَ الْجَاہلِيَّۃ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدہ: 50)
تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
صرف ایک ہی شریعت واجب الاتباع ہے اور وہ ہے اللہ کی شریعت۔
اس کے سوا جتنی شریعتیں ہیں، سوائے نفس ہی ہیں:
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَی شَرِيعَۃ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہا وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاء الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ (جاثیہ: 18)
اے نبی ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے ۔ لہذا تم اُس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔
دنیا میں حق صرف ایک ہے جس میں تعدد و تنوع محال ہے ۔ حق کے سوا جو کچھ ہے وہ ضلالت اور تاریکی ہے :
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّی تُصْرَفُونَ (یونس: 32)
پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جا رہے ہو۔
دنیا میں صرف ایک ہی ایسی سرزمین ہے جسے دارالاسلام کہا جا سکتا ہے ۔ اور وہ ملک ہے جہاں اسلامی ریاست قائم ہو، شریعتِ الٰہی کی فرماں روائی ہو، حدود اللہ کی پاسداری ہو، اور جہاں مسلمان باہم مل کر امورِ مملکت سر انجام دیتے ہوں۔ اس کے علاوہ جو بھی سرزمین ہوگی وہ دارالحرب کے حکم میں داخل ہے ۔ دارالحرب کے ساتھ ایک مسلمان دو ہی طرح کا رویہ اختیار کر سکتا ہے : جنگ یا معاہدۂ امان کے تحت صُلح، معاہد ملک دارالاسلام کے حکم میں ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کے اور دارالاسلام کے مابین ولایت کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ بِأَمْوَالِہمْ وَأَنفُسِہمْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَ۔ئِكَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُہاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِہم مِّن شَيْءٍ حَتَّی يُہاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہم مِّيثَاقٌ وَاللّہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ • وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوہ تَكُن فِتْنَۃ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ • وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَ۔ئِكَ ہمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّہم مَّغْفِرَۃ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ • وَالَّذِينَ آمَنُواْ مِن بَعْدُ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ مَعَكُمْ فَأُوْلَ۔ئِكَ مِنكُمْ (انفال: 72 تا 75)
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے ، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایکدوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دار الاسلام) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے ، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے ۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، اگر تم (اہلِ ایمان ایک دوسرے کی حمایت) نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے ۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔
اس روشن اور مکمل ہدایت اور اِس قطعی اور فیصلہ کن تعلیم کو لے کر اسلام دنیا میں رونق افروز ہوا۔ اور اس نے انسان کو خاک اور مٹی کے رشتوں اور خون و گوشت کے رابطوں سے نجات دے کر اُسے اعلٰی و ارفع مقام بخشا۔ اسلام کی نظر میں مسلمان کا کوئی وطن نہیں ہے ۔ اگر اس کا کوئی وطن ہے تو صرف وہ خطۂ زمین جہاں شریعتِ الٰہی کا عَلَم لہرا رہا ہو، اور باشندوں کے باہمی روابط تعلق باللہ کی بنیاد پر قائم ہو۔ اسلام کی نظر میں مسلمان کی کوئی قومیت نہیں ہے ۔ اگر اس کی کوئی قومیت ہے تو وہ صرف وہ عقیدہ ہے جس کے تحت وہ دارالاسلام کے اندر بسنے والی جماعت مسلمہ کا ایک رکن بنا ہے ۔ مسلمان کی کوئی رشتہ داری اور قرابت نہیں ہے ، سوائے اس کے جو ایمان اور عقیدہ کے تقاضے میں وجود میں آتی ہے اور جس کے بعد اُس کے اور اس کے دوسرے دینی ساتھیوں کے درمیان ایک نہایت مضبوط و مستحکم ناطہ وجود میں آ جاتا ہے ۔ مسلمان کی اپنے ماں، باپ، بھائی، بیوی اور خاندان کے ساتھ اُس وقت تک کوئی رشتہ داری استوار نہیں ہو سکتی جب تک وہ بنیادی اور اولین رشتہ قائم نہ ہو جو سب کو اپنے خالق سے جوڑتا ہے ، اور پھر اُسی ربانی رشتہ کی بنیاد پر اُن کے درمیان خونی اور نسلی قرابتیں بھی استوار تر ہو جاتی ہیں:
يَا أَيُّہا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃ وَخَلَقَ مِنْہا زَوْجَہا وَبَثَّ مِنْہمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِہ وَالأَرْحَامَ (نساء: 1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے ۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔
لیکن ربانی رشتہ اس امر میں مانع نہیں ہے کہ ایک مسلمان اختلاف عقیدہ کے باوجود والدین کے ساتھ معروف کی حد تک اس وقت تک حُسنِ سلوک اور حسنِ معاشرت رکھے جب تک وہ اسلامی محاذ کے دشمنوں کی صفوں میں شامل نہ ہوں۔ اگر وہ کفار کی کھُلم کھُلا حمایت پر اُتر آئیں تو ایسی صورت میں مسلمان کی اپنے والدین کے ساتھ کوئی رشتہ داری اور صلہ رحمی کا تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور حسنِ معاشرت اور نیک برتاؤ کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ عبد اللہ بن ابی جو رئیس المنافقین تھا اُس کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے اس معاملے میں ہمارے لیے نہایت درخشاں مثال پیش کی ہے :
ابن جریر نے ابن زیاد کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کو بُلا کر فرمایا: آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا باپ کیا کہہ رہا ہے ؟ عبد اللہ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اُس نے کیا کہا ہے ؟ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہتا ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو وہاں عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا! حضرت عبد اللہ نے کہا: اے اللہ کے رسول خدا کی قسم اُس نے درست کہا ہے ، بخدا آپ عزت والے ہیں اور وہی ذلیل ہے ۔ یا رسول اللہ! خدائے برتر کی قسم، آپ کی مدینہ میں تشریف آوری کے وقت اہلِ یثرب کو معلوم ہے کہ اس شہر میں مجھ سے زیادہ اپنے والد کا فرمانبردار کوئی شخص نہیں تھا۔ اور اب اگر اللہ اور اُس کے رسول کی خوشنودی اس میں ہے کہ میں والد کا سر اُن کی خدمت میں پیش کردوں تو میں اُس کا سر لائے دیتا ہوں۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو" چنانچہ جب مسلمان مدینہ پہنچے تو عبد اللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبد اللہ مدینہ کے باہر اپنے باپ کے سامنے تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے ۔ اور اس سے کہنے لگے کیا تونے یہ کہا ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹے تو وہاں کا عزت والا ذلیل لوگوں کو نکال دے گا، خدائے بزرگ کی قسم تجھے ابھی معلوم ہو جائے گا کہ تو عزت والا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ خدا کی قسم جب تک اللہ اور اس کے رسول اجازت نہ دیں، تجھے مدینہ کا سایہ نصیب نہیں ہو سکتا اور تو مدینہ میں ہر گز پناہ نہیں لے سکتا۔ عبد اللہ بن ابی نے چلا کر دو مرتبہ کہا : اے خزرج کے لوگو! دیکھو یہ میرا ہی بیٹا مجھے گھر میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ۔ حضرت عبد اللہ اُس کے شور و ہنگامہ کے باوجود یہی کہتے رہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اذن نہ ہو خدا کی قسم تجھے ہر گز مدینہ میں قدم نہ رکھنے دوں گا۔ یہ شور سُن کر کچھ لوگ حضرت عبد اللہ کے پاس جمع ہو گئے اور انہیں سمجھایا بجھایا۔ مگر وہ اس بات پر مُصر رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے اذن کے بغیر میں اسے مدینہ میں گھسنے نہیں دوں گا۔ چنانچہ چند لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے سن کر فرمایا، عبد اللہ کے پاس جاؤ اور اسے کہو: "اپنے باپ کو گھر آنے سے نہ روکے !" چنانچہ وہ لوگ عبد اللہ کے پاس آئے اور انہیں آنحضورؐ کے ارشاد سے آگاہ کیا۔ حضرت عبد اللہ کہنے لگے : اگر اللہ کے نبی کا حکم ہے تو اب یہ داخل ہو سکتا ہے ۔
جب عقیدہ و ایمان کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد نسب و رحم کے رشتے نہ بھی ہوں تو بھی تمام اہلِ ایمان باہم بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ اور ان میں وہ مضبوط تر رابطہ وجود میں آتا ہے جو انہیں یک قالب و یک جان بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : انما المومنون اخوۃ (تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں)۔ اس مختصر ارشاد میں حصر بھی ہے اور تاکید بھی۔ نیز فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ بِأَمْوَالِہمْ وَأَنفُسِہمْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَ۔ئِكَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ (انفال: 72)
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔
اس آیت میں جس ولایت کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف ایک ہی وقت میں پائی جانے والی اور ایک ہی نسل تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ آئندہ آنے والی نسلوں تک بھی منتقل ہوتی رہتی ہے ، اور امت مسلمہ کے اگلوں کو پچھلوں سے اور پچھلوں کو اگلوں کے ساتھ محبت و مؤدت اور وفاداری و غمگساری اور رحم دلی و شفقت کی ایک مقدس و لازوال لڑی میں پرو دیتی ہے :
وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِہمْ يُحِبُّونَ مَنْ ہاجَرَ إِلَيْہمْ وَلاَ يَجِدُونَ فِي صُدُورِہمْ حَاجَۃ مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہمْ وَلَوْ كَانَ بِہمْ خَصَاصَۃ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِہ فَأُوْلَئِكَ ہمُ الْمُفْلِحُونَ • وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (حشر: 10 - 9 )
اور جو لوگ مہاجرین کی ہجرت سے پہلے مدینے میں رہتے تھے اور ایمان لا چکے تھے (یعنی انصار) وہ ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مالِ غنیمت میں سے مہاجرین کو جو کچھ بھی دے دیا جائے اُس کی وجہ سے یہ اپنے دل میں اُس کی کوئی طلب نہیں پاتے اور خواہ انہیں تنگی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ (اپنے مہاجرین بھائیوں کو) ترجیح دیتے ہیں۔ اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جو اُن کے بعد آئے وہ یہ دُعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رہنے دے ، اے ہمارے پروردگار بے شک تو بڑا شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے ۔
ہر دور میں عقیدہ ہی بنائے جمع و تفریق تھا
اللہ تعالٰی نے اپنی کتابِ حکیم میں مومنین کے سامنے انبیائے سابقین کی برگزیدہ جماعت کی متعدد مثالیں اور قصے بیان فرمائے ہیں۔ ان انبیاء علیہم السلام نے مختلف ادوار میں ایمان کی قندیلیں فروزاں کیں، اور ایمان و عقیدہ کے نورانی قافلوں کی قیادت فرمائی۔ ان مثالوں میں اللہ تعالٰی نے واضح کیا ہے کہ ہر نبی کی نگاہ میں اصل رشتہ اسلام اور عقیدہ کا رشتہ تھا۔ان کے مقابلے میں کوئی اور رشتہ اور قرابت داری کسی لحاظ سے بھی نافع ثابت نہیں ہو سکتی۔
وَنَادَی نُوحٌ رَّبَّہ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابُنِي مِنْ أَہلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ • قَالَ يَا نُوحُ إِنَّہ لَيْسَ مِنْ أَہلِكَ إِنَّہ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِہ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاہلِينَ • قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِہ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ﴿ھود: 45 تا 47)
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تُو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے ۔ جواب میں ارشاد ہوا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ۔ وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ۔ لہذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے ۔ نوح نے فوراً عرض کیا: اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔
وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہيمَ رَبُّہ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَہدِي الظَّالِمِينَ (بقرہ: 124)
اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب پر پورا اتر گیا۔ تو اس نے کہا: "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں" ابراہیم نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں متعلق نہیں ہے ۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہيمُ رَبِّ اجْعَلْ ہ۔َذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَہلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہم بِاللّہ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُہ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّہ إِلَی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (بقرہ: 126)
اور جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے ، اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے ، اللہ نے فرمایا: اور جو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اُسے بھی دوں گا، مگر آخر کار اُسے عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے ۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب اپنے بات کو اور اپنے اہلِ خاندان کو گمراہی پر مُصِر دیکھا تو وہ اُن سے کنارہ کش ہو گئے اور فرمایا:
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَی أَلاَ أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا (مریم: 48)
میں آپ لوگوں کو چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پُکاراکرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا۔
اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیمؑ اور ان کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے اُن پہلوؤں کو مومنین کے سامنے خاص طور پر پیش کیا ہے جن میں مومنین کو ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے ۔ فرمایا:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَۃ حَسَنَۃ فِي إِبْرَاہيمَ وَالَّذِينَ مَعَہ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہ وَحْدَہ (ممتحنہ: 4)
بے شک تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھی بہترین نمونہ ہیں جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے دو ٹوک کہہ دیا کہ ہم کو تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو اُن سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ہم تمہارے (معبودوں اور عقیدوں کو) کو بالکل نہیں مانتے اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے کھُلم کھُلا عداوت اور دشمنی قائم ہو گئی ہے یہاں تک کہ تم صرف اللہ پر ایمان لے آؤ۔
وہ جواں ہمت اور جواں سال رفقاء جو اصحاب کہف کے لقب سے مشہور ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ دین و عقیدہ کی متاع گراں بہا کے لیے ان کے وطن، ان کے اہل و عیال اور ان کے خاندان و قبیلہ میں کوئی گنجائش نہیں رہی ہے تو وہ اپنے اہل و عیال کو خیر باد کہہ کر اپنی قوم سے کنارہ کش ہو گئے ، وہ اپنے وطن سے ہجرت کر گئے اور متاعِ ایمان کو لے کر اپنے پروردگار کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے تاکہ وہ دین و ایمان کی بنیاد پر صرف ایک اللہ کے بندے بن کر رہ سکیں:-
إِنَّہمْ فِتْيَۃ آمَنُوا بِرَبِّہمْ وَزِدْنَاہمْ ہدًی • وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہ إِلَہا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا • ہؤُلاَء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہ آلِہۃ لَّوْلاَ يَأْتُونَ عَلَيْہم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہ كَذِبًا • وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوہمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلاَ اللَّہ فَأْوُوا إِلَی الْكَہفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحمتہ ويُہيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا (الکھف: 13 تا 16)
وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے اُن کے دل اُس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ ہم اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے ۔ (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) یہ ہماری قوم تو ربِ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے ۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ آخر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟ اب جب کہ تم ان سے اور ان کے معبود اِن غیر اللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سر و سامان مہیا کرے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا ذکر قرآن میں آتا ہے ۔ان برگزیدہ پیغمبروں اور ان کی بیویوں کے درمیان صرف اس بنا پر تفریق رہ جاتی ہے کہ ان کی بیویوں کا عقیدہ خاوندوں کے عقیدہ سے جدا تھا اور وہ آلودۂ شرک تھیں:
ضَرَبَ اللَّہ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَۃ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاہمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہمَا مِنَ اللَّہ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ (تحریم: 10)
کافروں کی عبرت کے لیے اللہ نوحؑ کی عورت اور لوطؑ کی عورت کی مثال دیتا ہے ۔ یہ دونوں عورتیں ہمارے بندوں میں سے دو بندوں کے نکاح میں تھیں۔ ان دونوں نے ان سے خیانت کی مگر اللہ کی گرفت سے دونوں کے شوہر ان کو نہ بچا سکے اور دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جاؤ دوسرے لوگوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔
ساتھ ہی جابر و سر کش فرمانروا فرعون مصر کی بیوی کی مثال بیان کی گئی ہے اور اہلِ ایمان کے لیے اُسوہ کے طور پر اُس کا ذکر کیا گیا ہے :
وَضَرَبَ اللَّہ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا اِمْرَأَۃ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّۃ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (تحریم: 11)
اور اہلِ ایمان کی نصیحت کے لیے اللہ فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے جب کہ اُس نے دعا کی: اے میرے پروردگار! میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھ کر فرعون اور اُس کے کردارِ بد سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے بھی نجات دے ۔
علی ہذا القیاس قرآن نے ہر نوعیت کے رشتوں اور قرابتوں کے بارے میں مختلف مثالیں بیان کی ہیں۔ نوح علیہ السلام کے قصہ میں رشتۂ پدری کی مثال ملے گی، حضرت ابراہیمؑ کے قصے میں بیٹے اور وطن کے رشتے کی مثال بیان کی گئی ہے ، اصحابِ کہف کے قصے میں اعزہ و اقارب، قبیلہ و برادری اور وطن و قوم کے رشتہ کی جامع مثال پیش کی گئی ہے ، حضرت نوح اور لوط علیہما السلام کے قصے اور فرعون کے تذکرے میں ازدواجی تعلق کی مثال دی گئی ہے ۔ قرآن کی نظر میں یہ تمام رشتے عقیدہ و ایمان کے ابدی رشتہ اور سرمدی رابطہ کے انقطاع کے بعد ناقابلِ لحاظ قرار پاتے ہیں۔
قومِ رسولِ ہاشمی کی بِنائے ترکیب
جب انبیاء کی برگزیدہ جماعت روابط و تعلقات اور رشتوں اور برادریوں کا حقیقی پیمانہ اور پاکیزہ تصور پیش کر چکتی ہے تو امت وسط کی باری آتی ہے ۔ چنانچہ امت وسط کے اندر بھی اس نوعیت کی مثالوں اور نمونوں اور تجربوں کا وسیع اور ایمان افروز ذخیرہ ملتا ہے ۔ یہ امت بھی اُسی ربانی راستے پر گامزن نظر آتی ہے جو ازل سے اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان کے گروہ کے لیے منتخب و پسند فرمایا ہے ۔ اس امت کے اندر بھی آپ دیکھیں گے کہ جب رشتۂ ایمان ٹوٹ جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جب انسان اور انسان کے درمیان اولین رشتہ منقطع ہو جاتا ہے تو ایک ہی خاندان اور قبیلے کے لوگ جُدا جُدا گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، بلکہ ایک ہی گھر کے مختلف افراد میں جُدائی واقع ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالٰی مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
لاَ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہ وَرَسُولَہ وَلَوْ كَانُوا آبَاءہمْ أَوْ أَبْنَاءہمْ أَوْ إِخْوَانَہمْ أَوْ عَشِيرَتَہمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِہمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَہم بِرُوحٍ مِّنْہ وَيُدْخِلُہمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِہا الْأَنْہارُ خَالِدِينَ فِيہا رَضِيَ اللَّہ عَنْہمْ وَرَضُوا عَنْہ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّہ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ اللَّہ ہمُ الْمُفْلِحُونَ (مجادلہ: 22)
جو لوگ اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تُو انہیں ان لوگوں سے دوستی کرتے نہ پائے گا جو اللہ اور اُس کے رسول کے دشمن ہیں گو وہ اُن کے باپ، یا بیٹے یا بھائی یا اہلِ قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ (اہل ایمان) وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے اندر اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور فیضانِ غیبی سے اُن کی تائید کی ہے ۔ اور وہ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے ۔ خدا اُن سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہ خدائی گروہ ہے ۔ اور آگاہ رہو کہ خدائی گروہ ہی فلاح پانے والا ہے ۔
ایک طرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے چچا ابو لہب اور آپ کے ہم قبیلہ عمرو بن ہشام (ابو جہل) کے درمیان خونی اور نسلی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، مہاجرینِ مکہ اپنے اہل و اقربا کے خلاف برسرِ جنگ نظر آتے ہیں اور معرکۂ بدر میں ان کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف مکہ کے ان مہاجرین کے درمیان اور یثرب کے انصار کے درمیان عقیدہ کا سرمدی رشتہ استوار ہو جاتا ہے اور وہ سگے بھائی بن جاتے ہیں اور خونی اور نسلی رشتے سے بھی زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔ یہ رشتہ مسلمانوں کی ایک نئی برادری کو جنم دیتا ہے اس برادری میں عرب بھی شامل ہیں اور غیر عرب بھی۔ روم کے صہیب بھی اس کے رکن ہیں اور حبش کے بلال اور فارس کے سلمان بھی۔ ان کے درمیان قبائلی عصبیت مٹ جاتی ہے ، نسلی تعصب و تفاخر ختم ہو جاتا ہے ، وطن اور قوم کے نعرے تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ کا پیغمبر اُن سب سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے :
• دعوھا فانھا منتنۃ (ان عصبیتوں سے دست بردار ہو جاؤ یہ متعفن لاشیں ہیں)
• لیس منا من دعا الی عصبیۃ، و لیس منا من قاتل علی عصبیۃ، و لیس منا من مات علی عصبیۃ (جو کسی جاہلی عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت پر مرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے )
دارالاسلام اور دارالحرب
الغرض ان مردار و متعفن عصبیتوں کا چلن ختم ہو گیا۔ نسبی تعصب کا مردار لاشہ دفن کر دیا گیا، نسلی برتری کا جاہلی نعرہ پاؤں تلے روند ڈالا گیا، قومی گھمنڈ کی گندگی زائل کر دی گئی اور اُس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ اور انسان نے گوشت اور خون کے تعفن اور زمین و وطن کے لوث سے آزاد رہ کر آفاق عالم کے عطر بیز چمنستان میں مشام جان کو معطر کیا۔ اس دن سے مسلمان کا وطن جغرافی حدود اربعہ میں محدود نہیں رہا بلکہ پورا دارالاسلام اس کا وطن ٹھیرا۔ وہ وطن جہاں عقیدہ و ایمان کی حکمرانی ہوتی ہے ، اور صرف شریعتِ الٰہی کا سکہ رواں ہوتا ہے ۔ یہی وطن مسلمان کی پناہ گاہ بنا، اسی کی مدافعت کے لیے وہ کمربستہ رہا اور اسی کے تحفظ و استحکام میں اُس نے جان کا نذرانہ پیش کیا اور اُس کی توسیع و اضافہ میں اُس نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ دارالاسلام ہر اُس شخص کا مامَن ہے جو عقیدۂ اسلام کا قلاوہ گلے میں ڈال لیتا ہے ، اور شریعت اسلامی کو قانون زندگی کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے ، وہ ش۔خص بھی اس پناہ گاہ سے استفادہ کر سکتا ہے جو مسلمان تو نہیں ہے مگر اسلامی شریعت کو نظام ریاست کی حیثیت سے قبول کرتا ہے ۔ جیسا کہ ان اہلِ کتاب کا معاملہ ہے جو دارالاسلام کے اندر بودوباش رکھتے ہیں۔ مگر وہ سرزمین جس پر اسلام کی حکمرانی کا پھریرا نہ لہراتا ہو اور شریعتِ الٰہی کو نافذ نہ کیا جاتا ہو وہ مسلمان کے لیے بھی اور دارالاسلام کے معاہد ذمی کے لیے بھی دارالحرب ہے ۔ مسلمان اس کے خلاف شمشیر بکف رہے گا خواہ وہ اُس کی جنم بھومی ہو، اُس سے اُس کے نسبی اور سسرالی رشتہ وابستہ ہوں، اس کے اموال و املاک اُس میں موجود ہوں اور اُس کے مادی مفادات اُس سے وابستہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے خلاف تلوار اٹھائی حالانکہ مکہ آپؐ کا پیدائشی اور آبائی وطن تھا۔ وہیں آپؐ کے اعزہ و اقارب اور خاندان کے لوگ رہتے تھے ، آپؐ کے اور آپؐ کے صحابہ کے مکانات اور جائیدادیں بھی وہیں تھیں۔ جنہیں آپؐ ہجرت کے وقت وہاں چھوڑ آئے تھے ۔ مگر مکہ کی سرزمین پیغمبر خدا کے لیے اور ان کی امت کے لیے اُس وقت تک دارالاسلام نہ بن سکی جب تک وہ اسلام کے آگے سرنگوں نہیں ہو گئی اور شریعت غرّا کے ہاتھ اقتدار کی مسند نہیں آ گئی۔
اسی کا نام اِسلام ہے ، یہی نرالا تصور زندگی اسلام کہلاتا ہے ، اسلام چند اشلوکوں کا نام نہیں ہے کہ بس انہیں زبان سے دُہرا دینا ہی کافی ہو، اور نہ کسی مخصوص سرزمین کے اندر جس پر اسلام کا بورڈ چسپاں ہو یا جو اسلامی نام سے پکاری جاتی ہو پیدا ہو جانے سے کسی آدمی کو خود بخود اسلام کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے ، اور نہ یہ مسلمان والدین کے گھر میں پیدا ہونے سے وراثت میں مل جاتا ہے ۔
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَہمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِہمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (نساء: 65)
نہیں اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے ۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔
صرف اسی کا نام اسلام ہے ، اور صرف وہی سرزمین دارالاسلام ہے جہاں اس کی حکومت ہو۔ یہ وطن و نسل، نسب و خون اور قبیلہ و برادری کی حد بندیوں سے بالا و برتر ہے ۔
اسلامی وطن اور اس کے دفاع کا اصل محرک
اسلام نے آ کر انسانوں کو ان تمام زنجیروں سے رہا کیا جنہوں نے اُسے زمین کی پستی سے باندھ رکھا تھا، تاکہ انسان آسمان کی پہنائیوں میں پرواز کے قابل ہو سکے ۔ خون و نسب کے تمام سفلی طوق و سلاسل پاش پاش کر دے تاکہ انسان آزاد ہو کر بلند ترین فضاؤں میں پرواز کر سکے ۔ اسلام نے بتایا کہ مسلمان کا وطن زمین کا کوئی مخصوص خطہ نہیں ہے جس کی محبت میں اُسے تڑپنا چاہیے اور جس کے دفاع میں اُسے جان کی بازی لگانی چاہیے ، مسلمان کی قومیت جس سے وہ متعارف ہوتا ہے کسی حکومت کی عطا کردہ نیشنلٹی نہیں ہے ، مسلمان کی برادری جس کی وہ پناہ لیتا ہے اور جس کی خاطر لڑتا اور مرتا ہے وہ خون کے رشتہ سے ترکیب نہیں پاتی۔ مسلمان کا پرچم جس پر وہ ناز کرتا ہے اور جس کو اونچا رکھنے کے لیے وہ جان تک کی بازی لگا دیتا ہے وہ کسی قوم کا پرچم نہیں ہے ، مسلمان کی فتح یابی جس کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے اور جس سے ہمکنار ہونے پر وہ خدا کے سامنے سجدۂ شکر ادا کرتا ہے ، وہ محض فوجی غلبہ نہیں ہے بلکہ وہ فتحِ حق ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :
إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّہ وَالْفَتْحُ • وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّہ أَفْوَاجًا • فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہ إِنَّہ كَانَ تَوَّابًا (سورۃ النصر)
جب آ گئی اللہ کی مدد اور فتح۔ اور تُو نے دیکھ لیا لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ۔ سو تُو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کر اور اُس سے استغفار کر، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
باب نہم
مسلمان کی قومیت
مسلمانوں کی اجتماعی تنظیم کی بنیاد
جس ساعتِ سعیدہ میں اسلام نے نوعِ انسانی کو اخلاق و اقدار کا نیا تصور دیا، اور ان اخلاق و اقدار کے حصول کا نیا آستانہ بایا، اُسی ساعتِ سعیدہ میں اس نے انسان کے باہمی تعلقات و روابط کا ایک نیا تصور بھی عطا کیا۔اسلام کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلقات کو درست کرے ۔ اور انسان کو یہ بتائے کہ پروردگارِ عالم ہی وہ واحد با اختیار ہستی ہے جس کی بارگاہِ عزت سے اُسے اپنی زندگی کی اقدار اور رد و قبول کے پیمانے حاصل کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ اُسی نے اُسے خلعتِ ہستی اور سرمایۂ حیات ارزانی فرمایا ہے ۔ اپنے روابط اور رشتوں کے بارے میں بھی اُسی ذات کو مرکز و مرجع سمجھے جس کے ارادۂ کُن فکاں سے وہ عدم سے وجود میں آیا ہے اور جس کی طرف اُسے آخر کار لوٹ کر جانا ہے ۔ اسلام نے آ کر پوری قوت و صراحت کے ساتھ انسان کو یہ بتایا کہ اللہ کی نظر میں انسانوں کو باہم جوڑنے والا صرف ایک ہی رشتہ ہے ۔ اگر یہ رشتہ پوری طرح استوار ہو گیا تو اس کے مقابلے میں خون اور مؤدت و الفت کے دوسرے رشتے مٹ جاتے ہیں:
لاَ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہ وَرَسُولَہ وَلَوْ كَانُوا آبَاءہمْ أَوْ أَبْنَاءہمْ أَوْ إِخْوَانَہمْ أَوْ عَشِيرَتَہمْ (مجادلہ: 22)
جو لوگ اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان بھی رکھتے ہیں ان کو تم نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں گو وہ اُن کے باپ اور بیٹے اور بھائی اور اہلِ قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔
دنیا کے اندر اللہ کی پارٹی صرف ایک ہے ۔ اس کے مقابلے میں دوسری تمام پارٹیاں شیطان اور طاغوت کی پارٹیاں ہیں:
الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 76)
جن لوگوں نے ایمان کاراستہ اختیار کیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کاراستہ اختیار کیا ہے ، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں نہایت کمزور ہیں۔
اللہ تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ،اس کے ماسوا جو راستہ ہے وہ اللہ سے دور لے جانا والا ہے :
وَأَنَّ ہ۔ذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوہ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِہ (انعام: 153)
یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستے پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے ۔
انسانی زندگی کے لیے صرف ایک ہی نظامِ حق ہے ، اور وہ ہے اسلامی نظام۔ اس کے علاوہ جتنے نظام ہیں وہ عینِ جاہلیت ہیں:
أَفَحُكْمَ الْجَاہلِيَّۃ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدہ: 50)
تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
صرف ایک ہی شریعت واجب الاتباع ہے اور وہ ہے اللہ کی شریعت۔
اس کے سوا جتنی شریعتیں ہیں، سوائے نفس ہی ہیں:
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَی شَرِيعَۃ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہا وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاء الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ (جاثیہ: 18)
اے نبی ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے ۔ لہذا تم اُس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔
دنیا میں حق صرف ایک ہے جس میں تعدد و تنوع محال ہے ۔ حق کے سوا جو کچھ ہے وہ ضلالت اور تاریکی ہے :
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّی تُصْرَفُونَ (یونس: 32)
پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جا رہے ہو۔
دنیا میں صرف ایک ہی ایسی سرزمین ہے جسے دارالاسلام کہا جا سکتا ہے ۔ اور وہ ملک ہے جہاں اسلامی ریاست قائم ہو، شریعتِ الٰہی کی فرماں روائی ہو، حدود اللہ کی پاسداری ہو، اور جہاں مسلمان باہم مل کر امورِ مملکت سر انجام دیتے ہوں۔ اس کے علاوہ جو بھی سرزمین ہوگی وہ دارالحرب کے حکم میں داخل ہے ۔ دارالحرب کے ساتھ ایک مسلمان دو ہی طرح کا رویہ اختیار کر سکتا ہے : جنگ یا معاہدۂ امان کے تحت صُلح، معاہد ملک دارالاسلام کے حکم میں ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کے اور دارالاسلام کے مابین ولایت کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ بِأَمْوَالِہمْ وَأَنفُسِہمْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَ۔ئِكَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُہاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِہم مِّن شَيْءٍ حَتَّی يُہاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہم مِّيثَاقٌ وَاللّہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ • وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوہ تَكُن فِتْنَۃ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ • وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَ۔ئِكَ ہمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّہم مَّغْفِرَۃ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ • وَالَّذِينَ آمَنُواْ مِن بَعْدُ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ مَعَكُمْ فَأُوْلَ۔ئِكَ مِنكُمْ (انفال: 72 تا 75)
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے ، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایکدوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دار الاسلام) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے ، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے ۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، اگر تم (اہلِ ایمان ایک دوسرے کی حمایت) نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے ۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔
اس روشن اور مکمل ہدایت اور اِس قطعی اور فیصلہ کن تعلیم کو لے کر اسلام دنیا میں رونق افروز ہوا۔ اور اس نے انسان کو خاک اور مٹی کے رشتوں اور خون و گوشت کے رابطوں سے نجات دے کر اُسے اعلٰی و ارفع مقام بخشا۔ اسلام کی نظر میں مسلمان کا کوئی وطن نہیں ہے ۔ اگر اس کا کوئی وطن ہے تو صرف وہ خطۂ زمین جہاں شریعتِ الٰہی کا عَلَم لہرا رہا ہو، اور باشندوں کے باہمی روابط تعلق باللہ کی بنیاد پر قائم ہو۔ اسلام کی نظر میں مسلمان کی کوئی قومیت نہیں ہے ۔ اگر اس کی کوئی قومیت ہے تو وہ صرف وہ عقیدہ ہے جس کے تحت وہ دارالاسلام کے اندر بسنے والی جماعت مسلمہ کا ایک رکن بنا ہے ۔ مسلمان کی کوئی رشتہ داری اور قرابت نہیں ہے ، سوائے اس کے جو ایمان اور عقیدہ کے تقاضے میں وجود میں آتی ہے اور جس کے بعد اُس کے اور اس کے دوسرے دینی ساتھیوں کے درمیان ایک نہایت مضبوط و مستحکم ناطہ وجود میں آ جاتا ہے ۔ مسلمان کی اپنے ماں، باپ، بھائی، بیوی اور خاندان کے ساتھ اُس وقت تک کوئی رشتہ داری استوار نہیں ہو سکتی جب تک وہ بنیادی اور اولین رشتہ قائم نہ ہو جو سب کو اپنے خالق سے جوڑتا ہے ، اور پھر اُسی ربانی رشتہ کی بنیاد پر اُن کے درمیان خونی اور نسلی قرابتیں بھی استوار تر ہو جاتی ہیں:
يَا أَيُّہا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃ وَخَلَقَ مِنْہا زَوْجَہا وَبَثَّ مِنْہمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِہ وَالأَرْحَامَ (نساء: 1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے ۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔
لیکن ربانی رشتہ اس امر میں مانع نہیں ہے کہ ایک مسلمان اختلاف عقیدہ کے باوجود والدین کے ساتھ معروف کی حد تک اس وقت تک حُسنِ سلوک اور حسنِ معاشرت رکھے جب تک وہ اسلامی محاذ کے دشمنوں کی صفوں میں شامل نہ ہوں۔ اگر وہ کفار کی کھُلم کھُلا حمایت پر اُتر آئیں تو ایسی صورت میں مسلمان کی اپنے والدین کے ساتھ کوئی رشتہ داری اور صلہ رحمی کا تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور حسنِ معاشرت اور نیک برتاؤ کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ عبد اللہ بن ابی جو رئیس المنافقین تھا اُس کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے اس معاملے میں ہمارے لیے نہایت درخشاں مثال پیش کی ہے :
ابن جریر نے ابن زیاد کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کو بُلا کر فرمایا: آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا باپ کیا کہہ رہا ہے ؟ عبد اللہ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اُس نے کیا کہا ہے ؟ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہتا ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو وہاں عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا! حضرت عبد اللہ نے کہا: اے اللہ کے رسول خدا کی قسم اُس نے درست کہا ہے ، بخدا آپ عزت والے ہیں اور وہی ذلیل ہے ۔ یا رسول اللہ! خدائے برتر کی قسم، آپ کی مدینہ میں تشریف آوری کے وقت اہلِ یثرب کو معلوم ہے کہ اس شہر میں مجھ سے زیادہ اپنے والد کا فرمانبردار کوئی شخص نہیں تھا۔ اور اب اگر اللہ اور اُس کے رسول کی خوشنودی اس میں ہے کہ میں والد کا سر اُن کی خدمت میں پیش کردوں تو میں اُس کا سر لائے دیتا ہوں۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو" چنانچہ جب مسلمان مدینہ پہنچے تو عبد اللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبد اللہ مدینہ کے باہر اپنے باپ کے سامنے تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے ۔ اور اس سے کہنے لگے کیا تونے یہ کہا ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹے تو وہاں کا عزت والا ذلیل لوگوں کو نکال دے گا، خدائے بزرگ کی قسم تجھے ابھی معلوم ہو جائے گا کہ تو عزت والا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ خدا کی قسم جب تک اللہ اور اس کے رسول اجازت نہ دیں، تجھے مدینہ کا سایہ نصیب نہیں ہو سکتا اور تو مدینہ میں ہر گز پناہ نہیں لے سکتا۔ عبد اللہ بن ابی نے چلا کر دو مرتبہ کہا : اے خزرج کے لوگو! دیکھو یہ میرا ہی بیٹا مجھے گھر میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ۔ حضرت عبد اللہ اُس کے شور و ہنگامہ کے باوجود یہی کہتے رہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اذن نہ ہو خدا کی قسم تجھے ہر گز مدینہ میں قدم نہ رکھنے دوں گا۔ یہ شور سُن کر کچھ لوگ حضرت عبد اللہ کے پاس جمع ہو گئے اور انہیں سمجھایا بجھایا۔ مگر وہ اس بات پر مُصر رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے اذن کے بغیر میں اسے مدینہ میں گھسنے نہیں دوں گا۔ چنانچہ چند لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے سن کر فرمایا، عبد اللہ کے پاس جاؤ اور اسے کہو: "اپنے باپ کو گھر آنے سے نہ روکے !" چنانچہ وہ لوگ عبد اللہ کے پاس آئے اور انہیں آنحضورؐ کے ارشاد سے آگاہ کیا۔ حضرت عبد اللہ کہنے لگے : اگر اللہ کے نبی کا حکم ہے تو اب یہ داخل ہو سکتا ہے ۔
جب عقیدہ و ایمان کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد نسب و رحم کے رشتے نہ بھی ہوں تو بھی تمام اہلِ ایمان باہم بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ اور ان میں وہ مضبوط تر رابطہ وجود میں آتا ہے جو انہیں یک قالب و یک جان بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : انما المومنون اخوۃ (تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں)۔ اس مختصر ارشاد میں حصر بھی ہے اور تاکید بھی۔ نیز فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ بِأَمْوَالِہمْ وَأَنفُسِہمْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَ۔ئِكَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ (انفال: 72)
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔
اس آیت میں جس ولایت کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف ایک ہی وقت میں پائی جانے والی اور ایک ہی نسل تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ آئندہ آنے والی نسلوں تک بھی منتقل ہوتی رہتی ہے ، اور امت مسلمہ کے اگلوں کو پچھلوں سے اور پچھلوں کو اگلوں کے ساتھ محبت و مؤدت اور وفاداری و غمگساری اور رحم دلی و شفقت کی ایک مقدس و لازوال لڑی میں پرو دیتی ہے :
وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِہمْ يُحِبُّونَ مَنْ ہاجَرَ إِلَيْہمْ وَلاَ يَجِدُونَ فِي صُدُورِہمْ حَاجَۃ مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہمْ وَلَوْ كَانَ بِہمْ خَصَاصَۃ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِہ فَأُوْلَئِكَ ہمُ الْمُفْلِحُونَ • وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (حشر: 10 - 9 )
اور جو لوگ مہاجرین کی ہجرت سے پہلے مدینے میں رہتے تھے اور ایمان لا چکے تھے (یعنی انصار) وہ ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مالِ غنیمت میں سے مہاجرین کو جو کچھ بھی دے دیا جائے اُس کی وجہ سے یہ اپنے دل میں اُس کی کوئی طلب نہیں پاتے اور خواہ انہیں تنگی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ (اپنے مہاجرین بھائیوں کو) ترجیح دیتے ہیں۔ اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جو اُن کے بعد آئے وہ یہ دُعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رہنے دے ، اے ہمارے پروردگار بے شک تو بڑا شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے ۔
ہر دور میں عقیدہ ہی بنائے جمع و تفریق تھا
اللہ تعالٰی نے اپنی کتابِ حکیم میں مومنین کے سامنے انبیائے سابقین کی برگزیدہ جماعت کی متعدد مثالیں اور قصے بیان فرمائے ہیں۔ ان انبیاء علیہم السلام نے مختلف ادوار میں ایمان کی قندیلیں فروزاں کیں، اور ایمان و عقیدہ کے نورانی قافلوں کی قیادت فرمائی۔ ان مثالوں میں اللہ تعالٰی نے واضح کیا ہے کہ ہر نبی کی نگاہ میں اصل رشتہ اسلام اور عقیدہ کا رشتہ تھا۔ان کے مقابلے میں کوئی اور رشتہ اور قرابت داری کسی لحاظ سے بھی نافع ثابت نہیں ہو سکتی۔
وَنَادَی نُوحٌ رَّبَّہ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابُنِي مِنْ أَہلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ • قَالَ يَا نُوحُ إِنَّہ لَيْسَ مِنْ أَہلِكَ إِنَّہ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِہ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاہلِينَ • قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِہ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ﴿ھود: 45 تا 47)
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تُو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے ۔ جواب میں ارشاد ہوا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ۔ وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ۔ لہذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے ۔ نوح نے فوراً عرض کیا: اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔
وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہيمَ رَبُّہ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَہدِي الظَّالِمِينَ (بقرہ: 124)
اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب پر پورا اتر گیا۔ تو اس نے کہا: "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں" ابراہیم نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں متعلق نہیں ہے ۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہيمُ رَبِّ اجْعَلْ ہ۔َذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَہلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہم بِاللّہ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُہ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّہ إِلَی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (بقرہ: 126)
اور جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے ، اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے ، اللہ نے فرمایا: اور جو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اُسے بھی دوں گا، مگر آخر کار اُسے عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے ۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب اپنے بات کو اور اپنے اہلِ خاندان کو گمراہی پر مُصِر دیکھا تو وہ اُن سے کنارہ کش ہو گئے اور فرمایا:
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَی أَلاَ أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا (مریم: 48)
میں آپ لوگوں کو چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پُکاراکرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا۔
اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیمؑ اور ان کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے اُن پہلوؤں کو مومنین کے سامنے خاص طور پر پیش کیا ہے جن میں مومنین کو ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے ۔ فرمایا:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَۃ حَسَنَۃ فِي إِبْرَاہيمَ وَالَّذِينَ مَعَہ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہ وَحْدَہ (ممتحنہ: 4)
بے شک تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھی بہترین نمونہ ہیں جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے دو ٹوک کہہ دیا کہ ہم کو تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو اُن سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ہم تمہارے (معبودوں اور عقیدوں کو) کو بالکل نہیں مانتے اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے کھُلم کھُلا عداوت اور دشمنی قائم ہو گئی ہے یہاں تک کہ تم صرف اللہ پر ایمان لے آؤ۔
وہ جواں ہمت اور جواں سال رفقاء جو اصحاب کہف کے لقب سے مشہور ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ دین و عقیدہ کی متاع گراں بہا کے لیے ان کے وطن، ان کے اہل و عیال اور ان کے خاندان و قبیلہ میں کوئی گنجائش نہیں رہی ہے تو وہ اپنے اہل و عیال کو خیر باد کہہ کر اپنی قوم سے کنارہ کش ہو گئے ، وہ اپنے وطن سے ہجرت کر گئے اور متاعِ ایمان کو لے کر اپنے پروردگار کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے تاکہ وہ دین و ایمان کی بنیاد پر صرف ایک اللہ کے بندے بن کر رہ سکیں:-
إِنَّہمْ فِتْيَۃ آمَنُوا بِرَبِّہمْ وَزِدْنَاہمْ ہدًی • وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہ إِلَہا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا • ہؤُلاَء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہ آلِہۃ لَّوْلاَ يَأْتُونَ عَلَيْہم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہ كَذِبًا • وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوہمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلاَ اللَّہ فَأْوُوا إِلَی الْكَہفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحمتہ ويُہيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا (الکھف: 13 تا 16)
وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے اُن کے دل اُس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ ہم اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے ۔ (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) یہ ہماری قوم تو ربِ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے ۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ آخر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟ اب جب کہ تم ان سے اور ان کے معبود اِن غیر اللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سر و سامان مہیا کرے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا ذکر قرآن میں آتا ہے ۔ان برگزیدہ پیغمبروں اور ان کی بیویوں کے درمیان صرف اس بنا پر تفریق رہ جاتی ہے کہ ان کی بیویوں کا عقیدہ خاوندوں کے عقیدہ سے جدا تھا اور وہ آلودۂ شرک تھیں:
ضَرَبَ اللَّہ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَۃ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاہمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہمَا مِنَ اللَّہ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ (تحریم: 10)
کافروں کی عبرت کے لیے اللہ نوحؑ کی عورت اور لوطؑ کی عورت کی مثال دیتا ہے ۔ یہ دونوں عورتیں ہمارے بندوں میں سے دو بندوں کے نکاح میں تھیں۔ ان دونوں نے ان سے خیانت کی مگر اللہ کی گرفت سے دونوں کے شوہر ان کو نہ بچا سکے اور دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جاؤ دوسرے لوگوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔
ساتھ ہی جابر و سر کش فرمانروا فرعون مصر کی بیوی کی مثال بیان کی گئی ہے اور اہلِ ایمان کے لیے اُسوہ کے طور پر اُس کا ذکر کیا گیا ہے :
وَضَرَبَ اللَّہ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا اِمْرَأَۃ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّۃ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (تحریم: 11)
اور اہلِ ایمان کی نصیحت کے لیے اللہ فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے جب کہ اُس نے دعا کی: اے میرے پروردگار! میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھ کر فرعون اور اُس کے کردارِ بد سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے بھی نجات دے ۔
علی ہذا القیاس قرآن نے ہر نوعیت کے رشتوں اور قرابتوں کے بارے میں مختلف مثالیں بیان کی ہیں۔ نوح علیہ السلام کے قصہ میں رشتۂ پدری کی مثال ملے گی، حضرت ابراہیمؑ کے قصے میں بیٹے اور وطن کے رشتے کی مثال بیان کی گئی ہے ، اصحابِ کہف کے قصے میں اعزہ و اقارب، قبیلہ و برادری اور وطن و قوم کے رشتہ کی جامع مثال پیش کی گئی ہے ، حضرت نوح اور لوط علیہما السلام کے قصے اور فرعون کے تذکرے میں ازدواجی تعلق کی مثال دی گئی ہے ۔ قرآن کی نظر میں یہ تمام رشتے عقیدہ و ایمان کے ابدی رشتہ اور سرمدی رابطہ کے انقطاع کے بعد ناقابلِ لحاظ قرار پاتے ہیں۔
قومِ رسولِ ہاشمی کی بِنائے ترکیب
جب انبیاء کی برگزیدہ جماعت روابط و تعلقات اور رشتوں اور برادریوں کا حقیقی پیمانہ اور پاکیزہ تصور پیش کر چکتی ہے تو امت وسط کی باری آتی ہے ۔ چنانچہ امت وسط کے اندر بھی اس نوعیت کی مثالوں اور نمونوں اور تجربوں کا وسیع اور ایمان افروز ذخیرہ ملتا ہے ۔ یہ امت بھی اُسی ربانی راستے پر گامزن نظر آتی ہے جو ازل سے اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان کے گروہ کے لیے منتخب و پسند فرمایا ہے ۔ اس امت کے اندر بھی آپ دیکھیں گے کہ جب رشتۂ ایمان ٹوٹ جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جب انسان اور انسان کے درمیان اولین رشتہ منقطع ہو جاتا ہے تو ایک ہی خاندان اور قبیلے کے لوگ جُدا جُدا گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، بلکہ ایک ہی گھر کے مختلف افراد میں جُدائی واقع ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالٰی مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
لاَ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہ وَرَسُولَہ وَلَوْ كَانُوا آبَاءہمْ أَوْ أَبْنَاءہمْ أَوْ إِخْوَانَہمْ أَوْ عَشِيرَتَہمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِہمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَہم بِرُوحٍ مِّنْہ وَيُدْخِلُہمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِہا الْأَنْہارُ خَالِدِينَ فِيہا رَضِيَ اللَّہ عَنْہمْ وَرَضُوا عَنْہ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّہ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ اللَّہ ہمُ الْمُفْلِحُونَ (مجادلہ: 22)
جو لوگ اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تُو انہیں ان لوگوں سے دوستی کرتے نہ پائے گا جو اللہ اور اُس کے رسول کے دشمن ہیں گو وہ اُن کے باپ، یا بیٹے یا بھائی یا اہلِ قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ (اہل ایمان) وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے اندر اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور فیضانِ غیبی سے اُن کی تائید کی ہے ۔ اور وہ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے ۔ خدا اُن سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہ خدائی گروہ ہے ۔ اور آگاہ رہو کہ خدائی گروہ ہی فلاح پانے والا ہے ۔
ایک طرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے چچا ابو لہب اور آپ کے ہم قبیلہ عمرو بن ہشام (ابو جہل) کے درمیان خونی اور نسلی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، مہاجرینِ مکہ اپنے اہل و اقربا کے خلاف برسرِ جنگ نظر آتے ہیں اور معرکۂ بدر میں ان کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف مکہ کے ان مہاجرین کے درمیان اور یثرب کے انصار کے درمیان عقیدہ کا سرمدی رشتہ استوار ہو جاتا ہے اور وہ سگے بھائی بن جاتے ہیں اور خونی اور نسلی رشتے سے بھی زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔ یہ رشتہ مسلمانوں کی ایک نئی برادری کو جنم دیتا ہے اس برادری میں عرب بھی شامل ہیں اور غیر عرب بھی۔ روم کے صہیب بھی اس کے رکن ہیں اور حبش کے بلال اور فارس کے سلمان بھی۔ ان کے درمیان قبائلی عصبیت مٹ جاتی ہے ، نسلی تعصب و تفاخر ختم ہو جاتا ہے ، وطن اور قوم کے نعرے تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ کا پیغمبر اُن سب سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے :
• دعوھا فانھا منتنۃ (ان عصبیتوں سے دست بردار ہو جاؤ یہ متعفن لاشیں ہیں)
• لیس منا من دعا الی عصبیۃ، و لیس منا من قاتل علی عصبیۃ، و لیس منا من مات علی عصبیۃ (جو کسی جاہلی عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت پر مرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے )
دارالاسلام اور دارالحرب
الغرض ان مردار و متعفن عصبیتوں کا چلن ختم ہو گیا۔ نسبی تعصب کا مردار لاشہ دفن کر دیا گیا، نسلی برتری کا جاہلی نعرہ پاؤں تلے روند ڈالا گیا، قومی گھمنڈ کی گندگی زائل کر دی گئی اور اُس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ اور انسان نے گوشت اور خون کے تعفن اور زمین و وطن کے لوث سے آزاد رہ کر آفاق عالم کے عطر بیز چمنستان میں مشام جان کو معطر کیا۔ اس دن سے مسلمان کا وطن جغرافی حدود اربعہ میں محدود نہیں رہا بلکہ پورا دارالاسلام اس کا وطن ٹھیرا۔ وہ وطن جہاں عقیدہ و ایمان کی حکمرانی ہوتی ہے ، اور صرف شریعتِ الٰہی کا سکہ رواں ہوتا ہے ۔ یہی وطن مسلمان کی پناہ گاہ بنا، اسی کی مدافعت کے لیے وہ کمربستہ رہا اور اسی کے تحفظ و استحکام میں اُس نے جان کا نذرانہ پیش کیا اور اُس کی توسیع و اضافہ میں اُس نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ دارالاسلام ہر اُس شخص کا مامَن ہے جو عقیدۂ اسلام کا قلاوہ گلے میں ڈال لیتا ہے ، اور شریعت اسلامی کو قانون زندگی کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے ، وہ ش۔خص بھی اس پناہ گاہ سے استفادہ کر سکتا ہے جو مسلمان تو نہیں ہے مگر اسلامی شریعت کو نظام ریاست کی حیثیت سے قبول کرتا ہے ۔ جیسا کہ ان اہلِ کتاب کا معاملہ ہے جو دارالاسلام کے اندر بودوباش رکھتے ہیں۔ مگر وہ سرزمین جس پر اسلام کی حکمرانی کا پھریرا نہ لہراتا ہو اور شریعتِ الٰہی کو نافذ نہ کیا جاتا ہو وہ مسلمان کے لیے بھی اور دارالاسلام کے معاہد ذمی کے لیے بھی دارالحرب ہے ۔ مسلمان اس کے خلاف شمشیر بکف رہے گا خواہ وہ اُس کی جنم بھومی ہو، اُس سے اُس کے نسبی اور سسرالی رشتہ وابستہ ہوں، اس کے اموال و املاک اُس میں موجود ہوں اور اُس کے مادی مفادات اُس سے وابستہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے خلاف تلوار اٹھائی حالانکہ مکہ آپؐ کا پیدائشی اور آبائی وطن تھا۔ وہیں آپؐ کے اعزہ و اقارب اور خاندان کے لوگ رہتے تھے ، آپؐ کے اور آپؐ کے صحابہ کے مکانات اور جائیدادیں بھی وہیں تھیں۔ جنہیں آپؐ ہجرت کے وقت وہاں چھوڑ آئے تھے ۔ مگر مکہ کی سرزمین پیغمبر خدا کے لیے اور ان کی امت کے لیے اُس وقت تک دارالاسلام نہ بن سکی جب تک وہ اسلام کے آگے سرنگوں نہیں ہو گئی اور شریعت غرّا کے ہاتھ اقتدار کی مسند نہیں آ گئی۔
اسی کا نام اِسلام ہے ، یہی نرالا تصور زندگی اسلام کہلاتا ہے ، اسلام چند اشلوکوں کا نام نہیں ہے کہ بس انہیں زبان سے دُہرا دینا ہی کافی ہو، اور نہ کسی مخصوص سرزمین کے اندر جس پر اسلام کا بورڈ چسپاں ہو یا جو اسلامی نام سے پکاری جاتی ہو پیدا ہو جانے سے کسی آدمی کو خود بخود اسلام کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے ، اور نہ یہ مسلمان والدین کے گھر میں پیدا ہونے سے وراثت میں مل جاتا ہے ۔
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَہمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِہمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (نساء: 65)
نہیں اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے ۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔
صرف اسی کا نام اسلام ہے ، اور صرف وہی سرزمین دارالاسلام ہے جہاں اس کی حکومت ہو۔ یہ وطن و نسل، نسب و خون اور قبیلہ و برادری کی حد بندیوں سے بالا و برتر ہے ۔
اسلامی وطن اور اس کے دفاع کا اصل محرک
اسلام نے آ کر انسانوں کو ان تمام زنجیروں سے رہا کیا جنہوں نے اُسے زمین کی پستی سے باندھ رکھا تھا، تاکہ انسان آسمان کی پہنائیوں میں پرواز کے قابل ہو سکے ۔ خون و نسب کے تمام سفلی طوق و سلاسل پاش پاش کر دے تاکہ انسان آزاد ہو کر بلند ترین فضاؤں میں پرواز کر سکے ۔ اسلام نے بتایا کہ مسلمان کا وطن زمین کا کوئی مخصوص خطہ نہیں ہے جس کی محبت میں اُسے تڑپنا چاہیے اور جس کے دفاع میں اُسے جان کی بازی لگانی چاہیے ، مسلمان کی قومیت جس سے وہ متعارف ہوتا ہے کسی حکومت کی عطا کردہ نیشنلٹی نہیں ہے ، مسلمان کی برادری جس کی وہ پناہ لیتا ہے اور جس کی خاطر لڑتا اور مرتا ہے وہ خون کے رشتہ سے ترکیب نہیں پاتی۔ مسلمان کا پرچم جس پر وہ ناز کرتا ہے اور جس کو اونچا رکھنے کے لیے وہ جان تک کی بازی لگا دیتا ہے وہ کسی قوم کا پرچم نہیں ہے ، مسلمان کی فتح یابی جس کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے اور جس سے ہمکنار ہونے پر وہ خدا کے سامنے سجدۂ شکر ادا کرتا ہے ، وہ محض فوجی غلبہ نہیں ہے بلکہ وہ فتحِ حق ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :
إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّہ وَالْفَتْحُ • وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّہ أَفْوَاجًا • فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہ إِنَّہ كَانَ تَوَّابًا (سورۃ النصر)
جب آ گئی اللہ کی مدد اور فتح۔ اور تُو نے دیکھ لیا لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ۔ سو تُو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کر اور اُس سے استغفار کر، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top