توانائی؛ پاکستان کے تناظر میں

الف نظامی

لائبریرین
توانائی
پاکستان میں توانائی کی قلت اہم ترین معاشی مسئلہ بن چکا ہے ، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کی دیگر ساختی کمزوریاں دور ہوچکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ توانائی کی قلت کا دائرہ اب اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ کسی عارضی حل سے معیشت کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔
توانائی کی قلت نے سماجی انتشار پیدا کرنے کے علاوہ شعبہ اشیا سازی (چھوٹے اور درمیانے حجم کے کارخانوں) پر براہ راست ضرب لگائی ہے تاہم سب سے بڑھ کر اس نے گردشی قرضے کا مسئلہ پیدا کیا ہے جو بار بار ابھر آتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک اپنی سکت سے کم بجلی پیدا کر رہا ہے ۔ نیز ، بجلی میں چوری نے مالیاتی خسارے کو بھی ریکارڈ بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ یہ صورتِ حال حکومت کو بینکوں سے بھاری قرضے لینے پر مجبور کرتی ہے۔ گردشی قرضے کے اثرات بہت دور رس ہیں اس سے بجلی کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری (نجی اور سرکاری) کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے ، ترقیاتی اخراجات پر دباو پڑا ہے۔ آئی پی پیز سے حکومت کے وعدے ایفا نہ ہو سکے ہیں اور یہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ملکی قرضے میں تیزی سے اضافے کی واحد وجہ بن چکے ہیں۔
ایک دوسرے سے باہم منسلک یہ مسائل حل ہونے میں کئی سال لگیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو ایسی مطلوبہ شرح نمو حاصل کرنے کا دشوار گزار مرحلہ درپیش ہے جس میں نوجوانوں کے لیے ملازمت ، غربت کی سطح کم کرنے ، اور ملک کے سماجی اشاریوں کو بہتر بنانے کی ضمانت موجود ہو۔ اگر منصوبہ بندی کمیشن کی تجویز کردہ 7 فیصد مستحکم شرح نمو حاصل نہ کی جاسکی تو پاکستان عالمی معیشت میں بدستور ناکارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔
تجزیہ
صورتِ حال یہ ہے کہ عام پاکستانی دو ناگوار حقائق کی بنا پر فکر میں ڈوبتا جا رہا ہے: اول یہ کہ گھریلو صارفین اور دیگر کے لیے بجلی ناکافی ہے ، دوم یہ کہ اگر یہ بجلی دستیاب ہوئی بھی تو اس کی لاگت مسلسل بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اس مسئلے کی بنیاد 2000ء کے ابتدائی برسوں میں پالیسی سازی نہ ہونا ہے۔ بجلی کی پیدواری استعداد (خصوصا پن بجلی) میں ناکافی سرمایہ کاری اور بڑھتی ہوئی طلب سے ایسی قلت پیدا ہوئی جو مسلسل بڑھتی گئی ۔ اس دیرینہ مسئلے کا سامنہ کرتے صارفین بجلی کے متبادل ذرائع اختیار کر رہے ہیں تا کہ ناقابل بھروسہ نیشنل گرڈ پہ انہیں انحصار نہ کرنا پڑے۔
گھروں اور دکانوں میں چھوٹے جنریٹروں کا بڑھتا ہوا استعمال، اور بڑے صنعتی کارخانوں میں بجلی کی پابند پیداوار میں سرمایہ کاری عام ہو چکی ہے۔ چھوٹے جنریٹر کارکردگی میں غیر متاثر کن ہیں اور وہ دیگر ایندھن (گیس ، پٹرول ، ڈیزل) پر انحصار کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ متبادل ذرائع بھی ملک پر پڑے والے مجموعی بوجھ کو کم نہیں کرتے۔ چھوٹے جنریڑوں کی ثابت شدہ ناکارکردگی کے ساتھ ساتھ صنعتی کارخانوں کی بجلی کی محدود پیداوار بھی ملکی سطح پر غیر موزونیت کو بڑھاتی ہے۔ ہمارا نقطہ نظر ہے کہ گیس کو بجلی کی پیداوار سے ہٹا کر گھریلو استعمال پر (جس کو ترجیح حاصل ہے) لانے سے ملک کو دستیاب بجلی کم ہوگئی ہے جو دوسری صورت میں بڑھ سکتی تھی۔ گیس کا گھریلو استعمال اور گاڑیوں میں سی این جی کا استعمال بڑھنے سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اسے 2008ء سے جامد مجموعی سپلائی کے تناظر میں شکل 3.2 (الف) میں دکھایا گیا ہے۔ شکل 3.2 (ب) میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ بجلی سازی میں گیس کا استعمال تیزی سے کم ہوا ہے۔ حالانکہ اس عرصے کے دوران ملک کو بجلی کی شدید اور بڑھتی ہوئی قلت کا سامنا رہا۔ ہماری رائے میں بجلی کے شعبے میں دشواریوں کا سبب گیس مختص کرنے کے فیصلوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔
بجلی کی قلت پر حالیہ پالیسی اقدام 10 سال پہلے تشکیل دیے گئے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت کیا گیا ہے۔ اس ایجنڈے میں بجلی کی رسدی زنجیر Supply chain پر توجہ رکھی گئی تھی۔ اس رسدی زنجیر کوجدا جدا کر کے ، ان کی تنظیم نو کر کے بالآخر نجی شعبے کو فروخت کرنا تھا۔ تاہم 2002ء میں جدا جدا کرنے کا عمل شروع ہوا جو بڑی حد تک ناکام رہا۔ منصوبہ بندی کاغذوں تک محدود رہی، نئی کمپنیاں تو وجود میں آگئیں لیکن ان کا عملہ وہی اور ان کا ذہنی سانچہ بھی وہی رہا۔ صرف کراچی الیکڑک سپلائی کمپنی ( کے ای ایس سی) کی نجکاری مکمل ہوئی ، چناچہ عملے میں تخفیف ،یونین کے مسائل سے نمٹنے، بجلی چوری کی روک تھام ، آلات کی تجدید اور صارفین کے لیےسہولت پیدا کرنےکی کئی سالہ کوشش کے بعد کے ای ایس سی بالآخر مالی سال 2012ء میں پہلا منافع حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ بجلی سے متعلق دیگر سرکاری اداروں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا یہی راستہ ہے۔
مزید پڑھیں ؛ سٹیٹ بینک آف پاکستان سالانہ رپورٹ ؛2013 ء؛باب 3
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
"بلوں کی عدم ادائیگی میں پشاور ، فاٹا ریجن، حیدر آباد ، سکھر اور کوئٹہ سب سے آگے ہیں۔ دوسری طرف بل ادا کرنے میں جن شہروں کے صارفین نے زیادہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ان میں لاہور، ملتان ، فیصل آباد، اسلام آباد ، راولپنڈی اور گوجرانوالا شامل ہیں" صفحہ 41
 
Top