تو مری جان، میرا ارماں بھی - اویس ضمیر

کاشفی

محفلین
غزل
(اویس ضمیر)

تو مری جان، میرا ارماں بھی
اس لیے پھرتا ہوں پریشاں بھی

روشنی کے سفر میں دیکھے ہیں
ظلمتوں کے بہت سے طوفاں بھی

تھے تو تم ہی سبب غمِ دل کا
پھر بنے دردِ دل کا درماں بھی

ہے بچا کیا غریب کا اب جو
لوٹنے آئے اس کا ایماں بھی

شیخ پر میں یقین کر لیتا
ہوتا اِس کا ذرا سا اِمکاں بھی

پستیوں میں لڑھک رہا ہے جو
تھا کبھی وہ فلک پہ مہماں بھی

ظلم کے حامیو! ذرا سوچو
کب تلک ڈھیل دے گا یزداں بھی

تیرے ہوتے تلک بسا جو تھا
تیرے جانے سے دل وہ ویراں بھی

جو اُسے مل ضمیر دل میں گیا
تھوڑا تھوڑا ہوا وہ حیراں بھی
 
Top