تین نسلوں کی کہانی

ساجد

محفلین
یہ کہانی ان کیلئے ہے جن کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہو رہا۔ یہ کہانی ان کیلئے ہے جو کہتے ہیں کہ ایف سی اور آئی ایس آئی بلوچستان میں کسی غیرقانونی کارروائی میں ملوث نہیں اور ان اداروں پر بلوچ نوجوانوں کو اغوا کرنے اور انہیں قتل کرنے کے الزامات پاکستان کے دشمنوں کا پراپیگنڈہ ہیں۔ یہ کہانی ان کیلئے بھی ہے جو بلوچستان میں دن بدن بڑھتی ہوئی نفرت اور بے چینی کا ذمہ دار صرف فوج کو قرار دے کر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کہانی ایک خاندان کی تین نسلوں سے وابستہ ہے اور اس کہانی سے آپ کو پتہ چلے گا کہ اس خاندان کی اگلی نسل پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟
اس کہانی کی پہلی نسل قدیر بلوچ ہے جو بینک کا ایک ریٹائرڈ ملازم ہے۔ اس کہانی میں دوسری نسل قدیر بلوچ کا نوجوان بیٹا جلیل تھا اور اس کہانی میں تیسری نسل قدیر بلوچ کا ساڑھے چار سالہ پوتا ہے۔ اب ذرا ان تین نسلوں کی مختصر سی کہانی سن لیجئے۔ قدیر بلوچ کوئٹہ میں رہتا تھا اور یو بی ایل میں کام کرتا تھا۔ اُس نے اپنے بیٹے جلیل کو اچھی تعلیم دلوانے کی کوشش کی۔ جلیل زمانہ طالب علمی میں سیاست میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ سیاسی کتابیں پڑھتا تھا، سیاسی تقریریں کرتا اور سیاسی تحریریں لکھتا تھا۔ قدیر بلوچ کبھی کبھی اپنے بیٹے جلیل سے پوچھ گچھ کرتا کہ اُس کی سیاسی سرگرمیوں کا کیا مقصد ہے؟ جلیل اپنے والد کو بتاتا کہ وہ بلوچستان کو اُس کے آئینی حقوق دینے کا حامی ہے۔ 2006ء میں بلوچستان کے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ نواب اکبر بگٹی پہاڑوں میں شہید ہو گئے۔ ایک بوڑھے بلوچ سیاستدان کی موت نے صرف بلوچستان کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ نواب اکبر بگٹی کی لاش کسی کو دکھائے بغیر دفنا دی گئی لیکن وہ نفرت اور بے چینی کہیں دفن نہ کی جا سکی جس نے بگٹی صاحب کی موت سے جنم لیا۔ نواب اکبر بگٹی جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ تھے۔ اُن کی موت کے بعد اس پارٹی کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس پارٹی میں سے ایک نئی پارٹی نے جنم لیا جس کا نام بلوچ ری پبلکن پارٹی رکھا گیا۔ اس پارٹی میں بہت سے پڑھے لکھے لیکن ناراض نوجوان اکٹھے ہو گئے۔ قدیر بلوچ کے بیٹے جلیل کو اس پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات بنا دیا گیا۔ جلیل کا کام میڈیا سے رابطہ رکھنا تھا کیونکہ وہ پڑھنے لکھنے والا نوجوان تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو بلوچستان کے حالات میں بہتری کی کچھ امید پیدا ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُمیدوں کے چراغ گل ہوتے گئے۔ فروری 2008ء میں بلوچ قوم پرستوں نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی طرح عام انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ بلوچ قوم پرستوں کو قومی دھارے میں لانے کا ایک سنہری موقع ضائع ہو گیا اور رہی سہی کسر دھاندلی نے پوری کر دی۔ فروری 2008ء میں بلوچستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی ہر نشست پر دھاندلی ہوئی اور خفیہ اداروں نے اپنے من پسند امیدواروں کو جتوانے کیلئے کھلم کھلا مداخلت کی۔ کیسی عجیب بات تھی کہ بلوچستان جنرل پرویز مشرف کے خلاف نفرت کی آگ میں جل رہا تھا، پرویز مشرف کی حامی مسلم لیگ (ق) پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں تو شکست کھا گئی لیکن بلوچستان میں اسے اکثریت مل گئی۔ خفیہ اداروں کی سرپرستی سے کامیاب ہونے والے اکثر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے کی جرأت سے عاری تھے۔ ان سب نے مل کر بلوچستان میں ایک ایسی حکومت بنائی جس میں ایک رکن صوبائی اسمبلی کے سوا باقی سب وزیر اور مشیر تھے۔ دھاندلی کے نتیجے میں جنم لینے والی صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی بلوچستان کے حالات بہتر بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ بلوچ نوجوانوں کے اغوا اور قتل کا سلسلہ جاری رہا اور ردعمل میں پنجابیوں کو قتل کیا جانے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ تین سال قبل جب چاروں وزرائے اعلیٰ نے گوادر میں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ پر دستخط کئے تو میں نے چاروں وزرائے اعلیٰ سے درخواست کی تھی کہ آپ مل کر بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرائیں۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے نواب اسلم رئیسانی ، شہباز شریف، امیر حیدر خان ہوتی اور قائم علی شاہ کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ لاپتہ افراد کو ضرور بازیاب کرائیں گے لیکن سوائے چند کے اکثر لاپتہ افراد یا تو قتل ہو گئے یا بدستور غائب ہیں۔ یہی وہ دن تھے جب بلوچ ری پبلکن پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات جلیل کوئٹہ سے مجھے لاپتہ افراد کے نام اور پتے فیکس کے ذریعے بھجوایا کرتا تھا۔ اس نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ ایک مظاہرہ بھی کروایا لیکن پھر لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانے والا جلیل ایک دن خود بھی لاپتہ ہو گیا۔
جلیل کو اُس کے خاندان کے افراد اور دوستوں کے سامنے دن دیہاڑے ایف سی والوں نے اغوا کیا۔ جب وہ غائب ہوا تو اس کے بیٹے کی عمر صرف دو سال تھی۔ اُس کے بیٹے نے توتلی زبان میں اپنے دادا قدیر بلوچ سے پوچھا کہ میرا ابو کدھر گیا ہے؟ قدیر بلوچ نے پوتے کو دلاسہ دیا کہ تمہارا ابو کام سے کہیں گیا ہے بہت جلد واپس آ جائیگا۔ کافی عرصہ تک قدیر بلوچ کو اپنے بیٹے جلیل کی کوئی خبر نہ ملی۔ پھر ایک بلوچ قوم پرست رہنما خفیہ اداروں کی تحویل سے رہا ہوا تو اس نے قدیر بلوچ کو بتایا کہ اُس نے جلیل کو بھی ایک قید خانے میں دیکھا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد عیدالفطر کے موقع پر کسی خداترس محافظ نے اپنے موبائل فون سے جلیل کی اُسکے اہل خانہ سے بات کرا دی۔ قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ رات کے پچھلے پہر جلیل نے فون پر اُس کیساتھ پراعتماد لہجے میں بات کی اور بتایا کہ اُس پر بہت تشدد ہوا ہے۔ جلیل نے اپنے باپ سے کہا کہ میری رہائی کیلئے کسی سے بھیک نہ مانگنا۔ کچھ عرصہ مزید گزر گیا اور ایک دن پاکستان آرمی کا ایک کرنل قدیر بلوچ کے پاس آیا۔ اس نے جلیل کے بارے میں کچھ تفتیش کی۔ کرنل نے بوڑھے قدیر بلوچ سے کہا کہ بابا جی تم تو ہمیں شریف آدمی لگتے ہو۔ قدیر بلوچ نے کرنل سے کہا کہ اگر واقعی تمہیں مجھ سے کچھ ہمدردی ہے تو میرے بیٹے کو چھوڑ دو کیونکہ وہ صرف ایک سیاسی کارکن ہے۔ یہ کرنل کوئی وعدہ کئے بغیر چلا گیا۔ مزید کچھ مہینے گزر گئے اور اڑھائی سال کی گمشدگی کے بعد ایک دن بوڑھے قدیر بلوچ کو پتہ چلا کہ اس کے جگر کے ٹکڑے جلیل کی لاش تربت کے ایک ویرانے میں پڑی ہے۔ اس نے فوراً سوچا کہ اب وہ اپنے ساڑھے چار سالہ پوتے کو کیا جواب دے گا لیکن پھر اگلے ہی لمحے اُس نے ایک فیصلہ کیا۔ وہ اپنے ننھے پوتے کو لیکر تربت روانہ ہو گیا۔ جلیل کی لاش ایک ہسپتال میں رکھی گئی تھی اور مقامی انتظامیہ کے لوگوں نے قدیر بلوچ کو بتایا کہ تمہارے بیٹے پر بہت تشدد ہوا، اُس کی آنکھیں نکلی ہوئی ہیں اور ہاتھ پاؤں جلے ہوئے ہیں لہٰذا لاش کو مت دیکھو اور اسے تابوت میں ڈال کر کوئٹہ لے جاؤ۔ قدیر بلوچ نے کوئی چیخ و پکار نہیں کی۔ اس نے اپنے ننھے پوتے کے سامنے اُس کے باپ کی لاش پر سے کپڑا ہٹایا اور اسے تشدد کا ہر ایک نشان دکھایا۔ قدیر بلوچ نے لاش کی وڈیو فلم بھی بنوا لی۔ اب پوتا سوال پر سوال کر رہا تھا اور دادا سچ پر سچ بولتا چلا جا رہا تھا۔ پوتے نے پوچھا ابو کو کس نے مارا؟ دادا نے جواب دیا ایف سی اور آئی ایس آئی نے مارا۔ قدیر کا خیال ہے کہ کچھ عرصہ قبل چمالانگ میں بلوچ عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا جس میں ایک میجر صاحب مارے گئے تھے اور میجر کی موت کا بدلہ لینے کیلئے اسکے بیٹے جلیل سمیت کئی زیرحراست بلوچ نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا۔ قدیر بلوچ نے اپنے بیٹے کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کیلئے ایک درخواست دیدی لیکن مقدمہ درج نہیں ہو گا کیونکہ اُس نے ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کو اپنا ملزم نامزد کیا ہے۔ قدیر بلوچ کو انصاف نہیں ملے گا اور اس ناانصافی سے مزید تشدد جنم لے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس کا پوتا کچھ سالوں کے بعد اس کہانی کو ایک ایسا رنگ دیدے جس میں ہر طرف سرخ اندھیرا چھا جائے۔ اگر آپ اس اندھیرے سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کے سامنے دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ بلوچوں کی تیسری نسل کو قتل کر کے تربت کے ویرانوں میں پھینک دو لیکن اگر آپ پاکستان سے سچی محبت کرتے ہیں تو آپ کیلئے دوسرا راستہ بھی ہے۔ بلوچوں کی پہلی نسل کو انصاف دیدو۔ قدیر بلوچ کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے اہل خانہ کیساتھ بیٹھا ہے۔ ان سب کو انصاف مل جائے تو شاید بلوچوں کی تین اداس نسلوں کو روشنی کی کوئی کرن مل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلم کمان
حامد میر
 
Top