مصطفیٰ زیدی تِری ہنسی

غزل قاضی

محفلین
تِری ہنسی

فلک کا ایک تقاضا تھا ابنِ آدم سے
سُلگ سُلگ کے رہے اَور پلک جھپک نہ سکے
ترس رہا ہو فضا کا مہیب سنّاٹا
سڈول پاؤں کی پائل مگر چھنک نہ سکے
کلی کے اذنِ تبّسم کے ساتھ شرط یہ ہے
کہ دیر تک کسی آغوش میں مہک نہ سکے

میں سوچتا ہُوں کہ یہ تری بےحجاب ہنسی !
مِزاجِ زِیست سے اِس درجہ مُختلِف کیوں ہے
یہ ایک شمع جسے صُبح کا یقین نہِیں
جِگر کے زخمِ فروزاں سے منحرف کیوں ہے

بھرا ہؤا ہے نِگاہوں میں زندگی کا دُھواں
بس ایک شعلہء شب تاب میں شرر کیوں ہے

مرے وجُود میں جس سے کئی خراشیں ہیں
وُہ اِک شِکن تِرے ماتھے پہ مختصر کیوں ہے
جمی ہُوئی ہے ستاروں پہ آنسوؤں کی نمی
ترے چراغ کی لَو اتنی تیز تر کیوں ہے

نئے شوالے میں جا کر کسی کے تیشے نے
بہت سے بُت تو گرائے بہت سے بُت نہ گرے

بس ایک خندہء بےباک ہی سے کیا ہوگا
لہُو کی زحمتِ اقدام بھی ضرروی ہے
ذرا سی جراؑتِ ادراک ہی سے کیا ہوگا

گُریز و رجعت و تخریب ہی سہی لیکن
کوئی تڑپ ، کوئی حسرت ، کوئی مُراد تو ہے
تِری ہنسی سے تو میری شکست ہی بہتر
مِری شِکست میں تھوڑا سا اِعتماد تو ہے

مصطفیٰ زیدی

( قبائے سَاز )
 
Top