تھی گرمئ خیال بیابان جل گئے

جنید عطاری

محفلین
تھی گرمئ خیال بیابان جل گئے
ہوش و خرد سمیت دل و جان جل گئے

دل تو مرا گیا ہی مگر دل کے ساتھ ساتھ
کتنے ہی حسرتوں کے نمک دان جل گئے

عشقِ صنم نے شعلۂ دل کو دی وہ ہوا
سامان کفر و ورثۂ ایمان جل گئے

رِندوں نے صُوفیوں نے سراہا مرا سخن
کیا پارسی جلے کیا مسلمان جل گئے

یوں چاک سے اٹھایا کہ اک شاہکار تھا
مجھ آدمی سے قدسی و شیطان جل گئے

آسان جانتے تھے بہت انتہائے عشق
پر ابتدائے عشق کے دوران جل گئے

اللہ جانے کتنوں کو اُن کی لگن لگی
سنتا تو ہوں کروڑوں گریبان جل گئے

شب کرنے بیٹھا جو مری بیتابیاں شمار
آدھی نہیں گنیں لب و دندان جل گئے

اُن کے لبِ گلاب کی لالی کو دیکھ کر
بلبل گل و بہار و گلستان جل گئے

اُمّید لے گیا تھا گدا ہو کہ در پہ میں
ظالم کی کج ادائی سے ارمان جل گئے

شب بزم تھی، نگاہ تھی اور خستہ تن جنیدؔ
برتی وہ بے نیازی کے اوسان جل گئے

جنید عطاری​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top