تیل کی بڑھتی قیمتیں اور عالمی معیشت

ساجد

محفلین
انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کے اعلی تجزیہ کار فاتح بیرولی کہتے ہیں کہ 2012 میں اگر تیل کی اوسط قیمت 120 امریکی ڈالر رہتی ہے تو اس سے تیل کی درآمد کرنے والے ممالک پر غیر معمولی بوجھ پڑے گا جو کہ2.2 ٹریلین امریکی ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا ۔ جو روزانہ کے حساب سے5.5 بلین امریکی ڈالر بنتا ہے۔
1970 سے ہر اقتصادی کساد بازاری کا سبب تیل کی بڑھتی قیمتیں ہیں۔ آج کل اگرچہ عالمی معیشت کے حوالے سے گھریلو پیداواری یونٹوں کا تیل پر قدرے کم انحصار قدرے کم ہے لیکن قیمتیں پھر بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں، خاص طور پر خستہ حال معیشت کی بحالی کے نقطہ نظر سے۔
توانائی کی بلند قیمتیں صارفین کی قوت خرید میں کمی کا باعث ہیں جو دیگر مدات میں کٹوتی کر کے یا اپنے قرض میں اضافہ کر کے اسے پورا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بیرول کہتے ہیں 'موجودہ قیمتیں اوسط کے اعتبار سے سال 2008 کے مالی اعتبار سے برے سال کے برابر ہیں اور بالکل اسی طرح سے یہ عالمی معیشت کو دوبارہ مشکل میں ڈالنے کے خدشات سے بھرپور ہیں'۔
ان سلائیڈز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تیل کی بڑھتی قیمتیں کیسی بے چینی پیدا کر سکتی ہیں۔
===========
ملخص من
 

x boy

محفلین
جناب ابھی تیل کی عالمی منڈی میں وہ حال ہے جس بارہ میں کہا جاتا " دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا،،،
پاکستان میں بہت سی جگہہ تیل نکلتا ہے بہت سے بیرونی کمپنیاں کام کررہی ہیں لیکن اس سال حام تیل کی قیمت میں بہت کمی آنے کی وجہ
سے یہ ساری کمپنیوں نے اپنا وائنڈاپ شروع کردیا،،،
 
Top