توہین مذہب کی مختلف اقسام اور ہمارا رد عمل!

arifkarim

معطل
TJ.jpg

کچھ دنوں پہلے جنید جمشید کی ایک ویڈیو دیکھی جو سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی تھی اس عنوان سے کہ ‘جنید جمشید امہات المومنین کی گستاخی کرتے ہوئے’۔ سو اپنے آپ کو ایسی ویڈیوز سے پرہیز کرنے کی عادت کے باوجود اسے دیکھنے پر مجبور پایا۔ ویڈیو میں جنید جمشید کسی ماہر فنکار کی طرح حضرت عائشہ کی نقالی کرتے ہوئے پائے گئے، نیز کہانی کا سبق یوں تھا کہ “عورت تو نبی کی صحبت میں بھی ٹھیک نہیں ہوسکتی”۔

جہاں تک میرا نقطۂ نظر ہے یہ ویڈیو توہین صحابہ پر مبنی ہو نہ ہو توہین عورت کی مرتکب ضرور ہوئی ہے۔۔۔ کاش میرے پاس کوئی ایسی عدالت ہوتی جہاں ایسے شاتم النساء لوگوں کو سزا دی جاتی۔۔۔ ابھی تک پاکستان اس حالت کو نہیں پہنچا کہ عورتوں کے خلاف توہین آمیز رویہ کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔۔۔ یہ سوال اپنے آپ سے ضرور کیجیے گا کہ آخر یہ الفاظ محض حضرت عائشہ کی ذات پر بولے جائیں تو ہی گستاخانہ کیوں۔۔ اس ویڈیو میں جنید جمشید اگر حضرت عائشہ کا نام حذف کر دیتے تو اس پر سبحان اللہ کہ کر شیئر کیا جا رہا ہوتا۔ کیا عورت خدا کی تخلیق نہیں ہے؟؟ کیا خدا کی تخلیق میں خامی رہ گئی ہے؟؟

چلیے ایسے موضوع پر کیا بات کرنی جس پر امت کا اجماع ہوچکا ہو سو آتے ہیں واقعے پر۔۔ ویڈیو چند دن تو سوشل میڈیا پر گھومتی پھرتی رہی مگر کل تک یہ طوفان بن گئی۔۔ بات یہاں تک پہنچی کہ جنید جمشید کے سر پرست مولانا طارق جمیل صاحب کو ان کے سر سے ہاتھ اٹھانا پر گیا اور وہ جو کل تک جنید جمشید کو کولمبس کی مانند اپنی دریافت امریکا کے طور پر پیش کر رہے تھے اور سوائے حاجات ضروریہ کے خانہ جات کے ہر جگہ ان کے ساتھ تصویر کھنچوانا مرغوب سمجھتے تھے وہی آج اس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے تھے۔ ساتھ ہی مولانا نے جنید جمشید کو کمال خوبی سے بچنے کا نسخہ بھی فراہم کر دیا کہ ایک ویڈیو جاری کر دو توبہ اور معافی کی تو بخشے جاؤ گے۔ اب مولانا سے کوئی پوچھے کہ حضرت کیا آسیہ بی بی کے لیے بھی یہی نسخہ قابل قبول ہوگا یا اس کا پیٹنٹ لمبی داڑھیوں والوں کے لیے ہے؟

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی

پاکستان عجیب ملک ہے، یہاں غریب مسیحی محض الزام پر اپنے گاؤں اور محلے کو جلتا ہوا دیکھتے ہیں، ماؤں کو جیل میں برسوں سولی کے انتظار میں سڑتا دیکھتے ہیں، برسوں کے کاروبار احمدیوں کے منٹوں میں فنا ہوجاتے ہیں مگر میٹھے پان والے مولانا حضرات ہوں یا اسلام آباد میں قرآن جلا کر مسجد میں رکھنے والا ملّا، یا لال مسجد کا مولانا جو ٹی وی پر کہ دے کہ آنحضرتؐ کوئی قانون بنانے کے مجاز نہیں (قطع نظر اس کے کہ یہ گستاخی ہے کہ نہیں، کیا ایسا بیان کوئی احمدی ٹی وی پر دے کر بچ سکتا تھا یا کوئی بغیر اسلحہ سے لیس مولوی؟) کہ کر صاف بچ جاتے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور سوشل میڈیا پر چہار جانب سے یہ موضوع آج لوگوں کے ‘سٹیٹسز ‘ کی زینت بنا ہوا ہے۔۔ سوشل میڈیا آج کی جدید قصہ گوئی اور محافل کا نمونہ ہے۔ اگر یوں کہ لیجیے کہ قصہ گوئی، مجمع لگانا، محافل لوٹنا وغیرہ ختم نہیں ہوئے بلکہ اپنے عروج کو پہنچ گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ سو آج ہر جگہ ہر فارم پر لوگ مجمع لگائے بیٹھے ہیں، اور مختلف بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ منافقت کہئے یا سادگی، جنید جمشید کی معافی کی اپیل پر کہیں لوگ خوش ہیں اور ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں اور لوگ کہ رہے ہیں کہ بخش دو جب سچے دل سے توبہ کر لی ہے تو دوسری طرف یہ سوال زور شور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ اب مولوی صاحب کو اسی دوا کا مزہ چکھنا چاہیے جس کی تجویز وہ دوسروں کے لیے کیا کرتے تھے۔ یعنی “سر تن سے جدا”۔۔۔

یقین جانیے مذہبی ٹھیکیداروں اور خدائی فوجداروں، جنہوں نے اس معاشرے کو وحشیانہ طرز زندگی کا نمونہ بنا ڈالا ہے، ان کے لیے یہ سنتے ہوئے جتنی خوشی ہوتی ہے وہیں جسم ایک انسان کے لیے ایسی بات کرتے تھرا جاتا ہے۔ قرآن میں ایک اصول بیان ہے کہ کسی قوم کی دشمنی میں اس حد تک نہ نکل جاؤ کہ انصاف کے اصول کو چھوڑ دو۔ پاکستانی معاشرہ جہاں فرقہ وارانہ نفرت کی بھینٹ چڑھ کر ہوش کھو بیٹھا ہے وہیں اس کا اثر عمومی طور پر ان لوگوں پر بھی ہوا ہے جو عام طور پر انسانی آزادیوں کی قدر کرتے ہیں اور سیکولر شمار ہوتے ہیں۔ دراصل نفرت کی بیماری انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لیتی ہے۔

ایسے سٹیٹس اور مہم کہ اگر سلمان تاثیر کو شہید کر دیا گیا ہے تو اب جنید جمشید کا گلا بھی کٹنا چاہیے کتنی ہی انصاف پسند اور خوش کن کیوں نہ معلوم ہوتی ہو مگر ہے اتنی ہی بھیانک اور خطرناک جو معاشرے میں نفرت کی دیواریں مزید مضبوط کرے گی۔ یہ وقت ہے ہوشمند طریقے سے لوگوں کے ضمیر کو جگانے کا نہ کہ اس قانون پر انہیں مزید ضدی کرنے کا۔ آج ہمیں لوگوں کو سمجھانا ہوگا کہ جو نسخہ جنید جمشید کے لیے صحیح ہے وہی آسیہ بی بی کے لیے بھی صحیح ہے جبکہ آسیہ بی بی نے تو کیمرے پر اقرار بھی نہیں کیا کہ ان سے ایسا جرم سر زد ہوا ہے۔۔ یہ وقت ان کی سوئی ہوئی دم کو جگانے کا ہے!
ماخذ
سید ذیشان صرف علی نایاب محمدعلم اللہ اصلاحی ابن رضا زیک محمد شعیب تیز صائمہ شاہ لئیق احمد x boy کاشفی امجد میانداد محمود احمد غزنوی
ناصر علی مرزا حسینی انیس الرحمن زرقا مفتی عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد عمار ابن ضیا منقب سید سید ذیشان اوشو امجد میانداد محمد خلیل الرحمٰن خالد محمود چوہدری واجدحسین یوسف-2 منصور
 

arifkarim

معطل
آسیہ بی بی والی بات سمجھ نہیں آئی، یہ کیا قصہ ہے؟ :) :)
پاکستان میں ایک عیسائی عورت آسیہ بی بی جس نے حضرت محمد کی شان میں گستاخی کی اور اپنا جرم عدالت میں قبول کیا۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے اس کی حمایت میں قانون توہین رسالت میں ترمیم کرانے کی کوشش کی اور اسے کالا قانوں کہا۔ اس گورنر کو ملک ممتاز حسین قادری نے قتل کردیا۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/آسیہ_بی_بی
 

نایاب

لائبریرین
وہ جو دونوں جہاں کی رحمت ہیں وہ جن کے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ۔ ان کی توہین کے " ملزم " جرم کے اقرار سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت کر دینا پاکستانی معاشرے کا چلن ہے ۔
جنید جمشید وہ واحد " ملزم " ہے جس نے اپنے جرم کا برسرعام اقرار کرتے معافی مانگی ہے ۔۔۔۔۔۔ اب دیکھتے ہیں پاکستانی معاشرہ کیا سلوک کرے گا ۔۔۔۔ ؟
ابھی تک تو " منبر رسول " پہ بیٹھے دین سکھانے والے جنید جمشید پہ سب و شتم کرتے رحمت للعالمین سے اپنی محبت و اخلاص جتا رہے ہیں ۔ ۔۔
کہاں سے اٹھے گی " صدائے حق " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتظر سب ہی بیٹھے ہیں ۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
وہ جو دونوں جہاں کی رحمت ہیں وہ جن کے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ۔ ان کی توہین کے " ملزم " جرم کے اقرار سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت کر دینا پاکستانی معاشرے کا چلن ہے ۔
یاد رہے کہ یہ توہین رسالت والا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ ڈنمارک میں چھپنے والے خاکوں کے بعد توڑ پھوڑ، دنگا فساد تقریباً تمام مسلم اکثریت ممالک میں ہوئی تھی!
 

نایاب

لائبریرین
یاد رہے کہ یہ توہین رسالت والا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ ڈنمارک میں چھپنے والے خاکوں کے بعد توڑ پھوڑ، دنگا فساد تقریباً تمام مسلم اکثریت ممالک میں ہوئی تھی!
یہ بھی یاد رہے کہ ڈنمارک والا معاملہ الزامی نہیں تھا بلکہ " ہٹ دھرمی " پر قائم حقیقی واقعہ تھا ۔ جب کہ پاکستانی معاشرے میں " الزامی " چلن ہے ۔ اور بستیاں تک جلا دی جاتی ہیں ۔
 

arifkarim

معطل
یہ بھی یاد رہے کہ ڈنمارک والا معاملہ الزامی نہیں تھا بلکہ " ہٹ دھرمی " پر قائم حقیقی واقعہ تھا ۔ جب کہ پاکستانی معاشرے میں " الزامی " چلن ہے ۔ اور بستیاں تک جلا دی جاتی ہیں ۔
ہٹ دھرمی سے کیا مراد ہے؟ انکا خود مختار میڈیا ہے۔ وہ جو چاہے شائع کریں۔ اگر مسلمانوں کو تکلیف ہو رہی ہے تو انکے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ ان خاکوں کو نہ دیکھیں۔ کوئی زبردستی تو نہیں کی جارہی تھی انہیں دیکھنے یا دکھانے کی۔
 

حسیب

محفلین
ہٹ دھرمی سے کیا مراد ہے؟ انکا خود مختار میڈیا ہے۔ وہ جو چاہے شائع کریں۔ اگر مسلمانوں کو تکلیف ہو رہی ہے تو انکے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ ان خاکوں کو نہ دیکھیں۔ کوئی زبردستی تو نہیں کی جارہی تھی انہیں دیکھنے یا دکھانے کی۔
ہولوکاسٹ کو ڈرامہ قرار دینے پر یورپی ممالک میں کیوں آگ لگ جاتی ہے :)
 

arifkarim

معطل
ہولوکاسٹ کو ڈرامہ قرار دینے پر یورپی ممالک میں کیوں آگ لگ جاتی ہے :)
کیونکہ ہولوکاسٹ یورپ کی تاریخ کا ایک انتہائی تاریک اور دردناک واقعہ ہے۔ ہولوکاسٹ میں قتل ہونے والی یہود اور دیگر یورپینز کی نسل کشی کے کارٹون بنا کر مذاق اڑانا انکے وارثین کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ گو کہ ایران اور فلسطین میں اس قسم کے کارٹونز شائع ہوتے رہتے ہیں اور اسکے جواب میں یورپ میں توڑ پھوڑ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
عارف
کونسا قانون ؟
جو جاہل عوام نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ؟
یہ کیسا قانون ہے جو قادری کو ہیرو بنا دیتا ہے اور آسیہ بی بی کی داد رسی نہیں کرتا
کیا ہوا ان سب لوگوں کا جنہوں نے عیسائی جوڑے کو چند روپیوں کے لئے زندہ جلا دیا ؟
ایسے دھاگوں پر کیا بات کی جاسکتی ہیں جہاں تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھا جاتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ یہاں کوئی قانون ہے ہی نہیں اقلیتوں کو کہیں بھی کبھی بھی کچھ بھی کہہ کر مارا جاسکتا ہے توہینِ مذہب کے نام پر اور اقلیتیں ہی کیوں یہاں تو مسلمان ہی محفوظ نہیں
رسول اللہ نے خود کیوں سزائیں نہیں دیں توہین رسالت پر ؟؟؟؟؟؟؟؟
ہے کسی کے پاس اسکا جواب ؟
اللہ اور رسول کے مذہب کو چھوڑ کر ایک نیا ہی مذہب ایجاد کر لیا گیا ہے اسلام کے نام پر جس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں
توہین مذہب کے تمام کیسز اگر ٹھیک طرح سے تفتیشی مراحل سے گذرتے تو کھل کر سامنے آجاتا کہ شائد ننانوے فیصد ذاتی دشمنی اور ایسی ہی فضول وجوہات کی بنا پر بنائے گئے ہیں
باقی جاہل مولوی مسجدوں میں اعلان کر کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگتے ہوئے خدا کا خوف محسوس نہیں کرتے ہمارے ضمیر میں کوئی خلش نہیں انسانیت کے خون سے ہاتھ رنگنے پر
رسول کی امت ان کے بتائے اور دکھائے ہوئے راستے چھوڑ کر پرائے راستوں پر چل پڑی ہے اللہ ہی انہیں ہدایت دے
 

arifkarim

معطل
ایسے دھاگوں پر کیا بات کی جاسکتی ہیں جہاں تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھا جاتا ہے
آپکی تمام باتوں سے متفق ہوں۔ ظاہر ہے جب قانون کو عوام اپنے ہاتھ میں لے لے وہاں وہی کچھ ہی ہوگا جو آجکل پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ویسے میں نے یہاں پڑھا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں وہی لیتا ہے جسے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کوئی اعتماد نہ ہو مطلب عوام پر سے ریاستی اداروں کا اعتماد ختم کرنے میں خود سابقہ حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ اب بھگتیں :)
 

حسیب

محفلین
کیونکہ ہولوکاسٹ یورپ کی تاریخ کا ایک انتہائی تاریک اور دردناک واقعہ ہے۔ ہولوکاسٹ میں قتل ہونے والی یہود اور دیگر یورپینز کی نسل کشی کے کارٹون بنا کر مذاق اڑانا انکے وارثین کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ گو کہ ایران اور فلسطین میں اس قسم کے کارٹونز شائع ہوتے رہتے ہیں اور اسکے جواب میں یورپ میں توڑ پھوڑ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
بقول آپ کے ان کا میڈیا آزاد اور خود مختار ہے جب اس آزاد میڈیا میں ایک قوم کے جذبات مجروح کرنے پر پابندی ہے تو دوسری اقوام کے جذبات مجروح کرنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے
باقی رہا توڑ پھوڑ کا معاملہ تو یہ سرا سرا جہالت ہے
 

حسینی

محفلین
جنید جمشید جیسے لوگوں کا یہ مسئلہ ہے کہ۔۔۔ یہ نیم ملا ہیں۔۔
اور بقول مشہور۔۔۔ نیم حکیم خطرہ جان۔۔ نیم ملا خطرہ ایمان۔۔۔
 

arifkarim

معطل
بقول آپ کے ان کا میڈیا آزاد اور خود مختار ہے جب اس آزاد میڈیا میں ایک قوم کے جذبات مجروح کرنے پر پابندی ہے تو دوسری اقوام کے جذبات مجروح کرنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے
باقی رہا توڑ پھوڑ کا معاملہ تو یہ سرا سرا جہالت ہے
اول، مسلمان کوئی ایک قوم نہیں ہے۔ دوئم، دوسرے مذاہب کی عظیم ہستیوں پر کڑی تنقید یورپی آزادی اظہار کا خاصا ہے۔ آپکو شاید معلوم نہیں یہاں کے باسی خود اپنے آبائی مذہب عیسائیت کے بانی حضرت عیسیٰ کے بارہ میں کیا کیا لکھتے رہے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ یہ یورپی کلچر قدیم زمانہ کی عظیم ہستیوں کی عزت اس طرح سے نہیں کرتا جس طرح ہمارے مسلمان معاشروں میں معمول ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ ہتک عیسیٰ کرنے پر یہاں پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جاتا ہے گو کہ blasphemy laws ناروے جیسے مادر پدر آزاد معاشرے میں 70 کی دہائی تک موجود تھے اور ان پر عمل درآمد بھی ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ جیسے 1933 میں ایک مشہور نارویجن مصنف کو کتاب "عیسائیت، دسویں طاعونی بلا" شائع کرنے پر سزا دی گئی البتہ وہ ایک سال بعد بری ہو گئے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
اول، مسلمان کوئی ایک قوم نہیں ہے۔ دوئم، دوسرے مذاہب کی عظیم ہستیوں پر کڑی تنقید یورپی آزادی اظہار کا خاصا ہے۔ آپکو شاید معلوم نہیں یہاں کے باسی خود اپنے آبائی مذہب عیسائیت کے بانی حضرت عیسیٰ کے بارہ میں کیا کیا لکھتے رہے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ یہ یورپی کلچر قدیم زمانہ کی عظیم ہستیوں کی عزت اس طرح سے نہیں کرتا جس طرح ہمارے مسلمان معاشروں میں معمول ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ ہتک عیسیٰ کرنے پر یہاں پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جاتا ہے گو کہ blasphemy laws ناروے جیسے مادر پدر آزاد معاشرے میں 70 کی دہائی تک موجود تھے اور ان پر عمل درآمد بھی ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ جیسے 1933 میں ایک مشہور نارویجن مصنف کو کتاب "عیسائیت، دسویں طاعونی بلا" شائع کرنے پر سزا دی گئی البتہ وہ ایک سال بعد بری ہو گئے۔
اور یہ لوگ اندھے عقیدوں کے قائل بھی نہیں خود اپنے عقائد اور رسومات کی تاریخ اور حقیقت ہم سے بہت بہتر جانتے ہیں
 

arifkarim

معطل
جنید جمشید جیسے لوگوں کا یہ مسئلہ ہے کہ۔۔۔ یہ نیم ملا ہیں۔۔
اور بقول مشہور۔۔۔ نیم حکیم خطرہ جان۔۔ نیم ملا خطرہ ایمان۔۔۔
سائنس نے اصلی اور نیم طبیب کی جانچ پڑتال کیلئے عام ڈگریوں کے علاوہ بھی بہت سے راستے وضع کئے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دین اسلام نے اصلی اور نیم مُلا کی جانچ پڑتال کیلئے کیسا نظام وضع کیا ہے؟ :) جیسے ہم نیم حکیم کے پاس علاج کیلئے نہیں جاتے، ویسے ہی نیم مُلا کے پاس کیونکر دوڑے چلے جاتے ہیں؟ ویسے اس کیس کے بعد ایک بات تو طے ہے کہ موصوف آئندہ کبھی ٹی وی چینلز پر نظر نہیں آئیں گے۔ انکو چاہئے تھا کہ دل دل پاکستان ہی کرتے رہتے۔ خوامخواہ داڑھی والوں کے پیچھے لگ کر اپنی موسیقی کا کیرئیر بھی برباد کیا اور اب توہین رسالت کے جُرم میں موت کا پھندا بھی ڈلوا لیا۔ عمران خان کی طرح کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی۔ :)
 

زیک

مسافر
بقول آپ کے ان کا میڈیا آزاد اور خود مختار ہے جب اس آزاد میڈیا میں ایک قوم کے جذبات مجروح کرنے پر پابندی ہے تو دوسری اقوام کے جذبات مجروح کرنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے
ایک قوم کے جذبات مجروح کرنے پر پابندی نہیں ہے بلکہ اپنی قوم کے کئے پر ندامت ہے
 

صائمہ شاہ

محفلین
آپکی تمام باتوں سے متفق ہوں۔ ظاہر ہے جب قانون کو عوام اپنے ہاتھ میں لے لے وہاں وہی کچھ ہی ہوگا جو آجکل پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ویسے میں نے یہاں پڑھا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں وہی لیتا ہے جسے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کوئی اعتماد نہ ہو مطلب عوام پر سے ریاستی اداروں کا اعتماد ختم کرنے میں خود سابقہ حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ اب بھگتیں :)
جہاں توہین مذہب کا ملزم پولیس اہلکار کے ہاتھوں مارا جائے اسے کیا کہے کوئی ؟
 

arifkarim

معطل
اور یہ لوگ اندھے عقیدوں کے قائل بھی نہیں خود اپنے عقائد اور رسومات کی تاریخ اور حقیقت ہم سے بہت بہتر جانتے ہیں
یہ بات درست ہے۔ ہم یہاں ناروے میں کرسمس جب حضرت عیسیٰ کے نام پر منانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اسکو سیکولر انداز میں مناؤ کہ یہ فیسٹیول عیسائیت سے پہلے کا ہے۔ :)
 
Top