توُ تو سب جانتا ہے۔ از آصف احمد بھٹی

توُ تو سب جانتا ہے

( مکالماتی افسانہ )
آصف احمد بھٹی

خدایا ! ساری عمر ہر دکھ پریشانی کے باوجود میں تیری رضا میں راضی رہا ہوں میں نے کبھی تجھ سے سوال نہیں کیاجو تُو نے دیا میں نے شکر پڑھ کر لے لیا ، کبھی کوئی فرمائش نہیں کی ، کبھی کسی دکھ کی فریاد نہیں کی ، کبھی کسی زخم کا کھلامنہ تجھے نہیں دکھایا ، کبھی کسی درد پر میری کراہ نہیں نکلی ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ مگر میرے خدایا ! آج میرے ہونٹوں پر ایک شکوہ آ ہی گیا ہے ۔ ۔ ۔ ایک سوال میرے دماغ میں کہیں ہتھوڑے برسا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مگروہ سوال کیا ؟ مجھے یاد نہیں آرہا ۔ ۔ ۔ مجھے وہ شکوہ یاد نہیں آرہا ۔ ۔ ۔ اور یاد بھی کیسے آئے درد کی شدت کسی طور کم ہی نہیں ہورہی ، بلکہ لمحہ بہ لمحہ بڑھ ہی رہی ہے ، پورا جسم جیسے پھوڑا بنا ہوا ہوبلکہ بنا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ ہاں البتہ میں اپنے سارے دکھ اپنے بیٹے علی کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اب پندرہ سال کا ہو چکا ہے اُسے اچھے برے کی کسی حد تک تمیز ہو چکی ہے ، میں جانتا ہوں پندرہ سال کچھ اتنے زیادہ بھی نہیں ہوتے اور وہ ابھی کم عمر ہے مگر خدایا ! تیرے بعد مجھے اُسی کا تو سہارا ہے ۔ ۔ ۔ مگر میں اپنے دُکھ اُسے کیسے بتاؤں میں لفظ اگٹھے کرنے کے قابل ہی کب رہا ہوں ، درد ختم کرنے والی دوائیں مجھے ہوش میں رہنے نہیں دیتی اور درد مجھے ہوش کھونے نہیں دیتا ، اب تو ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا ہے کہ بس چند گھنٹے اور۔ ۔ ۔ دماغ درد اور اذیت سے ماؤف ہورہا ہے ، کچھ کہنے کو لفظ جوڑتا ہوں مگر منہ سے صرف کراہیں نکل رہی ہیں اور علی میری ہر کراہ پر تڑپ سا جاتا ہے ، بے چینی سے ٹہلنے لگتا ہے اور کبھی کبھی تو ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ پچھلے تیس گھنٹوں سے میری ماں نہیں سوئی اور سو بھی کیسے سکتی تھی جس کا بیٹا ہڈیوں اور گوشت کا ملغوبہ بنا سُرخ و سفید پٹیوں میں لپٹا ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہو اُسے نیند کیسے آسکتی ہے ، میری ماں تو ہمیشہ سے بدنصیب رہی ہے، نانا کے مرنے کے بعد نانی نے دوسری شادی کرلی تھی ، سوتیلا باپ بہت سخت تھا ، شرابی اور جواری تھا وہ میری ماں کو جوئے میں ہار گیا مگر جیتنے والا اچھا آدمی تھا اور اچھا کیوں نہ ہوتا وہ میرا باپ تھا اور باپ ہر کسی کا اچھا ہوتا ہے ، اُس نے میری ماں سے شادی کر لی وہ میری ماں سے تیس سال بڑا تھا ، پندرہ سال بعد جب میری ماں تیس سال کی تھی میرا باپ مر گیا میری بد نصیب ماں بیوہ ہوگئی میں اور میرے بہن بھائی یتیم ہوگئے میں سب سے بڑا تھا میری عمر صرف بارہ سال تھی مگر اچھے برے کی تمیز تھی یا شاید ہو گئی تھی ، میری ماں بھرپور جوان تھی گلی کے آوارہ نوجوان ہمارے گھر کے سامنے رالیں ٹپکاتے گھومنے لگے ، ماں کی جوانی ایک خوف بن کرمیرے دماغ میں بیٹھ گی اورایک ہی رات میں میں پچاس سال کا ہو گیا ، میں اپنی ماں اور اُس کے بچوں کا باپ بن گیا میں نے کبھی بھی اور کسی بھی ضرورت کے تحت اُسے گھر سے نکلنے نہیں دیا ، ننھے ننھے ہاتھوں سے ہوٹلوں میں برتن مانجھے، پیسے والوں کی گاڑیاں دھوئیں ، سگنلزاورچوراہوں پرکنگیاں بیچی ، لوگوں کی گالیاں سنی ماریں کھائیں ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور میرا بھائی ڈاکٹرفرہاد جومجھ سے صرف ایک ہی سال چھوٹا ہے اور جو آج شہر کا ایک نامور ڈاکٹر ہے اُس کی بیوی بھی ڈاکٹر ہے روزانہ سینکڑوں مریض اُن کے کلینک پر آتے ہیں وہ بھی پچھلے تیس گھنٹوں سے گھر نہیں گیا حالانکہ اُس کی بیوی کئی بار اُسے فون کر چکی ہے مگر وہ میری محبت میں ماں کے کندھے سے لگا بیٹھا تھا ، وہ ہمیشہ مجھ سے کہتا ہے۔ ۔ ۔ لالہ ! تم میرے بھائی نہیں میرے باپ ہو اورہر بیٹا اپنے باپ سے فرمائشیں کرتا ہے اور میں اُس کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے اوراُس کا باپ بنے رہنے کے لیے اپنے جسم کو محنت کی بھٹی میں جلاتا رہا ہوں ، اُس کی تعلیمی اخراجات اور اُس کے جیب خرچ پورے کرنے کے لیے میں نے کئی بار اپنا خون بھی بیچا اور اُس نے بھی کبھی مجھے مایوس نہیں کیا ہمیشہ کلاس میں اول آتا رہا اور جب ڈاکٹر بنا تو پورے صوبے میں اول آیا تھا اسی لیے تو ڈاکٹر ارشاد خان جیسے بڑے آدمی نے اُسے اپنا داماد بنا لیا اور اعلی تعلیم دلوانے کے لیے اپنے خرچے پرامریکہ بھیجا ، وآپس آ کر وہ دو سال تک اپنے سسر کے ہسپتال میں کام کرتا رہا ہے ابھی کچھ سال پہلے ہی اپنا کلینک بنایا ہے اور ڈیفنس کی ایک شاندار کوٹھی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آ رہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور میری بہن کنول ! بلکل پھولوں جیسی نرم و نازک ، مجھ سے پانچ سال چھوٹی تھی مگر ایک دم ہی جوان ہو گئی مجھے پتہ ہی نہیں چلا ، پتہ بھی کیسے چلتا میں گھر پر رہا ہی کب ہوں ، ماں فجر کی نماز پڑھ رہی ہوتی تو میں گھر سے نکلتا تھا اور آدھی رات کے بعد گھر آتا تھا ، کبھی کبھار جب جلدی گھر آجاتا اور وہ جاگ رہی ہوتی تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی اورمیرے کندھے پر چڑھ کر کھیلتی تھی ، یا ماں ہر مہینے اُس کی اسکول فیس مانگتی تھی تب اُس کے وجود کا احساس ہوتا تھا ، ہر سال جب وہ اپنے پاس ہونے کی خبر سنانے کو رات دیر تک جاگتی اور میرا انتظار کرتی تھی تب مجھے بہت اچھا لگتا ، مجھے لگتا کہ میرے باپ کی روح مجھ سے بہت خوش ہوگی ۔ ۔ ۔ ماں کو اُس کی شادی کی بہت فکر تھی وہ ہر مہینے اُس کے جہیز کے لیے کچھ نہ کچھ خرید کر رکھ لیتی تھی اور پھر اُس کی شادی بھی ہوگئی عمر اچھا لڑکا تھا اُس کے ماں باپ بھی اچھے تھے اُنہوں نے کسی شے کی مانگ نہیں کی تھی بس ہم نے جو دیا چُپ چاپ لے لیا تھا ، مگر ایک سال بعد ہی جب فرہاد کو اُس کے سسر نے امریکہ بھجوایا ، توعمر کوبھی انگلینڈ جانے کا خبط ہوگیا ، ایجنٹ آٹھ لاکھ روپے مانگتا تھا اور اُس کے پاس صرف تین لاکھ تھے ، تب میں نے اپنا ایک گردہ بیچ کر اُسے باقی پیسے دئیے تھے ۔ ۔ ۔ اورآج جانے اُنہیں کسی نے بتایا بھی ہے کہ نہیں اور بتایا بھی ہو تو انگلینڈ کون سا قریب ہے آنے میں کچھ وقت تو لگ ہی جائیگا ، ہوسکتا ہے نہ بھی آئیں ہر انسان کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور پھر ندیم ! میرا دوست ، انتہائی محنتی انسان میرے ہربرے وقت کا ساتھی ، پندرہ سال پہلے ہم دونوں نے مل کر جو ایک چھوٹا سا ٹی اسٹال شروع کیا تھا وہ اب شہر کا ایک مشہور ریسٹورنٹ میں بن چکا ہے ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کے کبھی صرف خواب دیکھا کرتے تھے جانے کیوں ماں اُس کا گھر میں آنا جانا پسند نہیں کرتی تھی ، ایک بار علی بھی اُس سے اُلجھا تھا مگر اُس نے بھی مجھے وجہ نہیں بتائی تھی ، مجھے تو اُس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ اور میری بیوی نزہت ! فرہاد اور کنول کی شادی کے بعد ماں کو میری شادی کی فکر ہوئی ، نزہت ماں کی دور کی رشتہ دار تھی ، میری شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی نزہت کے ماں باپ بہت غریب تھے شادی کے بعد ہمیشہ میں نے محسوس کیا کہ نزہت مجھ سے کچھ کھنچی سی رہتی ہے ، شاید میں ہی اُسے پورا وقت نہیں دے پاتا تھا جب میں نے ٹی اسٹال نیا نیا شروع کیا تھا ماں نے کئی بار مجھے سمجھایا بھی مگر بچپن سے محنت کی عادت پڑ گئی تھی اور پھر مجھے علی کے مستقبل کی بھی فکر ہونے لگی تھی علی کی پیدائش کے بعد نزہت نے دوسری بار ماں بننے سے صاف انکار کردیا تھا اور میں بھی کم آمدنی کی وجہ سے اُس کی بات مان گیا تھا مگر اب تو ۔ ۔ ۔ تیس گھنٹے پہلے تک میں ایک گردے والا مگر صحتمند آدمی تھی اور پچھلے کچھ عرصے سے نزہت کا رویہ بھی قدرے بہتر تھا ، پرسوں ہماری شادی کی سالگرہ تھی حالانکہ اِس سے پہلے ہم نے کبھی اپنی شادی کی سالگرہ نہیں منائی تھی ، جانے نزہت کے دل میں کیا آئی اُس نے فرہاد اور اُس کے بیوی بچوں کی دعوت کر ڈالی وہ لوگ آئے ہوئے تھے نزہت نے مری جانے کا پروگرام بنا لیا ، مری میں فرہاد کا ایک کاٹج ہے علی ، اماں ، فرہاد اور اُس کے بیوی بچے بھی ہمارے ساتھ تھے ، ہم سب مری آ گئے ، نزہت اپنے پچھلے رویئے پر شرمندہ تھی شام کو ہم سب ٹہلنے نکلے بہار کے ابتدائی دن ہیں ، ابھی اکا دوکا لوگ ہی مری آئے ہیں اس لیے سڑک بلکل سنسان تھی علی اور اماں فرہاد اور اُس کے بچوں کے ساتھ ہم دونوں سے کچھ آگے جارہے تھے ، نزہت میرے ساتھ تھی سڑک کنارے کچھ خوبصورت جنگلی پھول نظر آرہے تھے ، نزہت نے مجھ سے پھول کی فرمائش کی میں پھول توڑنے کے لیے جھکا اور اپنا توازن نہ رکھ سکا ،اور نیچے گہری کھائی میں گرتا چلا گیا ، بس نزہت کی چیخ سنائی دی اور پھر کچھ ہوش نہ رہا۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ خدایا۔ ۔ ۔ وہاں میرے اور نزہت کے سوا اور کوئی بھی نہ تھا پھر مجھے کیوں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دیا تھا ۔ ۔ ۔ خدایا ۔ ۔ ۔ میں نے تو کبھی نزہت پر شک نہیں کیا تھا ، کبھی اماں کے کہنے پر بھی ۔ ۔ ۔ اماں کے منع کرنے باوجود ۔ ۔ ۔ علی کے ندیم سے اُلجھنے اور پھر مجھے وجہ نہ بتانے کے باوجود میں نے ندیم کو گھر آنے سے نہیں روکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُ توسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ ہاں ! ہاں یاد آ گیا۔ ۔ ۔ خدایا ! مجھے یاد آ گیا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں نے کبھی تیری کوئی نماز نہیں پڑھی ۔ ۔ ۔ کیا کرتا مجھے کبھی اِس کی فرصت ہی نہیں ملی ۔ ۔ ۔ کیا تو مجھے بھی دوزخ میں جلائے گا؟
آصف احمد بھٹی​
 

نایاب

لائبریرین
کلاسیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک سکوت طاری کر گئی یہ تحریر
بہت سی دعاؤٖں بھری داد
 
Top