تھرڈ ڈویژن حاصل کرنے والے کو فیل تصور کیا جائے گا!

طالوت

محفلین

آپ کی اردو اس قدر کمزور نہیں جس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔۔ ویسے بھی آٹھ نو گھنٹے کی نوکری کے ساتھ اتنے نمبر قابل ستائش ہونے چاہییں :)
مگر لاہور کے رکشہ ڈرائیور نے ٹاپ کر کے ہمیں اس قابل بھی نہ چھوڑا ۔۔
وسلام
 

جیا راؤ

محفلین
آپ کی اردو اس قدر کمزور نہیں جس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔۔ ویسے بھی آٹھ نو گھنٹے کی نوکری کے ساتھ اتنے نمبر قابل ستائش ہونے چاہییں :)
مگر لاہور کے رکشہ ڈرائیور نے ٹاپ کر کے ہمیں اس قابل بھی نہ چھوڑا ۔۔
وسلام

یعنی آپ کسی قابل نہیں رہے۔۔۔ مان لیا جائے۔۔۔؟ :grin:
 

شمشاد

لائبریرین
شکر ہے آج آپ کو بھی فرصت مل گئی۔ ایسی کیا مصروفیات پال لی ہیں جو محفل کو وقت نہیں دے پا رہیں؟
 

طالوت

محفلین
کسی قابل سے کیا مراد بھئی ؟ قابل ستائش نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔ (کیا اس کی اردو بھی ٹھیک کروانا پڑے گی؟)
ذرا شمشاد کے مراسلے کا جواب دیں ۔۔۔۔۔
وسلام
 

شہزاد وحید

محفلین
میرا بھی یہی خیال ہے کہ کم از کم 40 فیصد نمبروں پر ہی امیدوار کو کامیاب قرار دیا جانا چاہیے ۔۔
وسلام
ہمارے یہاں (گوجرانوالہ) میں یہ ہو گیا ہے۔ یعنی میٹرک اور انٹر میں %40 نمبرز والا ہی پاس ہے۔ اور پنجاب یونیورسٹی نے بیچلرز میں %45 مارکس والا سٹوڈنٹ پاس طے کیا ہے۔
ویسے ایک بات ہے پاکستان کی کوئی بھی پالیسی ایک جگہ کھلوتی تو ہے نہیں کہ کسی چیز پر اطمینان کا اظہار کیا جائے۔ آج کچھ اور ، اور کل کچھ اور۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھٹی جماعت میں ہوا تھا تو انگلش لازمی قرار دے دی گئی تھی اور انگلش جو کہ پہلے چھٹی جماعت سے "اے بی سی" کر کے پڑھانا شروع کی جاتی تھی اچانک پہلی جماعت سے پڑھانی شروع کر دی گئی۔ اور چھٹی جماعت کی اے بی سی والی کتاب بدل کر سٹوریز اور پوئمز والی کتاب آ گئی۔ بندہ پوچھے جس نے انگلش پڑھی نہیں وہ اب یہ کتاب کیسے پڑھے۔ خیر میں اس معاملے میں خوش قسمت تھا کہ پرائیویٹ سکول کا طالبعلم تھا اور پہلی جماعت سے ہی انگلش سے واقف تھا۔ چلو یہ تو ایک مثبت قدم تھا جو کہ غلط طریقے سے اٹھایا گیا لیکن اصل بونگی تو محکمہ تعلیم نے تب ماری جب میں آٹھویں جماعت پاس کر کے نویں میں گیا تو پتہ چلا جی اب نویں اور دسویں جماعت کے پیپرز اکٹھے نہیں بلکہ علیحدہ علیحدہ ہونگے۔ اور کتابیں بھی نئی آئیں گی۔ صرف اردو کتاب کے بارے میں پتہ چلا کے آدھی اس سال اور آدھی اگلے سال۔ باقی کتب کا ہم انتظار ہی کرتے رہے کہ کب چھپ کر مارکیٹ میں آئیں۔ باقی کتب سال کے آخر میں آئیں اور کمپیوٹر کی کتاب جو کہ پہلے بلکل بچگانہ سی اور پتلی سی تھی ایک دم اتنی موٹی کر دی۔ اگلے سال بھی ایسا ہی ہوا کتب انتہائی دیر سے مارکیٹ میں آئیں۔ اور سونے پہ سہاگہ پیپر پیٹرن بھی بدلہ گیا تھا اور وہ پیپرز سے کچھ عرصہ پہلے ہی پتہ چل سکا۔ خیر ان سب کے باوجود میں میٹرک میں %71 نمبر لینے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اس وقت کے گریڈ سسٹم دیکھیں ذرا %71 والے کو +B دیا اور اگلے ہی سال گریڈ سسٹم بدل دیا اور %70 والے کو A گریڈ دینا طے پایا۔ خیر تب سے لیکر اب تک کوئی 5 بار نظام بدل چکا ہے۔ کبھی نویں دسویں کو اکٹھا کر دیتے ہیں کبھی الگ۔ کبھی ٹوٹل مارکس 850 کر دیتے اور کبھی1050۔

میرے گھر میں کوئی پڑھا لکھا نہیں ہے اس لئیے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں تھا۔ خودی جا کر ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ کالج لائف کے بارے میں سنا تھا کہ کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی، موجاں ای موجاں ہوتی ہے۔ جب اس کا عملی تجربہ ہوا تو واقعی میں نے موجیں کی۔ کچھ دوست بھی ایسے ہی بن گئے جس کی وجہ سے میں کبھی کالج گیا ہی نہیں دو سال میں۔ رزلٹ کا میں نے کبھی گھر پتہ نہیں چلنے دیا کی میں ہر پیپر میں فیل ہوتا ہوں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نہ کبھی ایف ایس ای کے دور میں کالج گیا ہی نہ تھا اور نہ میں نے کتب خریدی تھیں نہ مجھے کوئی لفظ آتا تھا FSC میں۔ پھر بھی میں %49 نمبرز لے کر پاس ہو گیا نقل لگا کر۔ یہ محکمہ تعلیم کی ایک اور بہت بڑی ناکامی اور خراب پالیسی ہے کہ ایک ایسا سٹوڈنٹ جسے کچھ بھی نہیں آتا اسے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد کچھ سمجھ آئی اور میں نے ایک کامرس کالج میں ایڈمیشن لے لیا جو کہ پنجاب یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے اور وہاں سے میں نے دو سال کا بی کام کیا ہے اور مزے کی بات سنیئے، کالج میں ہر دفعہ ٹاپ میں نے کیا ہے اور فائنل ایگیمز میں بھی %75 مارکس لیئے ہیں۔ ہے نہ عجوبہ :) اور اب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایڈمیشن لینے کے خواب دیکھ رہا ہوں کیوں کہ مجھے پتہ ہے کہ میرے اچھے نمبر ہیں۔

لیکن ایک بات کا مجھے ہمیشہ دکھ رہے گا کہ ایف ایس سی میں میرے %50 سے کم مارکس ہیں جس کہ وجہ سے میں کبھی میں PHD, M.Phil.MS وغیرہ نہیں کر سکتا کیوں کہ کوئی بھی یونیورسٹی پورے academic career میں %50 سے کم مارکس والے کو ان میں داخلہ نہیں دیتی۔ لیکن پھر دل کو تسلی بھی دیتا ہوں کہ محکمہ تعلیم کی نا اہلی ہی کی وجہ سے تو آج میں گریجویٹ ہوا ہوں اور ماسٹرز میں داخلہ لینے والا ہوں۔ ان کی اتنی بڑی مہربانی :grin:
 

طالوت

محفلین
بڑی درد ناک کہانی ہے آپ کی دراصل ہمارے تعلیمی نظام کی ۔ خیر حالات تو میرے بھی ایسے ہی رہے مگر اسلام آباد اور کراچی بورڈ کے چکروں نے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ سب سے بڑی مصیبت مختلف بورڈ الگ الگ کتابیں الگ الگ معیار ۔ اسی لئے لوگ پرائیویٹ اداروں کر ترجیح دینے لگے ہیں ۔ خیر نمبر تو آہستہ آہستہ پچاس فیصد تک لے جانے چاہیں کہ کامیابی اسی کو سمجھا جائے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تعلیم معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں ایک ہی ذریعہ تعلیم اور معیار کو بھی اپنایا جائے ۔ ایسا نہ ہو کہ چند ادارو‌ں سے پڑھے ہوئے کسی اور جہان کی مخلوق معلوم ہوں ۔
وسلام
 

شہزاد وحید

محفلین
بڑی درد ناک کہانی ہے آپ کی دراصل ہمارے تعلیمی نظام کی ۔ خیر حالات تو میرے بھی ایسے ہی رہے مگر اسلام آباد اور کراچی بورڈ کے چکروں نے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ سب سے بڑی مصیبت مختلف بورڈ الگ الگ کتابیں الگ الگ معیار ۔ اسی لئے لوگ پرائیویٹ اداروں کر ترجیح دینے لگے ہیں ۔ خیر نمبر تو آہستہ آہستہ پچاس فیصد تک لے جانے چاہیں کہ کامیابی اسی کو سمجھا جائے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تعلیم معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں ایک ہی ذریعہ تعلیم اور معیار کو بھی اپنایا جائے ۔ ایسا نہ ہو کہ چند ادارو‌ں سے پڑھے ہوئے کسی اور جہان کی مخلوق معلوم ہوں ۔
وسلام
نہیں درد ناک تو نہیں :) شاید میرے لکھنے کا انداز ایسا ہو گیا ہو۔ ہاں ٹحیک ہے کر دینا چاہیے 50 پرسنٹ لیکن اگر کلرکی کی تعلیم کے سٹینڈرڈ کو ہائی کرنا ہے اور اسے محدود لوگوں تک ہی رکھنا ہے تو ساتھ ساتھ متبادل نظام بھی تو پیش کرنا چاہیے نا۔ جیسے کہ skilled labour۔ ملک میں بڑے لیول پر ٹیکنیکل انسٹیوٹس کھلنے چاہیے۔ جہاں لوگوں کو ہاتھ کا ہنر سکھایا جائے۔ لیکن اور بہت بڑا مسلئہ یہ ہے ہمارے ملک میں لیبر کی نا کوئی عزت ہے اور نہ ہی لیبر کو مناسب اجرت دی جاتی ہے۔ حالانکہ کئی بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا یہی راز ہے کہ وہاں کلرک کم اور ہنر جاننے والے زیادہ ہیں۔ لیکن یہاں تو آج کل ہر کوئی MBA اور ACCA کر کے بڑی کمپنیز کے مینجر بننا چاہتا ہے اور طے شدہ ناکامی کے بعد ملک کی بیروزگاری میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
تھرڈ ڈویژن حاصل کرنے والے کو فیل تصور کیا جائے گا!

ایک خبر کے مطابق بلوچستان کے وزیر تعلیم شفیق محمد نے محکمہ تعلیم کو تجویز پیش کی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں تھرڈ ڈویژن حاصل کرنے والے کو فیل تصور کیا جائے گا۔

مزید تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیں!

ڈگری کو میری لیجئے ، اچار ڈالیے!
میں تھرڈ ڈویژنر ہوں ، مجھے مار ڈالیے!

(سید ضمیر جعفری)
:rollingonthefloor: :devil: :monkey:

ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کی شرح 99 یا 100 فیصد اس لئے ہوتی ہے کہ وہاں اگر کھیت میں بھی کوئی کام کرنے والا ہوگا اس کو صرف لکھنا پڑھنا بھی آتا ہو تو اس کو تعلیم یافتہ کے زمرے میں شامل کیا ہوتا ہے۔
 
تھرڈ ڈی ویژن کو ختم کرنے سے پہلے امتحانی سسٹم کو ٹھیک کرنا مناسب ہوگا۔
کچھ میری ہی مثال لیجئے۔ ماشاءاللہ ویسے تو میں نے کوئی کلاس تھرڈ ڈی ویژن میں پاس نہیں کی ہے مگر انفرادی سبجیکٹس میں بی اے کے انگلش کے پیپر میں میرے تھرڈ ائیر میں 40 اور فورتھ ائیر میں 30 مارکس آئے (کل مارکس 75 ہر پیپر میں سے) جو کوئی یہی تھرڈ ڈویژن بنتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ گومل یونیورسٹی میں اس وقت دو ہی بڑے انگلش ڈیپارٹمنٹ تھے ایک گومل یونیورسٹی کا اور دوسرا بنوں میں۔ اور میں نے دونوں سال اپنے کالج میں انگلش کے پیپر میں ٹاپ کیا تھا۔ باقی سارے سٹوڈنٹس کا نتیجہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس سے بھی‌مزے کی بات یہ کہ میرے اپنے بی اے ہی کے کلاس فیلوز میں سے تین نے سی ایس ایس کیا ہے اور جن میں سے دو پولیس اور ایک ڈی ایم جی گروپ میں ہے۔ شاید آپ لوگ سی ایس ایس کے امتحان اور اس میں انگریزی زبان کے عمل دخل سے واقف ہوں۔
میری معلومات کے مطابق ہمارا ایک کلاس فیلو اب بنوں یونیورسٹی میں انگلش کا لیکچرر ہے باقی بھی کچھ اسی طرح ہیں۔
جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے میں خود ایف پی ایس سی کے ذریعے اسلام آباد میں انگریزی کا لیکچرر اپوائنٹ ہوا (مع 7 دوسروں کے - پورے پاکستان سے تقریباُ 850 سے زیادہ امیدواروں نے تحریری امتحان دبا تھا) مگر جاب چھوڑ کر اب انگریری لنگوسٹکس میں یوکے سے پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور یہاں بھی ان شاء اللہ توقع سے زبادہ اچھا جارہا ہے۔
مزبد یہ کہ میرے بی اے کا امتحان 1999 میں ہوا تھا مگر 2004 میں مجھے اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے میری انگریزی اور دوسری لسانی قابلیتوں کی بنیاد پر جاب کی پیشکش بھی کی تھی۔ اور میرا اپنا ماننا ہے کہ میری انگریزی اب بھی 1999 سے کچھ زیادہ امپرو نہیں ہوئی۔
اب آپ لوگ اندازہ لگائیں کہ آخر کون بی اے کی انگریزی میں فرسٹ ڈویژن لے گا۔ میرے خیال میں اگر 1999 کا حال اب بھی ہو تو شاید خود وزیر موصوف بھی تھرڈ ڈی ویژن میں ہی پاس ہونگے یا شاید فیل۔ تو آخر یہ سب ڈرامہ کس کے لیے ؟
 
Top