تِرا حُسن جلوہ نما تو ہے

اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب و جناب الف عین صاحب۔۔اور دیگر صاحبان علم و محفلین سے غزل پہ اصلاحی نظر فرمانے کی گزارش ہے۔

جو ازل سے باعثِ یاس ہے
وہ تِرے وصال کی آس ہے

رہِ خار زارِ حیات میں
مجھے کب خوشی کوئی راس ہے

تِرا حُسن جلوہ نما تو ہے
تُو نہیں جو بندہ شناس ہے

تو جو درمیاں نہ ہو بے وفا
کسے دشمنوں کا ہراس ہے

ہے تو ہی جو آ کے مٹا سکے
یہ جو تشنگی ہے جو پیاس ہے

تِری یاد ہے مِری زندگی
تِرا ہجر میری اساس ہے

مگر آرزوئے ملن جواں
سبھی غم غلط، تو جو پاس ہے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
فیالحال ایک دو باتیں ۔ آرزو کے ساتھ ملن کی ترکیب لطیف نہیں ۔ ملن گانوں اور گیتوں کا تاثر رکھتا ہے۔اور آرزو کی اضافت کے ساتھ تو اور نا ہموار لگ رہا ہے ۔
دوسرے "رہِ خار زار " میں خارزار ایک اسمی ترکیب لگ رہی ہے ، اسے رہِ کی اضات کے ساتھ صفاتی ترکیب یا لفظ ہو نا چاہیے۔ اسی لیے یہ (مجھے ) کچھ عجیب سی لگ رہی ہے۔ مزید اضافت اس پر حیات کی بھی ہے لیکن مجموعی شکل پھر بھی لفظی طور پر بہتر ہو تو اچھا ہے۔
اساس والے شعر میں مصرعوں کا ربط کمزور ہے۔
ہراس کا لفظ خوف کے بغیر غیر محاوراتی سا لگ رہا ہے ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
فیالحال ایک دو باتیں ۔ آرزو کے ساتھ ملن کی ترکیب لطیف نہیں ۔ ملن گانوں اور گیتوں کا تاثر رکھتا ہے۔اور آرزو کی اضافت کے ساتھ تو اور نا ہموار لگ رہا ہے ۔
دوسرے "رہِ خار زار " میں خارزار ایک اسمی ترکیب لگ رہی ہے ، اسے رہِ کی اضات کے ساتھ صفاتی ترکیب یا لفظ ہو نا چاہیے۔ اسی لیے یہ (مجھے ) کچھ عجیب سی لگ رہی ہے۔ مزید اضافت اس پر حیات کی بھی ہے لیکن مجموعی شکل پھر بھی لفظی طور پر بہتر ہو تو اچھا ہے۔
اساس والے شعر میں مصرعوں کا ربط کمزور ہے۔
ہراس کا لفظ خوف کے بغیر غیر محاوراتی سا لگ رہا ہے ۔

اور ان اشعار کے متعلق کچھ نہیں کہا آپ نے؟

تِرا حُسن جلوہ نما تو ہے
تُو نہیں جو بندہ شناس ہے

ہے تو ہی جو آ کے مٹا سکے
یہ جو تشنگی ہے جو پیاس ہے
 
بہت اعلیٰ فاروق بھائی بہت ساری داد قبول کیجیئے ۔۔ واہ واہ واہ۔۔ بہت خوبصورت۔۔
فنی بحث تو اساتذہ کریں گے خیال نےمتاثر کیا ہے خاص طور سے ان اشعار میں

جو ازل سے باعثِ یاس ہے
وہ تِرے وصال کی آس ہے

رہِ خار زارِ حیات میں
مجھے کب خوشی کوئی راس ہے

دونوں اشعار کو حقیقی رنگ میں سمجھا ۔ بہت اعلیٰ

تِرا حُسن جلوہ نما تو ہے
تُو نہیں جو بندہ شناس ہے
واہ صاحب بہت خوب۔
تو جو درمیاں نہ ہو بے وفا
کسے دشمنوں کا ہراس ہے

یہ غزل (مجازی) میں سمجھا ۔۔ بہت خوب بہت اعلیٰ۔
 
فیالحال ایک دو باتیں ۔ آرزو کے ساتھ ملن کی ترکیب لطیف نہیں ۔ ملن گانوں اور گیتوں کا تاثر رکھتا ہے۔اور آرزو کی اضافت کے ساتھ تو اور نا ہموار لگ رہا ہے ۔
دوسرے "رہِ خار زار " میں خارزار ایک اسمی ترکیب لگ رہی ہے ، اسے رہِ کی اضات کے ساتھ صفاتی ترکیب یا لفظ ہو نا چاہیے۔ اسی لیے یہ (مجھے ) کچھ عجیب سی لگ رہی ہے۔ مزید اضافت اس پر حیات کی بھی ہے لیکن مجموعی شکل پھر بھی لفظی طور پر بہتر ہو تو اچھا ہے۔
اساس والے شعر میں مصرعوں کا ربط کمزور ہے۔
ہراس کا لفظ خوف کے بغیر غیر محاوراتی سا لگ رہا ہے ۔
شاہ جی بندہ ممنون و مشکور ہے آپ کی گراں قدر آرا پہ یونہی ہم مبتدیوں کی اصلاح فرماتے رہیے۔۔اللہ جزائے خیر عطا فرمائے۔۔
 
بہت اعلیٰ فاروق بھائی بہت ساری داد قبول کیجیئے ۔۔ واہ واہ واہ۔۔ بہت خوبصورت۔۔
فنی بحث تو اساتذہ کریں گے خیال نےمتاثر کیا ہے خاص طور سے ان اشعار میں
بہت بہت شکریہ نوازش آپ کی پسند آوری بندے کے لیے باعث مسرت ہے۔
آپ بھی تھوڑی اصلاحی بحث فرما دیا کیجیے۔ کہ آپ کی رائے بھی میرے لیے گراں قدر ہے۔
یہ غزل (مجازی) میں سمجھا ۔۔ بہت خوب بہت اعلیٰ۔
جی بالکل یہ مجازی ہی ہے۔۔۔اور مجازی تک مشقِ سخن لے آئی۔۔ ایک دفعہ مشق کا مرحلہ طے کر کے آگے نکلیں تو پھر کریں گے من کی باتیں۔
 
آپ بھی تھوڑی اصلاحی بحث فرما دیا کیجیے۔ کہ آپ کی رائے بھی میرے لیے گراں قدر ہے۔

فاروق بھائی آپ کی محبت ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ اساتذہ کی موجودگی میں بات کرنا حدِ ادب کے منافی لگتا ہے۔
آپ کا ارو ہمارا عقیده ہے کہ با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔
ہاں کبھی کبھی شرارتی بچے کی طرح، بلیک بورڈ کے سامنے کھڑے ہو کر استاد کی نقل کرنا ، بس کبھی کبھی کی شرارت ہے :p:p
 
جو ازل سے باعثِ یاس ہے
وہ تِرے وصال کی آس ہے
۔۔۔ آس کو یاس تک بھی تو پہنچائیے نا! آس باعثِ رنج ہو تو ہو باعثِ یاس کیوں کر ہو؟ یاس کا مطلب تو آس کا باقی نہ رہنا ہے۔
 
رہِ خار زارِ حیات میں
مجھے کب خوشی کوئی راس ہے
۔۔۔ یا تو خارزارِ حیات کہئے یا راہِ حیات کہئے۔ قاری تو الجھ گیا کہ آپ راہ میں ہیں یا خارزار میں اترے ہوئے ہیں۔
 
تِرا حُسن جلوہ نما تو ہے
تُو نہیں جو بندہ شناس ہے
۔۔۔ یعنی؟ تو بندہ شناس نہیں؟ دونوں مصرعوں میں ربط؟ اور یہ بندہ پنجابی والا ہے یا فارسی والا ہے؟ فارسی والے تو مردم شناس کہتے ہیں۔
 
تو جو درمیاں نہ ہو بے وفا
کسے دشمنوں کا ہراس ہے
۔۔۔ اگر وہ درمیان میں نہ ہو تو دشمنوں کی دشمنی کا کوئی اور جواز لائیے۔ موجودہ لفظیات میں اس کو درمیان سے نکال دیجئے، دشمنی کی بنا ہی ختم ہو جاتی ہے۔
 
ہے تو ہی جو آ کے مٹا سکے
یہ جو تشنگی ہے جو پیاس ہے
۔۔۔ مناسب ہے۔ پہلے مصرعے کو بہتر کر سکیں تو بہتر ہے۔ ترا وصل ہے جو مٹا سکے وغیرہ۔ رعایات کا اہتمام شعر کو حسن بخشتا ہے۔
 
Top