شمشاد
لائبریرین
جادہ و منزل از سید قطب شہید - صفحہ 400 تا آخر
نگاہ بلند و سخن دلنواز
معاشرے پر ایسے عقائد و افکار اور اقدار و اصول کو غلبہ ہوتا ہے جو مومن کے عقیدہ و فکر اور پیمانہ و میزان کے منافی بلکہ شدید مخالف ہوتے ہیں۔ مگر یہ احساس اس سے کبھی جُدا نہیں ہوتا کہ وہ اعلیٰ اور ارفع مقام پر متمکن ہے اور یہ تمام دنیا پرست اور عیش کوش لوگ اس سے کہیں زیادہ فروتر مقام پر ہیں۔ وہ اپنے بلند مقام سے ان لوگوں پر جب نگاہ دوڑاتا ہے تو ایک طرف وہ اپنی حد تک عزت نفس اور خود داری اور خود پسندی سے مملو ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کے بارے میں اُس کا دل ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے۔ اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہدایت کی جو روشنی اسے اللہ نے ارزاں فرمائی ہے انہیں بھی نصیب ہو اور جس اُفق بلند پر وہ خود محو پرواز ہے اُن کو بھی وہاں تک اُٹھا لائے۔
باطل ایک ہنگامہ محشر برپا کرتا ہے، ہاؤ ہو کا غلغلہ بلند کرتا ہے، گرجتا اور دھاڑتا ہے، سینہ تانتا اور مُوچھوں کو تاؤ دیتا ہے، اُس کے چاروں طرف (قلق پیشہ اور خوشامدیوں کی طرف سے) ایسا مصنوعی ہالہ قائم کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی بصارت اور بصیرت دونوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ یہ دیکھ ہی نہیں پاتیں کہ اس خیرہ کُن ہالہ کے پیچھے کیا گھناؤنی رُوح اور قبیح تصویر مستور ہے اور کیسی منحوس اور تاریک " صبح " پنہاں ہے !!
مومن اپنے مقام بلند سے باطل اور اس کی ہنگامہ آرائیوں کو دیکھتا ہے۔ فریب خوردہ انسانی جماعتوں پر نظر ڈالتا ہے، مگر وہ کسی احساسِ ضعف کا شکار نہیں ہوتا اور نہ اُسے کوئی رنج و غم لاحق ہوتا ہے۔ اور نہ حق پر اس کی ثابت قدمی میں کوئی کمی اور راہِ مستٰقیم پر اس کی استقامت میں کوئی تزلزل پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ گُم گشتگان راہ اور فریب خوردہ انسانوں کی ہدایت کے لیے اُس میں جو تڑپ اور بے تابی پائی جاتی ہے اس میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
معاشرہ پست اور ذلیل خواہشوں میں ڈوبا ہوتا ہے، سفلی جذبات کی رَو میں بہ رہا ہوتا ہے، گندگی اور کیچڑ سے آلودہ ہوتا ہے۔ اس خیالِ خام میں مگن ہوتا ہے کہ وہ لذائذ زندگی سے محفوظ ہو رہا ہے اور بندھنوں سے آزاد ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ معاشرے کے اندر پاکیزہ تفریح اور لقمئہ حلال کمیاب بلکہ نایاب ہو جاتا ہے۔ گندگی کے جوہڑوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ جدھر دیکھو غلاظت اور فضلات کے ندی نالے بہ رہے ہوتے ہیں۔ مومن کیچڑ کے اندر غرق ہونے والوں اور غلاظت سے چمٹے ہوئے انسانوں کو اُوپر سے جھانکتا ہے اور بایں ہمہ کہ وہ اس پورے ماحول میں یکہ و تنہا ہوتا ہے۔ اُس کے حوصلوں میں کوئی احساسِ شکست اور اس کے قلب و جگر میں کوئی غم جا گزین نہیں ہوتا۔ اور اُس کے نفس میں کبھی یہ اکساہٹ پیدا نہیں ہوتی کہ اپنا پاکیزہ و بے داغ لباس اُتار کر وہ بھی ننگوں کے اس حمام میں ننگا ہو جائے اور اس متعفن تالاب میں غوطے لگانے لگے۔ مومن جس نشئہ ایمان اور لذت یقین سے شرمسار ہوتا ہے اُس کی بدولت وہ اپنے آپ کو بہت اعلیٰ و ارفع مقام پر محسوس کرتا ہے۔
ایک ایسے معاشرے کے اندر جو دین سے باغی ہو، مکارم و فضائل سے عاری اور اعلیٰ و برتر قدروں سے خالی اور شریفانہ مہذب تقریبات سے ناآشنا ہو۔ الغرض ہر اُس پہلو سے بے گانہ ہو چکا ہو جو پاکیزگی و حُسن اور طہارت و نفاست کی تعریف میں آ سکتا ہے۔ ایسے معاشرے کے اندر مومن اپنے دین کا دامن اُسی طرح تھامے رکھتا ہے جس طرح کوئی شخص آگ کا انگارہ مُٹھی میں لیے ہو۔ رہے دوسرے لوگ تو وہ اس کی اس جرات مندی پر پھبتیاں کستے ہیں، اس کے افکار کا تکشخر اُڑاتے ہیں، اس کی محبوب اقدار کو نشانہ استہزا بناتے ہیں۔ مگر مومن ہے کہ یہ سب کچھ سُنتا ہے، اور سہتا ہے مگر دون ہمتی اور کم حوصلگی کا شکار نہیں ہوتا، وہ احساس برتری کے ساتھ ان چھچھوروں پر نظر ڈالتا ہے اور اُس کی زبان پر وہی کلمات جاری ہو جاتے ہیں جو اس برگزیدہ گروہ کے ایک فرد حضرت نوح علیہ السلام کی زبان پر جاری ہوئے تھے جو تاریخ کی پُرخار اور طویل وادیوں میں ایمان و عشق کے نورانی اور غیر منقطع کارواں کے ہمراہ گزر چکے ہیں۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے تمسخر اُڑانے والوں سے فرمایا تھا :
۔۔۔۔۔َ اِن تَسْخَرُواْ مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ۔ (ھود : 38 )
آج اگر تم ہماری ہنسی اُڑاتے ہو تو ہم بھی تمہاری ہنسی اُڑائیں گے جس طرح تم ہنسی اُڑا رہے ہو۔
مومن کو اس نورانی کارواں اور اس کے بالمقابل بد قسمت و سوختہ نصیب قافلہ دونوں کے انجام کا نقشہ اللہ تعالٰی کے اس بیان میں نظر آ جاتا ہے :
اِنَّ الَّذِينَ اَجْرَمُوا كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ۔ وَاِذَا مَرُّواْ بِھِمْ يَتَغَامَزُونَ ۔ وَاِذَا انقَلَبُواْ اِلَى اَھْلِھِمُ انقَلَبُواْ فَكِھِينَ۔ وَإِذَا رَاَوْھُمْ قَالُوا اِنَّ ھَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ ۔ وَمَا اُرْسِلُوا عَلَيْھِمْ حَافِظِينَ ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُواْ مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ۔ عَلَى الْاَرَائِكِ يَنظُرُونَ ۔ ھَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ۔ (المطففین : 29 تا 36)
بے شک مجرم (دنیا میں) ایمان والوں کے ساتھ ہنسی کیا کرتے تھے۔ اور جب اُن کے پاس سے ہو کر گزرتے تو ان سے آنکھیں مارتے۔ اور جب اپنے اہل کی طرف لوٹ کر جاتے تو (مسلمانوں کے تذکروں کا) مشغلہ بناتے۔ اور جب مسلمانوں کو دیکھتے تو بول اٹھتے کہ بے شک یہ لوگ گمراہ ہیں۔ حالانکہ انہیں (مسلمانوں پر) داروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آج (آخرت میں) مسلمان کافروں پر ہنسیں گے اور تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے۔ کیا کافروں نے اب کیے کا بدلہ پا لیا؟
اس سے بھی پہلے قرآن کریم نے ہمارے سامنے کافروں کا یہ قول نقل کیا ہے جو وہ اہل ایمان سے کہا کرتے تھے :
وَاِذَا تُتْلَى عَلَيْھِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُواْ اَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَاَحْسَنُ نَدِيًّا۔ (مریم : 73)
ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں : بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں۔
یعنی دونوں فریقوں میں سے کون سا فریق اچھا ہے؟ وہ مُکھیا اور سردار اور مالدار لوگ جو محمد (صلی اللہ علی وسلم) پر ایمان نہیں لاتے یا وہ نادار اور بے کس لوگ جو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہیں؟ نصر بن حارث، عمرو بن ہشام، ولید بن مغیرہ اور ابو سفیان بن حرب جیسے اکابر قوم یا بلال، عمار، صہیب اور خباب جیسے بے سہارا افراد؟ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کوئی بھلی دعوت ہوتی تو کیا آپ صلی اللہ علی وسلم کے پیروکار ایسے ہی بدحال لوگ ہوتے جنہیں قریش کے اندر کوئی دبدبہ اور وقار حاصل نہیں؟ آپس میں مل بیٹھنے کے لیے ایک معمولی سے مکان (دارارقم) کے سوا انہیں اور کوئی جگہ بھی میسر نہیں، جب کہ اُن کے مخالفین ایک عظیم الشان اور پُرشکوہ چوپال کے مالک ہیں۔ جاہ و جلال ان کے قدم چومتا ہے، قوم کی ناخدائی ان کو حاصل ہے ۔۔۔۔۔ یہ ہے دُنیا پرستوں کا نقطہ نگاہ اور ان لوگوں کا ظرز فکر جن کی نگاہوں پر ہر زمانے اور ہر جگہ میں پردے پڑے رہے اور بلندیوں کو نہ دیکھ سکے۔ یہ حکمت الہٰی کا فیصلہ ہے کہ عقیدہ و ایمان دنیاوی زیب و زینت اور ظاہری مینا کاری اور سجاوٹ سے محروم اور اسباب تحریص و ترغیب سے پاک رہے گا۔ اسے قبول کرنے کا محرک کسی حاکم کا تقرب، کسی جاہ و اقتدار کی حرص، کوئی مرغوب نعرہ اور کسی خواہش کی تسکین نہ ہو گی، بلکہ جہد و مشقت، جانکاہی و جہاد اور سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ اس کا اصل محرک ہو گا۔ تا کہ جو اس کُوچہ میں آئے وہ اس یقین کے ساتھ آئے کہ وہ اس نظریئے کو بحیثیت عقیدہ قبول کر رہا ہے۔ وہ اس کو کسی انسان کی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ خالصتًہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے قبول کرے اور تمام لالچوں اور داعیات سے بری ہو جن پر عام انسان فریفتہ ہوتے ہیں۔ تا کہ اس عقیدہ کو کوئی ایسا شخص اپنانے کی جرات ہی نہ کر سکے جو دنیاوی منفعتوں کا طالہب ہو۔ بندہ حرص و آز ہو، جاہ و حشمت اور ٹھاٹھ باٹھ کا پجاری ہو اور جس کے نزدیک انسانی تصورات اللہ کی مرضی اور خوشنودی کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہوں، خواہ اللہ کے نزدیک وہ قطعاً بے وقعت ہوں۔
نگاہ بلند و سخن دلنواز
معاشرے پر ایسے عقائد و افکار اور اقدار و اصول کو غلبہ ہوتا ہے جو مومن کے عقیدہ و فکر اور پیمانہ و میزان کے منافی بلکہ شدید مخالف ہوتے ہیں۔ مگر یہ احساس اس سے کبھی جُدا نہیں ہوتا کہ وہ اعلیٰ اور ارفع مقام پر متمکن ہے اور یہ تمام دنیا پرست اور عیش کوش لوگ اس سے کہیں زیادہ فروتر مقام پر ہیں۔ وہ اپنے بلند مقام سے ان لوگوں پر جب نگاہ دوڑاتا ہے تو ایک طرف وہ اپنی حد تک عزت نفس اور خود داری اور خود پسندی سے مملو ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کے بارے میں اُس کا دل ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے۔ اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہدایت کی جو روشنی اسے اللہ نے ارزاں فرمائی ہے انہیں بھی نصیب ہو اور جس اُفق بلند پر وہ خود محو پرواز ہے اُن کو بھی وہاں تک اُٹھا لائے۔
باطل ایک ہنگامہ محشر برپا کرتا ہے، ہاؤ ہو کا غلغلہ بلند کرتا ہے، گرجتا اور دھاڑتا ہے، سینہ تانتا اور مُوچھوں کو تاؤ دیتا ہے، اُس کے چاروں طرف (قلق پیشہ اور خوشامدیوں کی طرف سے) ایسا مصنوعی ہالہ قائم کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی بصارت اور بصیرت دونوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ یہ دیکھ ہی نہیں پاتیں کہ اس خیرہ کُن ہالہ کے پیچھے کیا گھناؤنی رُوح اور قبیح تصویر مستور ہے اور کیسی منحوس اور تاریک " صبح " پنہاں ہے !!
مومن اپنے مقام بلند سے باطل اور اس کی ہنگامہ آرائیوں کو دیکھتا ہے۔ فریب خوردہ انسانی جماعتوں پر نظر ڈالتا ہے، مگر وہ کسی احساسِ ضعف کا شکار نہیں ہوتا اور نہ اُسے کوئی رنج و غم لاحق ہوتا ہے۔ اور نہ حق پر اس کی ثابت قدمی میں کوئی کمی اور راہِ مستٰقیم پر اس کی استقامت میں کوئی تزلزل پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ گُم گشتگان راہ اور فریب خوردہ انسانوں کی ہدایت کے لیے اُس میں جو تڑپ اور بے تابی پائی جاتی ہے اس میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
معاشرہ پست اور ذلیل خواہشوں میں ڈوبا ہوتا ہے، سفلی جذبات کی رَو میں بہ رہا ہوتا ہے، گندگی اور کیچڑ سے آلودہ ہوتا ہے۔ اس خیالِ خام میں مگن ہوتا ہے کہ وہ لذائذ زندگی سے محفوظ ہو رہا ہے اور بندھنوں سے آزاد ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ معاشرے کے اندر پاکیزہ تفریح اور لقمئہ حلال کمیاب بلکہ نایاب ہو جاتا ہے۔ گندگی کے جوہڑوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ جدھر دیکھو غلاظت اور فضلات کے ندی نالے بہ رہے ہوتے ہیں۔ مومن کیچڑ کے اندر غرق ہونے والوں اور غلاظت سے چمٹے ہوئے انسانوں کو اُوپر سے جھانکتا ہے اور بایں ہمہ کہ وہ اس پورے ماحول میں یکہ و تنہا ہوتا ہے۔ اُس کے حوصلوں میں کوئی احساسِ شکست اور اس کے قلب و جگر میں کوئی غم جا گزین نہیں ہوتا۔ اور اُس کے نفس میں کبھی یہ اکساہٹ پیدا نہیں ہوتی کہ اپنا پاکیزہ و بے داغ لباس اُتار کر وہ بھی ننگوں کے اس حمام میں ننگا ہو جائے اور اس متعفن تالاب میں غوطے لگانے لگے۔ مومن جس نشئہ ایمان اور لذت یقین سے شرمسار ہوتا ہے اُس کی بدولت وہ اپنے آپ کو بہت اعلیٰ و ارفع مقام پر محسوس کرتا ہے۔
ایک ایسے معاشرے کے اندر جو دین سے باغی ہو، مکارم و فضائل سے عاری اور اعلیٰ و برتر قدروں سے خالی اور شریفانہ مہذب تقریبات سے ناآشنا ہو۔ الغرض ہر اُس پہلو سے بے گانہ ہو چکا ہو جو پاکیزگی و حُسن اور طہارت و نفاست کی تعریف میں آ سکتا ہے۔ ایسے معاشرے کے اندر مومن اپنے دین کا دامن اُسی طرح تھامے رکھتا ہے جس طرح کوئی شخص آگ کا انگارہ مُٹھی میں لیے ہو۔ رہے دوسرے لوگ تو وہ اس کی اس جرات مندی پر پھبتیاں کستے ہیں، اس کے افکار کا تکشخر اُڑاتے ہیں، اس کی محبوب اقدار کو نشانہ استہزا بناتے ہیں۔ مگر مومن ہے کہ یہ سب کچھ سُنتا ہے، اور سہتا ہے مگر دون ہمتی اور کم حوصلگی کا شکار نہیں ہوتا، وہ احساس برتری کے ساتھ ان چھچھوروں پر نظر ڈالتا ہے اور اُس کی زبان پر وہی کلمات جاری ہو جاتے ہیں جو اس برگزیدہ گروہ کے ایک فرد حضرت نوح علیہ السلام کی زبان پر جاری ہوئے تھے جو تاریخ کی پُرخار اور طویل وادیوں میں ایمان و عشق کے نورانی اور غیر منقطع کارواں کے ہمراہ گزر چکے ہیں۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے تمسخر اُڑانے والوں سے فرمایا تھا :
۔۔۔۔۔َ اِن تَسْخَرُواْ مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ۔ (ھود : 38 )
آج اگر تم ہماری ہنسی اُڑاتے ہو تو ہم بھی تمہاری ہنسی اُڑائیں گے جس طرح تم ہنسی اُڑا رہے ہو۔
مومن کو اس نورانی کارواں اور اس کے بالمقابل بد قسمت و سوختہ نصیب قافلہ دونوں کے انجام کا نقشہ اللہ تعالٰی کے اس بیان میں نظر آ جاتا ہے :
اِنَّ الَّذِينَ اَجْرَمُوا كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ۔ وَاِذَا مَرُّواْ بِھِمْ يَتَغَامَزُونَ ۔ وَاِذَا انقَلَبُواْ اِلَى اَھْلِھِمُ انقَلَبُواْ فَكِھِينَ۔ وَإِذَا رَاَوْھُمْ قَالُوا اِنَّ ھَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ ۔ وَمَا اُرْسِلُوا عَلَيْھِمْ حَافِظِينَ ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُواْ مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ۔ عَلَى الْاَرَائِكِ يَنظُرُونَ ۔ ھَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ۔ (المطففین : 29 تا 36)
بے شک مجرم (دنیا میں) ایمان والوں کے ساتھ ہنسی کیا کرتے تھے۔ اور جب اُن کے پاس سے ہو کر گزرتے تو ان سے آنکھیں مارتے۔ اور جب اپنے اہل کی طرف لوٹ کر جاتے تو (مسلمانوں کے تذکروں کا) مشغلہ بناتے۔ اور جب مسلمانوں کو دیکھتے تو بول اٹھتے کہ بے شک یہ لوگ گمراہ ہیں۔ حالانکہ انہیں (مسلمانوں پر) داروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آج (آخرت میں) مسلمان کافروں پر ہنسیں گے اور تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے۔ کیا کافروں نے اب کیے کا بدلہ پا لیا؟
اس سے بھی پہلے قرآن کریم نے ہمارے سامنے کافروں کا یہ قول نقل کیا ہے جو وہ اہل ایمان سے کہا کرتے تھے :
وَاِذَا تُتْلَى عَلَيْھِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُواْ اَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَاَحْسَنُ نَدِيًّا۔ (مریم : 73)
ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں : بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں۔
یعنی دونوں فریقوں میں سے کون سا فریق اچھا ہے؟ وہ مُکھیا اور سردار اور مالدار لوگ جو محمد (صلی اللہ علی وسلم) پر ایمان نہیں لاتے یا وہ نادار اور بے کس لوگ جو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہیں؟ نصر بن حارث، عمرو بن ہشام، ولید بن مغیرہ اور ابو سفیان بن حرب جیسے اکابر قوم یا بلال، عمار، صہیب اور خباب جیسے بے سہارا افراد؟ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کوئی بھلی دعوت ہوتی تو کیا آپ صلی اللہ علی وسلم کے پیروکار ایسے ہی بدحال لوگ ہوتے جنہیں قریش کے اندر کوئی دبدبہ اور وقار حاصل نہیں؟ آپس میں مل بیٹھنے کے لیے ایک معمولی سے مکان (دارارقم) کے سوا انہیں اور کوئی جگہ بھی میسر نہیں، جب کہ اُن کے مخالفین ایک عظیم الشان اور پُرشکوہ چوپال کے مالک ہیں۔ جاہ و جلال ان کے قدم چومتا ہے، قوم کی ناخدائی ان کو حاصل ہے ۔۔۔۔۔ یہ ہے دُنیا پرستوں کا نقطہ نگاہ اور ان لوگوں کا ظرز فکر جن کی نگاہوں پر ہر زمانے اور ہر جگہ میں پردے پڑے رہے اور بلندیوں کو نہ دیکھ سکے۔ یہ حکمت الہٰی کا فیصلہ ہے کہ عقیدہ و ایمان دنیاوی زیب و زینت اور ظاہری مینا کاری اور سجاوٹ سے محروم اور اسباب تحریص و ترغیب سے پاک رہے گا۔ اسے قبول کرنے کا محرک کسی حاکم کا تقرب، کسی جاہ و اقتدار کی حرص، کوئی مرغوب نعرہ اور کسی خواہش کی تسکین نہ ہو گی، بلکہ جہد و مشقت، جانکاہی و جہاد اور سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ اس کا اصل محرک ہو گا۔ تا کہ جو اس کُوچہ میں آئے وہ اس یقین کے ساتھ آئے کہ وہ اس نظریئے کو بحیثیت عقیدہ قبول کر رہا ہے۔ وہ اس کو کسی انسان کی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ خالصتًہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے قبول کرے اور تمام لالچوں اور داعیات سے بری ہو جن پر عام انسان فریفتہ ہوتے ہیں۔ تا کہ اس عقیدہ کو کوئی ایسا شخص اپنانے کی جرات ہی نہ کر سکے جو دنیاوی منفعتوں کا طالہب ہو۔ بندہ حرص و آز ہو، جاہ و حشمت اور ٹھاٹھ باٹھ کا پجاری ہو اور جس کے نزدیک انسانی تصورات اللہ کی مرضی اور خوشنودی کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہوں، خواہ اللہ کے نزدیک وہ قطعاً بے وقعت ہوں۔