تپاکِ جاں سے وہ طرزِ ستم گری نہ رہا

عباد اللہ

محفلین
لاجواب بخدا دل خوش ہوا گیا ، شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں ۔
تپاکِ جاں سے طرزِ ستم گری کے نہ رہنے کا کیا مطلب ہے؟
مجھے تپاکِ جاں کی ترکیب قطعی طور پر حشو معلوم ہوئی ہے یہاں۔ :baringteeth:
تپاکِ جاں کو ڈیڈیکیشن کے معنوں میں برتا ہے نامعلوم درست یا غلط


رمز اور طرز وغیرہ تو مذکر استعمال ہوتے ہیں۔ نگاہ متفق علیہ طور پر مؤنث ہی ہے۔ اگر کوئی نظیر مذکر کی اساتذہ کے ہاں ہے تو پیش کرو۔:waiting:
اگر گستاخی پر محمول نہ کریں تو مجھے یہ کہنا ہے کہ یہاں آپ سے تسامح ہوا میں نے نگار کہا ہے جو متفق علیہ طور پر مزکر ہے نظیر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ، اساتذہ کو میں نے نہیں پڑھا جون ایلیا کا مصرع یاد آتا ہے
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
بجز کے بعد کہ اور پھر خارِ مغیلاں ہے اور پھر ہو جراحتِ دل۔ نحوی مار ڈالیں گے تمھیں کسی دن۔
غالبؔ کے دور تک اردو اتنی صاف نہیں ہوئی تھی۔ ان کی جانب سے ایسی باتیں گوارا کی جا سکتی ہیں۔ مگر داغؔ کے بعد اس طرزِ کلام کا کوئی جواز نہیں رہا۔ جو گناہ غالبؔ نے اس لیے کیے کہ وہ داغؔ کے پیشرو تھے، وہ تمھیں معاف نہیں کیے جائیں گے۔
ٹائیپو ہے کہا یوں ہے
بجز کہ خارِ مغیلاں سے ہو جراحتِ دل
نحویوں کی ایسی تیسی "یہ ہماری زبان ہے پیارے":p
گستاخی معاف اسے درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں

عباد نے 'غالباً' یہاں مگر کو شاید کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ :giggle:
-

بہت عمدہ شعر۔ بہت اچھا خیال۔ بہت اچھے طور پر کہا ہے
شکریہ

غالبؔ نے ایک جگہ کچھ ایسا بھی کہا تھا کہ جہاں کہیں تقطیع میں الف دبتا ہے تو گویا میرے سینے میں ایک تیر لگتا ہے۔ مرشد کی پوری نہ سہی، کچھ اتباع اس معاملے میں بھی کرو۔ انھوں نے کا اور تھا کے علاوہ شاید ہی کہیں الف گرایا ہو
اس میں ہمدم بھی بھرتی کا ہے یہ شعر نکال دیا!!

بہت خوب صورت۔مگر کلاسیکی رنگ ہے۔ مجھ ایسوں کو تو پسند آئے گا مگر زمانہ رد کر دے گا۔ اب یہ مت کہنا کہ زمانے کی مجھے پروا نہیں۔ میں صرف اپنے لیے شعر کہتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔
مجموعی طور پر تمھارا رنگِ سخن نہایت پختہ ہے۔ رشک آتا ہے۔ تمھارے والدین اور علاقے کو تم پر ایک دن فخر ہو گا۔ انشاء اللہ!
---
بہتر

اب بتاؤ، آئندہ بھی مجھے بلاؤ گے؟ :laughing::laughing:
اگر زحمت نہ ہو تو میں تو آئندہ ہو تکبندی میں آپ کو ٹیگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں(y)
 

عباد اللہ

محفلین
بہت اچھے۔ بڑی پختہغزل ہے۔ لیکن عزیزی ٬راحیل فاروق کی باتوں میں بھی خاصا دم ہے۔
شکریہ الف عین سر غزل دوبارہ کہنے کی کوشش کرتا ہوں

اگرچہ عباد نے نگاہ نہیں، نگار کہا ہے، لیکن وہ بھی مؤنث ہی ہوتا ہے
سر میرے ناقص خیال نہیں نگار مزکر ہے
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے
جون ایلیا
مطلع میری سمجھ میں بھی نہیں آیا،
مطلع میں تپاکِ جاں کو ڈیدیکیشن کے معنوں میں برتا ہے سر معلوم نہیں درست ہے یا غلط

ور ہاں ان تینوں مصرعوں میں عیب تنافر ہے۔ ہا ہے، ہی ہے وغیر کی وجہ سے
بجز کہ خارِ مغیلاں ہے ہو جراحتِ دل

یہ ناز و غمزہ بھی اچھا ہی ہے مگر ہمدم


بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
خارِ مغیلاں والے مصرعے کو درست کرتا ہوں
ناز و غمزہ والا شعر ہی نکال دیا
بقیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
اسے تبدیل کرنے پر دل نہیں مانتا خیر دیکھتا ہوں
 
آخری تدوین:
درست کرتے ہیں اس بھیا ۔کوئی اچھا سا فارسی شعر تو سنائیے
ترجمہ سمیت آپ کو معلوم ہے نا مجھے فارسی نہیں آتی

عالم ہمہ مست است ایاغ است دلِ ما
شبہا ہمہ روز است چراغ است دلِ ما

سارا عالم مست ہے (اور) ہمارا دل ایاغ ہے۔ راتیں تمام دن ہیں (کیونکہ) ہمارا دل چراغ ہے۔

ملا نور الدین ظہوری
 

عباد اللہ

محفلین
تپاکِ جاں سے وہ طرزِ ستم گری نہ رہا
اسی لئے ترے کوچے میں کوئی بھی نہ رہا
مزید اب ہمیں کچھ خوفِ گمرہی نہ رہا
مناؤ جشن کہ سودائے عاشقی نہ رہا
نشاط بخش کوئی رمزِ دلبری نہ رہا
نگار یار بھی اب وجہ بے خودی نہ رہا

بجز کہ خارِ مغیلاں سے ہو جراحتِ دل
کریں بھی کیا کہ یہاں اور چارہ ہی نہ رہا
وہ ایک شخص کہ رکھتا تھا پاسِ قیدِ رسوم
غرض کہ شہرِ مقاتل میں اب وہی نہ رہا
مگر تلاشِ مسلسل بھی اک فریضہ ہے
سو یوں ہی کھوج میں ہیں ورنہ آدمی نہ رہا
نہ پوچھیو کہ ملا کیا بہ فیضِ صحبتِ شیخ
ہمارا دل کہ تھا جویائے آگہی نہ رہا
رہا تو ہوں میں جہانِ خراب میں لیکن
بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا

 
آخری تدوین:

مانی عباسی

محفلین
ماشاء الله..بہت عمده غزل هے...
بس ایک بات بتانا چاهوں گا
"بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا"

اس مصرعے میں صوتی تنافر هے جسے دور کر لیں تومقطع اور بهی بہتر هو جائے گا....

نوٹ: میں کوئی استاد تو نہیں بس ایک مبتدی کی حیثیت سے مشوره دیا هے...
 

La Alma

لائبریرین
بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
یہ دیکھ لیں اگر قابل ِ قبول ہے تو ...
بہ قیدِ جبر گزر کی ہنسی خوشی نہ رہا
 

عباد اللہ

محفلین
بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
یہ دیکھ لیں اگر قابل ِ قبول ہے تو ...
بہ قیدِ جبر گزر کی ہنسی خوشی نہ رہا
مجھے اتصال کے باوجود وہ اپنا مصرع پسند ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اتصال کو عیب ہی نہیں سمجھتا اسی لئے اگر اس غزل کا پہلا ورژن آپ دیکھیں تو ہر شعر میں یہی عیب ہے ،کوشش کرتا ہوں اپنی طبیعت پر قابو پانے کی۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تنافر اور اس قسم کے دیگر عیوب سے پاک کلام تو اساتذہ کے ہاں بھی نہیں ملتا۔ ہاں، ایک کتاب چھپی ہے اب تک جس میں عروضیوں کے تمام ناز بلا چون و چرا اٹھائے گئے ہیں۔ پھر بھی ناکام ہو گئی!
اس کتاب کی پی ڈی ایف چاہئے ۔۔۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کتاب ناکام ہو گئی؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مجھے اتصال کے باوجود وہ اپنا مصرع پسند ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اتصال کو عیب ہی نہیں سمجھتا اسی لئے اگر اس غزل کا پہلا ورژن آپ دیکھیں تو ہر شعر میں یہی عیب ہے ،کوشش کرتا ہوں اپنی طبیعت پر قابو پانے کی۔
میں نے جس زمانے میں اس عیب کو جاننا شروع کیا تھا، اسی دور کا شعر ہے، جس میں یہ عیب ایک سے زائد بار وارد ہوا، لیکن میں نے اس شعر کو تبدیل نہیں کیا۔ اور یہ حسب حال بھی ہے:
تجھے تو چاہئے تھا اس سے بڑھ کے کچھ کرتا
برا بھلا تو زمانے نے بھی کہا ہے مجھے
 

عباد اللہ

محفلین
میں نے جس زمانے میں اس عیب کو جاننا شروع کیا تھا، اسی دور کا شعر ہے، جس میں یہ عیب ایک سے زائد بار وارد ہوا، لیکن میں نے اس شعر کو تبدیل نہیں کیا۔ اور یہ حسب حال بھی ہے:
تجھے تو چاہئے تھا اس سے بڑھ کے کچھ کرتا
برا بھلا تو زمانے نے بھی کہا ہے مجھے
خوبصورت شعر ہے بھیا تنافر تو بھیا اس شعر میں بھی ہے
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس زمیں میں اس سے بہتر شعر شائد ہی ممکن ہو سکے
 

عباد اللہ

محفلین
میں نے جس زمانے میں اس عیب کو جاننا شروع کیا تھا
میں اس عیب کو عرصے سے جانتا ہوں بھیا لیکن جمالیات کی سطح پر کمزوری کہئے کہ مجھے اس میں گرانی محسوس نہیں ہوتی ، اب اسے طبیعت کا فساد ہی کہا جا سکتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے تاحال اس پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی ۔
 
تپاکِ جاں سے وہ طرزِ ستم گری نہ رہا
اسی لئے ترے کوچے میں کوئی بھی نہ رہا
نشاط بخش کوئی رمزِ دلبری نہ رہا
نگار یار بھی اب وجہ بے خودی نہ رہا
بجز کہ خارِ مغیلاں ہے ہو جراحتِ دل
کریں بھی کیا کہ یہاں اور چارہ ہی نہ رہا
مگر تلاشِ مسلسل بھی اک فریضہ ہے
سو یوں ہی کھوج میں ہیں ورنہ آدمی نہ رہا
سمیٹتے ہیں تجھے ہم فسانۂ غمِ زیست
کہ تجھ کو شوق سے سنتا تھا جو وہی نہ رہا
یہ ناز و غمزہ بھی اچھا ہی ہے مگر ہمدم
جو ہم کو بھاتا تھا وہ رنگِ سادگی نہ رہا
رہا تو ہوں میں جہانِ خراب میں لیکن
بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا

ساری غزل اچھی ہے مگر پہلا شعر تو بے ساختگی میں کمال ہے۔
تیسرے شعر میں چارہ اور ہی کے دو ہ ساتھ آنے سے ایک ہ شاید دب گیا ہے۔ آخری شعر بھی بہت خوبصورت ہے۔ مبارکباد قبول فرمائیے۔
 
Top