ثاقب لکھنوی ::::: بَلا ہے عِشق، لیکن ہر بَشر قابل نہیں ہوتا ::::: Saqib Lakhnavi

طارق شاہ

محفلین

غزلِ

ثاقب لکھنوی

بَلا ہے عِشق، لیکن ہر بَشر قابل نہیں ہوتا
بہت پہلوُ ہیں ایسے بھی کہ جن میں دِل نہیں ہوتا

نشانِ بے نشانی مِٹ نہیں سکتا قیامت تک
یہ نقشِ حق جَفائے دہر سے باطل نہیں ہوتا

جہاں میں نااُمیدی کے سِوا اُمّید کیا معنی
سبھی کہتے ہیں، لیکن دِل مِرا قائل نہیں ہوتا

تڑپنا کِس کا دیکھو گے، جو زِندہ ہُوں تو سب کچھ ہے
بَلائے عِشق کا مارا کبھی بسمل نہیں ہوتا

صدائیں دے رہا ہُوں مُدّتوں سے اہلِ مرقد کو
سبھی سوتے ہیں، لیکن یُوں کوئی غافل نہیں ہوتا

ثاقب لکھنوی
( مرزا ذاکرحسین قزلباش)
 
Top