تیری بے رخی نے کہیں کا نہ چھوڑا غزل نمبر 46 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب​

مکاں کا نہ چھوڑا مکیں کا نہ چھوڑا
تیری بے رخی نے کہیں کا نہ چھوڑا


محبت میں رسوا ہوئے اس قدر کہ
مجھے دل نے ہاں اور نہیں کا نہ چھوڑا

کہا تھا نہ عشقِ مجازی نہ کرنا
محبت نے دنیا و دیں کا نہ چھوڑا

کیا خوب گمراہ زمانے نے مجھ کو
مگر میں نے دامن یقیں کا نہ چھوڑا


پلاتے رہو دودھ ڈس لے نہ جب تک
ابھی اس نے سانپ آستیں کا نہ چھوڑا


وہ ابلیس جس نے کئے لاکھوں سجدے
کوئی ٹکڑا اس نے زمیں کا نہ چھوڑا


وہ ملعون منکر ہوا حکمِ رب کا
تکبر نے اس کو کہیں کا نہ چھوڑا

ا
سب ہی توڑے شارؔق نے دنیا سے ناطے

ذکر لیکن اس نازنیں کا نہ چھوڑا
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کی اصلاح کی جا سکتی ہے کہ بحر و عروض کی اغلاط موجود نہیں
مکاں کا نہ چھوڑا مکیں کا نہ چھوڑا
تیری بے رخی نے کہیں کا نہ چھوڑا
.. مفہوم سمجھ نہیں سکا، تکنیکی طور پر درست

محبت میں رسوا ہوئے اس قدر کہ
مجھے دل نے ہاں اور نہیں کا نہ چھوڑا
... ہوئے اور مجھے میں شتر گربہ ہے، 'کہ' دو حرفی باندھا گیا ہے
محبت میں رسوا ہوا اس قدر میں
یا
محبت میں اس درجہ رسوا ہوئے ہیں
ہمیں دل.....

کہا تھا نہ عشقِ مجازی نہ کرنا
محبت نے دنیا و دیں کا نہ چھوڑا
.. کہا تھا نا' کا محل ہے

کیا خوب گمراہ زمانے نے مجھ کو
مگر میں نے دامن یقیں کا نہ چھوڑا
.. گمراہ گمرہ کے طور پر آ رہا ہے، الفاظ/ترتیب بدل کر درست کیا جا سکتا ہے جیسے
کیا دہر نے مجھ کو گمراہ گرچہ

پلاتے رہو دودھ ڈس لے نہ جب تک
ابھی اس نے سانپ آستیں کا نہ چھوڑا
.. درست، مطلب جو بھی ہو

وہ ابلیس جس نے کئے لاکھوں سجدے
کوئی ٹکڑا اس نے زمیں کا نہ چھوڑا
.. تکنیکی طور پر یہ بھی درست

وہ ملعون منکر ہوا حکمِ رب کا
تکبر نے اس کو کہیں کا نہ چھوڑا
.. درست

سب ہی توڑے شارؔق نے دنیا سے ناطے
ذکر لیکن اس نازنیں کا نہ چھوڑا
.. سب ہی نہیں، 'سبھی' درست ہے
ذکر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے، کاف پر زبر غلط، جزم درست
مگر ذکر اس نازنیں کا....
 
Top