اسکین دستیاب جادہ تسخیر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 72

جادۂ تسخیر
جس کی سحر بیانی بے مثل و نظیر اور جس کی شیریں زبانی مقبول صغیر و کبیر ہے اگر اس کو یوسف بازار حسن کہیں تو زیبا ہے اور اگر نگارخانہ کہیں تو بجا ہے اور جس کو حاکم قلم رو سخن دانی، فرماں روائے اقلیم روشن بیانی عالی جناب نواب حیدر علی خاں بہادر رئیس رام پور نے بہ عبارت رنگیں تصنیف فرمایا ہے اور کیسا کیسا زور طبع دکھیا ہے۔
باردوم
مطبع منشی نول کشور لکھنؤ میں چھپا5981ء۔

ریختہ صفحہ 73

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حمد خدائے دو جہاں خالقِ کُن فکاں
حمد بے حد واسطے اُس محبوبِ زمین و زماں اور مطلوبِ مکین و مکاں کے شایاں ہے کہ جس نے اپنے حُسنِ عالم آرا اور جمال دل رُبا کو منظورِ نظر عشق ٹھیرا کر چہرۂ حسینانِ جہاں اور مہ جبینانِ دلستاں میں جلوہ گر فرمایا اور اس سودے کی خریداری کو بمعنی آپ آ کر اور بصورت اوروں کو سودائی بنا کر بازارِ ملامت اور رسوائی میں پھرایا۔ عشقِ لیلٰی میں مجنوں کا بیاباں کو نکل جانا اور سوزِ عشقِ شمع میں پروانے کا جل جانا، گلوں میں نیرنگی کا رنگ، بُلبُلوں کے نغموں میں نالوں کے آہنگ، یوسف کی خریداری، زلیخا کی بے اختیاری، شیریں کے حُسن کا زور، فرہاد کی تلخ کلامی کا شور، کوئی تیوری چڑھائے، کوئی سرِتسلیم جھکائے، کسی کے قامتِ زیبا کو سروِ شمشاد پر فوق، کسی کی گردن میں مثلِ قمری بندگی کا طوق، کسی کے ساغرِ چشم میں کیفیتِ جام شراب، کسی کے دیدۂِ پُر آب میں جوشیں خونِ ناب، کسی کی زُلفِ مشکیں مشکبار، کسی کے دل میں ناسور، کلیجہ فگار، کسی کا چہرہ آفتابِ عالم تاب، کوئی مانند ذرّے کے بے تاب، کسی کے ابرو میں تیغ کا خم، کسی بِسمل کے لبوں پر دَم، کسی کی نکیلی پلکیں، کوئی اُس کا نخچیر، کسی کے لبِ لعلِ آبدار، کسی کا سر پتھر کے ٹکرانے سے گل نار، کسی کی وحشت، کسی کی اُلفت، کہیں ناز، کہیں نیاز، کہیں سوز، کہیں ساز، کسی کی جفاکاری، کسی کی وفاداری، کسی کا تبسم صاعقہ بار، کسی پر نزولِ برق بلا، ہر بار کسی کی گردن کے سامنے صراحی سرنگوں، کسی کا شیشہِ دل حسرت سے پُر خوں، کسی کی کمر کا بال، کسی کی جاں کا وبال، کسی کی کلائی، گلدستہِ نور، کسی کا دل کوتاہ دستی سے چُور، کسی کی ساق

ریختہ صفحہ 74

شمعِ کا فوری، کوئی پروانہ وار سپندِ آتشِ مہجوری، کسی کے کفِ پا میں رخسارۂِ گُل کی ترکیب، کسی کو کانٹوں پر لوٹنا نصیب۔
فی الحقیقت، یہ سب اُسی طالب و مطلوب کا افسانہ ہے اور اُسی حُسن و عشق کا بہانہ ہے۔ سبحان اللہ، خوشا دِل رُبائی، زہے صورت نمائی، اُسی کی عنایت سے زمین نے سکون، آسمان نے عروج پایا۔ اُسی نے خاک کو جامۂِ انسانیت پہنایا، لالے کو رنگ، گل کو بُو دی، گو ہر کو آب، دریا کو آبرو دی۔ سرو کو باآں کہ پادر گلِ ہے۔ لقبِ آزادی دیا اور سبزے کو، باوجودے کہ مصاحبِ گلشن ہے، بیگانہ کیا۔ اُسی کے پرتو سے مہر چراغ روز ہے اور ماہ گوہرِشب افروز۔ کہیں دیدۂِ بے خواب آئینۂ حیرت ہے، کہیں دِل بے تاب نشانۂِ ناوکِ حسرت ہے۔ کسی نازنیں کا دہن موہوم، کسی مہ جبیں کی کم معدوم۔ کوئی صاحبِ تخت و تاج، کوئی نانِ شبینہ کو محتاج۔ اشعار:
ہے یہ نقش ونگارِ، نقشِ مُراد
اُسی موجد کی ہیں یہ سب ایجاد
رنگ و خوبی عطا کیا گُل کو
نالۂِ درد ناک، بُلبُل کو
ماہ کو نور دور ہالے کو
چشم نرگس کو، داغ لالے کو
اُس نے بخشا، بتوں کو حُسن و جمال
عاشقوں کو کیا پریشاں حال
اُس کا ہمسر نہیں، ندیم نہیں
سب ہیں حادث، کوئی قدیم نہیں
ذاتِ معبود جاودانی ہے
اور جو چیز ہے، وہ فانی ہے

ریختہ صفحہ 75


بلا تصنع اُس مصور یکتا اور نقاشِ جہاں آرا نے موقلم قدرت سے ایسی تصویریں، بے مانند اور شکلیں دِل پسند، قلم بند فرمائیں کہ جن کا نقشہ کہیں کھینچنے میں، مانی و بہزاد سے، بجز نالہ و فریاد کے، کچھ نہ کھچ سکا۔ خصوصاً اُس صانع باکمال اور حلی بند لا یزال نے آخر کار ایسی صورت سراپا معنی پیدا کی کہ جس کو تمام عالم نے دیکھ کر کہا۔ شعر:
با صورتِ تو کسے کم تر آفریدہ خُدا
تراشیدہ و دست از قلم کشیدہ خُدا
الغرض یہ نقشِ نو اُس نقاش ِ قدیم کو ایسا پسند آیا کہ آپ عاشق بنا اُس کو معشوق بنایا۔ ہر شخص پر ظاہر ہے، ہر شخص اس سے ماہر ہے کہ اُس نے چاند کو ایک اُنگلی سے شق کیا، اُس نے بطلانِ باطل اور احقاقِ حق کیا۔ صاحبِ تبلیغ و رسالت، دافع ضلالت، باعثِ ہدایت، عرش اُس کے قصرِ رفعت کا آستان، جبرئیل اُس کے نابِ عظمت کا داربان، دفترِ بنی آدم بلکہ کُل خُشک و ترِ عالم، جس کے نور سے معرضِ وجود میں آیا، محض وہ نور، نورِ حضرتِ عزت سے جلوہ گاہِ شہود میں آیا۔
حجر، اُس کی رسالت کا قصر، شجر، اُس کی نبوت کا مظہر، روح القدس، اُسی کا مُرغِ نامہ بر، سلیمان، اُس کا گدائے در "قاب قوسین او ادنی" اُس کا ادنٰی نمونہ قرب و اتصال " لو لاک لما خلقت الافلاک" اُس کا مختصر نقشۂ جاہ و جلال۔ انبیائے کرام ، اُس
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 76

کے خوانِ نبوت کے وظیفہ خوار، اصفیائے سراپا احترام اُس کی رسالت کے روزینہ دار۔ گُل اُس کی بُو سے دل آویز، یاسمیں، اُس کی خو سے عِطر بیز، اُس کی اصابتِ تدبیر، قامتِ تقدیر کو پیرایۂ کمال، اُس کی متانتِ فکر، گوشِ قضا کو زیور جمال۔
زہے صورتِ بےنظیر، خوشا نقشِ دِل پذیرِ مرقعِ ہستی، باعث و جودِ بلندی و پستی، ختم صنع آلہ باعثِ ایجادِ آدم یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خالقِ عالم نے محض واسطے دفعِ تیرگی ظُلمت خانۂِ خاک کے نائبِ مناب اور امین اپنا کیا اور اُس فحرِ رسل نے بہ نظرِ مصلحتِ کُل ذاتِ والا صفات، سردار اولیاء افتخارِ اتقیا، "مصداقِ ہل اتیٰ" و تاجدارِ "انما" بہترین، اولین و آخرین اعنی جناب امیرالمومنین،امام المتقین کو بفجوائے آیۂ کریما" یا ایہا الرسول بلغ فا اترل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ" وصی اور جانشین اپنا کیا: اشعار:
مدح حیدر میں، کھولیے جو دہن
اس سے آگے نہیں ہے جائے سخن
کون حیدر کا مرتبہ سمجھا
کوئی بندہ، کوئی خدا سمجھا
صلوٰت اللہ علیہما و آئما الابرارو اہلبیت الاطہار۔
تعریف شہریار، کام گار، نوابِ نام دار، نظر بددور، جناب نواب محمد کلبِ علی خان صاحب بہادر فرمان روائے رام پور خلد اللہ ملکہ و سلطنت
ہاں، اے قلم پاکیزہ جوہر، اب مدح اُس عالی ہمم کی رقم کر کہ شان و شوکت میں دارا جس کا خدمت گار، سکندر آئینہ دار۔ اُس کے انصاف نے نامِ عدالتِ نوشیرواں مٹایا۔ اُس کی ہمت نے دفترِ سخاوتِ حاتم طے فرمایا۔ اُس خداوند فضل و کمال کے روبرو ارسطو و افلاطون، جیسے عاقل کے مقابل مجنوں۔ شرع میں پیرو رسول اکرم، ورع میں فخر ابراہیم ادہم۔ فلکِ بلند، اُس کو ہمت کے آگے پست اور رُستمِ دستان اُس کی زبردستی سے زیردست، صاحب خُلقِ کریم،

ریختہ صفحہ 77
حق دوست، رعیت پرور، رحیم۔ اُس کے پرتو سے بندوں کے سر پر خدا کا سایہ، اُس کا تخت رفیع عرشِ بریں سےہم پایہ یعنی وہ والا دودمانِ، عالی خاندان، جوہرِ تابندہ کانِ ریاست، گوہرِ رخشندہ، عمانِ جلالت، تازہ نگارستانِ شہریاری، نورِ بہارِ بہارستانِ تاج داری، دلیرِ عرصۂ معرکہ آرائی شیرِ بیشۂِ کشور کشائی، ہزبر میدانِ فتح و ظفر، میرِ سامانِ کروفر، مسند آرائے ایوانِ قدر دانی، حدیقہ پیرائے بوستانِ کامرانی، جمِ حشم، کسریٰ خدم، عیسیٰ مقال، یوسف جمال، اژدردر غضنفر فر، ہلال رکاب معلٰی القاب، جناب نواب محمد کلبِ علی خان صاحب بہادر دام اقبالہ و عم نوالہ سخی، متقی، شجاع، غیور، فرمان روائے دارالسرورِ رام پور۔
جس روز سے یہ نونہالِ گلشنِ اقبال سر رشتۂ روزگار ہے ہر طرف فتنہ خوابیدہ، بخت بیدار ہے۔ عقل ششدر ہے کہ اس زمانے کو کس سے تشبیہ دیجیے اور فکر مضطر ہے کہ اس عہد کو کس سے مشابہ کیجیے؟ آوانِ جم باوجود جمعیت مجموعہ پریشاں حالی تھا۔ دوران کسرابا آں ہمہ عدالت اعتدال سے خالی تھا۔ واہ واہ، یہاں یہ حسنِ انتظام ہے کہ ہر ایک کو علیٰ قدرِ حال راحت و آرام ہے۔ غم، ایک حرف بے جا تھا کہ صفحۂ دہر سے اُٹھا دیا اور ستم ایک نقش باطل تھا کہ ورقِ دنیا سے مٹا دیا۔ نامِ شرچا درِعدم میں روپوش ہو گیا۔ چرخ سے جفا شعار کو شیوۂ جبلی فراموش ہو گیا۔ جسے دیکھو خود فروش ہے، جدھر سُنو ہنگامۂ ناؤ نوش ہے۔ اشعار:
بہت سے خداوند عالم ہوے
بہت سے جہاں میں کَے و جم ہوے
ہزاروں ہوے صاحبِ تخت و تاج
جنہیں چین و ماچیں سے ملتا تھا باج
اگر دیکھئے چشمِ انصاف سے
جُدا کیجئے دُرد کو صاف سے
یہ فی الواقعی سب تھے بیدارِ بخت
ضرور اُن کو تھا منصبِ تاج و تخت
مگر کم ہیں یہ میرے ممدوح سے

ریختہ صفحہ 78

شناور کو نسبت نہیں نوح سے
سہی ان کو جاہ و حشم میں کمال
تونگر کو دل چاہیے ہے نہ مال
کیا دامنِ حرص کو کس نے پُر
کیا قطرۂ اشک کو کس نے دُر
ہوا کس سے یہ انتظامِ جہاں
ملا کس کو دُنیا میں باغِ جناں
جم اک جام پر تھا رعونت شعار
یہاں ایسی گردش میں ہیں سو ہزار
سبحان اللہ کیا حکمت بالغۂِ پروردگار ہے کہ ایک پیکرِ نازنین ہزاروں صنعتوں کا آئینہ دار ہے۔ زبانِ ناطقہ حیران ہے کہ اظہارِ حسنِ صورت سے صفحۂ کتاب کو مرقعِ مانی بنائے یا گفتارِ شان و شوکت سے سطح اوراق کو سرمایۂ بہارِ جاودانی؟ سچ یہ ہے کہ کارخانۂ ازل میں اگر کوئی نقشہ انتخاب ہے تو یہی صورت لاجواب ہے اور اگر بیاضِ کائنات میں کوئی مصرع قابلِ صاد ہے تو یہی قامتِ موزوں اور یہی سروِ آزاد ہے۔ عزیز مصر کا ذکر اس مجموعۂ نور کے حضور لانا گویا ماہ کو پرکاہ دکھانا ہے اور نوشیرواں عادل کی داستان اس معدلتِ نشان کے دربار میں سُنانا ایک خستہ و تباہ کو اپنے زعم میں شہنشاہ بنا نا ہے۔
اگر اُس نیّرِ حُسن و جمال کے دیدار سے دور رہتا، دیدۂ بِینا کو لطفِ بصارت نہ آتا اور اگر اُس گوہرِ کانِ جاہ و جلال کے اخبار سے مہجور رہتا، پردۂ گوش جوہرِ سماعت نہ پاتا۔ دِل اُس کے احاطۂ خیال سے فانوسِ شمعِ ایمن اور دماغ اُس کے تصورِ جمال سے قندیلِ عرش پر طعنہ زن۔ پیرِ چرخ نے جب سے عینکِ مہرو ماہ لگائی ہے، ایسی طلعتِ نورانی کم دیکھنے میں آئی ہے۔ ہنگامِ کلام کلیم ہمہ تن گوش ہو اور وقتِ خرام برق برقعۂ ابر میں روپوش ہو۔ زہے قسمت اُس گل زمیں کی جہاں ایسا جمیل جلوہ فرما ہو اور خہے سعادت اُس بقعۂ مینو آئین کی جہاں ایسا کریم کارروا ہو۔ اُس کی نقا و ہمت کے سامنے بالفرض اگر چنبرِ گردوں کو کاسۂِ گدائی بنائیں فوراً اشرفی آفتاب سے پُر کردے اور اُس کے نیسانِ عنایت کے روبرو فی المثل اگر

ریختہ صفحہ 79

دامنِ دریا اُٹھا لائیں سراسر گوہرِ نایاب سے بھر دے۔ ابر اگر اُس کی رائے منیر کے مطابق دریا بار ہو عجب کہ ہر قطرۂِ آب رشکِ گُہر نہ ہو اور نامیہ اگر اُس کی صفائیِ تدبیر کے موافق سائرِ گُل زار ہو، تعجب کہ ہر غنچۂ شاداب صندوقچۂ زر نہ ہو۔ دامنِ ہوس کیسا ہی دراز ہو اُس کی وسعتِ انعام کے مقابل قلبِ لئیم سے تنگ تر ہے اور چشمِ آز کتنی ہی باز ہو اُس کی فسحت اکرام کے سامنے دیدۂِ مور کے برابر ہے۔
واہ، کیا بخششِ لاتعداد ہے کہ جس کا تصور محاسبِ وہم کے خیال میں نہ آئے۔ سبحان اللہ، کیا دادودہش بے حد ہے کہ جس کا جزو تعقلِ عقل کے خزانۂ ادراک میں نہ سمائے۔ اگر یہی فراوانی عطا ہے تو واجب ہے کہ ہر سنگ ریزہ یاقوتِ احمر ہو اور اگر یہی بے پایانیِ سخا ہے تو فرض ہے کہ ہر ذرہ تودۂِ زرہو۔ حوصلہ جو دونوال اس مایۂ فضل و افضال کا ارباب حل پر جب ظاہر ہوتا کہ یہ سراپا احسان جہانِ نامتناہی بلکہ اکثر کارخانہ الہٰی پر قادر ہوتا اور اب بھی اگر انصاف کو کام فرمائیے اور بیانِ راقم خاطر میں لائیے تو وہ کون ہے، جو اُس کے انعام سے بہرہ ور نہیں؟ کیسۂ ماہی درم سے خالی ہے یا کاسۂِ آفتاب پُرزر نہیں؟ اشعار:
زہے جودِ نواب والا جناب
کہ ذرّے کو ہے منصبِ آفتاب
وہ اب اُس کی بخشش پہ کرتے ہیں بس
جہاں لے کے جن کی نہ جاتی ہوس
نہ دیکھا ہو جس نے کبھی ایک دام
وہ دے اُس کو سو کیسۂ زرمدام
یہ بخشش یہ انعام اور یہ عطا
تماشا تھا، قاروں اگر دیکھتا
نگہ کیجے ذرّے سے تا مہر اگر
نہیں اُس کے ہاتھوں پہ کس کی نظر
جدھر دیکھئے اُس کے انعام سے
گزرتی ہے کس عیش و آرام سے

ریختہ صفحہ 80

کوئی کیفِ عشرت سے سرمست ہے
کوئی جامِ جمشید در دست ہے
دیا اُس نے بخشش کو جب سے رواج
گدا کی تونگر کو ہے احتیاج
وہی طرزِ ہمت وہی ہے عطا
مقرر یہ ہے خادمِ مرتضیٰ
جو لوگ عقل و کیا ست سے بہرۂ وافی اور فہم و فراست سے نصیب کافی رکھتے ہیں اُن پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے کہ اگرچہ اوصافِ حمیدہ میں اِس برگزیدہ درگاہِ خدا کے نام اتمام لینا اور حمائد پسندیدہ سے اس سرخیل خدامِ مصطفیٰ کے پیامِ اختتام دینا، مذاقِ سامعین کو زہر اندود اور شہد کام مبصرین کو زہر آلود کرنا ہے مگر کیا کیا جائے کہ نہ آگے زبان کو طاقتِ تقریر ہے نہ قلم کو قدرتِ تحریر ہے۔
قصیدہ
اللہ نے بخشی ہے زباں کو مِری تاثیر
الہام کے مضمون ہیں اعجاز کی تقریر
میں طوطی شکر شکن ہند ہوں گویا
ہے بُلبُلِ شیراز کو واجب مِری توقیر
دریا ہے روانی پہ مِرے فیضِ سخن کا
حاوی مِرے مضموں ہیں مِری نظم جہانگیر
پڑ جائے جو پرتو مِری رنگیں سخنی کا
پھولیں گُلِ پژُمردہ کھلے غنچۂ تصویر
 

شمشاد

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 151

دیکھئے آگے آنچل ڈالیے۔ چھوٹے کپڑے سنبھالیے۔"

غرض اس گرما گرم نے ایسی شوخیاںکیں کہ ملکہ نے شرما کر آکھیں جُھکا لیں۔ اشارے سے کہا : "ذرا میرے پاس آ۔" جب وہ پاس آئی تو چپکے سے بولی، "نصیبوں کا لکھا تو پورا ہوا۔ سوچ یہ ہے کہ دیکھیے اب کیا ہو گا؟ میرا جی چاہتا ہے کہ انہیں اسی باغ میں رکھوں۔ اور ہفتے میں دو ایک مرتبہ آیا کروں لیکن اندیشۂ مآل ہے۔ افشائے راز کا خیال ہے۔" وہ بولی، " میں اس کا بند و بست کیے لیتی ہوں۔ ابھی سب درستی کیے دیتی ہوں۔ کچھ اس کا تردد نہ فرمائیے۔ منہ ہاتھ دھوئیے، حُقہ پیجئے، پان کھائیے۔" یہ کہہ کر اُٹھی اور باغبانوں کے چودھری کو بلوا کر یہ بات کہی کہ "میری منہ بولی بہن بیمار ہیں۔ وہ یہاں رہ کر دل بہلائیں گی اور دو چار دن کے بعد جب طبیعت بحال ہو جائے گی تو چلی جائیں گی۔ خبردار، کوئی مرد اس باغ میں نہ آنے پائے بلکہ عورت بھی نہ جانے پائے۔ انہیں خفقان کی بیماری ہے۔ غیر ذالک کو دیکھ گھبراتی ہیں۔ رات دن منہ لپیٹے پڑی رہتی ہیں۔ پہروں لونڈیوں کو سامنے نہیں بلاتی ہیں اور جب بڑی حضور کی آنے کی خبر ہو گی تو میں کہلا بھیجو گی بلکہ انہیں ایک دن پیشتر بلا لوں گی۔ دیکھ، خبردار، جس طرح کہہ دیا ہے اسی طرح عمل میں لانا بلکہ دو چار دن رات کو بھی اپنے گھر نہ جانا۔" اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا : "بہت خوب! جیسا حکم ہوا یونہی ہو گا۔ "وزیر زادی بولی "ہاں، بھیا، میں بہت خوش ہوں گی۔ خاطر جمع رکھ۔ تجھے اس کا انعام دوں گی۔" یہ کہہ کر پانچ اشرفیاں اسے چپکے سے دیں اور بولی : "یہ تو لے جا۔ باقی پھر کسی دن سمجھا جائے گا۔"

وہ تو خوش خوش دعائیں دیتا ہوا اپنی طرف راہی ہوا۔ یہ مسکراتی ہوئی ملکہ کے پاس آئی۔ کہا : "لیجیے، حضور، مبارک ہو، لونڈی یہ حکم بھی بجا لائی۔ " ملکہ نہ پوچھا : "کیا تدبیر کی؟" اس نے سب کارگزاری کان میں کہہ دی۔ شاہ زادی یہ سُن کے بشاش ہو گئی۔ اس نے خواصوں کو آواز دی : "ارے حضور کا منہ ہاتھ آ کر دھلاؤ، کنگھی آئینہ لاؤ، سنگھار دان لاؤ۔" شاہ زادے کی طرف دیکھ کر کہا : "ابھی ماندگی سفر کی نہیں اُتری۔ ابھی سُستی طبیعت کی نہیں گئی۔ آئیے یہاں تشریف لائیے۔ غسل کا سامان کیجیے، چوکی پر جائیے۔" خورشید گوہر پاش نے کہا : "کیا آپ خوب میں آئیں تھیں جو بندے کو نہانے کی احتیاج

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 152

ہوئی؟ میری تو تمام رات آنکھ نہیں جھپکی۔ مجھے غسل کی حاجت ہونے لگی؟" وزیر زادی بولی : "آپ کے خواب میں آنے والی سلامت رہیں۔ میں کیوں آتی؟ مجھے کیا پڑی تھی کہ خدا واسطے آ کر سوتے فتنے کو جگاتی؟ اچھا غسل شیطانی نہ سہی، رحمانی سہی۔ کچھ دل کی نیت سہی، کچھ زبانی سہی۔ ظاہر میں آپ ایسے ہی پارسا ہیں، ایسے ہی باخدا ہیں۔ انہیں عورت کے نام سے نفرت ہے۔ بڑے نیک بندے ہیں۔ بُرے کام سے نفرت ہے۔" ملکہ بولی : "جب تک تو دو دو نوکیں لڑ نہیں لیتی چین نہیں آتا۔ کچھ نہ ہو، بے منہ آئی رہا نہیں جاتا۔ ارے اچھوں کو برا سمجھنا انصاف سے دور ہے۔ جناب مریم کی عصمت اور حضرت یوسف کی پاک دامنی مشہور ہے۔ پاک محبت میں مزہ ہے۔ نگوڑے بُرے کام میں کیا ہے۔ تو بھی کتنی بے وقوف ہے۔ عشق مُشق کیا اسی پر موقوف ہے۔ وہ بڑا احمت ہے جو جان بوجھ کر جھک مارتا ہے۔ حرام کوٹھے پر چڑھ کر پکارتا ہے۔" وزیر زادی سمجھی کہ ابھی وہ بات نہیں ہوئی۔ گردن ہلا کے چُپ ہو گئ۔ بس پہر دن چڑھے تک یہ چہل پہل رہی۔ یہ دل لگی رہی۔ یہ چُہل رہی۔ ہنگام چاشت کھانا آیا، انہیں دو تین آدمیوں نے تخلیے میں بیٹھ کر کھایا۔ ملکہ نے شاہزادے سے کہا : "لو، صاحب، میں تو جاتی ہوں۔ تم یہاں رہو۔ اپنے بس کی بات نہیں۔ میں بھی مجبور ہوں۔ تم بھی مجبور ہو۔" یہ کہہ کر سواری مانگی۔ عاشق کو روتا ہوا چھوڑ کر روتی ہوئی سوار ہوئی۔ ادھر ملکہ کا محل میں داخلہ ہوا، ادھر بادشاہ کو یہ پرچہ گزرا : کل ایک شخص مسافر صرف، فقیر وضع، ایک اکہ الماس کا بیش قیمتی فلاں افسر کو رشوت میں دے کر گل زار ارم میں گیا اور جب ملکہ کی سواری آئی تو خواجہ سراؤں سے غفلت ہوئی کہ شاہ زادی اُتر کر باغ میں گئی اور وہ مسافر وہیں رہا بلکہ اب تک وہ شخص وہیں ہے اور کسی کو خیال نہیں۔ زیادہ حدِ ادب۔ آگے عرض کی مجال نہیں۔" بادشاہ یہ پرچہ پڑھ کر آگ ہو گیا۔ اس عاشق شوریدہ سر اور اس سپاہی بندۂ زر کی گرفتاری کا حکم دیا۔ تمام دربار ہوا اور خانہ تلاشی میں اکۂ بھی دستیاب ہوا۔

جہاں پناہ نے اس جواہر نایاب پر جو نگاہ کی تو کمال حیرت ہوئی۔ کبھی اس اِکے کو دیکھتا، کبھی شاہ زادے کو دیکھتا یعنی کُجا یہ فقیر نے نوا، کُجا یہ جواہر پیش بہا۔ کہا : "اے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 153

شخص تو کون ہے؟" بولا : "مسافر سرِ راہ۔" پوچھا : "نام کیا ہے؟" کہا : "عبد اللہ۔ " فرمایا : "یہ اِکہ کہاں پایا؟" جواب دیا :"مفت ہاتھ آیا۔" کہا : "باغ میں کیوں رہا؟" بولا : سرا سمجھا۔" بادشاہ غصے میں مبہوت ہو رہا تھا۔ چاہتا تھا حکم قتل دے کہ وزیر نے کان میں جھک کر عرض کیا : "اس کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جوہر قابل ہے۔ پیر و مرشد، یا یہ شاہ شادہ ہے یا کوئی عارفِ کامل ہے۔ اس میں کچھ نہ کچھ اسرار، کچھ نہ کچھ سبب ہے۔ خداوندِ نعمت، یہ مقدمہ غور طلب ہے۔ اگر حضور کو تحقیق منظور ہے تو دو ایک دن کا تأمل ضرور ہے۔" سلطان والا شان نے وزیر خوش تدبیر کی رائے کو پسند کیا۔ بعد تأمل اس افسر کی نسبت حکم قید اور شاہ زادے کی نسبت حکم نظر بندی دیا۔ یہ خبر جو ملکہ کو معلومہوئئ کہ سرکار میں پرچہ لگا اور شاہ زادہ گرفتار ہو گیا، دم نکل گیا۔ کہا : "وائے تقدیر جس بات کا اندیشہ تھا آخر اُسی کا سامنا ہوا۔

یہ خبر تھی کہ خنجر خون ریز
یہ وقائع تھا یا کہ دشنہ تیز
دل پہ رنگ و الم ہوا طاری
ہوئے آنکھوں سے اشک خوں جاری
جان رنجور تن میں گھبرائی
دفعتاً منہ پہ مُردنی چھائی
ہو گئے زرد دعارض گُل رنگ
دل پہ برچھی لگی جگر پہ خدنگ
یک بہ یک زندگی سے یاس ہوئی
اُڑ گئے ہوش بد حواس ہوئی
دیکھ کر آسمان کو اک بار
رو کے بولی کہ او جفا کردار
ہائے کب کا عوض لیا تو نے؟
ارے ظال، یہ کیاکیا تو نے؟

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 154

جس کا ڈر تھا وہی گھڑی آئی
وائے تقدیر وائے رُسوائی
راحت اک دم کی دم اٹھائی تھی
نوبت وصل بھی نہ آئی تھی
کہ ہوا رشک او ستم ایجاد
شاد ہوتے ہی کر دیا ناشاد

اسی اضطراب میں وزیر زادی کو بُلوا کر کہا : "جو میں کہتی تھی وہی ہوا یا نہ ہوا۔ ہے ہے، اسی دن کو روتی تھی۔ ہے ہے، اسی فکر میں جان کھوتی تھی۔ ہائے، میرےلیے اس غریب پر یہ آفت آئی۔ ہائے، آبرو بھی گئی، جان بھی گئی۔ خاک میری اس زندگی پر۔ اب تو جینے سے دل ہٹ گیا۔ زمانے کے صدمے اُٹھا کر کلیجہ پھٹ گیا۔ لے میں تو زہر کھائے لیتی ہوں، جان دیے دیتی ہوں۔ نہ زندہ رہوں گی نہ صدمے سہوں گی۔" وزیر زادی : "کچھ خیر ہے۔ شُدنی کو کوئی کیا کرے؟ انقلابِ تقدیر کی کیا دوا کرے؟ ابھی آپ نے دیکھا کی اہے؟ یہ تو عشق کا اک ادنیٰ سا کرشمہ ہے۔ یہ وہ پتھر ہے کہ شیشۂ ننگ و ناموس کو توڑتا ہے۔ یہ عاشق اور معشوق دونوں کو رسوا کیے نہیں چھوڑتا ہے۔ اس خانماں خراب کے عجب کارخانے ہیں۔ جہاں اس کا نام سُنا پھر دوست دشمن ہیں، اپنے بیگانے ہیں۔ چاہ کی افتاد کوئی حضرت یوسف سے پوچھتا۔ عشق کی روداد کوئ زلیخا سے سُنتا۔ جب دل دیا اور عذاب جان پر لیا پھر رونا پیٹنا کیا؟ اس راہ میں دل پر جبر چاہیے۔ اس مصیبت میں صبر چاہیے۔ خدا سے التجا کرو، اللہ سے دعا کرو۔ وہکارساز ہے، بندہ نواز ہے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ آفت بہت جلد ٹل جائے گی۔ خدا نہ کرے کسی کی آبرو پر حرف آئے گا۔ نہ جان پر نوبت آئے گی۔ ابا جان، اماں جان سے یہ حال کہہ رہے تھے۔میں چپکے چپکے سنا کی۔ مجھے اس کی ساری کیفیت، ساری حقیقت معلوم ہو گئی۔ ابا نے حضرت کو سمجھا دیا کہ یہ کوئی شاہ زادہ ہے۔ اب قبلۂ عالم کا کچھ اور ارادہ ہے۔ اسے قید نہیں کہتے۔ یہ برائے مصلحت چشم نمائی ہے۔ ایسی بھڑکتی ہوئی آگ کا ٹھنڈا ہو جانا فقط اس کی کبریائی ہے۔ اس کی رحمت سے بگڑا ہوا کام سنورتا ہے۔ اضطراب سےکچھ فائدہ نہیں۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 155

دیکھو تو مسبب الاسباب کیا کرتا ہے؟" ملکہ نے کہا : "ایسے نصیب کہاں؟ اب میں کہاں، وہ غریب کہاں؟ میں خوب جانتی ہوں کہ عشق کا یہی نجام ہے۔ مگر دل کو کیا کروں کہ اس کے ہاتھوں سے کام تمام ہے۔ ہائے رہ رہ کر جی گھبراتا ہے۔ نہ چین آتا ہے نہ قرار آتا ہے۔" وزیر زادی جوں جوں سمجھاتی تھی شاہ زادی اور مضطرب ہوتی جاتی تھی۔نہ کھانا تھا نہ سونا تھا۔ ہر گھڑی کا تڑپنا تھا، ہر گھڑیکا رونا تھا۔کبھی اپنے بیگانے کی آنکھ بچا کر اشک بہاتی تھی۔ کبھی لوگوں کو دیکھ کر آنسو پی جاتی تھی۔ کبھی بے قرار ہو کر محل سرا کے کوٹھے پر جاتی اور جس مکان میں شاہ زادہ نظر بند تھا اس طرف دیکھ کر یہ نظم سناتی (نظم)

ہائے اے میرے عاشق شیدا
دن ڈھلا شامِ غم ہوئی پیدا
یہ مصیبت کہاں یہ قید کہاں
ہائے اے میرے یوسفِ زنداں

معاذ اللہ عجب آفت تھی، عجب مصیبت تھی۔ بس اسی بے قراری اور آہ و زاری میں رات گزری۔ صبح کو دستور المعظم حسب دستور دربار شاہی میں حاضر ہوا اور پایۂ تخت کو بوسہ دے کر عرض کیا : "جب تک اس مقدمے کی تحقیقات عمل میں آئے، حکم ہو تو وہ اِکہ جواہر خانے میں رکھوا دیا جائے۔" فرمایا : "اچھا کیا مضایقہ۔" چنانچہ جواہر خانے کا داروغہ طلب ہوا اور وہ جواہر خوش جوہر اس کے سپرد کیا گیا۔ حُسن اتفاق دیکھیے، یہ سبب پیرانہ سالی کے، وہ اِکہ اُس کے دست مُرتعش سے گرا۔ بس گرتے ہی نگ الگ اور خانہ الگ تھا۔ اب سُنیے اس خانے میں ایک کاغذ تھا۔ اس پر کچھ تحریر تھا۔ فی المثل وہ نوشتہ نوشتۂ تقدیر تھا۔ وہ کاغذ تھا یا صورت حال تھا۔ وہ کتابت تھی یا قلم کی کھچی ہوئی تصویر تھی۔ وہ نگ آیئنۂ سکندر تھا۔ وہ خانہ آئینہ کا گھر تھا۔ وہ تحریر ارسطو کی تحریر تھی۔ خورشید گوہر پوش گویا پیغمبر تھا اور وہ صحیفہ کتاب آسمانی تھا۔ہر نقطہ اس کی آیۂ ہدایت اور فقرہ اعجاز کی نشانی تھا۔ جب وہ خط پڑھا تو اور اعتقاد بڑھا۔ بادشاہ نے پوچھا : "کیا ہے؟" عرض کی : "کسی مولود کا زائچہ ہے۔" حضرت نے جو اُسے آپ ملاحظہ فرمایا، تمام حال آئینہ پایا۔ وہ زائچہ کسی بڑے طالع شناس نے بنایا تھا۔ زائچہ کیا بنایا تھا، معجزہ دکھایا تھا۔ تمام حال ماکان

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 156

ومایکون قلم بند کر دیا تھا۔ سب خانوں کو کیفیت واقعی سے بھر دیا تھا۔ من جملہ یہ بھی تحریر تھا کہ یہ نومولد عاشق تن ہو گا۔پندرہویں برس یہ صورت پیش آنی ہے۔ یہ پیشانی تحریر پریشانی ہے۔ظلِ سُبحانی نے اس مضمون کو وحی جانا۔ کہا : "ہاں، ذرا اس لڑکے کو لانا۔" وزیر بولا : "خانہ زاد، اس صاحب زادے کو ابھی لایا۔" بس شاہ زادہ ہاتھوں ہاتھ آیا۔ حضرت نے بہ کمال التفات یہ بات یہی : "تم خورشید گوہر پوش کو جانتے ہو؟" اس نے کہا "جی۔" پوچھا : "یہ کون ہے؟" بولا : "سلطان ابن سلطان۔" فرمایا : "اس کا وطن کہاں ہے؟" کہا : "فلاں شہرِ جنت نشان۔" ارشاد ہوا : "اس کی کیفیت جس قدر معلوم ہو، حضور میں بے کم و کاست عرض کرو۔" اس نے کہا : " یہ شاہ زادہ اعلی نسب والے حسب، بہ جمیع صفات جمیلہ متصف ہے۔ ایک زمانہ اس کے فضل و کمال کا معترف ہے۔ حکمت مین پیر ہے۔ فطرت میں جوان ہے۔ اللہ کی قدرت ہے۔ خدا کی شان ہے۔ حسین و جمیل، بہادر سخی، عالم کامل، جوان صالح، متقی مشہور ہے کہ ان دنوں شکار کو نکلا تھا۔ایک ہرن کے تعاقت میں گھوڑا ڈالا۔ لشکر سے جدا ہو گیا۔ اتفاقیہ باغ سلیمانی میں جا نکلا۔ اور محمود شاہ نامی درویش حقیقت کیش کی خدمت میں پہنچا۔ وہاں کسی شاہ زادی کی تصویر تھی۔ اسے دیکھ کر عاشق ہوا۔ کہتے ہیں کہ اب دیار یار کی راہ لی ہے۔ بہ مصداق السعی منہ والا تمام من اللہ۔ آزمائش تقدیر کی ہے۔" بادشاہ نے کہا : "پھر وہ اس مقام تک پہنچا یا تباہ ہوا؟" کہا "نہیں بہ افضال خدا پہنچا۔" مکرر ارشاد کیا : "بھلا وہ کون مقام ہے؟" یہ بولے : "کسی جواہر کے نام پر اس شہر کا نام لے۔" الکنایتہ، ابلغ میں التصریح العاقل تکفیہ الاشارہ کی یہی توضیح ہے۔" بہ ہمہ وجوہ تصدیق ہو گئی کہ وہ شاہ زادہ یہی شاہ زادہ ہے۔ بہ سبب اتحاد ازلی اور مشیت ایزدی دل گرفتہ و دل دادہ ہے۔ وزیر نے اشارے سے عرض کیا : "دیکھیے، غلام نے یہ کہا تھا۔" یاقوت شاہ وہ شادی کا رقعہ لیے ہوئے اٹھا اور مسکراتا ہوا داخل محل ہوا۔ چلتے وقت وزیر سے یہ کہتا گیا کہ : "اس لڑکے کو حمام میں لے جاؤ اور نہلا دُھلا کر پوشاک بدلواؤ۔" ملکہ مہ جبیں کی ماں سے جا کر یہ سب حال کہا اور دیرے تک میاں بی بی میں باہم مشورہ رہا۔

غرض اس نوشابۂ دوراں نے بادشاہ سے کہا : "سُنو، صاحب، آخر یہ فرض ادا

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 157

کرنا ہے، کہیں نہ کہیں اس ناکتخدا کو کتخدا کرنا ہے۔ شکر کا مقام ہے، خدا نے گھر بیٹھے لڑکا بھیج دیا۔ قربان اس کی کارسازی کے، بڑا کام کیا۔ نامِ خدا بر بھی اچھا ہے۔ گھر بھی اچھا ہے۔ اب سوچنا اور تأمل کرنا بے جا ہے۔ مثل مشہور ہے : مشرق کی بیٹی، مغرب کا بیٹا۔ گویا یہ سنجوگ دونوں کی جنم پتری میں لکھا ہوا تھا۔ آگے، صاحب، تمہیں اختیار ہے۔ میری بات کا کیا اعتبار ہے۔" یاقوت شاہ نے کہا : "نہیں،میری رائے یہی ہے۔ وزیر اعظم نے بھی اس کی صلاح دی ہے۔ بہتر۔ اچھا شادی کا سامان کرو۔" اچھی تاریخ، اچھی ساعت، اچھا دن دکھلوا، باہر نکل کر وزیر سے کہا : "خورشید گوہر پوش کو اپنے گھر لے جا اور جو روزِ عقد قرار پائے اس دن برات لے کر آ۔" وہ بولا : "بہت مبارک، سبحان اللہ، اس بات کی کیا بات ہے؟ ماشاء اللہ طرفین میں درجۂ مساوات ہے۔ خانہ زاد کی بھی یہی صلاح تھی۔ حضور تو روشن ضمیر ہیں۔ عرض کرنے کی نوبت بھی نہ آئی۔" یہ کہہ کر تسلیم کی اور دیوان خاص سے باہر آیا۔ آتے ہی ایک ہاتھی جڑاؤ ہودے کا منگوایا۔ آپ خواصی میں بیٹھا۔ شاہ زادے کو آگے بٹھایا۔ بہ کمال حشم و خدم نہایت تزک اور جلوس سے اپنے گھر لایا۔ گھر گھر یہ چرچا ہوا۔ اس نے اُس سے، اُس نے اس سے کہا۔ بادشاہی محلات میں یہی دھوم ہوئی۔ الہٰی شکر نسبت شاہ زادی کی ٹھہر گئی۔ اما، چھو چھو، دائیوں نے دلہن کی ماں کو آ کر مبارک باد دی۔ وہ بولی :"ہاں، بیبیو، خدا نے تم سب کی سُن لی۔" وزیر زادی ہنستی ہوئی شاہ زادی کے پاس گئی اور چٹکی بجا کر بولی : "کچھ نسبت کی بھی خبر ہے۔ کہیے، عاشق کی آہ میں اثر ہے یا معشوق کی آہ میں اثر ہے۔ ابھی تو آپ آٹھ آٹھ آنسو رو رہی تھیں۔ کس قدر بے تاب تھیں؟ کیا کیا بے قرار ہو رہی تھیں۔ ابھی اضطراب تھا۔ ابھی دل ٹھہر گیا۔ اللہ کیا ہنسی کو ضبط کیا ہے۔ کیا ٹال کر منہ پھیر لیا ہے۔ ذرا ادھر توجہ فرمائیے۔ یہ ہنستے ہوئے لب، چمکتی ہوئی پیشانی بندی کو بھی دکھائیے۔" ملکہ نے ہنس کر کہا : "آج محل میں مبارک باد کیسی ہے؟ کس امر کی شادی ہے؟ کسی بات کی خوشی ہے؟ کچھ تجھے بھی خبر ہے؟ کچھ تو بھی سُن آئی؟ کیا شاہ زادے نے قید سے رہائی پائی؟" وہ بولی : "میں کیا جانو؟ کیا میں کسی کی خبر پوچھتی پھرتی ہوں اور بالفرض جانتی بھی ہوں تو کیوں کہوں؟ گھبراہٹ کیا ہے؟ جلدی کیا ہے؟ جب میرا جی چاہے گا بتا دوں گی۔ کچھ مٹھائی کھلائیے گا، چراغی چڑھائیے گا تو خیر

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 158

ایک خوش خبری سنا دوں گی۔"

ملکہ نہ کہا : "جلدی کہہ، کیا ہوا؟" یہ بولی : "ہوا کیا؟ فضل خدا ہوا۔ حضرت کو ان ولی کامل کا شاہ زادہ ثابت ہو گیا۔ وہ صورت اور سیرت دیکھ کر فرمایا۔ ہم نے اس لڑکے کو اپنا بیٹا کیا۔ میری چھوٹی بہن سے ان کی نسبت کا پیغام دیا ہے۔ ابا جان نے بھی حسب الحکم اقرار کر لیا ہے۔ اب دو چار دن میں شادی ہو جائے گی۔ کہیں سے مانجھا آئے گا، مہندی آئے گی، کہیں سے ساچق آئے گی برات آئے گی۔" ملکہ بولی : "الٰہی شکر، اس غریب کی جان بچی، خدا نے بڑی بلا سے نجات دی، اور بیاہ برات کو مجھے کیا سناتی ہے۔ ناحق اٹھلا اٹھلا کر باتیں بناتی ہے۔ تو ہو یا تیری چھوٹی بہن ہو، مجھے کیا؟ اری دیوانی، اری خبطن، ہوش میں آ۔ اس زمانے کی رنڈیوں کا یہ حال ہے کہ خوش قطع مرد کو دیکھ کر پھیلی جاتی ہیں۔ ایک کو سائی، ایک کو بدھائی۔ اس سے آنکھ لڑاتی ہیں؛ اس پر منہ آتی ہیں۔ چھائیں پھوئیں ایسی چھنالوں کے سائے سے خدا بچائے۔ اللہ کسی کی بہو بیٹی کو ان کے پاس نہ بٹھائے۔"

وزیر زادی نے کہا : "گستاخی معاف، کون سا درخت ہے جسے ہوا نہیں لگی؟ ظاہر ہے سب پارسائی کا دم بھرتی ہیں۔ بڑی بڑی نیک رنیں، بڑی بڑی عصمت والیاں برقع میں چھیچھڑے کھاتی ہیں۔ گھونگھٹ کی اوٹ میں نوالے نوش کرتی ہیں۔ حضور برہم نہ ہوں۔ دشمنوں کا چیتا نہ ہو گا۔ آپ کا چاہیتا اوروں کا چاہیتا نہ ہو گا۔ لیجیے مبارک! یہ حضور کی شادی کا بیان ہے۔ اللہ رکھے خانہ آبادی کا سامان ہے۔ بادشاہ نے شاہ زادے کو خلعت سرفرازی سے سرفراز کیا۔ شادی کی تاکید کی۔ خانہ دامادی کا حکم دیا۔ ابا جان سے فرمایا کہ لڑکے کو اپنے گھر لے جاؤ۔ دلہن کی ماں، دلہن کو سنوارے۔ دولہا کو تم سنوار کر لاؤ۔ اب کوئی دن میں تخت کی رات آتی ہے۔ اس ہفتے میں تاریخ بھی مقرر ہوئی جاتی ہے۔"

یہ سُن کے ملکہ کے منہ پر سرخی آ گئی۔ آنکھیں جُھکا کر چپکی ہو رہی۔ وہاں یاقوت شاہ جو محل میں آیا تو دلہن کی ماں نے کہا : "صاحب، میں اس تجویز میں ہوں۔ اگر تم کہو تو ایک نظر لڑکے کو بلا دیکھ لوں۔" بادشاہ نے کہا : "مجھ سے کیا پوچھتی ہو؟ شوق سے بُلا بھیجو۔" ملکہ کی ماں نے نواب ناظر سے کہا : "میاں تم، ذرا جاؤ اور لڑکے کو اپنے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 159

ساتھ لے آؤ۔" المختصر، اُدھر لوگ شاہ زادے کو لینے کو گئے؛ ادھر اپنے پرائے، بڑے بوڑھے سب آ کر جمع ہوئے۔ صحن پر تختوں پر چاندنیوں کا فرش ہوا۔ بیچ میں کارچوبی نم گیرے کے تلے شہانہ مسند تکیہ لگا دیا۔ اتنے میں خواصوں نے دھوم مچائی یعنی خبر آئی کہ لڑکا آیا۔ غرض نواب ناضر بعد بند و بست خوشید گوہر پوش کو اپنے ساتھ لایا اور مسند پر بٹھایا۔ بیبیاں سب اپنی اپنی جگہ مشتاق تھیں۔ ایک مرتبہ چلمن کے پاس آ کر جھانکنے لگیں۔ کسی نے دور چٹ چٹ بلائیں لیں؛ کسی نے منہ اٹھا کر دعائیں دیں۔ ایک نے کہا : "ماشاء اللہ چاند ہے۔" دوسری نے کہا : "چشم بد دور، چاند بھی اس کے سامنے ماند ہے۔" کوئی بولی : "اللہ رکھے کیا جوانی ہے۔" کوئی بولی : "نام خدا یوسف ثانی ہے۔" کسی نے کہا : "یہ تو گلاب ہے۔ سلامتی سے جیسی دولہن چاند ہے، ویسا ہی یہ آفتاب ہے۔" ساس نے سجدۂ شکر کیا کہ خدا نے ایسا گوہر شاہ وار دیا۔ اس وقت کی شادی کا کیا ذکر کیا جائے؟ وہ خوشی کیا بیان میں آئے؟ سب کی باچھیں کھلی تھیں۔ گھر بیٹھے مرادیں ملی تھیں۔ اندر سے ایک کشتی میں طرہ، بدھی، جیغہ، سر پیچ آیا اور برائے شگون شاہ زادے کو پہنایا۔ اس وقت تکلفات رسمی و رسوم تکلفی کو موقوف رکھا۔ اسی شگون پر اکتفا کیا گیا اور بعد رخصت شاہ زادے کے تاریخ اور دن بھی دکھلوا کر کہلا بھجوایا۔

رفتن ساچق از طرف نو شاہ بمکان عروس و آمدن مہندی از جانب عروس بایوان نو شاہ رشک روم و روس۔

خبردار ساقی کھلا لالہ زار
مبارک ہو شادی کہ آئی بہار
دلہن بن رہی ہے عروس چمن
براتی ہیں گل باغ ہے انجمن
ترن سرا ہیں نواسنج باغ
مرادوں کے روشن ہوئے ہیں چراغ
نہ بلبل کو کھٹکا نہ گل کو حجاب

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 160

الٹتے ہیں غنچے بھی رخ سے نقاب
زباں زد یہی ذکر معلوم ہے
مبارک سلامت کی اک دھوم ہے
مہیا ہیں اسباب عشرت تمام
کہیں دور محفل، کہیں دور جام
بنی چاند، نو شاہ خورشید ہے
شب جشن ہے روز امید ہے
دکھا جلوۂ حسن بنت العنب
یہ پردہ غضب ہے، غضب ہے، غضب
یہی فصل ہے یادگار شراب
نہیں لطف نوروز بے آفتاب
مئے ارغوانی پلا بے درنگ
نکھر جائے محفل بدل جائے رنگ

مطر بان خوش صدائے بزم شادی، مغنیان جادو نوائے انجمن مبارک بادی، رقاصان شیریں ادائے محفل عیش و نشاط، خنیا گران دل ربائے ہنگامۂ مسرت و انبساط یعنی پردہ کشایان روئے شاہد رنگین بیانی و نقاب برداران چہرہ دل بر نکتہ دانی، اس نغمہ دلکش اور ترانہ مسرت بخش کو سامعہ نواز فرماتے ہیں کہ یہاں تو وزیر خوش تدبیر کے حسن انتظام سے سب سامان تیار تھا۔ فقط تعین تاریخ کا انتظار تھا۔ دن مقرر ہوتے ہی کل تیاریاں ہو گئیں۔ بجا بجا نقار خانوں میں نوبتیں بجنے لگیں۔ رقعے شادی کے تقسیم ہوئے۔ تورے بٹنے لگے۔ عملے نے جوڑے پائے، کار خانداروں نے توڑے۔ مہمانوں کی آمد ہوئی۔ سواری سواری اترنے لگی۔ یہاں تک کہ زمانے نے بسنت کا مژدہ سنایا۔ شادی کی ابتداء ہوئی۔ مانجھے کا دن آیا۔ آخر روز یعنی دن ڈھلے دلہن والے مانجھا لے کر چلے۔ مانجھا کیا تھا، آمد بہار تھی۔ بسنتی پوشوں کے ہجوم سے زمین زعفران زار تھی۔ وہ بہار دیکھ کر آفتاب کا منہ زرد تھا۔ کندن کا رنگ گرد برد تھا۔ آسمان رشک سے کُہربا کی طرح رنگ بدلتا تھا۔ ہر برگ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 161

صد برگ حسرت سے کف افسوس ملتا تھا۔ کوسوں تک زرد چنبیلی کا چمن کھلا تھا یا عاشقوں کے رنگ پریدہ کو جمعیت کا حکم ملا تھا۔ وہ ہزار در ہزار پینڈیوں اور بٹنے کا خوان؛ وہ مزدورنیوں کی سج دھج اور شان۔ پینڈیاں وہ پینڈیاں کہ اثمار جنت سے گوئے سبقت لے جائیں۔ پردے پردے میں حسینوں کا جوبن دکھائیں۔ آب داری میں حقۂ بلور، خوشبو میں طبلہ عطار، حلاوت میں مصری کی ڈلیاں، مذاق میں لعلِ شکر بار۔ ان میں میوے کی جگہ میوہ جنان؛ شیرینی کی جگہ شیرۂ جان۔ وہ ان پر سونے چاندی کے ورق، چاند سورج کے ہم طبق۔ ان خوانوں سے اہل مذاق کی آنکھ لڑتی تھی؛ انسان ایک طرف، فرشتوں کی رال ٹپکی پڑتی تھی۔

وہ بٹنا، وہ گل گونہ، غازہ بہشت کا نمونہ، جس کی خوشبو نے کوچہ و بازار کو بسا دیا۔ مشک و عنبر، عطر، ارگجے کو بندۂ زر خرید بنا لیا۔ وہ بٹنا، جس کے بدن سے ذرا یک مرتبہ چھو جائے، عمر بھر اس کے جسم سے دلہن کی خوشبو آئے۔ کئی سو کشتیوں میں بسنتی جوڑے جھکا جھک۔ وہ بنت گوکھر و چٹکی کرن کی جھلا جھلی، وہ سنہرے رنگ کی چمک دمک۔ کنگنا جڑاؤ بہ از نو رتن، دست بند کیقبادی پر طعنہ زن۔ موتیوں کے جھومر کر شرمائے۔ عقد ثریا کو خاطر میں نہ لائے۔ کنگنے میں ناڑا اور ناڑے میں چھلے اور طاؤس بہشتی کا پر، دستاویز حسن و دافع نظر۔ وہ کنگنا تھا یا کہ گوہر ایک دانہ یا درۃ التاج زیور شاہانہ۔ اس کنگنے کی خوشا قسمت، زہے تقدیر، نوشاہ کی دستِ بیع اور بادشاہوں کا دستگیر۔ وہ چوکی جواہر نگار، طلا کار و مرصع کار۔ اس پر سونے کا لوٹا ناڑے سے بندھا ہوا رکھا۔ فی المثل وہ چوکی شپہر نور تھی اور لوٹا شمس الضحٰی۔ کٹورا دودھ پینے کا، جام جمشید کا جواب۔ صورت میں مشتری، طلعت میں ماہ تاب،لنگی دیبائے رومی کی گل نار جس پر کشمیر کی چادر اور بنارس کی ساڑھی نثار۔ کھیس اگرچہ سادہ مگر دوشالے سے قیمت میں زیادہ۔ تیل بوُ دار، مجموعۂ بہار۔ دودھ پینے کو اشرفیوں کے توڑے؛ کہاروں کے کاندھوں پر خاص بردار وردیاں پہنے، جلوس برابر بادشاہی، سامان دولت خواہی۔

غرض اس شان سے مانجھا دلہا کے گھر آیا۔ نو شاہ کو نہلا دُھلا کر جوڑا پہنایا۔ اندر باہر محفل ہوئی۔ شربت پلائی کی رسم ادا کی گئی۔ دلہا والے چنگیروں میں عطر پان اور

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 162

کشتیوں میں گوٹے کے ہار لائے۔ عملے کے لوگوں نے انعام پایا۔ امتیازیوں نے خلعت پائی۔ نوشاہ کے جوڑا پہنتے ہی رنگین مزاج پکارے "رنگ ہے، نو روزکی عید ہے۔ خوشی کی اُمنگ ہے۔" آرزوئیں دل کی نکلنے لگیں۔ رنگ اُچھلنے لگا، پچکاریاں چلنے لگیں۔ پھر تو ہولی کا سامان تھا، برج کی بہار تھی۔ ابیر و گلال کے بادل تھے، رنگ کی پھوہار تھی۔ عشرت کی گھاتیں، عیش کے منصوبے، سب عورت مرد ایک ہی رنگ میں ڈوبے۔ (نظم)

جسے دیکھئے بس شرابور تھا
یہی دھوم تھی اور یہی شورتھا
فراموش دنیا کی نیرنگ ہے
بہار آئی ہے رنگ ہی رنگ ہے

چوتھے دن دلہا کی طرف سے ساچق چلی۔ ساچق بھی وہ ساچق جس نے بہار گلزار ارم ساتھ لی۔ وہ چاندی کے گھڑے، سگھڑ سادے کاروں کے ہاتھ کے گڑھے۔ ہر چوگھڑا چار قب تاجِ سلیمانی یا چار قبۂ تخت نوشیروانی یا چار حد چار دانگِ عالم یا چار کنگرۂ عرش اعظم۔ ہر گھڑا مربع نشین مسند جہاں داری۔ ہر چوگھڑا ہم جب چار بالش شہر یاری۔ عجب عظم و شان سے تختوں پر دھرے، ولایت کے چیدہ میووں سے بھرے۔ اکثروں میں نقل جیسے بُرجوں میں ستارے۔ اکثروں میں طرح طرح کے میوے، لطافت میں انگور، حلاوت میں شکر پارے۔ وہ سونے کی مٹکی جس میں ماہی مراتب کی شان۔ اس میں مچھلی لٹکتی ہوئی جیسے سینے میں دل اور منہ میںزبان۔ ایک کشتی میں ریت کا جوڑا،چڑھاوے کا گہنا۔ دیکھنے والے کہتے تھے۔ واہ اس تکلف کا کیا کہنا؟ وہ سہاگ پڑا، سہاگ کے عطر میں بسا ہوا کلاوے سے کسا ہوا۔ وہ اس پر چاندی کی تھل، صندل کے ٹیکے، جن کے سامنے گلوں کے رنگ پھیکے۔ وہ آرائش کے تخت جیسے تختۂ گلزار۔ پھول، وہ پھول جن کی ہر فصل میں بہار۔ وہ تخت رواں تھے یا سریر سلیمان۔ وہ ابرک اورجگمگے کے درخت، وہ گلہائے رنگا رنگ جنہیں دیکھ کر مصوروں کی عقل دنگ۔ کہیں درختوں میں موتیوں کے گچھے، زمرد کے پتے، ٹہنیوں پر جانور ضواہر کے بیٹھے۔

وہ گلستان عجب گلستان تھا کہ ہاتھوں ہاتھ رواں تھا۔ وہ آرائش دلہن کی آرائش

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 163

تھی۔ وہ نمایش حُسن کی نمایش تھی۔ تماشائی حیران تھے، قدرت کے سامان تھے۔ آگے آگے جلوس کے نموداریاں، پیچھے پیچھے سمدھنوں کی سواریاں۔ جب دلہن کے دروازے پر ساچق پہنچی خوان کشتیاں داخل محل ہوئیں، آرایش لُٹا دی۔ ادھر سے ساچق گئی، ادھر سے لوگ مہندی لے کر چلے۔ ہزاروں دستے کنول، لاکھوں دستیاں نور افشاں، کروڑوں پنج شاخے سونے چاندی کے روشن ہو گئے۔ مانجھے اور مہندی کی ایک شان ہے۔ اس میں پینڈیوں کے عوض ملیدہ اور بٹنے کے عوض مہندی۔ باقی سب وہی سامانہے۔ مضمون بستہ مثل حنائے بستہ کب نظر پر چڑھتا ہے، کب رنگ لاتا ہے؟ لہذا لوٹے، کٹورے، چوکی، خلعت، چڑھاوے، نقدی کے علاوہ خاص چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ وہ سونے کی سینیوں میں مہندی گُندھی ہوئی۔ وہ سرخ سبز شمعوں کی روشنی جیسے محبوب سبزہ رنگ کی فندق بند انگلیاں یا خضر کے دامن میں شگوفۂ گلزار جناں یا سبزہ کہسار سے آفتاب کی کرن پھوٹی۔ اس کے پرتو سے چرخ فیروزہ رنگ اور ہلال یک شنبہ کے منہ پر مہتاب چھوٹی۔ وہ ملیدہ شفاف و آبدار، دریائی، حلوے سے سبقت لے جانے والا، پنحیری اور تنبول کا یاد دلوانے والا۔ خود تو خوان کے اندر مگر مزہ لوگوں کی زبان پر۔ وہ روشنی سی روشنی، کوسوں تک، دھوپ، کوسوں تک چاندنی۔

یاقوت شاہ کے تو سوا ملکہ مہ جبیں کے اور کوئی بیٹی نہ تھی۔ وزیر زادی سالی بن کر مہندی لے گئی۔ جب مہندی لگانے کے مذکور آئے وزیر زادی نے نیگ لینے کے لیے پاؤں پھیلائے۔ کیا کیا منہ آئی؟ کیا کیا رنگ لائی؟ کبھی پردے سے ہاتھ باہر نکالتی تھی، کبھی کھینچ لیتی تھی۔ کبھی ڈہکاتی تھی، کبھی دھوکے دیتی تھی کبھی چپکے سے کہتی تھی : "میاں مسافر کی گرہ میں کیا ہے جو نیگ دیں گے۔ یہ تو آپ بیگانے ہاتھ کے دیکھنے والے ہیں۔ موقع پا کر خود ہتھ پھیری کر لیں گے۔ زمانے کے نیرنگ کا اس وقت مشاہدہ کیا۔ مہندی کا چور کانوں سے سُنا تھا، آج آنکھوں سے دیکھ لیا۔" کبھی تاک جھانک میں اشارے سے جتاتی تھی : "ارے واہ رے اُستاد، اچھا لٹکا ہاتھ آیا۔ خوب گل کترے، خوب رنگ جمایا۔" غرض چھیڑ چھاڑ کے بعد نیگ لیا، مہندی لگائی اور حنا بند کار چوبی باندھ کر یہ بات سنائی :

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 164

ہاتھ باندھے ہر ایک دلبر ہے
اے حنا کیا ترا مقدر ہے

چلتے وقت کہتی گئی : "اے میاں، گڑیوں کے نوشہ، ذرا سویرے برات لے کر آنا۔ ناچ رنگ میں پڑ کر بے ہوش نہ ہو جانا۔"

کتخدا شدن شاہ زادہ با ملکۂ مہ جبین یاقوت پوش و گردیدن عروس و داماد در حجلۂ عروسی، بکمال شادی ہم آغوش و روز دیگر غآئب شدن ملکہ از بالائے بام و بے تابیٔ شاہ زادہ، نامیدی از گردشِ ایام۔

سنا ساقیا اب نوید برات
پھرے دن کہ آئی مرادوں کی رات
یہی عاشقوں کی شب قدر ہے
یہی حسن میں لیلۃ البدر ہے
عجب وقت ہے اور عجب فصل ہے
شب وصل ہے یہ شب وصل ہے
یہی جدول صفحۂ نور ہے
یہی طرۂ گیسوئے خور ہے
یہی سرمۂ دیدۂ شوق ہے
اسی شب کو نو روز پر فوق ہے
خوشا دور چیدہ ہے بزم نشاط
زہے شادی و عشرت و انبساط
ہنسیں جام رندوں میں ہوں چہچہے
صراحی کرے دم بدم قہقہے
پئے حلت دخت رز بے گماں
پڑھے خطبۂ عقد پیر مغاں

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 165

لنڈھے مے بجے بربط و عود و چنگ
کہیں رنگ ہو اور کہیں جلترنگ

مے نوشان خمخانہ شادی، بادہ پرستان میکدۂ مبارک بادی، ساغر کشان ہنگامۂ عیش و سرور؛ سیہ مستان محفل و عشرت و سوز یعنی رونق افزایانِ بزم بلاغت و زینت پیرایان انجمن فصاحت، عروس سخن کو آغوش داماد بیان میں بٹھاتے ہیں کہ برات کی رات کا کیا مذکور، ذرہ ذرہ تجلی، تاروں تاروں نور۔ وہ وزیر باغ کے لکھ پیڑے کا میدان۔ وہ خیمے کے استاد سے زمین آسمان۔ کہیں سلطانی بانات سرخ کے خیموں سے لالۂ کہسار کی بہار۔ کہیں کاشانی مخمل سبز کے سراچوں سے کوہ زمردیں نمودار۔ بیچ میں محفل شادیکے لیے دل بادل کی نمود جس کے سامنے شفقی بادل سر بہ سجود۔ رفعت میں عرش؛ وسعت میں عالم اسباب، آرایش میں بارگاہ سلیمانی، نمایش میں آفتاب۔وہ شیشہ آلات کی پھبن، وہ شمعیں مومی و کافوری روشن۔ وہ جھابے، ہو ہنڈیاں، وہ کنول ولایتی، وہ جھاڑ سلیمانی، وہ سرخ سبز زبر جدی آسمانی؛ مرد نگوں کی صفیں نورای۔ (نظم)

وہ ضو نور کی تھی، وہ خیمہ فلک
ستاروں کی تھی آسماں پر چمک
عیاں تھے مہ و زہرہ و مشتری
کہے تو کہ تھی رات تاروں بھری

دور میں براتی زانو بہ زانو، شانہ بہ شانہ، صدر محفل میںشہانی مسند پر نوشاہ کا جلوس شاہانہ جیسے آسمان پر ہالہ اور ہالے میں ماہ یا آنکھوں میں پُتلی اور پُتلی میں نگاہ۔ جا بجا چڑاؤ پیچوانوں کے جوڑ نایاب روزگار۔ وہ زیر انداز مغرق، وہ نیچے مرصع کار۔ جوش سرور میں قلقل مینا کا دم بھریں۔ مہنال کے پردے میں ہونٹوں سے باتیں کریں۔ ایک طرف ارباب نشاط کی دھوم، سترہ سے طائفوں کا ہجوم، ہر ایک غارت گر جان، سرمایۂ ناز و انداز۔ وہ ان کی جھلا جھلی کی پیشوازیں۔ جن کا ہر دامن پر پرواز۔ وہ بھانڈ، بھگتی، کتھک، جن کی نقل اصل، بھاؤ، معشوقوں کی ادا، توڑے بجلی کی چمک۔ وہ طبلے کی تھاپ، وہ گویوں کے الاپ۔ وہ تال، وہ سم، وہ مجیروں کی کھنک، وہ سارنگیوں کے لہرے، وہ گھنگرؤں کی

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 166

چھما چھم۔ وہ ستھرے گلے، وہ نغمہ سرائی کے ولولے۔ وہ وجد کا عالم، وہ حال، وہ ٹپا، ٹھمری، تروٹ، ترانہ، دھرپت، خیال ، گانے بجانے کی دھوم تھی۔ ناچ رنگ کا سماں تھا۔ اس محفل کی تعریف میں ایک زمانہ یک زبان تھا۔ کوئی کنچنی کنچن سی بنی غزل گاتی تھی۔ کوئی سانولی سلونی ہولی گا کر رجھاتی تھی۔ کوئی بھاؤ بتانے میں حسن کی جنس کا بھاؤ بتا گئی۔ کوئی آنے جانےمیں عاشق تنوں کو دیوانہ بنا گئی۔ کسی نے دو چار پاؤں نکال کر پامال کیا۔ کسی نے گت ناچ کر بے چُھری حلال کیا۔ کوئی تھرکتی آئی اور تمام محفل کو آنکھوں میں بھانپ گئی۔ کسی شوخ و شنگ کی چھل بل دیکھ کر بجلی کانپ کانپ گئی۔ آدھی رات تک ناچ رنگ کی دل لگی رہی۔

بعد نصف شب کھانا کھا کر برات چلنے کی تیاری ہوئی۔ دولہا کو نہلا کر خلعت پہنایا۔ دُہرے سہرے باندھے۔ طرے بدھی سے پھولوں نے بسایا۔ ناچ موقوف ہوا۔ چھوٹے بڑے چلنے پر تیار ہوئے۔ پہلے دولہا سوار ہوا پھر براتی سوار ہوئے۔ مشعلچیوں نے مشعل ماہ لے کر زبردستیاں دکھائیں۔ پنج شاخوں نے روشن ہو کر ستاروں کی طرف انگلیاں اٹھائیں۔ دولہا کے مکان سے دلہن کے دروازے تک دو رویہ روشنی کے ٹھاٹھر اور آتش بازی کی ٹٹیاں تھیں۔ روشنی کی کثرت سے رات دن ہو گئی۔ آتش بازی کے چھوٹنے سے ماہ و آفتاب کے منہ پر مہتابیں چھوٹنے لگیں۔ غبارے چھوڑ کر ہوا کے رخ پر سیدھے ہوئے، گویا پیک صبا رفتار خبریں لے کر اڑے۔ نجیبوں اور تلنگوں کی جلوسی پلٹنیں سواری بجاتی اور طنبور گڑگڑاتی قدم قدم بڑھیں۔ رسالوں کے ڈنکے والوں نے برابر ڈنکوں پر چوبیں لگائیں۔ نقارچیوں نے نوبت پر ٹکوریں دیں۔

آگے آگے نوشہ، پیچھے پیچھے براتیوں کے ہاتھی۔ آدمیوں کی کثرت اور کشمکش سے ہوا تھی دب دب آتی جاتی۔ دولہا کے ہاتھی کے آگے کنول، فانوسیں، لال ٹینیں، روشن، مرد ہے، چوب دار، خاص بردار، خدمت گار، سُرخ سُرخ جوڑے پہنے، غنچوں کی طرح مسکراتے، گلوں کی روش خندہ رن روشن۔ چوکی والے سہانی دھن میںشہنائیاں پھوکتے، آواز کا پلا دکھاتے، کبھی بڑھتے، کبھی ٹھہر کر پنچم کے سُر لگاتے۔ اس احتشام سے آخر شب دلہن کے دروازے پر برات پہنچی۔ محل میں ہلڑ ہوا۔ سمدھنوں کے اترنے کی دھوم

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 167

مچی۔ مامائیں، اصیلیں دوڑیں۔ اس وقت کے ٹوٹکے کرنے لگیں۔ کوئی ہاتھی کے پاؤں تلے پانی کا طشت لا کر لنڈھا گئی، کوئی بیلے چنبیلی کی منہ بند کلیاں دروازے کے سامنے بکھرا گئی۔ یہاں شادی کی محفل کے لیے دیوان عام آراستہ تھا۔ براتی بھی اس مقام خاص میں جا کر بیٹھے۔ دولہا بھی بیٹھا۔ اس مکان کی کیا تعریف کی جائے؟ یہ تو شاہانہ مکان ہے۔ اس کی ور ہی کچھ رونق ہے، اور ہی کچھ شان ہے۔ ہر چیز خسرانہ،ہر شے ملوکانہ۔ بجائے شیشہ آلات بالکل جواہر کا کارخانہ۔ ضرورت مشعل نہ احتیاج شمع و چراغ ہے۔ ہر چراغ اس محفل کا گوہر شب چراغ ہے۔ دروں میں پردے زرنگار، آگے سائبان مرصع کار، دیواروں پر موتیوں کی سفیدی۔ براتیوں کے لیے فرشیں قاقم س سنجاب۔ دولہا کے واسطے مسند جمشیدی۔ کچھ دیر یہاں بھی ناچ رنگ کا جلسہ رہا۔ ناگاہ چوب داروں نے پکار کر کہا : "صاحبو، گانا بجانا موقوف۔ اب صاحبان شرع آتے ہیں۔ حضرت شریعت مآب عدالت انتساب یعنی جناب قاضی القضات تشریف لاتے ہیں۔" یہ سن کر سوا نوشاہ کے سب چھوٹے بڑے تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ جناب قاضی صاحب مع شاہدین عادلین آ کر دولہا کے پاس بیٹھے۔ کچھ قاضی صاحب نے چپکے سے بیان کیا، کچھ دولہا نے آہستہ سے جواب دیا۔ وکیلوں نے بھی اس گفتگو پر کان لگائے، محل میں گئے اور دلہن سے بھی یونہی کہہ سن آئے۔ المختصر بعد ایجاب و قبول جانبین اور تراضی طرفین تابعین مہر خطبہ پڑھا گیا۔ اندر باہر شادیانے بجے۔ مبارک سلامت کا غُل ہوا۔ اُدھر قاضی صاحب اور وکیل کشتیاں خلعت اور نقل وغیرہ کی لے کر رخصت ہوئے۔ ادھر دونوں طرف کے ارباب نشاط مبارک باد گانے لگے۔ اللہ اللہ، وہ بھیرویں کا وقت، وہ تہنیت کی دھوم دھام، وہ خلعت و انعام کی تقسیم، وہ بیل بٹنے کا اہتمام۔ ایک طرف گوٹے کے ہاروں کی کشتیاں آئیں، ایک طرف شربت آیا۔ پہلے دولہا کو پلایا، پھر براتیوں کو پلایا۔ ادھر والوں نے شربت پلائی دی، ادھر والوں نے ہار اور عطر پان کی کشتیاں دیں۔ آپس میں رمز و کنائے کی باتیں ہوئیں، چُہلیں ہوئیں، ہنسیاں ہوئیاں، نوشاہ کی محل میں طلب ہوئی۔ محل دار نے بڑھ کر آواز دی : "صاحبو، دولہا آتا ہے۔ آنے والے سامنے آئیں، چھپنے والے چھپ جائیں۔" یہ سُنتے ہی مصاحبیں، انیسیں، جلیسیں، ملکہ کی، دروازے کے پاس آ کر جمع

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 168

ہوئیں اور پردہ اٹھتے ہی اپنے اپنے طور پر شوخیاں کرنے لگیں۔ کوئی پھولوں کی چھڑی مار کر ہوا ہوئی۔ کوئی چُٹکی لے کر بھاگی۔ وزیر زادی نے ایک ہاتھ سے بازو تھاما اور دوسرے ہاتھ سے کان مروڑ کر کہا : "یہ بھی کیا گلزار ارم تھا جو بے دھڑک گھس آئے؟ خدا نہ کرے کہ انسان بے غیرت ہو جائے۔" شاہ زادے نے رومال منہ سے ہٹا کر کہا : "ان شوخیوں کا جواب چوتھی کے دن دوں گا۔ اچھا، کہاں جاتی ہو۔ ایک روز سمجھ لوں گا۔" غرض ان پریوں نے اس رشک ماہ کو اپنے جھرمٹ میں لیا اور لے جا کر دلہن کے پاس بٹھا دیا۔ اس وقت سب نے ماہ و مشتری کو ایک جگہ پایا۔ مشاطہ نے دلہن کا آنچل دولہا کے سر پر ڈال کر آرسی مصحف دکھایا اور بولی : "میاں، دیکھتے کیا ہو؟ ہاتھ جوڑ کر کہو، بی بی اس چاند سی صورت پر نثار ہوں۔ لو، آنکھیں کھولو۔ میں تمہارا غلام ہوں۔ فرماں بردار ہوں۔" اس رسم سے دونوں کی اُمید بر آئی۔ قرآن میں سورت اخلاص اور آئینے میں شکل اتحاد نظر آئی۔ پھر ٹونے گائے۔ اکیس پان کا بیڑا کھلایا۔ ایک ہاتھ سے دلہن کے پایجامے میں ازار بند ڈلوایا۔ جب سب رسموں سے فراغت پائی تو نو باتیں چُننے کی نوبت آئی۔ نو باتوں میں تو بوس و کنار کا مزا تھا۔ جس عضو پر مشاطہ نے مصری رکھی، شاہ زادے نے منہ رکھ دیا۔ کبھی شانوں کے بوسے لیے، کبھی گوری گوری کلائیوں کے، کبھی مہندی ملے ہاتھوں کو چوما، کبھی جوش میں آ کر جھوما۔ کبھی بازی ہاتھ آئی، کبھی منہ کی کھائی۔ کبھی زانو پر، کبھی پاؤں پر سر جھکایا۔ غرض سر سے پاؤں تک لے لے کر حظ اٹھایا۔ (اشعار)

یہ شادی تو ہوتی ہے ہر ایک کو
مگر اس سے پوچھو جو عاشق بھی ہو
وہ معشوق کی شرم عاشق کی چاہ
یہ رسمیں تھیں یا عشق کی رسم و راہ

آخر بہ قول مستورات بداگی کی گھڑی آئی۔ دولہا نے سلام کیا، سلامی پائی۔ رخصت کا سامان ہوا۔ اسباب جہیز نکلنے لگا۔ روشن چوکی والے بابل گانے لگے۔ صاحب دل آنسو بہانے لگے۔ ملکہ کی چھو چھو نے آ کر سر سے پاؤں تک داماد کی بلائیں لیں اور گود پھیلا کر دُعائیں دیں۔ آب دیدہ ہو کر کہا : "واری ملکہ بڑے نازوں سے پلی ہے۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 169

پہلے پہل میکے سے سُسرال کو چلی ہے۔ بلا لوں، دل جوئی اس کی تمہارے ہاتھ ہے۔ اللہ رکھو، عمر بھر کا ساتھ ہے۔" عاشق نے معشوق کی طرف پیار کی نگاہ سے دیکھا اور سر جُھکا لیا۔ گویا در پردہ یہ اشارہ کیا کہ "یہ تو میری جان ہے۔ کس لیے یہ سمجھانا ہے، کیوں یہ بیان ہے؟" اتنے میں نواب ناضر نے آ کر عرض کیا : "دھوپ چڑھتی ہے۔ گرمی بڑھتی ہے۔ دلہن دولہا کی سواری تیار ہے۔ اب کس کا انتظار ہے؟" نوشاہ نے سہرا الٹ دیا اور جامے کی دامنوں کو گردان لیا۔ پہلے جھک کر عروس کو پیار کیا، پھر آغوش تمنا میں لے کر محافے میں سوار کیا۔ وزیر زادی تو ملکہ کے ساتھ تھی۔ وہ بھی اسی محافے میں بیٹھ لی۔ وزیر نے دلہن پر سے نچھاور میں سونے چاندی کے پھول ور گوہر و زر کے طبق نثار کیے۔ دولہا بھی سوار ہوا، براتی بھی سوار ہوئے۔ اشرفیاں لٹاتے، جلوس دکھاتے، چاندنی چوک کی راہ سے گھر پہنچے۔ یہاں نیگ اور انعام کے لینے والے منتظر بیٹھے تھے۔ درباوں نے دروازہ بند کیا۔ فیل بان نے دولہا کے ہاتھی کو روک لیا۔ وزیر نے علی قدرِ حال سب کو انعام اکرام دیا۔ بوڑھی میں بکرا حلال کیا گیا۔ نوشاہ نے اتر کر داہنے پاؤں کا انگوٹھا اس کے خون میں ڈبو دیا۔ محافے کا پردہ الٹ کر عروس کو گود میں سنبھالا۔ وزیر کی چھوٹی بیٹی نے آ کر آنچل ڈالا۔

دلہن دولہا کے گھر آئی۔ براتیوں نے فرصت پائی۔ یہاں کی رسمیں یہاں ہوئیں۔ سب عورتیں وزیر کی بی بی کو مبارک باد دینے لگیں۔ پہلے دلہن کی رونمائی ہوئی، پھر بنڑی کے ہاتھ پر کھیر رکھ کر بنڑے کو کھلائی گئی۔ دولہا خلعت اتار کر باہر آیا۔ دلہن کو لوگوں نے لے جا کر حجلے میں بٹھایا۔

خورشید گوہر پوش کو اتنا دن پہاڑ ہو گیا۔ انتظار شام میں گھڑیاں گننا شروع کیا۔ ہر بار مضطرب ہوتا تھا۔ ہر بار گھبراتا تھا۔ ہر مرتبہ انگڑائیاں لے لے کر پیچ و تاب کھاتا تھا۔ کبھی خدمت گاروں سے اشارہ کرتا تھا۔ دیکھنا دھوپ ڈھلی۔ سایہ دیواروں سے بڑھا۔ آفتاب نے مغرب کی راہ لی۔ کبھی عصر کی ازان کان لگا کر سُنتا تھا۔ کبھی جمائیاں لے کر سر دُھنتا تھا۔ کبھی گھڑی اٹھا کر دیکھتا تھا اور کہتا تھا : "عجب آفت ہے۔ آج کی جو ساعت ہے، قیامت کی ساعت ہے۔ سوئی کا یہ حال ہے کہ ہر نقطے پر ٹھہرتی ہے۔ ایک ایک دقیقے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 170

کو پہر پہر بھر میں طے کرتی ہے۔" ہر بار یہ دعا تھی "یا اللہ، دن تمام ہو۔ الٰہی جلد شام ہو۔" آخر بہ ہزار انتظار کرب انتظر سے نجات پائی۔ امیدوں کی شب، مرادوں کی رات آئی۔ ادھر آسمان پر، ادھر دولہا کے منہ پر شفق پھولی۔ راحت کی یاد ہوئی، مصیبت بھولی۔ پردۂ شب لوگوں کی نگاہ کا حائل ہوا۔ خسروِ خاور حجلۂ مغرب میں اور خورشید گوہر پوش حجلۂ عروسی میں داخل ہوا۔ بڑے بوڑھے کنارے ہوئے۔ نوجوانوں میں اشارے ہوئے۔ کوئی جھانکنے تاکنے لگی۔ کوئی پردے کے پاس کان لگا کر کھڑی ہو رہی۔ دلہن کی سہانی خوشبو نے دولہا کو سرمست و سرشار کیا۔ تنہائی اور یک جائی نے ولولہ بڑھا دیا۔ ادھر شرم دامن گیر، ادھر بے تکلف کرنے کی تدبیر۔ وہ دولہا کا بے حجابی سے جوش میں آنا، وہ دلہن کا شرما کر آنکھیں جھکانا۔ یہاں شوق بوس و کنار، طبیعت بے اختیار۔ وہاں باطن میں اقرار، ظاہر میں انکار۔ (اشعار)

غرض حسب دل خواہ صحبت ہوئی
کھلے بند خلوت میں جلوت ہوئی
کسی کا کلیجہ دھڑکنے لگا
کوئی اس ادا پر پھڑکنے لگا
یہاں اختلاط اور وہاں اضطرار
کوئی دم بخود اور کوئی بے قرار
بنی شرم کھائی لجائی ہوئی
بنے کی طبیعت بھی آئی ہوئی
رکھائی دلہن کی وہ دولہا کا پیار
کبھی ہم بغل اور کبھی ہم کنار
وہ بے تابیاں اور وہ جوش و خروش
نہ چولی کی پرواہ نہ دامن کا ہوش
وہ بوسوں کی لذت وہ لطف مساس
شب وصل معشوق عاشق کے پاس
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 81
سلطانِ فصاحت ہوں، شہنشاہِ بلاغت
باتیں مِری جوہر ہیں، زباں ہے مِری شمشیر
بے دغدغہ خامہ ہے مِرا شہپرِ جبریل
بے شائبہ ہے آیۂ قدرت مِری تحریر
ہر شعر پہ اصلاح ہے اُستادِ ازل کی
ہے نظم پہ میری، نظر ناظمِ تقدیر
حیران ذکاوت سے مِرے صاحبِ اشراق
آگے مِری جودت کے فلک قائل تقصیر
آلودگی دہر سے دامن ہے مِرا پاک
ہے بادہ کوثر سے مِری خاک کی تخمیر
میں سرخوش و بے غم حکما مضطرب الحال
وہ قائلِ تدبیر ہیں میں قائلِ تقدیر
پہنچی نہ تعلیٰ کو مِری فکر فلاطوں
جاتی ہے کہیں عرش پہ آوازِ عصافیر
مجذوب ہوں ہے آہ مِری صور کی ہم دم
ہو صبحِ قیامت جو کروں نالۂ شب گیر
آزاد ہوں باایں ہمہ اسبابِ تعلق
پابند ہوں بے سلسلۂ لنگر و زنجیر
غفلت میں بھی جو منہ سے نکل جائے وہی ہو
صورت گرِ معنی ہے مرے خواب کی تعبیر

ریختہ صفحہ 82
نورِ نظرِ اہلِ بصیرت ہیں یہ نکتے
عکسِ دِل عارف ہے مِری بزم کی تصویر
ہم نام ہوں اُس کا جو ہے اژدر کا درندہ
گردوں کو ہلاتی یہ مِرے نام کی تاثیر
کیا ذکر تخلص کا یہ شوکت ہے من اللہ
یہ اسم جلالی ہے خطِ منشیِ تقدیر
توقیع سلیماں ہے کہ افسانۂ رنگیں
میں صاحبِ تسخیر ہوں یہ جادِۂ تسخیر
ہے ناوکِ دلدوز یہ اک ایک سخن راست
کس طرح سے حاسد کے جگر پر نہ پڑیں تیر
جو صاحبِ فطرت ہیں سمجھتے نہیں یکساں
اکسیر ہے گو خاک ہے اور خاک سے اکسیر
عزت نہیں جاتی ہے نبوت نہیں جاتی
فرعون جو موسیٰ کو کرے یاد بہ تحقیر
ہے دیدۂ اعمی میں شب و روز برابر
کب چغد کو آتی ہے نظر مہر کی تنویر
زنگی اگر آئینہ نہ دیکھے تو نہ دیکھے
ہے اُس کی خباثت کہ سکندر کی ہے تقصیر
توبہ میں کہاں اور کہاں یہ سخن لاف
تھی وجد کے عالم میں یہ تقریر یہ تحریر

ریختہ صفحہ 83
ہر چند کہ اک یہ بھی ہے عنوانِ بلاغت
تشبیب سخن اہل سخن کی نہیں تقصیر
واجب ہے کہ اظہار کرے نعمتِ حق کا
ہے اس میں خموشی بخدا باعثِ تکفیر
ہر صاحبِ انصاف نہ انصاف سے گزریں
میں عذر کروں اور وہ بڑھائیں مِری توقیر
تشنیع کا پہلو ہے نہ یہ طعن کا پہلو
منظور نہیں مجھ کو کسی شخص کی تحقیر
باطن میں تو یہ عجز یہ ظاہر میں ہے دعویٰ
جو صاحب معنی ہیں وہ سمجھیں گے یہ تقریر
سببِ تالیفِ کتاب:
ایک روز خوشہ چیں خرمنِ کمال، محتاجِ رحمتِ ربّ ذوالجلال، بندہ محمد حیدر علی خاں ابن نواب ہلال رکاب، خورشید کلاہ، گردون بارگاہ، عطارد رقم، سپہر حشم، مہر طلعت، کیوان ایوان، بہرام احتشام، عرش مقام، جناب نواب محمد یوسف علی خاں ابن نواب الملقب بفردوس مکاں، تغمد اللہ بغرانہ و جعل مستقرہ بجنانہ، حسب دستور، باریاب دربار تھا اور شاہد مراد سے ہم کنار۔ منشیانِ بلاغت نظام، شاعرانِ شیریں کلام، بذلہ سنجانِ نغز گفتار، ظریف طبعانِ لطیفہ شعار اپنے اپنے قرینے سے حاضر تھے۔
اُس وقت جو کیفیت تھی مدرکاتِ عقول عشرہ اُس کے دریافت سے قاصر تھی۔ کمال کی گرم بازاری تھی۔ جو بات تھی مظہرِ حکمت باری تھی۔ سلسلۂ گفتگو دراز تھا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی خوش بیانی پر ناز تھا۔ عیش و عشرت کے ظہور تھے، بندگانِ حضورِ معلیٰ مسرور تھے۔ شدہ شدہ نثرِ
ریختہ صفحہ 84

اردو کا ذکر ہوا، ہر شخص پابندِ فکر ہوا۔ پہلے سب سے راقم نے چند فقراتِ نثر سرکار کے گوش گزار کیے۔ حاضرین نے لالی تحسین و آفرین نثار کیے۔ حضرت کو بہت پسند آئے۔ کانٹوں نے گُلوں کے رنگ پائے۔ فرمایا: " اگر اس روش پر کوئی کتاب ہو تو فی الواقعی انتخاب ہو۔" ہر چند پیشِ آفتاب سُہا کا کیا نور اور دریا کے سامنے قطرے کا کیا مذکور۔ خدام والا کے روبرو نام نثر لینا فضول ہے، گُل کو نذر باغ کرنا نامقبول ہے لیکن فرمانِ قدر توام سے انحراف مناسب نہ جانا اور حکم قضا شیم کو باوجود بے بضاعتی دل اور جان سے مانا۔ سن بارہ سو تراسی (1283) ہجری میں اس قصۂ رنگیں اور فسانۂ دلنشیں کو شروع کیا، مدتوں فکر و اندیشے سے کام لیا۔ اُمید کہ ناظرین چشم انصاف کو کام فرمائیں اور بفجوائے مصرع کہ " ہیچ نفسِ بشر خالی از خطا نبود۔" جہاں کہیں سہو ہو گیا ہو، اغماضِ نظر عمل میں لائیں۔

آغاز داستانِ ندرت بیان و تعریف شہر گوہر نگار و ستایش شاہ و شاہزادہ آں دیار
پلا جام اے ساقیِ باکمال
کہ ہو موجزن طبع نازک خیال
یہ پیرایۂ مَے پرستی ہو نیک
سرانجام عنوانِ مستی ہو نیک
یہ عنوانِ مستی دکھائے بہار
کھلیں اس طرح گل کہ آئے بہار
بھروں عشق کا دم پیوں جامِ عشق
ہو آغاز میں فکرِ انجامِ عشق

ریختہ صفحہ 85

لبالب ہو پیمانۂ دلبری
کہ لکھتا ہوں افسانۂ دلبری
پئے اہلِ دل مشق و بے مشق کیا
یہی ابتداء ہے یہی انتہا
دکھا مثل جم کجکلاہی دکھا
ذرا حشمتِ پادشاہی دکھا
رہے دور میں ساغر زرنگار
مئے لعل، کشتی ہو گوہرِ نگار
کوئی بزمِ خورشید سے کامیاب
کسی جا ہو پرتو فگن آفتاب
طوطیانِ نوبہار بلاغت، عندلیبانِ گُلزارِ فصاحت، مرغانِ بہارستانِ رنگیں بیانی، قمریانِ سروستانِ نکتہ دانی، نخل بندانِ حدائقِ فسانۂ رنگیں، چمن پیرایانِ ریاضِ داستانِ دل نشیں، باغبانانِ بوستانِ تحریر، گُل چینانِ گلستانِ تقریر، نظار گیانِ نرگستان شگفتہ بیانی، تماشائیانِ سنبلستانِ رموزدانی، اس غنچۂ قصۂ رنگیں اور شگوفۂ فسانۂ دل نشیں کو خیابانِ گوشِ سامعین میں باہتزاز نسیمِ شوق و جنبشِ بادِ ذوق اس روش سے شگفتہ و خنداں کرتے ہیں کہ زمانۂ گذشتہ اور عہدِ پیوستہِ میں سرزمینِ اِرم تزئین ہندوستان جنت نشان میں ایک شہر رشکِ گُلزار ہمیشہ بہار تھا اور نام اُس کا گوہر نگار تھا۔
عشرت میں غیرتِ جناں تھا وسعت میں رشکِ لامکاں تھا۔ قدرتِ خالق ہویدا تھی، آب و ہوا سے عقل پیدا تھی۔ رطوبت میں وہاں کی تاثیر آبِ حیات تھی۔ مُردے کا زندہ ہو جانا اک ادنیٰ بات تھی۔ گرمی، معشوقوں کی گرما گرمی یاد دلواتی تھی۔ وہ حرارت، حراتِ غریزی کی کیفیت دکھاتی تھی۔ سردی اُس کی بہ از کشمیر، وہاں شرح " اللہم احفظنا" یہاں " برداً و سلاماً" کی تفسیر۔ آنکھوں میں خنکی، دل کو فرحت، کھانے کا مزا، پانی کا لطف،
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 86
لباس کی کیفیت، ترکیبِ ہم آغوشی عاشقوں کے عمل میں، آٹھ پہر معشوق بغل میں۔
برسات میں شہر پر عجب جوبن ٹپکتا تھا، فرشتوں کا دل بھٹکتا تھا۔ نہروں میں پانی بھرا تھا۔عالم ہرا تھا۔ مینہ برسنے سے زمین کا صفائے باطن بڑھتا تھا۔ہر ذرہ "انظر الینا" کا سبق پڑھتا تھا۔کیچڑ کا تو ذکر کیا تھا، یہ معلوم ہوتا تھا کہ سطحِ خاک پر آئینہ جڑا ہے، چپہ چپہ شفاف دودھ سے دھویا پڑا ہے۔ ساون بھادوں کی جھڑی، موتیوں کی لڑی۔ کھیتیاں ہری تھیں، جھیلیں بھری تھیں۔ باغوں میں عجب بہار تھی، قدرتِ حق آشکار تھی۔ سبزے کا لہکنا، پھولوں کا مہکنا، بدلی کا جھوم جھوم کر آنا، ہر طرف گھنگھور گھٹاؤں کا چھا جانا۔ وہ کم کم پھوار کا پڑنا، جوانوں کا اکڑنا، دل کو لبھاتا تھا۔ وہ سُرخ سبز کھنبے گڑے، اُن میں ریشم کے رسّے پڑے۔ حسینوں کا جھول جھول کر گانا، پینگھوں کا گھٹانا بڑھانا، عاشقوں کو زمین و آسمان جھکاتا تھا۔ ہر طرف موروں کا شور تھا، پپیہوں کا زور تھا۔ کوئل کی کوک دل کو بے چین کیے دیتی تھی۔ بجلی کی چمک کلیجے میں چٹکیاں لیتی تھی۔
وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کا چلنا، جوانوں کا آن بان سے ٹہلنا، عجب بہار دکھاتا تھا۔ فوارے چھوٹ رہے تھے، نہریں چھلکتی تھیں۔ چمن شگفتہ تھے، بلبلیں چہکتی تھیں۔ حسین رنگا رنگ کی پوشاک پہنے نکھرے نکھرائے جوہر کی بہار دکھاتے تھے، تختے لالہ و نافرماں کے شرماتے تھے۔ کسی کے دھانی لباس کی پھبن، چاند سے مکھڑے کا جوبن، عجب کیفیت دکھاتا تھا۔ باغبانِ حقیقی نے طرفہ گُل کھلایا تھا۔ سرو میں چودھویں کا چاند لگایا تھا۔ کہیں جمگھٹا تماشا بینوں کا، کہیں جھمکڑا حسینوں کا تھا۔ کہیں چرچہ قصہ خوانی کا، کہیں دورہ شرابِ ارغوانی کا۔ کوئی شخص عالم مستی میں کسی سے بگڑتا تھا، کوئی مضمون اس شعر کا پڑھ کر اکڑتا تھا۔
ساقیا دوڑ دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
اب تو بھٹی سے چھلکتی ہوئی بوتل آئے
عجب برسات تھی، دن روزِ عید تھا رات شب برات تھی۔
باغوں پر کیا منحصر ہے، ہر جگہ قہقہے تھے، چہچہے تھے۔ اُس جگہ ذکرِ رنج و ملال عین نافہمی تھی۔ تمام شہر میں چاروں طرف، چہل پہل، عجب گہما گہمی تھی۔ ساکن وہاں کے، امیر و اغنیا تھے۔ فقیروں کی صدا سے کان ناآشنا تھے۔ زمین رشکِ آسماں تھی۔ ہر گلی جوابِ کہکشاں

ریختہ صفحہ 87

تھی۔ سڑک جادۂ باغِ نعیم، نہر رشک کوثر و تسنیم، مکانوں کی بلندی سے قصرِ فلک منفعل، خوشنمائی سے روضۂ رضوان خجل۔ ہر محلّہ دنیا کے شہروں سے آباد تھا۔ شہر کا تمام عالم سے بہتر سواد تھا۔ جہاں تک جائے بجز آبادی ویرانے کا نشان نہ پائے۔ ہر طرف سڑک بے موڑ اور مڑک تھی۔ بے دھڑک اندھا دوڑ جائے، کہیں ٹھوکر نہ کھائے۔ سرخی پر سڑک کی شفق نثار تھی۔ چھڑکاؤ سے بارشِ رحمت حق آشکار تھی۔ تماشائیوں کا اژدہام، سواریوں کی دھوم دھام، ہٹو بچو کی آواز ہر سو سے چلی آتی تھی۔ نگاہ کشمکش سے پسی جاتی تھی۔
دو رویہ دکانیں ایسی قطع دار تھیں، جن کے درجوں پر کوٹھیاں نثار تھیں۔ ہر طرف، چوپڑ کا بازار تھا، شہر گلزار تھا۔ خوشبو سے، ہوا کی، دماغ مہکتا تھا۔ رات بھر، کٹورا کھنکتا تھا۔ وچار گھڑی دن رہے، جو چوک میں آتا تھا، گھر کا پتہ بھول جاتا تھا۔ دکانوں پر، کیا بہار تھی بلکہ بہار نثار تھی۔ صراف اپنی اپنی بہیاں پھیلائے، روپے اشرفیوں کے ڈھیر لگائے۔ متی کٹتی جاتی تھی ہنڈوی پٹتی جاتی تھی۔ رسیدیں لیتے تھے، روپے تول تول کر دیتے تھے۔ جوہریوں نے بیش قیمتی جواہر سے دکانوں کو سجا تھا۔ ہر دکان کو کانِ جواہر کہنا بجا تھا۔ مینا بازار پر بہار تھی۔ قدرت پروردگار تھی۔ گہنے دل فریب تھے، معشوقوں کے زیب تھے۔ گویا چمن کھلا تھا گلشنِ شگفتہ ہر دُکان دار رضوان کا ہمدم تھا۔ دکانیں نہ تھیں، باغِ ارم تھا۔
کہیں حلوائی، دنیا کی مٹھائی تھالوں میں لگائے، سونے چاندی کے ورق جمائے، چھیپیاں مقیش کی ہاتھوں میں۔ مزا قندو نبات کا باتوں میں۔ اُس مٹھائی کا تو ذکر کیا! صبح دَم کا پوری حلوا، مجردوں کے حق میں من و سلوا تھا۔ غرض ہر دکان میں شاہی سامان تھا۔ کمروں پر پرستان کا گمان تھا۔ اشعار:
بے شک وہ چوک تھا پرستاں
پریاں کمروں میں تھیں خراماں
جھرمٹ پریوں کا کیا وہاں تھا
اندر کے اکھاڑے کا سماں تھا
اللہ اللہ آج تک ایسے حسین، نہ چشمِ فلک نے دیکھے نہ گوشِ ملک نے سُنے۔ فخرِ حور، اللہ کے نور کا ظہور۔ چودھویں کا چاند اُن کے چہروں کے آگے ماند تھا۔ اُن کا پرتو آفتاب اور

ریختہ صفحہ 88
نقشِ قدم چاند تھا۔ سبحان اللہ، اُن کا کیا کہنا خوش مزاج! روزمرہ صاف، زبان شفاف۔ باتوں سے مسیحائی ہویدا تھی، خموشی میں بھی ایک بات پیدا تھی۔ گویائی اُسی خموشی کا دم بھرتی ہے۔ مسیحائی اُسی گویائی کا کلمہ پڑھتی ہے، قامت سے قیامت قایم تھی۔ چال سے محشر برپا، غمزے سے کرامت ظاہر تھی۔ عشوے سے سحر ہویدا، باتوں سے شرارت ٹپکتی تھی۔ شوخی سے، بوٹی بوٹی پھڑکتی تھی۔ ترچھی چتون، بانکی ادا۔ گرما گرمی سے بے چینی پیدا۔ آسمان میں تھگلی لگائیں، فرشتوں کو کنویں جھکائیں۔سرشت میں لگاوٹ تھی، خلقت میں بناوٹ تھی۔ رُلانا ہنسی جانتے تھے، جان لینا دل لگی جانتے تھے۔ جسے دیکھ کر منہ موڑا، اُسے سسکتا چھوڑا۔ جس صف پر آنکھ اُٹھائی، اُس صف کی صفائی نظر آئی۔ اُن کے پھنسے زندگی بھر نہ چھُوٹتے تھے۔ دین و ایمان دن دہاڑے دھڑا دھڑ لوٹتے تھے۔ زاہد اگر اُن کو دیکھ پائے، منہ کی کھائے، وضو ٹوٹ جائے۔ معاذاللہ اگر حضرت جبریل اُن کی جھپکی دیکھ پاتے، جیتے جی آسمان پر نہ جاتے؛ عمر وہیں بسر کرتے، اُنہیں گلیوں کی ٹھوکریں کھا کھا کر مرتے۔
غرض عجب شہر مردم خیز تھا۔ کوچہ کوچہ دل آویز تھا۔ ہر جگہ آثارِ قدرت ہویدا ہوتے، ہر طرح کے لوگ پیدا ہوتے۔ خلیق، فصیح، ملنسار، حسین، شکیل، جمیل، طرح دار، سخی، کریم، شجاع، بہادر، قول کے پورے، تلوار کے دھنی، سرجائے بات میں فرق نہ آئے۔ اُن کی موت زیست کا عجب قرینہ تھا، جینا مرنا تھا۔ مرنا جینا تھا۔ ذکاوت میں لاجواب، فراست میں انتخاب، غفلت اُن کی ہوشیاری تھی، عقل نے اُن سے زبان ہاری تھی۔
رئیسوں سے شہر آباد تھا۔ ہر شخص اپنے اپنے فن کا اُستاد تھا۔ عالم علم کا دریا بہائے تھے، مبتدی کو، باتوں باتوں میں، منتہی بنائے تھے۔ معقول و منقول کوائف بے جانتے تھے۔ ہر علم کو خوب پہچانتے تھے۔ مطالبِ ریاضی کے ازبر تھے۔ چودہ طبق، مِثل چودہ ورق، کے پیشِ نظر تھے۔ نقاشوں کے، نقش کے سکّے پڑے تھے۔ عاملوں کے عمل کے جھنڈے گڑے تھے۔ تسخیر کو اُن کے نام سے ارتباط، طے الارض کی اُن کے سامنے کیا بساط۔ ہوا اُن کے قابو میں دریا بس میں، پریاں پرستاں میں جیسے بُلبُلیں قفس میں۔
عارف عارف باللہ تھے، صاحبِ دل حقیقت آگاہ تھے۔ سلوک اُن کے طریقے سے ہویدا، جذب اُن کی باتوں سے پیدا۔ عاشق یک رنگ، دورنگی سے دل تنگ، موحدّ،
ریختہ صفحہ 89

صاحبِ توحید، مبصر، اہل دید، کثرت میں وحدت کا دم بھریں۔ اناالحق کہہ کر منصور کو زندہ کریں۔ شاہدہ شاہِد حال مکاشفہ گواہ مآل ماسواللہ سے جُدا، عین اللہ سے واصل، مجاز سے دور حقیقت کے شامل۔ فنا فی الشیخ اُن کے سامنے اک ادنیٰ بات، فنا فی اللہ اُن کا جوہر بالذات۔ اُن کا خواب عین بیداری، غفلت عین ہوشیاری بظاہر خاک بباطن جوہرِ پاک، آنکھوں میں کیفیتِ حقا کا سرور، زبان پر "نحن اقرب الیہ" کا مذکور، تکلف سے ننگ و عار۔ غرض سرمد و سرآمد روزگار۔
شاعرِ بلاغت نظام، فصاحت کلام، موزونیت خُلقی، خمیر میں سحر حلال، تقدیر میں خلاقِ مضامین، موجدِ طرز نو آئین۔ نازک خیالی اُن کی مصرِع ہلال کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ فکر اُن کی ہر مرتبہ عرش پر جاتی تھی، اُن کی زبان دانی کا غُل تھا۔ اُن کے سامنے انوری کی عقل کا چراغ گُل تھا۔ فردوسی اُن کے گل زارِ فصاحت کا خوشہ چیں، مولویِ معنوی اُن کے سامنے طفلِ مکتب نشین "الشعراء تلامذہ الرحمان" انہیں کی شان میں آیا ہے۔ الہام نے انہیں کی معجز بیانی سے شہرہ پایا ہے۔ خوش نویسوں کی تعریف لکھنا محال ہے، زبانِ قلم لال ہے۔ جب قلم اُٹھایا، اعجاز دکھایا۔ جوہر حرفوں کے اُن کی تحریر سے کھلتے تھے، کاتبِ تقدیر کے لکھے سے ملتے جلتے تھے۔ اگر میر عماد و عبدالرشید ہوتے، مثل قلم، دمِ تحریر روتے لکھے کو اُن کے بے دلیل مانتے۔ ہر حرف کو نوشتۂ تقدیر جانتے۔ جواہر رقم ملال سے عذاب جان کُنی میں پڑ جاتا، یاقوت رقم سر پتھر سے ٹکراتا۔
طبیب کب کسی کو مانتے تھے۔ مسیحائی لڑکوں کا کھیل جانتے تھے۔ نجومیوں کو قواعد اختر شناسی کے ازبر تھے۔ زائچے عالمِ حادثات کے ہر لحظہ پیش نظر تھے۔ فقط حالِ گذشتہ نہیں بتا تے تھے، زمانۂِ آئندہ کی خبر لاتے تھے۔ بیان اُن کا پُر تاثیر تھا۔ لکھا پتھر کی لکیر تھا۔ قیامت کا حکم لگاتے تھے، زمین آسمان کے قلابے ملاتے تھے۔ خاص تراش موشگافی کے بانی تھے، اپنے کمال میں لاثانی تھے۔ خط کیا بناتے تھے کرامت دکھاتے تھے۔ اُسترے سے کام قلم کا لیتے تھے، کاتبِ تقدیر کے خط پر اصلاح دیتے تھے۔
کوئی کب کسی کو خیال میں لاتے تھے۔ اُن کی آواز سُن کے آہو رم بھول جاتے تھے۔ اُن کا گانا سحرِ حلال تھا، زاہدوں کو حال آتا تھا۔ تاثیر کا یہ حال تھا ہر سُر میں لحنِ داؤدی کا

ریختہ صفحہ 90

لطف نکلتا تھا فولاد موم ہوتا تھا، پتھر پگھلتا تھا۔ نائیک، زمانے کے، جب اُن کے سامنے گاتے، سبتک آنے میں سب تُک بھول جاتے تھے۔ ہم دم کا دم نکل جاتا۔ شوری کا شور کمال پھیکا ہو جاتا۔ اگر تان سین اُن کا گانا سنتا ہر تان پر عمر بھر سر دُھنتا۔ بیجو باورا اُن کی الاپ کا دیوانہ تھا۔ اُن کے کمال کا شہروں شہروں افسانہ تھا۔ پادشاہ وہاں کا انجم سپاہ، کیوان بارگاہ، برجیس شیم، خورشید علم، مریخ حشم، عطارد رقم، قمر خدم، خلیل نوال، یوسف جمال، شہنشاہ ثریا جاہ گوہر شاہ تھا۔ اُس بحرِ عطا کے فیضِ جاری سے گیتی شاداب تھی اور سحاب بخشش کے جھالوں سے کھیتی سیراب تھی۔ اگر اُس کے در پر سائل کہیں سے آتا تھا، مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا۔ فقیر بازاری اُس کی نظرِ بخشش سے ایک پل میں ایسے مستغنی ہو جاتے کہ عمر بھر حرفِ سوال زباں پر نہ لاتے۔ اُس کی سخاوت کے آگے حاتم بخیل تھا۔ وہ صاحبِ ہمت سخاوت کا کفیل تھا۔ سخاوت کا تو یہ حال تھا۔ شجاعت میں بھی بے مثال تھا۔ اگر آوازہ اُس کی شجاعت کا رستم سُن پاتا، دہل کر مر جاتا، کلیجہ پھٹ کر منہ سے نکل آتا۔ دلیر اُن کے سامنے دلیری بھولتے تھے، اُس کے رُعب سے شیروں کے ہاتھ پاؤں پھولتے تھے۔ اُس کی تلوار کی کاٹ سے اجل تھرّاتی تھی۔ گُرز کی ہوا سے قضا گھبراتی تھی۔
عدالت سے اُس کی غزالوں کے محافظ چیتے تھے۔ شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ چور منہ ڈھانپ ڈھانپ کر روتے تھے۔ لوگ دروازے کھول کر سوتے تھے۔ چور کا نام زبان پر نہ آتا تھا۔ سیاست کے لیے مہندی کا چور باندھا جاتا تھا۔ حسنِ خداداد عالم میں یکتا تھا۔ ہر جگہ اُسی کا جلوہ تھا، مشعلِ دست کلیم میں اُسی حُسن کے نور کی جھلک تھی۔ گل زارِ ابراہیم میں اُسی گُلِ عارض کی لہک تھی۔ سورج میں اُسی کے جمالِ بے مثال کی ضو ہے۔ چاند میں اُسی کے کمال کا پر تو ہے۔ پھول میں اُسی گُلِ عارض کی بُو ہے۔ موتی میں دی ہوئی اُسی کی آبرو ہے۔ لعل میں اُسی کے لبِ لعل کا رنگ ہے۔ ہیرے میں اُسی نور کی تڑپ کا ڈھنگ ہے۔
عقل حیراں ہے، کس شے سے تشبیہ دیجیے اور کس چیز سے مقابل کیجیے؟ کون سی بات رہی؟ باقی خدا کی ذات رہی۔ اس صورت میں یکتائی لازم آتی ہے۔ کثرت سے وحدت ہوئی جاتی ہے۔ یکتائی خدا کو زیبا ہے۔ " وحدہ لا شریک" اُسی کی صفت میں آیا ہے۔ آخر ایک تشبیہ نکالی، بگڑی بات خُدا نے بنا لی۔ مثل اُس کا اُسی سے پیدا ہوا تھا۔ مضمون " الولد سر لابیہ"
 

شمشاد

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 171

ادھر آ گئی رخ پہ زلف دوتا
ادھر کھل گئے اس کے بند قبا
اٹھائے مزے وصل کے ہم دگر

پسینے میں دونوں ہوئے تر بتر
نمودار راز نہفتہ ہوا

گل ناشگفتہ، شگفتہ ہوا

مشہور ہے مصیبت کی شب ڈھاتی ہے اور عیش کی رات پلک مارتے میں گزر جاتی ہے۔ رات کیا گئی، گویا ہاتھ کی آئی ہوئی چیز کھو گئی۔ ابھی پسینہ بھی دونوں کا نہ خشک ہوا تھا کہ صبح ہو گئی۔ (شعر)

حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل شیر ندیدیم و بہار آخر شد

شاہ زادہ اٹھ کر دیوان خانےمیں آیا۔ ملکہ کی سہیلیوں نے جا کر ملکہ کو اٹھایا۔ صبح شب زفاف بھی دولہا دلہن کے حال کی آئینہ ہے جس کی کیفیت دن نکلنے پر موقوف ہے، یہ وہ بہار شبینہ ہے۔ ہر چند پردے کی بات ہے مگر در پردہ اثبات ہے۔ اس وقت سپیدہ سحری نہ تھا گویا توضیح شکل عروس تھی۔ عقلی اور حسی دونوں تشبیہوں کی تصدیق ہو گئی۔ وہ مہک باسی ہاروں کی، وہ چمک افشاں کے ستاروں کی، وہ بچھونے کے پھول ملے دلے، وہ پہلے کے تکیے پلنگ کے تلے۔ سیج بند کے ڈھیلے ہونے سے اور ادقچے کے سمٹھے سے جنگ زرگری کا یقین۔ تاثیر ہم بستری سے چادر پلنگ کی بھی دلہن کی طرح رنگین۔ دلہن کی صورت سے کچھ سُستی، کچھ بحالی نمودار۔ منہ پر تمتماہٹ، آنکھوںمیں نیند کا خمار۔ ہونٹوں سے پان کی لالی اڑی ہوئی۔ انتیوں کی ایک طرف کی گونج کھلی ہوئی۔ ایک طرف کی مڑی ہوئی۔ موباف کچھ لپٹا ہوا، کچھ کھلا ہوا۔ کاجل کچھ پھیلا ہوا، کچھ گھلا ہوا۔ وہ بوجھل ہونا طبع نازک پسند کا، وہ ٹوٹنا بند بند کا۔ وہ بالوں کی پریشانی، وہ سکوت، وہ حیرانی۔ وزیر زادی نے ہنس کر آئینہ دکھایا۔ ملکہ نے شرما کر سر جھکایا۔ میکے سے پنجیری آئی، تنبول آیا۔ دلہن نے اپنے گھر جا کر حمام کیا۔ صاحبات محل نے چوتھی کا اہتمام کیا۔ خورشید گوہر پوش کو جو

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 172

آنے میں دیر ہوئی، ملکہ کی آنکھوں میں دُنیا اندھیر ہوئی۔ تاثیرِ عشق نے معشوق کو عاشق بنا دیا۔ مجنوں کی محبت نے لیلٰی کو بھی دیوانہ کیا۔ دم بھر می مفارقت ناگوار ہوئی۔ بے تابی خاطر سے بے اختیار ہوئی۔ کیفیت وارفتگی بڑھ گئی۔ تنہا کوٹھے پر چڑھ گئی۔ انتظار میں راہ تکنے لگی۔ مرغ نیم بسمل سی پھڑکنے لگی۔ کبھی جھروکوں سے نگاہ کی، کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر آہ کی۔

اب سپنیے ایک ساحر غدار ہوا پر تخت اُڑائے جاتا تھا۔ اتفاقاً اس بالا خانے کی طرف سے گزرا۔ دیکھا کہ ایک مہ جبیں و نازنیں کوٹھے پر بال کھولے کھڑی ہے۔ قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر عاشق ہو کر آفت اور مصیبت میں پڑی ہے۔ یہ دیکھتے ہی ہزار جان سے عاشق ہو گیا۔ طبیعت بے چین ہوئی۔ دل پر قابو نہ رہا۔ جلدی سے تخت کو نیچا کیا اور اس رشک پری کو اٹھا کر برابر بٹھا لیا۔ ہوا کے سناٹے سے ملکہ کا تن بدن سنسنا گیا۔ کیفیت بلائے آسمانی دیکھ کر آنکھیں بند ہو گئیں، غش آ گیا۔معاذ اللہ، یہ وہ آندھی تھی کہ آدمی کو اڑا کر لے گئی۔ مصاحبوں کو جو دھیان آیا تو شاہ زادی کو اپنی جگہ پر نہ پایا۔ ایک نے دوسری سے پوچھا "حضور کہاں ہیں؟" کسی نےک ہا : "ادھر ہیں۔" کوئی بولی : "وہاں ہیں۔"

ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر تلاش کی۔ بات کی بات میں چاروں طرف ڈھنڈیا مچ گئی۔ ملکہ زہرہ جبیں بولی : "اری یہ کیا ہے؟ کیسا ہلڑ مچا رکھا ہے؟" چھو چھو نے کہا : "صاحب زادی کہیں چُھپ گئی ہیں؟ چھوکریں دیوانی سے ڈھونڈ رہی ہیں۔" وہ بولی "جاؤ، اس الڑھ کو لا کر بٹھاؤ۔ کہنا، دولہا آئے گا تو یہ دیکھ کر کیا کہے گا؟ اس چھوکری کا یہی حال ہے تو سسرال میں خاک وقر رہے گا۔" یہ سُن کر کے چھو چھو جی گئیں۔ وہ بھی چاروں طرف ڈھونڈتی پھریں۔ وہاں تو اور ہی کچھ اسرار تھا۔ انہیں بھی خاک پتا نہ لگا۔ پھر تو اک تلاطم تھا، قیامت تھی۔ہر شخص کو تعجب تھا، ہر شخص کو حیرت تھی۔ بعضی مشعلیں لیے تہہ خانے میں ڈھونڈ رہی تھیں۔ کچھ کہیں تھیں، کچھ کہیں۔

غرض ہر طرف دیکھا بھالا، چپہ چپہ ڈھونڈ ڈالا۔ دلہن کی ماں حیران تھی کہ الٰہی، یہ کیا بات ہے؟ نیا سانحہ ہے، نئی واردات ہے۔ اتنے میں ایک خواص نے آ کر کہا : "میں صحن میں کھڑی تھی کہ ایک دھوکا سا ہوا یعنی صاحب زادی کوٹھےپر تشریف لے گئیں اور

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 173

کچھ دیر وہیں رہیں۔ ناگاہایک تخت ہوا پر نمودار ہوا۔ اس پر ایک جوگی جٹا دھاری بیٹھا تھا۔ اس نے تخت کو نیچا کیا اور ملکہ کو اس پر بٹھا لیا۔ میں تو سمجھی تھی کہ وہ خیال تھا۔اب معلوم ہوا ہے کہ حقیقت حال تھا۔" ملکہ زہرہ جبیں بولی : "ہے ہے، میں اسی سائے سکے کو ڈرتی تھی۔ اسی واسطے اس بدنصیب کو منع کرتی تھی۔ نئی نویلی دلہن تھی۔ آخر جھپیٹے میں آ گئی۔ اب جستجو بے کار ہے۔ بس یہی اسرار ہے۔" یہ سن کے بادشاہ بھی آیا۔ خورشید گوہر پوش بھی آیا۔ تمام محل کو بدحواس اور مضطرب الحال پایا۔ ارکان دولت بھی یہی فکر کرنے لگے۔ اپنے اپنے طور پر عقل لگانے لگے۔ اپنی اپنی جگہ پر ذکر کرنے لگے۔ تمام شہر کے پیر فقیر، عامل، کامل آئے۔ کسی نے حاضروت کی۔ کسی نے نقش و تعویذ لکھ لکھ کر جلائے مگر سوا رجعت کے کسی عمل نے کچھ تاثیر نہ دکھائی۔ اس تخت کے پھرنے کا تو کیا ذکر، ادھر کی ہوا بھی نہ آئی۔

غرض کوئی بات نہ بنی۔ وائے شُدنی اور وائے ناشُدنی۔ یاقوت شاہ بھی پریشان تھا۔ خورشید گوہر پوش بھی حیران تھا۔ دل میں کہتا تھا : "یہ خانہ آبادی ہے یا بربادی۔ یہ مُراد تھی یا نامرادی؟ یہ ہجر تھا یا وصال؟ یہ خواب تھا یا خیال؟ کاش یہ بلا مجھ پر آتی۔ مجھے تقدیر اس غضب میں پھنساتی۔" اور ملکہ زہرہ جبیں کی یہ صورت تھی کہ نہ سر کا ہوش تھا نہ پاؤں کا ہوش۔ کبھی مانند شمع اشکبار تھی، کبھی بہ صورت تصویر خاموش۔ ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نگاہ کرتی تھی۔ ہر مرتبہ کچھ سوچ سوچ کر ٹھنڈی سانس بھرتی تھی۔ کبھی کہتی تھی "ہے ہے، میر بچی پر کیا گزر گئی؟ ہے ہے، میری بنڑی کدھر گئی؟ ہے ہے، یہ اندھیرا تھا یا اُجالا؟ ہے ہے، یہ چوتھی تھی یا چالا؟َ ارے لوگو، شادی کا فرش اُٹھاؤ۔ سوگ کا سامان کرو۔ ماتم کی صف بچھاؤ۔"

خورشید گوہر پوش نے یاقوت شاہ سے آ کر کہا : "حضور، عمل خوانی سے کیا فائدہ؟ عزیمت بے عزیمت سے کیا ہو گا؟ کون ایسا عامل ہے کہ ہوا کو پھیر دے۔ سائے سے ہم زاد کا کام لے۔ یہاں تو تقدیر کا رونا ہے۔ اس چھوچھکے سے کیا ہونا ہے؟ اب فدوی جاتا ہے اور اس راہ میں خاک اڑاتا ہے۔" بادشاہ نے کہا : "ایک داغ تو آسمان نے دیا۔ اب ایک تم دو۔ اچھا تو ہے۔ ان مصیبت زدوں کو مصیبت میں چھوڑ کر کسی طرح کنارہ کش ہو

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 174

رہو۔ میں تو زندگی سے بیزار ہوں۔ ملک و مال سے دست بردار ہوں۔ یہ سلطنت کون سنبھالے گا؟ امور مملکت کون دیکھے بھالے گا؟ خدا کے واسطے یہ حرف زبان پر نہ لاؤ۔ للہ ذرا انصاف فرماؤ۔" شاہ زادہ بولا : "آہ سلطنت کہاں، میں کہاں؟ یہ حکومت، یہ ریاست کہاں، میں کہاں؟ اگر میری تقدیر میں سلطنت ہوتی تو یہ مصیبت ہوتی، یہ آفت ہوتی؟ (شعر)

قدم نا مبار ک و مسعود
گر بدریا رود بر آرد دود

گردش فلکی سے کسے امید روز بہ ہے۔ اپنے مقدر میں نہ سلطنت آبائی تھی نہ یہ ہے۔ ایسے ہی نصیب ہوتے تو پھر کیا تھا؟ قیس خانماں برباد کجا، حکومت کجا۔ البلاء للولا۔ نشانۂ خدنگِ بلا بننا ضرور ہے۔ اس وقت میں دست پاچہ ہو کر بیٹھ رہنا طریق وفا اور آئین حیا سے دور ہے۔ کوتاہ اندیش کہیں گے، یہ شخص کیسا صاحب ارادہ تھا۔ نہ شاہ زادہ تھا نہ رئیس زادہ تھا۔ فقط بہ طمع حکومت و ریاست یہ رنگ لایا تھا۔ خدا جانے کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ مشرق سے مغرب میں پہنچا۔ یہاں سراغ رسانی نہ کر سکا۔ بہتر یہ ہے کہ حضور میرا بھی داغ مفارقت اٹھائیں اور امید وار رحمت ہو کر خدا سے لو لگائیں۔ میں اور دم بھر توقف کروں؟ ہرچہ بادا باد، جیوں یا مروں۔ اگر نہ جاؤں گا تو کل ہم چشموں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔" یاقوت شاہ نے کہا : "بابا، کہاں جاؤ گے؟ کس طرح سراغ لگاؤ گے۔ یہ تو اک موج تھی، آئی اور کشتی کو لے گئی۔ کوئی راہ نکلے، کچھ پتا لگے، تو انسان جانے کا نام لے۔" شاہ زادہ بولا : "بھلا یہاں تک آنے کی کون راہ تھی؟ یہ منزل بھی تو سخت جان کاہ تھی۔ جس خدا نے یہ مشکل آسان کر دی وہ اس مرحلے کو بھی طے کر دے گا۔ کوئی نہ کوئی خضر طریقت اس راہ میں بھی خبر لے گا۔" یاقوت شاہ خضر طریقت کے اشعار سے متامل ہوا اور بعد تأمل کچھ سوچ کر کہا :" دیکھو، اگر تمہارے ذہن میں کوئی بات آئے تو جاؤ اور کسی اللہ والے کی رہنمائی سے سُراغ لگاو۔"

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 175

روانہ شدن شاہ زادہ بہ تلاش دلدار جانب دشت و کہسار و در اثنائے راہ یاد آمدن تعلیم فقیر و بسر وقت رسیدن درویش روشن ضمیر و نشان دادن ازاں غزال رمیدہ بطلسم آرمیدہ و آموختن آئین کشتن سیس ناگ جوگی و کشایش طلسم بشہر یار بلا دیدہ مصیبت رسیدہ و ملاقات شدن سیار باقمر طلعت وہم دگر حرف و حکایات۔

کدھر ہے تو اے ساقی سحر کار
بتا راہ بے راہ ہیں بادہ خوار
نہ مے ہے، نہ مینا، نہ جام و سبُو
کہاں جائیں، کس جا کریں جستجو
اڑا لے گئی کسی طرف کی ہوا
کہ ملتا نہیں دُخت زر کا پتا
قیامت ہے برہم ہے بزم سرور
کھلے راز مخفی وہ تدبیر کر
اڑیں کاگ بوتل کے بہر خبر

ادھر بوئے مے پیشوائی کرے
ادھر شوق دل رہنمائی کرے
حضور نظر ہے حجاب طلسم
یہ ہے مے کدہ یا جواب طلسم
فقط طالب جام ہیں بادہ خوار
یہ مے کش نہیں لوح کے خواست گار

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 176

مدد گار ہے بختِ ہمت جواں
ہمیں بس ہے تائید پیر مغاں

گُم کردگان طریق وصال ، سرگشتگان دشت رنج و ملال، حسرت کشیدگانِ بلائے ناگہانی ستم رسیدگانِ آفات آسمانی یعنی ناقلان روایات حسرت و غم و حاکیان حکایات درد و الم بہ چشم تر و دل مضطر یوں تحریر کرتے ہیں جبکہ شاہ زادہ مستعد عزیمت ہوا یعنی اقربائے جدید سے رخصت ہوا، ہمت نے کوچ کا نقارہ بجایا، حمیت نے ولولہ صحرا نوردی بڑھایا۔ راہ نا دیدہ پر قدم مارا۔ غزال رمیدہ کے تجسس کا دم مارا۔ آسمان کی جانب منہ اٹھایا اور یہ کلمے زبان پر لایا : "یا علام الغیوب، یا کشاف الکروب، یا مفتح الابواب، یا مسبب الاسباب، تو نے آدم کو حوا سے ملایا۔ تو نے یعقوب کو دیدار یوسف دکھایا۔ تیرے نام کی برکت سے آصف بن برخیا نے اظہار اعجاز کیا۔ فوراً تخت بلقیس سبا سے عراق میں منگوا لیا۔ تیری تائید سے داؤد نے جالوت پر فتح پائی۔ تیری عنایت سے سلیمان کو انگشتری ہاتھ آئی۔ تو نے موسیٰ کو قابل اور فرعون کو ناقابل کیا۔ تو نے سامری کے سحر کو یہ بہ مقابلہ اعجاز باطل کیا۔ الٰہی، میری بھی آبرو رکھ لے۔ الٰہی، یہ اسرار پوشیدہ جلد کھلے۔ مور ضعیف کی کیا طاقت کہ دعویٰ سلیمانی کرے۔ جزو منحنی کی کیا حقیقت کہ زمین سنگ لاخ میں ریشہ دوانی کرے۔ ہاں، اگر تیری رحمت کفیل کار ہے تو حل ہونا اس عقدہ لاحل کا کیا دشوار ہے۔" (رباعی)

کیا فائدہ فکر دم بدم سے ہو گا
ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہو گا
جو کچھ کہ ہوا، ہوا کرم سے تیرے
جو کچھ ہو گا تیرے کرم سے ہو گا

یہ مناجات کرتا ہوا، راہی ہوا۔ سامان برگشتگی، گواہ بربادی و تباہی ہوا۔ کبھی نقش قدم کی طرح زمین پر بیٹھ گیا۔ کبھی مانند بگولے کے پیچ و تاب کھا کر اٹھا۔ کبھی مثل امید موہوم کے بڑھتا تھا۔ کبھی بہ حالت یاس یہ شعر پڑھتا تھا۔ (شعر)

نہ مونسے نہ رفیقے نہ مرغ نامے برے
کسے ز بے کسی مانمی برد خبرے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 177

جیسے طائر گم کردہ، آشیاں ٹاپتا پھرتا ہے اور آشیانے کا پتا نہیں پاتا ہے یا برگ خزاسں دیدہ گرد باد میں پڑ کر ہوا کے تھپیڑے کھاتا ہے، کچھ کچھ پتا اس ساحر غدار اور اس سریر صرصر رفتار کا، جو سن چکا تھا تو اسی دھن میں اور اسی دھیان میں بہ قصد صحرا نوردی، بہ شکل قیس سیر نہ ہوا تھا۔ غرض جدھر وہ تخت گیا تھا اس طرف اس نے بھی رخ کیا۔ آخر جاتے جاتے یہ سوچا کہ یاقوت شاہ نے سچ کہا تھا۔ کچھ نشان نہیں، پتا نہیں، ہوش و حواس بجا نہیں۔ شاہ صاحب نے اسی دن کے واسطے عملِ اسماء الرجال تعلیم کیا تھا۔ انہیں مہموں کے لیے وہ نقش جذب البر لکھ دیا تھا۔

یہ سوچ کر ایک درخت کے تلے جا کر دم لیا اور ان اسماء کا ورد کیا۔ اس عمل کا پڑھنا تھا کہ محمود روشن دل کا ظہور ہوا۔ خورشید گوہر نے اٹھ کر تعظیم کی اور مثل ہلال خم ہو کر تسلیم کی۔ شاہ صاحب نے دعا دے کر ارشاد کیا : "خیر ہے؟ فقیر کو کیوں یاد کیا؟" اس نے آب دیدہ ہو کر گردن جھکا لی اور روداد مصیبت تازہ بیان کی۔ پیر روشن ضمیر نے کہا : "بابا، تم آپ جان سے بے زار ہوئے۔ دیدہ و دانستہ اس بلا میں گرفتار ہوئے۔ اب اگلی نصیحتوں کا یاد دلوانا گویا زخم دل پر نمک چھڑکنا اور کلیجے پر نشتر لگانا ہے۔ ہم تو سمجھے ہوئے تھے کہ اس راہ میں طرح طرح کی مصیبت اٹھانا ہے۔ لو، صاحب، بہ ہزار دقت شادی بھی ہوئی اور طرفۃ العین میں بربادی بھی ہوئی۔ زمانہ کبھی انقلاب سے خالی نہیں۔ کسی حال میں صورت بحالی نہیں۔ یہ آسمان کی ترفقہ سازی ہے۔ یہ اسی پیر سالوس کی شعبدہ بازی ہے۔ خیر خدا کو یاد کرو۔ تسکین خاطر ناشاد کرو۔ وہ کارساز ہے۔ وہ بندہ نواز ہے۔ سیس ناگ نامی ایک جوگی جبل مغرب کا رہنے والا ہے۔ اسی ساحر غدار نے یہ تفرقہ ڈالا ہے۔ اس کافر ناخدا ترس نے ناحق ما مفسدہ برپا کیا ہے۔ یعنی ملکہ مہ جبیں کو یہاں سے لے جا کر طلسم طاؤسی میں پھینک دیا ہے۔ یہ وہی طلسم ہے کہ فقیر نے نقشۂ چار دانگ میں آپ کو دکھایا تھا۔ ذکر نواح مغرب میں اس کا بھی ذکر آیا تھا۔ ایسا مکان قلب نہ دیکھا نہ سُنا۔ تصور سے ہوش اڑتے ہیں۔ وہاں تک پہنچنا کیسا؟ لوح کا کوئی عنوان ہے نہ دروازے کا نشان ہے۔ طرطوس نامی ایک حکیم نبیرۂ بطلیموس یونانی ہے۔ وہ صاحب فطرت و حکمت اس کا بانی ہے۔ یہاں ساحروں کا دور دور ہے۔ اس بنیاد کا کچھ اور ہی طور ہے۔ کہتے ہیں کہ جب یہ طلسم

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 178

بنوا لیا تو بہ حکم بادشاہ اس وقت اس حکیم بے چارے کو ساحروں نے طاؤس بنا دیا۔ تقدیر کے بگاڑ سے بنانے والے پر آفت آئی۔ اس وجہ سے لوح نہ تیار ہونے پائی۔ اس تناسخ سے بادشاہ کی یہ غرض تھی کہ لوح نہ بننے پائے۔ کسی صورت سے فتح طلسم کی صورت مٹ جائے اور سچ ہے جو قُفل بے کلید ہے اس کا کھلنا عقل سے بعید ہے۔"

شاہ زادہ یہ سن کے نہایت مغموم ہوا اور مایوس ہو کر اس بزرگ کا منہ دیکھنے لگا۔ پیر مرد نے کہا : "پریشان نہ ہو۔ کوئی مشکل ایسی نہیں ہے کہ آسان نہ ہو۔ معبود کے کرم سے فقیروں کے لٹکے میں اور ہی کچھ تاثیر ہے۔ دنیا داروں کو تدبیر پر تکیہ ہے۔ یہاں پابندی تقدیر ہے۔" یہ کہہ کہ پہلے دُعائے حصار تعلیم کی۔ بعد اس کے ایک اسم بتا کر یہ بات کہی : "اول مرحلے پیش آئیں گے۔ جادوگر انواع انواع ستائیں گے۔ آخر صحرائے طلسم اپنا دور دکھائے گا۔ یہاں اور ہی کچھ نیرنگ نظر آئے گا۔ وہ جنگل باغ شدادی کا جواب ہے۔ جواب کیسا بلکہ لاجواب ہے۔ اس وادی میں ایک درخت اعجوبا ہے جیسے بہشت میں طوبیٰ۔ اس پر اس حکیم کا، جسے اب طاؤس طلسمی کہتے ہیں، نشیمن ہے۔ وہ بزرگ باوجود تناسخ اب بھی صاحب حکمت اور صاحب فن ہے۔ جب وہاں پہنچنا تو اس اسم کو باآواز بلند پڑھنا اور بعنوان صاحبان تمکنت آہستہ آہستہ آگے بڑھنا۔ وہ حکیم درخت سے اتر کر تمہارے پاس آئے گا اور ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی طریقہ کشایش طلسم کا بتائے گا۔ لو، صاحب زادے، طلسم کشائی بھی مبارک، ملکہ کی رہائی بھی مبارک۔ ہاں، خوب یاد آیا۔ آپ کے دونوں رفیق یعنی وزیر زادہ اور عیار بھی کوہ مغرب کے ساتویں در بند تک آ چکے ہیں۔ مگر چونکہ وہ در بند حقیقیت میں در بند ہے پس بہ سبب بند ہونے راہ کے وہاں آ کر رکے ہیں۔ وہ جو سواد بلند نظر آتا ہے، یہ اسی کوہ کا سواد ہے۔ یہ سیاہی کی بنیاد نہیں اسی پہاڑ کی بنیاد ہے۔ پہلے وہاں جاؤ اور اپنے فیقوں کو لے آؤ۔ زیر کوہ دو پگڈنڈیاں ہیں۔ داہنی جانب چھٹا در بند اور بائیں جانب ساتواں دربند ہے۔ جادۂ راستی جاری ہے اور طریق مخالف ناہموار ہے اور بند ہے۔ تم مانند اصحاب یمین کے اس راہ سے جانا اور ان دونوں کو کہ ہم نشین اصحاب رقیم ہیں اسی رستے سے اپنے ساتھ لے آنا۔ الرفیق ثم الطریق پر عمل کرنا ضرور ہے۔ ایسے مرحلے میں تجرد دور اندیشی سے دور ہے۔ اسی ڈانڈے سے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 179

نواح طلسم کا بھی ڈانڈا ملا ہے۔ زنجیر بندی راہوں کو گویا اسی رستے کا سلسلہ ہے۔ لو، خدا حافظ، سلوک ہمارا کام ہے۔ سالک ہونا تمہارا کام ہے۔"

یہ کہہ کر شاہ صاحب نے اپنی راہ لی اور شاہ زادے نے اپنی راہ لی۔ خضر کی ہدایت سے مقدر نے یاوری اور تقدیر نے رہبری کی۔ پہلے وہ خورشید خاوری جبل مغرب میں گیا۔ وہاں سے قمر طلعت گل پیرہن اور سیار سبک سیر کو ساتھ لے کر نواح طلسم میں پہنچا۔

خبر یافتن سیس ناگ جوگی از ارادۂ شہر یار و روانہ نمودن چیلۂ خود را اس برائے گرفتار آوردن آں شاہ زادۂ کام گارو آوردن چیلہ در شبیہ طلسم کشا قمر طلعت را و پریشان شدن خورشید شاہ و سیار ازیں واقعۂ ہوش ربا و عیاری فرمودن سیار و رہائی قمر طلعت و کشتہ شدن جوگی۔

دکھا ساقیا لطف ساتی گری
کہ مٹ جائے نیرنگی سامری
بدل جائے اک بار محفل کا طور
دکھا دے ذرا چشم جادو کا دور
قدح کش ہیں عشرت کی امید میں
مئے ناب دے جام جمشید میں
وہ چلتا ہوا ہے یہ سفلی عمل
ہوا سے بھی کہتا ہے تھم تھم کے چل
نہیں کوئی لٹکا بہ ازناؤ نوش
یہ افسوں اڑاتا ہے رندوں کے ہوش
حریفوں سے کہہ دے کہ ہشیار ہوں
بھپرتے ہیں مے کش خبردار ہوں

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 180

ستم گر ہے چرخ فلاکت زدہ
ستاتا ہے رندوں کو بے فائدہ
غریبوں سے کیا بُغض کیا دشمنی
یہ جوگی ہیں بنت العنب جوگنی
ادھر محتسب ہے ادھر مے پرست
کسی کی ہے نصرت، کسی کی شکست

باطل السحر خوانان خط حصار سخن دانی، تیغ بخون حریف تر کردگان معرکۂ سحر بیانی، تیغ کشایان نبرد گاہ تیز بیانی، خنجر گزاران قتل گاہ معانی، تیر اندازان نشان بلاغت، کمان داران کمین گاہ فصاحت، بیر اس ماجرائے بے نظیر کا یوں سینۂ اظہار پر لگاتے ہیں۔ ادھر تو شاہ زادے نے فیقوں کو ساتھ لے کر منزل معلوم کی راہ لی۔ ادھر سیس ناگ کے ہن زاد نے سیس ناگ کو آ کر خبر دی کہ "لے، نصیب تیرا الٹ گیا۔ رقیب تیرا آ پہنچا۔ حریف عازم طلسم طاؤسی ہے۔ اس کے مقدر میں کامیابی، تیرے مقدر میں مایوسی ہے۔" اس خبر سے وہ خبیث گھبرایا۔ فوراً اپنے تابعینوں کو بلایا۔ اس عہد میں وہ سامری کا جانشین اور جمشید کا خانہ زاد، جے پال ثانی تھا یعنی سر آمد ساحران غدار اور سرخیل جنود شیطانی تھا۔ لاکھوں پجاتری، ہزاروں چیلے تھے۔ ہر روز بھنڈارے تھے، ہر روز میلے تھے۔ تلک دھاری تین تلوک کے اس کا حکم مانتے تھے۔ چوٹ بھیٹ میں یہ کمال تھا کہ بیر اپنا پیر جانتے تھے۔ غرض اس کافر نے سب چیلوں کو جمع کیا اور غصے میں آ کر یہ حکم دیا کہ : "ہاں، تم میں سے ایک جائے اور اس مُورکھ کر پکڑ لائے۔" یہ سنتے ہی ایک گبر نے اس جتھے سے نکل کر ڈنڈوت کی اور گرو کے چرن لے کر پون کی طرح راہ لی۔

بزور سحر اس ہوا پرست نے راہ کو قطع کیا۔ دم بھر میں ان ارکان دشت غربت کو جا لیا۔ مگر اتفاق سے وہ کافر سیہ کار اور وہ ساحر غدار اس وقت اس مقام پر پہنچا کہ شاہ زادہ اور عیار واسطے قضائے حاجت کے دامن کوہ میں گئے ہوئے تھے۔ فقط وزیر زادہ ایک درخت کے تلے تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ یا تو وہ کرگس نژاد ہوا پر سیدھا جاتا تھا یا وزیر زادے کو دیکھ کر مُڑا یعنی دفعتاً باز کی طرح گرا اور اس مسافر شکستہ بال کو لے کر اڑا۔ جلدی میں اسی

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 181

کو شاہ زادہ تصور کیا اور ساتھیوں کو نہ دیکھ بھال لیا۔ خورشید گوہر پوش اور سیار سبک سیر جو دامن کوہ سے نکلے تو دیکھا کہ قمر طلعت کو ایک جوگی ہوا پر اڑائے لیے جاتا ہے۔ گویا وہ چرغ ہے اور یہ کبوتر ہے۔ بے چارہ پنجۂ آفت میں گرفتار ہو کر کیا کیا پھڑکتا ہے، کیا کیا تلملاتا ہے۔ یہ دیکھ کر دونوں کے ہوش اڑ گئے۔ گھبر ا کر آسمان کی ویکھنے لگے لیکن کیا چارہ تھا، کیا اختیار تھا۔ حالت بے پر و بالی میں ان دونوں تک اڑ کر پہنچنا دشوار تھا۔ یہاں بہ عالم مجبوری ایک دوسرے کو دیکھتا رہا۔ وہاں وہ صیاد پر کید مع صید طرفۃ العین میں نظروں سے غائب ہو گیا۔

شاہ زادے نے عیار سے آب دیدہ ہو کر یہ بات کہی : "دیکھو، اس جوگی ملعون نے یہ دوسری چوٹ کی۔" سیار سبک سیر نے گردن جھکا کر عرض کیا : "ہاں، پیر و مرشد، اس ظالم نے بڑا دھوکا دیا۔ وائے غفلت، اس کا خیال نہ تھا کہ دشمن کمین گاہ میں ہے۔ پہلا یہی مرحلہ اس راہ میں ہے۔ خیر، حضور اللہ کو یاد کیجیے۔ عنان استقلال ہاتھ سے نہ دیجیے۔ خدا نے چاہا تو سحر کو باطل کریں گے اور اس کافر کو جہنم واصل کریں گے۔ اگر قمر طلعت کے مقدر میں رہائی ہے تو آثار نصرت آشکار ہوں گے۔ اب آئیے کچھ فکر کرنا چاہیے۔"

الحاصل سیار خورشید شاہ کو اس درخت کے تلے لایا۔ ہر طرح سے تسلی کی، ہر طرح سے سمجھایا۔ کہا : "حضور، اب یہ تدبیر ہے کہ آپ تو یہاں حصار کھینچ کر تشریف رکھیں اور خانہ زاد اس کی تاک میں جاتا ہے۔ اگر افضال خدا شال حال ہے تو بندہ کوئی نہ کوئی راہ نکال کر آتا ہے۔" شاہ زادہ نے کہا : "بھائی، ایک تو وہ چھوٹا، دوسرے تو بھی چھوٹتا ہے۔ چرخ ستم پیشہ عالم غربت میں ہم کو دوبارا لوٹتا ہے۔" سیار نے کہا : "خداوند، دیکھیے تو اب جو ہونی ہے سو ہو۔ یہ مفارقت نہیں تدبیر وصال ہے۔ خدا کے آگے سب سہل ہے۔ بندے کے سامنے سب محال ہے۔" شاہ زادے نے "رضینا بقضا اللہ" کہہ کر سر جھکا لیا اور سیر نے جوگی کا برن بنا کر سمت الراس کا رخ کیا۔ اس در بند سے استھان اس گبر خود پسند کا ایک دن کی راہ تھا۔ یہ شاطر سبک سیر مانند ماہ سریع السیر کے راتوں رات وہاں جا پہنچا۔ گرد ایک چشمے کے جوگیوں کا دنگل نظر آیا۔ سانپوں کے کھیڑے کی طرح اس صحرا کو جٹا دھاریوں سے بھرا پایا۔ دیکھا کہ چشمے کے گردا گرد آتش پرستوں کا دور ہے۔ زمین کو

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 182

کرہ نار بنایا، گویا پانی میں آگ لگانے کا طور ہے۔ ہر گبر ڈھاک کے پتوں کی چھتری کے تلے دھونی رمائے تپشیا کر رہا ہے۔ کوئی بھجن گا رہا ہے، کوئی جے گُرو کا دم بھر رہا ہے۔ کہیں اگیاری کا سامان ہے ۔ گوگل سلگ رہا ہے، ڈورو بج رہا ہے۔ سر پر کالی آئی ہوئی ہے۔ کسی کے سر پر نرسنگھ آیا ہوا ہے۔ ایک طرف سیس ناگ اپنی منغھی میں بیٹھا جھوم رہا ہے۔ گر دچیلوں کا ہجوم ہے۔ کوئی ڈنڈوت کر رہا ہے کوئی پاؤں چوم رہا ہے۔

سیار انہیں لوگوں کے بھیس میں سیر کرتاہوا ہر طرف سے گرا۔ کسی سے جے گرو کہہ کر صاحب سلامت کی، کسی جگہ دم بھر ٹھہر گیا۔ آخر ایک طرف آسن مار کر بیٹھ گیا اور تونبی بجانا شروع کیا۔ واہ وہ تونبی تھی یا کنھیا کی بانسری تھی۔ نگیسہ اور بار بد کے گلے کے طرح سُر اور لے سے بھری تھی۔ ہر شعبہ اس کا شعبۂ آواز تھا۔ وہ پردہ، پردۂ نہا وندو حجاز تھا۔ دم بھر میں تمام صحرا گونج اٹھا۔ سارا جنگل سائیں سائیں کرنے لگا۔ جس شخص نے وہ آواز سُنی، تاب نہ لایا۔ بے اختیار اس لے پر کھنچ آیا۔ سیس ناگ کے جٹوں کے ناگ کفچے اٹھا کر سننے لگے اور بے ساختہ وجد میں آ کر سر دھننے لگے۔ اس گبر نے کہا : "یہ کیا ہے؟ دیکھو تو یہ کون تونبی بجا رہا ہے؟" چیلوں نے ہاتھ باندھ کر کہا : "آج بھنڈاریوں میں ایک جوگی سیلانی آیا ہے۔ یہ اس کی من موہنی نے سارے تپشیوں کو لبھایا ہے۔" وہ بولا : "جاؤ، اسے ہمارے پاس لے آؤ۔" یہ سن کے لوگ دوڑے اور سیار کو سیس ناگ کے پاس لے گئے۔ اس نے جاتے ہی گرو جی کے چرن لیے اور ڈنڈوت کی رسم ادا کی۔ اس نے پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہا : "سدا سُکھی رہ۔ سدا سُکھی رہ، بچہ، کدھر سے پھیرا ہوا؟ کدھر کا گیان ہے؟ کون سے گُرو سے مُکھ بچن پایا ہے؟ کون سے بھم پر استھان ہے؟" اس نے کہا : "مہا پرکھ کو دگن ہے نے گیان ہے۔ دھرتی کی رپوت ہیں۔ تپشیوں کی پریم ہے اور پران ہے۔ گر کی بسیکھ ہے، گرو کی پریکھ ہے۔ دیکھا دیکھی جوگ ہےئ۔ تن من مان بروگ ہے۔ ماتا پتا کو تجا، بن باس لیا، ہرنام بھجا۔ جے ہو کر تاری کی چھایا ہے۔ جوان چرنن سون لگایا ہے۔ اب گرو کی انچھا سے نستار ہے۔ سانچے بچن کا سانچا بچار ہے۔"

یہ کہہ کے تونبی سنبھالی۔ گویا قالب بے جان میں جان ڈالی۔ ایک ایک سر پرستی کے کان کھولنے لگا، تونبی کے پردے میں جادو بولنے لگا۔ کیا گُرو، کیا چیلا، جس نے وہ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 183

وہ مست باجا سُنا مبہوت ہو گیا۔ جتھے کے جتھے کو ایک مرتبہ سکوت ہو گیا۔ سیس ناگ نے کہا : "مانگ کیا مانگتا ہے؟" یہ بولا : "سب گرو کی دیا ہے۔ مہاراج، جو مانگوں سو پاؤں۔ اتنی پرتیت ہو۔ میں بھی آپ کا داس کہاؤں۔" یہ سن کے اس گبر نے اسے بھی اپنے چیلوں میں شامل کیا۔ دو مندرے الماس کے منگا کر کان میں ڈال دیے اور اپنے ہاتھ سے منہ پر بھبوت مل دیا۔ کہا "بچہ، سانجھ سویرے آیا کرو اور ہمارے سامنے یہ من موہنی بجایا کرو۔" اس دن سے اس نے یہ معمول رکھا کہ ہر روز صبح شام جانا اور دو چار گھڑی بیٹھ کر اپنا رنگ جمانا اور پھر آنا۔ دو ہی دن میں سے سے یارانہ ہو گیا۔ غرض یہ لٹکا مطلب برآری کا بہانہ ہو گیا۔

سچ ہے، کمال بھی عجب چیز ہے۔ بس اس کا عاشق ہے جس کو ذرا بھی تمیز ہے۔ جہاں یہ ہنر مند دو گھڑی بیٹھ گیا اک میلا ہو گیا۔ چیلے تو چیلے، گُرو بھی اس اہل کمال کا چیلا ہو گیا۔ الحاصل یہ صاحب فطرت ہر شخص سے ملا، ہر طرف گیا لیکن وزیر زادے کا کہیں پتا نہ پایا۔ ایک دن قریب شام جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے، گرو جی کی منڈھی کے پہلو میں ایک مینڈھا خوب صورت سا بندھا ہے۔ اس مینڈے نے جو اسے دیکھا بے اختیار چلانے لگا اور تڑپ تڑپ کر رسی تڑانے لگا۔ جب یہ قریب گیا تو چپ ہو رہا۔ ہائے، خدا دوست کی مصیبت دوست کو نہ دکھائے۔ نگاہ چار ہوتے ہی دونوں کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ سیار نے اپنے جی کہا، "اب پتا لگنے میں کیا باقی رہا؟ بس یقین کی یہی صورت ہے۔ ہو نہ ہو یہ قمر طلعت ہے۔ سیس ناگ کافر نے یہ ظلم کیا ہے کہ اس بے چارے کو مینڈھا بنا دیا ہے۔" یہ سوچ کر جس طرح ہو سکا، دل کو ٹھہرایا یعنی اس وقت ٹال کر پھر آیا۔ بجائے خود فکر کی کہ اس بھید کو کس سے دریافت کیجیے؟ کسے ہم زاد بنائیے، کسے دم دیجیے؟ پربھو ناتھ نامی ایک تپشی کہ بڑا یار باش تھا اسے تجویز کیا۔ رات کو بعد جلسے کے جب صحبت برخاست ہونے لگی تو اسے ٹھہرا لیا۔ پہلے ادھر ادھر کی باتوں میں لگایا۔ پھر مینڈھے کا ذکر زبان پر لایا۔ اس نے ساری کیفیت بیان کی۔ جو یہ سوچا تھا وہی بات ثابت ہوئی۔ کہا : "رام رام، گرو جی کے من میں یہ کیا سمائی؟ ایک تو اس سنکھی کی استری چین لی، دوجے یہ گت بنائی۔" وہ بولا : "یہ کل جُگ کی کایا پلٹ کا سبھاؤ ہے۔ اب کلنک سے دھن کا بچاؤ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 184

ہے نہ سنتن کا بچاؤ ہے۔" سیار نے پوچھا : "کیوں مہاراج، اب یہ پنچھی کاہے کو اس کشٹ سے مکٹ پائے گا؟ گرو جی کی کرپا ہو گی نہ یہ اپنے چولے میں آئے گا۔"

اس نے گردن ہلائی اور یہ بات سنائی : "سادھو، جی دکھی ہوئے یا سکھی ہوئے سب کا سری چھتر کرتا رہے۔ دکھی ہوت بار ہے نہ سکھی ہوت بار ہے۔ منتر کی ایک لوٹ پوٹ ماں پھر وہی سروپ ہے۔ پھر وہی چولا، وہی مورت ہے، وہی روپ ہے۔"

سیار اس نکتے کو شمجھا یعنی تردید اس سحر کی، اسی کے لفظوں کی تردید ہے۔ دل میں کہا : "کیا اس کی رحمت ہے، کیا تائید ہے۔ عجب قدرت خدا ہے۔ دشمن مطلب کی بات بتا رہا ہے۔ ان شاء اللہ وزیر زادے پر سے سحر اتارتا ہوں اور سیس ناگ مُوذی کو مارتا ہوں۔ مگر اب اس کو برسر مدعا لایا چاہیے اور تردید سحر کی ترکیب کو اڑایا چاہیے۔" کہا "مہاراج، منتر کی لوٹ پوٹ کیا ہے؟ یہ کون سا جتن ہے؟ کون سی بدھیا ہے؟" اس سادہ لوح نے بے تکلف الفاظ سحر پڑھ کر سب ترکیب بیان کر دی۔ یہ تو بلا کا ذہین تھا۔ اسے یاد کرتے کیا دیر تھی۔ باتوں میں سارا مطلب حاصل کر لیا۔ بعد اس کے اس گاؤدی کو ٹہلا دیا۔

اب سُنیے۔ صبح ہوتے ہی اسے تو یہ فکر ہوئی کہ جس طرح ہو لوگوں کی آنکھ بچا کر جائیے اور حکمت عملی نے قمر طلعت کو ہیئت اصلی پر لائیے۔ وہاں سیس ناگ سے جا کر کسی مخبر نے یہ کہا : "یہ تو آپ نے مدعی کے رفیق کو گرفتار کر لیا۔ مدعی تو بچ گیا۔ "وہ بولا : "اس کا کہیں پتا ہے؟" اس نے کہا : "اسی جنگل میں ایک درخت کے تلے بیٹھا ہے۔" سیس ناگ نے یہ سن کے اس چیلے کو جو وزیر زادے کو گرفتار کر لایا تھا، بلایا اور بہت غصہ کیا، بہت جھنجھلایا۔ مخبر نے ازراہ سفارش کہا : "کرپاندھان، اسے دھوکا ہوا۔" آخر یہ صلاح ٹھہری کہ پھر جائے اور اصل مدعی کو گرفتار کر لائے۔

یہ خبر سن کے سیار بھی جا پہنچا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا "سری مہاراج، اپنے داس پر کرپا کیجیے۔ اب کی بیری مجھے یہ حکم دیجیے۔" اس نے اس کی عرض قبول کی اور ڈبے سے نکال کر ایک گولی دی۔ کہا "لے، بچہ، اسے منہ میں رکھ کر اڑ جا۔" صورت اس کافر کی یہ تھی کہ آپ تو عمل طیران، جسے بھاکھا میں اڑن کھٹولے کا عمل کہتے ہیں، جانتا

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 185

تھا، باقی گولیاں گٹکے کی تیار کی تھیں۔ انکی یہ تاثیر تھی کہ جس نے وہ ایک گولی منہ میں رکھ لی مانند طاہر پرواز کے اڑنے لگا۔ غرض سیار وہ گولی منہ میں رکھ کر اڑا اور دم کے دم میں حضور شاہ زادۂ عالی مقدار پہنچا۔ قمر طلعت کی بھی خبر دی اور باقی کیفیت بھی سب بیان کی۔ کہا : "حضور، خاطر جمع رکھیے۔ اب یہ قصہ مختصر ہے۔ بحول اللہ تعالٰی اب کوئ دن میں یہ مُہم سر ہے۔ خانہ زادہ فقط حضور کے اطمینان کے لیے حاضر ہوا تھا۔ نہیں تو بہ فضل اللہ آج ہی خاتمہ تھا۔ ہاں یہ تو ارشاد ہو، اس ہفتے میں حضور نے کیا نوش فرمایا؟" کہا : "بھائی، خدا نے اپنی قدرت کا تماشا دکھایا۔ دن بھر تو روزہ رکھتا ہوں۔ شام کو ایک بزرگ آتا ہے اور تحفے سے تحفہ کھانا اور ٹھنڈے سے ٹھنڈا پانی کھلا پلا جاتا ہے۔"

سیار نے کہا : "سبحان اللہ، وہ کریم رازق العباد، جنگل میں منگل اسی سے مراد ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ خضر علیہ السلام ہیں۔ غریبوں کی خبر لیتے ہیں۔ یہ انہیں کے کام ہیں۔ دیکھئے اس کی مسبب الاسبابی کے کارخانے، بقول مشہور : خدا کی مشیت خدا ہی جانے۔ لیجیے خانہ زاد تو جاتا ہے۔ اب یونہی چیلے اس کافر کے ہوا پر آئیں گے اور بہ سبب قلعہ بندی حصار خاک اڑا کر پھر جائیں گے۔ آخر وہ گبر آپ آئے گا اور منہ کی کھائے گا یعنی آسمان اس برگشتہ بخت سے پھرے گا۔ اور مانند طائر تیرخوردہ کے اس دائرے میں گرے گا۔ اس وقت تأمل نہ کیجیے گا۔ فوراً اس صید اجل کے گلے پر چُھری پھیر دیجیے گا ورنہ ہوش میں آئے گا تو قہر ڈھائے گا اور کچھ اندیشہ خاطر میں نہ لائیے گا۔ ہر گز کسی طرح نہ گھبرائیے گا۔ جاں نثار نے پہلے امتحان کر لیا ہے، پھر یہ عرض کیا ہے۔ فی الحقیقت اس حصار میں ہوا کا گزر محال ہے۔ انسان کی تو کیا مجال ہے؟" یہ کہہ کر گُٹکا منہ رکھا اور ہوائے آسمان ہوا۔

سیس ناگ سے جا کر کہا : "داتا، وہ راچھت تو نپٹ انیائی ہے۔ جانے اگن کی سمندر ماں لنکا بنائی ہے۔" یہ سن کے وہ مردود مسکرایا۔ سمجھا کہ یہ ناتجربہ کار ڈر کر پھر آیا۔ پرانے چیلوں میں سے ایک کی طرف دیکھا۔ وہ ہوا پرست فی الفور اتشال امر پر مستعد ہوا۔ اڑا اور آندھی کی طرح خاک اڑاتا اس جنگل میں آیا مگر قریب حصار پہنچ کر سبقت کی تاب نہ لایا۔ وہ دائرہ، وہ دائرہ تھا جس کی دور شاہ زادے کے لیے تو دورۂ گلزار نعیم تھا

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 186

اور دشمن کے لیے احاطۂ نارِ جحیم تھا۔زبانے اس کے زمین سے آسمان پر جاتے تھے۔ کوسوں تک پرندے بھی پھٹکنے نہ پاتے تھے۔

جب اس گبر نے بڑھنے کا ارادہ کیا وہ ہوا کا طمانچہ پڑا کہ الٹ گیا۔ کبھی حرارت بادِ سموم سے جلنے لگا۔کبھی ہیبتِ عزیمت سے دہلنے لگا۔ پہر بھر تک ہوا سے لڑا۔ آخر اپنا سا منہ لے کر پھرنا پڑا۔ سیس ناگ سے آ کر یہ سب کیفیت بیان کی۔ سُنتے ہی اس جہنمی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ جھنجھلا کر آپ اٹھا اور اُڑن کھٹولے پر سوار ہوا۔ بالکے بھی پر پرواز بنانے کو سر کی جٹائیں کھولنے لگے۔ "جے گُرو کی" یہ کہہ کر سب کے سب کُندے تولنے لگے۔ غرض ساتھ کے سایتہ نے اُڑ کو ہوا پر صف باندھی۔ وہ جمعیت تھی یا جنگلی کبوتروں کی ٹکڑی تھی۔ سیار بھی منہ میں گولی رکھے اس سب کے ساتھ ساتھ تھا مگر میدان اسی صاحب فطرت کے ہاتھ تھا۔ جاتے جاتے جب وہ صحرا نمودار ہوا تو اثر عزیمت حصارآشکار ہوا۔ جو اس چیلے کی صورت ہوئی تھی وہی ان سب کی صورت ہوئی۔

یہ دیکھ کر سیس ناگ کو کمال حیرت ہوئی۔ بھلا سفلی کی کیا طاقت کہ علوی پر سبقت لے جائے۔ شیطان کی کیا اصل کہ عرش کے مؤکلوں پر غالب آئے۔ دم بھر میں سحر و ساحری کی ہوا بدل گئی۔ ایک ہی جھٹکے میں ساری دھنتری اس کافر کی نکل گئی۔ افعی سر کوفتہ کی طرح پلٹے لینے لگا۔ چھو چھو کہہ کر ہوا کو دم دینے لگا۔ ساتھیوں کو کچھ دور ٹھہرایا اور آپ وسط حصار کی حد میں ہوا پر آیا۔ ہر چند زبانے خط حصار کے جلائے دیتے تھے اور شعلے اس دائرۂ آتش باز کے آگ لگا دیتے تھے۔ مگر یہ ناری آپ اپنی آتش غیظ و غضب میں جل رہا تھا۔ بات بات میں منہ سے دھواں نکل رہا تھا۔ نہ کچھ اندیشۂ مآل تھا نہ کچھ اس آگ کا خیال تھا۔ جلنے پر آمادہ تھا۔ مرگ پر دلدادہ تھا۔ اسے تو یہ دھن کہ شاہ زادے کو اپنے قابو میں لائیے اور سیار کو یہ تاک کہ شانِ عیاری دکھائیے۔

وہ تو جھلاہٹ میں مبہوت ہو کر اس حد پر گیا اور یہ بہ خیال ہوا خواہی خوشید شاہ کے ساتھ ساتھ پہنچا۔ اسے غصے نے اندھا بنا دیا تھا۔یہ بھی نہ دیکھا، کون آیا کون رہا؟ وہ کافر تو ہوا پر تاوے کرنے لگا اور شہ زادہ "یا حافظ، یا حفیظ" کے دم بھرنے لگا۔ ادھر سیار نے ایک چاند شیشے کا رشک ماہ نخشب کمر سے نکال کر اپنے ماتھے پر نصب کیا اور بہ کمال

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 187

سرعت اس طرح بغل سے نکل کر سامنے آیا کہ سر سے سر لڑ گیا۔ منڈ بھیڑ ہوتے ہی وہ چاند ٹوٹا اور جس طرح انار ہوائی سے سترے نکلتے ہیں چند ستارے نکلے، وہ ستارے آتش بازی کے ستارے نہ تھے بلکہ بیضۂ بے ہوشی تھے۔ جونہی وہ بیضے اس شقی کی پیشانی پر پہنچ کر ٹوٹے، چُپ ہو گیا۔ مطلق کچھ سر پاؤں کا ہوش نہ رہا۔ برگشتگی تقدیر نے بہ سزائے اعمال پہنچایا۔ قلابازیاں کھاتا ہوا ہوا سے زمین پر آیا۔ یہاں شاہ زادہ تو منتظر تھا۔ ذرا تأمل نہ کیا۔ جھپ دوڑ کر گلے پر خنجر پھیر دیا۔

ندا دی یہ اقبال و اجلال نے
کہ سر چڑھ کے دی جان دجال نے
زہے سطوت شاہ یزداں پرست
بڑھا اوج ایماں ہوا کفر پست
سُبک ہو کے بھی بار خاطر رہا
یہ مردود کافر کا کافر رہا

خورشید شاہ وہی خنجر خوں چکاں لیے اس دائرہ حفاظت یعنی حصن حصین حصار سے باہر نکلا اور گردن اٹھا کر جس کی طرف بہ نگاہ غضب دیکھا وہ ہیبت کے مارے مثل قاز پر شکستہ کے آ رہا۔ بس ادھر گرا، ادھر گلے پر خنجر پھرا۔ جب دو چار سر دست تہ شمشیر آب دار آئے، باقی ماندہ جتنے تھے یہ دیکھ کر نہایت گھبرائے۔ کہا : "امان امان، اے شہر یار عالی شان۔" خورشید شاہ پکارا : "اول ایمان، بعدہ امان۔ کفر سے تائب ہو۔ اسلام کا کلمہ پڑھو۔" یہ سُنتے ہی وہ سب کے سب حلقۂ اطاعت میں آئے اور بہ صدق دل ایمان لائے۔ سب سے پہلے سیار دست بیع ہوا۔ پھر کسی کو کچھ عذر باقی نہ رہا۔

شاہ زادے نے یہ سامان رحمت دیکھ کر حمد خدا کی اور سجدے میں سر جھکایا یعنی باجماعت برادران اجمالی دوگانہ شکر بجا لایا۔ بعد فراغ نماز سیس ناگ ملعون کی لاش نجس کو تو حوالۂ زاغ و زغن کیا اور آپ جہاں سے یہ سب جوگی آئے تھے اس مقام کا رستہ لیا۔ اس میں دو مقصد تھے۔ ایک تو تلقین وہاں کے بھنڈاریوں کی، دوسرے وزیر زادے قمر طلعت کی رہائی۔ المختصر باجماعت اسلامیہ وہاں پہنچ کر سطوت اسلام کی جلوہ دکھایا۔ تمام بھنڈاری

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 188

بھی مسلمان ہوئے۔ وزیر زادہ بھی بہ ہیبت اصلی آیا۔

داخل شدن شاہ زادۂ نام دار بتلاش دل دار مع قمر طلعت و سیار و فریب خوردن از پیرزا ساحرہ محجوب الاسم و درآمدن زندہ بگور و گشتن از یاران دور مہجور و یافتن در آغوش صبیہ مہ جبین یاقوت پوش و ملاقات نمودن با حکیم فرزانہ و بہدایت حکیم ماہر شدن از اسرار آں کارخانہ و کشتن غضبان ساحر را بعد مشاہدۂ عجائباتِ جادو و رہا فرمودن یاسمین پری را از قید آں زشت روئے بدخوئے۔

پلا ساقیا بادۂ فلسفی
دکھاجام سے لوح راز خفی
بنیں بوتلیںمہر و ماہ طلسم
نظر آئے ظلمت میں راہ طلسم
دم جرعہ بڑھ جائے آگے قدم
کہ اک دم میںلوں جا کے منزل پہ دم
بڑھے نشہ زور آزمائی کروں
سرِ دست کشور کشائی کروں
ادھر ہو مئے ارغوانی کا دور
ادھر اپنی صاحب قرانی کا دور
تصور ہے نیرنگ نیرنج کا
مٹا دے اثر صدمہ و رنج کا
کہاں ہے وہ نیرنگیٔ آسماں
اٹھے ابر بجلی کرے شوخیاں

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 189

رہے جوش باراں جو ہے قحط آب
کہ ہے دور بارش بعینہ شراب
خطا پوش ہے رحمت کرد گار
نہ ڈر محتسب سے نہ ہمت کو ہار

تماشائیانِ طلسم جادو زبانی، نظار گیان نیرنگ سحر بیانی، عالمان لوح اسرار، کاملان عمل اسمار، شکتدگان حصار سحر سازی، کشایندگانِ حصن سخن طرازی، اس قصہ نیرنگ نگار کو اس رنگ سے بیان کرتے ہیں۔ خورشید شاہ جب اس مہم بالعرض سے فارغ البال ہوا تو پھر مقصودِ اصلی کا خیال ہوا۔ سیار اور قمر طلعت سے مشورہ کیا کہ راہ طلسم میں سوا میرے دوسرے کا گزر دشوار ہے۔ پس اپنا ہو یا بے گانہ، کسی کا ساتھ لے جانا بے کار ہے۔ ان دونوں نے عرض کہ : "ہم تو حضور کو تنہا نہ چھوڑیں گے کچھ ہو حتی الامکان رفاقت سے منہ نہ موڑیں گے۔" کہا : "خیر، تم دونوں چلو مگر ان سب کو سمجھا دو۔" یہ سن کے سیار نے تمام نو مسلموں کو بلایا اور یہ فرمان واجب الاذعان سنایا۔ برائے تسکین و تسلی یہ بھی کہہ دیا کہ "تم سب خاطر جمع رکھو۔ جس طرح رہتے تھے یہاں اسی طرح رہو۔ حضور جس جگہ کے عازم ہیں وہاں بھیڑ بھاڑ کا کام نہیں۔ جہاں فوج یا لشکر کی ضرورت ہو، وہ ایسا مقام نہیں۔ بالفعل مجمع کے ساتھ ہونا مصلحت نہیں۔ ارشاد جناب عالی خالی اس حکمت نہیں۔ ان شاء اللہ بہت جلد پھرے آتے ہیں۔ یہ تو عمر بھر کا ساتھ ہے۔ نہ تم کہیں جاتے ہو نہ ہم کہیں جاتے ہیں۔"

غرض شاہ زادہ ان سب کو سمجھا مع رفقائے قدیم سیروافی الارض کا عامل ہوا اور رفتہ رفتہ سرحد نواح طلسم میں داخل ہوا۔ یہاں ساڑھے سات سو برس کی ایک ساحرہ اکالہ، ابلیس کی ماں اور ابی دلامہ کی خالہ، رہتی تھی۔ اولاں اول یہ مرحلہ پیش آیا کہ پہلے اس سے مڈبھیڑ ہوئی۔ چند قدم بڑھے تھے کہ مرگِ مفاجات کا سامنا ہوا۔ پہل رنگ عالم نیرنگ یہ دیکھا کہ قبر کھدی ہوئی تیار ہے اور ایک مردہ کفن میں لپٹا ہوا رکھا ہے۔ سرہانے اس کے ایک پیر فرتوت بیٹھی رو رہی ہے۔ قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماں اور یہ بیٹا ہے۔ یہ بے چارے تو درد مند تھے۔ ازراہ خدا ترسی قریب جا کر استفسار حال

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 190

کیا۔ عجوز مکارہ نے منہ سے پلا سرکا کر اور ناتوانوں کی آواز بنا کر جواب دیا : "ہائے، بچو، کیا کہوں؟ میں کوکھ جلی عجیب مصیبت میں ہوں۔ رات سے پیٹ پیٹ کر جان کھو رہی ہوں۔ فرزند جوانامرگ کی میت پر بیٹھی رو رہی ہوں۔ مجھے ضعیفہ عاجزہ کے کانپتے ہاتھوں میں یہ قوت کہاں کہ اسے قبر میں اتاروں۔ ہے ہے، اس بے کسی اور بے بسی کے عالم میں کس کو بلاؤں، کس کو پکاروں؟" شاہزادے نے کہا : "مائی تو پریشان نہ ہو۔ یہ ثواب ہم لیتے ہیں۔ ابھی اس مسافر ملک عدم کو اول منزل میں پہنچائے دیتے ہیں۔" دونوں رفیقوں سے فرمایا : "میں قبر میں اترتا ہوں۔ تم پاینتی سرہانے آ کھڑے ہو اور بہ سہولت تمام دونوں سرے تھام پر مجھے دے دو۔"

ہر چند قمر طلعت اور سیار نے عرض کی کہ خانہ زادوں کے ہوتے ہوئے حضور کو سبقت نہ چاہیے مگر شاہ زادے نے ہرگز نہ مانا۔ ازراہ مردی و مردانگی اور مقتضائے ہمت و اولوالعزمی پیش قدمی کو اس مرحلے میں مقدم جانا۔ یہ نہ سوچا کہ یہ منزل اول نہیں طلسم کا مرحلۂ اول ہے۔ سرانجام اس کام کا دور اندیشی اور پیش بینی پر محول ہے۔ غرض خورشید شاہ نے اس میت کو ہاتھوں پر لے کر آغوش لحد میں لٹایا۔ اب جو گردن اٹھائی تو اس قبو کر بسان سرنامۂ سربستہ بند پایا۔ آسمان نے زندہ درگور کیا۔ زمانے نے دفعتاً قفس میں پھنسا دیا۔ شاہ زادے اور رفیقوں کے درمیان تختے اس قبر کے حد فاضل ہو گئے۔ دید و ادید کی مزاحمت کے لیے حجاب طلسم بیچ میں حائل ہو گئے۔ اسرار نیرنگ روزگار کے آشکار ہوئے۔ رئیس اس قفس میں پھسا اور رفیق بُڑھیا کے دام مکر میں گرفتار ہوئے۔

قمر طلعت اور سیار کا حال آگے چل کے کھلے گا۔ اول شاہ زادے کی کیفیت سنا چاہیے کہ یہ طلسم کا پہلا در بند ہے۔ واہ رے عالم نیرنگ، عجب رنگ ہے، عجب روداد ہے۔ عجب اُفتاد ہے۔ آفتاب چاہ مغرب میں اسیر ہے۔ یوسف زندان آفت میں بند ہے۔ لیکن یہ نیرنگ حسن و عشق کا نیرنگ ہے۔ جس سے تمام عمر جی نہ گھبرائے، یہ رنگ وہ رنگ ہے۔ الحاصل خورشید شاہ نے اس قفس میں بند ہو کر کہا : "الٰہی، اب عقدہ کشائی تیرے ہاتھ ہے۔ جیتے جی فشا رہے، موت زیست کا سامنا ہے۔ زندے اور مردے کا ساتھ ہے۔" یہ کہہ کر جو سر جھکایا تو اور ہی کچھ تماشا نظر آیا۔اب دیکھا تو یہ دیکھا کہ وہ میت نہیں ہے۔محبوبہ
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 91

ہویدا تھا۔ یہ بھی ظہورِ قدرتِ باری تھا۔ شاہ و شہزادے میں فرق اعتباری تھا۔حقیقت میں وہ شہزادہِ عالی تبار، ذہانت میں رشکِ ارسطو، حشمت میں غیرتِ اسکندر، عشرت میں رشکِ جمشید، علم و ہنر میں فخرِ پدر تھا۔ چودھواں سال تھا۔ ظہورِ کمال تھا۔ اسمِ سامی اور نامِ نامی اُس کا خورشید گوہر پوش تھا، صاحبِ عقل و ہوش تھا۔ ہر فن کی تکمیل حاصل تھی۔ ہر علم میں دست گاہِ کامل تھی۔ طبعیت میں دریا کی روانی، فنِ سپاہ گری کا بانی، ٹپیت، پھکیت، برچھیت، تیرانداز، دلیر، جرات میں شیر۔ اُس کی تلوار بے پناہ تھی، ضرب اُس کی قہرِ الہٰ تھی۔ کاٹ قیامت کا کاٹ تھا، گھاٹ آفت کا گھاٹ تھا۔ دم اُس کا سیفی کا دم تھا۔ خم اُس کا ابروئے پُر خم تھا۔ ناب اُس کی جادۂِ عدم تھی، روانی قضائے مبرم تھی۔ چٹکی بلا کی تیار تھی۔ قدر اندازی شہرۂ روزگار تھی۔ تیر اُس کا افعی پردار، حلقۂ کمان اژدہائے خوں خوار، گُرز اُس کا دعویٰ تہمتنی کی دال، نیزہ الفِ پیشانی اقبال، بہاروں سے راتوں کی صحبت، نامردوں سے ہمیشہ نفرت۔ ہر طرح کی قدرت حاصل، طبیعت سیرو شکار پر مائل۔
ایک دن ندیمانِ ذی ہوش نے خدمتِ شہزادہ گوہر پوش میں آ کر عرض کی:
"خداوند، آج کل لطفِ شکار ہے۔ سیروتماشے کا زمانہ ہے۔ موسمِ بہار ہے۔ گُل خودرو پر جوبن ہے۔ صحرا گلشن ہے۔ کانٹا کانٹا گلستان ہے۔ فضائے دشت روضۂِ رضوان ہے۔ لالے کی لہک پر دل لہراتا ہے۔ پھولوں کی مہک سے دماغ معطر ہوا جاتا ہے۔ جوشِ گُل و ریحان ہے۔ بیدِ مجنوں کی بھی شاخ پھولوں کی چھڑی ہے۔ سچ تو یہ ہے، صحرا پر بہار پھٹ پڑی ہے۔ طاؤس ابر کا دم بھر رہے ہیں۔ چکور قہقہے کر رہے ہیں۔ زمین سبزے سے زمرد نگار ہے۔ عجب کیفیت ہے، عجب بہار ہے۔ ڈھاک پھولا ہے، ساکھو رشک سے آگ بگولا ہے۔ صحرا کی بہار دل میں کھبتی ہے۔ سبزے کی طراوت آنکھوں میں چبھتی ہے۔ گُلوں کی شادابی سیر بہشت دکھاتی ہے۔ جھیلوں کی فضا سے ہوائے کوثر آتی ہے۔ اگر ان دنوں حضور قدم رنجہ فرمائیں تو نہایت سیرو شکار کا لطف اُٹھائیں۔"
شہزادہ یہ سُنتے ہی مسرور ہوا، نشۂِ شوقِ شکار میں چور ہوا، ہوائے شکار دماغ میں بسی، سیرو گُل گشت کے ارادے پر کمر کسی۔ مصاحبوں کو طلب کیا، مشیروں سے مشورہ لیا کہا "حضرت سے اجازت ملنا دشوار ہے۔ قبلۂ عالم کو میری دم بھر مفارقت ناگوار ہے۔" سب نے

ریختہ صفحہ 92
عرض کی : " اس میں اہتمام کیجیے۔ دستور المعظم کی معرفت عرض داشت دیجیے۔" آخر یہ مشورہ ٹھیر، احضور خود تشریف لے جائیں۔ آپ رخصت لے آئیں۔ انہیں مشوروں میں دن گزرا، رات ہوئی، مگر کوئی تسلی خاطر کی نہ بات ہوئی۔
غرض وہ شب انہیں تذکروں میں بسر ہو گئی۔ باتوں باتوں میں سحر ہو گئی۔ جس وقت شیر گردوں ہوائے صبح کھانے کے لیے مشرق کی کچھار سے نمایاں ہوا اور آہوئے شب اُس کی آمد آمد کے خوف سے چوکڑی بھر کر مغرب میں پنہاں ہوا، شاہ زادے نے لباسِ درباری پہنا اور بیت الشرف سے مثل آفتاب کے برآمد ہوا۔ گھوڑا مانگا، سوار ہوئے۔ رفیق و مصاحب جلودار ہوئے۔ بادپا نے کیفیتِ بادِ بہاری دکھائی، مشیتِ باری جاری ہوئی۔ نسیم جنبش میں آئی۔ طرفتہ العین میں داخلِ دربار ہوا۔ دیوانِ خاص اُس آفتاب کے پرتو سے مطلعِ انوار ہوا۔ خوشبو سے تمام دربار مہکنے لگا۔ اس گُلِ نو خاستہ کو دیکھ کر نقیب بُلبُل کی طرح چہکنے لگا۔ " ظلِ سبحانی خلیفتہ الرحمانی کی ترقی عمر و دولت، دین و دنیا کے ولی، مہابلی، سلامت، عالم پناہ، روشن نگاہ۔ "
بادشاہ نے آنکھ اُٹھائی۔ شہزادے کی چاند سی صورت نظر آئی۔ دل میں جوشِ محبت آیا: " آگے آؤ" اشارے سے فرمایا۔ شاہ زادہ قریب آیا، بادشاہ نے چھاتی سے لگایا۔ دربار گرم تھا۔ ہر طرح کے پرچے گزرتے تھے۔ حضور حکم دیتے تھے۔ اہلِ قلم دستخط کرتے تھے۔ رعب شاہی سے چھکے چھوٹے تھے۔ ہاتھ پاؤں پھولے تھے، حواس باختہ تھے۔ آئے ہوئے بھولے تھے۔ یہاں ولولہ شوق کی تاکید تھی، وہاں رعب و سطوت کی تحدید تھی۔ دل یہ کہتا تھا "عرض کیجیے، کسی طرح اجازت لیجیے۔" ولولۂ دل کے ہاتھوں سے تردّد میں پڑے تھے۔ چُپ گردن جھکائے کھڑے تھے۔ فکر بے کار تھی، عقل حیران تھی، رخصت ملنے نہ ملنے سے دبدھے میں جان تھی۔ دم بہ دم آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ چاہتے تھے کچھ عرض کریں لیکن بہ پاسِ ادب رہ جاتے تھے۔
دل سے دل کو راہ ہے، یہ مثل مشہور ہے۔ بیٹے کے صدمے کی باپ کو آگاہی ضرور ہے۔ فرمایا: " خیر ہے، کیا ہے؟ کچھ چُپ چُپ ہو۔ چہرہ اُترا ہے۔ کس چیز کی خواہش ہے؟ کس بات کی تمنا ہے؟" عرض کی: " غلام ایک احتیاج لایا ہے، یہ عرض کرنے آیا ہے۔ ان دنوں طبیعت رُندھی رہتی ہے۔ دم گھبراتا ہے، دل قابو سے نکلا جاتا ہے۔ شوقِ سیرو شکار ہے خانہ زاد

ریختہ صفحہ 93
رخصت کا خواست گار ہے۔ آج کل جوشِ بہار ہے، جنگل رشکِ گُلزار ہے، چندے گُل گشتِ صحرا سے دل بہلاؤں گا۔ انشاءاللہ بہت جلد پھر آؤں گا۔ "
بادشاہ نے سر جھکایا، کچھ سوچ کر یوں ارشاد فرمایا: " جانِ پدر، سفر بہ صورت سقر و شکار کارِ بے کار شاہ و شاہ زادے دن انتظامِ سلطنت میں بسر کرتے ہیں۔ رات کو عباداتِ خالق میں سحر کرتے ہیں۔ تم کو اندیشۂ مآل چاہیے، بندوبست کا خیال چاہیے۔ امورِ سلطنت کو دھیان میں لاؤ، کاغذ دیکھو، دل بہلاؤ۔ تم آسمانِ سلطنت کے ستارے ہو۔ پدرِ پیر کی زندگی کے سہارے ہو۔ دنیا گزرگاہ ہے۔ ہم رہ گزری ہیں۔ کوچ مقام لگا ہے، عدم کے سفری ہیں۔ تُم ہی تُم ہو، آخر نہیں۔ اوّل نہیں۔ ہمارا کیا بھروسا ہے۔ آج ہیں، کل نہیں۔ دم آیا نہ آیا۔ بشر محض بے اختیار ہے۔ زندگی کا کیا اعتبار ہے۔ جوانی کی دوپہر ڈھلی، شامِ غربت نے صورت دکھائی۔ کوچ کا نقارہ ہوا، صبح پیری آئی۔ بیٹا، ہم تو چراغِ سحری ہیں۔ آفتاب، لبِ بام ہیں۔ سر کا ہلنا، اجل کے اشارے ہیں۔ موت کے پیام ہیں۔ تمہارا آنکھوں سے اوجھل ہونا غضب ہے۔ بیٹا، پدرِ ضعیف جاں بہ لب ہے۔"
خورشیدِ گوہر پوش کے ہوش اُڑے، ساغرِ چشم چھلک پڑے، آنسو رخساروں پر ڈھلک پڑے۔ عرض کی:" آپ کی بات کا دُلکھنا سراسر بے جا ہے۔ لیکن بے عرض کئے بھی نہیں بنتا ہے۔ غلام خجلت سے زمین میں گڑ گیا، کیا کہوں؟ لاکھوں گھڑے پانی پڑ گیا۔ حضور کے اشارے سے فدوی کی جان پر بنی ہے۔ ہر حرف، ہیرے کی کنی ہے۔ ہر لفظ نشتر ہے، ہر فقرہ خنجر ہے۔ بعد خُدا کے فقط آپ کا سہارا ہے۔ حضور کے سوا دنیا میں کون ہمارا ہے۔ قیامت تک یہ جاہ و حشم رہے، رہتی دنیا تک یہ دم رہے۔ پھر زندگی کہاں، اگر حضور نہیں؟ بے الظفر کہا ہے۔ شکار تجربہ کاروں کا کام نہیں مگر تعلیم اُس کی فرض ہے۔ اس میں بھی کلام نہیں، شکار سے انسان دلیر ہوتا ہے، آدمی کا دل شیر ہوتا ہے۔ بہادر شکار پر مرتے ہیں، بزدلے ڈرتے ہیں۔ جنگل جگہ شیروں کی ہے، کسوٹی دلیروں کی ہے۔ دلیروں کو رات دن جنگل میں رہنا سہنا ہے، تیغ و خنجر اُن کا گہنا ہے۔ تلواروں کے سائے میں بسر کرتے ہیں، کوہ و بیاباں میں گزر کرتے ہیں۔ عزلت گزینی سے فقیروں کا نام ہے، سیرو شکار زادوں کا کام ہے۔"
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 94

بادشاہ سمجھا، شباب کا ولولہ ہے، جوانی کا حوصلہ ہے۔ اب یہ کسی طرح نہ مانیں گے۔ ہماری فہمایش کو قیدِ شدید جانیں گے۔ چاروناچار کہا:" بسم اللہ بہتر جاؤ، شکار کھیلو، دل بہلاؤ۔" ماتھا چوما، گلے لگایا۔ "فی امان اللہ" کہہ کر رخصت فرمایا۔ سوکھے دھانوں میں پانی پڑا، رخصت ملی۔ اجازت کیا ملی، دین و دنیا کی دولت ملی۔ خوش ہو کر سلامِ رخصت کیا۔
باہر نکل کر رفیقوں کو مژدہ دیا۔ سب نے عید کے اہتمام، سفر کی تاکید کی۔ ہشاش بشاش مکان پر تشریف لائے۔ کہا :" الحمداللہ، کامیاب ہو کر آئے۔" ناگاہ وزیر زادے کا خیال آیا۔ ادھر اُدھر دیکھ کر اس طرح ارشاد فرمایا: " ہمارا جلیسِ خاص کہاں ہے؟ رفیق بہ اختصاص کہاں ہے؟ " سوار دوڑے۔ وزیر زادہ آیا۔ شاہ زادے نے ہنس کر گلے سے لگایا، کہا: " بھائی، بڑا مرحلہ طے ہوا۔ حضرت سے رخصت پائی۔ " وہ بولا: " بجا ہے۔ غلام نے بھی سُنا ہے مگر یہ تو ارشاد ہو، کیوں کر اجازت ہاتھ آئی؟ حضرت سے رخصت لینا حضور ہی کا کام تھا۔ جاں نثار کو تو اس میں کلام تھا۔"
مُسکرا کر ارشاد کیا: " سچ ہے، معشوق کا عاشق سے جُدا ہونا دشوار، طالب کو مطلوب کی مفارقت ناگوار۔ مگر قسمت لڑی بات بن پڑی۔ حضرت نے میری خوشی کی، مجبور رخصت دی۔" وزیر زادے نے کہا: " شکر ہے، خُدا نے یہ خوش خبری سُنوائی، آرزو پوری ہوئی، مُراد بر آئی۔ ہر چند یہ حُسنِ اتفاق ہے مگر حضور کے حُسنِ بیان کی تاثیر ہے۔ ماشاءاللہ یہاں تقدیر مقلدً تدبیر ہے۔ بسم اللہ، تماشائے سیر و شکار مبارک، گُل گشتِ باغ و بہار مبارک۔ مگر یہ روز آدینہ ہے۔ آج کے دن سفر نامناسب ہے۔ پیروی شارع اور پابندی شریعت واجب ہے۔ اگرچہ بعد از نمازِ جمعہ حکم سفر آیا ہے مگر بارک اللہ یوم السبت و الخمیس مخبرِ صادق نے فرمایا ہے۔ رخصت ملنے میں تردد تھا۔ یہ مرحلہ طے ہو چکا۔ اب اندیشہ کس کا ہے؟ جلدی کیا ہے؟ رات کی رات توقف ضرور ہے۔ پیرومُرشد، صبح کیا دُور ہے۔ آگے جو کچھ حضور کی رائے، خانہ زاد کو جو حکم ہو بجا لائے۔"
شاہ زادہ بولا: "بھائی، خوب یاد دلوایا، مجھے جمعہ کا خیال نہ رہا تھا۔ اچھا بنام افسرانِ فوج، حکم نامے اس مضمون کے جاری کرو اور کارخانہ داروں کو اس امر کی اطلاع دو کہ آج، بہ سبب جمعے کے فسخ عزیمت کیا گیا۔ ہفتے کی صبح پر موقوف رہا۔ کل منہ اندھیرے سب آ کر

ریختہ صفحہ 95

حاضر ہوں۔ انشاءاللہ تعالیٰ پچھلے سے تاروں کی چھاؤں میں کوچ ہوگا۔ لیکن پیش خیمہ وغیرہ آج ہی روانہ کیا جائے اور شاگرد پیشے کو بھی حکم دیا جائے کہ یہ سب بھی پیشتر سے راہ لیں۔ انہیں " کارخانوں کے ساتھ چل نکلیں۔"
وزیرزادے نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔ "بہت خوب، خانہ زاد ابھی اس حکم کی تعمیل کرتا ہے اور اُسی وقت سے عملے کی روانگی کی سبیل کرتا ہے۔ " ہنوز یہ ذکر تھا کہ نواب ناظر جناب عالیہ کا آیا اور بعد دُعائے عمر و دولت یہ کلمہ زبان پر لایا۔ " پیرو مرشد حضور کو فکرِ سفر ہے۔ کچھ محل کی بھی خبر ہے۔ صبح سے اک حشر مچا ہے۔ قیامت بپا ہے۔ جنابِ عالیہ پر رنج و الم ہے۔ مصلے پر بیٹھی ہیں اور دانۂ اشک سے سبحہ شماری ہے۔ ہر دل پر قلق کا جوش ہے۔ ہر شخص بہ صورتِ تصویر خاموش ہے۔ ذرا محل میں قدم رنجہ فرمائیے۔ پہلے اپنے چاہنے والوں کو چل کر سمجھائیے۔ پھر کہیں تشریف لے جائیے۔ "
شاہ زادہ یہ سُن کے نواب ناظر کے ساتھ جو آیا تو گُل صاحباتِ محل کو چُپ چُپ پایا، ماں کے سامنے گیا اور ادب سے تسلیم کو جھکا۔ جناب عالیہ نے اشارے سے سلام لیا اور تسبیح کو ہاتھ سے رکھ کر ارشاد کیا: " میاں میں کون جس سے کلام کرو؟ جسے لائقِ سلام سمجھو، اُسے جا کر سلام کرو۔ واری اس زمانے کے لڑکوں کا عجب حال ہے۔ نہ کسی کی اُلفت کا دھیان ہے، نہ کسی کی محبت کا خیال ہے۔ تمہیں کسی کی ریاضت کی کیا خبر؟ کسی کی مشقت پر کیا نظر؟ کن کن منّت اور مرادوں سے پالا، اندھیرے اُجالے باہر نہ نکالا۔ اگر کبھی دُشمنوں کو بے وقت چھیک آتی تھی تو دائی بندی کی جان نکل جاتی تھی۔ جب دور از حال ذرا طبیعت بے چین ہوئی ہے تو ہمیں وہ شب آنکھوں میں کٹی ہے۔ تمام رات تسبیحیں پڑھ پڑھ کر صبح کی مگر تمہیں اِس کی کیا پروا؟ اب نامِ خدا جوان ہوئے اور ہی کچھ نشہ آیا۔ کیا قہر ہے؟ جنہیں بھونرے میں پالتے ہیں وہی پیٹ سے پاؤں نکالتے ہیں۔ ہمیں جھوٹوں بھی نہ خبر کی اوپر ہی اوپر رخصت لے لی، کیا خوب ریاضت کا ثمرہ ملا ہے؟ ہاں، واری تمہارا قصور نہیں، اپنی تقدیر کا گلہ ہے۔"
شہزادے نے گردن جھکا کر عرض کیا: " البتہ خطا ہوئی کہ پہلے حضور سے پُوچھ نہ لیا۔ للّٰہ اس قصور کو معاف کیجیے اور غلام کو رخصتِ شکار دیجیے۔ " ماں بولی: " ہے ہے پھر وہی تقریر کی جس سے کلیجے پر چھُری لگی۔ خوب، میرا عندیہ سمجھا۔ لو سب باتوں کا ایک بات میں جواب
 

شمشاد

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 191

خلوت نشین ہے۔ تربت حجلۂ عروسی ہے اور وہ روح مقلوب عروس شرمگیں ہے۔ بند کفن مثل بند نقاب کھلے ہیں۔ رونمائی کا سامان ہے۔ حجاب میں بے حجابی ہے۔ معشوق کا انداز ہے۔ دلہن کی شان ہے۔ سانس کی تحریک ہے یا سلسلہ مضمون باریک ہے۔ مفارقت جسم جو جان وصل کی خبر لائی ہے۔ ہستی کو عدم پر فوق ہے۔ زندگی گئی ہوئی پھر آئی ہے۔ کافور میں سہاگ کے عطر کی بو باس ہے۔ پوٹ کی چادر ہے یا شہانہ لباس ہے۔ پیشانی پر موت کے پسینے کے قطرے ہیں یا افشاں کے ستارے ہیں۔ مُوئے کاکل مرغولہ بند ہیں یا عاشقوں کی زندگی کے سہارے ہیں۔ بھویں گوشہ گیری پر تُلی ہیں۔ آکھیں کچھ بند ہیں، کچھ کھلی ہیں۔ لب پر مہر خاموشی ہے۔ دل میں ولولۂ ہم آغوشی ہے۔ سینے پر جوبن کا اُبھار ہے۔ سرو میں پھل آیا۔ خزاں میں بہار ہے۔ سکوت کے سالم نے شیر خموشاں کا نقشہ دکھایا ہے۔ چہرے کی اداسی نے تصویر کا خاکہ اڑایا ہے۔ خواب اجل نہیں کیف بادۂ شباب سے مدہوش ہے۔ ہو بہو ملکہ مہ جبیں یاقوت پوش ہے۔ مثل مشہور ہے "جوانی کی نیند غضب ہوتی ہے۔" الڑھ پن کے عالم میں بے تکلف پاؤں پھیلائے سوتی ہے۔ پہلو میں ایک کھڑکی ہم چشم غرفۂ گلزار ارم ہے جس سے فرفر ہوئے بہشت چلی آتی ہے۔ سامنے حد نگاہ تک وہ سبزہ زار ہے جسے دیکھ کر طبیعت لوٹ پوٹ ہوئی جاتی ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حور جنت غرفے کی راہ سے آ کر اس گوشے میں سو رہی ہے۔

یہاں خورشید شاہ کا یہ حال ہے کہ یہ عالم دیکھ کر روح بے چین ہو رہی ہے۔ دل میں کہہ رہا ہے : "الٰہی، یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ حور عین ہے یا ملکہ مہ جبیں ہے؟" اب قبر کا دھیان ہے نہ اس میت کا خیال ہے۔ محویت کے عالم میں اور ہی کچھ کیفیت ہے اور ہی کچھ حال ہے۔ کبھی ہاتھ بڑھاتا ہے، کبھی کھینچ لیتا ہے، کبھی اشاروں میں باتیں کرتا ہے، کبھی آہستہ آہستہ آواز دیتا ہے۔ ولولۂ شوق میں ہر مرتبہ گھٹتا ہے، ہر مرتبہ بڑھتا ہے۔ اسی بے خودی کے عالم میں بے ساختہ یہ شعرپڑھتا ہے۔

یار آرام میں ہے وصل کی شب جاتی ہے
متحیر ہوں کہ بیدار کروں یا نہ کروں

رُعب اس نازنین و مہ جبیں کا یہ کہتا ہے۔ دیکھ، گستاخی ادب کے خلاف ہے۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 192

شوق اس بے تاب و بےقرات کا یہ عرض کرتا ہے کہ بے اختیاری کے عالم میں سب معاف ہے۔ بہ قول مُصحفی (شعر)

عاشق سے بھی ہوتا ہے کہیں صبر و تحمل
اس کام کو کہتا ہے جو آتا نہیں مجھ کو

آخر ایک مرتبہ جھک کر سینے پر سینہ اور منہ پر منہ رکھ دیا۔ "ہائے جاناں" کہہ کر بے تکلف چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا اور لب جاں بخش کا بوسہ لیا۔ ادھر تو خورشید شاہ نے "ہائے جاناں" کہہ کر پکارا، ادھر اس دشمن جاں نے انگڑائی لے کر الٹا ایک ہاتھ مارا۔ شاہ زادہ اوجھڑ کھا کر کھڑکی کے باہر جا گرا۔ بے چارہ بے تابی دل کے ہاتھوں اور مصیبت میں گھرا۔ اب جو دیکھا تو نہ وہ غرفہ ہے نہ اس قبر کا نشان ہے۔ کوسوں تک، منزلوں تک ایک پرفضا میدان ہے۔ سبزہ لہلہا رہا ہے۔ ابر چھا رہا ہے۔ خود رو پھولوں کی بہار ہے۔ تختہ تختۂ گلزار ہے۔ طائر زمزمے کر رہے ہیں۔ غزال چوکڑیاں بھر رہے ہیں۔ کوئل کی کوک ہے۔ موروں کا شور ہے۔ رعد کی کڑک ہے یا نوبت کی ٹکور ہے۔ پھوار پڑ رہی ہے۔ نہریں جاری ہیں۔ چرند اور پرند مصروف شکر گزاری ہیں مگر باوجود ایں طراوت، گرمی کی یہ شدت ہے کہ قیامت بالئے قیامت ہے۔ حرارت ضاں سوز دم بہ دم سرگرم اشتداد ہے۔ آسمان تنور روشن ہے۔ زمین کورۂ حداد ہے۔ پہاڑ معدن کو گرد ہیں۔ حصار آتشیں گردا گرد ہے۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔ پتھر چٹک رہے ہیں۔ جھونکجے باد سموم کے آتے ہیں اور تن بدن میں آگ لگا جاتےہیں۔ زمین کا یہ حال ہے کہ پائے تصور میں چھالا پڑتا ہے۔ سایہ قدم کے تلے چُھپا ہے مگر ایڑیاں رگڑتا ہے۔ ہر چشمۂ آتش زر دشت کا ہالہ ہے۔ ہر بھنور شعلہ جوالہ ہے۔ نہروں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ موجوں سے شرارے نکلتے ہیں۔ہنگام نظارہ طائر نگاہ کے پر جلتے ہیں۔ تقاطر سحاب سے چنگاریاں پیدا ہیں۔ شدت ہوائے گرم سے آثار آتش زدگی ہویدا ہیں لیکن وہ طبقۂ بہشت مخصوص بہ نسبت طلسم کشا جہنم ہے۔ اوروں کے لیے فضائے گلزار ارم ہے۔

خورشید شاہ اب سمجھا کہ یہ اسرار طلسم کے اسرار ہیں اور یہ سب آثار اسی کے آثار ہیں۔ کہا : "معلوم ہوتا ہے کہ یہ گرمی محض مجھ غریب کی نسبت ہے۔ اس آفت کے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 193

لیے میں ہوں اور میرے لیے یہ آفت ہے۔ یہ کیفیت حرارت ہے یا اہلالیان طلسم کی شرارت ہے۔ اگر درحقیقت اس صحرا کا یہی حال ہوتا تو انسان کا کیا ذکر، حیوانوں کو جینا محال ہوتا۔ بادسموم کے ایک ہی جھونکے میں تمام جنگل جل جاتا۔ نہ پھولوں میں یہ تازگی نہ سبزہ یوں لہلہاتا۔"

یہ سوچ کر داہنی جانب جو منہ پھرایا، کچھ دور چند درختوں کا ایک غنچہ نظر آیا۔ چاہا کہ ان درختوں کے سائے میں چل کر کوئی دم پناہ لیجیے۔ اللہ سے مناجات اور دل سے اس مشکل کے آسان ہونے کا مشورہ کیجیے۔ غرض بجائے خود یہ تصور کیا اور ان درختوں کی چھاؤں میں جا کر دم لیا۔ وہاں بہ نسبت میدان کے کچھ سردی تھی۔ کہا : " الحمد للہ، جان بچنے کی تو امید ہوئی۔" ناگاہ ایک طاؤس طناز وجد کرتا ہوا سامنے آیا جس کے پروں کے نقش و نگار نے جلوۂ نیرنگ دکھایا۔ قد و قامت میں تو وہ طاؤس شُتر مُرغ کے برابر تھا لیکن صورت و سیرت میں اس سے کہیں بہتر۔ اس کی چوٹی کو حوروں کے طرے پر فوق تھا۔ اس کی گردن دیکھ کر ہنس کی گردن میں غلامی کا طوق تھا۔ وہ پر صاحب دل کی نگاہ میں مصحف کی نشانی تھے۔ وہ نقش و نگار دست آویز بہار جاودانی تھے۔ وہ زبر جد کی منقار، لالڑی کی آنکھیں، نیلم کے پاؤں، زمرد کا سینہ، وہ طلائی گل، رشک گل اشرفی، وہ سبز سبز پر جیسے سونے کے پھولوں پر مینا۔ انصاف کہہ رہا تھا : "طاؤس بہشتی اسی سے مراد ہے۔ الحق اسی خوش خرام ایجادی سے بہار گلشن ایجاد ہے۔"

شاہ زادہ اس عجوبہ نگاہ کو دیکھ کر حیران ہوا اور وہ حیوان مصنوعی بہ کمال شوق دوڑ کر گرد پھرنے لگا۔ اسی حالت وجد میں نوک منقار سے کچھ زمین پر لکھا، گویا بہ ذریعہ تحریر اپنے اشتیاق کا اظہار کیا یعنی : "اے شاہ زادہ والا دود مان اور اے امیر صاحبقران زمان، میں آپ کا مدت سے مشتاق تھا۔ ازبس آرزوئے قدم بوسی تھی۔ ازحد اشتیاق تھا۔ بندہ وہی حکیم ہے جس کا حال شاہ صاحب نے بیان کیا ہے۔ مجھے ساحران ناعاقبت اندیش نے بہ حکم بادشاہ انصاف دشمن طاؤس بنا دیا ہے۔ فتح اس در بند کی اور رہائی اس آرزو مند کی، حضور کی تشریف آوری ہی پر موقوف تھی۔ المسۂ للہ، نا امیدی بہ امید مبدل ہوئی اور شکل مراد دکھائی دی۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 194

اب آپ کچھ تردد نہ فرمائیں۔ زمانہ فتح طلسم کا بہت قریب آیا۔ خداوند عالم آرزو مندوں کی آرزو اور امیدواروں کی امید بر لایا۔ بہ ظاہر یہ طلسم بے لوح ہے مگر مطلق تشویش کا مقام نہیں۔ جب بانی طلسم خود حاضر ہو پھر لوح کا کچھ کام نہیں۔ کل راہیں نیرنجات کی نیاز مند کے پیش نگاہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ حضور بہ فضلۂ موید من اللہ ہیں۔"

شاہ زادہ وہ تحریر اقلیدس پڑھ کر نہایت مسرور ہوا۔ اندیشۂ لا علمی اور واہمۂ ناکامی دل سے دور ہوا۔ پہلے اس حکیم کے حال پر تأسف فرمایا۔ پھر ازراہِ لطف و التفات کلماتِ تشفی زبان پر لایا۔ کہا : "اے بقراط دہر اور اے جالینوس عصر، میں شاہ صاحب کی زبانی تیرے اوصاف حمیدہ سن چکا ہوں۔ القب مرأۃ القلب یعنی ایک دل دوسرے کے دل کا آئینہ ہے۔ اب میں اپنے مشتاق ہونے کا کیا حال کہاں؟ لیکن بہ مصداق کل امر مرہون باوقا تھا۔ اب جذب خاطر نے اثر دکایا۔ الحمد للہ، آج وہ ارادہ پورا ہوا اور وہ وقت معبود برابر آیا۔ ان شاء اللہ المستعان۔ اب ہر طرح کی مشکل آسان ہے۔ ایک کو دوسرے سے تقویت ہے۔ غرض بہر صورت اطمینان ہے۔"

یہ سن کے اس سربر آوردۂ روزگار نے گردن تسلیم جھکائی اور دوبارہ پھر کچھ زمین پر لکھ کر یہ راہ بتائی یعنی : "اب حضور یہاں ٹھہر کر گرمی کا تعب نہ اٹھائیں۔ وہ جو سامنے آسمانی گنبد نظر آتا ہے وہاں تشریف لے جائیں۔ وہ گنبد مثل آسمان کے بلند ہے اور چار طرف سے بند ہے۔ یہ طلسم انگشت شہادت سے ہتھیلی پر لکھ کر اس پر دستک دیجیے، پھر قدرتِ خداوند قدیر کا مشاہدہ کیجیے۔ بہ افضال سرمدی اور بہ تائید ایزدی فوراً انکشاف اسرار ہو گا۔ دفعتاً وہ برج گردش میں آئے گا اور اک دروازہ نمودار ہو گا۔ اسی کے جواب میں دوسرا دروازہ ملے گا۔ اس کی فضا دیکھ کر غنچہ خاطر کھلے گا۔ اس کے جلو خانہ میں چشمۂ اسرار ہے۔ ادھر یہ تالاب ہے، ادھر قلعے کا حصار ہے۔ بس اب یہی دو مرحلے پیش آئیں گے۔ باقی جتنے عقدے ہیں خود بخود حل ہو جائیں گے۔ نیازمند بھی رکابِ سعادت میں چلتا مگر بہ ظاہر اندیشۂ ضرر ہے۔ منظور یہ ہے کہ ساحر اس ارادے بے بے خبر رہیں۔ لہذا میرا دور دور رہنا بہتر ہے۔ لیکن فکر و سعی سے غافل نہ رہوں گا۔ جب کوئی دقت پیش آئے گا۔ فوراً آ کر حاضرہوں گا۔" خورشید شاہ نے کہا : "نہیں خلاف مصلحت نہ کرنا چاہیے۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 195

مآل اندیشی کے یہی معنی ہیں۔ عقل و تدبیر سے نہ گزرنا چاہیے۔ عقل و تدبیر سے نہ گزرنا چاہیے۔ اچھا تم یہیں رہو، مجھے پیشتر چلنے دو۔" یہ کہہ کر اس آفتاب عالم تاب نے بُرج آسمانی کی راہ لی اور قریب پہنچ کر حسب تحریر حکم ارسطو تدبیر، دستک دی۔ بہ مجرد دستک اس برج کو دور ہوا اور بہ عین گردش دور نے قالب تہی کیا۔

اب جو دیکھا تو دیوار میں در ہے اور اس کا جواب بھی پیش نظر ہے۔ شاہ زادہ یہ دورِ دَور اور یہ فتح باب کا طور دیکھ کر بشاش ہوا۔ بسم اللہ کہہ کر پہلے دروازے سے داخل ہوا اور دوسرے دروازے سے نکل کر چشمۂ اسرار پر پہنچا۔ وہ تالاب از بس جاں فزا تھا۔ وہ مقام نہایت دل کشا تھا۔ جس قدر اس صحرا میں کلفت ہوئی تھی اسی قدر یہاں پہنچ کر فرحت ہوئی۔ سبحان اللہ وہ چشمہ تھا یا طلسمی آئینہ یا خاتم سلیمانی کا نگینہ۔ موجیں وہ مصرع تھیں جن کی ہزاروں صورتوں سے تقطیع ہوتی تھی۔ ان کی براقی اور چمک بجلی کا اوج موج کھوتی تھی۔ جب لہریں آتی تھیں رنگ رنگ کے گل پھولتے تھے۔ وہ عجائبات دیکھ کر شعبدہ باز اپنے شعدبدے بھولتے تھے۔ جو لہر تھی سرخطِ نیرنگ دہر تھی، جو گرداب سپہر آثار تھا دائرۂ دور دِوار تھا۔ حبابوں کے ایک ایک نقطے میں سو سو دفتر تھے۔ وہ جام کرامت فرجام، جامِ جہاں نما سے بہتر تھے۔

بالجملہ عجائبات ایک عجیب بات یہ تھی کہ بہ سازِ ہوا عجب کیفیت ہویدا ہوتی تھی۔ ہر موج سے مانند تارِ قانون و رباب صدائے دل نواز پیدا ہوتی تھی۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس پردے میں ہزارہا پری زاد خوش گلو گا رہے ہیں۔ جن و انس ایک طرف مسجان ملأ اعلیٰ کو لبھا رہے ہیں۔

خورشید شاہ وہ صدائے دل کش سن کے ایسا محو ہوا کہ دنیا و مافیہا کا خیال نہ رہا۔ صبح سے شام ہوئی اور منزل شوق نہ تمام ہوئی۔ جب جُھٹ پٹا وقت آیا تو اور عجائبات کا اظہار ہوا۔ چار برج چاروں کونوں پر اور ایک برج وسط آب میں نمودار ہوا۔ جب یہ پانچ آفتاب نکل چکے تو چند ماہ نو طالع ہوئے یعنی کشتیاں ہلال وار ظاہر ہوئیں اور بہ کمال حس ترتیب برج صدر کے دور میں آ کر ٹھہریں۔ بعد تھوڑی دیر کے ایک للہ ابر ملیح کا اور ایک غول طائران صبیح کا نظر آیا۔ وہ ابر تو اس بُرج پر آ کر ٹھہر گیا اور ان طائروں نے تالاب

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 196

میں غوطہ لگایا۔

اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ جانور پردار نہ تھے، پریاں تھیں۔ آتے ہی چشمۂ اسرار میں نہائیں اور نکھر نکھر کر نکلیں۔ کشتیوں پر گئیں اور مصروفِ اہتمام ہوئیں۔ کنارے کے برجوں کو کھول کر دیکھا بھالا۔ بعضوں نے فرش و فروش، بعضوں نے شیشہ آلات نکالا۔ جلد جلد کشتیوں پر فرش مکلف کیا اور فی الفور ایک شامیانہ مرصع کار کھینچ دیا۔ جھاڑ جھابے سلیمانی لٹکا دیے۔ کنول آفتابی اور ماہ تابی لگا دیئے۔ فانوسیں رنگا رنگ، صف در صف چُن کر کہکشاں کو ماند کیا۔

بیچ میں ایک مسند مغرق بچھا دی اور چاروں کونوں پر ایک ایک گل دشتہ گل زار ارم کا لا کر رکھ دیا۔ بعد آراستگی تمام شیشہ آلات خود بخود روشن ہو گیا۔ طرفۃ العین میں وہ چشمۂ اسرار بہشت انجمن ہو گیا۔

وہ پُر نور چشمہ، وہ روشن حباب
وہ شمع تجلی ہر اک موج آب
ادھر شیشہ آلات کی روشنی
اِدھر پرتوِ ماہ کی چاندنی
وہ برجوں کی طلعت سفینوں کی ضو
کہیں آفتاب اور کہیں ماہ نو
مہ و مہر غیرت کے مارے چُھپے
یہ تارے جو نکلے ستارے چُھپے
نظر آئی جس دم یہ رونق یہ شان
لگا لوٹنے خاک پر آسمان

یہاں یہ کثرت نور و ضیاء ہوئی وہاں ایک بجلی چمک کر ابر سے جُدا ہوئی۔ وہ بجلی نہ تھی، تختِ جواہر نگار تھا۔ ایک شاہ زادہ لباس شاہانہ پہنے اس پر سوار تھا۔ وہ سریر فلک نظیر تو دیوؤں کے دوش پر تھا اور دیوؤں کے قدم ہوا کے دوش پر۔ باقی کئی سو دیو زاد جمشیدی بیرقیں ہاتھوں میں لیے آگے آگے اور خواص زریں کمر ادھر ادھر۔ وہ اورنگِ بساط رنگ بھی

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 197

بایں حشم و خدم انہیں کشتیوں پر آ کر اترا۔ جلو دار و خواص اپنے اپنے قرینے سے کھڑے ہوئے اور شاہ زادہ اتر کر مسند پر بیٹھا۔ بفوہ اجلاس پہلے آہستہ سے کچھ حکم دیا۔ پری زادوں نے اک نازنین مصیبت نشیں کو لا کر حاضر کیا اور مسند سے کچھ دور ایک عورت کو اُسی نازنین کی ہم صورت تھی لا کر بٹھا دیا۔ وہ نازنین بایں ہیئت کذائی آئی کہ گردن میں طوق، ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں، پاؤں میں بیڑیاں، چہرہ زرد، دل میں درد، کپڑے ملگجے، بال پریشاں، آنسو رواں۔ (نظم)

تھی وہ نازک بدن اس طرح گرفتارِ عذاب
جسطرح پھول ہو کانٹوں میں گہن میں مہتاب
ملگجا دیکھ کے اس غیرتِ گلشن کا لباس
اہل دل پڑھتے تھے یہ شعر بہ صد حسرت و یاس

اگرئی کا ہے گماں، شک ہے ملا گیری کا
رنگ لایا ہے ڈوپٹا ترا میلا ہو کر

عاشق تن کہتے تھے : "ہائے یہ عنفوان شباب اور یہ صعوبت، یہ مصیبت، یہ عذاب" اور زن سن رسیدہ اگرچہ بہ ظاہر بے سلسلۂ طوق و زنجیر تھی مگر بہ باطن اسی قید شدید میں گرفتار تھی اور اسی طرح اسیر تھی۔ وہ جہاں دیدہ، بہ نسبت اس نو عمر کے کچھ کہن سال تھی۔ فی المثل وہ ہلال تھی، یہ ماہ باکمال تھی۔ قیاس اس بات کا مقتضی تھا کہ وہ ماں ہے۔ یہ اس کی نور نگاہ ہے۔ یہ نامراد ہے، وہ ناشاد ہے۔ یہ ظلم رسیدہ ہے، وہ داد خواہ ہے۔ اس نے تو مسند کے کونے پر بیٹھ کر سر جھکا لیا اور اس نے کلیجہ ہاتھوں سے تھام کر رونا شروع کیا۔ جب محفل چیدہ ہو چکی تو خواص خاص کشتیاں شراب کی لائے اور طائفے ارباب نشاط کے مجرے کے لیے سامنے آئے۔ طبلے پر تھاپ پڑی، ساز نے دم سازی کی، صراحی نے قہقہہ لگایا۔ جام بادہِ ارغوانی گردش میں آیا۔ وہ مسند کا میر فرش بدمست ہو کر بے ہوش ہو گیا۔ اہل محفل کا بھی چراغ عقل خاموش ہو گیا۔ سوا ان دونوں مصیبت زدوں کے سب پر غفلت چھا گئی۔ اس طرح لوٹ پوٹ ہوئے گویا موت آ گئی۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 198

جب اس نازنین نے تمام محفل کو مردہ پایا تو زانوے ناکامی سے سر اٹھایا۔ ایک آہ کی اور آسمان کی طرف نگاہ کی۔ کہا : "او دشمن ننگ و ناموس، تیرے ستم کی بھی انتہا نہیں۔ آخر، اے ظالم، اس ظلم کی کچھ حد بھی ہے یا نہیں؟ او خانماں خراب، خوب خرابی میں پھنسا دیا۔ او بے شرم و بے حجاب، اچھا سلوک کیا۔ جسے مرد کی صورت سے نفرت ہو وہ یوں گرفتار مصیبت ہو۔ میں نے عقد کو بلا کا پھندا جانا۔ میں نے اپنی بیوہ ماں کا کہنا نہ مانا۔ میں تو آزاد تھی۔ دنیا کے عیش سے نامراد تھی۔ تو نے جو یہ آفت ڈھائی، کون سے دولت ہاتھ آئی؟ آج تک مخلصی کی امید میں صدمے سہے۔ ارے اب تو مہلت کی میعاد کے دو دن رہے۔ اب تو اس بدعت سے باز آ۔ للہ مجھ یتیم پر رحم کا۔ ایسا کوئی خدا کا بندہ آئے کہ مجھے اس موذی کے پنجے سے چھڑائے۔"

یہ کہہ کر جو وہ اسیر بلا آنکھوں میں آنسو بھر لائی، خوشید شاہ کے دل کو تاب نہ آئی۔ قریت تھا کہ آپ کو تالاب میں گرا دے اور اس نازنین مہ جبیں کو جا کر گلے سے لگا لے۔ جو اس حکیم نے دور سے اپنی جھلکی دکھائی اور ممانعت کے لیے گردن ہلائی۔ فی الفور کچھ زمین پر لکھا اور مائل پرواز ہوا۔ شاہ زادہ جو وہاں آیا تو یہ مضمون لکھا پایا کہ "خبردار، یہ تأمل کا مقام ہے۔ یہ ہوشیاری کا کام ہے۔ اے شہر یار، یہ سحر کا کارخانہ ہے۔ یہ ساحروں کا زمانہ ہے۔ آگاہ ہو کہ یہ نوجوان بادشاہ طلسم کا بیٹا ہے اور اس نازنین کے عشقم یں دیوانہ ہے۔ اس کا نام غضبان جادو ہے اور اس کے باپ کا نام ضربان جادو اور یہ دونوں عورتیں ماں بیٹیاں ہیں۔ اندر کے اکھاڑے کی مالک ہیں۔ پرستان کی حکمران ہیں۔ ماں کا نام گل بدن پری ہے اور بیٹی کا نام یاسمن پری۔ گل بدن پری بلقیس روزگار ہے۔ قاف کے پردۂ دوم کا اسے اختیار ہے۔ اؤجر جبنی اس کا شوہر وہاں کا بادشاہ تھا۔ بعد اپنے شوہر کے اس نے اس ریاست کا بند و بست کیا۔یاسمن پری کا حُسن شہرۂ آفاق ہوا۔ ہر شخص کو وصلت کا اشتیاق ہوا۔ غضبان کو بھی اس کے شوق نے بے تاب کیا۔ صدمۂ فراق نے بے خور و خواب کیا۔

"آخر جب کچھ نہ بن آیا تو بہ زور سحر ان دونوں کو اٹھا لایا۔ یاسمن اس کو خاطر میں نہ لائی۔ اس سبب سے یہ قید کی سختی اٹھائی۔ بہ ہزار فہمایش کچھ دنوں کی میعاد کی

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 199

ہے یعنی چھ مہینے کی مہلت لی ہے۔ اب اس حجت کا بھی اختتا ہے۔ بعد دو دن کے یہ معیاد بھی تمام ہے۔ مختصر یہ کہ غضبان خود بھی ساحر ہے اور اس کا باپ بھی ساحر ہے۔ یہ ملعون ناقبت بڑا ظالم ہے۔ بڑا جابر ہے۔ علاوہ لشکر کے کئی ہزار جادوگر اس کے ساتھ ہے۔ تمام قلم رو اس طلسم کی اس کے ہاتھ ہے۔ ایسا نہ ہو آپ کے قدم کی آہٹ پائے اور یہ مخبط و مبہوت ہوش میں آجئے۔ پھر کوئی تدبیر کام نہ آئے گی، مفت جان جائے گی۔

"اس کے قطع نظر، تالاب سے عبور دُشوار ہے۔ ہر موج اس کی نہنگ مردم خوار ہے۔ کیسا ہی آشنا ہے اس پانی سے ناآشنا ہے۔ قدم رکھنا اس زہر اب میں انسان کے لیے دلیل فنا ہے۔ وہ جو جنوبی بُرج ہے اس میں تشریف لے جائیے۔ ایک شیشہ آتش تر کا اور ایک کھڑاؤں کی جوڑی طاق میں رکھی ہے۔ اسے لے آئیے۔ وہ شیشہ آتش تر کا ہاتھ میں لیجیے اور وہ نعلین چوبی پہن کر تالاب سے عبور کیجیے۔ ان شاء اللہ قدم نہ تر ہو گا۔ بہت آسانی سے کشتیوں پر سے گزر ہو گا اور جس وقت کشتیوں پا جائیے تو ان بدمستوں کو بہ سزائے اعمال پہنچائیے۔ فوراً اس شیشے کی مُہر توڑیے۔ مُہر ٹوٹتے ہی وہ شراب جوش کھائے گی اور ڈاٹ اس کی خود بخود اڑ جائے گی۔

"جب یہ کیفیت ظاہر ہو تو وہ آب آتشیں ان سب پر چھڑک دیجیے مگر اس طرح کہ آپ پر چھینٹیں نہ آئیں اور ان دونوں پری زادوں سے بھی کہہ دیجیے کہ اپنی جانیں بچا کر دور ہٹ جائیں۔ جس پر ذرا بھی چھینٹ پر جائے گی، پھر بہ جُز خاکستر کے اس کی صورت نظر نہ آئے گی۔"

شاہ زادہ یہ قانون حکمت پڑھ کر پھرا اور اسی طرح کاربدن ہوا۔ کشتیوں پر پہنچتے ہی مُہر اس شیشے کی اٹھائی۔ مہر کیا اتھائی، ساحروں کے تن بدن میں آگ لگائی۔ وہ شیشہ آتشی شیشہ تھا اور وہ آب آتشیں اس کا عکس تھا۔ یا وہ شیشہ ابر تنک تھا اور وہ تیزاب صاعقۂ اژدر شعلہ بار ہوا۔ افعی کف اُگلنے پر تیار ہوا۔ ان چھینٹوں نے کار اخگر کیا۔ دم بھر میں ان سب کو جلا کر خاکستر کیا۔ زمین سے دھواں اٹھا اور اطراف و جوانب سے شور و فغاں۔ ایک غل ہوا : "جلایا، او شکنندۂ طلسم، جلایا۔ خوب گھات کی جگہ پائی۔ خوب وقت

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 200

ہاتھ آیا۔" جب دھواں کم ہوا تو وہ چشمہ نظر آیا نہ وہ بُرج نظر آئے۔ جابجا ہڈیوں کے ہار اور راکھ کے انبار پائے۔ فقط وہ دونوں عورتیں بچ رہیں اس واسطے کہ اس تقاطر سے دور تھیں۔ا ب نہ وہ رونق ہے نہ وہ شان ہے۔ جہاں تک نظر کام کرتی ہے چٹیل میدان ہے۔

یاسمن پری کہ اسیر طوق و زنجیر تھی اس کی قید خود بخود کٹ گئی۔ گل بدن پری نے شاہ زادے کو ہزارہا دعائیں دیں اور قریب آ کر سر سے پاؤں تک کی بلائیں لیں، کہا : "بچے، تو اپنی جوانی کا سُکھ دیکھے، رہتی دنیا تک سلامت رہے۔ الٰہی، سکندر کی حشمت نصیب، زمانے کا چین، زمانے کی رحت نصیب۔ واری کیا احسان کیا ہے۔ کیا وقت پر خبر لی ہے۔ ہم دونوں آفت زدوں کو تمہارے صدقے میں نجات ملی ہے۔" یاسمن نے کہا : ""یہ بھی اس کی قدرت کے کارخانے ہیں۔ کیا معلوم تھا، قسمت میں راہ چلتوں کے احسان اٹھانے ہیں۔ اچھا، یہ ہمارے میں چلیں۔ اس احسان کا انعام لیں۔ مثل مشہور ہے، خاطر سے خاطر ہے۔ دولت حشمت، ملک، مال سب حاضر ہے۔"

خورشید شاہ نے ہنس کر کہا : "کیوں نہ ہو۔ آپ امیر ہیں۔ یہاں غریب ہیں، محتاج ہیں، فقیر ہیں مگر جو فقیر ہمت کو نہیں ہارتے ہیں وہ سلطنت کو ٹھوکر مارتے ہیں۔ جو انعام کا طالب ہو اسے انعام دیجیے۔ بس بس، زیادہ امیری کی نہ لیجیے۔ دنیا ہیچ ہے۔ یہ طبیعت پر ٹھنی ہے۔ شاہ زادی صاحب، یہ فقیر بھی دل کا غنی ہے۔" وہ نازنین بولی : مجھے کسی کے دل کیا خبر ۔ ظہر میں آپ فقیر ہیں۔ باطن میں ماشاء اللہ ملک گیری کے ارادے ہیں۔ کیا حضور بھی کہیں کے شاہ زادے ہیں؟" گل بدن پری نے کہا : "ہائیں ہائیں، یہ کیا ہے؟ کچھ تجھے خبط ہوا ہے، سودا ہوا ہے۔ یہ صاحب زادہ تو ہمارا سرتاج ہے۔ خواہ فقیر ہے، خواہ تونگر ہے۔ اری دیوانی، جو اپنے اوپر احسان کرے وہ تمام دنیا کے بادشاہوں سے بہتر ہے۔" اور خورشید گوہر پوش سے مُڑ کر بولی : "میاں یہ دیوانی ہے۔ تم اپنے دل میں کچھ ملال نہ کرنا۔ سلامتی سے سمجھدار ہو۔ خدا کے لیے اس الڑھ کی باتوں پر خیال نہ کرنا۔ بلا لوں، تم نے وہ بات کی ہے کہ میں بھی لونڈی ہوں۔ یہ بھی تمہاری لونڈی ہے۔" پھر یاسمن بولی : "خدا نے ایک بردہ خریدنے والا بھیج دیا۔ اس شخص نے قید سے کیا چھڑایا، بن داموں مول لے لیا۔ اللہ کو یہ منظور تھا، کسی نہ کسی کا آنا ضرور تھا۔ یہ نہ آتے
 

شمشاد

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 206

کنندگان صحرائے تازہ مقالی، خیمۂ گردون مدار، اس حکایت ندرت نگار کو میدان بیان میں اس طرح برپا کرتے ہیں۔ الحاصل جب غضبان کے جہنم واصل ہونے کی خبر پہنچی تو قلعے میں عجیب طرح کی قیامت برپا ہوئی۔ تمام شہر مجلس ماتم ہو گیا۔ کارخانہ سلطنت درہم برہم ہو گیا۔ ساحروں کے منہ پر مردنی چھا گئی۔ بھولی ہوئی موت یاد آ گئی۔ ماتھوں سے سندور کے ٹیکے چھڑائے۔ نیل کے ٹیکے لگائے۔ گلوں سے گل مہندی کے ہار نکالے، نیلے پیلے گنڈے والے۔ سوگ کی نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ مندروں پر سے سرخ جھنڈیاں اتاریں، کالی نصب کیں۔ شور ناقوس نالۂ درد مند ہو گیا۔ نوبت ایک طرف، کالی کا دھونسا بھی بند ہو بیا۔ ٹھاکر دوارے والوں نے ڈورو کے بدلے ہاتھوں سے سینہ کوٹا۔ زندگی سے دست بردار ہوئے۔ پوجا سے جی چھوٹا۔ ایسے جھانجھ میں آئے کہ جھانجھے کا نام بھی زبان پر نہ لائے۔ قسمت کا بگاڑ دیکھ کر سُدھ بُدھ گئی۔ ہاتھ پاؤں پھولے، بھجن، گیان، ناچ رنگ سب بھولے، ضربان کا یہ عالم ہوا کہ زمانہ آنکھوں میں اندھیر ہو گیا۔ زیست سے تنگ اور جان سے سیر ہو گیا۔ آتش غیظ و غضب سے بھننے لگا، سر دھننے لگا۔ دل اور جگر دونوں جلنے لگے۔ منہ سے دھواں اور ہر بُن مُو سے شعلے نکلنے لگے۔ قصاص پسر کا ارادہ کیا۔ لشکر کی تیاری کا حکم دیا۔ پھر اپنی جگہ پر فکر کی کہ یہ کون شخص ہے جو تن تنہا یہاں آیا؟ نہ صعوباتِ طلسم سے ڈرا نہ اہالیان طلسم سے کچھ خوف کھایا۔

طرفۃ العین میں محفل کی محفل کا نقشہ بدل گیا۔ اس پر آنچ بھی نہ آئی اور تمام لشکر نواح طلسم کا جل بیا۔ ہو نہ ہو، یہ اس حکیم کا فسا دہے۔ قسمت کا پیچ ہے، تقدیر کی افتاد ہے۔ دیکھا چاہیے، انجام کیا ہوتا ہے؟ آنکھیں کیا روتی ہیں، دل بھی خود بخود روتا ہے۔ یہ سوچ کر کہا : "ہاں، ہماری پوجا کا تھیلا لاؤ۔ اگیاری کرو، گوگل سلگاؤ۔" جب تھیلا آیا تو ایک مردے کی کھوپڑی نکالی اور اس کے جوف میں شراب ڈالی۔ اس کے ماتھے پر ایک سیندور کا ٹیکا لگایا اور جنتر منتر پڑھ کر کچھ بڑبڑایا۔ دفعتاً وہ کھوپڑی گویا ہوئی۔ ادھر اس نے آواز دی، ادھر اس نے آواز دی۔ کہا : "اے ضربان، ہوشیار ہو۔ رحلت پر کم باندھ، کوچ پر تیار ہو۔ طلسم کشا آ گیا۔ حکیم رہائی پا گیا۔ ایک کی بنتی ہے، ایک کی بگڑتی ہے۔ دنیا کا یہی کارخانہ ہے۔ اب اہل اسلام کی عمل داری کا زمانہ ہے۔ آخر مرنا ہے، اول مرنا ہے۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 207

پھر بے فائدہ پس و پیش کرنا ہے۔ اگر معرکے سے قدم نہ ہٹائے گا آبرو رہ جائے گی، نام رہ جائے گا ورنہ ذلت و خواری سے جان جائے گی۔ کوئی حسرت دل کی نکلنے نہپائے گی۔" وہ گطریہ فال دیکھ کر اتھا اور مشیروں سے کہا : "ابھی فوج کی تیاری موقوف رکھو۔ دو ایک دن توقف کرو۔ میں ذرا کوہان کے پاس جاتا ہوں۔ اسے بھی اپنی کمک کے واسطے لاتا ہوں۔" کوہان اس کا بڑا بھائی ہے۔ جبال شمال کی سلطنت اس کے ہاتھ آئی ہے۔ یہ سفلہ عمل سفلی میں غضب رہے اس کے سامنے سامری بھی طفل مکتب ہے۔

المختصر ضربان کوہان کے پاس گیا۔ یہاں فوج بے سر کی ہوئی۔ قلعہ بھی خالی ہوا۔ یہ خبر محبوسان طلسم نے بھی پائی۔ سنتے ہی جان میں ایک جان سی آئی۔ اب ان کی کیفیت سنیے کہ یہ تینوں غریب ایک ہی جگہ محبوس تھے۔ جان سے بیزار اور زندگی سے مایوس تھے۔ ضربان ملکہ مہ جبیں کا خوستگار تھا۔ ادھر سے اصرار اور ادھر سے انکار تھا۔ملکہ اسے آج کل پر ٹالتی تھی۔ آرے بلے میں اپنا مطلب نکالتی تھی اور ضربان کی دونوں بیٹیوں گلستان جادو اور ریحان جادو کی قمر طلعت اورو سیار سے آنکھ لڑی تھی۔ غرض ہر شخص کو اپنی اپنی فکر تھی، اپنی اپنی پڑی تھی۔ یہی اس اسیروں کی زندگی کا سبب تھا۔ نہیں تو کب کا فیصلہ ہو گیا ہوتا۔ جب ان غریبوں نے یہ مژدہ پایا تو کچھ کچھ دل کو قرار آیا۔ قمر طلعت نے ملکہ سے کہا : "کچھ آپ نے سنا؟ طلسم کُشا آ پہنچا۔" وہ ازرہ تجاہل بولی : "کون طلسم کُشا؟" یہ بولا : "میرا مالک و مختار۔ میرا آقا۔" اس نے ہنس کر کہا : "خوب پتے بتاتا ہے۔ تُو تو پہیلی بجھواتا ہے۔" قمر طلعت نے کہا : "اے حضور، خورشید گوہر پوش آ پہنچا۔ آفتاب اُفق مراد سے طالع ہوا۔" ملکہ بولی : "تیرے منہ میں گھی شکر۔ شُکر کر بھائی، شُکر کر۔" وہ بولا : "اب تو طبیعت بے اختیار ہے۔ دل پُر اضطراب نہایت بے قرار ہے۔ جی چاہتا ہے جس طرح سے ہو وہاں تک جائیے اور اپنے ولی نعمت کو ایک نظر دیکھ آئیے۔" یہ کہہ کر قمر طلعت اور سیار دونوں اٹھے اور گلستان جادو اور ریحان جادو کے پاس گئے۔ گلستان جادو نے جو قمر طلعت کو آتے دیکھا، بے تاب ہو کر یہ شعر پڑھت :

بیا بیا کہ تراتنگ درکنار کشم
بہ تنگ آمدہ ام چند انتظار کشم

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 208

ریحان کو بھی جذب خاطر نے بے حجاب کیا۔ بے ساختہ سیار کی طرف دیکھ کر یوں خطاب کیا

رواق منظر چشم من آشیانۂ تست
کرم نما و ضردد آ کہ خانہ خانۂ تست

قمر طلعت نے جاتے ہی گلستان جادو کے منہ پر منہ رکھ دیا اور خوب دبوچ دبوچ کر پیار کیا۔ ریحان نے جو یہ کیفیت دیکھی سیار کا ہاتھ پکڑ کر دوسرے کمرے میں جا بیٹھی۔ گلستان جادو بولی : "کیا میرے چوندے پر مہربانی ہے، آج تو، ماشاء اللہ، طبیعت کو بہت جولانی ہے۔ اس پیار میں کوئی نہ کوئی مطلب ہے۔ اس اختلاط کا کچھ نہ کچھ سبب ہے۔ جو فرمانا ہو فرمائیے۔ بس زیادہ اخلاص نہ بتائیے۔" قمر طلعت نے کہا : "مانو تو کہیں۔ نہیں کیا ضرور ہے۔ دم بخود رہیں۔" وہ بولی : "نہیں، کہیے خدا کے لیے چپ نہ رہیے۔" یہ بولا : "سنو، اگر تم کو مجھ سے الفت ہے تو مجھے بھی تم سے محبت ہے۔ بقول رند :

بحمد اللہ محبت دونوں جانب سے برابر ہے
ہم ان پر جان دیتے ہیں تو وہ ہم پہ مرتے ہیں

وصلت کی آرزو میں تم بھی بے قرار تھیں۔ میں بھی مضطر تھا۔ مجبوری یہ تھی کہ ایک موذی کا خوف تھا۔ ایک ظالم کا ڈر تھا۔ اگر وہ کافر ذرا بھی سن لیتا تو ہمیں تمھیں دونوں کو دار پر کھینچ دیتا۔ حق یہ ہے کہ ان کافروں سے مسلمان اچھے۔ انسان چشم انصاف سے دیکھے، وہاں لڑکی کے ایجاب و قبول پر دار و مدار ہے۔ یہاں ماں باپ کے جبر و ظلم پر اجرائے کار ہے۔ بردہ فروشوں کی گرم بازاری ہے۔ دلالوں کی زبان سے سودا جاری ہے۔ کاش تم بھی آج اہل اسلام سے ہوتیں تو کاہے کو اپنے نصیبوں کو روتیں۔ لعنت اس دین پر، تف اس آئین پر۔ خیر، اب سنت پر قائم ہو۔ مسلمانوں کی مسلمانی کا کلمہ پڑھو۔" وہ بولی : "انہیں باتوں سے میری طبیعت جھلاتی ہے۔ مطلب کی بات میں بھی نگوڑی نوک جھوک چلی جاتی ہے۔ تمہیں سنت پر قائم ہو۔ تمہیں مسلمانی پر بیٹھے رہو۔ بندی کافر سہی۔ چلو اسی بہانے عصمت رہی۔" یہ بولا : "خیر، جانے دیجیے، مطلب کی بات سنیے۔ غصہ نہ کیجیے۔ لو، میدان خالی ہے۔ نکل چلنا ہے تو نکل چلو۔ صلاح وقت یہی ہے کہ اب یہاں دم بھر دم نہ لو۔" وہ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 209

میں تو مدت سے اسی فکرمیں ہوں مگر چلوں تو کہاں چلوں؟ کوئی حامی ہے نہ مددگار ہے۔ نکل چلنا سہل ہے مگر اس موذی کے ہاتھ سے بچنا دشوار ہے۔" یہ بولا : "فصل معبود ہے۔ حامی بھی موجود ہے۔ تم نے نہیں سُنا، کھولنے والا اس طلسم کا آ پہنچا۔ دیکھو تو وہ بہادر اس موذی کو کیسا ٹھیک بناتا ہے۔ اب یہ ظالم بچ کر کہاں جاتا ہے۔ میدان تمہارے ہاتھ ہے۔ اب نہ ہاتھ ملو، چلو، اس صاحبقران کے دامن میں چل کر پناہ لو۔ بندے کو اس سے علاقہ ہے۔ وہ اولوالعزم میرا آقا ہے۔ جس وقت یہ معلوم ہوا کہ یہ میرے رفیق کی معشق ہے تو کمال خاطر داری سے پیش آئے گا۔ جب وہ خلق و مدارات دیکھو گی تو ہمارے کہنے کا حال کھل جائے گا۔ اس میں دو فائدے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مدت العمر ہمارے تمہارے جدائی نہ ہو گی۔ جہاں ہم رہیں گے تم بھی ہمیشہ وہیں رہو گی۔ دوسرے یہ کہ اس مملکت پر تباہی نہ آئے گی۔ جب وہ کافر مارا جائے گا تو یہ سلطنت تمہیں مل جائے گی۔ سُنو، صاحب، ملک گیری میں کیسا باپ، کیسا بھائی! بے خون ریزی ریاست کسے ہاتھ آئی۔ بے ملک و مال وصل وصال کا کیا مزا؟ بے اختیاری اور محتاجی کہ نہ شادی اچھی نہ بیاہ اچھا۔ ہائےدولت عجیب چیز ہے۔ اس کے سامنے کوئی دوست ہے نہ کوئی عزیز ہے۔ اس پر پیڑو کی آنچ، پھر کیا سات پانچ۔"

گلستان جادو نے کہا : "بہتر، آپ کا حکم مریے سر آنکھوں پر۔" چھوٹی بہن کر بلا کر اس سے بھی یہ مشورہ کیا۔ اسے سیار نے بھر رکھا تھا۔ وہ بولی : "میری بھی یہی صلاح ہے۔ اب اسی میں فلاح ہے۔" یہ سن کے اس نے ان دونوں سے کہا کہ: "تم اپنی جگہ پر چلو، میں ذرا لشکر کی خبر لوں۔ کچھ سامان سفر اور بندوبست ضروری کر لوں۔" یہ کہا اور فوج میں جا کر تین سو ساحر بچیاں چنیں اور باغ سبز دکھا کر ان سب سے اپنی رفاقت کی قسمیں لیں۔ ان سب نے بالاتفاق عہد و پیمان کیا اور اپنی اپنی وفاداری کا بیان کیا۔ وہاں سے کوٹھوں میں آئی۔ عمدہ عمدہ جواہر اور حسب دل خواہ نقد و جنس نکال لائی۔ اشرفیاں تو ساحر بچیوں کو بندھوا دیں اور جواہرات کی تھیلیاں اپنے پاس رکھیں۔

قلعے کے باہر ایک درخت تھا کہ نام اس کا نخل مراد تھا۔ اس میں یہ طلسم تھا اور یہ ایجاد تھا کہ جو اہل حاجت وہاں جاتا تھا اس کے سوال کے موافق وہاں سے جواب آتا تھا۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 210

اس نے اس بات کی شہرت دی کہ میں وہاں جاؤں گی۔ آج آئی تو آئی۔ نہیں، کل آؤں گی۔ غرض یہ خبر اڑائی اور وہ جمات لیے قمر طلعت کے پاس آئی۔ اشارے سے کہا : "لیجیے اب نہ توقف کیجیے۔" سیار نے جو یہ رنگ دیکھا اور اس حال کا مشاہدہ کیا، روغن عیاری اپنے منہ بھی مل لہا اور قمر طلعت اور ملکہ کے منہ پر بھی مل دیا۔ اب یہ لوگ بھی اسی جماعت میں شامل ہو گئے۔ امردوں کی صورت بنا کر امروں میں داخل ہو گئے۔ لباس بہ مقتضائے وقت گلستان جادو نے منگوا دیا۔ وہ رخت ہر ایک نیک بخت نے زیب بدن کیا۔

جب سب درستی ہو چکی تو ہر متنفس کے لیے سواری کی تجویز ہوئی۔ وہاں تو سحر کاری تھی۔ ہوا کی سواری تھی۔ پونیں تو لوگوں کے سروں پر سوار ہوتی ہیں۔ یہ زبردستیں پونوں پر سوار ہوئیَ ایک تو آفت روزگار تھیں، اس ہیبت و ہیئت سے اور آفت روزگار ہوئیَ ہاتھوں میں تاش بادلے کی جھنڈیاں، شیر، چیتے، گینڈے، بارہ سنگھے زیر ران۔ کسی کے ہاتھ میں سانپ کا کوڑا، کسی کے پاؤں میں راجہ باسک کے پاؤں کا توڑا۔ کوئی پھول یے، کوئی ترسول لیے۔ کسی کے ہاتھ میں سانگ، کسی کے ہاتھ میں ننگی تلوار۔ کوئی شراب کی بوتل لیے سرمت و سرشار۔ کسی کے پاس تیر و کمان، کسی کے پاس کالی کا نشان۔ گلوں میں مونگے کی مالائیں۔ کانوں میں کنڈل۔ وہ صندل کے قشقے، وہ دھواں دھار کاجل۔ مانگ میں سیندور کی تحریر جیسے خوں چکاں شمشیر۔ کمر میں بچھوے لگائے، اکیس اکیس پان کے بیڑے کھائے۔ غرض سب اپنے کیل کانٹے سے درست۔ وہ پھنسے پھنسے شلوکے وہ گاتیاں چُست چُست۔ ملکہ اور قمر طلعت اور سیار بھی انہین جادو کار باد پاؤں پر سوار ہو کر چلے۔ غاشیہ برداروں نے ہوا کو اشارہکیا کہ آ، ان راہ داروں کے قدم لے۔

غرض اڑ چلے وہ سمند ہوا
کھلا یک بیک سینہ بند ہوا
یہ خود رو ادائیں دکھاتی چلیں
فلک کو جھلاوے بتاتی چلیں
کوئی سنگ سے گل کھلانے لگی
کوئی تیغ عریاں ہلانے لگی

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 211

کسی نے لگایا ہوائی خدنگ
کوئی نے بچانے لگی کوئی چنگ
کوئی بن کے شعلہ شرر بار تھی
کوئی نور تھی اور کوئی نار تھی

خورشید گوہر پوش نے جو آسمان کی طرف آنکھ اٹھائی تو قلعے کی فصیل پر بجلی کوندتی نظر آئی۔ سمجھا کہ یہ فوج ضربان کی فوج ہے اور یہ موج طوفان کی موج ہے۔ یہ فوج ہوا کے گھوڑے پر سوار آتی ہے بلکہ ہوا بھی پیچھے رہی جاتی ہے۔ عیاذا باللہ کیا سحر کابل ہے۔ اس ساحروں کا تو زمین سے آسمان تک عمل ہے۔ سوار درندوں پر سوار ہیں اور درندے عجب درندے ہیں کہ پردار ہیں۔ یہاں ابھی تک نہ حکیم صاھب تشریف لائے ہیں نہ ملک زرنگار اور پردۂ قاف کے لوگ آئے۔

دیکھا چاہیے کیا گزرتی ہے؟ خدا ان بلاؤں سے جان بچائے۔ یہ کہہ کر ایک گنڈلا کھینچا اور یاسمن کو لے کر اس حصار میں جا بیٹھا۔ وہاں وہ موج آتے آتے اس صحرا کے کنارتے تک آ گئی اور وہ بدلی فصل بہار کی تمام جنگل میں چھا گئی۔ وہ ساحر بچیاں جے جے کرتی ہوئی اتریں اور طلسم کشا کو جویا ہوئیں۔ گویا تصویریں چین کی اور پتلیاں فرنگ کی گویا ہوئیں۔ قمر طلعت اور سیار نے آ کر شاہ زادے کو تسلیم کی اور متبسم ہو کر یہ بات کہی : "خداوند نعمت کچھ تردد نہ فرمائے۔ حصار سے باہر تشریف لائیے۔"

خورشید گوہر پوش دونو رفیقوں کو دیکھ کر حصار سے باہر آیا ور ایک ایک یار وفادار کو گلے سے لگایا۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ "حضور کے اقبال سے ملکہ صاحب بھی تشریف لائیں۔ خانہ زاد بھی آئے اور دو لونڈیاں بھی بایں جلوس خدمت کے لیے ساتھ لائے۔ یہ دونوں والیٔ طلسم کی نورِ نگاہ ہیں بلکہ بجائے خود بادشاہ ہیں۔ علم نیر نجات کی بھی عامل ہیں۔ فن آبائی میں بھی کامل ہیں۔ صاحب دل ہیں۔ جوہر قابل ہیں معشوق صورت ہیں۔ عاشق تن ہیں۔ حضور کے دوستوں کی دوست ہیں اور دشمنوں کی دشمن ہیں۔"

شاہ زادے نے کہا : "یہ کہیے، حسن و عشق کی سحر سازی ہے۔ یہ تم دونوں صاحبوں کی کار پردازی ہے۔ لو، میرے معشوق کو تو مجھے دکھاؤ۔ ذرا اس جان جہاں کو تو

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 212

یہاں تک لاؤ۔" سیار بولا : "حضور نے تو یہاں اور ہی کچھ طلسم کیا ہے۔ شاید ملکہ صاحب نے یہ رنگ دیکھ لیا ہے۔ اب آپ ہی جائیں، بگڑی بات بنائیں۔ " خورشید گوہر پوش نے کہا : "اچھا، ہمیں جائیں گے۔ روٹھے ہوؤں کو منا لائیں گے۔" القصہ رفیقوں کو ساتھ لیا اور لشکر نووارد کی جانب رُخ کیا۔ قمر طلعت اور سیار نے گلستان جادو اور ریحان جادو کو چشمک کی کہ : "جلد آؤ۔ حضور تشریف لاتے ہیں۔ دیکھتی کیا ہو؟ نذریں دکھاؤ۔" ان دونوں نے بڑھکر نذریں دیں۔

شاہ زادے نے ہاتھ رکھ دیا۔ آخر بہ ہزار اصرار قبول کیں۔ فرمایا : "تم دونوں صاحبوں نے مہمان نوازی کی۔ مروت اور آدمیت کی داد دی۔ میرے رفیقوں سے بہ محبت پیش آئیں۔ رسوم خاطر داری بجا لائیں۔ ان غریبوں کی راحت کا سامان کیا۔ گویا یہ مجھ پر احسان کیا۔" ان دونوں نے عرض کی : "حضور لونڈیوں کی عزت بڑھاتے ہیں جو از راہ کنیز نوازی ایسا ارشاد فرماتے ہیں۔ سبحان اللہ جیسا سُنا تھا اس سے زیادہ پایا۔ اللہ ان قدموں کے تلے لایا۔" اسی طرح نذریں سلام لیتا ہوا اس طرف پہنچا جس طرف ملکہ مہ جبیں تھی۔ اس آئینہ رُخسار نے جو اس محو دیدار کو آتے دیکھا پیٹھ پھیر لی۔

خورشید گوہر پوش نے سامنے جا کر کہا : "ذرا گردن اٹھائیے۔ آپ ہی آپ نہ روٹھیے۔ ناحق ناحق جلال میں نہ آئیے۔ جب خدا کے فضل سے بن آئی تو اپنی بگڑی صورت بنائی۔" وہ بولی : "بس بس زبان کو تکلیف نہ دیجیے۔ جو اختلاط کے قابل ہو اس سے اختلاط کیجیے۔ سچ ہے، اس بگاڑ میں آپ کی بن آئی۔ ایک جڑ کھودی، دوسری نیو جمائی۔ دیکھئے، بنی ہوئی بات بگڑ نہ جائے۔ کہیں کارخانۂ عیاشی میں فتور نہ آئے۔ جاؤ، صاحب، کوئی ناراض نہ ہو۔ جس میں فساد ہو وہ بات نہ کہو۔ کسی پری کو جا کر شیشے میں اتارو۔ میں اس نوازش سے درگزری۔ سدھارو، بس سدھارو۔ مثل مشہور ہے۔ آنکھ ہوئی چار، دل میں آیا پیار، آنکھ ہوئی اوٹ، دل میں پڑی کھوٹ۔"

خورشید گوہر پوش نے کہا : "ہائے ری رکھائی، اللہ ری کج ادائی۔ بڑی بدگمان ہو۔ کتنی نادان ہو۔ مجھے عیاشی منظور ہوتی تو یہ مصیبت کیوں اٹھاتا۔ عیش سے غرض ہوتی تو اس آفت میں پھنسنے آتا۔ سبحان اللہ، خوب انعام دیا۔ واہ واہ، صاحب، اچھا انصاف کیا۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 213

اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب میں اس نواح میں آیا تو اس کو اور اس کی ماں کو گرفتار بلا پایا۔ ہاں اتنا قصور وار ہوں کہ ان بے چاریوں پر ترس کھایا ہے۔ دو اللہ کے بندوں کو قید سے چھڑایا ہے۔ ماں اس کی کمک لینے کے واسطے اپنے گھر گئی۔ اس غریب کو میرے سپرد کر گئی۔" ملکہ بولی : "جی یہ آپ کی خوش وقتی اور خوش حالی، بہ قول شخصے، چوٹی کُتیا اور جلیبیوں کی رکھوالی۔ حضور بڑے امین ہیں۔ ہرگز امانت میں خیانت نہ کی ہو گی اور وہ نیک بخت بھی اپنی عصمت لیے بیٹھی رہی ہو گک۔ بھلا کوئی بات ہے۔ عورت کا دامن اور مرد کا ہاتھ۔ معاذ اللہ، آگ اور پُھوس کا ساتھ۔"

شاہ زادے نے کہا : "میں حلف اٹھاتا ہوں۔ اس امر کی قسم کھاتا ہوں۔" وہ بولی "میں بھی مسئلے مسائل جانتی ہوں۔ ایسی جھوٹی قسموں کو کب مانتی ہوں۔ ایسے محل میں قسم کا کفارہ نہیں۔" یہ بولے : " پھر اب کوئی چارہ نہیں۔" گلستان جادو نے ملکہ کے کان میں جھک کر کہا : "بس حضور، اتنا لحاظ بھی بہت ہے۔ اگر یہ بھی جاتا رہا تو کیا لطف رہا؟ آپ تو، اللہ رکھے، ہوشیار ہیں۔ سلامتی سے سمجھدار ہیں۔ بیبیاں خاوندوں اور خاوند بیبیوں سے ڈرتے ہیں۔ بعضے موقع پر جان بوجھ کر درگزر کرتے ہیں۔ بہت سی ایسی شفتلیں آتیں ہیں۔ پھر کیا بی بی کے برابر ہو جاتی ہیں؟ خدا نہ کرے، اگر ایسا بھی ہو تو اس کا یہ وقت نہیں ہے۔ ابھی خاموش رہو۔ نگوڑی لڑائی جھگڑے پر خاک ڈالو۔ چلو، ہو چکا۔ اب یہ تمہیں منا لیں، تم انہیں منا لو۔" ملکہ بھی کچھ سمجھی، آنکھیں جھکا کر چپکی ہو رہی مگر اتنی بات کہی کہ : "ان سے کہہ دو۔ اسے میرے سامنے نہ لائیں۔ خیر، جھوٹ ہے یا سچ ہے اب سے باز آئیں۔"

گلستان جادو بولی : "بہت اچھا۔ جیسا حضور نے فرمایا ایسا ہی ہو گا۔" غرض اس جادو بیان نےسحر کا کام کیا۔ دو ہی انچھروں میں عاشق و معشوق کو ملا دیا۔ ریحان جادو نے بڑی بہن سے کہا : "باجی اماں، بڑا دھوکا کھایا۔ فراش خانے کا کچھ اسباب ساتھ نہ آیا۔ سُنتی ہوں کہ ابھی اور فوجیں آئیں گی۔ پھر کیا اس جنگل میں چادریں تانی جائیں گی؟" گلستان جادو بولی : "چلتے وقت کسی نے یہ بات نہ کہی۔ ہاں، بوا، سچ ہے بڑی چال رہی۔" ایک ساحر بچی بولی : "وہ جو کوہِ فیروزی کا سوانا ہے اس کے در بند میں جمشیدی فراش خانہ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 214

ہے۔ حکم ہو تو وہاں جائیں۔ خیمے، بے چوبے، مارکیاں، قناتیں لے آئیں۔"

گلستان جادو نے کہا : "اس کا پوچھنا کیا؟ جاؤ جو کچھ اسباب ضرور سمجھو، لے آؤ۔" یہ سن کے ساحر بچیوں نے کارگزاریاں دکھائیں جن چار پاؤں پر سوار ہو کر آئیں تھیں تنہیں پر اسباب ضرورت لاد لائیں۔ دم بھر میں بارگاہ شاہانہ استاد ہو گئی۔ اُجڑی بستی آباد ہو گئی۔ وہ سرا چوں کا اوج، وہ طنابوں کی موج۔ وہ سائر کی قناتوں کا دور دور۔ وہ سنہرے رُو پہلے قبوں میں چاند سورت کا طور۔ کہیں سلطانی بانات رنگ لائی۔ کہیں کاشانی مخمل سے بہار آئی۔

ہوئیں جب یہ رواداریاں آشکار
اٹھایا زمیں نے سر افتخار
کیا عامل چرخ سے یوں خطاب
کہ لے دیکھ یہ اوج ہے لا جواب
ترے چاند سورج بھی اب ماند ہیں
وہاں اک یہاں سیکڑوں چاند ہیں

صدر کی بارگاہ میں ملکہ مہ جبیں اور خورشید شاہ کا نزول اجلال ہوا۔ دیکھنے والوں کو قرآن ماہ و مشتری کا خیالہوا۔ پہلوؤں کے خیموں میں قمر طلعت اور گلستان جادو سیار اور ریحان جادو کی منزل ہوئی اور لشکری مارکیوں میں فوج ہم راہی داخل ہوئی۔ خورشید گوہر پوش نے گلستان جادو سے کہا : "چاسمن بھی بڑی جھلی ہے۔ اسے بھی سمجھاؤ۔ جس طرح سے ہو، کسی خیمے میں لے جا کر بٹھاؤ اور اپنی انیسوں میں سے دو ایک کو اس کے پاس رکھ دو کہ وحشت تنہائی سے پریشان خاطر نہ ہو۔" گلستان جادو یاسمن کو بھی کہہ سن کے خیمے میں لے گئی اور بہت سی تسلی اور تشفی کی۔ دو چار ساحر بچیاں خوش مذاق اور ادب شناس ملکہ کے پاس بھیج دیں اور دو چار یاسمن کے پاس بھیج دیں۔ کچھ اپنی مصاجھ میں رکھیں۔ کچھ چوکی پہرے پر مقرر کیں۔ سوائے یاسمن کے سب نے وہ رات بہ عیش و عشرت بسر کی۔ صبح کو مقدمۃ الجیش چرخ چہارم نے آمد لشکر کی خبر کی۔

ادھر سلطان خاور علم زرفشاں لیے مشرق سے برآمد ہوا، ادھر ملک زرنگار اور

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 215

پردۂ قاف کی فوجوں کا شورِ آمد آمد ہوا۔ صدائے سم اسپاں بلند ہوئی۔ زمین نعلوں کے عکس سے آئین بند ہوئی۔ ڈنکوں کے گرجنے سے گردوں دہلنے لگا۔ بہرام گور گور میں کروٹیں بدلنے لگا۔ پھر پرے نشانوں کے ہوا پر لہراتے نظر آئے۔ نیزوں کی نوکوں نے شعاع آفتاب کے جلوے دکھائے۔ سوار زرہ بکتر پہنے، چار آئینے لگائے، باگیں لیے، پٹریاں جمائے، ہزار در ہزار بے حساب و بے شمار، نیزہ بہ نیزہ، سپر برسپر، کچھ ہوا پر کچھ زمین پر (نظم)

وہ فوجیں وہ لشکر وہ حشمت وہ اوج
کہ جس طرح ہو موج بالائے موج
محیط جہاں حکم میں غرب و شرق
یہ دریا وہ بادل یہ طوفاں وہ برق
وہ غازی شجاعت کا جن پر وثوق
قشوں در قشوں صف بہ صف جوق جوق

اس لشکر کے ہالے میں ایک تاج دار آفتاب جمال اور اس فوج کے دور میں ایک نقاب دار مشتری خصال۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ دل ہے، وہ جان ہے۔ اس لشکر کی اس سے اور اس فوج کی اس سے شان ہے۔ آگے آگے زنبور کوں والے، پیچھے پیچھے سواروں کے رسالے۔ سانڈنیاں زین چڑھی ہوئیں۔ راہواروں صبا رفتار سے بھی چند قدم آگے بڑھی ہوئیں۔ پہلے حکیم صاحب اپنے جماعت لیے ہوئے آئے اور کہا : "لیجیے، اے صاحب قرآن، اب اطمینان خاطر ہے۔ ملک زرنگار اور پردۂ قاف کی فوج حاضر ہے۔ یہ جو مثل سیلاب ہے یہ زرنگار کی فوج دریا موج ہے اور وہ جو مانند سحاب ہے وہ قاف کا لشکر عرش اوج ہے۔ یاقوت شاہ بیٹی داماد کی مفارقت میں لب گور تھا۔ میں نے جو یہ مژدہ دیا تو زندہ ہو گیا۔ محبت اس کو کہتے ہیں۔ دم بھر کی تاب نہ لایا۔ بہ خیال تعجیل فقط سوار آزمودہ کار ساتھ لے کر سوار ہو آیا۔ مگر یہ تو کہیے یہ سامان اور جلوس کیسا ہے؟ یہ مضمون کیا ہے؟ یہ معما کیا ہے؟" خورشید گوہر پوش بولا : "قمر طلعت اور سیار کے ساتھ بادشاہ طلسم کی دونوں بیٹیاں نکل آئی ہیں۔ یہ جلوس اور یہ جمعیت وہ دونوں فتنۂ روزگار لائی ہیں۔" حکیم

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 216

صاحب بولے "ملکہ مہ جبیں بھی آئی؟" کہا : "ہاں، اس نے بھی رہائی پائی۔"

الحاصل جب وہ لشکر نزدیک آیا اور وہ فوج قریب پہنچی خورشید گوہر پوش نے رفیقوں کو ساتھ لے کر بہ قصد استقبال سبقت کی۔ یاقوت شاہ نے خورشید گوہر پوش کو آتے دیکھ کر آواز دی کہ "بس، جوانو، باگیں روکو۔ شاباش بڑا کام کیا، بہت جلد منزل کو تمام کیا۔ لو، گھوڑوں سے اترو، آرام کرو۔" یہ سن کے غازیوں نے رکابوں سے قدم نکالے۔ سئیوں نے دوڑ کر راہوار سنبھالے۔ بادشاہ بھی اترا، سوار بھی اتر اتر کر آنے لگے۔ چاکر گھوڑے ٹہلانے لگے۔ نوبتی داخلے کا طبل بجانے لگے۔ گل بدن پری نے بھی اپنے ہمراہیوں کو ٹھہرایا۔ جنوں کا لشکر بھی ہوا سے زمین پر آیا۔ خورشید گوہر پوش نے یاقوت شاہ کو سلام کیا۔ اس نے دوڑ کر چھاتی سے لگایا۔ کہا : "بڑے رنج اٹھائے۔ بڑی کڑیاں جھیل کر آئے۔ واہ، واہ اے بہادر، واہ وا : (ع)

ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند

مرحبا صد مرحبا! "غرض خورشید گوہر پوش یاقوت شاہ کو خیمے میں لے گیا۔ باپ بیٹی کو دیکھ کر اور زیادہ خوش ہوا۔ لشکر کی چھاؤنی میدان میں ہوئی گل بدن پری یاسمن کے خیمے میں جا کر اتری۔ ہنوز یاروں نے بستر نہ لگائے تھے کہ لشکر مخالف نے سیاہا دکھایا۔ بجائے گرد و غبار دھویں کا ایک بادل نظر آیا۔ وہ کالی آندھی تھی یا سپاہ تھی۔ اس وقت آسمان کی طرح زمین بھی سیاہ تھی۔ وہ نیرنگی دلیل نیز نجات ہو گئی۔ صبح شام ہو گئی۔ دن کی رات ہو گئی۔ ناواقف حیران ہوئے۔ نادانستہ پریشان ہوئے۔ کوئی بولا : "اندھیر ہے، قسمت کی گردش ہے۔ مقدر کا پھیر ہے۔ اب تو فکر عاجز ہے، ذہن گُند ہے۔ یہ دھواں ہے یا ابر تند ہے۔ بجلی کوندتی ہے، رعد گڑگڑاتا ہے۔ ہوا کا شور ہے یا کوئی دیوانہ بیڑیاں کھڑکھڑاتا ہے۔" کسی نے کہا : "یہ آندھی نمونۂ قیامت ہے۔" حکیم صاحب نے کہا : "نہیں، یہ مدعی کے لشکر کی علامت ہے۔" آخر ہوا کو پردہ دری منظور ہوئی۔ قریب آ کر وہ سیاہی دور ہوئی۔ دیکھا کہ جمعیت کثیر اور جمع غفیر یعنی ایک لشکر منحوس پیکر کالی کالی وردیاں پہنے سرگرم روا رو ہے۔ سواد عدم کی جستجو میں ووڑ دھوپ ہے۔ جہنم میں جانے کی تگ و دو ہے۔ سپاہ مورو ملخ کی سپاہ ہے۔ کوسوں تک بہیر و بُن گاہ ہے۔ پیدل مطلق العنان، سوار چرغ اور

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 217

گینڈوں پر سوار ہیں۔ وہ سوار خرِ بے دُم ہیں۔ وہ راہوار شُتر بے مہار ہیں۔ ایک طرف ساحروں کا غول جیسے غول بیابانی، تیرہ رو، پیچیدہ مُکوتہ گردن، تنگ پیشانی۔ تن بدن میں بھبھوت، بد مست و مبہوت۔ کھاروں کی لنگیاں باندھے، سیندور کے ٹیکے لگائے، اگھوریوں کی صورت بنائے، ہڈیوں کے مالے گلوں میں ڈالے، ٹھرا شراب پیے، ہاتھوں میں مُرودوں کی کھوپڑیاں لیے سوار اور بھینسے سواری میں، شیطانی جلو داری میں۔ ایک طرف ساحر گروہ گروہ، ایک طرف سپاہی صف بہ صف۔ اک جانب دھونسے دمامے، ایک جانب، ڈورو اور دف۔ سیاہ سیاہ نشان، نیلی نیلی جھنڈیاں۔ آگے آگے مرد، پیچھے پیچھے رنڈیاں۔ بیچ میں دو لعین فیل نشین سرخ لباس پہنے، سفاکی کی دم مارے، جیسے باروت کے تودوں پر انگارے۔ شطرنج کے بادشاہ کی طرح گھر نے نکل کر زچ اور ششدر۔ موت پیش نگاہ، مات ہونا پیش نظر۔

وہ فوج ارازل وہ بلوائے عام
وہ انبوہ، وہ بھیڑ، وہ ازدحام
وہ رخ تھے کہ نقشے شب تار کے
وہ قامت کہ خاکے تھے ادبار کے
زباں پر سبق مکرو تلبیس کا
وہ مجمع کہ لشکر تھا ابلیس کا
بھپرتے وہئے رنگ لاتے ہوئے
غرض آئے گاتے بجاتے ہوئے

اسی میدان میں اس لشکر کا بھی گزارا ہوا۔ ادھر یہ فوجیں تھیں، ادھر ان فوجوں کا اتارا ہوا۔

میانجی گری نمودن خورشید سکندر طالع خود از طرف خویش و شاہ زادہ را شناختن ضربان ناعاقبت اندیش و ریختن جادوان برآں شیر دلیر با گرز و

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 218

شمشیر و مردانہ بدر آمدن شہریار از آں ہنگامۂ دارو گیر و پیروزی یافتن بر لشکر حریف بعد جنگ و جدال و رسیدن ضربان و کوہان بسنرائے اعمال س مسخر شدن جملہ عجائبات و مسلم داشتن بادشاہی سر زمین طلسم بنام گلستان جادو و ریحان جادو و خاتونان ہمایوں صفات۔

پلا آج ساقی مئے پُرتکال
کہ پیدا ہیں آثار جنگ و جدال
قدح خوار بگڑے ہیں برہمہیں رند
ادھر رند ہیں اور ادھر ہیں لوند
ہجوم سپاہ بد اندیش ہے
صف آرائی رزم در پیش ہے
دل آویز ہے میکدے کا حصار
یہ ہے قلعہ پیر مغاں قلعدار
نہیں دخل اس دور میں غیر کا
اسی دور میں لطف ہے سیر کا
جوانان خوش دل جو سرمست ہوں
فلک زیر ہو مدعی پست ہوں
سیہ ابر ہو اور زمیں لالہ گوں
برس جائے لوہا بھی ہو سیل خوں
سیاہا دکھائے حریفوں کی فوج
بڑھے نشہ اس طرح جس طرح موج
مئے ناب ہو جوش زن خم بہ خم
کہ ہوںہوش قاضی و مفتی کے گم

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 219

بس اب محتسب کی نہ پگڑی بچے
لنڈھے مئے پڑے رن بندھیں مورچے
پریشاں نہ ہو فکر انجام سے
اُلٹ دے صفیںگردشِ جام سے

جرأت آزمایانِ رزم گاہ جادو بیانی، نیزہ گزاران حرب گاہ معانی، مردان معرکۂ بلاغت، دلیران عرصۂ فصاحت، سر کردگان سپاہ سخن، سرداران لشکر فسانۂ کہن، رستم دلان میدان داستاں سرائی، شیر زوران بیشۂ سخن آزمائی یعنی شہ سواران عرصۂ رقم و نیزہ بازان قلم کار زار اظہار میں اس طرح نیزہ بازی کرتے ہیں کہ جب تمام جنگل فوجوں سے بھر گیا، کثرت جمیعت کا حسات سے درجہ گزر گیا۔ سپاہیوں نے کمریں کھولیں، بستر لگائے۔ منزل کے مارے امید و بیم میں آئے۔ لین ڈوری کے حساب سے استاد بھی ہوئے اور فوج بھی اتری مگر ان فوجوں کی نمود دیکھ کر جانوں پر بن گئی۔ ادھر مورچہ بندی ہوئی، جھانکیاں کھدیں، دم دمے تیار ہوئے۔ ادھر دلاور جنگ آزما اور صفدر کشور کشا مستعد کارزار ہوئے۔

یاقوت شاہ نے کہا : "ہمیں آڑ پکڑنے سے عار ہے۔ اس قدر کدہ کاوش بے کار ہے۔ ان شاء اللہ جب علیؑ علیؑ کہہ کر باگیں اٹھائیں گے یہ مورچے چیونٹیوں کی طرح پامال ہو جائیں گے۔ روپوشی بودوں کا شعار ہے۔ گھونگھٹ عورتوں کو سزاوار ہے۔ ہاں، بیلدار میدان کارزار صاف کریں، زمین کو مثل آئینہ شفاف کریں۔" یہ سنتے ہی تبر داروں نے درخت حائل نگاہ کاٹ کاٹ کر گرا دیے۔ بیلداروںنے جھاڑی جھنڈی صاف کی۔ ٹیلے ٹیکرے برابر کیے۔ جارُوب کشوں نے صفائی کا جوہر دکھایا۔ سقوں نے چھڑکاؤ لگا کر گرد و غبار بٹھا دیا۔ خورشید گوہر پوش نے یاقوت شاہ اور حکیم صاحب سے مصلحت کی۔ اس امر کا شوری کیا، اس بات کی مشورت کی کہ اول صلاح کار ہے، بعدۂ کارزار۔ دشمن ہزار سر چڑھے، یہاں جادؤ شریعت سے قدم نہ بڑھے۔ مجھے اختتام حُجت منظور ہے۔ نا فہموں کو سمجھانا ضرور ہے۔ پہلے دعوت اسلام ہو پھر لڑئی کا اہتمام ہو۔

یہ کہہ کر قلمدان منگوایا اور یہ نامہ تحریر فرمایا۔ بسم اللہ الذی جعل الاسلام حصن

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 220

الحصین و بطل السحر باعجاز النبیاء و المرسلین ھو السمیع البصیر انہ علی کل شیٔ قدیر رسولہ محمد دافع الکفر و الظلم و صیہ علی صاحب السیف و العلم اما بعد، اے ضربان آگاہ ہو کہ میں صاحب قران روزگار ہوں اور شکنندۂ طلسم و حصار۔ دین میرا برحق ہے اور حکم میرا سراسر حق۔ حیات حباب ہے، دنیا خواب ہے۔ جمعیت لشکر نہ پھول۔ وقت کو غنیمت جان، موت کو نہ بھول۔ دیکھا، نمرود و شداد کا کیا حال ہوا۔ فرعون و ہامان کا کیا مآل ہوا۔ بُت پرستی سے درگزر، معبود حقیقی کو سجدہ کر۔ حق آخر حق ہے، باطل باطل ہے۔ مذہب حقاً اختیار کر اگر عاقل ہے۔ خون بندگان خدا کا سر پر نہ لے۔ بہ حالت کفر و زندقہ جان نہ دے۔ صلاحیت سے ہر شخص نے نام پایا۔ الصلح خیر قرآن میں آیا ہے۔ فارجع الی اہل الدعا والسلام علی من التبع الھدیٰ۔ بعد ترقیم پیشانی اس نامے کہ بہ مُہر خاص مزین کی اور بہ مصداق بلغ ما انزل الیک آپ تبلیغ رسالت پر کمر باندھی۔

زرہ برتن آراست مغفر بسر
کمر چست کرد از کمر بند زر
بہ پشت مبارک سر رونہاد
بشب خسرو خاوری نور داد
در آویخت شمشیر خارا شگاف
زخفتاں قدم زد بدر بند قاف
بیک دوش ترکش بیک دوش چرخ
ازیں چرخ ہم چرخ آمد بچرخ
بادرنگ زیں برشد آں نوجواں
بدستے سنان و بدستے عناں
رواں شد بقصد میانجی گری
سکندر علم زد بہ پیغمبری
تو گوئی نسیم بہاری وزید
بیک دم ازیں سو بآں سو رسید
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 221

لشکر میں ایلچی کے آنے کی دھوم ہوئی۔ ضربان بے ایمان کو بھی یہ خبر معلوم ہوئی۔ دربار عام کا حُکم دیا۔ سفیر کو طلب کیا۔ خورشید گوہر پوش نے اس فصاحت و بلاغت سے نامہ پڑھا کہ حاضرین جلسہ کو سکتہ ہوگیا۔ سب نے ایک سرے سے سرِ تسلیم جھکایا۔ بہ جُز دم بخود ہونے کے کسی کو کچھ جواب نہ آیا۔ بعد قرات کتابت اُس بہادر نے راس الرئیس سے آنکھ ملائی اور بہ کمال سطوت و صولت تحذیر و تہدید فرمائی۔ کہا: "اے بادشاہ، شکندہ طلسم سے مقابلہ خلاف دانائی ہے۔ غور تو کر۔ اولوالعزم پر کس نے فتح پائی ہے۔ دارا نے سکندر سے بگاڑ کر اپنی دارائی مٹائی۔ ضحاک نے فریدون سے لڑک کر شکستِ فاش اُٹھائی۔ "فضلنا بعضکم علی بعض" یعنی دنیا میں ایک پر ایک غالب ہے۔ بالآخر مردِ آخر بیں وہ ہے جو حقیقت کا طالب ہے۔ ہمارا شہنشاہ دنیا دار نہیں، ملک و مال کا خواست گار نہیں۔ اُس کو فقط ہدایت سے کام ہے۔ ملتِ بیضا کی پیروی ہے، شریعت غرا کا التزام ہے۔ ایسے خدا دوست کا دشمن بننا کون سی دانش مندی ہے۔ امرِ معقول کو نہ پسند کرنا عین خود پسندی ہے۔ بھلا جس نے زمین آسمان بنایا، کُل مخلوق کو پردہ عدم سے بہ عرصہ شہود لایا۔ ہر حال میں حاضر و ناظر، مرگ و زیست پر قادر، وہ پُرسش کا سزاوار ہے اور وہ خدا ہے یا پتھر کو معبود جاننا اور اُس کا بوجنا بجا ہے؟ بتوں نے کیا بگاڑا، کیا بنایا؟ ان کے قبضہ قدرت میں بھی کوئی امر آیا۔ یہ کسی کی سُنتے ہیں، کچھ اپنی کہتے ہیں یا یونہی بت بنے رہتے ہیں۔ جنہیں اپنی شناخت ہو نہ اور کو پہچانیں۔ پتھر پڑیں اِس عقل پر کہ ہم ان کو خدا جانیں۔" قاعدہ ہے کہ جب مدعی جواب سے عاجز آتا ہے تو وضع سے دست بردار ہو کر آستینیں چڑھاتا ہے۔ ان باتوں نے اُس ناری کو برا فروختہ کردیا۔ غصے میں آکر ہونٹ چبانے لگا۔

بر آستفت ضرباں ازیں قبل و قال
یکے گفت اے پیر دیرینہ سال
منہ دل بریں پند و اندرز سرد
بچشم آب دہ اے جہان دیدہ مرد
بہمت بزرگ و بدعوی درست
چہ بینی ہمیں قاتل پور تست
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 222

فلک سازگار ست و بحشت بکام
کم افتد کہ خود صید افتد بدام
مدہ کار از دست و سستی مکن
بر انداز ایں نخل از بیخ و بن

یہ سُنتے ہی اُس کافر نے ایک نعرہ مارا اور اپنے مددگاروں کو پُکارا کہ "ہاں، لینا اس اجل گرفتہ کو، جانے نہ دینا۔ یہ اُس شخص کے بیٹے کا قاتل ہے۔ یہ جواب دینے کے قابل نہیں قتل کرنے کے قابل ہے۔" تمام دربار میں ہلڑ ہوگیا۔ کسی نے سپر کھڑ کھڑائی، کوئی تلوار کھینچ کر دوڑا۔ خورشید گوہر پوش نے بھی مثل شیر غضب ناک ہمہمہ کیا اور ابرِ نیام سے برقِ دشمن سوز کو کھینچ لیا۔ ضربان تو سر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ درباریوں کا یہ حال ہوا۔ کسی نے چاندنی اوڑھ لی، کوئی کُرسی کے تلے چھُپ گیا۔ کسی کی پگڑی رہ گئی، کسی کا شملہ۔ کوئی چت ہوا کوئی پٹ۔ کوئی گرا، کوئی سنبھلا۔ کسی صاحب کا، جو بھاگنے میں پٹکا کھُل گیا تو مانند کٹے ہوئے پتنگ کے جھپاتے چلے۔ کوئی سایہ پروردہ خدمت گاروں کی آڑ میں ہانپتے کانپتے ڈگمگاتے چلے۔

ایک بے چارے صاف دل، بھولے، دل کو ٹھیرا کر بولے: "تم سب کی کتنی عقل موٹی ہے۔ میاں امتیازوں کی کچی روٹی ہے۔ تم کیوں ڈرتے ہو؟ تمہیں کون مارتا ہے؟ بہادر بہادر کو للکارتا ہے" کوئی حولا خبطا، جو اندھوں کی طرح بھاگا تو محلات کے خیمے میں جا گھُسا۔ وہاں خواجہ سراؤں نے لے دے کی۔ چار طرف سے مار پڑنے لگی۔ قرار واقع جوتے کھائے اور بعد پاپوش کاری باہر آئے۔ کہا: "خیر، جوتیاں کھائیں یا ذلت اُٹھائی، خدا نے جان تو بچائی۔ یہ کس احمق کا قول ہے، جان کا صدقہ مال اور آبرو کا صدقہ جان ہے۔ یہاں جان پر سے مال بھی قربان ہے اور آبرو بھی قربان ہے۔" بعضے گھبراہٹ میں، جو تلوار ہی کے منہ پر جارہے، گڑگڑا کر دانت نکال دیے اور اس طرح گویا ہوئے: "خدا سلامت رکھے۔ ہم منگلا مکھی ہیں۔ کچھ گا بجا کر مانگ کھاتے ہیں۔ مجرے کی دُھن میں آئے تھے۔ دو چار نئی چیزیں بنا کر لائے تھے۔ سو، پیر و مرشد، اب کلیجہ اُلٹ پلٹ ہے، بھاگے جاتے ہیں۔"
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 222

یہ تو نامردوں کے تذکرے تھے۔ اب مردوں کا خیال سُنیے۔ جو غریب تلوار کی روٹی کھاتے تھے وہ چار ناچار سامنے آئے۔ بعضوں نے زخمِ کاری کھا کر جان دی، بعضے مجروح ہو کر خون میں نہائے۔ اُس وقت خورشید گوہر پوش کی یہ صورت تھی جیسے کانٹوں میں پھول اور دانتوں میں زبان مگر واہ رے بے جگر دلاور، واہ رے شیر دل جوان۔ جدھر تلوار تول کر جھپٹا کائی سی پھٹ گئی۔ جب جانچ کر ہاتھ مارا سپر گردہ پنیر کی طرح کٹ گئی۔ فتح نصیب ایسے ہوتے ہیں۔ اللہ ری سُرت پھرت، اللہ ری ہاتھ کی صفائی۔ کتنوں کو زخمی کیا، کتنوں کو مارا مگر فضلِ خُدا سے اپنے اوپر لہو کی چھینٹ بھی نہ آئی۔ کوئی ہوا کو بھی پاتا ہے؟

وہ تو سن طرارے جو بھرنے لگا
تو اُڑ اُڑ کے برچھوں اُترنے لگا
پری زاد تھا یا وہ راہ وار تھا
ہوا تھا، چھلاوہ تھا، اسرار تھا
بُھلاوا بتاتا وہ آہو چلا
بڑھے روکنے اردلی کے سوار
وہ غل، وہ صدائے بگیر و بدار
چکا چوند میں آئے اہلِ نظر
وہ برقِ جہاں چھپ گئی کوند کر
ادھر آنکھ ملتے رہے لشکری
اُدھر جا ملا فوج میں وہ جری

دونوں طرف کمر بندی ہوگئی۔ تلنگوں میں طنبور ہوا، نجیبوں میں وردی بجی۔ صوبہ اران نے تلنگوں کی کمپنیوں سے گلِ لالہ کھلایا۔ سنگین سے سنگین، کندے سے کندا، کاندھے سے کاندھا، قدم سے قدم ملایا۔ کمیدانوں نے نجیبوں کا پڑا جمایا۔ دستے دستے کو گُل دستہ بنایا۔ توپیں دارابیوں پر چڑھ گئیں۔ کچھ پیچھے ہٹ گئیں، کچھ آگے بڑھ گئیں۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 223

یہاں ایک طرف پردہ قاف کے جراروں نے پَر تولے۔ ایک طرف یاقوت شاہ کے ہمراہیوں نے نشانوں کے شقے کھولے۔ ہر بہادر نے دریائے آہن میں غوطہ لگایا۔ نہنگِ مردم خوار بن کر معرکے میں آیا۔ وہ سواروں کی شوکت، وہ پیدلوں کی صولت۔ وہ صف آرائی تھی یا شاہ نامے کی سطر بندی کا التزام، وہ بندوبست تھا یا نظمِ فردوسی کا انتظام۔

خورشید گوہر پوش بھی اپنے مہاجر و انصار لے کر قلب لشکر میں آیا۔ چتر برداروں نے دوڑ کر سر پر چترِ زر لگایا۔ ادھر کوس افراسیابی پر، ادھر طبلِ اسکندری پر چوٹ پڑی۔ نگاہ سے نگاہ اور آواز سے آواز لڑی۔ صدائے بوقِ تا بہ ایوق پہنچی۔ دمامے کے دمدمے نے نقارہ اور آواز سے آواز لڑی۔ صدائے بوقِ تا بہ ایوق پہنچی۔ دمامے کے دمدمے نے نقارہ گردوں پر چوٹ کی۔ پھریرے علموں کے کھُل کر ہوا پر لہرائے، گویا دریائے حرب و ضرب طغیانی پر آئے۔ نقیبوں نے للکار کر کہا: "ہاں، بہادران واقعہ دیدہ و صفدرانِ جنگ آزمودہ، ہوشیار! میمنہ، میسرہ قلبِ جناح، ساقہ، کمیں گاہ سے خبردار!" کڑکتیوں نے شہانی دُھن میں کڑکا شروع کیا۔ دلیروں اور دلاوروں کے دلوں کو لڑائی کی طرف رجوع کیا۔ آواز دی: "سور ماجوانو، تلواریں تولو، برچھیاں تانو۔ پیٹھ پھیرنا ہیجڑوں کا کام ہے۔ سر مُکھ ہونا سپاہیوں کا کام۔ نامردوں کا وہ نام ہے، مردوں کا یہ نام۔

پگ آگے پت رہے اور پگ پیچھے پت جائے
نامی کامی رن چڑھے نرور چھائیں دھائے"

من چلے اُولوالعزم اس دھُن پر سر دُھننے لگے۔ نشہ جرات کے مخمور دل جیت، رن سور مست ہو ہو کر سننے لگے یعنی شجاعت کے دھنی جھومنے لگے اور تلواروں کے قبضے چومنے لگے۔ کوئی ترکِ چرخ سے آنکھیں ملانے لگا۔ کوئی پٹے کے ہاتھ نکالنے لگا، کوئی باڑھ شمشیرِ آب دار کی اُنگلیوں پر دیکھنے بھالنے لگا۔ کسی نے ترکش سے تیر لیا اور کمان کا چلہ چڑھایا۔ کسی نے بہ قصدِ سبقت گھوڑے کو چھچکار کر بڑھایا۔ ایک نے ایک سے کہا: "ہاں بھائی، آج بہادری کا امتحان ہے۔ یہی شیروں کا جنگل ہے، یہی دلیروں کا دنگل ہے۔ یہی گوئے، یہی میدان ہے۔ دیکھیں کون منہ پر تلواریں کھاتا ہے۔ دیکھیں کون آقا کے پسینے پر لہو گراتا ہے۔ خدا بات رکھ لے۔ سر رہے یا جائے، جب تک جان میں جان ہے۔ آن بان میں فرق نہ آئے۔" ایک بولا: "انشاءاللہ، کُشتوں کے پشتے لگا
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 96

ہو گیا۔ میں تو یہ چاہوں کہ تُم آنکھوں کے سامنے سے دم بھر اوجھل نہ ہو۔ تمہیں سیر و شکار کا شوق۔ رخصت کے لیے اپنے مطلب کی کہو۔ صدقے گئی۔ اتنی بے اعتنائی نہیں کرتے، ایسا انصاف سے نہیں گزرتے۔ جب اللہ رکھو، اولاد ہو گی اُس وقت ہمارے پیار کی تم کو یاد ہو گی۔"
شہزادے نے جب یہ جواب پایا، منہ بنا کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ یہ دیکھ کر ماں گھبرائی۔ پھر کوئی بات بن نہ آئی۔ اُدھر نورِ چشم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے، ادھر قریب تھا کلیجہ ماں کا منہ کو آ جائے۔ کہا: "ہاں ہاں، واری آزردہ نہ ہو، اچھا میں راضی ہوں۔ جہاں جی چاہے سدھارو۔"
یہ سُن کے شاہ زادے کے چہرے پر سُرخی آ گئی۔ دل میں کہا: شکر ہے دوسری مشکل بھی آسان ہوئی۔ جب یہ مرحلہ بھی طے ہو چکا تو شاہ زادہ محل سے برآمد ہوا، دیوان خانے میں تشریف لایا، کھانا مانگا۔ دستر خوان بچھا مع مصاحبین و رفقاء خاصہ نوش کیا، آرام فرمایا۔ سہ پہر کو جب بیدار ہوا پھر دربار ہوا۔ مجرائی، سلامی حاضر ہوئے۔ تذکرے سیر و شکار کے ہونے لگے۔ شاہ زادہ مصاحبانِ خاص کی طرف متوجہ ہوا اور ارشاد کیا: " مثل مشہور ہے کہ اگر لومڑی کے شکار کو نکلے تو شیر کے شکار کا سامان کرے۔ سب اپنے کیل کانٹے سے ہوشیار، دیکھو کسی بات کی کمی نہ ہو۔ خبردار! خبردار! ایسا نہ ہو کہ ہنسنے والے اپنی جگہ پر کہیں کہ سب انیلے جمع تھے۔ اپنا منہ لے کر پھر آئے۔" رفیقوں نے عرض کی: " حضور خاطر جمع رکھیں۔ جب وہ وقت آئے گا تو ہنسنے والوں کو دکھا دیں گے۔ چیتل پاڑھے کا کیا ذکر، اگر شیر سامنے آئے گا تو انشاءاللہ مارے گولیوں کے بٹھا دیں گے۔ فضلِ خدا سے ایک ایک رفیق حضور کا فنِ سپہ گری میں ممتاز ہے۔ ہر شخص گل چلا ہے، ہر شخص قدر انداز ہے۔ جب یہ جاں نثار موشگافی پر آتے ہیں، بال باندھا نشانہ اُڑاتے ہیں۔"
شاہ زادے نے مسکرا کر کہا:" دیکھا چاہیے، کیا ہوتا ہے؟ پہلے پہل کا معاملہ ہے۔ یہ اندیشہ ہے۔" بس انہیں تذکروں میں شام ہوئی۔ سب نے مغربین ادا کی، پھر دسترخوان بچھا۔ کھانے میں بھی اسی طرح کا ذکر رہا۔ شاہ زادے نے فرمایا: " سنا ہے کہ اہلِ مذاق جو شکار کھیلنے جاتے ہیں اور شکار پاتے ہیں تو وہیں کباب لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اُس وقت کی چٹ

ریختہ صفحہ 97

پٹاہٹ عجیب مزا دیتی ہے۔ اُن کبابوں کی گرماگرمی گھر کے کھانوں کو بھُلا دیتی ہے۔"
سب نے یک زبان عرض کیا: " خداوندِ نعمت بجا ہے۔ شکار میں اسی کا لطف ہے، اسی کا مزہ ہے۔"
غرض شاہ زادہ خاصہ نوش فرما کر، حُسنِ محفل پی کر، گلوری کھا کر ، پلنگ پر گیا اور خواصوں سے ارشاد کیا: " چّپی والوں سے کہہ رکھو کہ آج ہمیں صبح صادق سے پیشتر جگا دیں بلکہ بعد نصف شب اُٹھا دیں۔ کس واسطے کہ حوائج ضروری سے فرصت کرتے کرتے نماز کا وقت آ جائے گا اور سوار ہوتے ہوتے آفتاب نکل آئے گا۔ ہم چاہتے ہیں ایسے وقت سوار ہوں کہ شکارگاہ میں جا کر صبح ہو اور اُسی میدان میں نمازیں پڑھی جائیں۔ صحرا میں لطفِ نسیم اُٹھائیں۔ جنگل میں بہشت کی ہوائیں کھائیں۔"
خواصوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا: " جیسا حُکم ہوا، اُسی طرح عمل میں آئے گا۔ سب سے بہ تاکید کہہ دیا جائے گا۔" مگر اُس شب نیند کُجا، آنکھوں میں خواب کا خیال بھی نہ تھا۔ وہ شب، عید کی شب تھی۔ لطف، طالعِ بیدار تھا۔ ہر شخص کو صبح کا انتظار تھا۔ رفقاء، شاہزادے کے، اپنے اپنے طور پر اہتمام کر رہے تھے۔ سب ہُنر مند، کامل فن اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ کوئی تیروں میں نئی پر گیریاں لگاتا تھا، کوئی کمان پر چلّہ چڑھاتا تھا۔ کوئی چقماق کے پُرزے صاف کر رہا تھا، کوئی کّپی میں بجلی کی بارود بھر رہا تھا۔ کوئی کسی سے کہتا تھا: " میرے طپنچے کا پتھر بُرا ہے۔ ایک عقیق کا پتھر دینا۔"
کسی کا کسی سے اشارہ تھا: " ذرا بھائی چھرّے دانی اُٹھا لینا۔" کوئی گولیاں ڈھالتا تھا۔ کوئی کھیسے میں کارتوس نکالتا تھا۔ غرض اُس شب کسی نے سونے کا نام نہ لیا۔ شاہ زادہ بھی کروٹیں لیا کیا۔
رفتن شاہ زادہ برائے سیر و شکار جانب صحرائے پُر بہار و اندا ختن شبدیز بدنبال آہو وجدا شدن یاران ہم راہی آں شہریار خوش خوے و خوش روواز
دور دیدن گلزارِ رشک مینو۔
بہار آئی اے ساقی گلغدار
کھلے گل ہوا لُطف سیر و شکار
مرقع ہیں سبزے سے دشت و جبال

ریختہ صفحہ 98
ہرن مست ہیں شوخیوں پر غزال
گھٹاؤں کی آمد ہے بارش کا تار
کبھی ہے تقاطر کبھی ہے پُہار
چمن میں عنادل ہیں جنگل میں مور
وہ کوئل کی کوُ کوُ پیپہوں کا شور
کہیں جدولِ آب کی آب و تاب
کسی جا ہے لالہ کسی جا گلاب
گلستاں کا ہے اب سبق برزبان
وہ موسم ہے کانٹے بھی ہیں تر زبان
کُھلیں سب پہ اس دور کے فائدے
درِ میکدہ تو بھی اب کھول دے
شکارِ بطِ مَے ہے مدِّ نظر
دکھا سیرِ میخانہ اے با خبر
ہوئی دخترِ رز کو خلوت پسند
پری اب رہے گی نہ شیشے میں بند
ہوا ہے چھلاوا ہے بنت العنب
لگاوٹ قیامت ہے چھل بل غضب
نکلتے ہیں اب رند بھی سیر کو
پلا جام ہونی جو ہے بس وہ ہو
صیادانِ آہوئے مرغزارِ تازہ بیانی، شیرِ شکارانِ بیشۂ سخن دانی، صید افگنانِ دشتِ بلاغت، شکا اندازنِ صیدگاہِ فصاحت، کباب نخچیر اس افسانۂ بے نظیر کے یوں سیخِ بیان پر لگاتے ہیں کہ بعد نصف شب اُٹھ کر قضائے حاجت سے فرصت کی، ہاتھ منہ دھویا، پوشاک بدلی۔ زرہ بکتر داستانے پہن کر خود سر پر رکھا۔ ہتھیار لگائے رفیقوں کو ساتھ لیے دیوان خانے سے جلو خانے میں تشریف لائے۔ گھوڑے خاصے کے حاضر تھے۔ شاہ زادہ بھی سوار ہوا، رفیق

ریختہ صفحہ 99

بھی سوار ہوئے۔ پلٹنیں، رسالے، جو موجود تھے، وہ بھی سلامی لے کر چلنے پر تیار ہوئے۔ رسالوں میں تُرم ہوا۔ ڈنکوں پر برا بر چوبیں پڑیں۔ افسروں کی یاروں سے نگاہیں لڑیں۔ پلٹنوں میں طنبور ہوا۔ وردی بجی، صوبے داروں نے بولی بول کر آواز دی۔
اُس وقت عجب بہار تھی۔ وہ کیفیت بھی یادگار تھی۔ وہ تاروں کی روشنی، وہ آخرِ شب کی چاندنی، آگے پیدل پیچھے سوار، وہ سُرخ سیاہ وردیاں جیسے لالہ زار۔ وہ دُھندلکے کا عالم۔ وہ پتھر کلوں چمکنا۔ وہ تلنگوں کے جچے ہوئے قدم۔ وہ سواروں کے گھوڑوں کی چُلبلاہٹ، وہ کرچوں کی کھڑ کھڑاہٹ۔ وہ نشانوں کے پھریرے ہوا سے اُڑتے ہوئے۔ وہ پرچم، وہ علم، آگے آگےفوجیں، پیچھے پیچھے شاگرد پیشہ اور دواب، بیچ میں شاہ زادہ، خورشید کلاہ، قمررکاب۔ رفیق و مصاحب یمین و یسار جیسے چودھویں کے چاند کے گرد اخترِ سیار۔ دورویہ بہیر اور بہیر سے دور دور لوازمِ شکار اور لوازمہ دار اپنی اپنی نوکری پر مستعد، اپنے اپنے کلام میں ہوشیار۔ آگے آگے ڈوریے، تازیوں کی جوڑیاں لیے۔ تازی، وہ تازی کہ شیروں سے بازی لے جائیں۔ ہنگامِ صیدافگنی کر گدن کو خاطر میں نہ لائیں۔ کمریں پتلی، سینے چوڑے۔ جب زور کیا ڈوریوں کو لے دوڑے۔ باولی پائے من چلے، سنہال چیتوں سے کُشتی لڑے۔ زبانیں نکالے دم کرتے کبھی اِدھر جا پڑے، کبھی اُدھر جا پڑے۔ ایک طرف بادامی امبوئی ماشی و گلے پہنے۔ ہاتھوں میں پنبئی، صابری، داستانے، کاندھوں پر کہاروے کے تھیلے۔ باز، شکرا، چنچ، بہری، لگڑ جھگڑ، چرغ، جرا، کوہی، ترمتی، یعنی کُل جانور شکاری پردار، اُڑے اُڑے تیار۔ پیچھے چھکڑوں پر نواڑ کے پلنگ بچھے اُن پر چیتے اور شیر و پلنگ بیٹھے۔ ہر پلنگ کے چاروں کونوں پر چار چار بہیلیے سبز سبز وردیاں پہنے، چوریاں رومال لیے، کوئی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا یار بناتا۔ کوئی آواز لگاتا۔ شیرانِ بہادر کہہ کر جگاتا۔
غرض قریب صبح صادق مرغزار میں جا پہنچے۔ ٹھیر نے والے ٹھیر گئے۔ بڑھنے والے بڑھ گئے۔ جنگل کی فضا دیکھتے ہی غنچہ دل کھلا۔ سبزے کی لطافت سے آنکھوں کو اک لُطف ملا۔ کوسوں تک فرشِ زمردیں نظر آیا۔ دُرہائے شبنم کو دامنِ خضر پر لوٹتا پایا۔ گُل خودرو سے صحرا کو

ریختہ صفحہ 100

بھرا دیکھا۔ جوشِ طراوت سے خشک کانٹوں کو بھی ہرا دیکھا۔ اشعار:
تھا وہ میدانِ فرح بخش کہ باغِ رضواں
اک طرف دشت فضا ایک طرف آب رواں
کہیں جھیلیں، کہیں چقر، کہیں سبزہ، کہیں گُل
بے تکلف تو کمال اور تکلف بالکل
قیس کے خون سے کانٹوں کی زبانیں گُلّکوں
کوڑیالا تھا کہ ویرانے میں گنجِ قاروں
خطِ گلزار کٹے دیکھ کے جادے کی بہار
جھاڑیاں وہ کہ ہو مہدی کی روش جن پہ نثار
شجر بید کہیں سرو لب آب کہیں
سایہ نخل کہیں پر تو مہتاب کہیں
کسی جانب کو چنار اور کہیں پھولا ہوا ڈھاک
طرفہ دلچسپ زمیں جس پہ تصدق افلاک
ٹیلوں پر مدار کے درخت اس طرح جیسے تورے کے خوانوں پر گُل دستے یا متوالوں کی پگڑیوں پر طُرے۔ تحریک ہوا سے یہ اشعار، از قدرتِ خدا عجب مدار۔ بڈھے بڑھیوں کے اڑنے سے گمان ہوتا تھا کہ جنون کو بلند حوصلگی کے ولولے ہیں۔ عیار چالاک و طرار بہ تبدیلِ ہیئت آسمان کی خبر لینے چلے ہیں۔
تھوہڑ، تدھارا، چودھارا، مہوسوں کا نخلِ مُراد، اکسیر کی بوٹی کا ہمزاد۔ جھیلوں میں مرغابیاں، پن ڈبیاں، بطیں، قازیں، پریاں، سرخاب، اس کثرت سے کہ پانی نہیں نظر آتا ہے۔ جب ہوا کے چلنے سے پانی ہلتا ہے اور موج آتی ہے کنارہ چُھپ جاتا ہے۔ ڈبرے آباد، ترائی گلزار، ساحل پر بگلے، کلنگ، کبوتر، صحرائی بے شمار، گولی بھر کے ٹّپے پر ہرن چرتے، غزال چوکڑیاں بھرتے۔ کسی طرف چیتل، پاڑھے، نیل گاؤ نظر آئے۔ کچھ چرنے میں مشغول۔ کچھ آدمیوں کی آہٹ سے چوکنے اور گردن اُٹھائے۔ ادھر درختوں پر مُر غانِ سحر کے چہچہے۔ اُدھر پہاڑ کی چوٹی پر چکوروں کے قہقہے۔ گھوڑے میدان پا کر ہوا میں بھرے اچپلی کرنے
 

شمشاد

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 241

عاشق شدن قمر طلعت و سیار بر خورشید آرا و مہتاب آرا دختران وزیر خوش تدبیر و بعد دستوریٔ دستور در سلک مواصلت در آمدن این ہر چہار گوہر گراں مایہ بحسب مشیت تقدیر۔

پلا ساقیا گل بدن جام مل
کھلا چاہتا ہے اب ایک اور گل
کیا مست درو فرح ناک نے
لگی دخت رز جھانکنے تاکنے
لگاوٹ کی چتون ہیں دل کش نگاہ
اشاروں میں کرتی ہے مستوں سے راہ
سمجھ دیکھ کر رنگ صحبت ذرا
مبارک ہو یہ جشن ہے دوسرا
چٹکتے ہیں غنچے کھلا لالہ زار
ہوئیں بلبلیں مست آئی بہار
لڑی آنکھ نرگس کی شمشاد سے
کیا ربط بندی نے آزاد سے
یہاں شیشہ و جام میں ربط ہے
نہ اب تاب نے طاقت ضبط ہے
یہ قلقل ہے پیغام عیش و سرور
دم بے حجابی ہے اے ذی شعور
دکھایا جوانوں کی صحبت نے رنگ
ادھر ہے ترنگ اور ادھر ہے ترنگ
جدھر دیکھیے دید وادید ہے
صراحی کے ہیں قہقہے عید ہے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 242

نہ ہے محتسب برسر احتساب
نہ قاضی کا ڈر ہے نہ فکر حساب
یہی وقت ہے جام دے جام پر
خدا کے لیے اب تو صرفہ نہ کر
غنیمت ہے یہ ولولہ یہ شباب
یہ صحبت، یہ جلسہ، یہ دورِ شراب

خورشید گوہر پوش کے لیے خاص محل اور خرد محل سے قران ماہ و مشتری تھا۔ ایک محل حور تھا اور ایک پری۔ رفیقوں کو شاہ زادے سے اتحاد جسم و جان تھا۔ بیگموں کو بھی ان صاحبوں سے نہ یہاں پردہ تھا نہ وہاں تھا۔ ملکہ کا جو ان عزیزوں سے طلسم میں سامنا ہو چکا تھا لہذا بیٹی کی خاطر سے زہرہ جبیں نے بھی پردہ نہ کیا۔ المختصر قمر طلعت اور سیار کی دونوں محلوں میں آمد شُد تھی۔ سب سے اُلفت محبت تھی۔ رات دن چہلیں تھیں۔ ہنسی دل لگی کی صحبت تھی۔ ایک شب چاندنی میں تختوں کے چوکے پر ملکہ اور وزیر زادی اور خورشید شاہ بیٹھا تھا۔ اتفاق سے قمر طلعت ماہ سریع السیر کی طرح سیر کرتا ہوا آ گیا۔ وزیر زادی "اوہ اوہ" کرتی بھاگی اور اوٹ کی آڑ میں جا کر چُھپ گئی اور اس طرح گویا ہوئی : "واہ واہ، صاحب، یہ آنا عجب طرح کا آنا ہے۔ تم کو یہ بھی نہ معلوم ہوا کہ یہاں پر زنانہ ہے۔ انسان جہاں جاتا ہے دیکھ بھال کر جاتا ہے اور آتا ہے تو پکار کر آتا ہے نہ کہ اونٹ کی طرح منہ اٹھایا اور گھس آئے۔ خدا ایسے بلڑوں کی پرچھائیں سے بچائے۔"

قمر طلعت نے کہا : "تم اونٹ سے ڈرتی ہو۔ اللہ ری پاک دامنی کہ مرد کے سائے سے پرہیز کرتی ہو۔ یہ شتر غمزے نئے ہیں۔ یہ جھانولیاں نرالی ہیں۔ میں نے ایسی اونٹنیاں بہت دیکھ ڈالی ہیں۔" وہ بولی : "بس کچھ اور اول فول نہ نکالیے۔ میں ایسی ہنسی نہیں ہنستی۔ ذرا زبان سنبھالیے۔" خورشید گوہر پوش نے کہا : "یہ نیا مناظرہ ہے۔ تم نے اسے اونٹ بنا لیا۔ جب اس نے جواب دیا توکھسیانی ہو گئیں، رو دیا۔ یہ میں نہیں ہوں، جو جی چاہے کہہ لو۔ اب کچھ چرکو۔ اب کچھ ریز کرو۔" یہ کہہ کر دوڑا اور اوٹ کی آڑ میں کھینچ لایا۔ کہا : "کیوں، صاحب، ایک کلہ توڑنے والا آیا تو آپ نے منہ چھپایا۔ لو، صاحب آپ کی

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 243

عصمت کچھ ملکہ سے بھی سوا ہے۔ جب وہ نہیں چھپتیں تو چُھپنا کب روا ہے؟ مجھے اس کانے پردے سے نفرت ہے۔ آدمی چُھپے تو اچھی طرح چُھپے، نہیں، کیا ضرورت ہے؟"

وزیر زادی نے منہ بنا کر کہا : "صاحب یہ بھی کچھ ضرور ہے کہ جس کے سامنے ملکہ صاحب آئیں، میں بھی آؤں۔ وہ تو بے باک ہو گئیں ہیں۔مجھے کیا خبط ہے جو بے باک ہو جاؤں۔" ملکہ بولی : "لو اب میرے اوپر منہ آئی۔ اب اس طرف طبیعت لہرائی۔" وزیر زادے سے کہا : "ہاں، بھائ، تمہیں اس کو ٹھیک بناؤ گے۔ یہ شہ کارہ کسی طرح نہیں سمجھتی۔ بس تم سمجھاؤ گے۔" قمر طلعت بولا : "نہیں حضور، یہ بہت معقول ہیں۔ یہ جو جی چاہیں کہہ لیں۔ مجھے ان کی سب مُنہ زوریاں قبول لیں۔" وہ بولی : "لو، دور پار، یہ میرے عاشق ہیں کہ ساری کڑیاں جھیلیں گے۔ ہنسی ہنسی میں آبرو سے ہاتھ دھوئیں گے۔ جان پر کھیلیں گے۔" یہاں تو آنکھ چار ہوتے ہی کلیجے پر تیر پڑ چکا تھا۔ بس عشق کا نام سنتے ہی دل قابو میںنہ رہا۔ وزیر زادہ بولا : "کچھ نہ پوچھو، میں کون ہوں، کس بلا میں آ کر پھنس گیا؟ آہ کیا کہوں؟" یہ کہہ کر آنکھوںمیں آنسو بھر لایا۔ عشق صادق کی تاثیر سے وزیر زادی کا بھی کلیجہ منہ کو آیا، گویا دو جام لبریز چھلک پڑے۔ ادھر اس کی آنکھوں سے ادھر اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔

عشق دم ساز جان زار ہوا
تیر غم دو دلوں کے پار ہوا
آئے دونوں کے دل کہ موت آئی
دفعتاً منہ پہ مُردنی چھائی
جذب خاطر نے اہتمام کیے
آہ نے آ کے ہونٹ چوم لیے
دید وادید نے اڑائے ہوش
شکل تصویر رہ گئے خاموش

خورشید گوہر پوش نے ملکہ کو اور ملکہ نے خورشید گوہر پوش کو دیکھا یعنی دل لگی دل لگی میں یہ کیا ہو گیا؟ شاہ زادے نے وزیر زادے کا شانہ ہلایا اور شاہ زادی نے وزیر

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 244

زادی کو خوب مدہوشی سے چونکایا۔ کہا : "ہائیں ہائیں، باتوں باتوں میں یہ کیا کیفیت ہو گئی؟ بُت کیوں بن گئی؟ چُپ کیوں لگ گئی؟ اگر وصل وصال کا خیال ہے تو یہ کیا مشکل ہے۔ یہ کیا مجال ہے۔ یہ بھی کیا ہم لوگوں کا عشق ہے جسمیں آفتیں ہوں۔ ہر طرح کی مشکلیں ہوں، ہر طرح کی مصیبتیں ہوں۔ تمہیں کچھ دشوار نہیں۔ کون سی مجبوری ہے؟ کس بات پر اختیار نہیں؟ یہ تو گھر ہے، یہاں کس کا ڈر ہے؟"

ملکہ نے وزیر زادی سے کہا : "کیوں، خانم صاحب، جیسا ہم پر ہنسیں، ویسے ہی دیدہ دانستہ مصیبت میں پھنسیں۔ اب اس درد کا مزا پایا۔ اب دل آنے کا یقین آیا۔" وہ بولی : "ہاں، حضور، بجا ہے۔ یہ میری نافہمی کی سزا ہے۔ بہ قول زکی :

پیش ازیں ہنستے تھے ہم اس پر جو روتا تھا کوئی
چوٹ جب دل پر لگی قدر مصیبت ہو گئی

ملکہ نے کہا : "تم میری مشاطہ بنی تھیں۔ میں تمہاری مشاطہ بنوں گی۔ خاطر جمع رکھو۔ ہر طرح کا اہتمام کر دوں گی۔ حیرت زدوں کی طرح کیوں دیکھا بھالی ہے؟ بسم اللہ، تشریف لے جائیے۔ بارہ دری خالی ہے۔ آپ وہاں جا کر دل بہلائیے۔مجھے پہرے پر چھوڑ جائیے۔"

وزیر زادی بولی : "حضور نے حرام کیا تھا جو میں حرام کروں؟ دم بھر کے واسطے کیوں نام بدنام کروں؟" ملکہ ہنسی اور کہا : "لو، آپ بھی نکاح کی امیدوار ہیں۔ سلامتی سے وصل حقیقی کی خواست گار ہیں۔ بہت اچھا، یہ کون سے بڑی بات ہے۔ کل سانچق ہے۔ پرسوں برات ہے۔" قمر طلعت سے کہا : "لیجیے، بھائی صاحب، آپ کی معشوقہ صاحب کو حرام سے انکار ہے۔ حق کی راضی ہیں، حلال کا انتظار ہے۔ اب ذرا دم لیجیے۔ دو چار دن صبر کیجیے۔ میں آپ کے بابا صاحب کو رضا مند کر لوں۔ کل وہ آئیں تو اس نسبت کا پیغام دوں۔ خدا نے چاہا تو وہ بھی نہ انکار کریں گے۔ برابر کی نسبت ہے۔ خواہ مخواہ اقرار کریں گے۔"

قمر طلعت نے کہا : "کچھ حضور کو سیار کی بھی خبر ہے؟ اس کا حال مجھ سے بتر ہے۔" وہ بولی : "اوہ بھائ، ایک انار اور دو بیمار۔ دو چھڑیاں ایک میان میں، دو تیر ایک

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 245

کمان میں۔" وہ بولا "جی نہیں، درجہ بہ درجہ الفت ہے۔ مجھے ان سے، اسے ان کی چھوٹی بہن سے محبت ہے۔" ملکہ بولی : "اب وقت کا کام ہے۔ یہ البتہ تردد کا مقام ہے۔" خورشید گوہر پوش نے کہا "تردد بے جا ہے۔ سیار اور قمر طلعت میں فرق کیا ہے؟ یہ بھی صاحب ارادہ ہے وہ بھی صاحب ارادہ ہے۔ یہ وزیر زادہ ہے، وہ رئیس زادہ ہے۔ وہ نہ عیار بچہ ہے نہ عیار ہے۔ اُمرائے کرسی نشین میں اس کا بھی شمار ہے۔ اس راہ میں میرا ساتھ دیا ہے۔ اس نے میری خاطر سے یہ پیشہ اختیار کیا ہے۔ امیر زادے ہر بات کا خیال رکھتے ہیں۔ ہر فن میں کمال رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہم لوگوں سے فیض پاتے ہیں۔ اہل کمال آ کر ہم سے سیکھ جاتے ہیں اور بالفرض وہ عیار ہے، پھر عیار کی کوئی ذات ہے؟ یہ کیا امر لا طائل ہے؟ یہ کیا واہیات بات ہے؟ میں تو اسے اپنے برابر کا بھائی جانتا ہوں۔ وزیر لاکھ انکار کرے، میں کب مانتا ہوں؟ قمر طلعت کی نسبت کا تو حال ظاہر ہے۔ خیر اب اس میں ہماری خاطر ہے۔ بہ قول سعدی :

بنی آدم اعضائے یک دیگراند
کہ در آفرینش زیک جوہراند

"شرعاً تو یہ نسبت ممنوع نہیں، عرفاً ہو تو ہو۔ صبح کو تم شوق سے دونوں کو پیغام دو اور جو کچھ میں نے کہا ہے یہ سب حرف حرف بیان کر دینا۔ جس طرح سے ہو سمدھی صاحب کو راضی کر لینا۔" ملکہ نے کہا : "میں تو کچھ اٹھا نہ رکھوں گی۔ سب اونچ نیچ سمجھا دوں گی۔ ہر طرح سے کہوں گی مگر بیگانے دل پر میرا کیا اختیار ہے۔ میرے ماں باپ میرے مختار تھے۔ وہ ان دونوں کا مختار ہے۔" خورشید گوہر پوش بولا : "میں بڑے بڑوں کی سعی اٹھواؤں گا۔ آخر کار بڑی حضور سے اور حضرت سے کہلواؤں گا۔" ملکہ بولی : "بھلا، صاحب کچھ زبردستی ہے۔ ہر کسی پر عاشق ہو جانا یہ بھی ان لوگوں کی خرمستی ہے۔ وہاں بادشاہِ طلسم کی بیٹیوں کو لگا لائے اور پھر چھوڑ کر چلے آئے۔ یہاں ان بے چاریوں پر ڈورا ڈالا۔ ایسے ہر دم مردوں کا منہ کالا۔ حضور کون سے نیک پاک ہیں، کون سے وضع دار ہیں۔ آپ کے بھی یہی وتیرے ہیں۔ یہی اطوار ہیں۔ کچھ آپ نے مجھے چین سے رکھا، کچھ یہ ان دونوں کو چین سے رکھیں گے۔ چار دن میں حلال کو

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 246

چھوڑ کر حرام کے لقمے چکھیں گے۔"

خورشید گوہر پوش بولا : "لو، اور شگوفے چھوڑنے لگیں۔ تم تو اپنے جلے پھپھولے توڑنے لگیں۔ خدا کے لیے کل کہیں اس اُدھیڑ بُن میں نہ رہنا۔ بس جتان دیا اتنا ہی کہان۔" وزیر زادی بولی : "پھر کیا کیجیے؟ مردوں کا یہی حال ہے۔ جو بات آپ ڈھونڈتی ہیں وہ خواب و خیال ہے۔ ہمارے زمانے کے یہی مرد ہیں۔ یہ سب سنگ دل ہیں، سب بے درد ہیں۔ چار دن کی زندگی کسی نہ کسی طرح بسر کرنا ہے۔ آخر انہیں لوگوں کے ساتھ مرنا بھرنا ہے۔" ملکہ نے کہا : "تُو تو مردوں کی ندیدی ہے۔ اس طرح گڑگڑاتی ہے۔ جیسے کسی کی زرخریدی ہے۔" وہ بولی : "حضور ہی نے یہ راہ نکالی ہے۔ مجھ پر بھی آپ نے اپنی پرچائیں ڈالی ہے۔ میں نے تو آپ کا ساتھ دیا ہے۔ لونڈی نے حضور کو دیکھ کر یہ سودا کیا ہے۔" ملکہ بولی : "بھلا ہوا، مجھے سودا ہوا تھا۔ تجھے بھی سودا ہوا۔ دنیا بھیڑیا دھسان ہے۔ ایک بھیڑ کو کنویں میں گرتے دیکھ کر سب گر پڑتی ہیں۔ جبھی یہ خرابیاں ہوتی ہیں۔ جبھی تو بنی ہوئی باتیں بگڑتی ہیں۔" وزیر زادی بولی : "مرد مردوں کا اور عورتیں عورتوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ وہ اپنے مطلب کی سمجھ لیتے ہیں، یہ اپنے مطلب کی سمجھ لیتی ہیں۔"

خورشید گوہر پوش نے قمر طلعت سے کہا : "رات بہت آئی ہے۔ لے، آپ تو اب جائیے۔ آج پہلا دن ہے۔ بس اس قدر پاؤں نہ پھلائیے۔ رہ جانے میں کچھ مضائقہ نہ تھا مگر خیال یہ ہے کہ صبح کو چرچا ہو گا۔ منظور یہ ہے کسی کو کانوں کان نہ معلوم ہو اور یہ معاملہ طے ہو جائے۔ ہزار دوست ہیں، ہزار دشمن ہیں۔ کوئی کچھ لگائی بجھائی نہ کرنے پائے۔" یہ سُن کے وہ دونوں عاشق و معشوق روتے ہوئے اٹھے اور محزون و مغموم اپنی اپنی جگہ پر گئے۔ دونوں کو اتنی رات کاٹنا دشوار ہوا۔ ایک تو اضطرار تھا، اور اضطرار ہوا۔ بے تابیٔ خاطر نے تمام رات کانٹوں پر لٹایا۔ اسے چین آیا نہ اُسے قرار آیا۔ جب نیند آئی مردم دیدہ نےآنکھ دکھائی یعنی جا، دُور ہو۔ اس کے پاس جا جسےسونا منظور ہو۔ یہاں کروٹیں بدلنے سے کام ہے۔ جدائی کی رات میں یہی آرام ہے۔ قمر طلعت کا جب زیادہ سودا بڑھتا تھا تو دل بہلانے کو یہ غزل پڑھتا تھا۔ (غزل)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 247

خواب کی حسرت رہی دیدۂ بے خواب کو
دیکھ چکے اے زکی عالم اسباب کو
آگ محبت کی ہے اور دل بے تاب ہے
عشق نے اک جا کیا آتش و سیماب کو
چشم سے کہتا ہے غم اشک کا دریا بہا
ضبط سے کہتا ہے دل روک لے سیلاب کو
چاہتا ہوں اے فلک لطف جوانی مٹے
آرزوئے برق ہے مزرعء شاداب کو
رشتۂ مہر و وفا بال سے باریک ہے
سب پہ مقدم سمجھ خاطر احباب کو
ذرہ نوازی حسن قاف سے تا قاف ہے
چشم حقیقت سے دیکھ مہر جہاں تاب کو
کانپ رہی ہے زمین عرش تزلزل میں ہے
خاک میں ملنا ہے آج کس دل بے تاب کو
آئے نہ یارب کبھی ہجر صنم کی گھڑی
دن نہ ہو پروانے کو شب نہ ہو سرخاب کو
بند ہے گر میکدہ، ہے درِ توبہ کھلا
یاد کرو اے زکی فاتح الابواب کو

وزیر زادی بہ گوش دل یہ آواز سنتی تھی اور یہ غزل پڑھ کر سر دُھنتی تھی۔

لیل و نہار چرخ سے کام یہاں تمام ہے
کس کو اُمید صبح ہے، کس کو یقین شام ہے
عشق عجب عذاب ہے کام ہر اک خراب ہے
وصل بیان خواب ہے عیش خیال خام ہے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 248

ہائے غضب کی بات ہے غم سے کہاں نجات ہے
گور کی پہلی رات ہے ہجر کی پہلی شام ہے
بات ہو جس میں درد کی شعر وہ ہے غزل وہی
طرز سخن یہ ہے ذکی یہ روش کلام ہے

غرض جب روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئیں تو صبح کی سفیدی نے جلوہ دکھایا۔ اس نور کے ظہور سے گیا ہوا نور آنکھوںمیں پھر آیا۔ دونوں نے دوگانہ صبح کا اور دو دو رکعتیں نماز حاجت کی پڑھیں۔ رات کے کٹنے سے اور صبح کے ہونے سے دل بھی بڑھا۔ امیدیں بھی بڑھیں۔ ملکہ بعد بیدار ہونے کے جب بڑی حضور کو سلام کرنے گئی تو اس مقدمے میں صلاح کی۔ وہ بولیں : "اچھا تو ہے۔ دستور المعظم کو بلا بھیجو۔ بات یہ بُری نہیں۔ شوق سے بات چیت کرو۔ کہو سُنو۔" ملکہ نے نواب ناظر کی معرفت وزیر اعظم کو طلب کیا اور جب وہ آیا تو محل میں بُلا لیا۔ یہ تو اس کی گودوں کی کھلائی ہوئی تھی۔ یہ پردہ برائے نام تھا۔ بیچ میں ایک اوٹ کھڑا ہو گیا۔

ادھر ملکہ کرسی زرنگار پر بیٹھی ادھر وزیر اعظم بیٹھا۔ ملکہ بولی : "عمو جان، میں نے آپ کو اس واسطے تکلیف دی ہے کہ بہن خورشید آرا بیگم اور مہتاب آرا بیگم کے لیے ایک بات تجویز کی ہے۔ میں چاہتی ہوں قمر طلعت اور سکندر حشمت کے ساتھ ان دونوں کی شادی ہو جائے۔ میرے نزدیک تو سب طرح سے بہتر ہے۔ بشرطیکہ آپ کی بھی رائے میں آئے۔" وزیر بولا : " قمر طلعت کو تو میں جانتا ہوں۔ سکندر حشمت کا پتا دیجیے۔ ان صاحب زادے کے حسب نسب کی کیفیت بیان کیجیے۔" وہ بولی : "سیار کا نام سکندر حشمت ہے۔ یہ بھی ہم پایۂ قمر طلعت ہے۔ میری سُسرال میں بارہ سو کُرسی نشین ہیں۔ اس کا باپ بھی اسی سلطنت کا ایک رکن رکین ہے۔ اس کا فریدون جاہ نام ہے۔ اس کا سکندر حشمت نام ہے۔ خدا کے فضل سے سب طرح کی حشمت ہے، سب طرح کا احتشام ہے۔ صاحب عالم کی محبت نے اسے بھی گھر سے نکالا۔ بہ مصلحت اور ضرورت وضع بھی بدل ڈالی، نام بھی بدل ڈالا۔ چاہیے ان سے بھی یہ کیفیت دریافت کیجیے۔ ہر طرح سے اپنا اطمینان کر لیجیے۔ میں نے آپ سے زیادہ اس کی چھان بنان کی ہے۔ شب کو اس مقدمے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 249

میں بہت گفتگو ہو چکی۔" وزیر اعظم نے کہا : "مرشد زادی، ان غلام زادیوں کا حضور کو اختیار ہے۔ خانہ زاد بہ ہر صورت فرماں بردار ہے۔ غلام بھی چاہتا ہے کہ بار سے سبکدوش ہو جائے اور جس طرح سے ہو اس مصیبت سے نجات پائے۔ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ مرنے جینے پر اختیار نہیں۔ یہ فرض ہے۔ اس کے ادا کرنے میں تعجیل بجا ہے۔ ذرا غفلت ہوئی پھر قضا ہے۔ خانہ زاد اب لبِ گور ہے مگر تقدیر سے کیا زور ہے۔ قمر طلعت کا تو معاملہ صاف ہے لیکن دوسری نسبت میں جلدی کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔" ملکہ نے کہا : "نہیں، دو ایک دن کی مہلت ہے۔ تحقیق کر لینے میں کیا قباحت ہے؟" غرض بعد گفت و شنود وزیر رخصت ہوا اور ملکہ نے خورشید گوہر پوش سے آ کر اس ذکر کا اعادہ کیا۔
شاہ زادہ بولا : "معلوم ہوا جس نسبت میں ہمیں اصرار ہے سمدھی صاحب کو اس سے انکار ہے۔ خیر، کہاں جاتے ہیں۔ دیکھو، آج ہی راہ پر آتے ہیں۔" یہ کہہ کر پوشاک مانگی، سواری مانگی، دربار میں گیا اور بادشاہ سے کہلوا کر وزیر کو راضی کر لیا۔ کوئی حجت اٹھا نہ رکھی۔ دن اور تاریخ بھی ٹھہرا دی۔ جھٹ پٹ بیاہ برات کا سامان کیا۔ ہاتھوں پر سرسوں جما کر دیکھنے والوں کو حیران کیا۔ ساتھ ہی دونوں کو مانجے بٹھا دیا۔ ساتھ ہی دونوں کو بیاہ لایا۔ رفیقوں کی بھی خانہ آبادی ہوئی۔ دُہرے لطف ہوئے۔ دہری شادی ہوئی۔ عاشق معشوق یک جا ہوئے۔ فرائض حلال ادا ہوئے۔

ہوئے جمع عشرت کے اسباب کُل
وہ ایک ایک بُلبُل وہ ایک ایک گُل
مزا چہچہوں قہقہوں کا ملا
ادھر نوک ڈوبی ادھر گل کھلا
بہار جوانی کا اظہار تھا
عجب باغ تھا طرفہ گلزار تھا
محبت کی باتیں محبت کے ذکر

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 250

نہ صیاد کا ڈر نہ گل چیں کی فکر

دل آویز تھی عشق کی تخت گاہ
مصاحب اور آقا تھے نوشاہ و شاہ
شب و روز شادی تھی بے رنج و طیش
وہ خلوت، وہ جلوت، وہ صحبت وہ عیش
زبردستیوں پر سر دست تھے
وہ تینوں کے تینوں غرض مست تھے

دیدن خورشید گوہر پوش خواب ہول ناک و یافتن در آں واقعہ صورت مادر گریہ آلود و قبائے پدر تا بد امن چاک و جستن یاقوت شاہ از معبران تعبیر ایں خوب و رسیدن شاہ صاحب در عین اضطراب و عزیمت فرمودن شاہ زادہ جانب وطن با سینۂ داغ دار و خاطر پُ محن

لگا کان اے ساقی خوش عمل
سناتا ہوں ایک عبر افزا غزل
رُخ و زلف پر جان کھویا گیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا
کہوں کیا ہوئی عمر کیوں کر بسر
میں جاگا کیا بخت سویا کیا
پڑا غم کے کھانے کا جن کو مزا
وہ اشکوں سے منہ اپنا دھویا کیا
 

شمشاد

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 276

آپکا گزر ہوا ہے۔ وہاں جا کر انار سبز نوش کیا ہے اور چشمۂ حیات الحیوان کا پانی پیا ہے۔" شاہ زادہ بولا : "جی ہاں، یہ اسی کی تاثیر ہے۔ یہ بھی اک انقلاب تقدیر ہے" ملکہ بولی : "پھر آپ ہی کچھ اس تدارک فرمائیں گے۔ اب حضور ہی انہیں ہئیت اصلی پر لائیں گے۔" شاہ صاحب نے کہا : "معبود کو یاد کرو۔ اس کی رحمت سے نااُمید نہ ہو۔ اسی کوہ پر اس چشمے کا جواب ہے یعنی اک دوسرا تالاب ہے۔ اس کا نام حیات الانسان ہے۔ فی الحقیقت وہ بنی آدم کی جان ہے۔ اس میں جو شخص غوطہ لگاتا ہے۔ بہ ہئیت اصلی آ جاتا ہے۔" یاسمن پری بولی : "پھر میں جنوں کے ساتھ وہاں بھجواؤں اور اس چشمے میں نہلواؤں۔" پیر مرد نے کہا : "فقیر خود جاتا ہے اور ابھی پھرا آتا ہے۔ جنوں کے ساتھ جانے میں ایسا نہ ہو کوئی اور پیچ پڑ جائے۔ بنا ہوا کام بگڑ جائے"

یہ کہہ کر شاہ زادے کو سر دست اٹھا لیا۔ پھر قمر طلعت اور سیار کو دونوں طرف شانوں پر بٹھا لیا۔ کہا : چشم ظاہر بیں بند کر لو۔" بعد تھوڑی دیر کے فرمایا : "لو، آنکھیں کھول دو۔" آنکھیں کھولتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی کوہ ہے، وہی دور ہے مگر یہ راہ اور ہے، یہ سمت اور ہے۔ حدوں میں فرق یمین و یسار ہے۔ وہاں کی زمین فیروزئی تھی، یہاں کی گل نار ہے۔ بہار کا جوش ہے۔ پتا پتا گل در آغوش ہے۔ سبزہ رگِ یاقوت رمانی ہے۔ جو نخل ہے چنار بدخشانی ہے۔ ہر کانٹا گلاب ہے۔ ہر پتھر لعل خوش آب ہے۔ کہیں نافرمان ہے، کہیں ارغوان۔ گلبن عقیق شجری ہے۔ ایک ایک پھول پتی میں سرخی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ شفق اسی کے پرتو رنگین کا بام ہے۔ اسی سرزمین کے عکس سے بہار صبح و شام ہے۔ جلوۂ اسرار ذوالجلال ہیں۔ طائر بھی ہمہ تن لال ہیں۔ چشمے میں چشم مخمور کی شان ہے۔ موجوں پر آنکھوں کے سرخ ڈوروں کا گمان ہے۔ حبابوں سے اظہار جوانی ہے۔ پانی ہے یا بادۂ ارغوانی ہے۔ سرخ مچھلیوں کا جو عالم میں نشان ہے، یہ اسی چشمے کی ماہیت کا فیضان ہے۔ اس چشمے کی تعریف سے سیاہی شخجرہو گی۔ سرخی حرف بہ حرف ہو گی۔ اس کی تعریف میں زبان قلم لال ہے۔ مطلب پر آؤ، کدھر خیال ہے۔

غرض پیر مرد نے خورشید شاہ سے کہا : "لیجیے اس چشمۂ قدرت نما میں نہا کر سر خروئی حاصل کیجیے۔ غوطہ لگائیے اور باہر تشریف لائیے۔" سبحان اللہ، الہام تھا یا شاہ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 277

صاحب کا فرمودہ۔ شاہ زادہ یہ سُنتے ہی تالاب میں کُودا۔ بہ پر پہنچ کر جب پاؤں قائم ہوئے تو پانی نے ابھارا۔ بالائے آب آ کر لباس انسانی پہنا، جامۂ حیوانیت اتارا۔ وہ سطح آب مراۃ الجمال تھا یا مرقعٔ عالم مثال۔ پانی کی تاثیر نے کیفیت دکھائی۔ آئینہ سطح آب میں ہئیت اصلی نظر آئی۔ صاحب صورت نے اپنی صورت کا نظارہ کیا اور عکس صورت نے یہ اشارہ کیا : "برمن نگر برمن نگر شاید کہ بہ شناسی مرا۔"

شاہ زادے نے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا : "الحمد اللہ، واہ کیا اس کی قدرت ہے، واہ۔" اسی طرح قمر طلعت اور سیار بھی نہائے۔ وہ بھی بہ فضل خدا ہئیت اصلی پر آئے۔ پھر دیدۂ دیدار طلب بند کیے۔ اب جو آنکھیں کھولیں تو پردۂ قاف میں تھے۔ ہر طرف غل ہوا کہ شاہ زادہ بہ ہیئت اصلی آ گیا۔ پری زادوںنے آ کر شاہ صاحب کے قدم لیے۔ ماتم نشینوں نے شُکر کے سجدے کیے۔ جس کی آرزو تھی خدا نے وہ صورت دکھائی۔ شادیانے بجے، خوشی کی نوبت آئی۔ فرحت کی نمود سے کلفت معدوم ہوئی۔ مبارک باد کا شور ہوا، تہنیت کی دھوم ہوئی۔

گل بدن پری نے خورشید گوہر پوش سے کہا : "بس مجھے تو اسی کا انتظار تھا۔ اپنا تو صبح و شام کوچ مقام ہے۔ اب یہ سلطنت تمہارے پائے نام ہے۔ عورت پھر عورت ہے۔ مرد رونق ریاست ہے۔ خدا نے سلطنت کا وارث بھیج دیا۔ مجھے تردد سے فارغ البال کیا۔" شاہ زادے نے کہا : "میں اپنے ماں باپ کو ایک نظر دیکھ آؤں۔ پھر جو حکم ہو بجا لاؤں۔ چندے اور تأمل کیجیے۔ ابھی اس کارخانے کو یوں ہی رہنے دیجیے۔ اب تو وطن جانے کے لیے یہ صعوبت اٹھائی ہے۔ سراسر محنت بند بلا سے رہائی پائی ہے۔ شکریہ اس کا یہی ہے کہ زیارت والدین کروں۔ قضا کے پنجے سے چھوٹا ہوں تو واجب ہے کہ ادائے فرض عین کروں۔" یہ ذکر ہو رہا تھا کہ اور جاسوس بھی پھر کر آئے اور زمین خدمت چوم کر دعا و ثنا زبان پر لائے۔ ایک مخبر نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ "خانہ زاد گوہر نگار میں بھی ہو آیا مگر تمام شہر کو مرقع ماتم پایا۔ حضرت ظل سبحانی ہم چشم پیر کنعاں ہیں۔ کُل صاحبات محل نیم جاں ہیں۔" خورشید شاہ نے کہا : "ہائے، ہائے جس کے ماں باپ کا یہ حال ہو اسے کیوں کر قرار آئے۔" المختصر تقریر جاسوس کی دل پر تاثیر کر گئی۔ آخر پھر عزیمت وطن ٹھہر گئی۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 278

عزم فرمودن شاہ زادہ بہ از جانب وطن و در یاقوت نگار رسیدہ دیدۂ مادر و پدر روشن ساختن از دیدار خود۔

وہ بادہ پلا ساقی مہ جبیں
کہ دے لذت جرعۂ اولیں
دکھا دور ساغر سے راہ ثواب
مناسب ہے اب رخصت آفتاب
کہیں محو ہوتی ہے یاد وطن
کہاں ہے بہشت بریں کا چمن
نظر آئے کوثر کو موجوں کا نور
نہ ٹھہرے گا دل بے شراب طہور
وہی ہو کہ ہو برطرف ایک بار
یہ غربت، یہ کلفت، یہ رنج خمار
یہ تفریق اور تفرقہ تا کجا
کہیں رند ہیں اور کہیں مے کدا
فرح بخش خاطر ہو وہ جام دے
طبیعت ہے پُر کسل آرام دے
کہاں تک یہ گردش یہ دوران سر
سفر ہو گیا اب تو شکل سقر
قیامت ہے ہر دم کی امید و یاس
پہنچ جائیں منزل پہ منزل شناس
طلب گار فردوس ہیں مے پرست
انہیں ظل طوبیٰ ہے وہ دار بست
وہی ہو زمانہ وہی دور نیک
کہ آخر بہ اول ہے نسبت میں ایک

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 279

کمر بستگان سفر خجستہ اثر کامرانی، رہ روان صراط مستقیم شادمانی، مراجعت کنندگان وطن عیش و نشاط، باز آیندگان خانۂ مسرت و انبساط یعنی قافلہ سالاران اقلیم سخن رانی، سیاران ولایت خوش بیانی، اس افسانۂ عجیب و غریب اور یادگار روزگار کو اس طریق سے بیان کرتے ہیں۔ الحاصل جب عزم بالجزم کا گل بدن پری کو یقین ہوا تو خورشید ساہ سے پوچھا کہ "صاحب زادے، جانے کی کیا سبیل ہے؟" یہ بولے : "خداوند عالم کفیل ہے۔" یہ سن کے وہ یاسمن کی طرف متوجہ ہوئی۔ کہا : "کیوں، صاحب زادی، تم بھی جاؤ گی؟"وہ آنکھیں جھکا کر چپکی ہو رہی۔ مگر ملکہ مہ جبیں نے یہ بات کہیں : "ہاں، حضور جائیں گی، جائیں گی، یہ ضرور جائیں گی۔" اور یاسمن سے بولی : "بہن، اگلی باتیں جانے دو۔ اب تم ہی سب کی سرتاج ہو۔ کیا یہ الفت و محبت بھول جاؤں گی؟" میں تو بے تمہارے قدم نہ اٹھاؤں گی۔" اس کی تو خاموشی اس پر گواہ تھی کہ یہ سب سے چار قدم پہلے جائے گی۔

گل بدن پری سمجھ گئی۔ وہ چشم و ابرو دیکھ کر چُپ ہو رہی۔ ارماس جنی کو بلوا کر کہا کہ "ایک تخت بارہ دری نما بنواؤ اور اس پر ان سب کو بٹھا کر گوہر نگار میں پہنچاؤ۔" ساتویں دن وہ تخت تیار ہو کر آیا۔ شاہ زادۂ اورنگ زیب کو مع متعلقین اس اورنگ پر بٹھایا۔ وہ فوج جو طلسم میں گئی تھی جلو داری میں آ کر حاضر ہوئ۔ گل بدن پری نے جب خورشید شاہ کے بازو پر امام ضامن کی اشرفی باندھی، ایک پُڑیا سرمۂ سلیمانی کی بھی دی۔ کہا : "یہ کحل الجواہر قابل دید ہے۔ تمہارے والدین کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ سرمہ لگایا اور آنکھوں میں نور آیا۔ پُڑیا احتیاط سے رکھو، کہیں راہ میں تلف نہ ہو۔" یہ آبدیدہ ہوئی اور گلے سے لگایا۔ شاہ صاحب نے "فی حفظ اللہ" کہہ کر ہاتھ ملایا۔ دیوزادوں نے تخت کو بلند کیا۔ اس سر پر سلیمانی کی روانی نے ہوا کو بند کیا۔ سواری سے قدرت باری عیاں ہوئی۔ فوج دریا موج رکاب سعادت میں رواں ہوئی۔

سریر فلک تھا وہ زیبا سریر
سحاب کرم تھی وہ فوج کثیر
مہ مطلع حس اس دل میں تھا
کہے تو کہ خورشید بادل میں تھا

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 280

راوں تھا ہوا پر وہ اورنگ نور
وہاں ایک تھی راہ نزدیک و دور
رواں ہو سکے مثل تخت رواں
نہ صرصر، نہ بجلی، نہ وہم و گماں
رہا چرخ میں چرخ حیراں فلک
یہان سیر کی قاف سے قاف تک
زہے اوج اورنگ گردوں وقار
نظر آ گیا ملک گوہر نگار

خورشید شاہ نے دیو زادوں سےک ہا : "وہ جو آبادی اور اس کے قریب صحرائے پُر فضا ہے، ملک گوہر نگار کی وہی نواح دل کشا اور جاں فزا ہے اس طرف متوجہ ہو۔ اس صحرا میں چل کر تخت کو اتارو دو۔"

دیوزاد تو ہوا تھے۔ طرفۃ العین میں یہاں سے وہاں پہنچ گئے۔ اس ماہ سریع السیر کا مع افواج کواکب اس صحرا میں ورود ہوا۔ ہر دامٔ و دودہ قدرت خدا دیکھ کر سر بہ سجود ہوا۔ خورشید گوہر پوش نے قمر طلعت سے کہا : "میری طرف سے حضرت کو عرض داشت کرو۔ اور تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے مگر کچھ زنانی سواریاں منگوا بھیجو۔" ادھر سے سوار عرض داشت لیکر پہنچا۔ ادھر حضور میں اس مضمون کا پرچہ گزرا کہ "ایک تاج دار باجمعیت بے شمار فلاں صحرا میں وارد ہوا ہے۔ مشہور تو یہ کہ خورشید گوہر پوش ہے مگر قرینے سے پایا جاتا ہے کوئی سلطان کشور کشا ہے۔ اندیشہ غنیم ہے۔ مقام امید و بیم ہے۔"

بادشاہ نے وزیروں سے فرمایا ؛ "کہو تمہارے ذہن میں بھی کچھ آیا؟ یہ اور کوئی تاج ور ہے یا میرا نور نظر ہے؟ مگر دل کو بالیدگی ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ یوسف گم گشتہ وہی ہے۔" دستور المعظم نے عرض کیا : "کرامات بجا ہے۔ خانہ زاد بھی پیش خود یہی سمجھا ہے۔ اگر اور کوئی ملک گیر آتا تو زنانی سواریاں نہ منگواتا۔ ارشاد ہو تو جاں نثار جائے اور بہ چشم خود دیکھ آئے؟" فرمایا : "اچھا۔" وزیر برائے اطمینان روانہ ہوا۔ اسے تو اپنے بیٹے کی بھی لو لگی تھی۔ فی الفور جا کر شاہ زادے سے ملازمت حاصل کی۔ بیٹے کے بھی دیدار سے

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 281

مسرور ہوا۔ اس تقریب سے رنج فرقت دور ہوا۔ اللہ نے ان گلوں کو دکھایا۔ مارے خوشی کے پھولا نہ سمایا۔ کہا : "ہاں، جلدی سواریاں لاؤ اور حضرت سے بھی یہ خوشخبری کہتے آؤ۔"

پھر کیا تھا، تمام شہر میں ہلڑ ہو گیا۔ جا بہ جا چرچے ہوئے۔ سب امیر و فقیر مشتاق زیارت ہو کر دوڑے۔ بس محلات میں جو صاحبات محل اور دیوان خاص میں بادشاہ اور چند خواص رہ گئے۔ اسی دن کی امید تھی، اسی وقت کا انتظار تھا۔ زنانی سواریاں ایک طرف، کل جلوس بادشاہی آ کر موجود ہوا۔ نوبتیں بجنے لگیں۔ شہنائیاں پھکنے لگیں۔ شاہ زادہ بھی سوار ہوا، بیگمیں بھی سوار ہوئیں۔ آگے شاہ زادے کا ہاتھی، پیچھے تمام اراکان دولت جیسے براتی جلوس میں۔ کل حشم خدم خواصی میں۔ دستور المعظم ایک ہاتھ میں چنور لیے، ایک ہاتھ میں چتر زر لیے۔

شور تھا باغ خزاں دیدہ میں آئی ہے بہار
اس تجمل پہ فدا اس گل خنداں پہ نثار
دن پھرے صدمہ و اندوہ کی راتیں گزریں
عیش کے ذکر ہوئے رنج کی باتیں گزریں
دیکھنا شان خدا قدرت باری ہے یہ
آمد فصل چمن ہے کہ سواری ہے یہ
حسن صورت سے ہوئے دیدۂ حیراں روشن
ہو گیا یوسفِ گم گشتہ سے کنعاں روشن
دل کو حیرت ہوئی آنکھوں میں بصارت آئی
پھر جوانی نے کیا عود وہ ساعت آئی

غرض شان و شوکت دکھاتے، سونا چاندی لٹاتے، در دولت پر آئے۔ زنانی سواریوں کو تو محل میں اُتروا دیا۔ شاہ زادے کو دیوان خاص میں لائے۔ نور چشم کے آنے سے بادشاہ کی آنکھوں میں نور آیا۔ سرمۂ سلیمانی بھی لگایا اور لخت جگر کو بھی گلے سے لگایا۔ بیٹے کو لے کر محل میں گیا۔ماں کا کلیجا بھی ٹھنڈا ہوا۔ کحل الجواہر سے اس کی بھی آنکھیں پُر

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 282

نور ہوئیں۔ کلفتیں ایک عُمر کی دور ہوئیں۔ بیٹے بہوؤں سے گھر کی آبادی ہوئی۔ عجب طرح کی شادی ہوئی۔ منتیں اترنے لگیں، نذریں گذرنے لگیں۔ داد دہش عام ہوئی۔ رعیت شاد کام ہوئی۔ بادشاہ نے بیٹے کو تخت پر بٹھایا اور آپ گوشۂ اعتکاف میں آیا۔ سلطنت جوان ہوئی۔ ریاست کی ازسرِ نو شان ہوئی۔ خورشید شاہ نے پہلے انتظام مملکت کیا۔ بعد ازاں پردۂ قاف کی فوج کو انعام اکرام دے کر رخصت کیا۔ بس شوکتِ دل آویز نکتے تیرے۔ جس اللہ نے ان کے دن پھیرے، کہتے سنتوں کے دن پھیرے۔

ہے محل عذر کا اے خامۂ جادو تقریر
عرض کر خالق عالم سے کہ اے رب قدیر
عالم وجد میں لکھے ہیں یہ مضمون خلاف
تیری رحمت سے جوانی کی خطائیں ہوں معاف
رحم کر رحم ترا نام ہے رحمان و رحیم
نظر لطف و کرم چاہیے اے رب کریم
میں گنہ گار ہوں اور تو ہے غفور و تواب
اپنے اعمال سے مجھ رند کو آتا ہے حجاب
حالت جذب میں کیفیت معقول کہاں
میں کہاں اور سخن دل کش و مقبول کہاں
جلوۂ کشف نہ دل میں نہ زباں میں تاثیر
غیر ممکن ہے کہ ہو روح فزا یہ تقریر
قابل مدح تو یہ ذکر یہ مذکور نہیں
ہو ترے فضل سے مقبول تو کچھ دور نہیں
خشک کانٹے تری رحمت سے گُل تر ہو جائیں
یہ خزف ریزۂ ناچیز بھی گوہر ہو جائیں
خردہ بیں دیکھ کے اس کو ہو پشیمان و ذلیل
نظر آئے نہ کہیں قبح بجز حُسن جمیل

تمت

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 283

تقریظ تصنیف کتاب بے نظیر مسمیٰ بہ جادۂ تسخیر ریختۂ قلم، شاعر رنگیں خیال، ناثرِ شیریں مقال شیوا بیان، مقرر جادو اثر جناب حکیم محمد فتح یاب خان اخگر سلمہ۔

گل زارِ کائنات میں ہیں یوں ہزار گل
ان سب میں پر سخن ہے ہمیشہ بہار گل

سبحان اللہ حدیقہ آرائے گلشن کائنات و بہار پیرائے چمن موجودات نے نخل کلام کو اثمار مضامین تازہ بہ تازہ و ازہار خیالات نو بہ نو سے وہ مرقع آب و رنگ بنایا ہے کہ جس کی بہار کبھی خزاں نہیں۔ ہر چند سطحۂ چشم اس گلبن نضارت کے نظارہ سے دامن گل چیں نہیں مگر پردۂ گل سبد گل فروش ہے۔ یہ نیرنگ دیدہ بصیرت سے نہاں نہیں۔ ہر ورق شجر وادی ایمن کا، اسی کی ضو سے طبق نور، ہر حجر طور کا، اسی کے پرتو سے کحل البصر مردمک حور۔ بستان تحمید اسی کی آبیاری سے روکش گلزار ارم۔ مرغولہ سنج قدس اسی کی گل کاری سے ترانہ ریز "انا افصح العرب و العجم"

الحق ان نوبادۂ بوستان آفرینش نے آب حیات سے نشو و نما پایا ہے۔ اسی واسطے تخم اس باغبان لم یزلی نے گوشۂ طبیعت میں لگایا ہے۔ ہر چند دانہ ایک ہے مگر اختالف زمین کی جہت سے اس کا بھی مختلف احوال ہے۔ کہیں درخت خشک ہے کہیں تر و تازہ نہال ہے۔ گل زمین طبائع شعرائے عرب و عجم میں ثمر فشانی اس نخل کی مشہور ہے۔ بہار دریائے ہند کا بھی ہر زبان پر مذکور ہے۔ فرق ہر فرق حصۂ چشم امتیاز ہے۔ ورنہ ایک کو دوسرے پر تفاخر و ناز ہے۔ اگرچہ ہر گل کے لیے بوئے جداگانہ رنگ دگر ہے۔ مگر شمیم حدائز ہند دل آویز تر ہے۔ واقعی داستان سرائیان اردو زبان ریاض بیان میں عجب آہنگ سے نغمہ پرواز ہیں۔ خوش گویان عرب کے نہ یہ رنگ، بلند خیالان عجم کے نہ یہ انداز ہیں۔

شاہد سخن کلام حضور ہے۔ جو شاہد کلام مشہور نزدیک و دور ہے۔ جادۂ تسخیر یا بستان ارم کی تصویر عین السطور طرۂ عارض حور۔ بین السطور جداول عیون نور۔ معانی میان

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 284

حروف جیسے جامۂ گل میں بوئے دلآویز۔ مفہوم مابین الفاظ جس طرح پردۂ چشم میں نگاہ عشوہ ریز۔ ہر ورق ورق گل۔ ہر جملہ نغمہ بُلبُل۔ روانی طبع ہر فقرے سے آشکار۔ باغ خلد میں جنبش باد بہار۔ نام کا فسانہ۔ اصل میں بہار کاشانہ۔ مضامین رنگین۔ جلوۂ گل دریا حین۔ بندش الفاظ حسن تراکیب آئینہ خود پسندی۔ یدِ قدرت کی قلم کاری، گلشن فردوس کی چمن بندی۔ عبارت سلیس۔ زبان نفیس۔ روزمرہ صاف۔ ہر مقام محل انصاف۔ جہاں باغ کا بیان ہے، زبان عندلیب سرگرم داستان ہے۔ روایت رزم ہنگامۂ گیر و دار رستم۔ حکایت بزم جشن نوشابہ و جم۔ بیان صحرا اہل خرد کو دیوانہ بنائے۔ داستان دریا خضر کو چشمۂ حیوان سے پھیر لائے۔ جہاں کوہ کا مذکور ہے وقفِ نظر فضائے طور ہے۔ بہ ظاہر قصہ دلفریب، بہ باطن استاد ادیب۔ ورق ورق علوم بلاغت کا سبق۔ رموز معانی و بیان ہر جملہ میں درج۔ بشابیہ نازک، استعارات لطیف ہر کلمہ میں خرج۔ جس نے ایسا فسانہ خواب میں سُنا ہو سُنائے۔ جس نے اس طرح کارنامہ بیداری میں دیکھا ہو دکھائے۔

کیا بیان میں صفائی ہے؟ ثابت ہوتا ہے کہ زبان نے چشمۂ کوثر سے شست و شوپائی ہے۔ طرفہ یہ کہ مشاغل امور اوامر و امارت کثیر۔ اندیشہ ظہور ہمم ہر زمان گریباں گیر۔ خلوت میں پری رُویان محرم راز سو بہ سو کمر خدمت بستہ۔ جلوت میں ہم دمان دم ساز چار زانو مؤدب نشستہ۔ ساز ہائے دل نواز زماں زماں ایوان، استراحت سے بلند صدا۔ گاہ و بے گاہ ہنگامۂ رقص عنبریں مویان شیریں ادا۔ از صبح تا شام ہاتھوں کو داد و دہش سے کام۔ بدو آفرینش سے الی الآن خاطر کو تشویش عطا فکر انعام۔ ایسے میں تحریر نثر کا کسے دماغ۔ اس پر یہ نثر رنگیں رہین یک حرف بہار صد باغ۔ بادی النظر میں بوستان خیال، بہ تعمق فکر سحر حلال۔ سطور چند میں بہار کائنات مستور ہے۔ اگر اعجاز نہیں تو خرقِ عادت ضرور ہے۔ ازآں جا کہ یہ گل چیدہ اور گلشن انتخاب ہے۔ تاریخ اتمام بھی اس کی ریاض سیراب ہے۔ قطع تاریخ :

اللہ رے فصاحت کلام نواب
ممکن ہے کہ لکھ سکے کوئی اس کا جواب

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 285

یہ نثر ہے دل کُشا و رنگیں اس کی
اخگر تاریخ لکھ ریاض سیراب
1286ء (یہ سن عیسوی کی بجائے ہجری ہونا چاہیے)

بود تا گلشن فردوس یا رب رشک صدبستان
بہار خاطر نواب رشک صدارم بادا

تواریخ آغاز فسانہ

قطعۂ تاریخ تصنیف شاعر کُلن استاد فن زبان دان باتوقیر جناب منشی مظر علی صاحب متخلص بہ اسیر سلمہ اللہ تعالٰی۔

یہ حیدر علی خاں بہادر نے خوب
لکھی عاشقانہ حکایت نئی
عجب لفظ و معنی ہیں با آب و تاب
فضاصت نئی ہے بلاغت نئی
کہی اس کی تاریخ میں نے اسیر
کہ قصہ ہے رنگیں عبارت نئی
(1283ھ)

قطعۂ تاری طبع زاد سخن ور مشتاق یگانہ آفاق منشی سید اسمٰعیل صاحب متخلص بہ منیر۔

یم فیض حیدر علی خاں بہادر
امیر معظم وحید زمانہ
چو تصنیف فرمود ایں قصۂ نو
کہ در آب و تاب است دُرِ یگانہ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 286

معانی نایاب الفاظ شستہ
بہر نکتہ صد شوخی آہوانہ
زمن خواست تاریخ ختم کتابش
زوم غوطہ در قلزم بیکرانہ
منیر آمدایں گوہر نو بدستم
پری خانۂ حسن نامی فسانہ
(1283ھ)

قطعۂ تاریخ رقم زدہ کلک شاعر بے نظیر سخن سنج جادو تقریر منشی بر احمد صاحب متخلص بہ امیر۔

داستان حیدر علی خان بہادر نے لکھی
خاطر احباب مشتاقوں کی دل جوئی ہوئی
صاحبان ذوق کے بیدار طالع ہو گئے
جاگ اُٹھی تقدیر اہل شوق کی سوئی ہوئی
کیا فصاحت کیا بلاغت ہے زہے لطف بیاں
خلق کو مقبول بہ طرز سخن گوئی ہوئی
کیوں نہ بخشے دیدۂ و دل کو ثرم تاثیر کا
ہے یہ کھیتی تخم حسن و عشق سے بوئی ہوئی
مصرع تاریخ اس کا یوں لکھا میں نے امیر
آب کوثر سے بلا شک ہے زباں دھوئی ہوئی
(1283ھ)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 287

قطعۂ تاریخ تصنیف منشی محمد عبد البصیر صاحب بلگرامی متخلص بہ حضور۔

دستگیر غربا پشت و پناہ عالم
سرور نکتہ رساں رمز شناس اور ذکی
خسرو ملک معانی و رئیس اعظم
قبلۂ اہل سخن والی والا نسبی
ہیں سخی ابن سخی اور امیر ابن امیر
خانِ خانان جہاں سلسلہ جنبان علی

بیشۂ شیر خداوند جہاں کے وارث
حضرت کلب علی خان بہادر کے اخی
ہمہ تن حکمت و ادراک بسان لقمان
سر بسر فہم و فراست ہیں برنگِ سعدی
ہے یہ اک جادۂ تسخیر انہیں کی تصنیف
جس کے مانند کہانی کوئی دیکھی نہ سُنی
ہے زباں کیا ہی فصیح اور بلیغ اس کی واہ
فیض یاب اس سے نہ کسی طرح ہو روح فیضی
کیا عبارت میں روانی و صفا ہے دیکھو
شرم سے کوثر و تسنیم ہے پانی پانی
صفحہ صفحہ چمن باغ جناں ہے اس کا
رند و مومن کے لیے ہے یہ عجب خوش خبری
خوب ہاتف نے حضور اس کی کہی ہے تاریخ
چشم بد دسر ہے گنجینہ بلاغت کا یہی
(1283ھ)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 288

قطعہ تاریخ نتیجہ فکر فصیح و بلیغ ازلی شیخ محمد زکی بلگرامی متخلص بہ زکی مرحوم۔

کردچوں تصنیف نواب سکندر احتشام
جمخدم حیدر علی خاں آں رئیس نامدار
قصۂ دلچسپ و شیریں جادؤ تسخیر نام
ؔگفت تاریخش زکی آئینۂ باغ و بہار
(1283ھ)

قطعۂ تاریخ تصنیف لطیف شیخ کلن صاحب باشندۂ رام پور متخلص بہ عاشق ملازم سرکار۔

کیا عجب دلچسپ یہ افسانہ ہے
عشق بازی کی ہے سیدھی شاہراہ
سال ترتیب اس کا عاشق نے کہا
گلشن بے خار ہے کیا واہ واہ
(1283ھ)

از نتایج افکار جناب حشمت علی خاں صاحب باشندہ دارلسرور رام پور متخلص بہ موجد۔

موجد جو ہوئی یہ نثر تصنیف
دل تھام کے رہ گئے سخن ور
پوچھی ہاتف سے میںنے تاریخ
بولا کہ گل ریاض حیدر
(1283ھ)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 289

قطعۂ تاریخ طبع زادہ منشی الٰہی بخش صاحب خوش نویس باشندۂ رام پور متخلص بہ غریب۔

جب مرتب ہوا یہ افسانہ
سیر سے جس کی دل کو فرحت ہے
ہے عبارت میں طرفہ شیرینی
تشنہ کاموں کے حق میں شربت ہے
اہل فن دم بخود ہیں مثل کلیم
ہوش اُڑتے ہیں غش کی صورت ہے
دیکھیں گُل رُو اسے تو دل ہو لہو
تازہ رنگ بیان الفت ہے
جس نے دیکھا ہے اک نظر اس کو
مثل تصویر محو حیرت ہے
کیا کہا جائے کیا ہے یہ تقریر
سحر ہے یا کہ یہ کرامت ہے
سال تاریخ کی تھی فکر غریب
گرچہ مجھ کو نہیں لیاقت ہے
آ گیا یہ زبان پر مصرع
کچھ عجب نسخۂ محبت ہے
(1283ھ)

قطعۂ تاریخ زادۂ خاطر لالہ کنج بہاری لال متخلص بہ عاشق ملازم سرکار۔

دیکھ کر حیدر علی خاں کو یہ کہتا ہے جہاں
زیب بخش مسند سرداری و خانی ہے یہ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 290

صاحب سیف و قلم ابر کرم بحر نوال
رشک حاتم واقف سر سخن دانی ہے یہ
نثر رنگیں جادۂ تسخیر ہے اس کی لکھی
روکش ارژنگ ہے وہ صورت مانی ہے یہ
صنعتیں لفظوں میں ہیں فقرے سراپا ہیں بلیغ
خسروی اعجاز ہے ارشادِ خاقانی ہے یہ
سر جھکا آئینۂ زانو پہ جس دم بہر سال
عقل نے مجھ سے کہا بے کار حیرانی ہے یہ
خدمت نواب میں عاشق رسائی ہو اگر
عرض کر دینا کہ کیا تصنیف لاثانی ہے یہ
(1283ھ)

قطعۂ تاریخ طبع زاد میر لطافت علی صاحب ولد سید ظہور علی صاحب متخلص بہ لطافت باشندۂ مراد آباد ملازم سرکار حضرت مصنف فسانہ۔

سرکا نے داستان ایسی لکھی
توصیف سے عاجز ہیں معانی آگاہ
تاریخ لطافت نے رقم کی اس کی
لکھا یہ فسانہ خوب ماشا اللہ
(1283ھ)

تواریخ اختتام فسانہ
 

شمشاد

لائبریرین
جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 291

قطعۂ تاریخ تصنیف جناب مظفر خان صاحب متخلص بہ گرم از ارشد تلامذۂ جناب محمد ابراہیم صاحب ذوق دہلوی مرحوم۔

نواب نے جب لکھا فسانہ
مطبوع جہاں ہوا سراپا
اے گرم سخن وروں کا بازار
کشمیر سے بڑھ کے سرد پایا
ارباب سخن کو میں نے ہم دم
تاریخ کی فکر میں جو دیکھا
منظور ہوا یہ مجھ کو آخر
ہو طرز جدید کوئی پیدا
موصوف صفت کے صرف دو لفظ
تعلیم کیے خضر نے گویا
اعداد و حرور کر کے تجویز
ہر ایک کو فارسی میں لکھا
پھر ان کے عدد بھی ہندسوں میں
لکھے ترتیب سے دوبارا
جب جمع ہوئے وہ قاعدے سے
اک دُرِمُراد ہاتھ آیا
اس طور پہ سال ختم قصہ
اُردوے بلیغ سے نکالا
(1284ھ)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 292

قطعۂ تاریخ تصنیف لطیف سخن و ر رنگیں طبع آغا مرزا صاحب دہلوی متخلص بہ شاغل۔

گر دید چو ختم ایں فسانہ
در ساعتِ نیک و وقت خرم
از حکم ولی نعمت خود
فکر سن و سال شب چو کردم
ہاتف دم صبح گفت شاغل
افسانۂ دلپذیر عالم
(1284ھ)

قطعۂ تاریخ مترشحہ پختہ بنیاد آغا یوسف علی صاحب ایران نژاد متخلص بہ محوی۔

شد حکم ز سرکار پےء گفتن تاریخ
تامصرع برجستہ بروں آیدو بے لم
در بحر تفکر چو زدم غوطہ یکایک
آمد بکف از فضل خدا گوہر سالم
اکنوں توبگو محوی محزون سن سال
افسانہ بسے خوب و مصنف عالم
(1284ھ)

قطعۂ تاریخ تصنیف میاں محمد حسین صاحب متخلص بہ نیر۔

نواب عصر حیدر الی خاں فلک حشم
تصنیف ساخت جادؤ تسخیر چوں بہ اسم

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 293

نیر بجست درسن تریخ اوز دل
گفتا سروش غیب بخواں مظہر طلسم
(1284ھ)

قطعۂ تاریخ از نتائج افکار گوہر بار عباس خاں صاحب مرحوم متخلص بہ عباس۔

گر دید چو ختم ایں فسانہ امسال
بافضل خدائے پاک و لطف احمد
ایں صوری و معنوی برآمد تاریخ
ہشتاد و چہار و یک ہزار و دو صد
(1284ھ)

قطعات تاریخ طبع اول افسانہ

قطعۂ تاریخ تصنیف سخن ور شیوا زبان شاعر شیریں بیان جناب فتح یاب خان متخلص بہ اخگر۔

طبع شد کلام خاص آں چناں کہ دل می خواست
وہ چہ خط پاکیزہ خہ چہ صحب تحریر
رستم از سر اندوہ بہر سال او اخگر
میرسد ندا از غیب چاپ جادؤ تسخیر
(1288ھ)

قطعۂ تاریخ تصنیف منشی محمد عبد البصیر صاحب متخلص بہ حضور۔

چھاپا ہے عجب قصہ دل چسپ یہ امسال
خواہاں عوض نقد دل اس کا ہے زمانہ

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 294

دریائے فصاحت اب اسی سے ہے عبارت
کہتے ہیں اسے گوہر معنی کا خزانہ
ہر سطر ہے یا زلف پری زاد کا ہے دام
ہر نقطہ ہے خال رُخ محبوب کا دانہ
ہاتف نے دم فکر کہی طبع کی تاریخ
مقبول عبارت ہے فسوں ہے یہ فسانہ
(1288ھ)

قطعۂ تاریخ منں تصنیفات سید مصطفی مرزا صاحب لکھنوی متخلص بہ رشید۔

کرد ایں کتاب جمع چو نواب نامدار
رتبہ شناس و صاحب لطف و کرم رئیس

گشتم ز فکر در پئے تاریخ ای رشید
گفتہ خرد کتابِ قصص طبع شد نفیس
(1288ھ)

قطعاتِ تواریخ طبع قسہ شیریں و داستان

رنگین فسانہ دلپذیر جادۂ تسخیر متفکرہ عمدہ خیالان رعزگار ملازمان مطبع اودھ اخبار۔

قطعۂ تاریخ تصنیف شاعر بے نظیر رشک قدسی و کلیم منشی امیر اللہ صاحب تسلیم خوش نویس ملازم مطبع اودھ اخبار۔

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 295

زہے نواب عالی قدر و ذی شان
فریدوں مرتبت حیدر علی خان
کرم میں، عدل میں، علم و ہنر میں
نہیں ہمسر کوئی جس کا بشر میں
جہاں رشک جہاں فیض قدم سے
نسیم خُلد عطر آمیز دم سے
محبت خیز لکھا اک فسانہ
سراپا سوز و ساز عاشقانہ
ہر اک فقرہ زبان لذت عشق
عیاں لفظوں سے کیا کیا حسرت عشق
چھپا فضل خدا سے وہ فسانہ
ہوا مشتاقِ نظارہ زمانہ
نوید عیش دی ارباب فن کو
کیا وقف نظر حسن سخن کو
زمان طبع وہ صنعت دکھائی
کہ جس سے شان قدرت یاد آئی
صفائے حُسن خط دلچسپ و دل جُو
بہ شکل خطِ محبوب سمن رُو
بیاض آئنہ روئے سحر ہے
مسلسل سطر زنجیر نظر ہے
عذار حور سے صفحہ صفاتر
ہر اک جدول جواب آب کوثر
دم انجام اے تسلیم ناکام
خیال آیا پئے تاریخ اتمام

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 296

کیا مجھ سے مرے دل نے بیاں یہ
چھپی کیا حیرت افزا داستاں یہ
(1289ھ)

قطعۂ تاریخ تصنیف رشک شاعران حال و سلف منشی اشرف علی صاحب اشرف خوش نویس مطبع ہذا۔

افسانہ یہ دلچسپ کیا ہی چھپا
جنہوں نے سنا محو حیرت ہوئے
لکھی کلک اشرف نے تاریخ طبع
کہانی نئی سب ہیں مضموں نئے
(1289ھ)

قطعۂ تاریخ معرکہ آرائی سخن را مقدمۃ الجیش منشی فدا علی صاحب عیش تائب اڈیٹر اودھ اخبار۔

جادۂ تسخیر سا قصہ دلا
کوئی تہِ چرخِ کہن آج ہے
کیا یہ مقابل تو نہیں ہو گیا
پھیکا سا کچھ رنگ چمن آج ہے
کہتا ہے یہ حُسن خطِ دلفریب
نکھری بنی کوئی دلہن آج ہے
تیش لکھو مصرعۂ تاریخ سال
جلوۂ معشوق سخن آج ہے
(1289ھ)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 297

قطعۂ تاریخ افصح الفصھا ابلغ البلغا مولوی محمد فصیح اللہ صاحب وفا۔

چھپا کیا خوب ہے یہ جادۂ تسخیر افسانہ
سراپا ذکر ہے جس میں رقم عشق و محبت کا
فریدوں مرتبہ دارا حشم حیدر علی خاں نے
کیا تصنیف یہ نادر فسانہ نو حکایت کا
کہیں لکھی ہنسی گل کی تو بُلبُل کی کہیں زاری
کہیں شادی کا ساماں ہے کہیں غم دردِ فرقت کا
کہیں احوال وصلت ہے کہیں فرقت کا رنگ و غم
کہیں مضموں عنایت کا کہیں مضموں شکایت کا
لکھا سرو و صنوبر کو جہاں سکتے کے عالم میں
وھاں قمری کا لکھا حال سب عشق و محبت کا
نہایت عمدگی سے واں کھی بے تابی بُلبُل
بیاں جس جا پہ کچھ احوال ہے گل کی نزاکت کا
کسی جا ناز معشوقاں کہیں عاشق کی بے تابی
ٹپکتا ہے مزہ ہر ایک فقرے سے محبت کا
ملائک سُن کے کہتے ہیں فلک پر اس کہانی کو
نہیں دیکھا فسانہ کوئی اس رنگیں عبارت کا
بہ چشم غور دیکاھ جس نے نظم و نثر کو اس کی
ہوا قائل مصنف کی فصاحت اور بلاغت کا
مقفی اور مسجع ابتدا سے انتہا تک ہے
فسانہ جس نے دیکھا ہو دکھائے اس عبارت کا
سرور موجد اردو جو ہوتا زندہ عالم میں
تو رخ پر اپنے بے شک کھینچتا برقع ندامت کا

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 298

وفا مجھ سے کیا ارشاد بہر سال ہاتف نے
لکھو عمدہ چھپا افسانہ یہ عشق و محبت کا
(1289ھ)

قطعۂ تاریخ ریختۂ کلکِ شاعرِ شیریں مقال ناشر بے مثال مشہور دیار و امصار عالی منش مولوی غلام محمد خاں صاحب ایڈیٹر اودھ اخبار متخلص بہ تپش۔

ثریا مراتب فلک بارگاہ
شپہر کرم مہر عزو عُلا
وہ نواب حیدر علی خان کہ جو
ہیں مشہور سہر البیاں خوش نوا
فسانہ اُنہوں نے لکھا لا جواب
کوئی کر سکے اس کی تعریف کیا
زباں آوروں کی ہے یاں عقل دنگ
نہیں ناطقہ نطق سے آشنا
کیا شاہد معنی آراستہ
بہ طرزِ لطیف و بہ حُسن ادا
وہ رنگ بہار مضامیں کو جوش
جسے دیکھ رنگ چمن کٹ گیا
عنادل کے دل سے گیا عشق گل
نسیم سحر سے عجب گل کھلا
کرے کیونکہ پروانہ پروائے شمع
زباں کیوں نہ دے شمع اپنی کٹا

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 299

جہاں میں ہے عشق سخن کو فروغ
گل و بُلبُل و شمع کا ذکر کیا
یہ آتش ہوئی یاں تلک جاں فروز
خنک دل بھی ہے شمع ساں جل اُٹھا
عجب عاشقانہ فسانہ ہے یہ
کہ خود عشق بھی اس پہ شیدا ہوا
بڑھا جلوۂ حُسن جاں سوز اور
ہوئی زیور طبع کی جب جلا
بہ ہنجار ارباب فن اے تپش
مجھے فکر تھا سال تاریخ کا
کرد نے کہا یہ نگاریں کتاب

بہ مضمون دلچسپ ہے دلربا
(1289ھ)

خاتمۃ الطبع سابق کتاب بے نظیر جادۂ تسخیر ریختۂ قلم جادو رقم رشک قدسی و خاقانی منشی انوار حسین صاحب نسلیم سہسوانی۔

بعد حمد و ثنائے منعم حقیقی و شکر نعمت منعم مجازی تسلیم سہسوانی رقم پرداز ہے اور پرداز رقم پر ہزار ہزار جان سے صدقے، ناز قربان انداز ہے۔ مشتریوں کو بشارت ہو شائقوں کو مسرت کہ ایک معشوقہ سیہ جردہ چوچلوں کا پتلہ سرِ بازار آتا ہے بلکہ واسطے تسخیر گل زمیں خاطر عنادل منشوں کے لشکر بہار آتا ہے۔ یعنی ایک عمدہ کتا لاجواب پذیرائے طبائع شیخ و شاب بے مثل و بے نظیر اسم بامسمی جادۂ (1283ھ) تسخیر نتیجۂ فکر تنومند کرشمۂ طبع بلند، بہار۔ خیال رنگیں، تمکنت اندیشۂ متین ریختۂ کلک، جادو کار، چیکدہ خامۂ، معجز نگار، جان فصاحت، جسم بلاغت، حسن متانت، لطف سلاست، تاثیر فصیح، بیان ناظم شیوا زبان، مطلع

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 300

رنگین غزل فیض رسانی، شاہ بیتِ قصیدہ کامرانی سخن سنج و قدر دان، سخن گستر، ہنر ور و ہنر پرور، خوش رو و خوش خو، بہار بوستان عظمت و اجلال، مہر سپہر شوکت و اقبال، صولت بہروزی، دولت فیروزی فروغ ناصئیہ ابہت و کامگاری، نگینِ انگشتر شہرت و نامداری، ستودہ اخلاق، ممدوح آفاق۔ پیر رائے جوان بخت، سزاوار تاج و تخت، حاتم کرم، یحیی شیم، معنی نوال، قاآن خصال۔

دریا دل، نیسان احسان نواب محمد حیدر علی خاں دام دولتہ و زاد صولتہ مطبع نامی گرامی اودھ اخبار میں آئی۔ رونق طبع پائ۔ شاہد مراد نے دل خواہ آئینۂ ظہور میں صورت دکھائی۔ واضح ہو کہ بندے کو خوشامد کا روگ پاپلوسی مر مرض نہیں۔ کسی سے کسی وقت اٹکتی اپنی غرض نہیں۔ نہ کسی سے خواہش امداد کی نہ کسی سے طلب داد کی۔ نہ کسی کے وعدۂ مستحکم سے خرسند۔ نہ کسی کی خلاف ورزی سے گلہ مند۔ چڑ ہے لاف سے، نفرت ہے گذاف سے۔ سچ بولتا ہوں۔ پورا تولتا ہوں۔ ممکن ہی نہیں کہ اچھے کو بُرا بُرے کو اچھا کہوں۔ گویائی کی جگہ گونگا بن کر چُپ رہوں۔

فی المثل اس کتاب کی تعریف میں قلم کا امتحان لوں گا۔ پیش خود بہ اندازۂ استعداد سخن گستری کے داد دوں گا۔ لاحول ولا قوۃ، کیا میں اور کیا میری کائنات۔ وہی مثل چھوٹا منہ بڑی بات۔ سُرخ روئی یہاں محال ہے۔ زبان ناطقہ لال ہے۔ کس کی مجال کہ کچھ بولے؟ کس کا منہ کہ زبان کھولے۔ کلام عاشقانہ، درد آمیز، ذبح کرنے کو چُھری سے تیز نازک خیالی دل لبھانے پر، خوش گوئی آمادہ تنکے چُنوانے پر۔ ہر جگہ بول چال نیا جوبن عکھاتی ہے۔ زبان درازوں کی آنکھ جھپکی جاتی ہے۔ ہر فقرے میں بلا کی شوخی کہ طبع افسردہ کو پھڑکائے۔ ہر جملے میں غضب کی گرمی کہ دبی آگ کر بھڑکائے۔ مضمون وہ کلبلاتے ہوئے کہ جی میں چٹکیاں لیں۔ محاورہ وہ صاف صاف کہ جن پر انسان جان دیں۔ وہ چُلبُلی تشبیہیں کہ عاقلوں کو دیوانہ بنائیں۔

وہ اچیلی رمزیں کہ پہلوئے خاطر میں گد گدائیں۔ چشم بد دور، کنائے خوش چشموں کے اشارے۔ صریر قلم سے بند مست بُلبُل کے چہکارے۔ بلاغت پوٹ پوٹ، فصاحت پر عطارد لوٹ۔ زبان کی نرمی اس مزے کی کہ منہ میں پانی بھر آئے۔ بندش

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 301

الفاظ نے وہ ہوا باندھی کہ دل چھوٹ جائے۔ انوکھی گڑھت نئے ٹھاٹھ کی ہر ترکیب ہے۔ ہر مبتداء کی خبر نکلتی ہے۔ قریب ہے ہر مصرع کے تیور خوبوں کی چتون کو آنکھیں دکھائیں۔ استعارے ماشا اللہ ندیدوں کو چیٹک لگائیں۔ لفظ لفظ میں شوخی کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ جو مضمون ہے وہ اڑتا ہوا پری ہے۔ نثر میں نظم، طعام میں نمک ہے۔ روانی معانی چیتے کی لپک ہے۔ عبارت سلیس الفاظ نفیس۔ آمد طبع بہتا ہوا دریا۔ ہر شعر سانچے کا ڈھلا ہوا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ مصنف نے اپنا نیا سکہ بٹھایا۔ مرزا رجب علی بیگ مغفور سرور کا پرانا نقش اٹھایا۔ وہ ہندی کی چندی نکال کر عجیب نقسہ اتارا ہے کہ مدعی تک کہتے ہیں کہ گھر بیٹھے میدان مارا ہے۔ کتاب ہے کہ کوئی نیرنگ ہے۔ دیکھنے والے کا حال بیرنگ ہے۔ عجیب فسانۂ غریب نقل ہے۔ ہوش گُم دنگ عقل ہے۔ جہاں رزمیہ تحریر ہے آب سخن دم شمشیر ہے۔ مصرع مصرع خنجر کوش غلاف ہے۔ صفحہ صفحہ کمیں گاہ مصاف ہے۔ الحق یہ مصنف ہیہ کے واسطے تھا کہ جو کچھ قلم بند کیا ہے۔ سمجھے می بات ہے کہ زمین کا آشمان سے رتبہ بلند کیا ہے ورنہ فارسی کے آگے اردو کا کچھ ٹھور ٹھکانا ہے۔ بناوٹ کا منہ کالا۔ یہ بات جانتا زمانہ ہے۔ ہمانا یہ فسانہ لاجواب ہے، بے مثال ہے۔ باقی حکایت کہانی ہے، خواب ہے، خیال ہے، جادو ہے، ٹونا ہے، معجزہ ہے، کرامات ہے۔

الغرض جو کچھ ہے مار رکھنے کی بات ہے۔ اگر کہیے کہ معجزہ نہیں نہ سہی۔ جادو کا دھکوسلا ہے۔ اگر یہ بھی نہ سہی، نہ سہی۔ شریعت شعر حقیقت سخن کا ڈھرا ہے۔ بہرحال یہ کتاب اپنی خوبیوں میں یکتا ہے، فرو ہے۔ آگے اس کی اعجوبگی کے فسانۂ عجائب گرد ہے۔ کارنامہ ہے خوش مقالی کا، گلدستہ ہے رنگیں خیالی کا۔ جیسی خوب کتاب تھی ویسی خوب طبع ہوئی۔ چھپنے سے اور بھی زیادہ مرغوب طبع ہوئی۔ سیاہی میں وہ چمک کہ نظر تحقیق چکا چوند کھائے۔ کاغذ کی وہ صفائی کہ پائے نگاہ پھسلا ہی جائے۔ سواد وہ کہ دیکھا کیجے، دیدہ بصیرت کو بینا کیجیے۔ کوئی حرف نہ چھنا ہے نہ لسا ہے۔ جس کو دیکھو منبت سا ابھرا ہوا ہے۔ خط، وہ کہ اپنی صفت میں خود بولا۔ گل رخساروں کے خط کا لفافہ کھولا۔ ہر دائرہ حرف دائرہ ہے۔ مہر و ماہ کا، الفاظ و معنی میں، جلوہ ہے شام و پگاہ کا۔ المختصر بیمن سعی منشی والا منش بادشاہ کشور دانش و بینش شمع انجمن فتوت گوہر بحر مروت۔ دیباچہ کتاب قدر دانی۔ خاتمہ دفتر

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 302

فیض رسانی، مہین نازش قوت و زور فخر روز گار منشی نول کشور ماہ مئی 1872ء مطابق ربیع الاول (1289ھ) میں کمال عمدگی کے ساتھ چھپی۔ پری کی تصویر ہو کر مطبع طیض، منبع علم، مطلع عالم مرجع سے باہر نکلی۔ یار لوگ جھٹ پٹ آئیں۔ خدا کےلیے دیر نہ لگائیں۔ ہاتھوں ہاتھ لے لیں مہلت جانے کی نہ دیں۔ جو صاحب نہ لیں گے پچھتائیں گے۔ پھر ڈھونڈھے نشان بھی نہ پائیں گے۔ اُڑ چلنے پر تیار ہے۔ روکنا امر دشوار ہے۔ تماشائیوں کا ہجوم ہے۔ غُل ہے، شور ہے، دُھوم ہے۔ لمولفۂ :

مختصر قصہ مختصر گفتار
ہو مخاطب کی میرے عمر دراز

توفیق خدائے برحق نے یاری کی اور فضل معین مطلق نے مدد گاری۔ تاریخ طبع میرےہاتھ آئی کہ اس نے یہاں جگہ پائی۔

وہو ہذا

یہ کتاب ایسی چھپی فضل خدا سے عمدہ
بند تعریف میں جس کی لب تقریر ہوا
لکھو تسلیم سن طبع اگر لکھنا ہے
جوئے تسخیر مگر جادۂ تسخیر ہوا
1289ء -------------1283ء

(مندرجہ بالا سن ہجری ہوں گے)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 303

دوسری تاریخ زبان پارسی میں ہے، ایک آئینہ طلعت آرسی میں ہے۔ تاریخ حلقے کو محاصرہ کیے ہوئے ہے بلکہ معشوق کو آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ فقط قطعۂ تاریخ طبع دوم از تصانیف شاعر شیریں مقال ناظم بے مثال لالہ بھگوان دیال متخلص بہ عاقل، ملازم مطبع اودھ اخبار لکھنؤ۔

مدہوش اس افسانۂ نادر سے نہ کیوں ہوں
مستان سخن کے لیے ہے بادۂ تسخیر
عاقل سن ہجری کی تجھے فکر عبث ہے
بے ساختہ لکھ دے کہ یہ ہے جادۂ تسخیر
(1313ھ)

جادہ تسخیر ریختہ صفحہ 304

ایضاً

طبع شدچون جادۂ تسخیر بہ طرزِ بہیں
عالمی شد مشتری از بہرا و نام خدا
کلک عاقل از پےء تاریخ ہجری زدرقم
داستان دل نواز و قصۂ بحجت فزا
(1313ھ)

ختمہ الطبع حال۔ الحمد للہ کہ یہ قصۂ بے نظیر نہایت اہتمام سے بہ عہد دولت جناب منشی پراگ نرائن صاحب خلف الصدق جناب منشی نول کشور صاحب مرحوم نول کشور پریس واقع لکھنؤ میں بہ ماہ ستمبر 1895ء بار دوم حلیۂ طبع سے آراستہ ہوا۔

تمت
 

سیما علی

لائبریرین
*ریختہ صفحہ۔ 136*

بلبلاُنِ مشتاق مشاهد و گلستان شگفتہ بیانی ، طوطیان آرزومند دیدار بہارستان معانی،طائران خوش الحان بوستان سخن دانی، قمر یان گو کو زنان سرو مستان راست بیانی، ریاحینقوانین سخن کو نسیم بیان سے یوں کھلاتے ہیں ۔ شاہ زاده جو بڑھا تو ہوائے گلشن مراد آنےلگی۔ روح مزے اٹھانے لگی۔ پائے نیک روی پائے خیال بن گیا نقش قدم مرآت الجمال بن گیا، خزاں نے پیغام بہار دیا۔ بہار نے مژدو وصل گل عذار دیا۔ دل میں سرور آنے لگا۔
آنکھوں میں نور آنے لگا۔ وہ راہیں گویا ھے الارض کی راہیں ہو گئیں۔ دفعنا طنابیں زمین کھینچ گئیں بلکہ سبا کی خبر آنے لگی ۔ عمارت شہ بلقیس کی نظر آنے لگی۔ خورشید گوہر پوش نے دلمیں یہ بات کہی : شکر ہے، بعد مدت آبادی کی صورت دکھائی دی۔‘‘ آیند و روند سے جودریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہی دیار یار ہے۔ یہی یاقوت نگار ہے۔ قریب تھا کہ شادی مرگہو جائے ۔ جان زار قالب میں پھولی نہ سنائی کہا :” النی، به خواب ہے یا بیداری ، غفلت ہے یاہوشیاری؟ یہ زمین ہے یا آسان ہے؟ ہستی کا نشان ہے یا خدا کی شان ہے؟ طلوع نشہ ہے یاخمار ہے؟ ظہور سرور ہے یا کوئی اسرار ہے؟ یہ سواد ہے یا نقشِ مراد ہےوہاں سے وہ شہر کوئی دو چار کوس تھا۔ بے تابانہ دوڑا۔ بس ناکے پر جا کے دم لیا۔
خوشیاں کرتا داخل در الامارت شہر ہوا۔ پہلے ایک باغ ملا جسے دیکھ کر غنچہ خاطر کھلا ۔ سبحان اللہ،عجب باغ، جنت نشان و بہشت آثار تھا جس کا روکا آئینہ بہار تھا۔ وہ جواہر کی ترصیع، و گل کاری ۔ پھولوں کی اوٹ تھی یا چار دیواری ۔ ہر دیوار سن لطافت دکھاتی تھی شمیم گل بے تکلف نکل آتی تھی چاروں کونوں پر چار پر خلاصۂ چار گلزار تھے قصاید فردوسی کے چار مطلع نمودار تھے۔ دروازہ به عنوان بہشت کا عین تھا حوارئیں کا قرۃ العین تھا۔ دیباچہ شان شوکت،صیحفہ تحمل بند ہونے میں غنچہ کھلنے میں گل ۔ صاحب دلوں کی نشست، چوکی پر ، بندوبست سوار، پیادے، ملازم، خدام، سرگرم انتظام ومصروف اہتمام شاہ زادے نے ایک شخص سے
پوچھا : کیوں بھائی ، یہ کسی کا باغ ہے اور یہ بندوبست کیا ہو رہا ہے؟ اس نے کہا :”اےعزیز ، تو شاید تازه وارد ہے۔ ناواقف و نا آشنا ہے۔ یہ ملکہ مہ جہیں یا قوت پیش کا عیش باغہے۔ یہ گلزار ہمیشہ بہار فردوس و ارم کا چشم و چراغ ہے۔ اور جا بجا جو بندوبست و انتظام ہے یہ
ملکہ کی آمد کی دھوم دھام ہے۔ بیسن کے اور پھولے۔ شہر کا بھی جانا بھولے ۔ فرمایا : بس

——-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*137*
اب کیا چاہیے۔ کسی طرح اس باغ میں جا کر کہیں پوشیدہ بیٹھ رہا چاہیے”۔ مگر پھر سوچے کہ بند و پست کا یہ حال ہے، ہوا کا بھی گز ر محال ہے۔ یہاں تو عاشق ہے بے پر ، نہ ا ور نه زهره نیکی سے رسم و راہ ہو، نہ شناسائی، نہ قدرت و صبر نہ مجال رسائی۔ کچھ دی تردد میں کھڑا رہا۔ آخر سوچتےسوچنے یہ مضمون سوجھا۔
ظاہر میں تو روپے پیسے اشرفی جواہر کی قسم سے موجود نہ تھا لیکن بازو پر ایک اکہ الماس کا بندھا رہ گیا تھا۔ اس کو خیال آ گیا۔ کہا :اب کار پراری کیا دشوار ہے۔ اس کےسامنے روپیہ اشرفی بے کار ہے۔ یہ جواہر بیش بہا ہے کہ مفت اقلیم کا خراج جس کی قیمت کا
بیعانہ ہے۔ یہ حقیقت میں الہ ہے لینی ہے ملی زمانہ ہے۔ اس پر کی جوہری کی آنکھ پڑ اور قسمت لڑے۔ یہ سوچ کر اس اکےّ کو ہاتھ میں لے کر بڑھا۔ ایک افسر کو مر دمعقول و جو ہرشناس تجویز کیا اور اس کے پاس گیا۔ پہلے صاحب سلامت کی ۔ پھر یہ بات کہی کہ میں ایک سوداگر کا بیٹا ہوں ۔ سیاحی کے شوق میں یہ لباسِ درویشی شہروں شہروں پھرتا ہوں ۔ جی چاہتا
ہے کہ اس باغ کو بھی ایک نظر دیکھ لوں ۔ فقط اتنی اجازت پر یہ ایکہّ نذر کرتا ہوں ۔‘‘ اس جہاں دیدہ کو جو یہ جوہر نایاب نظر آیا، بے اختیار پانی منہ میں بھر آیا۔ کچھ اسی طرح کا استفسارنہ کیا۔ جھپ شاہ زادے کے ہاتھ سے وہ اگہ لے لیا۔ پہرے والے کو آواز دی کہ میاں سنتری، شاہ صاحب کو سیر کے لیے جانے دو۔ جب تک ملکہ کی سواری آئے انہیں باغ میں آنے دو”اس نے کہا : بسم اللہ جایئے ، شوق سے ایک نظر دیکھ آئیے۔ یہ سن کر شاہ زادے نے عزمِ گل گشت کیا اور ان افسر صاحب نے گھر کا راستہ لیا۔ اب کہاں کی نوکری، کیساانتظام؟ جسے خدا دولت دے پھر اسے دنیا سے کیا کام؟ أس نے اپنا سبیتاکیا اور یہ جویائے وقت ومشتاق جاناں باغ میں داخل ہوا۔ دونوں کو اپنا اپنا مطلب، اپنا اپنا مدعا حاصل ہوا۔ خورشید گوہر پوش کو ایک ایک پھول پتے سے قدرت کا تماشا نظر آیا مگر تمام باغ کو مرقع
انتظام پایا۔
شاہ زادی کے استقبال کے ارادے تھے گل سوار تھے سرد شمشاد پیادے تھے۔
سنبل کو کرب انتظار سے پیچ و تاب تھا۔ ہر پھول ولولۂ شوق سے شاہد بے نقاب تھا۔ آفتابی
سورج مکھی لیے کھڑی تھی۔ نرگس کی آنکھ دروازے سے اڑی تھی ،گل کٹرکے کی آواز پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ *138*

لگائے تھے۔ اطفال غنچه تماشے کے اشتیاق میں سر اٹھائے تھے۔ کلیاں، بلے بمبلی کی، خوشی کے مارے کھلی جاتی تھیں ۔ ڈالیاں گلوں کی آرائش سے پھولوں کی ڈالیاں لگاتی تھیں۔ سوسن
وہ زبان کو خاموشی ناگوارتھی ۔ لالے پر داغ کی گرانی، بارتھی ۔ نافرمان داؤودی کو دیکھ کر آنکھ
مار رہا تھا۔ گیندا بسنت بسنت پکار رہا تھا۔ نہریں روانی پر دل دیے تھیں ۔ موجیں بلائیں لینے کو
ہجوم کیے تھیں ۔ حباب آب جوسے کنارہ کرتے تھے۔ سواری کا جلوس دیکھنے کو رہ رہ کرابھرتے
تھے۔ ہر نہال کیف بادہ سرور سے مست۔ ہر نہرچمن به امید دیدار آئینه در دست - سبزه فرش راه
تھا۔ ہر بیل پٹڑی کا حظ مد نگاہ تھا۔ طیور نواسنج مبارک باد گاتے تھے۔ طاؤس وجد کے عالم میں
دروازے سے باہر نکلے جاتے تھے۔
شاه زاد ہ لطف و گل کشت اٹھا کر اور لوگوں کی آنکھ بچا کر ایک گوشے میں جا چھپا۔
وہاں پہرہ جو بدلا گیا تو وہ سنتری بھی بدل گیا۔ وہ افسر صاحب اپنے گھر پہنچے تلنگے کی بدلی ہو
گئی۔ اب کون پوچھتا ہے اور لوگوں کو ہار میں کیا خیال کہ باغ میں کوئی اجنبی سیر کو گیا ہے۔
باہر کے لوگ، باہر کا بندوبست کیا کیے۔ یہ چین سے درختوں کی آڑ میں چھے بیٹھے رہے۔ یہاں
یہ عاشق زار نظروں سے چھپ کر بیٹھا۔ ادھر ملکہ کی سواری آ گئی ۔ نقیبوں نے بڑھے عمرو
دولت‘‘ کی صدا دی ۔ کڑ کیتوں نے آواز لگائی ۔ سائنڈ نیوں کی چھم چھم نے اور بے قرار کیا۔ ہٹو
بچو کے شور نے ہرشخص کو ہوشیار کیا۔ وردی بیجی سلامی اتری، بگل ہوا۔ الہی ملکہ مہ جبین
سلامت‘ یہ ہرطرف غل ہوا۔ خواجہ سراؤں نے زمانے کا بندوبست کیا۔ کہاریوں نے سکھ
پال کہاروں کے کاندھوں سے اپنے کاندھے پر لیا اور باغ کے اندر لا کر لگا دیا۔ سکھ پال سے
وہ رشک ماه کلی یا آنکھ سے نگاه، یا غنچے سے خوش بویا دل سے آرزو خواصیں ایسیں چلیہیں
بھی زتھوں سے اتر اتراکر آ گئیں ۔ بہشت کی حوریں اور اندر کے اکھاڑے کی پریاں ایک جگہ
جمع ہو گئیں ۔ اس غنچے سے ہر روش گزار ہوگئی ۔ عجب گل لالہ پھولا
، عجب بہار ہوگئی۔ وہ حسنیں
نازنینیں مصروف گل گشت ہوئیں ۔ کچھ ادھر ادھر روشوں پر ٹہلینے لگیں کچھ ملکہ کے ساتھ ہو لیں۔
وہ ان کی شوخیاں، وہ خوش فعلیا، بھی اٹھلائی ہوئی یہاں بھی وہاں مکمل، جالی لوٹ کے رنگین
رنگین دوپٹے کاندھوں پر ڈالے سے ابھارے، نوکیلے انداز نکالے۔ سرو کو ان کے قامت سے
سکتہ۔ شمشاد حیرت سے کھڑا تکتا۔ کسی کے خرام ناز نے چور کے ہوش اڑائے ۔ کسی کی مستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ریختہ صفحہ 139*
چال سے طاؤس وجد میں آئے۔ کوئی نرگس سے آنکھ
لڑانے لگی ۔ کوئی غنچے کو دیکھ کر مسکرانے
گئی ۔ کسی نے پھول کٹوری میں رکھ لیے۔ کسی نے گجرے گوندھ کر تیار کیے۔ کسی کے ہاتھ میں
پھولوں کی چھڑی تھی۔ کوئی کسی کا ہاتھ میں ہاتھ لیے کھڑی تھی۔ کوئی دست حنابستہ کی بہار دکھاتی
تھی۔ کوئی کلغی پر انگلیاں اٹھائی تھی۔ ایک جوش میں آ کر دوسرے سے لپٹتی تھی ۔ ایک آگئے
بڑھتی تھی، ایک پیچھے ہوتی تھی۔ ایک عاشقانه غزلیں گاتی تھی۔ ایک بلبل کو چٹکیوں میں آڑاتی
تھی۔ کسی کی صدا کسی کی ادا کش تھی۔ کوئی اپنے جوبن پر کوئی اپنی چوب تختی پیش تھی۔ جابجا
پری زادوں کا پرا تھا۔ سبزہ رنگوں سے گزار بھرا تھا۔ اتفاق سے ان ناز نیوں کا اس طرف گزر
ہوا جہاں شاہ زادہ چھپا ہوا دیکھ رہا تھا۔ درختوں سے چاندنی کی جھلکی دکھائی دی۔ پتوں سے
آفتاب کی طلعت نمودار ہوئی ۔ دھوپ میں چھاوں اور چھاؤں میں دھوپ پائی۔ دن کو چاندنی
کے کھیت کی کیفیت نظر آ ئی ۔ کوئی جھجھکی ،کوئی ٹھٹکی تھی ۔ کسی نے کسی کی آڑ پکڑی۔ کوئی مجھک گئی، کوئی
بیٹھ گئی ۔ کسی کا کلیجہ ہاتھوں اچھلنے لگا۔ کسی کا دل دہلنے لگا۔
کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ حیرت سے آگے کا قدم آگے اور پیچھے کا قدم
پیچھے رہا۔ کوئی بولی : ابھی یہ کیا واردات ہے؟ یہ چاند ہے یا آفتاب ہے؟ دن ہے یا رات
ہے؟‘‘ ایک بولی:”میری آنکھوں کو چکا چوند ہے۔ کچھ کا کچھ نظر آتا ہے۔ ایک نے کہا
’’دھوپ چھاؤں کے کس سے میرا دل پکڑا جاتا ہے۔‘ ایک دلی زبان سے پھر مری لے کر
بولی : سی چھلاوا ہے۔‘‘ ایک آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئی اوہی، یہ شہابہ ہے۔“ ایک
کھلاڑن نے ہنس کر کہا: ” سامنے کی چوٹ ہے۔ میرا تو دل لوٹ پوٹ ہے۔ کیا صورت بھولی
بھالی ہے کیا سادہ سادہ ہے۔ تم سب کے دیدوں میں چربی چھائی ہے۔ ارے دیوانی، یہ تو کوئی
پریستان کا شاه زادہ ہے۔ آدم زاد کا بھی بنایا ہے۔ دنیا کی سیر کو آیا ہے۔ خدا نہ کرے، اس
میں کچھ نہ کچھ اسرار ہے۔ ہو نہ ہو یہ کسی کا طلب گار ہے۔‘ اور وزیر زادی نے ملکہ کے
چھیڑنے کو یہ بات سنائی: گستاخی معاف، سہاگ کی گھڑی آگئی۔ چکا تقدیر کا ستارہ ۔ لو،
مبارک ہو۔ خدانے جوڑا اتارا۔ مجھے بخت کی تو آنکھوں پر پردہ پڑا ہے۔ دیکھیے تو وہ پہلے کی آڑ
میں کون البیلا کھڑا ہے؟‘ ملکہ نے تیوری چڑھا کر کہا " اوشهکارہ ، کچھ شامت آگئی ہے۔ یہ کیا
بے حیائی ہے؟ لوخولی چو چلے کی ۔ واہ ری ٹھنڈی گرما گری ۔ اول تو یہاں غیر ذالک کہا اور اگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ریختہ صفحہ 140*

ہو گا بھی تیرا ہی سب دھگڑا ہو گا۔“ یہ کہہ کر دزدیدہ نگاہ سے جو نظر کی، تاب صبر باقی نہ رہی ۔ عشق
کے اسرار سے سر ہوئی۔ قدم لڑکھڑائے ۔ نزدیک تھا کہ اپنے بیگانے کی خبر نہ رہے۔قریب تھا کہ غش آ جائے مگر کچھ سوچ کر ادھر ادھر دیکھا بھالا۔ اسی ہم راز کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر
آپ کو سنبھالا۔ یہ دیکھ کر وہ پھر نہ چپ رہی۔ آہستہ سے یہ بات کی:” بس بس، دل کو
سنبھالئیے۔ مجھ پر ڈھی دے کر نہ ٹالیے۔‘‘ ملکہ نے کہا:’اری کمبخت زبان بند کر۔ یہ ہنسی کا
وقت ہے؟ خدا سے ڈر، یہ کیا بلا ہے۔ بے اختیار میرا دل اس طرف کھنچا جاتا ہے۔ سنبھالنے
سے طبیعت بگڑتی ہے۔ ضبط کرنے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میں بے ہوش ہوں ۔ توہی سنبھل سن
میرے سر کی سوں، ذرا آگے چل۔“ غرض شاه زادی کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ قریب اس
گئی اور غور سے نگاہ کی آنکھ سے آنکھ چار ہوئی ، یہ برچھی عشق کی سینے کے پار ہوئی ۔
رنگ رخ دیکھتے ہی زرد ہوا
بے اختیار درد ہوا دل میں
منہ سے مشکل کشا کا نام لیا
یا علی کہہ کے دل کو تھام لیا
مضطرب
جو ہوا دل بے تاب
چہرے پر چھوٹنے لگی مہتاب
جان و دل مبتلائے درد ہو
یک بہ بیک ہاتھ پاؤں سرد ہوئے
شوق نے اپنا کام تمام کیا۔ کلیجہ دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ دل میں تاثیر محبت پیداہوئی ۔ اس جمال عالم آرا کی شیدا ہوئی ۔ عشق نے نیا رنگ دکھایا۔ بیٹھے بٹھائے فتنے میں اور فتنہ اُٹھایا
چہرہ گل رنگ پرزردی چھائی،آنکھوں میں نشہ الفت کی سرخی آئی ۔ رشتہ ننگ و ناموں کو توڑا۔ اپنے بیگانے سے منہ موڑا۔ ادھر شاہ زادے نے اس نو بہار گلشن محبوبی کی جوصورت دیکھی، دل کے آئینے کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ اس چہرہ نگین کو جو تصویر
خیالی سے ملا یا سر مو فرق نه پایا۔ گل پھولا تمام
سیر بھولا بوادھر تو یہ رشکِ چمن ہمہ تن تصویر کی صورت ، ادھر وه غیرتِ گلشن سرا پا مثل آئینے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top