شمشاد
لائبریرین
کیا اسلام " دفاعی تحریک " ہے؟
جو شخص دین کے اس مخصوص مزاج کو، جس کی تشریح ہم اوپر کر آئے ہیں، اچھی طرح سمجھ لیتا ہے، وہ خود بخود اس نتیجہ پر پہنچ جائے گا کہ اسلامی تحریک کا آغاز دونوں صورتوں میں ہونا ناگزیر ہے، یعنی جہاد بالسیف کی صورت میں بھی اور جہاد بالقول کی صورت میں بھی۔ اور یہ حقیقیت بھی اُس پر عیاں ہو جائے گی کہ اسلام ان محدود معنی میں " دفاعی تحریک " نہیں ہے جو عہد حاضر کی مروجہ اصطلاح " مدافعانہ جنگ " سے متبادر ہوتے ہیں۔ یہ تنگ اور غلط مفہوم دراصل ان حضرات کا تجویز کردہ ہے جو حالات کے دباؤ اور مستشرقین کے عیارانہ حملوں سے شکست کھا کر اسلام کی تحریک جہاد کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اسلام ایک سیلِ رواں تھا جو اس لیے اُمدا کہ دنیا کے اندر انسان کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرے۔ وہ انسان کی عملی زندگی کے ایک ایک پہلو سے نبرد آزما ہوا۔ اور ہر پہلو کی اصلاح کے لیے اُس نے وہ وسائل اختیار کیے جو اُس کے لیے مناسب اور موزوں تھے۔ اس کی تحریک جہاد متعین مرحلوں سے گزری اس نے ہر مرحلے میں نئے اور کارگر وسائل سے کام لیا۔
بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اسلام کی تحریک جہاد ایک دفاعی تحریک ہے تو پھر ہمیں خود لفظ " دفاع " کے مفہوم کو بدلنا ہو گا اور " دفاع " سے مراد انسانوں کا دفاع لینا ہو گا۔ یعنی ان تمام محرکات و اسباب کے مقابلے میں انسان کی مدافعت کرنا جو انسان کی آزادی کو مامال کرتے ہیں یا اس کی حقیقی آزادی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ یہ محرکات جس طرح تصورات اور اعتقادات کی صورت میں پائے جاتے ہیں اسی طرح یہ ایسے سیاسی نظاموں کی شکل میں بھی پائے جا سکتے ہیں جو اقتصادی، طبقاتی اور نسلی حد بندیوں اور امتیازات پر قائم ہوتے ہیں۔ جب اسلام دنیا میں آیا تھا تو اس وقت بھی روئے زمین پر ان محرکات کا دور دورہ تھا اور عہد حاضر کی تازہ جاہلیت میں بھی ان کی بعض شکلیں دنیا میں رائج ہیں۔ لفظ " دفاع " کا یہ وسیع مفہوم اختیار کر کے ہم بآسانی اُن ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ادراک کر سکتے ہیں جن کی بدولت دنیا میں اسلامی تحریک کا طلوع جہاد کے جلو میں ہوا۔ بلکہ اس طرح ہمارے سامنے خود اسلام کا صحیح مزاج بھی آئینہ ہو جائیگا اور ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی کہ اسلام کا مطلب ہے انسان کی بندگی انسان سے آزادی، ربوبیت الہٰی اور تعلیمات ربانی کے سامنے سرافگندگی ۔۔۔۔۔۔ میں خواہشاتِ انسانی کی خود سری اور سرکشی کا خاتمہ اور صرف شریعتِ الہٰی اور خدا کی حکومت !!
رہی وہ کوششیں جو ایسے دلائل اور وجوہ جواز گھڑنے میں صرف کی جا رہی ہیں، جن سے اسلامی جہاد کو اُسی محدود اور تنگ مفہوم کا جامہ پہنایا جا سکے جو " مدافعانہ جنگ " کی رائج الوقت اصطلاح میں پایا جاتا ہے اور وہ دیدہ ریزی جو اس غرض کے لیے ایسی روایات و اسناد کا کھوج لگانے میں کی جاتی ہے، جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ جہاد اسلامی کےجتنے وقائے پیش آئے ہیں وہ محض " وطنِ اسلام " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے بعض کے نزدیک وطن اسلام سے مراد جزیرۃ العرب ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ہمسایہ طاقتوں کی جارحیت کے سدِ باب کے سلسلے میں پیش آئے ہیں۔ ایسی تمام کوششیں دراصل اس امر کی غماز ہیں کہ یا تو دین کے مزاج کو اور دنیا کے اندر اس کے اصل رول کو اسلام کے ان کرم فرماؤں نے سمجھا ہی نہیں اور یا حالات کی سنگینی کے سامنے اور جہادِ اسلامی پر مستشرقین کے عیارانہ حملوں کے مقابلے میں انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو یہ اطمینان ہو جاتا کہ رومی اور فارسی طاقتیں جزیرۃ العرب پر حملہ آور نہ ہوں گی تو وہ اسلام کے سیلِ رواں کو دنیا کے اطراف و اکناف تک پہنچانے کی کوشش نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دعوت کو آگے بڑھایا ہی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ اُس کے راہ میں متعدد مادی مشکلات حائل تھیں : مثلاً ریاست کی سیاسی نظام، معاشرے کے نسلی اور طبقاتی امتیازات، اور پھر ان نسلی اور طبقاتی نظریوں کی کوکھ سے جنم لینے والے اقتصادی نظام اور ان کی محافظت اور پُشت پناہی کرنے والے ریاست کے مادی وسائل۔ یہ سب عوامل راستے کے سنگ ہائے گراں تھے۔
یہ تصور کرنا کتنی بڑی سادہ لوحی ہے کہ ایک دعوت روئے زمین پر بسنے والی پوری نوعِ انسانی کی آزادی کا اعلان بھی کرے اور پھر وہ مذکورہ بالا رکاوٹوں کا سامنا محض زبان و بیان کے جہاد سے کرتی پھرے۔ بے شک یہ دعوت زبان و بیان سے بھی جہاد کرتی ہے۔ مگر کب؟ اس وقت جب انسان اس دعوت کو قبول کرنے میں آزاد ہوں۔ چنانچہ یہ دعوت تمام اثرات و موانع سے انسانوں کو آزاد کر دینے کے بعد آزادی کی فضا میں اُن سے اپیل کرتی ہے۔ اور " لا اکراہ فی الدین " کے ضابطے کی پابندی کرتی ہے۔ لیکن جب وہ مذکورہ بالا مادی اثرات اور رکاوٹوں کی عمل داری ہو تو اس کے بغیر چارہ نہیں ہے کہ پہلے انہیں بذریعہ قوت دُور کیا جائے۔ تا کہ جب یہ دعوت انسان کے دل و دماغ سے اپیل کرے تو وہ ایسی تمام زنجیروں اور بیڑیوں سے آزاد ہوں اور کُھلے دل سے اس اپیل کے بارے میں اپنا فیصلہ دے سکیں۔
دعوتِ اسلامی کا نصب العین اگر انسان کی آزادی کا فیصلہ کُن اعلان ہے، اور پھر یہ اعلان محض فلسفیانہ اور نظریاتی تشریحات تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ عملہ حالات سے نبرد آزما ہونا چاہتا ہے۔ اور ہر ہر پہلوکا ۔۔۔۔۔۔۔ وسائل سے توڑ کرنا چاہتا ہے جو اس کے لیے موزوں و موثر ہوں تو ایسی انقلابی دعوت کے لیے جہاد کا راستہ بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اور اس کا جہاد سے وہی تعلق ہے جو چولی کا دامن سے ہے چاہے ۔۔۔۔۔ اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صحیح اسلامی اصطلاح میں دارالاسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امن کی حالت میں ہو اور چاہے اس کے پر ہمسایہ طاقتوں کا خطرہ منڈلا رہا ہو۔ اسلام جب امن کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو اس کے پیش نظر وہ " سستا امن " نہیں ہوتا جس کی تان صرف اس بات پر آ کر ٹوٹ جائے کہ اسلام کے نام لیوا جس مخصوص خطہ ارض میں رہتے ہیں وہ خطرات سے محفوظ و معون ہو جائے۔ اسلام جس امن کا خواہاں ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے اندر دین پورے کا پورا قائم ہو جائے۔ تمام انسان صرف خدائے واحد کی عبودیت بجا لائیں اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے جیسے انسانوں کو رب نہ ٹھہرائیں۔ عہد نبوت کے بعد اصل اختیار ان آخری مراحل کا ہے جن تک اسلام کی تحریک جہاد بحکم خداوندی پہنچی ہے۔ دعوت کے ابتدائی مراحل یا درمیانی مراحل اب معتبر نہیں ہوں گے۔ ابتدائی اور درمیانی مراحل گزر چکے ہیں اور جیسا کہ امام قیم نے بیان کیا ہے کہ بالآخر آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ برات کے نازل ہونے کے بعد کفار کے ساتھ جو رویہ اختیار فرمایا، اُس کی تین شکلیں ہوئیں : وہ کفار جو برسر جنگ ہیں، دوسرے وہ جو معاہدین ہیں اور تیسرے اہل ذمہ۔ معاہدین اور اہل صلح بھی جب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تو صرف دو ہی قسم کے کفار آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں رہ گئے۔ ایک محاربین اور دوسرے اہل ذمہ۔ محاربین وہ لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خائف ہیں (اس لیے ان کے ساتھ ہر جنگ کی حالت رہتی ہے۔) یہ گویا تمام اہلِ جہان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی رُو سے تین قسموں میں منقسم ہو گئے۔ ایک وہ مسلمان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، دوسرے وہ صلح جُو جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن ملا (اور ان سے مراد اہل ذمہ ہیں جیسا کہ اوپر کی عبارت سے واضح ہے) اور تیسرے محاربین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خائف تھے۔
اس بحث میں کفار کے ساتھ دعوت اسلامی کے رویے کی جو شکلیں بیان کی گئی ہیں منطقی طور پر یہی شکلیں اس دین کے مزاج اور مقاصد کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ حالات سے شکست خوردہ ذہنیت اور مستشرقین کے حملوں سے بوکھلا جانے والی فکر جہاد کی جو تشریح کرتی ہے منطق و عقل کو رُو سے وہ اس دین کے مزاج سے کوسوں دور ہے۔
جو شخص دین کے اس مخصوص مزاج کو، جس کی تشریح ہم اوپر کر آئے ہیں، اچھی طرح سمجھ لیتا ہے، وہ خود بخود اس نتیجہ پر پہنچ جائے گا کہ اسلامی تحریک کا آغاز دونوں صورتوں میں ہونا ناگزیر ہے، یعنی جہاد بالسیف کی صورت میں بھی اور جہاد بالقول کی صورت میں بھی۔ اور یہ حقیقیت بھی اُس پر عیاں ہو جائے گی کہ اسلام ان محدود معنی میں " دفاعی تحریک " نہیں ہے جو عہد حاضر کی مروجہ اصطلاح " مدافعانہ جنگ " سے متبادر ہوتے ہیں۔ یہ تنگ اور غلط مفہوم دراصل ان حضرات کا تجویز کردہ ہے جو حالات کے دباؤ اور مستشرقین کے عیارانہ حملوں سے شکست کھا کر اسلام کی تحریک جہاد کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اسلام ایک سیلِ رواں تھا جو اس لیے اُمدا کہ دنیا کے اندر انسان کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرے۔ وہ انسان کی عملی زندگی کے ایک ایک پہلو سے نبرد آزما ہوا۔ اور ہر پہلو کی اصلاح کے لیے اُس نے وہ وسائل اختیار کیے جو اُس کے لیے مناسب اور موزوں تھے۔ اس کی تحریک جہاد متعین مرحلوں سے گزری اس نے ہر مرحلے میں نئے اور کارگر وسائل سے کام لیا۔
بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اسلام کی تحریک جہاد ایک دفاعی تحریک ہے تو پھر ہمیں خود لفظ " دفاع " کے مفہوم کو بدلنا ہو گا اور " دفاع " سے مراد انسانوں کا دفاع لینا ہو گا۔ یعنی ان تمام محرکات و اسباب کے مقابلے میں انسان کی مدافعت کرنا جو انسان کی آزادی کو مامال کرتے ہیں یا اس کی حقیقی آزادی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ یہ محرکات جس طرح تصورات اور اعتقادات کی صورت میں پائے جاتے ہیں اسی طرح یہ ایسے سیاسی نظاموں کی شکل میں بھی پائے جا سکتے ہیں جو اقتصادی، طبقاتی اور نسلی حد بندیوں اور امتیازات پر قائم ہوتے ہیں۔ جب اسلام دنیا میں آیا تھا تو اس وقت بھی روئے زمین پر ان محرکات کا دور دورہ تھا اور عہد حاضر کی تازہ جاہلیت میں بھی ان کی بعض شکلیں دنیا میں رائج ہیں۔ لفظ " دفاع " کا یہ وسیع مفہوم اختیار کر کے ہم بآسانی اُن ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ادراک کر سکتے ہیں جن کی بدولت دنیا میں اسلامی تحریک کا طلوع جہاد کے جلو میں ہوا۔ بلکہ اس طرح ہمارے سامنے خود اسلام کا صحیح مزاج بھی آئینہ ہو جائیگا اور ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی کہ اسلام کا مطلب ہے انسان کی بندگی انسان سے آزادی، ربوبیت الہٰی اور تعلیمات ربانی کے سامنے سرافگندگی ۔۔۔۔۔۔ میں خواہشاتِ انسانی کی خود سری اور سرکشی کا خاتمہ اور صرف شریعتِ الہٰی اور خدا کی حکومت !!
رہی وہ کوششیں جو ایسے دلائل اور وجوہ جواز گھڑنے میں صرف کی جا رہی ہیں، جن سے اسلامی جہاد کو اُسی محدود اور تنگ مفہوم کا جامہ پہنایا جا سکے جو " مدافعانہ جنگ " کی رائج الوقت اصطلاح میں پایا جاتا ہے اور وہ دیدہ ریزی جو اس غرض کے لیے ایسی روایات و اسناد کا کھوج لگانے میں کی جاتی ہے، جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ جہاد اسلامی کےجتنے وقائے پیش آئے ہیں وہ محض " وطنِ اسلام " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے بعض کے نزدیک وطن اسلام سے مراد جزیرۃ العرب ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ہمسایہ طاقتوں کی جارحیت کے سدِ باب کے سلسلے میں پیش آئے ہیں۔ ایسی تمام کوششیں دراصل اس امر کی غماز ہیں کہ یا تو دین کے مزاج کو اور دنیا کے اندر اس کے اصل رول کو اسلام کے ان کرم فرماؤں نے سمجھا ہی نہیں اور یا حالات کی سنگینی کے سامنے اور جہادِ اسلامی پر مستشرقین کے عیارانہ حملوں کے مقابلے میں انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو یہ اطمینان ہو جاتا کہ رومی اور فارسی طاقتیں جزیرۃ العرب پر حملہ آور نہ ہوں گی تو وہ اسلام کے سیلِ رواں کو دنیا کے اطراف و اکناف تک پہنچانے کی کوشش نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دعوت کو آگے بڑھایا ہی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ اُس کے راہ میں متعدد مادی مشکلات حائل تھیں : مثلاً ریاست کی سیاسی نظام، معاشرے کے نسلی اور طبقاتی امتیازات، اور پھر ان نسلی اور طبقاتی نظریوں کی کوکھ سے جنم لینے والے اقتصادی نظام اور ان کی محافظت اور پُشت پناہی کرنے والے ریاست کے مادی وسائل۔ یہ سب عوامل راستے کے سنگ ہائے گراں تھے۔
یہ تصور کرنا کتنی بڑی سادہ لوحی ہے کہ ایک دعوت روئے زمین پر بسنے والی پوری نوعِ انسانی کی آزادی کا اعلان بھی کرے اور پھر وہ مذکورہ بالا رکاوٹوں کا سامنا محض زبان و بیان کے جہاد سے کرتی پھرے۔ بے شک یہ دعوت زبان و بیان سے بھی جہاد کرتی ہے۔ مگر کب؟ اس وقت جب انسان اس دعوت کو قبول کرنے میں آزاد ہوں۔ چنانچہ یہ دعوت تمام اثرات و موانع سے انسانوں کو آزاد کر دینے کے بعد آزادی کی فضا میں اُن سے اپیل کرتی ہے۔ اور " لا اکراہ فی الدین " کے ضابطے کی پابندی کرتی ہے۔ لیکن جب وہ مذکورہ بالا مادی اثرات اور رکاوٹوں کی عمل داری ہو تو اس کے بغیر چارہ نہیں ہے کہ پہلے انہیں بذریعہ قوت دُور کیا جائے۔ تا کہ جب یہ دعوت انسان کے دل و دماغ سے اپیل کرے تو وہ ایسی تمام زنجیروں اور بیڑیوں سے آزاد ہوں اور کُھلے دل سے اس اپیل کے بارے میں اپنا فیصلہ دے سکیں۔
دعوتِ اسلامی کا نصب العین اگر انسان کی آزادی کا فیصلہ کُن اعلان ہے، اور پھر یہ اعلان محض فلسفیانہ اور نظریاتی تشریحات تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ عملہ حالات سے نبرد آزما ہونا چاہتا ہے۔ اور ہر ہر پہلوکا ۔۔۔۔۔۔۔ وسائل سے توڑ کرنا چاہتا ہے جو اس کے لیے موزوں و موثر ہوں تو ایسی انقلابی دعوت کے لیے جہاد کا راستہ بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اور اس کا جہاد سے وہی تعلق ہے جو چولی کا دامن سے ہے چاہے ۔۔۔۔۔ اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صحیح اسلامی اصطلاح میں دارالاسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امن کی حالت میں ہو اور چاہے اس کے پر ہمسایہ طاقتوں کا خطرہ منڈلا رہا ہو۔ اسلام جب امن کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو اس کے پیش نظر وہ " سستا امن " نہیں ہوتا جس کی تان صرف اس بات پر آ کر ٹوٹ جائے کہ اسلام کے نام لیوا جس مخصوص خطہ ارض میں رہتے ہیں وہ خطرات سے محفوظ و معون ہو جائے۔ اسلام جس امن کا خواہاں ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے اندر دین پورے کا پورا قائم ہو جائے۔ تمام انسان صرف خدائے واحد کی عبودیت بجا لائیں اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے جیسے انسانوں کو رب نہ ٹھہرائیں۔ عہد نبوت کے بعد اصل اختیار ان آخری مراحل کا ہے جن تک اسلام کی تحریک جہاد بحکم خداوندی پہنچی ہے۔ دعوت کے ابتدائی مراحل یا درمیانی مراحل اب معتبر نہیں ہوں گے۔ ابتدائی اور درمیانی مراحل گزر چکے ہیں اور جیسا کہ امام قیم نے بیان کیا ہے کہ بالآخر آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ برات کے نازل ہونے کے بعد کفار کے ساتھ جو رویہ اختیار فرمایا، اُس کی تین شکلیں ہوئیں : وہ کفار جو برسر جنگ ہیں، دوسرے وہ جو معاہدین ہیں اور تیسرے اہل ذمہ۔ معاہدین اور اہل صلح بھی جب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تو صرف دو ہی قسم کے کفار آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں رہ گئے۔ ایک محاربین اور دوسرے اہل ذمہ۔ محاربین وہ لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خائف ہیں (اس لیے ان کے ساتھ ہر جنگ کی حالت رہتی ہے۔) یہ گویا تمام اہلِ جہان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی رُو سے تین قسموں میں منقسم ہو گئے۔ ایک وہ مسلمان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، دوسرے وہ صلح جُو جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن ملا (اور ان سے مراد اہل ذمہ ہیں جیسا کہ اوپر کی عبارت سے واضح ہے) اور تیسرے محاربین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خائف تھے۔
اس بحث میں کفار کے ساتھ دعوت اسلامی کے رویے کی جو شکلیں بیان کی گئی ہیں منطقی طور پر یہی شکلیں اس دین کے مزاج اور مقاصد کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ حالات سے شکست خوردہ ذہنیت اور مستشرقین کے حملوں سے بوکھلا جانے والی فکر جہاد کی جو تشریح کرتی ہے منطق و عقل کو رُو سے وہ اس دین کے مزاج سے کوسوں دور ہے۔