میرا جی تن آسانی

منیب الف

محفلین
غسل خانے میں وہ کہتی ہیں ہمیں چینی کی اینٹیں ہی پسند آتی ہیں
چینی کی اینٹوں پہ وہ کہتی ہیں چھینٹا جو پڑے تو پل میں
ایک اک بوند بہت جلد پھسل جاتی ہے۔
کوئی پوچھے کہ بھلا بوندوں کے یوں جلد پھسل جانے میں
کیا فائدہ ہے۔
جب ضرورت ہوئی جی چاہا تو چپکے سے گئے اور نہا کر لوٹے
دھل دھلا کر یوں چلے آئے کہ جس طرح کسی جھیل کے پانی پہ کوئی
مرغابی
ایک دم ڈبکی لگاتی ہے لگاتے ہی ابھر آتی ہے
اور پھر تیرتی جاتی ہے ذرا رکتی نہیں

وہ یہ کہتی ہیں مگر چینی کی اینٹوں کا اگر فرش ہو، دیواریں ہوں
دل یہ کہتا ہے کہ ہر چیز کا نکھرا ہوا رنگ
آنکھوں کو کتنا بھلا لگتا ہے۔
جیسے برسات میں تھم جاتے ہیں بادل جو برس کر تو ہر اک پھلواری
یوں نظر آتی ہے۔
جیسے جانا ہو اسے اپنے کسی چاہنے والے سے کہیں ملنے کو جانا
ہو مگر
ابھی کچھ سوچ میں ہو
کوئی پوچھے کہ بھلا چینی کی اینٹوں کو کسی سوچ سے کیا نسبت ہے
چینی کی اینٹیں تو بے جان ہیں پھلواری میں ہر پھول کلی ہر پتہ
زیست کے نور سے لہراتا ہے
پھول مرجھائے کلی کھلتی ہے۔
اور ہر پتہ نئے پھول کے گن گاتا ہے
چینی کی اینٹیں کوئی گیت نہیں گا سکتیں
چینی کی اینٹیں تو خاموش رہا کرتی ہیں
ایسی خاموشی سے اکتا کے نہانے والا
کچھ اس انداز سے اک تان لگاتا ہے کہ لقمان ہی یاد آتا ہے
جب میں یہ کہتا ہوں وہ پوچھتی ہیں
کوئی پوچھے تو بھلا تان کو لقمان سے کیا نسبت ہے
اور میں کہتا ہوں لقمان کو ۔۔۔ لقمان کو ۔۔۔ یا تان کو ۔۔۔ رہنے دو چلو۔
اور کوئی بات کریں
اور یوں لیٹے ہی رہتے ہیں کسی کے دل میں
دھیان آتا ہی نہیں
غسل خانے میں قدم رکھیں نہا کر سوئیں۔
لیٹے لیٹے یونہی نیند آتی ہے سو جاتے ہیں۔

 
Top