توہین رسالت اور اسلام

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
توہین رسالت اور اسلام


پاکستان میں توہین رسالت کا قانون
پاکستان بننے سے قبل انگریز دور میں مجموعہ تعزیرات ہند میں مذہبی راہنماؤں اور مقامات کی تقدیس کو پامال کرنے کی سزا زیادہ سے زیادہ دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں کا ذکر زیر دفعہ 295 موجود تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اسی کوڈ کو ہی مجموعہ تعزیرات پاکستان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ ۶۸۹۱ءمیں پاکستان پینل کوڈ میں نہایت اہم ترمیم کر کے ایک نئی دفعہ 295-C کا اضافہ کیا گیا۔ پاکستان میں اب تک مذہب سے متعلق جن جرائم پر سزا دی جاتی تھی ان میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و گستاخی کا جرم شامل نہیں تھا۔ دفعہ 295 کے تحت ایسے شخص کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا اور جرمانہ کا مستوجب قرار دیا گیا جو زبانی ‘ تحریری ‘ اعلانیہ یا اشارةً کنایةً ‘ براہ راست یا با لواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان تراشی کرے اور رسول اکرم کے نام مبارک کی بے حرمتی کا ارتکاب کرے ۔ اس نئی دفعہ کے تحت عدالت کو صوابدیدی اختیار تھا کہ وہ توہین رسالت کے مجرم کو موت یا عمر قید یا ان دونوں میں سے کوئی ایک سزا کا حکم سنا دے۔
۶۸۹۱ء میں پاکستان پینل کوڈ میں شامل کی جانے والی نئی دفعہ 295-C کے تحت توہین رسالت کے مجرم کیلئے عمر قید یا موت کی سزا درج تھی۔ ۷۸۹۱ءمیں وفاقی شریعت کورٹ میں ایک شریعت پٹیشن دائر کی گئی۔ جس میں توہین رسالت کی متبادل سزا ”عمر قید “کو اسلامی احکام کے منافی قرار دے کر اسے ختم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس شریعت پٹیشن کا فیصلہ ۰۳ / اکتوبر ۰۹۹۱ء کو سنایا اور توہین رسالت کی متبادل سزا ” عمر قید “ کو غیر اسلامی اور قرآن وسنت کے احکام سے متصادم قرار دےتے ہوئے حکومت پاکستان کو ہدایت جاری کی کہ ” یا عمر قید “ کے الفاظ کو پاکستان پینل کوڈ (تعزیرات پاکستان ) کی دفعہ ۵۹۲۔ سی سے حذف کیا جائے۔ اس امر کیلئے حکومت پاکستان کو وفاقی شرعی عدالت نے ۰۳ / اپریل ۱۹۹۱ءتک مہلت دی۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ اگر ۰۳ / اپریل ۱۹۹۱ءتک ایسا نہ کیا گیا تو ” یا عمر قید “ کے الفاظ اس تاریخ سے غیر مؤثر ہوں گے ۔ یوں ۵۹۲۔سی میں درج ” یا عمر قید “ کے الفاظ وفاقی شرعی عدالت کے حکم کی رو سے ۰۳/ اپریل ۱۹۹۱ءکو حذف ہو کر غیر مو ¿ ثر ہو گئے اور توہین رسالت کے مرتکب کی سزا صرف اور صرف موت مقرر ہو گئی۔ اب پاکستان میں ضابطہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۵۹۲۔سی کے تحت پیغمبر اسلام حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مجرم کو سزائے موت دینے کا قانون نافذ ہے۔
اس دفعہ کے تحت ایڈیشنل سیشن جج لاہور نے ۹ فروری ۵۹۹۱ءکو توہین رسول کا جرم ثابت ہونے پر گوجرانوالہ کے دو اشخاص سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو موت کی سزا کا حکم سنایا تھا۔ یہ فوجداری مقدمہ میں سیشن عدالت کا ایک فیصلہ تھا لیکن اس واقعہ کو مغربی ذرائع ابلاغ نے خوب اچھالا ۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کے خلاف اپیل کے موقع پر مقدمہ کی کاروائی کو دیکھنے کیلئے مغربی ممالک سے پریس سے تعلق رکھنے والے بہت سے نمائندے اپنی ڈائریوں ‘ ٹیپ ریکارڈرز اور کیمروں وغیرہ کے ” اسلحہ “ سے لیس ہو کر پاکستان پہنچے۔ کئی مغربی ممالک کی حکومتوں کے سر کردہ افراد نے اس موقع پر بیانات دے کر پاکستان کے عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
مغربی پریس نے توہین رسول پر سزائے موت کو ظالمانہ کہا اور اس فیصلہ کو مسلمانوں میں متشددانہ مذہبی رجحانات کا ایک نتیجہ قرار دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر ‘ فلسطین ‘ بوسنیا اور چیچنیا وغیرہ جہاں معصوم و بے گناہ بچوں اور عورتوں سمیت مسلمانوں پر قیامت خیز مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں‘ انسانی حقوق پامال ہوتے دکھائی نہیں دیتے ‘ لیکن ان تنظیموں نے عدالت کے اس فیصلہ کو انسانی بنیادی حقوق اور آزادی ¿ اظہار رائے کے خلاف اور پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کی مذہبی سا لمیت کیلئے خطرے کا الارم قرار دیا۔
توہین رسالت کے سلسلے میں عالمی طاقتوںکا رد عمل
تمام مذاہب کی مقدس شخصیات قابل احترام ہیں اور ان کی توہین ایک ملت کی توہین ہوتی ہے۔ مگر پیغمبر اسلام کی توہین کے مواقع پر عالمی طاقتےںاپنا تعصب نہ چھپا سکیں اور ان کے ہاں پیغمبر اسلام کے گستاخوں کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ان کو ہیرو کا درجہ دیا گیا اور حوصلہ افزائی کی گئی مثلا ً سلمان رشدی ملعون جو ہندوستانی نژاد برطانوی شہریت کا حامل ہے اس نے شیطانی آیات نامی کتاب لکھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کی شان میں انتہائی گستاخی کی گئی تھی ۔ عالم ِ اسلام نے اس کے خلاف حق بجانب احتجاج کیا مگر لندن میں مصنفین ‘ پبلیشرز اور انسانی حقوق کے نمائندوں نے سلمان رشدی کی مدافعت میں ایک بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی ۔ یہودی جریدہ ”ٹائم “ نے ۳۱ فروری ۹۸۹۱ء کی اشاعت میں اس کتاب کے خلاف احتجاج کومسترد کر کے لکھا ہے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض اور دلآزارمواد موجود نہیں ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کے سر براہان جان میجر اور صدر کلنٹن نے اسے خصوصی ملاقات کا اعزاز بخشا اور امام خمینی کے فتویٰ ےعنی سلمان رشدی کے وجوبِ قتل پر افسوس کا اظہار کر کے اسے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ۔ امریکہ کی میسی چوسس یونیورسٹی نے رشدی کو اس کی ” خدمات “ کے اعتراف کے طور پر ڈاکٹریٹ کی اعزاز ی ڈگری عطا کی ۔
مغرب کے دانشوروں نے اسے مصنفین کی بین الاقوامی پارلیمنٹ کا پہلا صدر چنا ۔ فرانسیسی رسالہ ”پیرائج “ نے روزنامہ نوائے وقت لاہور کے حوالہ سے لکھا کہ برطانیہ کی حکومت سلمان رشدی پر سالانہ تیس لاکھ فرانک خرچ کرتی ہے۔ اس طرح بنگلہ دیش کی ایک عورت تسلیمہ نسرین جو بنگلہ دیش میں آزاد جنسی تعلقات کی مبلغہ تھی نے ” لجا“ (شرم ) نامی ناول میں اسلام کا مذاق اڑایا۔ بنگلہ دیشی عوام کے احتجاج پر وہ ملک سے فرار ہو گئی تو یورپین یونین نے اس کی زبردست پذیرائی کی۔ اور اسے ہر قسم کے تحفظ کی یقین دہائی کرائی۔ فرانس میں اسے "ایڈکٹ آف نینٹس پرائز" نامی ایوارڈ دیا گیا۔ جس کی مالیت ایک لاکھ فرانک یعنی بیس ہزار امریکی ڈالر تھی۔ سویڈن میں اسے انیس ہزار ڈالر کا خصوصی ادبی انعام دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان افراد کی طرح طرح پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی گئی۔
قرآن پاک ‘ احا دیث نبویہ اور تاریخی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود ہمیشہ سے انبیاءکرام ؑکو تکالیف دیتے رہے ہیں بلکہ بعض کو انتہائی بے دردی سے شہید بھی کیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے انبیاء کو بھی معاف نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلامؑ اور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑعلیہ السلام کا یہود نے جس انداز میں مذاق اڑایا ہے اس کی تفاصیل قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔ پھر ان یہود نے ماضی قریب اور زمانہ حال میں جس طرح اپنے مذموم مقاصد کیلئے عیسائیوں کو اسلام کے خلاف استعمال کیا ہے اسے نہ صرف یہود و نصاریٰ کے اسلام کے خلاف بغض و عداوت میں اتحاد کا علم ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات عیسائی اس انداز سے اندھے ہو کر استعمال ہوتے ہیں کہ باوجود یکہ وہ اپنے آپ کو دنیا کے عقلمند لوگ سمجھتے ہیں ان کی بیوقوفی کا بھانڈا پھوٹ پڑتا ہے۔ اسی سلسلے میں یہود کی شہ پر سال 2005 ءکے اواخر میں عیسائی دنیا کے قلب ڈنمارک میں ایک اخبار نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز کاٹو ن شائع کئے ۔ یہ کارٹون ایک دو نہیں بلکہ درجن بھر سے زائد تھے ۔ اور ان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہایت نازیبا خیالات پیش کئے گئے تھے۔ عالم ِ اسلام نے بجا طور پر اس پر شدید احتجاج کیا اور تاریخ عالم میں پہلی بار دنیا بھر کے مسلمانوں نے نہایت تسلسل اور شدت کے ساتھ اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ یہود و نصاریٰ کی یہ کارستانی اس قدر توہین آمیز اور ظالمانہ تھی کہ دنیا بھر میں منصف مزاج عیسائیوں ‘ ہندوؤں اور دیگر مذاہب والوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جلوس نکالے۔ مگرعالم کفر نے بجائے نادم وپشیمان ہونے کے مزید سرکشی کا مظاہرہ کیا ۔ اور اس کے سینے میں نخوت و غرور کی مزید ہوا بھر گئی۔ چنانچہ یورپ کے کئی سارے ممالک نے ان توہین آمیز کارٹونوں کو بار بار شائع کیا اور جس نے بھی اسے شائع کیا اس نے اسے پریس کی آزادی کا نام دے کر مسلمانوں سے معافی مانگنے کو مسترد کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کا صبر و تحمل بے اندازہ ہے اس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں ۔ اس نے عالم ِ یہودیت اور عالم ِ عیسائیت کی لگام کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ وہی ڈھیل ہو جو ایک مچھیرا مچھلی پکڑتے وقت دھاگے کو دیتا ہے تاکہ لوہے کا حلقہ مچھلی کے پیٹ تک پہنچ سکے اور مچھلی نکالنے کیلئے جھٹکا دیتے وقت مچھلی کسی طرح چھوٹ نہ سکے۔
یورپ اور عالمی برادری کے اس متعصبانہ رویہ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان کو یہ سوچنا چاہئیے کہ مسلمان کے گھر میں جس آگ کے لگنے سے وہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کل وہ آگ ان کے گھر میں بھی لگ سکتی ہے۔ اور اس سے ان کے قیمتی املاک سمیت ان کی اپنی جانیں بھی جل سکتی ہیں۔ پھر وہ مدد کیلئے مسلمانوں کی جانب منہ کرکے کس طرح پکاریں گے؟ لہٰذا ان کو اس امر پر اتفاق کر لینا چاہئے کہ مذہبی رہنما سب قابل احترام ہیں اور ان کی توہین ایک ملت کی توہین ہوتی ہے۔ جس پر اگر صدائے احتجاج بلند نہیں ہو سکتی تو نہ سہی مگر اس پر خوشی کے مارے بغلیں بھی نہ بجانی چاہئیں۔

٭٭٭
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جزاک اللہ ۔ اللہ آپ کو مجھے اور سب دوستوں کو مزید ہمت اور استقامت دیں کہ ہم نبی لسیف ولملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول و فعل کا دفاع کر سکے

ہمیں یہ تاریخ کے ہندسے اچھی طرح سے نظر نہیں آتے اسی طرح کریں کہ ہندسے لکھتے وقت کی بورڈ کا اگر ہندسوں والا حصہ استعمال کیا جائے ( Num lock) جس سیکش کے اوپر لکھا ہوا ہوتا ہے ۔


اللہ اکبر کبیرا
 
Top