توبۃ النصوح صفحہ نمبر 151 تا 200

قیصرانی

لائبریرین
نعیمہ: ہر پھر کر تم کو خدا کا تذکرہ کرنا ضرور۔ بھلا میں کب خدا سے روٹھی؟

صالحہ: رزق خدا کا یا ماں باپ کا؟

نعیمہ: اللہ رہی علامہ! دیکھو تو، کسی ایچ پیچ کی باتیں کرنی آتی ہیں۔

صالحہ: تم کو پیچ و تاب کی باتیں آتی ہیں تو مجھ کو ایچ پیچ کی۔

نعیمہ: غصہ ہی تو ہے۔

صالحہ: اچھا غصہ ہے، باؤلا غیظ، دیوانہ غضب، ادھر بے جان پر اور ادھر بے زبان پر۔

نعیمہ: بے جان اور بے زبان کیا؟

صالحہ: کھانا بے جان اور بے زبان تمہارا بچہ نادان۔ میں نے سنا ہے کہ تم نے اس کو بھی خوب کچلا کیا۔

نعیمہ: کیا تو کسی کو کیا؟ اپنا بچہ شوق سے مارا، خوشی سے کچلا۔

صالحہ: تم اپنے بچے کو شوق سے مارو اور خوشی سے کچلا کرو، پھر خالہ جان نے تم کو ایک تھپڑ ہولے سے مارا تو کیا غضب ہوا؟ جیسی تم اپنے بچے کی ماں، وہ تمہاری ماں۔

نعیمہ: ماں ماں برابر لیکن بچہ بچہ برابر نہیں۔

صالحہ: لیکن تم دونوں میں زیادہ تر واجب الرعایت کون ہے؟

نعیمہ: میں

صالحہ: میں کے گلے پر چھری۔ کیا واجب الرعایت نکلی، میں۔ ذرا منہ تو دھو کر رکھو۔

نعیمہ: دیکھو بڑوں کے ساتھ بے ادبی۔

صالحہ: بڑوں نے کی تو چھوٹوں نے سیکھی۔

نعیمہ: اجی وہ کچھ بھی رعایت میرے ساتھ نہ کریں۔ اللہ مالک ہے۔

صالحہ: کیوں جھوٹ بولتی ہو۔

نعیمہ: بس سب کچھ کہنا، جھوٹی نہ کہنا۔ اس کی مجھ کو بڑی چڑ ہے۔ جو کوئی مجھ کو جھوٹی کہتا ہے تو میرے تن بدن میں آگ ہی تو پھک جاتی ہے۔

صالحہ: بھلا پھر تم اللہ کو مالک سمجھتی ہو جو کہتی ہو؟

نعیمہ: کوئی ایسا بھی بندہ بشر ہے جو اللہ کو مالک نہیں سمجھتا؟

صالحہ: اللہ کو مالک سمجھتیں تو ایسی بے جا بات بول اٹھتیں جس پر خالہ جان خفا ہوئیں اور بجا خفا ہوئیں۔

نعیمہ: لیکن کبھی خالو جان کی شان میں تو ایسی تمہارے منہ سے نہیں نکلتی۔ بلکہ خالو جان تو خیر، شاید بڑے بھائی جان کو بھی ایسا سخت کلمہ کہو تو ان کو کتنا برا لگے گا۔ کیا خدا کو برا نہ لگا ہوگا؟

یہ سن کر نعیمہ کسی قدر ڈری اور اس نے ہولے ہولے اپنے کلوں پر طمانچے مارے اور منہ سے بھی توبہ توبہ کہا۔

صالحہ: بس سمجھ لو کہ ایسا ہی ایک طمانچہ خالہ جان نے مارا سہی۔

نعیمہ: تو میں کیا کچھ کہتی ہوں یا میں نے کچھ کہا؟

صالحہ: اے کاش تم سب کچھ کر لیتیں اور یہ ستم نہ کرتیں۔

نعیمہ: کیا؟

صالحہ: سارے دن گھر بھر کو بھوکا مارا۔ بچہ تمام دن دودھ کو پھڑکا۔ بیدارا بے چاری، وہ سہ درے میں پڑی پڑی ہائے ہائے کر رہی ہے۔ نہیں معلوم کہاں اس کے بے موقع لات لگی ہے کہ اب تک اس کا سانس پیٹ میں نہیں سمایا اور پھر کہتی ہو کیا کیا۔

نعیمہ: خیر اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔

صالحہ: ہو نہیں چکا، ہو رہا ہے۔ لوگ بھوکے بیٹھے ہیں۔ بچہ پھڑکے چلا جاتا ہے۔

نعیمہ: اچھی، کچھ یہ بھی زبردستی ہے۔ ماروں اور رونے نہ دوں۔

صالحہ: تم کو اتنی بڑی ہو کر رونے کا نام لیتے ہوئے شرم نہیں آتی؟

نعیمہ: جب مار کھانے کی غیرت نہ ہوئی تو رونے میں کیا شرم تھی۔

صالحہ: ماں ہوئی، استانی ہوئی، اگر ان کو مار کھانا بے عزتی ہے تو دنیا بے عزت ہے۔

نعیمہ: تم کو مار پڑی ہوتی تو جانتیں کہ عزت کی بات ہے یا بے عزتی کی۔

صالحہ: استانی جی کی مار کی تو کوئی گنتی ہی نہیں۔ اماں جان نے بھی مجھ کو کوئی بیسیوں ہی دفعہ مارا ہوگا۔

نعیمہ: اب بڑے ہوئے پر؟

صالحہ: اب میں کوئی بات ہی ایسی نہیں کرتی کہ ان کے خلاف مزاج ہو۔

نعیمہ: میں نے بھی تو یہ سمجھ کر نہیں کہا تھا کہ اماں جان کو اتنا برا لگے گا اور نہ کبھی پہلے اماں جان کو نماز روزے کا ایسا خیال ہوا جیسا کہ اب ہے۔

صالحہ: لیکن جب تم کو خالہ جان کئی مرتبہ روک چکی تھیں تو تم کو ان کی ممانعت کے خلاف پھر وہی بات نہیں کہنی چاہیئے تھی۔

نعیمہ: کیوں جی، خدا کو میری بات بری لگتی تو جو کچھ ہونا تھا اسی وقت نہ ہو چکتا؟

صالحہ: پہلے یہ تو بتاؤ کہ بات بے جا اور بری تھی یا نہیں؟

نعیمہ: خیر بری ہی سہی۔

صالحہ: سہی کیا معنی، شدت سے بری اور بے جا تھی کہ تم اپنے بھائی تک کو ایسا کلمہ نہیں کہہ سکتیں۔ ایسی ہی باتوں کا نام کفر اور شرک ہے۔ مگر اس سے کہ تم کو فوراً سزا نہیں ملی، خوش نہیں ہونا چاہیئے۔ خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ عجب کیا ہے کہ ایسی باتوں کا وبال تم کو گھر میں بسنے نہیں دیتا۔

نعیمہ: اماں مجھ کو تنہائی میں مار لیتیں تو مجھ کو اتنا رنج نہ ہوتا۔

صالحہ: سبحان اللہ۔ خطا بہ بازار و سزاوار پس دیوار۔

نعیمہ: اچھا پھر اب تمہاری مرضی کیا ہے؟

صالحہ: مرضی یہ ہے کہ چل کر خالہ جان کے روبرو ہاتھ جوڑو۔ ان کے پاؤں پڑو۔ اپنا قصور معاف کراؤ۔ کھانا آپ کھاؤ، دوسروں کو کھانے دو۔ بچے کو دودھ پلاؤ۔ حمیدہ کو بلا کر گلے لگاؤ۔ بیدارا کی دل دہی اور تشفی کرو۔

نعیمہ: لو اور سنو۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ میں ہی پٹوں اور میں ہی ہاتھ بھی جوڑوں اور اگر میرا قصور ہوتا بھی تاہم ہاتھ تو بندی نے نہ آج تک کسی کے آگے جوڑے اور نہ اب مجھ سے جوڑے جائیں۔ رہی حمیدہ، تم کہتی ہو کہ گلے لگاؤ اور میرا بس چلے تو اس کو جیتا نہ چھوڑوں اور کھانے کی بات جو تم نے کہی تو مجھ کو اب اس گھر کا نمک تک چکھنا حرام ہے۔ غرض جتنی باتیں تم نے کہیں، سوچ کر ایسی ہی کہیں کہ ایک بھی مجھ سے شدنی نہیں۔ خیر، تمہاری خاطر سے ننھے کو دودھ پلائیں گی۔ جاؤ کہیں سے لے آؤ۔ ورنہ ارادہ تو یہی تھا کہ اس کا اور اپنا دونوں کا خون کردوں۔

صالحہ: اللہ اکبر بی آپا، میں نہیں جانتی تھی کہ تمہارا غصہ اس قدر غضب کا بجھا ہوا ہے۔

نعیمہ: میرا مزاج تو سدا سے اسی طرح کا ہے۔ مجھ سے کسی کی بات کی برداشت نہیں ہوتی۔

صالحہ: اب تم سے زیادہ کہنا لاحاصل ہے۔ بس معلوم ہو گیا کہ تم اپنی خوشی کی ہو۔

نعیمہ: جو بات کرنے کی تھی وہ تو میں نے پہلے ہی کہہ دی، کہ ننھے کو دودھ پلاؤں گی۔

صالحہ: تمام دن تو تم کو بے آب و دانہ گذر گیا اور عمر بھر کے بدلے کا تم نے ایسا لمبا روزہ رکھا ہے کہ پہر رات گذری مگر افطار ہونے نہیں آیا اور نہ ابھی کچھ اس کے افطار ہونے کی امید ہے۔ تو وہ دودھ رہا کہاں ہوگا کہ تم ننھے کو پلاؤ گی۔

نعیمہ: رہے یا نہ رہے مگر میں اس گھر کا کھانا کھاؤں تو حرام کھاؤں، مردار کھاؤں۔

صالحہ: پھر آخر کرو گی کیا؟ یہ تو ممکن نہیں کہ بے کھائے گذر ہو۔ ایک ہی وقت میں، دیکھو، تمہارا کیا حال ہو گیا ہے۔ اب رات کو خالی پیٹ نیند بھی نہیں آئے گی۔

نعیمہ: میں تو جانے کو تیار بیٹھی ہوں۔ تم نہ آ جاتیں تو اب تک کبھی کی چلی بھی گئی ہوتی۔

صالحہ: کہاں، سسرال؟

نعیمہ: اگر میں سسرال جاؤں تو گڑھے سے نکلوں اور کنوئیں میں گروں۔

صالحہ: پھر کہاں؟

نعیمہ: جہاں سینگ سمائیں۔

صالحہ: باؤلی ہوئی ہو۔ کیسی باتیں کرتی ہو۔ اگر خالو جان یہ بات سن پائیں، نہیں معلوم کیا آفت برپا کریں اور گھر سے باہر قدم نکالنا تو بڑی بات ہے۔

نعیمہ: تم کیا سمجھیں؟ میں اس ہمسائی کے یہاں جانے کو کہہ رہی ہوں۔ کیا یوں ہر روز میں ہمسائی کے گھر نہیں جاتی ہوں؟

صالحہ: وہ جانا اور ہے اور گھر سے لڑ کر بے حکم پاؤں باہر نکالنا دوسری بات ہے۔ خبردار، ایسا بھول کر بھی منہ سے مت نکالنا، نہیں معلوم کیا سے کیا ہو جائے گا اور خود ہمسائی، جن کے برتے پر بھولی ہو، تم کو اپنے دروازے کے اندر قدم تو رکھنے دینے ہی کی نہیں، چاہو جا دیکھو اور فرض کیا کہ تم یہاں سے نکلنے پائیں اور ہمسائی کی بھی ایسی ہی شامت آئی اور انہوں نے تم کو گھر میں آنے دیا تو ان کو خود دو دو وقت کھانا میسر نہیں آتا، تم کو کہاں سے کھلائیں گی؟

نعیمہ: نوج میں ان کے یہاں کیوں کھانے لگی۔ کیا میرے پاس زیور نہیں؟ ابھی تو پٹاری میں کچھ نہ کچھ تو نقد چالیس پچاس روپے پڑے ہوں گے۔

صالحہ: گڑ کھاؤ گلگلوں سے پرہیز۔ جن کا کھانا انہیں کا بنوایا زیور، انہیں کے دیے ہوئے روپے۔ آن تو جب جانیں کہ ان کی چیز بھی صرف نہ کرو اور ہمسائی، اول تو میں حیران ہوں، تم کو بٹھائیں تو کہاں بٹھائیں۔ کلھیا جتنا گھر، اس میں بھی ایک آپ، ایک میاں، تین بیٹے، بہوئیں، ان کے بچے، دو بیٹیاں مہمان آئی ہوئی ہیں وہ ان کے گھر میں تل رکھنے کی جگہ تو ہے ہی نہیں۔ بے چاری آپ تو ڈیوڑھی میں چارپائی بچھا کر سوتی ہیں، تم کو رات کے وقت کہاں لٹاتیں اور کہاں سلاتیں؟ اور تم کو غیر مردوں میں جاتے ہوئے شرم نہ آتی؟ اور پھر ہمسائی تم کو پناہ دیتیں بھی تو خالہ جان ہی کا پاس کر کے۔ غرض قربان جاؤں تمہاری عقل کے، تدبیر بھی سوچی تو اوندھی، علاج بھی تجویز کیا تو الٹا۔ اس سے بہتر تھا کہ تم سسرال چلی جاتیں۔

نعیمہ: نہ سسرال جاؤں، نہ یہاں کھاؤں۔

صالحہ: تم کو اختیار ہے، جو چاہو سو کرو۔ لیکن کیا لڑائی تمہارے کھانے پر ہوئی ہے؟

نعیمہ: کھانے پر تو لڑائی نہیں ہوئی لیکن میں ان کے گھر پر یوں نہ پڑی ہوتی تو مجال تھی کہ کوئی مجھ کو ہاتھ لگا لیتا۔

صالحہ: کرتیں کیا؟

نعیمہ: برابر سے میں بھی مارتی۔

صالحہ: برا مت ماننا، یہی نیت ہے تو تم گھر میں بس چکیں۔ ماں کا یہ وقر، یہ ادب! مجھ کو تو اگر میری اماں جان بے خطا، بے قصور، جوتیوں پر جوتیاں بھی مار لیں تو انشاء اللہ آنکھ بھی ان کے سامنے نہ کروں اور دنیا جہاں کی بیٹیوں کا یہی قاعدہ، یہی دستور ہے۔ تم ان کی بیٹی، وہ تمہاری ماں، کسی کو تمہارے معاملے میں کیا دخل۔ مگر آپا جان، دین تو گیا ہی گذرا ہوا، یہ لچھن دنیا میں بھی خوش اور آباد رہنے کے نہیں اور خدا تم کو اتنی سمجھ دے کہ تم انہیں باتوں کو اپنی خانہ ویرانی کا سبب سمجھو۔ مجھ کو حیرت ہے کہ کیوں کر یہ بات تمہارے دل نے تسلیم کی کہ خالہ جان کو تمہارا رہنا ناگوار ہے اور انہوں نے اس وجہ سے تمہارے ساتھ سختی کی کہ وہ تم کو اپنے پاس نہیں دیکھ سکتیں۔ بھلا دنیا میں کوئی ماں بھی اس طرح کی ہوگی؟ تمہاری خانہ ویرانی کا رنج تم سے زیادہ ان کو ہے۔ ذرا اس کا مذکور آ جاتا ہے تو ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں اور حاضر غائب دعا کیا کرتی ہیں کہ الٰہی میری نعیمہ کو اس کے گھر آباد کر۔ بھلا تم ہی انصاف کرو کہ سوائے اس بات کے، تم نے ان کی کسی بات سے بھی ان کا رخ بدلا ہوا پایا۔ کھانے میں ان کو یہ اہتمام رہتا ہے کہ پہلے تم اور پیچھے وہ اور میں نے ہفتوں رہ کر دیکھا ہے، خالو جان اور بڑے بھائی تک کو سادی چپاتیاں ملتی ہیں اور تمہارے دو پراٹھے انہوں نے ناغہ نہیں ہونے دیے۔ چار پیسے روز کا سودا جو تمہارا سدا کا معمول ہے، تمہی بتاؤ، کبھی نہیں بھی دیا؟ ایک دن حمیدہ نے ضد کی تھی اور کہا تھا کہ میں بھی چا رپیسے لوں گی، تو جھڑک دیا کہ ہاں اب تو بڑی بہن کی برابری کرے گی۔ آٹھویں دن کی مہندی، مہینے کے مہینے کی چوڑیاں، تم ہی بولو، یہ دستور کبھی قضا ہوا ہے؟ کپڑے لوگ ایسے جہیز میں بھی نہیں دیتے جو وہ تم کو گھر میں پہناتی ہیں۔ بھلا بے گوٹے کا دوپٹہ بے پیمک کا پائجامہپ، کبھی تم کو پہننا یاد ہے؟ تیل، عطر، پھول، مہندی، سرمہ، مسی، لاکھا، مجشن اور اپٹنا، یہی عورتوں کی ضرورت کی چیزیں ہیں۔ سچ کہنا، تم کو کبھی ان میں سے کسی چیز کے مانگنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ خدمت کی لونڈی جدا، لڑکے کی کھلائی الگ۔ بلکہ سچ پوچھو تو کنوار پنے سے کہیں زیادہ قدر ہوتی ہے۔ خالہ جان ایک دن تمہارے دوپٹے میں بیٹھی توئی ٹانک رہی تھیں۔ خالو جان کی قبا میں ٹانکنے تھے۔ کچہری جانے کو دیر ہوتی تھی۔ اس پر خالو جان نے کہا بھی کہ لڑکی کا دوپٹہ رہنے دو پھر ہو رہے گا، پہلے میری قبا میں بند ٹانک دو۔

خالہ جان: واہ لڑکی سر کھولے بیٹھی ہے، تم کو ایسی جلدی کیا ہے۔ ابھی تو دھوپ بھی چبوترے سے نہیں اتری۔

خالو جان: کیا سادہ دوپٹہ اوڑھنا منع ہے؟

خالہ جان: وہ بےچاری کیا کچھ کہتی ہے۔

خالو جان:تو تم اپنی طرف سے خیر خواہی کے اہتمام میں لگی رہتی ہو۔

خالہ جان: میں ہوں کس قابل، مگر خیر جو کچھ ہو سکتا ہے کئے جاتی ہوں۔ مجھ کو ہر وقت اس بات کا خیال لگا رہتا ہے کہ اس کا دل ہے غمزدہ، ایسا نہ ہو کہ کسی چیز کو اس کی طبیعت چاہے اور یہ لحاظ کے مارے منہ سے نہ کہہ سکے اور ارمان جی کا جی ہی میں رہ جائے۔

اگر خالہ جان کو تمہارے ساتھ عداوت ہوتی تو خود کھانا کھالیتیں۔ دشمن کا یہی کام ہے کہ فاقے میں ساتھ دے اور شریک مصیبت ہو؟ وہ حمیدہ، جس کو تم کہتی ہو کہ پاؤں تو مار مار کر پرزے اڑاؤں، آج دن بھر اس کو تمہارے واسطے روتے گذرا۔ یہ عمر اور اتنا صبر کہ صبح سے اب تک دانہ اس کے منہ میں نہیں گیا۔ نگوڑی ایسی بے سدھ پڑی ہے کہ گویا جان نہیں۔ ان لوگوں کا وہ حال اور تمہاری یہ کیفیت۔ ایک ذرا سی بات میں تمہارا دل اس قدر بھر گیا کہ ساری نیکی برباد، کل سلوک اکارت، تمام احسان غارت۔ پھر بھلا تم سے کوئی کیا توقع رکھے اور کس امید پر تم سے ملے؟

نعیمہ: بھائی یہ بات تو تمہاری واجبی ہے کہ ہمیشہ سے اماں جان مجھ کو بہت چاہتی ہیں لیکن خدا جانے کہ ان کو کیا ہو گیا تھا کہ بے تحاشہ مار بیٹھیں۔

صالحہ: اچھا پھر یوں ہی سمجھو کہ آدمی ہی تو ہیں، انہی سے زیادتی ہوگئی سہی۔ لیکن کیا انصاف ہے کہ اس ایک زیادتی کی وجہ سے ان کی عمر بھر کی مہربانی اور شفقت اور عنایت اور رعایت اور دل سوزی اور ہمدردی اور خیر خواہی اور پرورش اور نفع رسانی، ایک دم سے سب پر پانی پھیر دیا جائے۔

نعیمہ: مجھ کو رہ رہ کر ان کا تھپڑ کم بخت یاد آتا ہے۔

صالحہ: اس واسطے کہ تم نے ان کے حقوق بھلا رکھے ہیں۔

نعیمہ: کیا اماں جان نے تم سے کہا ہے کہ سمجھا بجھا کر نعیمہ کو خطا معاف کرانے کے لئے بلوا لاؤ۔

صالحہ: ہرگز نہیں۔ ان کو تمہاری خطا معاف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نقصان تمہارا ہے یا ان کا؟ اور شاید ان کے دل میں یہ بات آئی بھی ہو تو تمہارے مزاج کو دیکھ کر بھلا ان کو یہ توقع ہو سکتی ہے کہ تم خطا کااقرار اور معافی کی درخواست کرو گی؟

نعیمہ: بھلا اور جو میں گئی اور اماں جان منہ سے نہ بولیں تو مجھ کو اور شرمندگی ہوگی۔

صالحہ: ممکن ہے نہ بولیں، کیوں کہ تمہاری خطا معمولی طور کی خطا نہیں ہے۔ مگر پھر وہ ماں ہیں اور ماں بھی کیسی، بچوں پر اور خصوصاً تم پر دل سے فدا، جان سے قربان۔ شاید تم کو کوٹھری سے نکلتا ہوا دیکھ، عجب نہیں کہ دوڑ کر خود لپٹ جائیں اور تم کو منہ سے کہنے کی نوبت بھی نہ آئے۔

نعیمہ: جی تو چاہتا ہے کہ جاؤں چلی بھی جاؤں مگر شرم آتی ہے۔ بھلا کل پر رکھتیں تو کیسا؟

صالحہ: تم کو خدا کا ترس نہیں آتا کہ سارا گھر فاقے سے ہے۔ رات بھر میں تمہارا اور ان سب کا کیا حال ہوگا۔

نعیمہ: بھائی ہاتھ جوڑنے کو تو رہنے دو، کھانا اپنے نام سے منگوا بھیجو۔

صالحہ: اجی مجھ سے کہو تو میں کھانے کو بھی رہنے دوں۔ بھوکی مرو گی تم یا تمہاری ماں بہنیں۔ مگر بے صفائی کھانے کا لطف نہیں۔ ادھر تم افسردہ، ادھر وہ آرزدہ، کھانا کیا خاک کھایا جائے گا۔ بس اتنی دیر کی بات ہے کہ تم کوٹھری کے باہر تک چلو۔

نعیمہ: بھائی بس، زیادہ ہم کو دق نہ کرو۔ کھانا منگواؤ، میں کھا لوں گی۔

صالحہ: ہو تم اپنی ضد کی۔ کھانا کھاؤ گی تو کس پر احسان کرو گی۔ کوٹھری کے باہر تک چلو تو البتہ میں جانوں کہ تم کو میری خاطر عزیز تھی۔

نعیمہ: چلو بس، مجھ کو بچوں کی طرح مت پھسلاؤ۔ یہ بھی تمہاری خاطر ہے کہ میں منجھلا بھائی: گئی۔ ورنہ نعیمہ بندی، ادھر کی دنیا ادھر ہو جاتی، ایک کی تو سنتی ہی نہیں۔

صالحہ: خاک من گئیں، پتھر من گئیں۔ میں اس کو مننا نہیں سمجھتی۔ کیا کروں، رات زیادہ گذر گئی اور لوگ بھوک سے بدحواس ہیں ورنہ تم کو یہ دعوٰی ہے کہ میں کسی کی نہیں سنتی اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ بات واجبی ہو تو کیا معنی کہ سننے والا اس کو تسلیم نہ کرے اور دیکھو، میری اس وقت کی بات یاد رکھنا کہ تم کو خالہ جان کے آگے ہاتھ جوڑنے پڑیں گے۔

نعیمہ: خیر جب پڑیں گے تب جوڑ بھی لیں گے۔

اس کے بعد صالحہ کوٹھری سے نکل کر دوسرے قطعے میں خالہ کے پاس گئی۔ بہت سے لوگ سو گئے تھے، کچھ اونگھ رہے تھے۔ فہمیدہ اکیلی بیٹھی ہوئی دل ہی دل میں نہیں معلوم کیا کیا باتیں کر رہی تھی کہ صالحہ جاتے کے ساتھ ہی بولی: "خالہ جان، مبارک۔ میرا اور آپا جان کا کھانا دیجئے۔

فہمیدہ سنتے کے ساتھ ہی چونک سی پڑی اور کہنے لگی سچ کہو!

بھانجی: آپ خود ان کو کھاتے ہوئے دیکھ لیں تب تو سہی۔

خالہ: بھائی، تم نے تو کمال ہی کیا۔ کیوں کر منایا، کس طرح سمجھایا؟ مجھ کو تو امید نہ تھی کہ وہ کسی ڈھب سے سیدھی ہوگی۔ اس کا غصہ ہے، خدا کی پناہ، جیسے کسی کو جن چڑھتا ہے۔ نہیں معلوم تم نے کیا سحر کیا کہا ایسے بھوت کو اتارا۔ ہم سب لوگ تو دن بھر ہلاک ہوئے، کوئی حکمت نہ چلی، کوئی تدبیر پیش رفت نہ ہوئی۔

صالحہ: میں تو ان کو یہاں آپ کے پاس لاتی اور آپ کے پاؤں پر ان کا سر دیکھ لیتی، لیکن کیا کروں رات زیادہ گئی اور لوگ بھوک سے بے تاب ہیں۔ خیر انشاء اللہ بشرط خیریت پھر دیکھا جائے گا۔ لایئے کھانا نکالیے اور جاؤں حمیدہ کو بھی جگاؤں، ہشیار کروں، کہ اس کا تو اور بھی برا حال ہوگا۔

خالہ نے کھانا نکالا اور صالحہ نے جا حمیدہ کو جگایا۔ حمیدہ سوتی کیا تھی، ضعف اور ناتوانی کی غفلت میں پڑی ہاتھ پاؤں توڑ رہی تھی۔ صالحہ کی آواز سنتے ہی آنکھو کھولنے سے پہلے کھڑی ہو گئی اور بڑی بہن کو سلام کیا۔ صالحہ نے پیار سے گلے لگا کر گودی میں لیا اور کہا: "حمیدہ، اس قدر سویرے تم ہو رہا کرتی ہو؟"

حمیدہ: اماں جان سے پوچھ لیتی ہوں اور جب وہ کہہ دیتی ہیں کہ ہاں وقت آ گیا تو نماز عشاء پڑھ کر سو رہتی ہوں۔

صالحہ: تم نے کچھ کھانے کو بھی کھایا؟

حمیدہ شرمندہ ہو کر چپ ہو رہی۔

صالحہ: بھوک لگی ہے؟

حمیدہ نے اس کا بھی کچھ جواب نہ دیا۔

صالحہ: چلو ہم تم کھانا کھائیں۔

حمیدہ: ہماری اماں جان نے کھانا کھایا؟

صالحہ: اماں جان بھی تمہارے ساتھ کھائیں گی۔

حمیدہ: اور ہماری آپا جان؟

صالحہ: تم کو دنیا جہان سے کیا مطلب۔ جس کو بھوک لگی ہوگی آپ کھائے گا۔

حمیدہ: ہے ہے، آپا جان نہ کھائیں اور میں کھا لوں؟ اچھی! خدا کے لئے تم کسی طرح آپا جان کو سمجھاؤ۔ آج انہوں نے دن بھر کچھ نہیں کھایا۔ ننھا دودھ کے لئے پھڑک پھڑک کر آخر سو گیا۔ یہ کہہ کر حمیدہ رونے لگی تو صالحہ نے اس کو تشفی کی کہ حمیدہ روؤ مت، آپا بھی کھائیں گی۔

غرض کوئی ڈیڑھ پہر رات گئے سب نے کھایا کھایا، صالحہ اور نعیمہ نے ایک ساتھ کوٹھری میں اور باقی سب لوگوں نے اپنے اپنے دستور کے مطابق۔ کھانا کھانے کے بعد سو سلا رہے۔ مگر صالحہ اور نعیمہ میں کچھ گفتگو کھانے کے بعد بھی ہوئی۔ خود ہی نعیمہ بولی: کیوں صاحب، اب تو آپ خوش ہوئیں۔ جو کچھ تم نے کہا، میں نے کیا۔

صالحہ: خوش تو میں تب ہوتی کہ جب صفائی ہو گئی ہوتی۔

نعیمہ: اچھی، اب بھی صفائی میں کچھ باقی رہ گیا۔ رفتہ رفتہ دس پانچ دن میں بول چال بھی ہونے لگے گی۔

صالحہ: دس پانچ دن؟

نعیمہ: اور کیا کل؟
 

قیصرانی

لائبریرین
صالحہ: ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ تم نے خود کہا تھا کہ کل پر رکھو۔

نعیمہ: میں نے تو یہ نہیں کہا تھا کہ کل بولنے بھی لگوں گی۔

صالحہ: تو خاک بھی صفائی نہیں ہوئی۔

نعیمہ: کھانا میں نے کھایا، اماں جان نے کھایا، حمیدہ نے کھایا۔ ننھا دیکھو دودھ پی رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر صفائی کیا ہوگی؟

صالحہ: خیر، میری زبردستی سے تم سب نے ایک دو دو نوالے کھا لیے۔ میں اس کو کھانا نہیں سمجھتی۔ دودھ پلانے والی عورت، بھلا کچھ نہ کھائے تب بھی چار چپاتیاں تو کھائے۔ تم نے پاؤ ٹکڑا بھی نہیں کھایا، چاولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔ تمہارے سبب میں بھی بھوکی اٹھ کھڑی ہوئی۔ سمجھتی تھی کہ خیر صبح کو اس کی کسر نکل جائے گی، سو تم نے ابھی سے امید توڑ دی۔

نعیمہ: سچ تو یہ ہے کہ اب گھر میں مجھ کو اپنا گذارا ہوتا ہوا معلوم نہیں ہوتا اور اب میرا جی لگنا بھی مشکل ہے۔

صالحہ: کیوں؟

نعیمہ: میں نے تم سے کہا نہیں کہ یہاں تو ایک مہینے پہلے سے ابا کا مزاج، اماں کے تیور، گھر کا رنگ ڈھنگ، سب کچھ بدلا ہوا ہے۔ گو مجھ سے ابھی تک نماز روزے کا تذکرہ نہیں کیا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ جب بڑے بھائی تک نوبت پہنچ گئی تو بھلا میں بے چاری کس گنتی میں ہوں۔ وہ، اللہ رکھے، اول تو مرد، دوسرے سب میں بڑے، تیسرے خدا کے فضل سے چنداں ان کے محتاج و دست نگر نہیں۔ آج الگ ہو جائیں تو ان کی پلاؤ کی رکابی کہیں نہیں گئی۔ جس رجواڑے میں جا کھڑے ہوں گے، اپنی شاعری کے ہنر سے مصاحب یا ناظم یا چکلہ دار ہو جائیں گے۔ میں بدنصیب ایک تو پردے میں بیٹھنے والی، دوسرے ایسا کوئی ہنر نہیں آتا کہ چار پیسے کا سہارا ہو۔ اس روز بد کی بدولت گھر بیٹھے بادشاہت کر رہی ہیں۔ مجھ کو کہیں اپنا ٹھکانا نظر نہیں آتا۔ ماں باپ کے گھر ایسی پڑی ہوں جیسے گلی میں کتا۔ خدا واسطے کو کسی نے ٹکڑا ڈال دیا تو کھا لیا ورنہ میرا کیا زور اور کون دعوٰی۔ ابا جان تو پہلے ہی سے کچھ واسطہ و سروکار نہیں رکھتے۔ لڑکیوں سے بولنے اور بات کرنے کی ان کی عادت نہیں۔ اماں جان ایک سہارا تھا، سو انہوں نے ایسی دست درازی شروع کی کہ اب تو خدا ہی ان کے ہاتھ کو روکے تو رکے گا، ورنہ چھوٹا تو ہے ہی۔

صالحہ: آپا تم اس قدر بے دل کیوں ہوتی ہو۔ کیا نماز روزہ کچھ ایسا بڑا مشکل کام ہے کہ اس کی وجہ سے یہ تمام دقتیں تم کو پیش آتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں؟

نعیمہ: بوا، میں تو ہنسی دل لگی کی آدمی ہوں، بھلا مجھ سے یہ اونگھتی، اداس زندگی کاہے کو نبھے گی۔ لڑائی تو خیر آج ہوئی ہے، میرا تو کئی دن سے جی گھبرا رہا تھا۔

صالحہ: پھر آخر تم نے تدبیر کیا سوچی ہے؟

نعیمہ: ایک بات میری سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ تمہارے یہاں چلی جاؤں۔

صالحہ یہ سن کر چپکی ہوئی اور دیر تک چپ رہی، تو نعیمہ بولی: "تم سن کر ایسا دم بخود ہوئیں کہ گویا میں سچ مچ تمہارے گھر جا رہی ہوں۔ ڈرو مت۔ میں نے تو تمہاری محبت آزمانے کے لئے ایک بات کہی، ورنہ میں کہیں آؤں نہ جاؤں۔ یہ تو کیا اس سے بھی زیادہ مصیبت ہو تو میں دوسروں کا احسان نہ اٹھاؤں۔

صالحہ: یہ تو تم نے کوئی نرالی ادا سیکھی ہے: چھیڑ چھاڑ کر لڑنا۔ گھر جیسے میرا، ویسے تمہارا۔ جن کا گھر ہے میں ان کی بیٹی اور تم بیٹیوں سے بڑھ کر۔ جاؤ گی تو اپنی خالہ کے گھر جاؤ گی اور احسان اٹھاؤ گی تو اپنی خالہ کا اٹھاؤ گی۔ میں تم کو لے جانے والی کون اور منع کرنے والی کون؟

نعیمہ: اچھا تو میں پوچھتی ہوں، اگر میں چلی جاؤں تو خالہ جان کیا کہیں گی؟

صالحہ: جو میں کہتی ہوں، جو تمہاری اماں کہتی ہیں، وہی تماری خالہ جان کہیں گی، وہی ہر شخص کہے گا جو سنے گا۔ کیا خالہ جان دنیا جہان سے باہر یا انوکھی ہیں؟

نعیمہ: اجی گھر سے تو نہ نکال دیں گی؟

صالحہ: یہاں تم کو گھر سے کوئی نکال رہا ہے۔ جو وہاں سے خدا نہ خواستہ نکال دے گا۔ آپا، نہیں معلوم تم اب کیسی باتیں کرنے لگی ہو۔ ایک اماں سے کیا لڑیں، سارے کنبے کو دشمن ٹھہرا لیا۔

نعیمہ: لیکن خالہ جان بے چاری غریب آدمی ہیں، کہاں سے میرا خرچ اٹھائیں گی؟

صالحہ: اب ایسی بھی گئی گذری ہوئی نہیں ہیں کہ مہینے بیس دن تم کو نہیں رکھ سکتیں۔

نعیمہ: مہینہ بیس دن کیسا، میں تو ساری عمر کے لئے جاتی ہوں۔

صالحہ: خدا نہ کرے کہ ساری عمر خالہ کے یہاں پڑی رہو۔ اللہ تم کو اپنے گھر آباد کرے اور تمہاری ماں کا کلیجہ تم سے ٹھنڈا ہو۔

نعیمہ: میں بھی یہی سوچ کر جاتی ہوں کہ چند روز وہاں رہوں گی تو اماں جان کو بھی لڑائی جھگڑے کی باتیں بھول بسر جائیں گی۔ پھر بلوا بھیجیں گی تو چلی آؤں گی۔

صالحہ: میرے نزدیک بھی جانے میں کوئی قباحت کی بات نہیں مگر اپنی اماں جان سے اجازت لے لو۔

نعیمہ: کیوں کر پوچھوں؟

صالحہ: یہ بھی کوئی بڑا کام ہے۔ ابھی ان کے پاس چلی جاؤ اور جا کر کہو کہ میں خالہ جان کے یہاں جاتی ہوں۔ وہ کہہ دیں گی "اچھا"۔

نعیمہ: سچ کہنا، کہیں چلی نہ جاؤں۔ اتنا کام تم نہیں کر دیتیں؟

صالحہ: نعیمہ: نہیں، میں نہیں کرتی۔

نعیمہ: ہماری بہن نہیں؟

صالحہ: نہیں، میں بہن نہیں بنتی۔ بیوی صاحب کو اتنا سمجھایا، خاک بھی اثر نہ ہوا۔

نعیمہ: نوج کوئی ایسا بھی بے مروت ہو۔

صالحہ: تم سے بھی بڑھ کر۔

نعیمہ: میری اچھی بہن!

صالحہ: خیر میں پوچھ دوں گی۔ لیکن کیا تم خالہ جان سے رخصت ہو کر نہ چلو گی اور چلتے وقت ان سے نہ ملو گی؟

صالحہ: اس وقت جیسی ہوگی، دیکھی جائے گی۔

صالحہ: سنو بوا، اگر تمہارے دل میں دغا ہو تو پہلے سے کہہ دو۔ ایسا نہ ہو، میں پوچھنے جاؤں اور تم بے ملے چل دو تو ناحق مجھ کوشرمندگی ہو۔

نعیمہ: نہیں، میں نے تمہارے چھیڑنے کو کہا تھا۔ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ چلتے وقت میں اماں جان سے نہ ملوں۔ تو جاؤ پوچھ آؤ۔

صالحہ: میں وقت رات زیادہ ہو گئی ہے۔ آخر صبح کی نماز خالہ جان کے ساتھ پڑھوں گی، اسی وقت پوچھ دوں گی۔

نعیمہ: اچھا پھر تو ڈولیوں کو تو اڈے پر اسی وقت کہلوا بھیجو ورنہ شاید وقت پر نہ ملیں۔

صالحہ: نہ ملیں گی تو ہمارے محلے سے آ جائیں گی۔

نعیمہ: اس میں دیر ہوگی۔

صالحہ: کیا شادی میں جا رہے ہیں کہ دیر ہوگی تو دلہن رخصت ہو جائے گی؟

نعیمہ: نہیں، چلنا ہے تو اس منہ اندھیرے میں چل دیں۔ ننھا ڈولی میں ڈرتا ہے۔

صالحہ: خیر اسی وقت کہلا دیا جائے گا۔

اس کے بعد نعیمہ اور صالحہ دونوں سو رہیں۔ ابھی تارے چھٹکے ہوئے تھے کہ صالحہ اپنے معمول پر نماز صبح کے وقت اٹھی اور نعیمہ اس وقت غفلت کی نیند میں پڑی سو رہی تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر صالحہ خالہ کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اور کہا: "بس خالہ جان، اب جاؤں گی۔"

خالہ: ایں! ایسی جلدی؟

تم آگ لینے آئی تھیں
کیا آئیں کیا چلیں

صالحہ: دس پندرہ دن بعد پھر آ جاؤں گی۔

خالہ: ذرا نعیمہ کے مزاج کو ٹھکانے لگنے دیا ہوتا۔

صالحہ: وہ بھی تو میرے ساتھ جانے کو کہتی ہیں۔

خالہ: سچ کہو۔

صالحہ: مجھ سے کہہ بھی دیا کہ تم پوچھ لو۔

خالہ: اس کی مرضی ہے یا تم نے صلاح دی ہے؟

صالحہ: خود انہی کی مرضی ہے۔

خالہ: بھلا کچھ یہ بھی کہتی تھیں، کتنے دن کے واسطے؟

صالحہ: دنوں کی تعین تو مجھ سے بیان نہیں کی۔

خالہ: خیر اس نے دنوں کی تعین نہیں کی تو میں تم سے کہے دیتی ہوں کہ آٹھ دن سے زیادہ مت رکھنا۔ ہماری بہن بے چاری غریب آدمی ہیں، ان کو تکلیف ہوگی۔

صالحہ: اب تو جب تک ان کا جی چاہے۔

خالہ: تم لئے تو جاتی ہو مگر اتنا تو کرنا کہ اس کو بھی نیک ہدایت دینا۔

صالحہ: جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا سمجھاؤں گی اور ان کو مولویوں کے وعظ سنواؤں گی۔ خدا کی ذات سے امید تو ہے کہ ضرور اثر ہوگا۔

اس کے بعد صالحہ نے گھر کے نوکر سے پوچھا کہ ڈولیوں کے واسطے رات کو جو کہلا بھیجا تھا، آئیں یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ ڈولیاں توپ سے پہلی کی دروازے پر لگی ہوئی ہیں۔ تب صالحہ کوٹھری کی طرف چلی، اس غرض سے کہ نعیمہ کو جگائے اور اجازت کی خوش خبری سنائے۔ دیکھا تو نعیمہ پلنگ پر نہیں۔ سمجھی کہ دوسرے قطعے میں بچے کو ہاتھ منہ دھلاتی ہوں گی۔ مگر وہاں بھی نعیمہ کو نہ پایا۔ معلوم ہوا کہ جب صالحہ خالہ کے ساتھ باتیں کر رہی تھی، نعیمہ چپکے سے اٹھ بچے کو لے کر کھڑکی کی راہ ہو کر ڈیوڑھی میں جا سوار ہو، بے رخصت چل دیں۔ اب یہ کیا موقع تھا کہ ڈولی واپس منگوائی جائے۔ ناچار صالحہ اکیلی، خالہ کو سلام کرنے گئی تو خالہ نے کہا: "اے لڑکی، ایسی کیا بھاگڑ مچی ہے۔ نعیمہ کو اٹھنے دو، ناشتہ کھا پی لو، تب جانا۔"

صالحہ: آپا تو گئیں بھی۔

خالہ: یہ کب؟

صالحہ: جس وقت میں نماز کے بعد آپ سے باتیں کر رہی تھی، اس وقت وہ سوار ہو گئیں۔

خالہ: کیسی چپکے سے نکل گئی کہ میں نے اسے جاتے کو بھی نہ دیکھا۔

صالحہ: کھڑکی کی راہ سے گئیں۔

خالہ: تبھی۔ مگر صالحہ تم نے دیکھا اس کا غصہ! کتنا تم نے اس کے ساتھ سر مارا۔ میں باہر کھڑی ہوئی تمہاری ساری باتیں سنتی تھی۔ لیکن اس کا یہ اثر ہوا کہ بے ملے چل دیں۔ بھلا کہیں ایسا بھی غضب ہوا ہے کہ بیٹی ماں کے گھر سے یوں چلی جائے۔ اگر میں اس کی باتوں پر جاؤں تو جیتے جی صورت نہ دیکھوں۔ لیکن کیا کروں، یہ دل کم بخت مانتا نہیں۔ اس مزاج کی بدولت ان حالوں کو تو یہ پہنچ گئی مگر ذرا اس کو خیال نہیں، مطلق اس کو پروا نہیں۔ دیکھیئے کیا اس کی تقدیر میں لکھا ہے، کیا اس کو نصیب میں بدا ہے۔ اس کے غم نے تو مجھ کو کھا لیا اور میں اس کے سوچ میں تمام ہو گئی۔

صالحہ: آپ رنج نہ کیجئے اور دل کو سنبھالئے۔ اب آپ نے ان باتوں کا خیال کیا ہے تو انشاء اللہ رفتہ رفتہ سب درست ہو جائیں گے۔ یہی ہے کہ کوئی دیر کوئی سویر۔

اب ہم نعیمہ کو اسی جگہ چھوڑتے ہیں۔ جو اس کو پیش آیا اور جیسا اس کا انجام ہوا، پھر بیان کریں گے۔

فصل نہم

کلیم باپ سے ناخوش ہو کر گھر سے نکل گیا۔ نصوح نے
کلیم کا تکلف خانہ اور بیہودہ کتاب خانہ جلا دیا۔

نعیمہ تو صبح ہوتے گئی مگر کلیم رات ہی کو گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ جب صالحہ ڈولی سے اتری، لوگ تو اس سے ملنے ملانے میں مصروف ہوئے ، کلیم، آنکھ بچی تو دروازہ کھول باہر۔ اتنا بھی تو نہ کیا کہ رات کا وقت ہے، لاؤ کسی سے دروازے کے واسطے کہتا جاؤں۔ جب نعیمہ کو کھانا جا لیا، سب گھر والے کھا پی کے فارغ ہو گئے اور فہمیدہ سونے کے ارادے سے مکان میں آئی، تو دیکھا کہ باہر کا دروازہ چوپٹ کھلا پڑا ہے۔ کلیم کو ادھر ادھر دیکھا، کہیں پتا نہیں۔ سمجھی کہ موقع پا کر چل دیا۔ لیکن اس وقت نہ تو کلیم اس ارادے سے گیا تھا کہ پھر نہ آئے، اور نہ فہمیدہ کو ایسا گمان ہوا۔ رات گئی تھی زیادہ، بات کا چرچا کرنا مناسب نہ جان کر سب لوگ سو سلا رہے۔ نصوح نماز صبح پڑھ کر مسجد سے واپس آ رہا تھا کہ اس کو گلی کی نکڑ پر نعیمہ کی اور ڈیوڑھی سے نکلتی ہوئی صالحہ کی ڈولی ملی۔ کلیم کی نافرمانیوں پر غصہ تو اسے رات ہی بہتیرا کچھ آیا اور بار بار اس کے دل نے چاہا کہ اسی وقت ادھر یا ادھر جو کچھ ہو فیصلہ کر دے۔ لیکن چند در چند باتوں کے لحاظ سے وہ زہر کا سا گھونٹ پی کر چپ ہو رہا اور مشکل سے اپنی طبیعت کو اس بات پر رضامند کیا کہ پیام زبانی کا اثر اور تحریری کا نتیجہ تو معلوم ہو، ایک مرتبہ رو در رو کہہ کر بھی دیکھ لو۔ اس پر بھی نہ سمجھے تو اپنا سر کھائے۔ اس ارادے سے وہ پہلے مردانے مکان میں آ کر ٹھہرا اور جب کلیم اس کو نظر نہ آیا، اس نے نوکروں سے پوچھا مگر کسی نے صاف جواب نہ دیا۔ تب وہ نوکروں پر خفا ہوا کہ تم لوگ کیسے نالائق ہو کہ مجھ کو اس بدبخت کا ٹھیک پتا نہیں دیتے۔ تم اپنے پندار میں اس کے حق میں خیر خواہی کر رہے ہو، مگر میں تم سے وچ کہتا ہوں کہ تمہاری رازداری نہ صرف اس کم نصیب کے حق میں زبوں ہے بلکہ تمہارے حق میں بھی اس کا نتیجہ اچھا نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس کی عادت اس قدر سویرے اٹھنے کی نہیں۔ ضرور ہے کہ تم نے اس کو جگا کر کہیں ٹال دیا ہے۔ میں نے تم کو اپنی آسائشوں کے لئے خاص خاص خدمتوں پر مامور کر رکھا ہے۔ اگر تمہاری وجہ سے میری انتطام خانہ داری میں خلل واقع ہو تو تم میرے نوکر نہیں ہو، بلکہ دشمن ہو، ملازم نہیں ہو بلکہ بدخواہ ہو۔ اگر میں اس ناشدنی کو فرزندی سے عاق کروں گا تو تم سب کو بھی اس کے ساتھ نوکری سے بر طرف۔

نصوح کا یہ کلام سن کر اعلٰی ادنٰی سب نوکر تھرا اٹھے اور جو ان میں سب سے زیادہ سلیقہ مند تھا، دست بستہ ہو کر بولا کہ حضور کا عتاب غلاموں کے سر و چشم پر۔ مگر شب کو مکان پر زنانہ رہا اور خانہ زادوں کو اجازت ہوئی کہ اپنے اپنے گھر جا کر سوئیں۔ اس وقت صاحب زادے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ نمک خواروں نے صبح کو آ کر ان کا جمال نہیں دیکھا۔ جناب بیگم صاحب سے حضور اس کا حال دریافت فرمائیں۔ خانہ زادوں سے ایسی کور نمکی نہ ہوگی کہ حضور سے کوئی بات مخفی رکھیں۔

یہ سن کر نصوح اندر گیا اور حسب عادت سب لوگ سلام صبح کرنے کے واسطے جمع ہو گئے۔ فہمیدہ اس وقت تک تلاوت میں مصروف تھی۔ مگر تھوڑی دیر میں فارغ ہو گئی تو نصوح نے کہا: کیوں صاحب، بی صالحہ گئیں؟

فہمیدہ: کبھی کی گئیں۔ اب تک تو وہ گھر بھی پہنچ گئی ہوں گی۔

نصوح: اور دوسری ڈولی کس کی تھی؟

فہمیدہ: تمہاری بڑی صاحب زادی کی۔

نصوح: مان کر گئیں یا بگڑ کر۔

فہمیدہ: کچھ مان کر کچھ بگڑ کر۔

نصوح: یہ کیا؟

فہمیدہ: صالحہ نے، خدا اس کو جزائے خیر دے، بہت کچھ سمجھایا اور آدھی رات تک اپنا سر خالی کیا۔ بارے اس کے کہنے سے انہوں نے اپنا قہری روزہ تو افطار کیا، لڑکے کو بھی دودھ پلایا، یہ تو ان کا مننا تھا۔ بگڑنا یہ کہ صبح کو بے ملے، بے رخصت ہوئے، ڈولی میں بیٹھ چل دیں۔ میں صالحہ سے باتیں کرتی رہی۔ میں نے اس کو جاتے کو بھی نہ دیکھا۔

نصوح: خیر، ان سے تو خدا نے سبک دوش کیا۔ اب صاحب زادے صاحب کی کہو، وہ کہاں ہیں؟

سب چھوٹے بڑوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ ہم کو مطلق خبر نہیں۔

نصوح: کب سے غائب ہیں؟

فہمیدہ: مغرب کے بعد سے برابر میرے پاس بیٹھا تھا، میں اس کو سمجھاتی رہی۔ تمہارا خط آیا، اس کو پڑھا۔ اتنے میں صالحہ کی ڈولی آ پہنچی، میں اس سے باتیں کرنے لگی۔ پھر لوگوں کو کھانا دیا دلایا۔ اس میں کوئی پہر ڈیڑھ پہر رات چلی گئی۔ سونے کو جو گئی تو دیکھا کہ مکان خالی پڑا ہے۔

نصوح: الحمدللہ، خس کم جہاں پاک۔ لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ اس میں کس کی خطا ہے، میری یا اس کی؟

فہمیدہ: خطا صریح اسی کی ہے۔ میں خوامخواہ کو بھی تمہاری خطا بتا دوں۔ تم نے اس کو ایک دفعہ چھوڑ دو دفعہ بلایا، خط لکھا، بس حد ہوگئی۔ علیم نے بہتیرا سمجھایا، میں نے بھی کچھ کہا سنا۔ وہ اپنی شاعری کے آگے کس کی سنتا ہے؟ تم تک جانے ہی کی اس نے ہامی نہ بھری۔ میں نے کہا تھا کہ کھانے پینے سے فراغت پا کر پھر اس کے ساتھ سر ماروں گی۔ اسی غرض سے مردانے مکان میں پردہ کرایا، مگر وہ پہلے ہی نکل گیا۔ کوئی کیا کرے، اپنی اپنی قسمت، اپنی اپنی تقدیر۔

نصوح: جس طرح یہ نالائق میرے ساتھ پیش آیا، نعیمہ نے تمہارے ساتھ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بعد نصوح نے منجھلے بیٹے علیم سے کہا: "بھلا تم نے اس کے بچھونے یا کتابوں میں تودیکھا ہوتا، شاید وہ کچھ لکھ کر رکھ گیا ہو۔ افسوس ہے کہ اس کے نفس سرکش نے اس کو مجھ تک نہ آنے دیا، ورنہ میں تو ہر طرح سے اس کے عذرات کو سننے اور اس کے وجوہات پر لحاظ کرنے اور معقولیت کے ساتھ اس کو سمجھانے کے لئے موجود تھا۔

علیم: یہ بات میرے ذہن میں نہیں گذری، مگر میں اب ان کی چیزوں میں دیکھے لیتا ہوں، اگرچہ مجھ کو اب بھی ایسی امید نہیں ہے کہ وہ کچھ لکھ کر گئے ہوں۔ کیوں کہ اگر لکھنا بھی منظور ہوتا تو وہ آپ کے خط کا جواب نہ ہی دیتے۔ دوسرے، ان کو اتنی فرصت کہاں ملی۔ کل شام کو اس بات کا چرچا شروع ہوا اور میں جانتا ہوں کہ صالحہ کے آتے ہی وہ تشریف لے گئے۔ اسی اثنا میں برابر میں ان کے پاس تھا اور میرے چلے جانے کے بعد اماں جان۔

نصوح: پھر بھی میں اس کو داخل اتمام حجت سمجھ کر چاہتا ہوں کہ احتیاطاً اس کی چیزوں میں دیکھ لیا جائے۔ چلو میں بھی تمہارا شریک رہوں گا۔

ہرچند علیم کو منظور نہ تھا کہ بھائی کی چیزوں پر باپ کی نظر پڑے مگر باپ کو منع بھی نہ کر سکتا تھا۔ آخر باہر مردانے میں آ کر نصوح نے نوکروں سے پوچھا کہ کلیم کا اسباب کس جگہ رہتا ہے؟

نوکر: حضور، صاحب زادے نے دو کمرے لے رکھے ہیں۔ اس دکھن والے کمرے کا نام انہوں نے (بچے ہی تو ہیں) "عشرت منزل" رکھ چھوڑا ہے۔ جب ان کے ہمجولی آتے ہیں تو سب اسی کمرے میں بیٹھ کر کھیلا اور باتیں کیا کرتے ہیں۔ اتر والے کمرے کو "خلوت خانہ" فرمایا کرتے ہیں۔ اس میں ان کے پڑھنے لکھنے کی کتابیں وغیرہ ہیں۔

نصوح عشرت منزل اور خلوت خانہ کا نام سن کر چوکنا ہوا اور اس نے نوکروں سے کہا کہ اچھا پہلے اس عشرت منزل کو کھولو۔ چنانچہ جب عشرت منزل کو کھولا گیا تو ایک تکلف خانہ تھا۔ کمرے بیچ میں چوکیوں کا فرش، اس پر دری، اس پر سفید چاندنی اس خوش سلیقگی کے ساتھ تنی ہوئی کہ کہیں دھبے یا سلوٹ کا نام نہیں۔ صدر کی جانب گجرات کا نفیس قالین بچھا ہوا، گاؤ تکیہ لگا ہوا۔ سامنے اگال دان، لب قالین پیچوان۔ چوکیوں کے گرداگرد کرسیاں، تھیں تو لکڑی کی لیکن آئینے کی طرح صاف اور چمکتی ہوئی۔ چھت میں پٹا پٹی کی گوٹ کا پنکھا لٹکا ہوا، ہلانے کے واسطے نہیں، بلکہ دکھانے کے لئے۔ اس کے پہلوؤں میں جھاڑ۔ جھاڑوں کے بیچ بیچ میں رنگ بہ رنگ کی ہانڈیاں۔ چھت کیا تھی بلا مبالغہ آسمان کا نمونہ تھا جس میں پنکھا بجائے کہکشاں کے تھا، جھاڑ بہ منزلہ آفتاب اور ماہتاب اور ہانڈیاں ہو بہو جیسے ستارے۔ چھت کے مناسب حالت، دیواریں، تصویریں اور قطعات اور دیوار گیریوں سے آراستہ تھیں۔

نصوح اس ساز و سامان کو تھوڑی دیر ایک سکتے کے عالم میں کھڑا دیکھتا رہا۔ اس کے بعد ایک آہ کھینچ کر بولا کہ افسوس کتنی دولت خداداد اس بیہودہ نمائش اور تکلف اور آرائش میں ضائع کی گئی ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ یہ روپیہ محتاجوں کی امداد اور غریبوں کی کار برآری میں صرف کیا جاتا۔

اس کے بعد اس کی نگاہ مقابل صدر جا پڑی۔ کیا دیکھتا ہے کہ آمنے سامنے دو میزیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک پر گنجفہ، شطرنج، چوسر، تاش، کھیل کی چیزیں اور ارگن باجے رکھے تھے۔ دوسری پر گلدان اور عطردان وغیرہ کے علاوہ ایک نہایت عمدہ طلائی جلد کی موٹی سی کتاب۔ نصوح نے نہایت شوق سے اس کتاب کو کھولا تو وہ تصویروں کا البم تھا۔ مگر تصویریں کسی عالم، حافظ اور درویش خدا پرست کی نہیں، مکھوا پکھاوجی، تان سین خاں گویا، میر ناصر احمد بین و ناز، صمد خان پہلوان، کھلونا بھانڈ، حیدر علی قوال، نتھو ہیجڑا، قاری علی محمد پھکڑ، عدو جواری، اس قسم کے لوگوں کی۔۔۔ شیشہ آلات کی وجہ سے نصوح نے دیوار والی تصویروں کو بہ غور نہیں دیکھا تھا۔ اب البم کو دیکھ کر اسے خیال آیا۔ آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے تو وہ تصویریں اور بھی بے ہودہ تھیں۔ قطعے اور طغرے، اگرچہ ان کا سواد خط پاکیزہ تھا مگر مضمون و مطلب دین کے خلاف، مذہب کے برعکس۔ نصوح نے وہیں سے ایک میر فرش اٹھا کر ان سب کی خبر لینی شروع کی اور بات کی بات میں کل چیزوں کو توڑ پھوڑ برابر کیا اور جو کچھ بھی باقی رہا اس کو صحن میں رکھ کر آگ لگا دی اور نوکروں کو حکم دیا کہ اچھا اب خلوت خانہ کھولو۔

اس میں تکلف کے معمولی ساز و سامان کے علاوہ کتابوں کی الماری تھی۔ دیکھنے میں تو اتنی جلدیں کہ انسان ان کی فہرست لکھنی چاہے تو سارے دن میں بھی تمام نہ ہو لیکن کیا اردو کیا فارسی سب کی سب کچھ ایک ہی طرح کی تھیں: جھوٹے قصے، بے ہودہ باتیں، فحش مطلب، لچے مضمون، اخلاق سے بعید، حیا سے دور۔ نصوح ان کتابوں کی جلد کی عمدگی، خط کی پاکیزگی، کاغذ کی صفائی، عبارت کی خوبی، طرز ادا کی برجستگی پر نظر کرتا تھا تو کلیم کا کتاب خانہ اس کو ذخیرہ بے بہا معلوم ہوتا تھا۔ مگر معنی و مطلب کے اعتبار سے ہر ایک جلد سوختنی اور دریدنی تھی۔ اسی تردد میں اس کو دوپہر ہو گئی۔ کئی مرتبہ کھانے کے لئے گھر سے اس کو طلب ہوئی مگر اس کو فرصت نہ تھی۔ بارہا کتابوں کو الٹ الٹ کر دیکھتا تھا اور رکھ رکھ دیتا تھا۔ آخرکار یہی رائے قرار پائی کہ ان کا جلا دینا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ بھری الماری کتابیں، لکڑی کنڈے کی طرح اوپر تلے رکھ کر آگ لگا دی۔

نصوح کا یہ برتاؤ دیکھ کر اندر سے باہر تک تہلکہ اور زلزلہ پڑ گیا۔ علیم دوڑا دوڑا جا، اپنا کلیات آتش
 

قیصرانی

لائبریرین
اور دیوان شرر اٹھا لایا اور باپ سے کہا کہ جناب میرے پاس بھی یہ دو کتابیں اسی طرح کی ہیں۔ نصوح نے ان کتابوں کو بھی دو چار نگہ سے کھول کر دیکھا اور کہا کہ واقع میں ان کے مضامین بھی جہاں تک میں دیکھتا ہوں برے اور بے ہودہ ہیں لیکن تمہارے نسبت سے مجھ کو خدا کے فضل سے اطمینان ہے۔ چاہو تو اپنی کتابوں کو رہنے دو۔ اگرچہ ان کا مطالعہ میرے نزدیک خالی از معصیت نہیں ہے۔

علیم: کتاب جب تک دیکھنے اور پڑھنے کے لائق نہیں تو اس کا رکھنا بے سود بلکہ خطرناک ہے۔ بہتر ہوگا کہ ان کو بھی جلا دیا جائے۔

نصوح: شاید تم میری خاطر کو کہہ رہے ہو اور تم کو پیچھے تاسف ہو۔

علیم: مجھ کو ہرگز تاسف نہ ہوگا بلکہ خوشی ہوگی۔ جلائی جائے وہ عمدہ نصیحت کی کتاب جو مجھ کو پادری صاحب نے دی تھی اور رہیں یہ خرافات! میں جانتا ہوں کہ بھائی جان کی کتابوں پر یہ اسی پادری والی کتاب کا وبال پڑا۔ ڈرنے کا مقام اور عبرت کی جگہ ہے۔

نصوح: لیکن کیا ضرور ہے کہ تمہاری کتابیں بھی اس وبال میں داخل ہوں؟

علیم: ان کے نام بھی جلنا جلنا پکارتے ہیں۔ ارشاد ہو تو جھونک دوں؟

نصوح: تمہاری یہی مرضی ہے تو بسم اللہ۔

علیم نے "آتش" کو دھکتی آگ اور "شرر" کو جلتے انگاروں پر پھینک دیا۔ علیم کی دیکھا دیکھی میاں سلیم نے بھی "واسوخت امانت" لا باپ کے حوالے کی اور کہا کہ ایک دن کوئی کتاب فروش کتابیں بیچنے لایا تھا۔ بڑے بھائی صاحب نے فسانہ عجائب، قصہ گل بکاؤلی، آرائش محفل، مثنوی میر حسن، مضحکات نعمت خان عالی، منتخب غزلیات چرکیں، ہزلیات جعفر زٹلی، قصائد ہجویہ مرزا رفیع السودا، دیوان جان صاحب، بہار دانش باتصویر، اندر سبھا، دریائے لطافت میر انشاء اللہ خان، کلیات رند وغیرہ بہت سی کتابیں اس سے لی تھیں۔ میں بھی بیٹھا تھا۔ مجھ کو دیکھ کر بولے: "کیوں سلیم، تم بھی کوئی کتاب لو گے؟"

میں: جو آپ تجویز فرمائیں۔

بھائی جان: کون سی کتاب تم کو لے دوں؟ یہ کتابیں جو میں نے لی ہیں، اول تو میرے شوق کی ہیں، دوسرے تم کو ان کا مزہ نہیں ملے گا۔

کتاب والے نے ساری گٹھری سے یہ "واسوخت" اور دیوان نظیر اکبر آبادی، دو کتابیں انہوں نے میرے لئے نکالیں اور کہا کہ "واسوخت" تو خیر مگر یہ دیوان بڑی عمدہ کتاب ہے۔ میاں ہدہد کے اشعار آج تک کسی نے جمع نہیں کئے تھے، اس کے حاشیے پر وہ بھی ہیں۔

چوں کہ بھائی جان نے دیوان کی بہت تعریف کی تھی، میں نے اس کو نہایت شوق سے کھولا تو پہلے ہی چوہوں کا انبار نکلا۔ اس کے مضمون سے میری طبیعت کچھ ایسی کھٹی ہوئی کہ میں نے دونوں کتابیں پھیر دیں۔ مگر بھائی جان نے یہ "واسوخت" زبردستی میرے سر مڑھی۔ ایک دن اتفاق سے حضرت بی کے بڑے نواسے نے اس کو میرے جزدان میں دیکھ کر پوچھا آہا میاں سلیم، تم تو بڑے چھپے رستم نکلے۔

میں: کیوں؟

حضرت بی کا نواسہ: تم کو ایسی کتابوں کا بھی شوق ہے؟

میں: مجھ کو بھائی جان نے لے دی ہے۔ کیوں کیا، یہ کتاب اچھی نہیں؟

حضرت بی کا نواسہ: اچھی بری تو میں نہیں جانتا لیکن اگر نانی اماں دیکھ پائیں گی تو شاید ہم لوگوں کو تمہارے پاس اٹھنے بیٹھنے کی ممانعت کریں۔ بھلا کوئی ایسی گندی باتوں کی کتاب بھی پڑھتا ہے۔

تب سے میں نے اس کتاب کو لا کر ردی میں ڈال دیا تھا۔ آج مجھ کو یاد آ گئی تو میں نے کہا یہ بھی اپنی مراد کو پہنچ جائے۔

جب کلیم کا خرمن عیش و عشرت جل بھن کر خاک سیاہ ہو لیا تو نصوح گھر میں گیا اور بیوی نے اس سے پوچھا: "کیوں، جس پرچے کی جستجو تھی ملا؟"

نصوح: نہیں پرچہ تو نہیں ملا لیکن میرا مطلب حاصل ہو گیا۔

فہمیدہ: وہ کیا؟

نصوح: وجہ کیا دریافت کی، اس کی ساری حقیقت معلوم ہو گئی۔ بلکہ شاید رو در رو گفتگو کرنے سے بھی یہ بات پیدا نہ ہوتی جو مجھ کو اب حاصل ہے۔

فہمیدہ: آخر کچھ میں بھی توسنوں۔

نصوح: میں نے اس کے "عشرت منزل" اور "خلوت خانے" کو دیکھا اور اس کے کتاب خانے کی سیر کی۔

فہمیدہ: عشرت منزل، اور خلوت خانہ، کیسا؟

نصوح: تم تو مجھ سے بھی زیادہ بے خبر۔ آج تک تم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ صاحب زادہ بلند اقبال نے دو کمرے اپنے واسطے خاص کر رکھے ہیں۔ ایک کا نام "عشرت منزل" رکھ چھوڑا ہے اور دوسرے کا "خلوت خانہ" جس کمرے میں ان کے شیاطین الانس جمع ہوتے ہیں وہ "عشرت منزل" ہے اور جہاں استراحت فرماتے ہیں اور وہ "خلوت خانہ" اور اسی خلوت خانے میں کتاب خانہ بھی ہے۔

فہمیدہ: اتنی بات تو میں بھی جانتی ہوں کہ کلیم نے دو کمرے لے رکھے ہیں مگر "عشرت منزل" اور "خلوت خانہ" میں نے آج ہی سنا ہے۔

نصوح: تم نے ان کمروں کو اندر سے بھی دیکھا؟

فہمیدہ: نہیں۔ مردانے میں کبھی کاہے کو جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ کل رات البتہ علیم کے اصرار سے پردہ کروا کے گئی تھی۔

نصوح: خوب ہوا کہ تم نے ان کمروں کو نہ دیکھا۔

فہمیدہ: کیوں؟

نصوح: اب میں ان کمروں کی تمام تر تفضیح تم سے کیا بیان کروں۔ بس مولانا روم قدس اللہ سرہ العزیز کا شعر:

از بروں چوں گور کافر پر حلل
اندر قہر خدائے عز و جل

گویا انہیں کمروں کی شان میں ہے۔ ظاہر آبا، باطن خراب۔

فہمیدہ: کوئی کہتا تھا کہ تم نے غصے میں آ کر دیوان خانے میں آگ لگا دی۔

نصوح: اگرچہ وہ مکان جس میں وحشیوں کے سے کام ہوتے ہیں اسی قابل ہے، مگر میں نے مکان میں تو آگ نہیں لگائی۔

فہمیدہ: کچھ دھواں سا تو مردانے میں ضرور اٹھ رہا تھا۔

نصوح: وہ تو چند کتابیں تھیں جن کو میں نے بے ہودہ سمجھ کر جلا دیا۔

فہمیدہ: ایسے غصے سے بھی خدا پناہ میں رکھے۔

نصوح: غصے کی تو اس میں کوئی بات نہ تھی۔

فہمیدہ: کتاب کا جلانا غصے کی بات نہیں تو عقل کی بات ہے؟ میں نے سنا ہے کہ کاغذ کا جلانا بڑا گناہ ہے نہ کہ کتاب۔ لوگ کہیں ذرا سا پرزہ پڑا پاتے ہیں تو اٹھا کر آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ کتاب کو بھولے سے ٹھوکر لگ جاتی ہے تو توبہ توبہ کر کے چومتے اور ماتھے چڑھاتے ہیں۔

نصوح: تم سچ کہتی ہو مگر یہ لوگوں کی زیادتی ہے۔ کاغذ بھی کپڑے کی طرح ایک بے جان چیز ہے۔ کتاب کے عمدہ مضامین، جن میں دین داری اور خدا پرستی اور نیکوکاری کا بیان ہوتا ہے، وہ البتہ قابل ادب ہیں۔

فہمیدہ: خیر کچھ ہی سہی مگر کتاب ہے تو ادب کی چیز۔ پھر تم نے جلائی کیوں؟

نصوح: جن کتابوں کو میں نے جلایا، ان کے مضامین کفر اور شرک اور بے دینی اور بے حیائی اور فحش اور بدگوئی اور جھوٹے سے بھرے ہوئے تھے۔

فہمیدہ: کتابوں میں ایسی بری باتیں بھی ہوتی ہیں؟

نصوح: کتابیں بھی آدمی بناتے ہیں اور آدمی ایسا مخلوق سرکش ہے کہ اس نے تمام دنیا میں بدی اور نافرمانی پھیلا رکھی ہے۔ کیا تم شعر اور شاعری کے نام سے واقف نہیں ہو؟

فہمیدہ: واقف کیوں نہیں۔ کتابوں میں اکثر شعر ہوتے ہیں، مگر ان میں تو کوئی بری بات دیکھنے میں آئی۔ سنتی ہوں کہ کلیم کو شعر بنانے کا بڑا شوق ہے اور مردوں میں یہ بڑی تعریف کی بات گنی جاتی ہے۔

نصوح: شاعری اپنی ذات سے بری نہیں بلکہ اس اعتبار سے کہ زبان دانی کی عمدہ لیاقت کا نام شاعری ہے، ضرور تعریف کی بات ہے۔ لیکن لوگوں نے ایک عام دستور قرار دے رکھا ہے کہ اس لیاقت کو ہمیشہ برے اور بے ہودہ خیالات میں صرف کرتے ہیں۔ اس وجہ سے دین داروں کی نظر میں شاعری عیب و گناہ ہے۔ اب شاعری اسی کا نام ہے کہ کسی کی ہجو کہے کہ وہ داخل غیبت ہے، یا مدح بے جا لکھے کہ وہ کذب و بطالت ہے، یا عشق و عیاشی کے ناپاک خیالات میں کوئی مضمون سوچے کہ وہ خلاف شریعت ہے، یا مسائل دین اور اہل دین کے ساتھ تمسخر و استہزاء کیجئے کہ وہ کفر و معیصت ہے۔

فہمیدہ: یہ مجھ کو آج معلوم ہوا کہ پڑھنے لکھنے کی چیزوں میں بھی لوگوں نے خرابیاں پیدا کی ہیں۔

نصوح: کیا تم کو اپنا "گلستاں" پڑھنا یاد نہیں؟

فہمیدہ: یاد کیوں نہیں۔ جس دن حمیدہ کا دودھ چھڑایا ہے، اس کے اگلے دن میں نے "گلستاں" شروع کی تھی۔

نصوح: بھلا تم کو یہ بھی یاد ہے کہ تمہارے سبق سے آگے آگے میں جا بجا سطروں کی سطروں پر سیاہی پھیر دیا کرتا تھا؟ بلکہ بعض دفعہ صفحے کے صفحے ایسے آ پڑے تھے کہ مجھ کو اوپر سے سادہ کاغذ لگا کر ان کو چُھپانے کی ضرورت ہوئی۔

فہمیدہ: خوب اچھی طرح یاد ہے۔ چوتھائی کتاب سے کم نہ کٹی ہوگی۔

نصوح: تم پڑھتی تھیں تب چوتھائی بھی کٹی، اگر کوئی دوسری عورت یا لڑکی پڑھتی ہوتی تو میں آدھی کی خبر لیتا۔ وہ تمام بے ہودہ باتیں تھیں جن کو میں کاٹتا اور چھپاتا پھرتا تھا۔

فہمیدہ: سچ کہو۔ لو میں تو سمجھی کہ مشکل جان کر چھڑوا دیتے ہیں۔

نصوح: بڑی مشکل یہ تھی کہ میں ان واہیات اور فحش باتوں کو تمہارے رو بہ رو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ پھر یہ اس کتاب کا حال ہے جو پند و اخلاق میں ہے اور تصنیف بھی ایسے بزرگ کی ہے کہ کوئی مسلمان ایسا کمتر نکلے گا جو ان کا نام لے اور شروع میں حضرت اور آخر میں رحمۃ اللہ علیہ یا قلس اللہ سرہ العزیز نہ کہے، یعنی ان کا اعتداد اولیاء اللہ میں ہے اور جو کتابیں میں نے جلائیں، کتابیں کاہے کو تھیں، پھکڑ، گالی، ہزلیات، بڑ، بکواس، ہذیان، خرافات، میں نہیں جانتا کہ جہان میں سے کون سا نام ان کے لئے زیادہ زیبا ہے۔

فہمیدہ: جلانا کیا ضرور تھا، پڑی رہنے دی ہوتیں یا بک بکا جاتیں۔ آخر داموں کی چیز تھی۔

نصوح: شاید اگلی گرمیوں کا ذکر ہے کہ بدرو میں سانپ نکلا تھا اور اس کو دیکھ کر چھوٹے بڑے سب ایسے خوف زدہ ہو گئے تھے کہ صحن میں نکلنا چھوڑ دیا تھا اور کیسا کچھ تقاضا تھا کہ جس طرح ہو سکے سانپ کو پکڑوا کر مار ڈالنا چاہیے۔ سانپ کی نسبت تم نے ہرگز نہیں کہا کہ پڑا بھی رہنے دو، شاید کوئی سپیرا دو چار ٹکے پیسے دے کر مول لے جائے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ کتابیں اس سانپ سے زیادہ موذی اور اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھیں اور ان کی قیمت چوری اور ٹھگی کے مال سے بڑھ کر حرام۔ کلیم کو اور پھٹکار کیا ہے؟ اسی سانپ کا زہر اس کو چڑھا ہوا ہے اور شیطان نے یہی منتر اس پر پڑھ کر پھونک دیا ہے۔

فہمیدہ: پھر آخر اس زہر کا تریاق اور اس منتر کا توڑ بھی کچھ ہے یا نہیں؟

نصوح: کیوں نہیں، دین و اخلاق کی کتابیں۔ مگر کوئی ان کو دیکھنے والا بھی تو ہو۔ نہ یہ کہ ہر روز نئے سانپ سے کٹواتے جاؤ اور تریاق سے بھاگو اور نفرت رکھو تو انجام کیا ہوگا، ہلاکت۔


فصل دہم

کلیم کا جا کر پہلے اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ،
اور پھر اپنے ایک قرابت دار، فطرت کے یہاں
جا کر رہنا، اور دونوں مرتبہ زک اٹھانا اور قید ہونا،
اور آخر کار باپ ہی کی سفارش پر رہائی پانا

اب ہم کو کلیم اور نعیمہ، دونوں بھائی بہنوں کا حال بیان کرنا چاہیئے کہ باپ کے گھر سے نکل کر ان پر کیا بیتی۔ سو، چوں کہ کلیم پہلے نکلا، پہلے اسی کا حال بیان کرتے ہیں۔

کئی بار اس کو باپ نے بلوا بھیجا، یہاں تک کہ ہار کر واقعہ لکھا۔ ماں نے بہتیرا سمجھایا، بھائی نے بہت کچھ کہا سنا لیکن وہ رو بہ راہ ہوا اور جب دیکھا کہ فہمیدہ، صالحہ کے اتروانے میں مصروف ہے، آنکھ بچا، بے پوچھے، بے کہے گھر سے اس طرح نکل کھڑا ہوا کہ گویا اس کو کچھ تعلق ہی نہ تھا۔ شاید اس کے ذہن میں بھی یہ بات اس وقت نہ گذری ہوگی کہ وہ عمر بھر کے واسطے گھر سے جا رہا ہے اور عزیز و اقارب جن سے وہ ایسے سرسری طور پر جدا ہوتا ہے، جیتے جی ان کو نہ دیکھ سکے گا۔ یہ نکلنا اس کا کچھ نیا نکلنا نہ تھا بلکہ معمولی عادت اور ہمیشہ کی خصلت تھی۔ گھر سے نکل جانے کی اس نے یہاں تک مشق بہم پہنچائی تھی کہ ذرا ذرا سی ادعائی ناخوشی پر وہ آئے دن بھاگا کرتا تھا۔ مگر ادھر اس کا نکلنا معلوم ہوا اور ادھر نوکروں کے جاسوس اس کی جستجو میں دوڑنے شروع ہوئے۔ شروع شروع میں تو نوکروں ہی کے بلانے سے چلا آتا تھا۔ پھر چندے یہ معمول رہا کہ خود میاں نصوح جاتے تو صاحب زادہ بلند اقبال کو منا لاتے۔ اب تھوڑے دنوں سے نصوح کے عمل میں بھی تاثیر گھٹ گئی تھی تو بی فہمیدہ کی ڈولی در بدر پھرا کرتی تھی۔

اس دفعہ بھی وہ ضرور یہ توقع جی میں لے کر نکلا تھا کہ گلی سے نکلتے نکلتے نوکر اس کے پیچھے دوڑیں گے اور اس امید میں اس نے اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے گھر پہنچے پہنچے کوئی سینکڑوں ہی مرتبہ پیچھے پھر پھر کر دیکھا۔ مگر واقع میں یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ اب کلیم کے سوا، بہ قول نعیمہ کے، گھر کا باوا آدم بدلا ہوا تھا۔ نہ پہلی سی ماں، نہ اگلا سا باپ، نوکر ڈھونڈھیں تو کیوں اور دوڑیں تو کس لئے؟ پھر بھی کلیم اس سے بے خبر نہ تھا کہ اس مرتبہ ایک خاص طرح کا بگاڑ ہے۔ وہ جانتا تھا کہ دین داری کا چرچا گھر میں ہو رہا ہے۔ خلاف توقع نعیمہ ایک تھپڑ کھا چکی ہے۔ سلیم اور حمیدہ جو گھر میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے کلیم اور نعیمہ کے تختہ مشق تھے، اب سب سے زیادہ باپ اور ماں دونوں کے چہیتے ہو رہے ہیں۔ یعنی جن کی لمبی چوڑی عزت تھی، وہ ذلیل ہیں اور جو بے وقعت تھے، ان کا طوطی بول رہا ہے۔ پہلے جب کبھی کلیم گھر سے نا خوش ہر کر نکلا تو کھانے کھڑے، روپے پیسے کے لین دین پر، ماں یا بھائی بہنوں سے لڑائی جھگڑے کے سبب۔ لیکن اس دفعہ دین کی بحث تھی، نہ لین دین کی، باپ سے لڑائی تھی، نہ بھائی بہنوں سے۔ ذرا سی عقل معاملہ فہم بھی کلیم کو ہوتی تو وہ ایسی حالت میں گھر سے نکلنے پر دلیری نہ کرتا۔ لیکن، جیسا کہ نصوح نے تجویز کیا تھا، اس پر شاعری کی پھٹکار تھی اور سر پر شامت اعمال سوار اور واقع میں جب انسان شبانہ روز داد و تحسین کی فکر میں منہمک رہے گا تو ضرور ہے کہ خود پسندی، خود بینی، خود ستائی کے عیوب اس کی طبیعت میں راسخ ہوں۔

شعر و سخن کے اعتبار سے ہم بھی کلیم کو شاباش دیتے ہیں، کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاملہ اچھا باندھتا ہے، تضمین میں گرہ خوب لگاتا ہے، بندش بھی خاصی ہوتی ہے، قصیدہ بھی برا نہیں، طبعیت مضمون آفرینی پر بھی مائل ہے۔ مثنوی تو خیر، مگر رباعی اس کی لاجواب ہوتی ہے۔ مقطع میں تخلص کے اتنے التزام پر بے ساختگی کی ادا قابل آفریں ہے۔ اب قصیدے کی تشبیب بعد چندے سودا کے لگ بھگ ہونے والی ہے۔ چشم بد دور، چھ برس کی مشق میں دو دیوانوں کا مرتب ہو جانا کچھ تھوڑی بات نہیں۔ شہر میں بھلا کچھ نہیں تو سو دو سو غزلیں لوگوں کے زبان زد ہوں گی۔ سچ ہے، قبول سخن خداد داد بات ہے۔ الغرض شاعری میں کلیم کی لن ترانیاں چنداں بے جا نہ تھیں۔ لیکن دنیا کے معاملات میں از بس کہ اس کو غور اور خوض کرنے کی عادت نہ تھی، اسی وجہ سے اکثر اس کی رائے غلطی پر ہوتی تھی۔

وہ گھر سے نکل کر ایسا بے تکلف مرزا ظاہر دار بیگ کی طرف کو مڑا، جیسے مطلق العنان گھوڑا تھان کی طرف رخ کرتا ہے۔ مرزا کی ظاہر داری نے اس کو اس قدر دھوکہ دے رکھا تھا کہ وہ ان کو ماں، باپ، بھائی، بہن، خویش و اقارب، سب سے بڑھ کر اپنا خیر خواہ، سب سے زیادہ اپنا دوست سمجھتا تھا اور بے امتحان، بے آزمائش، اس کو مرزا پر ایسا تکیہ و اعتماد تھا کہ شاید دانش مند آدمی کو، متواتر تجربوں کے بعد بھی، کسی دوست پر نہیں ہو سکتا۔ بات اصل یہ ہے کہ مردم شناسی کی جو ایک صفت ہے، کلیم میں مطلق نہ تھی۔ مرزا سے زیادہ اس کو اپنی نسبت مظالطہ تھا اور اس نے اپنے تیئں ایسا عزیز الوجود فرض کر رکھا تھا کہ ایک سے ایک لائق نوکری کی جستجو میں مارے مارے پھرتے ہیں اور نہیں ملتی اور کلیم کے ذہن میں از خود یہ خناس سمایا ہوا تھا کہ گویا تمام ہندوستانی سرکاریں اس کے قدوم میمنت لزوم کی متمنی اور منتظر ہیں اور جس طرف کو چل کھڑا ہوگا، وہاں کا والی ملک اس کی تشریف آوری کو بس غنیمت جانے گا۔ گھر سے نکلا تو محض تہی دست، لیکن اس خیال میں مگن کہ اب کوئی دم جاتا ہے کہ مالک خزائن الارض بننے جا رہا ہوں۔ چلا جوتیاں چٹخاتا ہوا مگر اس تصور میں مست کہ فیل کوہ پیکر مع ہودج زر اس کی سواری کے لئے آ رہا ہے۔ باوجودیکہ شب خوابی کے کپڑوں کے سوا بدن پر کچھ نہ تھا، تاہم خلعت ہفت پارچہ کی امید میں

نظر اس کی نخوت کے زینے پہ تھی
کہ شانوں سے اتری تو سینے پہ تھی

قصہ کوتاہ، کلیم شیخ چلی کے سی منصوبے سوچتا ہوا اپنے دوست مرزا کے مکان پر پہنچا۔ ہر چند ابھی کچھ ایسی بہت رات نہیں گئی تھی لیکن مرزا جیسے نکمے، بے فکرے کبھی کی لمبی تاک کر سو چکے تھے۔ کلیم نے دروازے پر دستک دی تو جواب ندارد۔ اس مقام پر مرزا کا تھوڑا سا حال لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس شخص کی کیفیت یہ تھی کہ شاید اس کا نانا، وہ بھی حقیقی نہیں، ابتدائے عمل داری سرکار میں صاحب ریزیڈنٹ کی اردلی کا جمعدار تھا۔ اول تو ایسی عایل جاہ سرکار، دوسرے با اعتبار منصب اردلی کا جمعدار، تیسرے ان دنوں کی بےعنوانی، اس پر خود اس کی رشوت ستانی، بہت کچھ کمایا۔ یہاں تک کہ اس کا اعتداد دلی کی روداروں میں ہو گیا۔ مرزا کی ماں اوائل عمر میں بیوہ ہو گئی۔ جمعدار نے باوجودے کہ دور کی قرابت تھی، حسبتہ للہ، اس کا تکفل اپنے ذمے لیا۔ جمعدار اپنی حیات میں اتنا سلوک کرتا رہا کہ مرزا کو یتیمی اور کی ماں کو بیوگی بھول کر بھی یاد نہ آئی ہوگی لیکن جمعدار کے مرنے پر اس کے بیٹے، پوتے، نواسے کثرت سے تھے، انہوں نے بے اعتنائی کی اور اگرچہ جمعدار بہت کچھ وصیت کر مرے تھے مگر ان کے ورثا نے بہ ہزار دقت، محل سرا کے پہلو میں ایک بہت چھوٹا سا قطعہ ان کے رہنے کو دیا، اور سات روپے مہینے کے کرائے کی دوکانیں مرزا کے نام کرا دیں۔ یہ تو حال تھا کہ مرزا مرزا کی ماں، مرزا کی بیوی، تین تین آدمی اور سات روپے کل کی کائنات، اس پر مرزا کی شیخی اور نمود۔ یہ مسخرہ اس ہستی پر چاہتا تھا کہ جمعدار کے بیٹوں کی برابری کرے، جن کو صدہا روپے ماہوار کی آمدنی تھی۔ اگرچہ جمعدار والے اس کو منہ نہیں لگاتے تھے مگر یہ بے غیرت زبردستی ان میں گھستا تھا۔ کسی کو ماموں جان، کسی کو بھائی جان، کسی کو خالو جان بناتا اور وہ لوگ اس کے ادعائی رشتوں ناتوں سے جلتے اور دق ہوتے۔ اونچی حیثیت کے لوگوں میں بیٹھنا اس کے حق میں اور بھی زبوں تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی اس نے تمام عادتیں امیر زادوں کی سی اختیار کر رکھی تھیں، مگر امیر زادگی نہ تھی تو کیسے نبھے۔ دوکانیں گروی ہوتی جاتی تھیں۔ ماں بے چاری بہتیرا بکتی مگر کون سنتا تھا۔

مرزا کو جب دیکھو، پاؤں میں ڈیڑھ حاشیے کی جوتی، سر پر دہری بیل کی بھاری کام دار ٹوپی، بدن میں ایک چھوڑ دو دو انگرکھے: اوپر شبنم یا ہلکی سی تن زیب، نیچے کوئی طرح دار سا ڈھاکے کا نینو۔ جاڑا ہوا تو بانات مگر سات روپے گز سے کم کی نہیں۔ خیر، یہ تو صبح شام، اور تیسرے پہر کا شانی مخمل کی آصف خانی جس میں حریر کی سنجاف کے علاوہ گنگا جمنی کم خواب کی عمدہ بیل ٹنکی ہوئی۔ سرخ نیفہ۔ پائجامہ اگر ڈھیلے پائنچوں کا ہوا تو کلی دار اور اس قدر نیچا کہ ٹھوکر کے اشارے سے دو دو قدم آگے، اور اگر تنگ مہری کا ہوا تو نصف ساق تک چوڑیاں، اور اوپر جلد بدن کی طرح مڑھا ہوا۔ ریشمی ازار بند، گھٹنوں میں لٹکتا ہوا۔ اس میں بے قفل کی کنجیوں کا گچھا۔ غرض دیکھا تو مرزا صاحب اس ہیئت کذائی سے چھیلا بنے ہوئے، سر بازار، چھم چھم کرتے چلے جا رہے ہیں۔

کلیم سے مرزا سے محفل مشاعرہ میں تعارف پیدا ہوا۔ شدہ شدہ مرزا صاحب کلیم کے مکان پر تشریف لانے لگے۔ یہاں تک کہ اب چند روز سے تو دونوں میں ایسی گاڑھی چھننے لگی تھی کہ گویا یک جان و دو قالب تھے۔ کلیم کو تو مرزا کے مکان پر جانے کا کبھی بھی اتفاق نہیں ہوا مگر مرزا، شام کو تو کبھی کبھی، لیکن صبح کو بلا ناغہ آتے اور تمام تمام دن کلیم کے پاس رہتے۔ مرزا نے اپنا حال اصلی کلیم پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کلیم یہی جانتا تھا کہ جمعدار کا تمام ترکہ مرزا کو ملا اور وہ جمعدار کی محل سرا کو مرزا کی محل سرا اور جمعدار کے دیوان خانے کو مرزا کا دیوان خانہ اور جمعدار کے بیٹے پوتوں کے نوکروں کو مرزا کے نوکر سمجھتا اور اسی غلط فہمی میں وہ گھر سے نکلا تو سیدھا جمعدار کے محل سرا کی ڈیوڑھی پر جا موجود ہوا۔ بار بار کے پکارنے اور کنڈی کھڑکھڑانے سے دو لونڈیاں چراغ لئے ہوئے اندر سے نکلیں، اور ان میں سے ایک نے پوچھا: "کون صاحب ہیں اور اتنی رات گئے کیا کام ہے؟"

کلیم: جاؤ مرزا کو بھیج دو۔

لونڈی: کون مرزا؟

کلیم: مرزا ظاہر دار بیگ جن کا مکان ہے اور کون مرزا۔

لونڈی: یہاں کوئی ظاہر دار بیگ نہیں ہے۔

اتنا کہہ کر قریب تھا کہ لونڈی پھر کواڑ بند کر لے کہ کلیم نے کہا: "کیوں جی کیا یہ جمعدار صاحب کی محل سرا نہیں ہے؟"

لونڈی: ہے کیوں نہیں۔

کلیم: پھر تم نے یہ کیا کہا کہ یہاں کوئی ظاہر دار بیگ نہیں۔ کیا ظاہر دار بیگ جمعدار کے وارث اور جانشین نہیں ہیں؟

لونڈی: جمعدار کے وارثوں کو خدا سلامت رکھے، مٗوا ظاہر دار بیگ جمعدار کا وارث بننے والا کون ہوتا ہے۔

دوسری لونڈی: اری کم بخت! یہ کہیں مرزا بانکے کے بیٹے کو نہ پوچھتے ہوں۔ وہ ہر جگہ اپنے تئیں جمعدار کا بیٹا بنایا کرتا ہے۔ (کلیم سے مخاطب ہو کر) "کیوں میاں! وہی ظاہر دار بیگ نا، جن کی رنگ زرد زرد ہے، آنکھیں کرنجی، چھوٹا قد، دبلا ڈیل، اپنے تئیں بہت بنائے سنوارے رہا کرتے ہیں۔

کلیم: ہاں ہاں، وہی ظاہر دار بیگ۔

لونڈی: تو میاں، اس مکان کے پچھواڑے، اپلوں کی ٹال کے برابر ایک چھوٹا سا کچا مکان ہے، وہ اس میں رہتے ہیں۔

کلیم نے وہاں جا کر آواز دی تو کچھ دیر بعد مرزا صاحب ننگ دھڑنگ، جانگیہ پہنے ہوئے باہر تشریف لائے اور کلیم کو دیکھ کر شرمائے اور بولے: آھا! آپ ہیں۔ معاف کیجئے گا، میں نے سمجھا کوئی اور صاحب ہیں۔ بندے کو کپڑا پہن کر سونے کی عادت نہیں۔ میں ذرا کپڑے پہن آؤں تو آپ کے ہم رکاب چلوں۔

کلیم: چلیئے گا کہاں؟ میں آپ ہی کے پاس تک آیا تھا۔

مرزا: پھر اگر کچھ دیر تشریف رکھنا منظور ہو تو میں اندر پردہ کرا دوں۔

کلیم: میں آج شب کو آپ ہی کے یہاں رہنے کی نیت سے آیا ہوں۔

مرزا: بسم اللہ، تو چلیے اسی مسجد میں تشریف رکھیے، بڑی فضا کی جگہ ہے۔ میں ابھی آیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کلیم نے جو مسجد میں آ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک نہایت پرانی چھوٹی سی مسجد ہے، وہ بھی مسجد ضرار کی طرح ویران، وحشت ناک، نہ کوئی حافظ ہے ، نہ کوئی طالب علم، نہ کوئی مسافر۔ ہزارہا چمگادڑیں اس میں رہتی ہیں کہ ان کی تسبیح بے ہنگام سے کان کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ فرش پر اس قدر بیٹ پڑی ہے کہ بجائے خود کھرنجے کا فرش بن گیا ہے۔

مرزا کے انتظام میں کلیم کو چار و نا چار اسی مسجد میں ٹھہرنا پڑا۔ مرزا آئے بھی تو اتنی دیرکے بعد کہ کلیم مایوس ہو چکا تھا۔ قبل اس کے کہ کلیم شکایت کرے، مرزا صاحب، بطور دفع دخل مقدر، فرمانے لگے کہ بندے کے گھر میں کئی دن سے طبیعت علیل ہے، خفقان کا عارضہ، اختلاج قلب کا روگ ہے۔ اب جو میں آپ کے پاس سے گیا تو ان کو غشی میں پایا، اسی وجہ سے دیر ہوئی۔ پہلے تو یہ بتائیے کہ اس وقت بندہ نوازی فرمانے کی کیا وجہ ہے؟

کلیم نے باپ کی طلب، اپنا انکار، بھائی کی التجا، ماں کا اصرار، تمام ماجرا کہہ سنایا۔

مرزا: پھر اب کیا ارادہ ہے؟

کلیم: سوائے اس کے کہ اب گھر لوٹ کر جانے کا ارادہ نہیں ہے، اور جو آپ کی صلاح ہو۔

مرزا: خیر، نیت شب حرام، صبح تو ہو۔ آپ بے تکلف استراحت فرمایئے۔ میں جا کر بچھونا وغیرہ بھیجے دیتا ہوں اور مجھ کو مریضہ کی تیمارداری کے لئے اجازت دیجئے کہ آج اس کی علالت میں اشتداد ہے۔

کلیم: یہ کیا ماجرا ہے؟ تم تو کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہاں دوہری محل سرائیں، متعدد دیوان خانے، کئی پائیں باغ ہیں۔ حوض اور حمام اور کٹرے اور گنج اور دوکانیں اور سرائیں، میں تو جانتا ہوں کہ عمارت کی قسم کی کوئی چیز ایسی نہ ہوگی جس کو تم نے اپنی ملک نہ بتایا ہو، یا یہ حال ہے کہ ایک متنفس کے واسطے ایک شب کے لیے تم کو جگہ میسر نہیں۔ جو جو حالات تم نے اپنی زبان سے بیان کئے، ان سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ جمعدار کے تمام ترکے پر تم قابض اور متصرف ہو۔ لیکن میں اس جاہ و حشمت کا ایک شمہ بھی نہیں دیکھتا۔

مرزا: آپ کو میری نسبت سخن سازی کا احتمال ہونا سخت تعجب کی بات ہے۔ اتنی مدت مجھ سے آپ سے صحبت رہی، مگر افسوس ہے کہ آپ نے میری طبیعت اور میری عادت کو نہ پہچانا۔ یہ اختلاف حالت جو آپ دیکھتے ہیں، اس کی ایک وجہ ہے۔ بندے کو جمعدار صاحب مرحوم و مغفور نے متبنٰی کیا تھا اور اپنا جانشین کر مرے تھے۔ شہر کے کل رؤسا اس سے واقف اور آگاہ ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس میں رخنہ اندازیاں کیں۔ بندے کو آپ جانتے ہیں کہ بکھیڑے سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ صحبت ناملائم دیکھ کر کنارا کش ہو گیا۔ لیکن کسی کو انتظام کا سلیقہ، بندوبست کا حوصلہ نہیں۔ اسی روز سے اندر باہر واویلا مچی ہوئی ہے اور اس بات کے مشورے ہو رہے ہیں کہ بندے کو منانے جائیں۔

کلیم: لیکن آپ نے اس کا تذکرہ کبھی نہیں کیا۔

مرزا: اگر میں آپ سے یا کسی سے تذکرہ رتا تو استقلال مزاج سے بے بہرہ اور غیرت و حمیت سے بے نصیب ٹھہرتا۔ اب آپ کو کھڑے رہنے میں تکلیف ہوتی ہے، اجازت دیجئے کہ میں جا کر بچھونا بھجوا دوں اور مریضہ کی تیمار داری کروں۔

کلیم: خیر، مقام مجبوری ہے۔ لیکن پہلے ایک چراغ تو بھیج دیجئے، تاریکی کی وجہ سے طبیعت اور بھی گھبراتی ہے۔

مرزا: چراغ کیا میں نے تو لمپ روشن کرانے کا ارادہ کیا تھا لیکن گرمی کے دن ہیں، پروانے بہت جمع ہو جائیں گے اور آپ زیادہ پریشان ہو جیے گا اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گرنے شروع ہو جائیں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کر دیں گے۔ تھوڑی دیر صبر کیجئے کہ ماہتاب نکلا آتا ہے۔

کلیم جب گھر سے نکلا تو کھانا تیار تھا لیکن وہ اس قدر طیش میں تھا کہ اس نے کھانے کی مطلق پروا نہ کی اور بے کھائے نکل کھڑا ہوا۔ مرزا سے ملنے کے بعد وہ منٹظر تھا کہ آخر مرزا خود پوچھیں ہی گے تو کہہ دوں گا۔ مرزا کو ہر چند کھانے کی نسبت پوچھنا ضرور تھا، کیوں کہ اول تو کچھ ایسی رات زیادہ نہیں گئی تھی، دوسرے یہ اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ کلیم گھر سے لڑ کر نکلا ہے، تیسرے دونوں میں بے تکلفی غایت درجے کی تھی۔ لیکن مرزا قصداً اس بات سے معترض نہ ہوا اور کلیم بے چارے کا بھوک کے مارےیہ حال کہ مسجد میں آنے سے پہلے اس کی انتڑیوں نے قل ہو اللہ پڑھنی شروع کر دی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ مرزا کسی طرح اس پہلو پر نہیں آتا اور عن قریب تمام شب کے واسطے رخصت ہوا چاہتا ہے، تو بے چارے نے بے غیرت بن کر خود ہی کہہ دیا کہ سنو یار، میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔

مرزا: سچ کہو! نہیں جھوٹ، بہکاتے ہو۔

کلیم: تمہارے سر کی قسم، میں بھوکا ہوں۔

مرزا: تو مرد خدا، آتے ہی کیوں نہ کہا؟ اب اتنی رات گئے کیا ہو سکتا ہے۔ دوکانیں سب بند ہو گئیں اور جو دو ایک کھلی بھی ہیں تو باسی چیزیں رہ گئی ہوں گی، جس کے کھانے سے فاقہ بہتر ہے۔ گھر میں آج آگ تک نہیں سلگی۔ مگر ظاہراً تم سے بھوک کی سہار ہونی مشکل معلوم ہوتی ہے۔ دیو اشتہا کو زیر کرنا بڑی ہمت والوں کا کام ہے۔ ایک تدبیر سمجھ میں آتی ہے کہ جاؤں چھدامی بھڑ بھونجے کے یہاں سے گرم گرم خستہ چنے کی دل بنوا لاؤں۔ بس ایک دھیلے کی مجھ کو تم کو دونوں کو کافی ہوگی، رات کا وقت ہے۔

ابھی کلیم کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ مرزا جلدی سے اٹھ باہر گئے اور چشم زدن میں چنے بھنوا لائے۔ مگر دھیلے کا کہہ کر گئے تھے، یا تو کم کے لائے یا راہ میں دو چار پھنکے لگا لیے، اس واسطے کہ کلیم کے روبرو دو تین مٹھی چنے سے زیادہ نہ تھے۔

مرزا: یار، ہو تم بڑے خوش قسمت کہ اس وقت بھاڑ مل گیا۔ ذرا، وللہ ہاتھ تو لگاؤ، دیکھو تو کیسے بھلس رہے ہیں اور سوندھی سوندھی خوش بو بھی عجب ہی دلفریب ہے کہ بس بیان نہیں ہو سکتا۔ تعجب ہے کہ لوگوں نے خس اور مٹی کا عطر نکالا مگر بھنے ہوئے چنوں کی طرف کسی کا ذہن منتقل نہیں ہوا۔ کوئی فن ہو، کمال بھی کیا چیز ہے۔ دیکھیئے، اتنی تو رات گئی ہے مگر چھدامی کی دکان پر بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ بندے نے تحقیق سے سنا ہے کہ حضوروالا کے خاصے میں چھدامی کی دوکان کا چنا بلا ناغہ لگ کر جاتا ہے۔اور واقعی میں آپ ذرا غور سے دیکھئے، کیا کمال کرتا ہے کہ بھوننے میں چنوں کو سڈول بنا دیتا ہے۔ بھئی تمہیں میرے سر کی قسم سچ کہنا، ایسے خوب صورت، خوش قطع، سڈول چنے تم نے پہلے بھی کبھی دیکھے تھے؟ دال بنانے میں اس کو یہ کمال حاصل ہے کہ کسی دانے پر خراش تک نہیں، ٹوٹنے پھوٹنے کا کیا مذکور اور دانوں کی رنگت دیکھیے۔ کوئی بسنتی ہے، کوئی پستئی غرض دونوں رنگ خوش نما۔ یوں تو صدہا قسم کے غلے اور پھل زمین سے اگتے ہیں لیکن چنے کی لذت کو کوئی نہیں پاتا۔ آپ نے وہ ایک ظریف کی حکایت سنی ہے؟

کلیم: فرمائیے۔

مرزا: چنا ایک بار حضرت میکائیل کی خدمت میں جن کو ارزاق عباد کا اہتمام سپرد ہے فریاد لے کر گیا کہ یا حضرت میں نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ جوں میں نے سر زمین سے نکالا تیر ستم چلنے لگا۔ ماکولات اور بھی ہیں، مگر جیسے جیسے ظلم مجھ پر ہوتے ہیں کسی اور پر نہیں ہوتے۔ نشو ونما کے ساتھ تو میری قطع و برید ہونے لگتی ہے۔ میری کونپلوں کو توڑ کر آدمی ساگ بناتے اور مجھے کچے کو کھا جاتے ہیں۔ جب ذرا بار آور ہوا تو خدا جھوٹ نہ بلوائے، آدمی بکری بن کر لاکھوں من بونٹ چر جاتے ہیں۔ اس سے نجات ملی تو ہولے کرنے شروع کیے۔ پکا تو شاخ و برگ، بھس بن کر بیلوں اور بھینسوں کے دوزخ شکم کا ایندھن ہوا۔ رہا دانہ، اس کو چکی میں دلیں، گھوڑوں کو کھلائیں، بھاڑ میں بھونیں، بیسن بنائیں، کھولتے ہوئے پانی میں ابالیں، گھنگھنیاں پسائیں۔ غرض شروع سے آخر تک مجھ پر طرح طرح کی آفتیں نازل رہتی ہیں۔ چنے کا حضرت میکائیل کے دربار میں اس طرح پر بے بیکانہ چپڑ چپڑ بولنا سن کر حاضرین دربار اس قدر نا خوش ہوئے کہ ہر شخص اسے کھانے کو دوڑا۔ چنانچہ یہ ماجرا دیکھ کر بے انتظام ھکم اخیر رخصت ہوا۔ سو حضرت، یہ چنے ایسے لذت کے بنے ہیں کہ فرشتوں کے دندان آز بھی ان پر تیز ہیں۔ افسوس ہے کہ اس وقت نمک مرچ بہم نہیں پہنچ سکتا، ورنہ میر مدن کے کبابوں میں یہ خستگی اور یہ سوندھا پن کہاں؟

غرض، مرزا نے اپنی چرب زبانی سے چنوں کو گھی کی تلی دال بنا کر اپنے دوست کلیم کو کھلایا۔ کلیم بھوکا تو تھا ہی، اس کو بھی ہمیشہ سے کچھ زیادہ مزے دار معلوم ہوئے۔ مرزا نے گھر جا کر ایک میلی دری ایک کثیف سا تکیہ بھیج دیا۔ دو ہی گھڑی میں کلیم کی حالت کا اس قدر متغیر ہونا عبرت کا مقام ہے۔ یا تو خلوت خانہ اور عشرت منزل میں تھا یا اب ایک مسجد میں آ کر پڑا اور مسجد بھی ایسی جس کا تھوڑا سا حال ہم نے اوپر بیان کیا۔ گھر کے الوان نعمت کو لات مار کر نکلا تھا تو پہلی ہی وقت چنے چبانے پڑے۔ نہ چراغ نہ چارپائی، نہ بہن نہ بھائی، نہ مونس نہ غم خوار، نہ نوکر نہ خدمت گار۔ مسجد میں اکیلا ایسا بیٹھا تھا جیسے قید خانے میں حاکم کا گنہگار، یا قفس میں مرغ نو گرفتار اور کوئی ہوتا تو اس حالت پر نظر کر کے تنبیہہ پکڑتا، اپنی حرکت سے توبہ اور اپنے افعال سے استغفار کرتا، اور اسی وقت نہیں تو سویرے گجر دم باپ کے ساتھ نماز صبح میں جا شریک ہوتا۔ لیکن کلیم کو اور بہت مضمون سوچنے کو تھے۔ اس نے رات بھر میں ایک قصیدہ تو مسجد کی ہجو میں تیار کیا اور ایک مثنوی مرزا کی شان میں۔

صبح ہوتے آنکھ لگ گئی، تو معلوم نہیں مرزا یا محلے کا کوئی اور عیار، ٹوپی، جوتی، رومال، چھڑی، تکیہ، دری، یعنی جو چیز کلیم کے بدن سے منفک اور اس کے جسم سے جدا تھی، لے کر چمپت ہوا۔ یوں بھی کلیم بہت دیر کو سو کے اٹھتا تھا اور آج تو ایک وجہ خاص تھی۔ کوئی پہر سوا پہر دن چڑھے جاگا تو دیکھتا کیا ہے کہ فرش مسجد پر پڑا ہے اورنیند کی حالت میں جو کروٹیں لی ہیں تو سیروں گرد کا بھبھوت اور چمگادڑوں کی بیٹ کا ضماد بدن پر تھپا ہوا ہے۔ حیران ہوا کہ قلب ماہیت ہو کر میں کہیں بھتنا تو نہیں بن گیا۔ مرزا کو ادھر دیکھا ادھر دیکھا، کہیں پتا نہیں۔ مسجد تھی ویران، اس میں پانی کہاں۔ صبر کر کے بیٹھ رہا کہ کوئی اللہ کا بندہ ادھر کو آنکلے تو اس کے ہاتھ مرزا کو بلواؤں اور یا منہ ہاتھ دھو کر خود مرزا تک جاؤں۔ا س میں دوپہر ہونے کو آئی۔ بارے ایک لڑکا کھیلتا ہوا آیا۔ جونہی زینے پر چڑھا کہ کلیم اس سے عرض مطلب کرنے کے لئے لپکا۔ وہ لڑکا اس کی ہیئت کذائی دیکھ ڈر کر بھاگا۔ خدا جانے اس نے اس کو بھوت سمجھا یا سڑی خیال کیا۔ کلیم نے بہتیرا پکارا اس لڑکے نے پیٹھ پھیر کر نہ دیکھا۔

ناچار کلیم نے بہ ہزار مصیبت دوسرے فاقے سے شام پکڑی اور جب اندھیرا ہوا تو الو کی طرح اپنے نشیمن سے نکلا۔ سیدھا مرزا کے مکان پر گیا اور آواز دی تو یہ جواب ملا کہ وہ تو بڑے سویرے کے قطب صاحب سدھارے ہیں۔ کلیم نے چاہا کہ اپنا تعارف ظاہر کر کے ممکن ہو تو منہ ہاتھ دھونے کو پانی مانگے اور مرزا کی پھٹی پرانی جوتی اور ٹوپی، تاکہ کسی طرح گلی کوچے میں چلنے کے قابل ہو جائے۔ یہ سوچ کر اس نے کہا: "کیوں حضرت، آپ مجھ سے بھی واقف ہیں؟"

اندر سے آواز آئی: "ہم تمہاری آواز تو نہیں پہچانتے، اپنا نام نشان بتاؤ تو معلوم ہو۔

کلیم: میرا نام کلیم ہے، اور مجھ سے اور مرزا ظاہر دار بیگ سے بڑی دوستی ہے۔ بلکہ شب کو میں مرزا صاحب ہی کی وجہ سے مسجد میں تھا۔

گھر والے: وہ دری اور تکیہ کہاں ہے جو تمہارے سونے کے لئے بھیجا گیا تھا؟

تکیہ اور دری کا نام سن کر تو کلیم بہت چکرایا اور ابھی جواب دینے میں متامل تھا کہ اندر سے آواز آئی: "مرزا زبردست بیگ! دیکھنا، یہ مردوا کہیں چل نہ دے۔ دوڑ کر تکیہ دری تو اس سے لو۔"

کلیم یہ سن کر بھاگا۔ ابھی گلی کی نکڑ تک نہیں پہنچا تھا کہ زبردست نے "چور چور" کر کے جا لیا۔ ہر چند کلیم نے مرزا ظاہر دار بیگ کے ساتھ اپنے حقوق معرفت ثابت کیے مگر زبردست کا ٹھینگا سر پر، اس نے ایک نہ مانی اور پکڑ کر کوتوالی لے گیا۔ کوتوال نے سرسری طور پر دونوں کا بیان سنا اور کلیم سے اس کا حسب نسب پوچھا۔ ہرچند، کلیم اپنا پتا بتانے میں جھینپتا تھا مگر چار و ناچار اس کو بتانا پڑا۔ لیکن اس کی حالت ظاہری ایسی ابتر ہو رہی تھی کہ اس کا سچ بھی جھوٹ معلوم توتا تھا۔ کوتوال نے سن کر یہی کہا کہ میاں نصوح جن کو تم اپنا والد بتاتے ہو، میں ان کو خوب جانتا ہوں اور یہ بھی مجھ کو معلوم ہے کہ ان کے بڑے بیٹے کا یہی نام ہے جو تم نے اپنا بیان کیا ہے۔ محلے کا پتا، گھر کا نشان بھی جوتم نے کہا، سب ٹھیک ہے۔ مگر کلیم تو ایک مشہور و معروف آدمی ہے۔ آج شہر میں اس کی شاعری کی دھوم ہے۔ تمہاری یہ حیثیت کہ ننگے سر، ننگے پاؤں، بدن پر کیچڑ تھپی ہوئی۔ مجھ کو باور نہیں ہوتا۔ ان کو حوالات میں رکھو۔ صبح ہو تو میں ان کے والد کو بلواؤں تو ان کے بیان کی تصدیق ہو۔

کلیم یہ سن کر رو دیا اور کہا کہ میں وہی بدنصیب ہوں جس کی شعر گوئی کا شہرہ آپ نے سنا ہے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو میں اپنے افکار تازہ سناؤں۔ چنانچہ کل شب کو جو کچھ مسجد و مرزا کی شان میں کہا تھا، سنایا۔ اس پر کوتوال نے اتنی رعایت کی کہ دو سپاہی کلیم کے ساتھ کیے اور ان کو حکم دیا کہ ان کو میاں نصوح کے پاس لے جاؤ۔ اگر وہ ان کو اپنا فرزند بتائیں تو چھوڑ دینا، ورنہ واپس لا کر حوالات میں رکھنا۔

کلیم پر اس کیفیت سے باپ کے روبرو آنا جیسا کچھ شاق گذرا ہوگا، ظاہر ہے، مگر کیا کر سکتا تھا۔سپاہی اس کو کشاں کشاں لے ہی گئے۔ محلے کی مسجد، جس میں نصوح نماز پڑھا کرتا تھا، اس کے گھر سے بہت ہی قریب تھی۔ صحن مسجد میں ایک شاداب چمن تھا اور چمن کے بیچوں بیچ، ایک پکا، مرتفع چبوترا۔ عجب تفریح کا مقام تھا۔ نصوح، بیش تر نماز عشاء کے بعد، خصوصاً چاندنی راتوں میں، اس چبوترے پر بیٹھ کر پھول بوٹوں میں خداوند تعالٰی کی صنعت کا ملاحظہ کیا کرتا تھا۔ اس کو بیٹھا دیکھ کر دوسرے نمازی بھی جمع ہو جاتے تھے اور نصوح کو وعظ پند کے طور پر ان کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملتا تھا۔

نصوح اور اس کے مستمعین، مسجد کے چبوترے پر جمع ہوتے جاتے تھے، کہ کوتوالی کے سپاہی کلیم کو لیے آن پہنچے۔ یہ اتفاق من جانب اللہ شاید اسی وجہ سے پیش آیا کہ جو لوگ کلیم کی نظر میں صرف اس وجہ سے ذلیل تھے کہ وہ اپنے خالق کی پرستش کرتے تھے، یا اپنے اور بال بچوں کے پیٹ بھرنے کے لئے محنت مزدوری کر کے بہ وجہ حلال روزی پیدا کرتے تھے، ان کے سامنے اس کی گردن نخوت نیچی ہو۔ اب وہ انہیں قل اعوذیوں اور مردہ شویوں، اور بھک منگوں، اور ٹکر گداؤں کے روبرو اس حیثیت سے کھڑا تھا کہ منکر نکیر کی طرح دو سپاہی اس کی گردن پر سوار تھے۔ نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں جوتی۔ دو وقت کے فاقے سے منہ سوکھ کر ذری سا نکل آیا تھا، آنکھوں میں حلقے پڑ گئے تھے، ہونٹوں پر پپڑیاں جم رہی تھیں۔ کپڑوں کا وہ حال تھا کہ ایسے لباس سے ننگا ہوتا تو بہتر تھا۔

جوں نصوح کی نظر بیٹے پر پڑی گویا ایک تیر سا کلیجے میں لگ گیا۔ اگر پہلا سا نصوح ہوتا تو نہیں معلوم عورتوں کی طرح دھاڑیں مار کر روتا، یا سر پیٹنے لگتا، یا دوڑ کر بیٹے کو لپٹ جاتا، یا سپاہیوں سے بے پوچھے گچھے دست و گریبان ہو پڑتا، یا خدا جانے اضطراب جاہلانہ میں کیا کرتا۔ مگر اب اس کی جملہ حرکات و سکنات، معلم دین داری کی مطیع، اور مؤدب خدا پرستی کی تابع تھیں۔ اس نے ایک دم آہ سرد بھر کر "انا للہ و انا الیہ راجعون" تو کہا اور اف بھی نہ کی۔ سپاہیوں نے اس سے کلیم کی نسبت پوچھا تو اس نے آنکھیں نیچی کر کے کہا کہ جب حضرت نوح اپنے بیٹے کو ڈوبتے دم تک "بیٹا بیٹا" پکارتے گئے تو میں اس کے فرزند ہونے سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں۔ سپاہی تو اتنا سن کر رخصت ہوئے اور کلیم کو رفقائے نصوح میں سے کسی نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پہلو میں بٹھایا۔ نصوح بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر بولا: "کیوں کلیم، میں نے ایسا کون سا قصور کیا تھا کہ تم کو میری طلعت منحوس تک دیکھنی وارا نہ ہوئی؟ تم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ شفقت اولاد، ماں باپ کی طنیت میں مخمر اور ان کی جبلت میں داخل ہے۔ وہ شفقت جو اس وقت مجھ کو اس بات کی محرک ہوئی کہ میں سپاہیوں کے پنجے سے تمہاری نجات کا باعث ہوا، وہی شفتت مجھ کو اس بات پر بھی مجبور کرتی ہے اور کرے گی کہ میں تم کو ایسی راہ نہ چلنے دوں، جو تمہاری ابدی ہلاکت کا باعث اور دائمی تباہی کا موجب ہو۔ میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ میرے لئے کمائی کرو، میری آسائش کے واسطے اپنے اوپر تکلیف اٹھاؤ، اور اگر میں ایسا کہتا تو مجھ کو اس کا منصب اور حق تھا۔ میں نے جس کمائی کو کہا وہ تمہارے ہی کام آئے گی، اور جس محنت کی تم کو تکلیف دی، وہ تمہی کو آرام دے گی۔ اگر کسی بیمار کا طبیب مہربان سے پرہیز کرنا، کسی سیاح کا بدرقہ خیرخواہ سے گریز کرنا، روا ہے تو بے شک تم بھی مجھ سے نفرت رکھ سکتے ہو۔ کیوں کلیم، کیا ہمیشہ تمہاری خوشی مجھ کو منظور، تمہاری رضا جوئی مجھ کو ملحوظ نہیں رہی؟ اب جو تم نے مجھ کو اپنا دشمن قرار دے دیا، اپنا عدو ٹھہرایا، تو دشمنی کا سبب، عداوت کا موجب؟

میں نے سنا ہے کہ تم مجھ کو دیوانہ، مجنون اور مختل الحواس تجویز کرتے ہو۔ سو میں تمہاری اس تشخیص صحیح اور تجویز درست اور اس فراست صائب پر جرح نہیں کرتا۔ میں باؤلا اور سڑی اور پاگل سہی، لیکن اگر کوئی باؤلا تمہاری راہ میں کانٹے پڑے دیکھ کر تم کو آگاہ کرے تو کیا اس کی بات نہ سننا، اس کی نصیحت کو نہ ماننا، اس کی فریاد کی طرف ملتفت نہ ہونا، شیوہ دانش مندی ہے؟ پھر تم کو یہ بھی سوچنا چاہیئے تھا، اور چاہیے کہ آیا میں اکیلا اس جنون میں مبتلا ہوں یا اور بندگان خدا بھی میری ہی سی رائے، میرے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ کلیم! میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جتنے بزرگان دین ہو گذرے ہیں(خدا ان کی پاکیزہ اور مطہر روحوں پر رحمت کاملہ نازل کرے) اور جتنے نیک بندے اب موجود ہیں (خدا ان کی حیات میں برکت دے) کوئی اس جنون سے خالی نہیں۔ بلکہ جس کو جتنا یہ جنون زیادہ، اسی قدر وہ برگزیدہ اور خدا رسیدہ زیادہ۔

کیااس بات کا اقرار کرنا جنون ہے، کہ ہم بندے ہیں، اور اس کا بھی ہم پر کچھ حق ہے جس نے ہم کو پیدا کیا، جو ہم کو روزی دیتا ہے، جو ہم کو جلاتا ہے اور مارتا ہے، جو پانی برساتا اور زمین سے ہمارے لئے سرمایہ حیات اگاتا ہے، جس نے ہماری جانوں کی شادابی اور تازگی کے لئے آب شیریں و خوش گوار کے سوتے زمین میں جاری کر رکھے ہیں اور ہماری روحوں کے انبساط کے لئے ہوا کا ذخیرہ کافی مہیا فرما دیا ہے (جس کے حکم سے چاند سورج اپنے معمول سے نکلتے اور غروب ہوتے ہیں تاکہ کام کرنے کے لئے دن ہو اور آرام لینے کے لئے رات، جس نے دنیا کے قوی ہیکل اور زبردست جانوروں کو ہمارا مطیع و منقاد بنا دیا ہے کہ ان سے ہم سواری لیتے، ان پر اپنا بوجھ لادتے اور ان کے گوشت پوست اور دودھ سے مستفید ہوتے ہیں، جس نے انسان کو گویائی و بیان کی قوت عطا کی ہے جس کے ذریعے وہ اپنا مافی الضمیر ابنائے جنس پر ظاہر کر سکتا ہے، جس نے انسان ضعیف البنیان کو عقل کی قوت اور دانش کی طاقت دے کر روئے زمین کا بادشاہ اور مخلوق کا حاکم بنایا ہے، جس نے کائنات میں سے ہر موجود کو اس کی مناسب حالت پر خلق کیا ہے۔ اگر دنیا کے سارے درخت قلموں پر صرف کر دیے جائیں، اور ساتوں سمندر کا پانی سیاہی کی جگہ کام میں لایا جائے، اور پڑھے لکھے لوگ جتنے ابتدائے آفریشن سے اب تک ہو چکے اور اب موجود ہیں اور آئندہ پیدا ہونے والے ہیں، سب کے سب مل کر اس کی تعریف، اس کے احسانات، اس کے انعامات، روز قیامت تک بیٹھے لکھا کریں، تو گھستے گھستے درخت ہو چکیں، سمندر سوکھ جائیں، لکھنے والے تھک کر بیٹھ رہیں، مگر اس کے حق واجب کا ایک عشر عشیر بھی ادا نہ ہو۔

کلیم! فنا ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ دنیا میں کوئی اس کا منکر نہیں اور نہ اس سے انکار ممکن ہے۔ ہیضے کی وبا کو دفع ہوئے برس نہیں گذرے، تمہارے دیکھتے کیسے کیسے لوگ، ہٹے کٹے، توانا، اچھے بھلے، چلتے پھرتے، امیر غریب، عالم جاہل، بھلے اور برے، سبھی طرح کے صدہا ہزارہا، ہدف تیر قضا ہو گئے۔ سدا رہے نام اللہ کا۔ وبا پر کیا منحصر ہے، وعدے سے دم زیادہ نہ کم، مرنا برحق۔ اچھا، مرے پیچھے کیا ہوگا؟ وہی عقیل ہے، وہی فہیم، وہی زیرک، وہی دانش مند، جو اس سوال کا معقول جواب دے، جو اس معمے کو حل کرے، جو یہ پہیلی بوجھے۔

کلیم! انسان کی خاص طرح کی خلقت یعنی اس کا وجود عاقل ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ ضرور اس سے کوئی بڑی خدمت متعلق اور اس کے ذمے زیادہ جواب دہی ہے۔ اگر اس کا صرف یہی کام ہوتا کہ پیٹ بھر لے اور سو رہے، اور گرمی سردی سے اپنے تئیں بچائے، تو اس کے لئے زیادہ عقل کی ضرورت نہ تھی۔ جانور اپنے بڑے بڑے جثوں کی پرداخت کرنے پر بخوبی قادر ہیں، حالاں کہ عقل سے بے بہرہ اور دانش سے بے نصیب ہیں۔ پس اس خدمت اور اس ذمہ داری کو دریافت کرنا شرط انسانیت ہے۔

نصوح کا وعظ سن کر اس کے ہم راہیوں کے دلوں میں دین داری کے ولولے اور خدا پرستی کے جوش تازہ ہو گئے۔ حاضرین میں کلیم کے سوا کوئی متنفس نہ تھا جس پر تھوڑی یا بہت رقت طاری نہ ہوئی ہو۔ لیکن کلیم، بہ قول سعدی شیرازی،

باسیہ دل چہ سود گفتن وعظ
نہ رود میخ آہنی در سنگ

سکوت کی حالت میں سرنگوں تھا۔ اس کا سکوت یا تو اس وجہ سے تھا کہ نصوح کا سلسلہ سخن بلا فصل تھا
 
Top