منیب کی آواز میں

  1. م

    غور سے سن

    سازِ ہستی کی صدا غور سے سن کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن دن کے ہنگاموں کو بےکار نہ جان شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام روح کے تار ہلا غور سے سن یاس کی چھاؤں میں سونے والے! جاگ اور شورِ درا غور سے سن ہر نفس...
  2. م

    بلاتے بھی نہیں

    عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سنتے تیری نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے...
  3. م

    دل ہی تو ہے

    ایک دوست کی فرمائش پر غالبؔ کی مشہور غزل ”دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں“ میری آواز میں:
  4. م

    یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں - رازؔ الٰہ آبادی

    یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں یہ درد تم نے دیا ہے تو کوئی بات نہیں یہی بہت ہے کہ تم دیکھتے ہو ساحل سے سفینہ ڈوب رہا ہے تو کوئی بات نہیں یہ فکر ہے کہیں تم بھی نہ ساتھ چھوڑ چلو جہاں نے چھوڑ دیا ہے تو کوئی بات نہیں تمہی نے آئنۂ دل مرا بنایا تھا تمہی نے توڑ دیا ہے تو کوئی بات نہیں کسے مجال...
  5. م

    میرا جی جزو اور کل

    سمجھ لو کہ جو شے نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں، کہیں بھی نہیں ہے، سمجھ لو کہ جو شے دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے، وہ یہیں ہے، یہیں ہے؟ مگر اب کہاں ہے؟ مگر اب کہاں ہے۔ یہ کیا بات ہے‘ ایسے جیسے ابھی وہ یہیں تھی مگر اب کہاں ہے؟ کوئی یاد ہے یا کوئی دھیان ہے یا کوئی خواب ہے؟ نہ وہ یاد...
  6. م

    ناصر کاظمی تو ہے یا تیرا سایا ہے

    تو ہے یا تیرا سایا ہے بھیس جدائی نے بدلا ہے دل کی حویلی پر مدت سے خاموشی کا قفل پڑا ہے چیخ رہے ہیں خالی کمرے شام سے کتنی تیز ہوا ہے دروازے سر پھوڑ رہے ہیں کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے تنہائی کو کیسے چھوڑوں برسوں میں اک یار ملا ہے رات اندھیری ناؤ نہ ساتھی رستے میں دریا پڑتا ہے ہچکی تھمتی ہی...
  7. م

    میرا جی تن آسانی

    غسل خانے میں وہ کہتی ہیں ہمیں چینی کی اینٹیں ہی پسند آتی ہیں چینی کی اینٹوں پہ وہ کہتی ہیں چھینٹا جو پڑے تو پل میں ایک اک بوند بہت جلد پھسل جاتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ بھلا بوندوں کے یوں جلد پھسل جانے میں کیا فائدہ ہے۔ جب ضرورت ہوئی جی چاہا تو چپکے سے گئے اور نہا کر لوٹے دھل دھلا کر یوں چلے آئے...
  8. م

    بیمار کا حال اچھا ہے - غالب

  9. م

    غالب نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی - مرزا غالبؔ

    نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے شوق گلچینِ گلستانِ تسلی نہ سہی مے پرستاں! خُمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلیٰ نہ سہی ایک ہنگامے...
  10. م

    غم بہت ہے یاں - میر تقی میرؔ

  11. م

    اقبال پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر

    پردہ چہرے سے اٹھا، انجمن آرائی کر چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر تو جو بجلی ہے تو یہ چشمکِ پنہاں کب تک؟ بےحجابانہ مرے دل سے شناسائی کر نفَسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم؟ اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر ہو تری خاک کے...
Top