تہذیبِ نو سے چھن گیا کردار ہے انسان کا----برائے اصلاح

الف عین
@محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
---------
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
-----------
تہذیبِ نو سے چھن گیا کردار ہے انسان کا
اس دور میں پورا ہوا جو تھا مشن شیطان کا
--------
پیچھے لگایا ہے جہاں کو اس طرح ابلیس نے
سب چھوڑ بیٹھے راستہ ہیں دیکھئے رحمٰن کا
---------
جو رہبروں نے کی خیانت اس وطن میں آج تک
-------
کرتے رہے ہیں وہ خیانت جو بنے تھے رہنما
کرتے نہیں کیوں سامنا وہ لوگوں کے بہتان کا
--------------
جانا خدا کے سامنے ہے ہر کسی نے ایک دن
میزان ہو گا جب وہاں اور وزن پھر ایمان کا
----------------
سب خوف کھاتے ہیں یہاں پر نیکیوں کے کام سے
ملتا نہیں ہے جب صلہ کچھ لوگوں پر احسان کا
-------------
انسان میں ہیں وحشتیں حیوان سے بڑھ کر یہاں
کیسے کریں گے فرق ہم حیوان سے انسان کا
-----------------
کرتا ہے ارشد آپ سے یوں بے وفائی کا گلہ
رکھنا پڑے گا کچھ بھرم اپنے کئے پیمان کا
 

الف عین

لائبریرین
عجز بیان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور بیانیہ کو نثر کے قریب کریں
کردار ہے انسان کا کی سیدھی نثر 'انسان کا کردار ہے' ہوتی ہے.۔ یہ 'ہے' کا تعلق 'چھن گیا' سے ہے، یہ آپ کو ہر بار بتانا ہو گا۔ بس یہ مثال کافی ہے بیانیہ کے بارے میں
 
الف عین
محترم کیا اس طرح چل سکتا ہے
----
تہذیب نو نے چھینا ہے کردار جو انسان کا
ایسے ہی تو پورا ہوا ہے سب مشن شیطان کا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تہذیب نو نے چھینا ہے کردار جو انسان کا
ایسے ہی تو پورا ہوا ہے سب مشن شیطان کا
چھینا ہے میں چھینا کے الف کا اسقاط اور 'ہی تو' میں ہی کی ی کے اسقاط کے علاوہ 'تو' مکمل طویل کھنچتا ہوا اچھا نہیں لگتا۔
مفہوم کے اعتبار سے کیا تہذیب یا کوئی بھی شے یا شخص انسان کا کردار چھین سکتا ہے؟ ہاں، کردار کی اچھی باتیں، اچھی صفات ضرور چھینی جا سکتی ہیں لیکن پورا کردار نہیں۔
اور میرے خیال میں آپ بھی ان سب باتوں سے واقف ہوں گے اور میری بات نئی نہیں لگی ہو گی۔ بس اپنی یہ عادت بدلیے کہ بغیر غور کیے کہ کیا ممکنہ غلطی ہو سکتی ہے، جلدی سے کچھ نہ کچھ تبدیلی کر کے پوسٹ کر دیتے ہیں جس سے میرے اعتراض والی بات تو دور ہو جاتی ہے لیکن نئے اعتراضات پیدا ہو جاتے ہیں
 
الف عین
تین عدد متبادل مطلع لکھے تھے، شائد ان میں سے کوئی آپ کو بہتر لگے
--------------
قرآن ہے اک رابطہ رحمٰن سے انسان کا
یہ روکتا ہے راستہ انسان سے شیطان کا
-----------
ہم کو دکھایا راستہ ، پیارے نبی ، رحمٰن کا
بدلہ نہ کوئی دے سکے گا آپ کے احسان کا
-----------
میرے نبی نے جو دکھایا راستہ ایمان کا
بس اک طریقہ ہے وہی اللہ کے عرفان کا
-----------
 

الف عین

لائبریرین
تینوں مطلعوں میں بیان کی کوئی غلطی نہیں، پھر چوتھا ہی آپ کو کیوں بہتر لگا جو پوسٹ کیا۔ ان سب میں مفہوم کی علطی ہے۔
١۔ میں انسان سے شیطان کا راستہ روکنا بے معنی ہے
٢ میں پہلا مصرع یہ واضح نہیں کرتا کہ نبی، آپ نے رحمان کا راستہ دکھایا!
٣ میں راستہ عرفان کا طریقہ کیسے ہو سکتا ہے؟
 
الف عین
------------
ہر وقت جو انسان کو ہے سامنا شیطان کا
انسان بچتا ہے تبھی گر فضل ہو رحمٰن کا
---------------
پیچھے لگایا ہے جہاں کو اس طرح ابلیس نے
سب چھوڑ بیٹھے راستہ ہیں دیکھئے رحمٰن کا
---------
جو رہبروں نے کی خیانت اس وطن میں آج تک
-------
کرتے رہے ہیں وہ خیانت جو بنے تھے رہنما
کرتے نہیں کیوں سامنا وہ لوگوں کے بہتان کا
--------------
جانا خدا کے سامنے ہے ہر کسی نے ایک دن
میزان ہو گا جب وہاں اور وزن پھر ایمان کا
----------------
سب خوف کھاتے ہیں یہاں پر نیکیوں کے کام سے
ملتا نہیں ہے جب صلہ کچھ لوگوں پر احسان کا
-------------
انسان میں ہیں وحشتیں حیوان سے بڑھ کر یہاں
کیسے کریں گے فرق ہم حیوان سے انسان کا
-----------------
کرتا ہے ارشد آپ سے یوں بے وفائی کا گلہ
رکھنا پڑے گا کچھ بھرم اپنے کئے پیمان کا
 

الف عین

لائبریرین
مراسلہ #2 دیکھیں، میں نے صرف مثال کے لئے مطلع میں الفاظ کی بندش کی اغلاط بیان کی تھیں۔ باقی اشعار تو آپ نے بغیر کسی تبدیلی کے پوسٹ کر دیے ہیں! شاید ہر شعر میں روانی متاثر ہے، تنافر، جملے کی غلط بنت، یا بھرتی کے الفاظ کی موجودگی کے باعث۔ میری پھر یہی خواہش ہے کہ آپ خود ہی انہیں پہچان کے دور کریں۔ میں. کب تک ہر غلطی یا غلط بندش کو بتاتا رہوں، اس طرح آپ کبھی اغلاط سے پاک غزل نہیں کہہ سکیں گے
 
Top