جادہ و منزل از سید قطب شہید - صفحہ 400 تا آخر

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
جادہ و منزل از سید قطب شہید - صفحہ 400 تا آخر

نگاہ بلند و سخن دلنواز

معاشرے پر ایسے عقائد و افکار اور اقدار و اصول کو غلبہ ہوتا ہے جو مومن کے عقیدہ و فکر اور پیمانہ و میزان کے منافی بلکہ شدید مخالف ہوتے ہیں۔ مگر یہ احساس اس سے کبھی جُدا نہیں ہوتا کہ وہ اعلیٰ اور ارفع مقام پر متمکن ہے اور یہ تمام دنیا پرست اور عیش کوش لوگ اس سے کہیں زیادہ فروتر مقام پر ہیں۔ وہ اپنے بلند مقام سے ان لوگوں پر جب نگاہ دوڑاتا ہے تو ایک طرف وہ اپنی حد تک عزت نفس اور خود داری اور خود پسندی سے مملو ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کے بارے میں اُس کا دل ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے۔ اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہدایت کی جو روشنی اسے اللہ نے ارزاں فرمائی ہے انہیں بھی نصیب ہو اور جس اُفق بلند پر وہ خود محو پرواز ہے اُن کو بھی وہاں تک اُٹھا لائے۔

باطل ایک ہنگامہ محشر برپا کرتا ہے، ہاؤ ہو کا غلغلہ بلند کرتا ہے، گرجتا اور دھاڑتا ہے، سینہ تانتا اور مُوچھوں کو تاؤ دیتا ہے، اُس کے چاروں طرف (قلق پیشہ اور خوشامدیوں کی طرف سے) ایسا مصنوعی ہالہ قائم کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی بصارت اور بصیرت دونوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ یہ دیکھ ہی نہیں پاتیں کہ اس خیرہ کُن ہالہ کے پیچھے کیا گھناؤنی رُوح اور قبیح تصویر مستور ہے اور کیسی منحوس اور تاریک " صبح " پنہاں ہے !!

مومن اپنے مقام بلند سے باطل اور اس کی ہنگامہ آرائیوں کو دیکھتا ہے۔ فریب خوردہ انسانی جماعتوں پر نظر ڈالتا ہے، مگر وہ کسی احساسِ ضعف کا شکار نہیں ہوتا اور نہ اُسے کوئی رنج و غم لاحق ہوتا ہے۔ اور نہ حق پر اس کی ثابت قدمی میں کوئی کمی اور راہِ مستٰقیم پر اس کی استقامت میں کوئی تزلزل پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ گُم گشتگان راہ اور فریب خوردہ انسانوں کی ہدایت کے لیے اُس میں جو تڑپ اور بے تابی پائی جاتی ہے اس میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔

معاشرہ پست اور ذلیل خواہشوں میں ڈوبا ہوتا ہے، سفلی جذبات کی رَو میں بہ رہا ہوتا ہے، گندگی اور کیچڑ سے آلودہ ہوتا ہے۔ اس خیالِ خام میں مگن ہوتا ہے کہ وہ لذائذ زندگی سے محفوظ ہو رہا ہے اور بندھنوں سے آزاد ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ معاشرے کے اندر پاکیزہ تفریح اور لقمئہ حلال کمیاب بلکہ نایاب ہو جاتا ہے۔ گندگی کے جوہڑوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ جدھر دیکھو غلاظت اور فضلات کے ندی نالے بہ رہے ہوتے ہیں۔ مومن کیچڑ کے اندر غرق ہونے والوں اور غلاظت سے چمٹے ہوئے انسانوں کو اُوپر سے جھانکتا ہے اور بایں ہمہ کہ وہ اس پورے ماحول میں یکہ و تنہا ہوتا ہے۔ اُس کے حوصلوں میں کوئی احساسِ شکست اور اس کے قلب و جگر میں کوئی غم جا گزین نہیں ہوتا۔ اور اُس کے نفس میں کبھی یہ اکساہٹ پیدا نہیں ہوتی کہ اپنا پاکیزہ و بے داغ لباس اُتار کر وہ بھی ننگوں کے اس حمام میں ننگا ہو جائے اور اس متعفن تالاب میں غوطے لگانے لگے۔ مومن جس نشئہ ایمان اور لذت یقین سے شرمسار ہوتا ہے اُس کی بدولت وہ اپنے آپ کو بہت اعلیٰ و ارفع مقام پر محسوس کرتا ہے۔

ایک ایسے معاشرے کے اندر جو دین سے باغی ہو، مکارم و فضائل سے عاری اور اعلیٰ و برتر قدروں سے خالی اور شریفانہ مہذب تقریبات سے ناآشنا ہو۔ الغرض ہر اُس پہلو سے بے گانہ ہو چکا ہو جو پاکیزگی و حُسن اور طہارت و نفاست کی تعریف میں آ سکتا ہے۔ ایسے معاشرے کے اندر مومن اپنے دین کا دامن اُسی طرح تھامے رکھتا ہے جس طرح کوئی شخص آگ کا انگارہ مُٹھی میں لیے ہو۔ رہے دوسرے لوگ تو وہ اس کی اس جرات مندی پر پھبتیاں کستے ہیں، اس کے افکار کا تکشخر اُڑاتے ہیں، اس کی محبوب اقدار کو نشانہ استہزا بناتے ہیں۔ مگر مومن ہے کہ یہ سب کچھ سُنتا ہے، اور سہتا ہے مگر دون ہمتی اور کم حوصلگی کا شکار نہیں ہوتا، وہ احساس برتری کے ساتھ ان چھچھوروں پر نظر ڈالتا ہے اور اُس کی زبان پر وہی کلمات جاری ہو جاتے ہیں جو اس برگزیدہ گروہ کے ایک فرد حضرت نوح علیہ السلام کی زبان پر جاری ہوئے تھے جو تاریخ کی پُرخار اور طویل وادیوں میں ایمان و عشق کے نورانی اور غیر منقطع کارواں کے ہمراہ گزر چکے ہیں۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے تمسخر اُڑانے والوں سے فرمایا تھا :

۔۔۔۔۔َ اِن تَسْخَرُواْ مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ۔ (ھود : 38 )

آج اگر تم ہماری ہنسی اُڑاتے ہو تو ہم بھی تمہاری ہنسی اُڑائیں گے جس طرح تم ہنسی اُڑا رہے ہو۔

مومن کو اس نورانی کارواں اور اس کے بالمقابل بد قسمت و سوختہ نصیب قافلہ دونوں کے انجام کا نقشہ اللہ تعالٰی کے اس بیان میں نظر آ جاتا ہے :

اِنَّ الَّذِينَ اَجْرَمُوا كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ۔ وَاِذَا مَرُّواْ بِھِمْ يَتَغَامَزُونَ ۔ وَاِذَا انقَلَبُواْ اِلَى اَھْلِھِمُ انقَلَبُواْ فَكِھِينَ۔ وَإِذَا رَاَوْھُمْ قَالُوا اِنَّ ھَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ ۔ وَمَا اُرْسِلُوا عَلَيْھِمْ حَافِظِينَ ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُواْ مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ۔ عَلَى الْاَرَائِكِ يَنظُرُونَ ۔ ھَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ۔ (المطففین : 29 تا 36)


بے شک مجرم (دنیا میں) ایمان والوں کے ساتھ ہنسی کیا کرتے تھے۔ اور جب اُن کے پاس سے ہو کر گزرتے تو ان سے آنکھیں مارتے۔ اور جب اپنے اہل کی طرف لوٹ کر جاتے تو (مسلمانوں کے تذکروں کا) مشغلہ بناتے۔ اور جب مسلمانوں کو دیکھتے تو بول اٹھتے کہ بے شک یہ لوگ گمراہ ہیں۔ حالانکہ انہیں (مسلمانوں پر) داروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آج (آخرت میں) مسلمان کافروں پر ہنسیں گے اور تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے۔ کیا کافروں نے اب کیے کا بدلہ پا لیا؟

اس سے بھی پہلے قرآن کریم نے ہمارے سامنے کافروں کا یہ قول نقل کیا ہے جو وہ اہل ایمان سے کہا کرتے تھے :

وَاِذَا تُتْلَى عَلَيْھِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُواْ اَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَاَحْسَنُ نَدِيًّا۔ (مریم : 73)

ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں : بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں۔

یعنی دونوں فریقوں میں سے کون سا فریق اچھا ہے؟ وہ مُکھیا اور سردار اور مالدار لوگ جو محمد (صلی اللہ علی وسلم) پر ایمان نہیں لاتے یا وہ نادار اور بے کس لوگ جو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہیں؟ نصر بن حارث، عمرو بن ہشام، ولید بن مغیرہ اور ابو سفیان بن حرب جیسے اکابر قوم یا بلال، عمار، صہیب اور خباب جیسے بے سہارا افراد؟ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کوئی بھلی دعوت ہوتی تو کیا آپ صلی اللہ علی وسلم کے پیروکار ایسے ہی بدحال لوگ ہوتے جنہیں قریش کے اندر کوئی دبدبہ اور وقار حاصل نہیں؟ آپس میں مل بیٹھنے کے لیے ایک معمولی سے مکان (دارارقم) کے سوا انہیں اور کوئی جگہ بھی میسر نہیں، جب کہ اُن کے مخالفین ایک عظیم الشان اور پُرشکوہ چوپال کے مالک ہیں۔ جاہ و جلال ان کے قدم چومتا ہے، قوم کی ناخدائی ان کو حاصل ہے ۔۔۔۔۔ یہ ہے دُنیا پرستوں کا نقطہ نگاہ اور ان لوگوں کا ظرز فکر جن کی نگاہوں پر ہر زمانے اور ہر جگہ میں پردے پڑے رہے اور بلندیوں کو نہ دیکھ سکے۔ یہ حکمت الہٰی کا فیصلہ ہے کہ عقیدہ و ایمان دنیاوی زیب و زینت اور ظاہری مینا کاری اور سجاوٹ سے محروم اور اسباب تحریص و ترغیب سے پاک رہے گا۔ اسے قبول کرنے کا محرک کسی حاکم کا تقرب، کسی جاہ و اقتدار کی حرص، کوئی مرغوب نعرہ اور کسی خواہش کی تسکین نہ ہو گی، بلکہ جہد و مشقت، جانکاہی و جہاد اور سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ اس کا اصل محرک ہو گا۔ تا کہ جو اس کُوچہ میں آئے وہ اس یقین کے ساتھ آئے کہ وہ اس نظریئے کو بحیثیت عقیدہ قبول کر رہا ہے۔ وہ اس کو کسی انسان کی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ خالصتًہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے قبول کرے اور تمام لالچوں اور داعیات سے بری ہو جن پر عام انسان فریفتہ ہوتے ہیں۔ تا کہ اس عقیدہ کو کوئی ایسا شخص اپنانے کی جرات ہی نہ کر سکے جو دنیاوی منفعتوں کا طالہب ہو۔ بندہ حرص و آز ہو، جاہ و حشمت اور ٹھاٹھ باٹھ کا پجاری ہو اور جس کے نزدیک انسانی تصورات اللہ کی مرضی اور خوشنودی کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہوں، خواہ اللہ کے نزدیک وہ قطعاً بے وقعت ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
مومن کی شان

مومن اپنی اقدار و نظریات اور اپنے پیمانے اور باٹ انسانوں سے نہیں لیتا کہ اُسے انسانوں کے اندازوں کے پیچھے پیچھے چلنے کی حاجت محسوس ہو۔ بلکہ وہ انسانوں کے رب سے لیتا ہے اور وہی اُس کے لیے کافی و دانی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ مخلوق کی مرضی اور خواہشات کو بھی اپنے لیے معیار نہیں بناتا کہ اُسے مخلوق کی خواہشات کے ساتھ ساتھ لڑھکتے رہنے کی ضرورت ہو، بلکہ اس کا ماخذ وہ میزان حق ہوتی ہے جس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا اور جوکبھی اِدھر اُدھر ڈانواں ڈول نہیں ہوتی۔ وہ اس سب چیزوں کو اس محدود فانی دُنیا سے نہیں لیتا بلکہ یہ ان ابدی چشموں سے اُبل کر اس کے ضمیر کو منور کرتی ہیں جہاں سے ساری کائنات کو خلعت وجود ملا ہے۔ تو پھر وہ اپنے اندر کوئی کمزوری اور اپنے دل میں کوئی حزن و ملال کیوں کر محسوس کر سکتا ہے جب کہ اس کا سر رشتہ پروردگارِ عالم سے، میزانِ حق سے اور سر چشمئہ کائنات سے استوار اور وابستہ ہے؟

وہ حق پر ہے۔ حق کو چھوڑنے کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا اس کے ہاتھ لگ سکتا ہے؟ ضلال کے پاس اگر جاہ و اقتدار اور دبدبہ و طنطنہ ہے۔ اگر طبلچی اور ڈھنڈورچی اور عوام کے غول اس کے جلو میں ہیں، تو ہوا کریں ان سے حق میں رائی بھر بھی تغیر واقع نہیں ہو سکتا۔ مومن حق پر ہے، حق کو چھوڑ کر سوائے غلال کے کچھ نہیں مل سکتا۔ پس مومن اگر کھرا مومن ہے تو وہ ہر گز حق کے بجائے باطل کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ اور حق کے عوض ضلال کا سودا نہیں کر سکتا۔ حالات چاہے کچھ ہوں، مومن یہ یہ توقع کہ وہ حق کے بجائے باطل کا انتخاب کرے گا، عبث ہے :

رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَۃً اِنَّكَ اَنتَ الْوَھَّابُ۔ رَبَّنَا اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيہِ اِنَّ اللّہَ لاَ يُخْلِفُ الْمِيعَادَ۔ (آل عمران : 8، 9 )

اے ہمارے پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چُکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔ ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تُو ہی فیاض حقیقی ہے۔ اے پروردگار تو یقیناً سب لوگوں کو ایک روز جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ بے شک اللہ ہرگز اپنے وعدہ سے ٹلنے والا نہیں ہے۔
*************
 

شمشاد

لائبریرین
باب دوازدہم

وادی پُرخار

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ۔ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ۔ وَشَاھِدٍ وَمَشْھُودٍ۔ قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُودِ۔ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ۔ اِذْ ھُمْ عَلَيْھَا قُعُود۔ وَھُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ۔ بِالْمُؤْمِنِينَ شُھُود۔ وَمَا نَقَمُوا مِنْھُمْ اِلَّا اَن يُؤْمِنُوا بِاللَّہِ الْعَزِيزِ الْحَمِيد۔ الَّذِي لَہُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاللَّہُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَھِيدٌ۔ اِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ۔ اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَھُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ۔ اِنَّہُ ھُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ۔ وَھُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ۔ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ۔ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ۔ (البروج : 1 تا 16)

قسم ہے بُرجوں والے آسمان کی۔ قسم ہے اُس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ قسم ہے گواہی دینے والے کی اور اس کی جس کے مقابلے میں گواہی دی گئی۔ کہ مارے گئے خندقوں والے، آگ کی خندقیں جن میں انہوں نے بہت سا ایندھن جھونک رکھا تھا۔ اور وہ خندقوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اہلِ ایمان کے ساتھ جو (ظلم و ستم) وہ کر رہے تھے اُس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہ اہلِ ایمان کی اس بات سے برافروختہ تھے کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور سزاوار حد ہے۔ اوراُس کی بادشاہت ہے آسمانوں کی اور زمینوں کی، اور اللہ ہر چیز کے حال سے واقف ہے۔ بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی ایذائیں دیں اور پھر توبہ نہ کی ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اُن کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ بے شک تیرے رب کی گرفت بڑی سخت ہے۔ وہی ہے جو اول بار پیدا کرتا ہے اور وہی ہے جو (قیامت کے روز) دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور وہ بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے۔ عرش کا مالک ہے اور عالی شان والا ہے۔ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔

قصہ اصحاب الاخدود کے اسباق

اصحاب الاخدود کا قصہ، جو سورۃ البروج میں بیان ہوا ہے، اس لائق ہے کہ اس پر وہ تمام اہل ایمان غور و تدبر کریں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں اور تاریخ کے کسی بھی عہد میں دعوت الی اللہ کا کام کر رہے ہوں۔ قرآن نے اس قصہ کو جس طرح بیان کیا ہے، جس انداز سے اس کی تمہید قائم کی ہے اور پھر اس پر جو تبصرے کیے ہیں اور ساتھ ساتھ جو تعلیمات اور فیصلے بیان کیئے ہیں اس سب باتوں کے ذریعہ قرآن نے درحقیقت وہ بنیادی خطور اجاگر کیے ہیں جو دعوت الی اللہ کی فطرت، اس دعوت کے بارے میں انسانوں کے رویے اور ان امکانی حالات کی نشان دہی کرتے ہیں جو اس دعوت کی وسیع دنیا میں ۔۔۔۔۔ جس کا رقبہ کرہ ارضی سے زیادہ وسیع اور جس کا عرصہ دنیاوی زندگی سے زیادہ طویل ہے ۔۔۔۔ پیش آ سکتے ہیں۔ قرآن نے اس قصہ میں اہلِ ایمان کے سامنے اُن کے راستے کے نمایاں نقوش بھی واضح کر دیئے ہیں، اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اس راہ میں پیش آنے والی ہر امکانی مصیبت کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کریں جو پردہ غیب میں مستور و پنہاں، حکمتِ خداوندی کے تحت تقدیر کی طرف سے صادر ہو۔

ایلِ ایمان کی فتح

یہ ایک ایسی جماعت کا قصہ ہے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئی تھی اور اُس نے اپنے سچے ایمان کا صاف صاف اظہار کرنا چاہا۔ مگر اُسے جابر اور سخت گیر دشمنوں کے ہاتھوں شدید مصائب کا نشانہ بننا پڑا جو انسان کے اس بُنیادی حق کو پامال کرنے پر تُلے ہوئے تھے جو اُسے عقیدہ حق اختیار کرنے اور خدائے عزیز و حمید پر ایمان رکھنے کے لیے حاصل ہے۔ اور انسان کے اُس شرف کی دھجیاں اُڑا رہے تھے جس سے اللہ نے انسان کو خاص طور پر نواز رکھا ہے تا کہ وہ دنیا میں ایک کھلونا بن کر نہ رہ جائے کہ ظالم و سنگدل حکام اُس کو عذاب دے دے کر اُس کے آہوں اور چیخوں سے اپنا دل بہلائیں، اُسے آگ میں بھونیں اور اپنے لیے تفریح اور لطف اندوزی کا سامان پیدا کریں۔ یہ نفوس قدسیہ ایمان و عقیدہ کے جس جذبہ سے سرشار تھے اُس کی بدولت وہ اس آزمائش میں پورے اترے۔ اور جس امتحان میں انہیں ڈالا گیا تھا اُس میں بالآخر فانی زندگی نے عقیدہ کے ہاتھوں شکست کھائی۔ چنانچہ یہ لوگ ان جباروں اور ظالموں کی کسی دھمکی اور دباؤ سے مرعوب و متاثر نہیں ہوئے۔ آگ کے عذاب میں جل کر موت کی آغوش میں چلے گئے مگر اپنے دین سے سرمو ہٹنے کے لیے بھی تیار نہ ہوئے۔ درحقیقیت یہ پاکیزہ نفوس دنیا کی حیات مستعار کی محبت و پرستش سے آزاد ہو چکے تھے۔ اسی لیے بہیمانہ موت کا بچشم سر مشاہدہ کرنے کے باوجود زندہ رہنے کی خواہش انہیں ترک عقیدہ کی ذلت قبول کرنے پر آمادہ نہ کر سکی۔ وہ عالم سفلی کی بندشوں اور اسباب کشش سے نجات پا کر عالم علوی کی طرف پرواز کر گئے۔ یہ فانی زندگی پر ابدی عقیدہ کی فتح کا کرشمہ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اصحاب الاخدود کا جانوروں سے بدتر گروہ

ان ایمان سے معمور، بلند فطرت، صالح اور پیکر شرافت نفوس کے بالمقابل باغی، سرکش ،لئیم اور مجرم انسانوں کی منڈلی تھی جو آگ کے الاؤ کے پاس بیٹھ کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھ رہی تھی کہ اہلِ ایمان کیسے تڑپتے اور کیسے دُکھ سہتے ہیں۔ وہ اس منظر سے لُطف اندوز ہو رہے تھے کہ آگ جیتے جاگتے انسانوں کو کس طرح چاٹتی ہے اور کس طرح یہ گروہ شرفا چشمِ زدن میں راکھ کے ڈھیروں میں تبدیل ہوتا ہے۔

جب کسی نوجوان یا دوشیزہ ، بچی یا بوڑھی، کمسن یا سال خوردہ مومن کو آگ میں لا کر جھونکا جاتا تو ان درندوں کی بدمستی بڑھ جاتی اور خون کے فواروں اور گوشت کے ٹکڑوں کو دیکھ دیکھ کر وہ پاگلوں کی طرح ناچتے اور شور مچاتے۔ یہ انسانیت سوز واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان بدبخت ظالموں کی جبلت اس حد تک مسخ اور خاک آلودہ ہو چکی تھی کہ ان کے لیے یہ بہیمانہ اور خوف ناک عذاب سامان لطف و وجہ لذت تھا، گراوٹ کی یہ وہ انتہا ہے کہ جنگل کا کوئی درندہ بھی اب تک اس حد تک نہیں پہنچ سکا۔ اس لیے کہ درندہ اگر شکار کرتا ہے تو خوراک حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے، نہ کہ اپنے نیم جاں نخچیر کو پھڑپھڑاتا دیکھ کر لذت حاصل کرنے کے لیے۔ اور ساتھ ہی یہ واقعہ اس امر کا پتہ بھی دیتا ہے کہ خدا پرست اہلِ ایمان کی روحوں نے اس آزمائش میں کس طرح اس اوج کمال تک کو جا چھوا جو ہر دور اور ہر زمانے میں انسانیت کا نقطہ عروج سمجھا گیا ہے۔

اس معرکے میں کس کو فتح نصیب ہوئی

دنیا کے پیمانے سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ظلم نے عقیدہ پر فتح پائی اور صالح و صابر اور خدا پرست گروہ کی ایمانی قوت جو بلا شبہ نقطہ کمال تک پہنچ چکی تھی اس ظلم و ایمان کے معرکے میں بے وزن و بے وقعت ثابت ہوئی۔ نہ قرآن ہی یہ بتاتا ہے اور نہ وہ روایات ہی یہ بتاتی ہیں جو اس واقعہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ان ظالموں کو بھی ان کے جرم شدید کی اسی طرح سزا دی ہو، جس طرح قوم نوح علیہ السلام، قوم ہود، قوم صالح، قوم شعیب علیہ السلام اور قوم لُوط علیہ السلام کو دی ہے یا جس طرح فرعون اور اس کے لشکریوں کو پوری قاہرانہ و مقتدرانہ شان کے ساتھ پکڑا تھا۔ گویا دنیا پرست کے نقطہ نظر سے اس واقعہ کا اختتام بڑا افسوس ناک اور الم انگیز ہے۔

مگر کیا بات صرف یہیں پر ختم ہو جاتی ہے؟ کیا ایمان کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جانے والی خدا پرست جماعت ان زہرہ گداز آلام کے نتیجے میں آگ کی خندقوں میں راکھ بن کر ملیامیٹ ہو گئی اور گروہ مجرمین جو رذالت اور کمینگی کی آخری حد کو پھلانگ چکا تھا، وہ دنیا میں سزا سے صاف بچ گیا۔ جہاں تک دنیاوی حساب کا تعلق ہے اس افسوس ناک خاتمے کے بارے میں دل میں کچھ خلش سی اُٹھتی ہے۔ مگر قرآن اہل ایمان کو ایک دوسری نوعیت کی تعلیم دیتا ہے اور ان کے سامنے ایک اور ہی حقیقت کی پردہ کُشائی کرتا ہے۔ وہ ان کو ایک نیا پیمانہ دیتا ہے جس سے وہ اشیاء کا صحیح وزن جانچ سکیں اور اصل میدان سے آگاہ ہو سکیں۔

کامیابی کا اصل معیار

دنیا کی زندگی اور اس کی آسائشیں اور تکلیفیں، کامرانیاں اور محرومیاں ہی کارزار حیات میں فیصلہ کُن نہیں ہیں۔ یہی وہ مال نہیں ہے جو نفع اور نقصان کا حساب بتا سکے۔ نصرت صرف ظاہری غلبہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نصرت کے بے شمار صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ اللہ تعالٰی کی میزان فیصلہ میں اصل وزن عقیدہ کی متاع ہے۔ نصرت کی اعلٰی ترین شکل یہ ہے کہ روح مادہ پر غالب آ جائے، عقیدہ کو رنج و نحن پر کامیابی حاصل ہو اور آزمائش کے مقابلے میں ایمان فتح یاب ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اصحاب الاخدود کے واقعہ میں اہل ایمان کی روح نے خوف و کرب پر دنیا کی ترغیبات پر، زندگی کی محبت پر اور کڑی آزمائش پر وہ عظیم فتح پائی ہے کہ رہتی دنیا تک وہ بنی نوع انسان کے لیے طرہ افتخار رہے گی۔۔۔۔۔۔
یہی ہے اصل کامیابی۔

مومن کی موت بجائے خود اعزاز ہے

سب انسان موت کی آغوش میں جاتے ہیں۔ مگر اسباب موت مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن سب انسانوں کو یہ کامیابی نہیں ہوتی، نہ سب اتنا اونچا معیار ایمان پیش کر سکتے ہیں، نہ اس حد تک کامل آزادی حاصل کر سکتے ہیں، اور نہ وہ اتنے اُونچے اُفق تک پرواز کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہوتا ہے کہ وہ ایک مبارک گروہ کو اپنے بندوں میں سے چھانٹ لیتا ہے جو مرنے میں تو دوسرے انسانوں کے ساتھ شریک ہوتا ہے مگر ایک ایسا شرف و اعزاز اس کو نصیب ہوتا ہے جو دوسرے لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ یہ شرف و اعزاز اُسے ملا اعلٰی میں ملتا ہے۔ بلکہ اگر پے در پے آنے والی انسانی نسلوں کے نقطہ نظر کو بھی حساب میں شامل کر لیں تو خود دنیا کے اندر بھی ایسا مبارک گروہ شرف و اعزاز کا مرتبہ بلند حاصل کر لیتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ان مومنین نے انسانی نسل کی لاج رکھی ہے

مومنین ایمان ہار کر اپنی جانوں کو بچا سکتے تھے۔ لیکن اس میں خود ان کا اپنا کتنا خسارہ ہوتا اور پوری انسانیت کو کس قدر خسارہ پہنچتا، کتنا بڑا خسارہ تھا کہ اگر وہ اس روشن حقیقت کو پامال کر دیتے کہ زندگی ایمان سے خالی ہو تو وہ ایک کوڑی کی بھی نہیں رہتی، نعمتِ آزادی سے تہی ہو تو قابل نفرین ہے اور اگر ظالم و نافرمان لوگ اس حد تک جری ہو جائیں کہ جسموں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد دلوں اور رُوحوں پر بھی حکمرانی کرنے لگیں تو یہ زندگی کی انتہائی گراوٹ ہے۔ یہ وہ پاکیزہ و ارفع حقیقیت ہے جسے اہلِ ایمان نے اسی وقت پا لیا تھا جب کہ وہ ابھی دنیا میں موجود تھے۔ جب آگ ان کے جسموں کو چُھو رہی تھی تو وہ اسی عظیم حقیقیت اور پاکیزہ اصول پر کاربند تھے۔ ان کے فانی جسم آگ سے جل رہے تھے اور یہ عظیم اور پاکیزہ اصول کامیابی کا لوہا منوا رہا تھا بلکہ آگ اسے مزید نکھار کر کُندن بنا رہی تھی۔

حق و باطل کی کشمکش کا فریق اور میدان

حق و باطل کی کے معرکہ کا میدان صرف اس دنیا کا اسٹیج نہیں ہے۔ اور زندگی صرف اسی دنیاوی زندگی کا نام نہیں ہے۔ شرکائے معرکہ صرف وہ لوگ ہی نہیں ہیں جو اس نسل سے تعلق رکھتے ہوں، جس میں معرکہ برپا ہو۔ دنیا کے تمام واقعات میں خود ملاء اعلٰی شریک ہوتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہیںاور ان پر گواہ رہتے ہیں۔ انہیں اس میزان میں تولتے ہیں جو کسی خاص وقت اور نسل کی دنیاوی میزان سے مختلف ہوتی ہے، بلکہ پوری انسانی نسل کی میزانوں سے وہ مختلف ہے۔ ایک وقت دنیا میں زمین پر جتنے انسان پائے جاتے ہیں ملاء اعلٰی اُس سے کئی گُنا زیادہ مبارک ارواح پر مشتمل ہیں۔ پس بلا شبہ لشکر حق پر ملاء اعلٰی کی ستائش و تکریم اہل دنیا کے فیصلوں، اندازوں اور عزت افزائیوں سے کہیں زیادہ عظیم اور وزنی ہوتی ہے۔

ان تمام مراحل کے بعد آخرت بھی ہے۔ یہ اصل اور فیصلہ کن میدان ہے۔ دنیا کا اسٹیج اس میدان سے متصل ہے، منفصل نہیں ہے، امر واقع کے اعتبار سے بھی اور مومن کے احساس و شعور کے لحاظ سے بھی۔ پس معرکہ حق و باطل دنیا کے اسٹیج پر ہی تمام نہیں ہو جاتا، اس کے حقیقی خاتمہ کا مرحلہ تو ابھی آیا ہی نہیں۔ دنیا کے اسٹیج پر اس معرکے کا جو حصہ پیش کیا گیا ہے صرف اُس پر کوئی حکم لگانا صحیح اور منصفانہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا اطلاق معرکے کے صرف چند معمولی ادوار پر ہو گا۔

اہل ایمان کے انعامات

پہلی قسم کی نگاہ (جس کے نزدیک ہر چیز کا فیصلہ دنیا کے اسٹیج پر ہی ہو جاتا ہے) کوتاہ، سطح بین اور محدود ہے۔ یہ عجلت پسند انسان کی نگاہ ہے۔ دوسری قسم کی نگاہ دُور اندیش، حقیقت شناس، جامع اور وسیع تر ہے۔ قرآن اہل ایمان کے اندر یہی نگاہ پیدا کرتا ہے۔ یہی نگاہ اس حقیقت کی صحیح ترجمان ہے جس پر صحیح ایمانی تصور کی عمارت قائم ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالٰی نے اہل ایمان سے ایمان و اطاعت میں ثابت قدم رہنے، آزمائش و امتحان میں کامیاب اٹرنے اور زندگی کی فتنہ پردازیوں پر فتح پانے پر جس صلہ اور ایمان کا وعدہ فرما رکھا ہے، وہ اہلِ ایمان کے لیے طمانیت قلب کا سامان فراہم کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُھُم بِذِكْرِ اللّہِ اَلاَ بِذِكْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ۔ (الرعد : 28 )

"جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ آگاہ رہو، اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔"

وہ صلہ رحمان کی خوشنودی اور محبت کے وعدہ پر مشتمل ہے :

اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا۔ (مریم : 96 )

" جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے عمل صالح کیے عنقریب رحمان اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔"

وہ ملاء اعلٰی کے اندر ذکر خیر کا وعدہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کسی بندے کا بچہ مر جاتا ہے، تو اللہ تعالٰی اپنے فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے کہ تم نے میرے فلاں بندے کے بچے کی روح قبض کر لی ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں : " ہاں " ۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے لخت جگر کی رُوح قبض کر لی ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں : " ہاں اے پروردگار"۔ اس پر اللہ تعالٰی اُن سے پوچھتا ہے کہ : " اس موت پر میرے بندے نے کیا کہا؟" فرشتے کہتے ہیں : " اُس نے آپ کی حمد فرمائی اور " انا للہ و انا الیہ راجعون " کہا۔" یہ سُن کر اللہ تعالٰی حکم دیتا ہے کہ "میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔" (ترمذی) نیز آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے " میں اپنے بندے کے لیے وہی کچھ ہوں جو میرے بارے میں وہ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی دل میں اُسے یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ لوگوں کے اندر میرا ذکر کرتا ہے تو میں اُن سے بہتر گروہ میں اُس کا ذکر کرتا ہوں، اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اُس کے قریب ہوتا ہوں، اگر وہ ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس کی طرف ایک قدم بڑھتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اُس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔ (بخاری و مسلم)۔

یہ وعدہ ہے اس بات کا کہ ملاء اعلٰی اہل ایمان کے لیے دُعاگو ہیں اور ان کے ساتھ گہری دلچسپی اور ہمدردی رکھتے ہیں۔

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِہِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَۃً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ۔ (غافر : 7 ) (کتاب میں المومن لکھا ہوا ہے)

"عرش الہٰی کے حامل فرشتے، اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔"

یہ وعدہ ہے اس بات کا کہ شہداء کے لیے اللہ کے پاس زندگی جاوید ہے :

وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُونَ۔ فَرِحِينَ بِمَا آتَاھُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِھِم مِّنْ خَلْفِھِمْ اَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلاَ ھُمْ يَحْزَنُونَ ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضْلٍ وَاَنَّ اللّہَ لاَ يُضِيعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ۔ (آل عمران : 169 تا 171 )

" جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں۔ اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں۔ کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
باغیوں کا انجام

اسی طرح اللہ تعالٰی نے پے در پے یہ وعید سُنائی ہے کہ وہ جُھٹلانے والوں، ظالموں اور سرکشوں اور مجرموں کو آخرت میں پکڑے گا اور دنیا میں ایک مدت مقررہ تک ان کی رسی ڈھیلی چھوڑے گا اور انہیں مہلت دے گا ۔۔۔۔۔ اگرچہ ان میں سے بعض کو اللہ تعالٰی نے کبھی کبھی دنیا میں بھی پکڑ لیا ہے ۔۔۔۔ لیکن اصل سزا کے لیے آخرت ہی پر زور دیا گیا ہے :

لاَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِي الْبِلاَدِ۔ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَاْوَاھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُ۔ (آل عمران : 196 – 197)

"ملک کے اندر خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکہ میں نہ ڈالے۔ یہ چند روزہ زندگی کا لُطف ہے، پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا جو بہت بُری جائے قرار ہے۔"

وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللّہَ غَافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ اِنَّمَا يُؤَخِّرُھُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيہِ الْاَبْصَارُ۔ مُھْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِھِمْ لاَ يَرْتَدُّ اِلَيْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْئِدَتُھُمْ ھَوَاءٌ۔ (ابراھیم : 42 – 43)


"یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کو تم اس سے غافل نہ وسمجھو۔ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب یہ حال ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔ سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور اڑے جاتے ہیں۔"

فَذَرْھُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَھُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ ۔ يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّھُمْ اِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ ۔ خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ ۔ (معارج : 42 – 44)

"انہیں بےہودہ باتیں اور کھیل کرنے دو یہاں تک کہ آخر کار وہ دن آ موجود ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ دن جب کہ یہ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس طرح دوڑ رہے ہوں گے کہ گویا وہ کسی استھان کی طرف لپک رہے ہیں۔ ان کی نظریں جھکی ہوں گی، ذِلت چہروں پر چھا رہی ہو گی، یہی تو وہ دن ہو گا جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔"

علی ہذا القیاس انسانی زندگی کا ملاء اعلٰی کی زندگی سے رشتہ قائم ہے۔ اور دُنیا کا آخرت سے۔ لہٰذا خیر و شر کا معرکہ، حق و باطل کی آویزش اور ایمان و بغاوت کی کشمکش کا سارا مدار صرف دنیا کے اسٹیج پر نہیں ہے، اور نہ یہ معاملہ دنیاوی زندگی کے اندر ہی انجام پذیر ہوتا ہے، اور نہ دنیاوی زندگی ہی کے اندر اس کا فیصلہ سُنایا جاتا ہے۔ دنیاوی زندگی اور اس سے وابستہ تمام راحتیں اور تکلیفیں یا لذتیں اور محرومیاں ہی اللہ کی میزان فیصلہ کا اصل وزن نہیں ہیں۔ اس حقیقت کی رُو سے معرکہ خیر و شر کا میدان بھی بڑا وسیع ہے اور عرصہ بھی بڑا وسیع ہے۔ اور کامیابی اور ناکامی کے پیمانے اور اوزان کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے۔ اسی بنا پر مومن کے فکر و نظر کے آفاق میں غیر معمولی پھیلاؤ آ جاتا ہے۔ اور اس کی دلچسپیاں اور توجہات بھی اُونچے درجے کی ہو جاتی ہیں۔ اور یہ دنیا اور اس کی رعنائیاں اور یہ زندگی اور اس کے لوازم اُس کی نگاہ میں حقیر اور بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور جس قدر اُس کے فکر و نظر کے زاویے بلند ہوتے جاتے ہیں اُس کے درجات میں بلندی ہوتی جاتی ہے۔ ایسا وسیع و ہمہ گیر اور پاکیزہ و بلند تر ایمانی تصور پیدا کرنے کے لیے اصحاب الاخدود کا قصہ چوٹی کی مثال ہے۔

مکذبین کے مختلف انجام

اصحاب الاخدود کے قصہ اور سورۃ بروج سے دعوت الی اللہ کے مزاج اور ہر امکانی صورتِ حال کے بارے میں داعی کے موقف پر ایک اور پہلو سے بھی روشنی پڑتی ہے۔ دعوت الی اللہ کی تاریخ نے دنیا کے اندر دوسرے گونا گوں اور بوقلموں دعوتوں کے مختلف خاتمے دیکھے ہیں۔

اس نے قوم نوح، قوم ہود، قوم شعیب اور قوم لُوط کی ہلاکت و بربادی دیکھی ہے۔ اور معدودے چند اہلِ ایمان کی نجات بھی دیکھی ہے۔ مگر قرآن نے یہ نہیں بتایا کہ نجات پانے والوں نے بعد میں دُنیا اور دُنیاوی زندگی کے اندر کیا پارٹ ادا کیا۔ ان اقوام کی تباہی کی یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ کبھی کبھی اللہ تعالٰی مکذبین اور ظالمین کو دُنیا کے اندر ہی عذاب کا ایک حصہ چکھا دیتا ہے۔ باقی رہی کامل سزا تو وہ صرف آخرت پر اُٹھا رکھی گئی ہے۔ اس دعوت نے فرعون اور اس کے لشکریوں کی غرقابی کو بھی دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حضرت مُوسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو بچا لیا گیا اور پھر اُسے ملک کے اندر اقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا۔ اور یہ وہ دور تھا جب یہ قوم اپنی پوری تاریخ میں نسبتاً صالح ترین قوم تھی۔ اگرچہ وہ کبھی بھی استقامت کاملہ کے مرتبے تک ترقی نہ کر سکی، اور اُس نے دنیا کے اندر دین خداوندی کو زندگی کے جامع نظام کی حیثیت سے برپا نہ کیا۔۔۔۔ یہ نمونہ پہلے نمونوں سے مختلف ہے۔ تاریخ دعوت نے اسی طرح اُن مشرکین کی لاشوں کے انبار بھی دیکھے جنہوں نے ہدایت سے منہ موڑا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے انکار کیا۔ اور یہ بھی دیکھا کہ جب اہل ایمان کے دلوں پر عقیدہ کی حیرت انگیز حد تک حکمرانی قائم ہو گئی تو دنیا کے اندر نصرت کاملہ نے کس طرح آگے بڑھ کر اُن کے قدم چُومے۔ اور پہلی مرتبہ انسانی تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نظام خداوندی انسانی زندگی کے اصل حاکم کی حیثیت سے عملاً قائم ہوا۔ یہ ایک ایسی صورت تھی کہ انسانی تاریخ نے نہ اس سے پہلے کبھی اس کا مشاہدہ کیا تھا اور نہ بعد میں۔ اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں دعوتِ اسلامی کی تاریخ نے اصحاب الاخدود کا نمونہ بھی دیکھا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ نے قدیم اور جدید زمانے میں اور بھی کئی مناظر دیکھے ہیں۔ جو تاریخ ایمان کے دفتر میں زیادہ نمایاں جگہ نہیں پا سکے۔ اور ابھی تک اُس کی آنکھ طرح طرح کے نمونے دیکھ رہی ہے جو انہی انجاموں میں سے کسی نہ کسی انجام سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں جو صدیوں سے تاریخ کے سینے میں محفوظ چلے آ رہے ہیں۔

اصحاب الاخدود کا جداگانہ انجام اور اہلِ ایمان کے لیے اس واقعہ میں اصل عبرت

دوسرے نمونوں کا ذکر بھی بیشک ضروری ہے مگر اُس نمونے کے ذکر کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جس کی نمائندگی اصحاب الاخدود کرتے ہیں یہ وہ ناگزیر نمونہ عزیمت ہے جس میں اہل ایمان کو نجات نہیں ملتی اور اہل کُفر کی بھی دنیا میں گرفت نہیں ہوتی۔ یہ اس لیے ہے تاکہ اہل ایمان اور داعیانِ حق کے شعور میں یہ بات پُوری طرح اُتر جائے کہ راہِ حق میں انہیں بھی ایسے ہی انجام سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں اُن کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ ان کا اور ان کے ایمان کا معاملہ سراسر اللہ کے سپرد ہے۔ ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اپنے فرض کو سرانجام دیں اور رخصت ہو جائیں، ان کا فرض یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کو اپنے لیے پسند کر لیں، زندگی پر عقیدہ کو ترجیح دیں اور آزمائش میں ڈالے جائیں تو ایمان کی مدد سے اس پر غلبہ پائیں، زبان اور نیت سے بھی اللہ کی صداقت کو گواہی دیں اور اپنے عمل و کردار سے بھی، اس کے بعد اللہ تعالٰی اُن کے ساتھ اور اُن کے دشمنوں کے ساتھ جو چاہے کرے اور اپنے دین اور اپنی دعوت کے لیے جو مقام چاہے منتخب کر لے۔ وہ چاہے تو ان کو اُن انجاموں میں سے کسی انجام کے حوالے کرے جن سے اہلِ ایمان و عزیمت تاریخ میں دوچار ہوتے رہے ہیں، یا اُن کے لیے کوئی ایسا انجام پسند فرمائے جسے وہ خود ہی جانتا اور دیکھتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مومنین اللہ کے اجیر اور کارندے ہیں

اہل ایمان اللہ کے اجیر اور کارندے ہیں۔ وہ جو کچھ ان سے کام لینا چاہتا ہے، جہاں اور جب چاہتا ہے، اس جس انداز سے چاہتا ہے، ان کا کام اُسے انجام دینا اور طے شدہ معاوضہ لینا ہے۔ دعوت کا کیا انجام ہوتا ہے یہ ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے اور نہ یہ اُن کے بس کی بات ہے۔ یہ مالک کی ذمہ داری ہے، مزدور اور کارکن کو اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

اہل ایمان اپنی مزدوری کی پہلی قسط دنیا ہی میں وصول کر لیتے ہیں۔ یہ قسط ہے زندگی بھر طمانیت قلب، احساس و شعور کی بلندی، تصورات کا حُسن اور پاکیزگی، سفلی ترغیبات اور گھٹیا خواہشوں سے آزادی، خوف و قلق سے نجات، دوسری قسط بھی وہ اسی محدود دنیا کے اندر ہی وصول کر لیتے ہیں۔ جو انہیں ملاء اعلٰی میں ستائش، ذکر خیر اور تکریم کی شکل میں ملتی ہے۔ اجر کی سب سے بڑی قسط انہیں آخرت میں ملے گی۔ ان سے حساب آسان اور معمولی لیا جائے گا اور انہیں نعمتیں بڑی بڑی عطا کی جائیں گی۔ ان تمام قسطوں سے بڑھ کر جو چیز انہیں ہر ہر قسط کے ساتھ ملتی ہے وہ اللہ کی خوشنودی ہے، اور اللہ کی یہ عنایت ہے کہ اُس نے انہیں اس مقصد کے لیے منتخب کر لیا ہے کہ وہ دست قضا میں صورت شمشیر ہوں، اور اللہ کی قدرت و حکمت کی ڈھال بنیں تا کہ وہ دنیا کے اندر ان کے ذریعہ سے جو چاہے کرشمہ سازی کرے۔

صدر اول کے اہل ایمان

قرآن کریم نے صدر اول میں اہل ایمان کی برگزیدہ جماعت کو جو تربیت دی تھی وہ ارتقاء و کمال کے اسی درجہ بلند کو پہنچی ہوئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی انفرادیت کو کلیتًہ فنا کر دیا، اور کارِ دعوت میں انہوں نے " انا " کو ہمیشہ کے لیے فارغ خطی دے دی، وہ صرف صاحبِ دعوت کے لیے مزدور اور کارکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ ہر حال اور ہر بات میں اللہ کے اس انتخاب اور فیصلے پر راضی رہے۔ نبوی تربیت بھی قرآن کی تعلیمات کے پہلو بہ پہلو موجود تھی۔ یہ تربیت ان کے دلوں اور نگاہوں کو جنت کی طرف متوجہ کر رہی تھی اور انہیں یہ تلقین کر رہی تھی کو جہ وپارٹ ان کے لیے پسند کیا گیا ہے وہ اسے ثابت قدمی کے ساتھ اس وقت تک ادا کرتے رہیں جب تک اللہ تعالٰی اپنا وہ فیصلہ نہیں نازل فرما دیات جو دنیا میں بھی اسے مطلوب ہے اور آخرت کے لحاظ سے بھی اُسے محبوب ہے۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ اور ان کے والد رضی اللہ عنہم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ انہیں شدید عذاب دیا جا رہا ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ کچھ نہ فرماتے : صبراً آل یاسر، موعدکم الجنۃ (اے آل یاسر، صبر کا دامن نہ چھوٹنے پائے، تم سے جنت کا وعدہ ہو چکا ہے)۔ حضرت حباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں چادر کی ٹیک لگائے آرام فرما رہے تھی کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور عرض کیا : " آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ہماری نصرت کیوں نہیں مانگتے،ا ور ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟" آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم سے پہلی اُمتوں کا یہ حال تھا کہ ایک آدمی کو پکڑ لیا جاتا اور اُس کے لیے زمین میں گڑھا کھود کر اس کو اُس میں اُتار دیا جاتا، پھر آری لا کر اُسے سر سے نیچے تک دو ٹکڑوں میں چیر ڈالا جاتا۔ اُن کے جسموں پر گوشت اور ہڈیوں کے درمیان لوہے کی کنگھیاں پھیری جاتیں۔ لیکن یہ سب کچھ انہیں دین سے نہ ہٹا سکتا۔ خدا کی قسم، اللہ اس دین کو مکمل کر کے چھوڑے گا اور وہ وقت آئے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک اکیلا سفر کرے گا مگر اُسے کوئی خوف نہ ہو گا، صرف خدا کا خوف ہو گا یا بکریوں پر بھیڑیئے کے حملے کا۔ لیکن تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔" (بخاری)

مومن اور اللہ کی حکمت بے پایاں

ہر کام اور ہر حال کی تہ میں اللہ کی حکمت کارفرما ہے۔ وہی اس پوری کائنات کی تدبیر کر رہا ہے، اس کے آغاز و انتہا سے باخبر ہے، اس دنیا کے اندر جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہی اس کی تنظیم کرتا ہے۔ پردہء غیب میں جو حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے صرف وہی اُس کو جانتا ہے، یہ حکمت و مصلحت تاریخ کے پورے سفر میں اُس کی مشیت کے تابع چلی آ رہی ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالٰی کئی صدیوں اور نسلوں کے گزر جانے کے بعد ایک ایسے واقعہ کی حکمت سے پردہ اُٹھاتا ہے جسے عہد واقعہ کے لوگ نہ سمجھتے تھے۔ اور شاید وہ اسی ٹوہ میں رہے ہوں گے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور اپنے پروردگار سے سوال کرتے رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ یہ سوال ہی بجائے خود ایک جہالت ہے۔ جس سے مومن بچتا رہتا ہے۔ اُسے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ہر فیصلے میں حکمت پنہاں ہے۔ مومن کا وسیع تصور اور زمان و مکان اور اوزان و اقدار کے بارے میں اُس کی ژرف نگاہی اُسے یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایہ سوچ بھی سکے۔ چنانچہ وہ قافلہ قضا و قدر کا پورے اطمینان اور تسلیم و رضا کے عالم میں ہمسفر رہتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن کی اصل تربیت

قرآن ایسے قلوب پیدا کر رہا تھا جو بار امانت ( اشارہ ہے خلافت الہٰی کے قیام کی طرف) اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیں اور ضروری تھا کہ یہ قلوب اتنے ٹھوس اور مضبوط اور پاکیزہ و خالص ہوں کہ اس راہ میں اپنی ہر چیز نچھاور کر دیں اور ہر آزمائش کا خیر مقدم کریں اور دوسری طرف دنیا کے مال و متاع میں سے کسی چیز پر نظر رکھنے کے بجائے صرف آخرت کو اپنا مطمع نظر بنائیں اور صرف رضائے الہٰی کے طلب گار رہیں ۔۔۔ گویا ایسے بے نظیر قلوب ہوں جو سفرِ دنیا کو تادم آخریں تکلیف و تنگی، محرومی و کم نصیبی، عذاب و جانکاہی اور سرفروشی و ایثار پیشگی کے اندر گزارنے کے لیے تیار ہوں، اور اس دنیا کے اندر کسی عاجلانہ جزا کی اُمید نہ رکھیں۔ خواہ یہ جزا دعوت کے فروغ، اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کی شوکت کی شکل میں ہی کیوں نہ ظاہر ہو بلکہ ظالموں کی ہلاکت اور ان کی عبرت ناک پکڑ کی صورت ہی کیوں نہ اختیار کرے۔ جیسا کہ پچھلے مکذبین کے ساتھ اللہ تعالٰی نے کیا ہے۔

ضروری نہیں ہے کہ اہل ایمان کو دنیاوی غلبہ حاصل ہو

جب اس پائے کے قلوب وجود میں آ گئے جو اس یقین سے سرشار تھے کہ دنیا کے سفر میں کسی اجر اور معاوضے کے بغیر انہیں ہر خدمت اور ہر قربانی انجام دینی ہے، اور جو سمجھتے تھے کہ صرف آخرت ہی میں حق و باطل کے درمیان اصل فیصلہ ہو گا۔ جب ایسے کھرے قلوب مہیا ہو گئے، اور اللہ تعالٰی نے دیکھ لیا کہ انہوں نے جو سودا کیا ہے اس میں وہ سچے اور مخلص ہیں تب اللہ تعالٰی نے زمین میں اُن پر نُصرت نازل فرمائی اور زمین کی امانت انہیں سونپ دی۔ مگر یہ امانت اس لیے انہیں نہی دی کہ وہ اسے ذاتی تصرف میں لائیں بلکہ اس لیے دی کہ وہ نظام حق برپا کریں۔ اس گراں بار امانت کو اُٹھانے کی اہلیت و استحقاق انہیں اُسی روز حاصل ہو گیا تھا جب کہ اُن سے دنیا کے اندر کسی کامیابی اور فائدہ کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا جس کا وہ تقاضا کرتے، اور نہ خود ان کا نگاہیں دنیاوی غنائم پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں اُسی روز سے اللہ تعالٰی کے لیے خالص ہو چکے تھے جس روز سے اُن کی نگاہوں کو رضائے خداوندی کے سوا کسی اجر و مزد کی تلاش نہ رہی۔

قرآن کی جن آیات میں نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے، یا مغانم کا ذکر ہوا ہے یا یہ اطلاع دی گئی ہے کہ مشرکین کو دنیا کے اندر ہی اہل ایمان کے ذریعہ کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے گا۔ ایسی تمام آیات مدنی دور میں نازل ہوئی ہیں، یہ تب نازل ہوئی ہیں جب یہ تمام چیزیں اہل ایمان کے پروگرام سے خارج ہو چکی تھیں اور انہیں ان میں سے کسی چیز کا انتظار رہا تھا اور نہ طلب۔ نُصرتِ الہٰی خود بخود نازل ہوئی اور اس لیے نازل ہوئی کہ مشیتِ الہٰی کا یہ تقاضا تھا کہ نظامِ حق انسانی زندگی کے اندر عملی پیکر بن کر نمودار ہو کر ایسی جیتی جاگتی تصویر بن جائے جسے انسان بچشم سر دیکھ لیں۔ یہ نصرت اہلِ ایمان کی محنت و مشقت اور ان کی سرفروشیوں اور قربانیوں کا انعام نہیں تھا۔بلکہ یہ اللہ کا ایک فیصلہ تھا جس کے بطن میں اللہ کی وہ حکمتیں اور مصلحتیں چُھپی ہوئی تھیں جنہیں ہم آج دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دنیاوی غلبہ مشیتِ الہٰی کے تحت ہو گا نہ کہ صلہ کے طور پر

دعوت کا یہ وہ پہلو ہے جس پر ملک اور ہر قوم اور نسل کے داعیانِ حق کو پورا غور و تدبر کر چاہیے۔ صرف یہی ایک پہلو انہیں راہِ حق کے تمام نشانات اور خطوط کو صاف صاف کسی ابہام و غموض کے بغیر دکھا سکتا ہے۔ اور اُن بندگان صدق و صفا کو ثابت قدمی بخش سکتا ہے جو یہ ارادہ کر چکے کہ وہ راہ حق کو اس کی انتہا تک طے کریں گے خواہ یہ انتہا کیسی کچھ ہو۔ اور اللہ نے اپنی دعوت کے لیے اور ان کے لیے جو کچھ بھی مقدر فرما رکھا ہے وہ درست ہے۔ اس پُرآشوب اور خون آشام راستے کو جو کاسئہ ہائے سر سے پٹا ہوا ہے طے کرتے وقت وہ کبھی نصرت و غلبہ کے لیے چشم براہ نہیں رہیں گے یا اسی دنیا کے اندر حق و باطل کے درمیان فیصلہ کے لیے بے تاب نہ ہوں گے۔ البتہ اگر خود ذات خداوندی اپنی دعوت اور اپنے دین کی مصلحت کی خاطر ان سے ایسا کوئی کام لینا چاہے گی تو اسے پُورا کر کے رہے گی۔ مگر یہ ان کی قربانیوں اور جانفشانیوں اور آلام و مصائب کا صلہ ہر گز نہ ہو گا۔ یہ دنیا دار الجزا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اللہ کی مشیت اور فیصلے کی تنفیذ ہو گی جو وہ اپنی دعوت اور اپنے نظام کے بارے میں طے فرمائے گا۔ اس جس کے لیے اپنے کچھ بندوں کو منتخب فرمائے گا تا کہ ان کے ذریعہ وہ اپنی مشیت کو پورا کرے۔ ان کے لیے یہی شرف کافی ہے کہ قُرعہ فال ان کے نام نکل آیا۔ اس شرف کے آگے دنیا کی زندگی اور اس میں پیش آنے والی آسائشیں اور تکلیفیں ہیچ اور حقیر ہیں۔

اہل ایمان کی جنگ سیاسی نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی جنگ ہے

یہاں ایک اور حقیقت قابلِ غور ہے جس کی طرف قرآن نے اصحاب الاخدود کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ذیل کی آیت میں اشارہ کیا ہے :
وَما نقمُوا مِنھُم اِلَا اَن یُومِنُوا بِاللہِ العَزِیزِ الحَمِید۔ " اور وہ اہل ایمان سے صرف اس وجہ سے چِڑے کہ وہ اللہ عزیز و حمید پر ایمان لا چکے تھے۔"

اس حقیقتِ قرآن پر بھی داعیانِ حق کو، ہر دور اور ہر ملک کے داعیانِ حق کو گہری نگاہ سے غور و تامل کرنا چاہیے۔ اہلِ ایمان اور ان کے حریفوں کے درمیان جو جنگ برپا ہے یہ درحقیقت عقیدہ و فکر کی جنگ ہے، اس کے سوا اس جنگ کی اور کوئی حیثیت قطعًا نہیں ہے۔ ان مخالفین کو مومنین کے صرف ایمان سے عداوت ہے اور ان کی تمام برافرختگی اور غیظ و غضب کا سبب وہ عقیدہ ہے جسے مومنین نے حرز جاں بنا رکھا ہے۔ یہ کوئی سیاسی جنگ ہر گز نہیں ہے، نہ یہ اقتصادی یا نسلی معرکہ آرائی ہے۔ اگر اس نوعیت کو وئی جھگڑا ہوتا تو اسے بآسانی چکایا جا سکتا تھا اور اس کی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا تھا لیکن یہ تو اپنے جوہر و روح کے لحاظ سے خالصتًہ ایک فکری جنگ ہے۔ یہاں امر متنازع فیہ یہ ہے کہ کفر رہے گا یا ایمان، جاہلیت کا چلن ہو گا یا اسلام کی حکومت !

مشرکین کے سرداروں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مال و دولت، حکومت اور دوسرے ہر طرح کے دینوی مفادات پیش کیے اور ان کے مقابلے میں صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عقیدہ کی جنگ ترک کر دیں اور اس معاملے میں اُن سے کوئی سودا بازی کر لیں۔ اور اگر خدانخواستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش پوری کر دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے درمیان کوئی جھگڑا باقی نہ رہتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایمان و کفر کا مسئلہ ہے اور اس کشمکش کی تمام تر بنیاد و عقیدہ پر ہے۔ مومنین کو جہاں کہیں اعداء سے سامنا ہو یہ بنیادی حقیقیت ان کے دل و دماغ پر منقش رہنی چاہیے۔ اس لیے کہ اعداء کی تمام تر عداوت و خفگی کا سبب صرف یہ عقیدہ ہے کہ " وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو غالب ہے اور حمید ہے" اور صرف اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اُسی کے آگے سرافگندہ ہیں۔

دشمنانِ اسلام اس جنگ کو دوسرے معنی پہناتے ہیں

اعداء یہ ہتھکنڈہ بھی استعمال کر سکتے ہیں کہ عقیدہ و نظریہ کے بجائے کسی اور نعرہ کو اس جنگ کا شعار بنا دیں۔ اور اسے اقتصادی یا سیاسی یا نسلی جنگ ثابت کرنے کی کوشش کریں تا کہ مومنین کو اس معرکہ کی اصل حقیقت کے بارے میں گھپلے میں ڈال دیں اور عقیدہ کی جو مشعل اس کے سینوں میں فروزاں ہے اُسے بجھا دیں۔ اہلِ ایمان کو اس بارے میں کسی دھوکے کا شکار نہ ہونا چاہیے۔ اور انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اعداء کے یہ اُلجھاوے ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہیں۔ اور جو اس جنگ میں کوئی اور نعرہ بلند کرتا ہے تو دراصل وہ یہ چاہتا ہے کہ اہل ایمان کو اس ہتھیار سے محروم کر دے جو ان کی کامیابی و ظفرمندی کا اصل راز ہے، یہ کامیابی جس شکل میں بھی ہو، چاہے اُس روحانی بلندی اور آزادی کے رنگ میں ہو جو اخدود کے واقعہ میں اہل ایمان کو نصیب ہوئی یا اس روحانی بلندی کی بدولت حاصل ہونے والے مادی غلبہ کی صورت میں جس سے صدر اول کے مسلمان سرفراز ہوئے۔

مقصد جنگ اور شعار معرکہ کو مسخ کرنے می مژال آج ہمیں بین الاقوامی عیسائیت کی اس کوشش میں نظر آتی ہے، جو ہمیں اس فکری جنگ کے بارے میں طرح طرح کے فریبوں میں مبتلا کرنے کے لیے صرف ہو رہی ہیں اور تاریخ کو مسخ کر کے یہ افترا پردازی کی جا رہی ہے کہ صلیبی جنگوں کے پس پردہ سامراجی حرص کارفرما تھی، یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بلکہ حقیقیت یہ ہے کہ سامراج جس کا ظہور ان جنگوں کے بہت بعد ہوا ہے وہ صلیبی روح کا آلہ کار بنا رہا ہے۔ کیونکہ یہ صلیبی روح جس طرح قرونِ وسطٰی میں کُھل کر کام کرتی رہی ہے اس طرح اب وہ بغیر نقاب کے سامنے نہیں آ سکتی تھی۔ یہ عقیدہ اسلام کے ان معرکوں میں پاش پاش ہو چکی تھی جو مختلف النسل مسلمان رہنماؤں کی قیادت میں برپا ہوئے۔ ان میں صلاح الدین اور خاندان حمالیک کے توران شاہ کُردی تھے۔ ان لوگوں نے اپنی قومیتوں کو فراموش کر کے صرف عقیدہ اور نظریہ ہی کو یاد رکھا۔ اور عقیدہ ہی کی بدولت وہ ان کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔

وما نقموا منہم الا ان یومنوا بِاللہِ العزیز الحمید۔

اللہ تعالٰی کا فرمان بالکل سچا ہے۔ اور یہ جعل ساز اور فریب پیشہ لوگ جُھوٹے ہیں۔

*** ختم شد ***​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top