تھک کے ہونے لگے نڈھال تو پھر؟۔ اختر ضیائی

شیزان

لائبریرین
تھک کے ہونے لگے نڈھال تو پھر؟
بڑھ گیا عشق کا وبال تو پھر!

جسم کیا روح تک ہوئی گھائل
ہو سکا گر نہ اندمال تو پھر؟

جس کو رکھا ہے شوق سے مہماں
کر گیا گھر ہی پائمال تو پھر!

ہجر تو مستقل اذیت ہے
اس نے جینا کیا محال تو پھر!

بھول جانا تو کیا عجب اس کا
روز آنے لگا خیال تو پھر!

رازداں ہی تو ہے بھروسا کیا!
چل گیا یہ بھی کوئی چال تو پھر؟

کر لیا ہے دماغ کو قائل!
دل بھی کرنے لگا سوال تو پھر

عشق دو چار دن کی بات نہیں
یوں ہی بیتے جو مال و سال تو پھر

سخت نازک ہے دل کا آئینہ
تم نہ اس کو سکے سنبھال تو پھر!

مان جائیں گے آپ کو اختر
بچ گئے اب کے بال بال تو پھر!


اختر ضیائی
 
Top