تہران کی گفتاری فارسی کے خد و خال

حسان خان

لائبریرین
بہ نامِ خداوندِ جان و خرد
(ہستی اور عقل کے مالک خدا کے نام سے)​

فارسی زبان کا موجودہ منظرنامہ دوگانگیِ لسان (diglossia) پر مشتمل ہے یعنی فارسی کی معیاری ادبی زبان اور فارسی گو علاقوں میں بولے جانی والی فارسی بولیوں میں وسیع تفریق پیدا ہو چکی ہے۔ اور یہ فارسی بولیاں نہ صرف ادبی زبان سے متفاوت ہیں، بلکہ آپس میں بھی کئی اختلاف رکھتی ہیں۔ ایک دوسرے سے دور جغرافیائی منطقوں کی فارسی بولیاں تو آپس میں اتنی متفاوت ہیں جتنی اطالوی اور ہسپانوی یا اردو اور پنجابی زبانیں متفاوت ہیں، یعنی وہ دونوں بولیاں تقریباً باہم قابلِ فہم نہیں ہیں۔ دوسری طرف، ادبی زبان ایک ہی ہے جسے بچے مکاتب میں سیکھتے ہیں اور جو بین العلاقائی گفتگو کا ذریعہ بنتی ہے۔
اس لسانی تفریق کی بنیادی وجہ جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ فارسی اپنی ابتداء سے ایک صدی قبل تک بین الاقوامی زبان تھی، جسے مغرب میں بوسنیا سے لے کر مشرق میں بنگال تک مکاتب میں بچوں کو پڑھایا جاتا تھا اور جسے اس پورے وسیع خطے کے اہلِ قلم حضرات اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا ذریعہ بناتے تھے۔ اُس دور میں فارسی سیکھنے اور فارسی لکھنے والوں کی اکثریت وہ تھی جن کی مادری زبان فارسی نہیں تھی۔ ایسے میں وہ اُسی شعری و نثری اسلوب کی پیروی کرتے تھے جو شیخ سعدی کے زمانے میں رائج ہو گیا تھا۔ لہذا فارسی کی ادبی زبان میں لچک کا نہ ہونا اور اس کی وحدت کا برقرار رہنا فطری بات ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے فارسی کے لیے رحمت کی بات ہے۔ کیونکہ انگریزی دانوں کو محض چار سو سال پرانی شیکسپیئر کی زبان سمجھنے کے لیے خصوصی لسانی مطالعے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ فارسی دان حضرات گیارہ سو سالہ پرانی رودکی سمرقندی اور فردوسی طوسی کی تحریریں بغیر کسی مسئلے کے سمجھ لیتے ہیں اور ان میں غرابت محسوس نہیں کرتے۔ گفتاری بولیاں چونکہ لچک دار ہوتی ہیں اس لیے وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی اور ایک دوسرے سے الگ ہوتی رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج فارسی کی گفتاری بولیاں ایک دوسرے سے مختلف ہو چکی ہیں۔
ویسے تو ہر فارسی گو علاقے کی بولی جدا ہے، لیکن جغرافیائی لحاظ سے انہیں تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایرانی فارسی بولیاں، افغان فارسی بولیاں اور تاجک فارسی بولیاں۔ پھر ان بڑے گروہوں کے اندر بھی مزید تقسیم در تقسیم کی جا سکتی ہے مثلاً ایرانی گروہ میں تہرانی، تبریزی، اصفہانی اور مشہدی بولیاں نمایاں ہیں، افغان گروہ میں کابلی، ہراتی، بلخی، ہزارگی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جبکہ تاجک گروہ میں بخارائی، خجندی اور بدخشانی اہم بولیاں ہیں۔
یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بھلے تینوں فارسی گو ممالک میں بہت ساری علاقائی بولیاں رائج ہیں، لیکن جہاں تک ایک پورے ملک کی بات ہے، تینوں ملکوں میں کسی ایک بولی کو وقار کا رتبہ حاصل ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے پاکستان کی مثال دیتا چلوں۔ ہمارے ملک میں ہر صوبے بلکہ ہر علاقے کی اردو کے لہجے اور ساخت میں فرق ہے۔ لیکن چونکہ یہاں کراچی سب سے بڑا شہر ہے، اور برقی ذرائع ابلاغ کے مراکز یہیں قائم ہیں اور اکثر ٹی وی چینلوں میں کراچی کی زبان ہی استعمال ہوتی ہے، لہذا کراچی کی اردو کا پھیلاؤ دوسرے لہجوں کے مقابلے میں وسیع تر ہے، اور اس سے پورے ملک کے لوگ آشنا ہیں۔ اسی طرح تاجکستان میں یہ وقار بخارا (اور اب دوشنبہ) کی بولی کو حاصل ہے، افغانستان میں کابلی بولی کو جبکہ ایران میں یہ حیثیت تہرانی بولی کو ہے۔
معیاری ادبی فارسی صرف تحریروں، رسمی تقریروں اور خبرناموں میں استعمال ہوتی ہے۔ بقیہ ساری چیزوں مثلاً باہمی گفتگو، ڈراموں فلموں کی زبان، گانوں وغیرہ کے لیے گفتاری زبان ہی کا استعمال ہوتا ہے۔ ادبی فارسی کا سیکھنا تحریری زبان پڑھنے کے لیے یقیناً ضروری ہے، لیکن اگر ٹی وی یا فلم کی زبان سمجھنی ہے تو ادبی فارسی کا اُس میں استعمال بہت قلیل ہے، اور لامحالہ گفتاری زبان سیکھنی پڑے گی۔
اس مضمون میں میری کوشش ہے کہ ٹی وی اور فلموں میں استعمال ہونے والی تہران کی گفتاری فارسی کے خد و خال واضح کروں۔ کابلی اور تاجکی فارسی بولیاں بھی بہت ضروری اور دلچسپ ہیں، خاص طور پر ازبک لب و لہجے کی منفرد تاجک بولی میں تو بہت زیادہ دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ اس لیے انشاءاللہ اُن کے بارے میں بھی کبھی لکھوں گا۔

جاری ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تہرانی بولی کی شکل گیری
قاجار شاہی دور سے پہلے تک تہران صرف ایک چھوٹا سا فاقدِ حیثیت قصبہ تھا جسے 'رے' کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس قصبے کے نصیب اُس وقت پلٹنا شروع ہوئے جب قاجاریہ سلسلے کے بانی آغا محمد خان قاجار نے اسے دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا اور خود یہاں مستقر ہو گیا۔ قاجاری بادشاہ نے اپنا لشکر بھی اس شہر میں لا کر آباد کر دیا۔ یہ لشکر قاجار، افشار، خلج اور شاہسون وغیرہ ترک قبائل پر مشتمل تھا۔ قاجاری بادشاہ خود بھی ترکی گو تھے، لیکن اُن کی ساری تربیت فارسی زبان کے زیرِ اثر ہوئی تھی۔اور وہ اپنے جملہ امور کے لیے فارسی ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ اس طرح قاجاری دور میں تہران کی اکثریتی آبادی ہجرت کر کے آنے والی ترک اشرافیہ اور ترک لشکریوں پر مشتمل تھی جنہوں نے بتدریج فارسی زبان کو اپنی مادری زبان کے طور پر اپنانا شروع کر دیا تھا۔ اُن کی اپنائی جانے والی فارسی میں اُن کی پچھلی مادری زبان کا اثر و رسوخ ہونا لازمی شے تھا۔ اسے 'لسانی ذیلی طبقہ' یا substratum کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک زبان اب مادری زبان تو نہیں رہتی لیکن اُس کا اثر نئی مادری زبان میں برقرار رہتا ہے۔ اس کی پاکستانی مثال یہ ہے کہ کراچی میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی اپنی 'مادری زبان' تو اردو ہے لیکن اُن کے ماں باپ پنجابی بولا کرتے تھے۔ لہذا اُن کے اردو لب و لہجے میں پنجابی زبان اور مہاوروں کا اثر نمایاں رہتا ہے۔ اسی طرح تہران میں ترک مہاجروں نے فارسی کو تو پوری طرح اپنا لیا، لیکن اُن کی گفتاری فارسی میں بہرحال ترکی لہجہ، ترکی الفاظ اور ترکی مہاورے استعمال ہوتے رہے۔ یہی ترکی زدہ لہجہ مزید ترقی پا کر تہرانی لہجہ بن گیا جو اب پورے ایران میں پھیل گیا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ بات کا تذکرہ خالی از لطف نہیں ہو گا۔ صفوی بادشاہ بھی ترکی گو تھے اور اُنہوں نے جب تبریز سے اپنا دارالحکومت اصفہان منتقل کیا تو وہ اپنے ساتھ اردبیل اور تبریز کی اشرافیہ اور اپنا قزلباش لشکر بھی اصفہان لے آئے تھے۔ اُنہوں نے بھی فارسی زبان بولنا شروع کر دی اور موجودہ اصفہانی بولی کو اُن کے دور کی دین سمجھا جا سکتا ہے۔لسانی لحاظ سے جو کچھ اصفہان میں صفوی اشرافیہ کے ساتھ گذرا تھا، کم و بیش وہی کچھ تہران میں قاجاری اشرافیہ کے ساتھ گذرا۔

جاری ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تلفظ کی خصوصیات
  • واوِ مجہول اور یائے مجہول کی آواز سرے سے مفقود ہے۔ یعنی شَیر (lion) اور شِیر (دودھ) دونوں شِیر (sheer) کی طرح پڑھے جاتے ہیں۔ اور روز کو ruz پڑھا جاتا ہے۔ اس میں ایران کے تمام لہجے متفق ہیں۔ عثمانی سلطنت میں رائج فارسی کا بھی یہی حال تھا۔
  • ق اور غ میں فرق ختم ہو گیا ہے اور دونوں کو غ پڑھا جاتا ہے۔ یہ آذربائجانی ترکی کا اثر ہے۔
  • غنہ صامتوں یعنی م اور ن سے پہلے آ کا مصوت واوِ معروف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
    خانہ -> خونہ
    نان -> نون
    بادام -> بادوم
    آرام -> آروم
  • 'نہ' کے سوا ہر جگہ پر ہائے غیر ملفوظہ کو e پڑھا جاتا ہے۔
    فریدہ -> faride
  • مصوت اَ 'ہا' سے پہلے مصوت آ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
    بہار -> باہار
    بہانہ -> باہانہ
  • زیر کو e پڑھا جاتا ہے۔
    کِتاب -> ketab
  • پیش کو o پڑھا جاتا ہے۔
    تُرک -> tork
  • 'می' سے پہلے ن کا زبر (a) زیر (e) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
    namigoyad -> nemigoyad
    namidanam -> nemidanam
  • اگلے ہجے میں زیر کی آواز ہو تو لفظ کے ہجائے مقدم میں مصوت اَ مصوت اِ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
    rasidan -> residan
    zamin -> zemin
  • لفظوں کے آخر میں مصوت کے بعد آنے والے ر اور ز حذف ہو جاتے ہیں۔
    چطور -> چطو
    ہنوز -> ہنو
    امروز -> امرو
  • اگر، مگر اور آخر جیسے لفظوں کے آخر کا ر ہائے غیر ملفوظہ میں تبدیل ہو جاتا ہے جسے e پڑھا جاتا ہے۔
    اگر -> اگہ
    مگر -> مگہ
    آخر -> آخہ
    دیگر -> دیگہ
  • الفاظ کے آخر میں آنے والے دو صامتوں میں اگر پہلا صامت ساکن ہو تو دوسرا صامت حذف ہو جاتا ہے۔
    دست -> دس
    وقت -> وخ (ق-> خ)
    چند -> چن
    نیست -> نیس
  • ست st اور زد zd کے صامتی گروہ بالتریب ss اور zz میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
    دستہ -> دسّہ
    دزدی -> دزّی
  • جمع کی علامت ہا الف مدہ کی طرح پڑھی جاتی ہے۔
    کتاب ہا -> کتابا
  • مضارع کے صیغۂ غائب واحد کا 'د' حذف ہو جاتا ہے اور اُس کی جگہ ہائے غیر ملفوظہ (e) آتی ہے۔
    می کند -> می کنہ mikone
    می خواند -> می خونہ mikhune
  • مضارع اور ماضی کے صیغۂ غائب جمع کا 'د' بھی حذف ہو جاتا ہے۔
    می کنند -> می کنن mikonan
    می کردند -> می کردن mikardan
  • بہت سے افعال اپنی مخفف شکلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
    می رود -> میرہ mire
    می روی -> میری miri
    می شود -> میشہ mishe
    می شوند -> میشن mishan
    می گوید -> میگہ mige
  • پہلے ہجے میں اگر e کی آواز ہو اور دوسرے ہجے میں i کی، تو پہلے ہجے کی آواز بھی ای i میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
    بِگیر begir -> بیگیر bigir
  • علامتِ مفعول را کو ro یا o میں مبدل کر کے بولا جاتا ہے۔
    کتاب را بخوان -> کتاب رو بخوان یا پھر کتابو بخوان۔
  • فعل امر، مضارع اور ماضی کے صیغۂ حاضر جمع کی علامت 'ید' 'ین' میں بدل جاتی ہے۔
    کنید -> کنین
    می کنید -> می کنین
    خواندید -> خواندین
    می رقصیدید -> می رقصیدین
جاری ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دستوری خصوصیات
  • است کی جگہ پر ہائے غیر ملفوظہ آتا ہے۔
    این کتاب است -> این کتابہ in kitabe
  • ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہونے والے الفاظ کے بعد اگر است آئے تو ہائے غیر ملفوظہ کا مصوت e اَ میں بدل جائے گا۔
    اُو فریدہ است oo faride ast -> اُو فریدَہ ست oo faridast
  • 'کی' لاحقہ بعض اسماء کے بعد بطور ظرف ساز اور صفت ساز استعمال ہوتا ہے۔
    راست -> راستکی (یعنی سچ، سچا، حقیقت میں)
  • شخصِ سومِ مفرد کے ضمیر کے لیے 'اُو' کے بجائے 'اُون un' کا استعمال ہوتا ہے۔
    آن چیزی کہ می خواہم -> اُون چیزی کہ می خوام (خواہم -> خوام)
  • 'آنہا' کے بجائے 'اُونا' استعمال ہوتا ہے۔
  • لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ وہ فعلِ ماضی اور مضارع میں جدا ضمیر کے بجائے متصل ضمیر کو استعمال کرتے ہیں۔
    اُو رفت -> رفتش raftesh
    اُو گفت -> گفتش goftesh
    اُو ہست -> ہستش hastesh
  • حروفِ اضافہ کے بعد بھی ضمائرِ متصل استعمال کرنے کی روش ہے۔
    از اُو پرسیدم -> ازش پرسیدم azesh porsidam
  • 'بہ' اور 'با' کے بعد ضمائر کو متصل کرتے وقت بیچ میں 'ہ' کی آواز آ جاتی ہے۔
    بہ اُو گفتم -> بہش گفتم behesh goftam (بہش = بہ + اُو)
    با تو حرف می زنم -> باہات حرف می زنم
  • 'در' کی جگہ پر 'تُو'اور 'برائے' کی جگہ 'واسہ' استعمال ہوتا ہے۔ اور 'چہ' کی جگہ پر 'چی' کہا جاتا ہے۔
    در اتاق -> تو اتاق tu otagh
    برائے چہ؟ -> واسہ چی؟ vase chi
  • 'نزدیک' کے بجائے 'دمِ' استعمال ہوتا ہے۔
    نزدیکِ در -> دمِ در
  • جو افعال جہت اور حرکت کی نشاندہی کرتے ہیں، اُن کے ساتھ 'بہ' حذف کر دیا جاتا ہے اور اسم فعل کے بعد آخر میں لے آیا جاتا ہے۔
    بہ کراچی رفتم -> رفتم کراچی
    بہ تہران آمد -> اومد تہرون
  • مکان کے معنی میں 'در' بیشتر موقعوں پر حذف کر دیا جاتا ہے۔
    من در خانہ بودم -> من خونہ بودم
    شما در ادارہ بودید -> شما ادارہ بودین
  • تشنہ ہستم اور گرسنہ ہستم وغیرہ کی جگہ پر بے شخص فعلی شکلوں کو استعمال کرنے کا رواج ہے۔
    تشنہ ہستم (میں پیاسا ہوں) -> تشنہ ام ہست -> تشنمہ teshname (مجھے پیاس ہے)
  • بے صبرانہ خواہش کے اظہار کے لیے امر سے بعد دیگہ (دیگر -> دیگہ) کا استعمال ہوتا ہے۔
    برو دیگہ boro dige = چلے بھی جاؤ!
  • ماضیِ قریب کا اختتامی 'ہ' حذف ہو جاتا ہے۔
    رفتہ ام -> رفتم
    رفتہ است -> رفتست raftast
    رفتہ ایم -> رفتیم
  • ماضیِ قریب اور ماضیِ سادہ میں فرق تکیے stress کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ماضیِ سادہ میں ماقبل آخر ہجے پر تکیہ ہوتا ہے جبکہ ماضیِ قریب میں تکیہ آخری ہجے پر منتقل ہو جاتا ہے۔
    ماضیِ سادہ = ráftam
    ماضیِ قریب = raftám
  • تحقیر کے لیے بھی اسماء کے آخر میں ہائے غیر ملفوظہ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔
    مردہ marde
    پسرہ pesare
  • مفعولی جملوں میں بھی مفعول کی جدا ضمیر کے بجائے بعض دفعہ فعل کے بعد متصل ضمیر استعمال کی جاتی ہے۔
    مرا کشت -> کشتِم koshtem
    مرا بہ رستوران برد -> بردِم رستوران bordem restoran
  • اسماء کے ساتھ اضافی ضمائر کا اتصال کرتے وقت شخصِ اولِ مفرد کے سوا ہر جگہ ہجائے ماقبل پر زیر آتا ہے۔
    کتابًم ketabam
    کتابِت ketabet
    کتابِش ketabesh
    کتابِمون ketabemun
    کتابِتون ketabetun
    کتابِشون ketabeshun
جاری ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فعلِ مستقبل
ویسے تو ادبی فارسی میں مستقبل کے لیے ایک خصوصی زمانہ tense موجود ہے، لیکن گفتاری زبان میں وہ شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے۔ اُس کی جگہ پر فعلِ حال ہی کو مستقبل کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
فردا خواہم آمد ->فردا میام (می آیم -> میام)

فعلِ مستقبل اُسی وقت استعمال ہوتا ہے جب واقعہ کا بہت بعید مستقبل میں وقوع ہونا طے پایا ہو، یا پھر کسی بات کے مستقبل میں ہونے کی تاکید کرنی ہو۔

فعلِ استمراری
کلاسیکی فارسی میں حالِ سادہ کے لیے مضارع استعمال ہوتا تھا مثلاً روم (جاتا ہوں)، گویم (کہتا ہوں) وغیرہ۔۔۔ اور اس میں استمرار اور جریان کے معنی پیدا کرنے کے لیے 'می' کا اضافہ کر دیا جاتا تھا جیسے می روم (جا رہا ہوں)، می گویم (کہہ رہا ہوں)۔
جدید تہرانی فارسی میں مضارع شکل کا استعمال صرف امر یا تمنائی فعل میں رہ گیا ہے۔ اسے سادہ حال کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ سادہ حال کے لیے مضارع سے پہلے 'می' کا اضافہ کیا جاتا ہے۔
می روم = جاتا ہوں
می گویم = کہتا ہوں

استمرار کے معنی پیدا کرنے کے لیے تہرانی فارسی میں ایک نیا زمانہ پیدا ہوا ہے جسے 'داشتن' کے مضارع کی مدد سے بنایا جاتا ہے۔ اس کی گردان نیچے دے رہا ہوں:
دارم می روم / دارم میرم = میں جا رہا ہوں
داری می روی / داری میری = تم جا رہے ہو
دارد می رود / دارہ میرہ dare mire = وہ جا رہا ہے
دارید می روید / دارین میرین = آپ جا رہے ہیں
دارند می روند / دارن میرن = وہ (جمع) جا رہے ہیں

ماضیِ استمراری بنانے کے لیے 'داشتن' کی ماضی سے متعلق شکلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
داشتم می رفتم = میں جا رہا تھا
داشتی می رفتی = تم جا رہے تھے
داشت می رفت = وہ جا رہا تھا
داشتید می رفتید / داشتین می رفتین = آپ جا رہے تھے
داشتند می رفتند / داشتن می رفتن = وہ (جمع) جا رہے تھے۔

خیال رہے کہ ان استمراری افعال کی منفی شکلیں استعمال نہیں ہوتیں۔ یعنی 'میں نہیں جا رہا ہوں' کے لیے 'نمی روم' ہی کہا جائے گا۔
یہ زمانہ بول چال میں عام ہے، لیکن ابھی تک قلمکار اسے ادبی زبان میں استعمال کرنے سے تکراتے ہیں۔ فی الحال تحریری زبان میں اس زمانے کا استعمال ناولوں کے مکالموں یا چھوٹے بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں تک محدود ہے۔ صحافتی یا علمی زبان میں اس کا استعمال کبھی نہیں ہوتا۔

جاری ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ترکی الفاظ کا استعمال
قاجار دور کی یادگار کے طور پر تہرانی بولی میں بے شمار ترکی کے الفاظ باقی رہ گئے ہیں جو بول چال میں عام استعمال ہوتے ہیں، لیکن ادبی زبان میں مستعمل نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ الفاظ مندرجہ ذیل ہے:

داداش = بڑا بھائی
یواش = جلدی
قاشق = چمچہ
آیِزنہ = بہن کا شوہر، بہنوئی
تُپُق = زبان کی ناگہانی لغزش یا لکنت
چاخان = خوشامدی، چاپلوس
چغلی = غیبت (اردو میں بھی مستعمل ہے)
سَوگُلی savgoli = محبوب
شلتاق = نزاع، غوغا
قایِن = شوہر کا بھائی، دیور
قبراق = چالاک
قُرت = گھونٹ
قشنگ = خوبصورت

ماضیِ نقلی
ترکی زبان میں ماضی کی دو الگ الگ قسمیں استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ایک قسم اُس وقوعے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جسے متکلم نے خود دیکھا ہو یا جس کے وقوع پذیر ہونے کا اُسے پورا یقین ہو اور دوسری قسم اُس وقوعے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کا علم متکلم کو ثانوی ذرائع سے ہوا ہو، یعنی کسی سے یہ بات سنی ہو یا گرد و پیش سے واقعے کا اندازہ لگایا ہو۔ ماضی کی یہ دوسری قسم ترکی سے تہرانی فارسی میں بھی آ گئی ہے، جسے ماضیِ نقلی کہا جاتا ہے۔ یہ زمانہ کلاسیکی فارسی میں ناپید تھا لیکن اب جدید ادبی فارسی میں رفتہ رفتہ استعمال ہونے لگا ہے۔

ماضیِ نقلی بنانے کے لیے کسی بھی مصدر کے بُنِ ماضی میں 'ہ' یعنی ہائے غیر ملفوظہ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے:
اُو رفت = او رفتہ (است)
من رفتم = من رفتہ ام
الخ

خیال رہے کہ ماضیِ قریب اور ماضیِ نقلی دونوں کی شکلیں ایک ہی سی ہوتی ہیں، لہذا سیاق و سباق کی مدد سے معنی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
اس ماضی کو بھی 'می' کا لاحقہ لگا کر استمراری شکل دی جا سکتی ہے:
می رفتہ است، می کردہ ام، می گفتہ اند وغیرہ

ماضیِ نقلی کے استعمال کی مثالیں:
یادم می آید سال ہا پیش در بارۂ این خیلی مطالعہ کردہ ام۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ میں نے سالوں پہلے اس بارے میں مطالعہ کیا تھا۔ (یاد آ رہا ہے، پوری طرح سے یقین نہیں ہے۔)

می گویند دیروز در یک تصادف دہ نفر کشتہ شدہ اند۔
کہا جا رہا ہے کہ کل ایک حادثے میں دس لوگ مارے گئے ہیں۔ (یعنی میں نے لوگوں سے سنا ہے، خود نہیں دیکھا۔)

بہ زبانِ اردو شعر می گفتند۔
وہ اردو میں شعر کہتے تھے۔
بہ زبانِ اردو شعر می گفتہ اند۔
(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) وہ اردو میں شعر کہا کرتے تھے۔


یہ مضمون تہرانی فارسی بولی کا جامع مطالعہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے، بلکہ یہ مبتدیوں کو تہرانی بولی سے متعارف کرانے کی صرف ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ امید ہے کہ علاقہ مند افراد اس مختصر مضمون سے مستفید ہوں گے۔

اس مضمون کی تیاری میں ان منابع سے استفادہ کیا گیا ہے:
تاریخچهٔ مختصر لهجهٔ فارسی - شہرنامہ
لهجهٔ تهرانی - فارسی ویکی پیڈیا
لهجهٔ تهرانی یا فارسیِ تہرانی - انسائیکلوپیڈیا اسلامیکا
وام‌واژه‌های ترکی در لهجهٔ گفتاری تهرانی - فارسی ویکی پیڈیا
The Iranian Languages - Gernot Windfuhr
Persian and Tajik - Gernot Windfuhr and John R. Perry

ختم شد!
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوبصورت معلومات سے بھرپور تحریر
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم حسان بھائی
 
Top