تھام کر ہاتھ بات کی اس نے

تھام کر ہاتھ بات کی اس نے
اف رے کیا واردات کی اس نے

مجھ بے چارے پہ دید کی دولت
رفتہ رفتہ 'زکوٰۃ کی اس نے

شمس چہرے سے دن نکالا پھر
لیل زلفیں تھیں رات کی اس نے

سرخ ڈوروں سے نین کے باندھا
شیریں لہجے سے مات کی اس نے

وہ جو مطلب سے بات کرتا تھا
آج مطلب کی بات کی اس نے

اتصالی ہو روح سے ایسے
خواہشِ شش جہات کی اس نے
-----------------------------
سید علی رضوی
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھئی، یہ اتنی اچھی نہیں ہے غزل، زکوۃ اور مات ’دی‘ جاتی ہے ’کی‘ نہیں جاتی۔
 
Top