تنہائی کے جو ہیں کرب ۔۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
مستَفعِلُن،مَفعولات،مستَفعِلُن،مَفعولات

تنہائی کے جو ہیں کرب ان سے بچانے والا ہوں
میں ایک پودے کے ساتھ دوجھا لگانے والا ہوں

خانہ خرابیاں ایسی کہ چھالے زدہ دُکھتا پیر
زخمی ہوا جس پتھر سے وہ سر پہ کھانے والا ہوں

مدّعا مرا اس محفل میں جب تک نہیں سن لیتے ہو
اٹھنے ہی والا ہوں یاں سے میں نا ہی جانے والا ہوں

لاشیں گِرا کر اپنوں کی تم سر خرو ہو مقتل میں
یعنی میں مردہ خانوں میں بس مُنہ دکھانے والا ہوں

بدلہ نہیں کچھ دنیا میں ایمان کا ہے بس فرق
بے جا عذر نا کر پیش میں بھی زمانے والا ہوں

تم در بدر کے منگتے ہیں تم شرک کو کیا سمجھو گے
کھاتا ہوں میں اک اﷲکا اس کا ہی گانے والا ہوں

الف عین
@محمداسامہ سرسری
@شاید شاہنواز
محمد یعقوب آسی
اعجاز نقوی
 
مستَفعِلُن،مَفعولات،مستَفعِلُن،مَفعولات
جناب@شیرازخان صاحب۔ غیرمانوس بحروں سے اپنی تو جان جاتی ہے بھائی۔ آپ جانئے یا پھر مزمل شیخ بسمل جانیں۔

ایک دو اور چیزیں توجہ طلب ہیں:
دوسرا کے معنی میں ’’دوجا‘‘ ہوتا ہے ’’دوجھا‘‘ نہیں۔
’’چھالے زدہ‘‘ ترکیب درست نہیں ہے۔
نافیہ ’’نہ‘‘ کے درست ہجے ’’ہ‘‘ کے ساتھ ہیں: ’’نہ‘‘: میں نہ اٹھوں گا نہ اٹھنے دوں گا۔ یوں تو نہ کرو دوست۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔
الف کے ساتھ ’’نا‘‘ نافیہ نہیں تاکیدی ہوتا ہے۔ جیسے: اٹھو نا، یار (یعنی: اٹھنے پر زور دیا جا رہا ہے)۔ اب دیکھو نا، تمہارا مطالبہ بہت عجیب ہے (دیکھنا، بمعنی غور کرنا، سوچنا، سمجھنا: یعنی اس عمل کی تاکید کی جا رہی ہے)۔ اب آئے نا، سیدھی راہ پر (میرا خیال ہے وضاحت کی مزید ضرورت نہیں)۔
مردہ خانوں میں منہ دکھانے والا؟ معانی در بطنِ شاعر۔

آخری دونوں شعر، آپ نے بہت عمدہ تخیل بلکہ نظریہ بلکہ ایمانیات کی بات کی ہے مگر انداز دل پذیر نہیں ہے۔ پند و نصائح کو شاعری میں آنا چاہئے، بالکل آنا چاہئے، مگر وہ ’’خشک ناصحانہ پن‘‘ (یہ ترکیب میں نے پہلی بار پروفیسر انور مسعود سے سنی) نہیں قبول ہوتا۔ اس کو مقصدیت کہہ لیجئے۔ مقصدیت اور شعریت ان میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے۔ شعریت نہ رہی تو نصیحت بھی اپنا اثر کھو بیٹھی۔ اقبال کو دیکھ لیجئے۔ وہ کہیں زیاد دقیق باتیں کر گئے ہیں، اور نظریہ اور ایمانیات کے حوالے سے کیا کچھ کہہ گئے ہیں۔ مگر شعر کی چاشنی متأثر نہیں ہونے دی۔ ان کی شاعری میں مقصدیت اور فن یوں یک جان ہیں کہ ہم کسی ایک کو بھی منہا نہیں کر سکتے۔

جناب الف عین
جناب محمد وارث
جناب محمد اسامہ سَرسَری (آپ سے ایک اور بھی درخواست کرنی ہے۔ یہ سَرسَری کی دونوں زبریں لکھنا روانی کو متاثر کرتا ہے، اس کا کوئی مناسب حل ہو سکے تو نوازش!)
جناب سید شہزاد ناصر
 
آخری تدوین:
نافیہ ’’نہ‘‘ کے درست ہجے ’’ہ‘‘ کے ساتھ ہیں: ’’نہ‘‘: میں نہ اٹھوں گا نہ اٹھنے دوں گا۔ یوں تو نہ کرو دوست۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔

ایک وضاحت ضروری محسوس کر رہا ہوں۔ ’’نا‘‘ الٹ یا نفی کے معانی میں جو ترکیب کی صورت میں ہوتا ہے۔ ناکارہ، نابکار، نارسیدہ، ناسپاس، قدر نا شناس، ناسپاس، نارسائی، ناکامی وغیرہ۔ اس کو’’نہ‘‘ سے خلط ملط نہ کیا جائے۔


جناب شیرازخان
جناب الف عین
جناب محمد وارث
جناب محمد اسامہ سَرسَری
جناب سید شہزاد ناصر
جناب محمد خلیل الرحمٰن
 
آخری تدوین:
جناب محمد اسامہ سَرسَری (آپ سے ایک اور بھی درخواست کرنی ہے۔ یہ سَرسَری کی دونوں زبریں لکھنا روانی کو متاثر کرتا ہے، اس کا کوئی مناسب حل ہو سکے تو نوازش!)
بسر و چشم۔۔۔
محترم جناب شمشاد صاحب اگر سہولت سے ہو سکتے تو میرے نام کے ”سَرسَری“ میں سے دونوں زبر ہٹادیجیے۔
 

شیرازخان

محفلین
ایک وضاحت ضروری محسوس کر رہا ہوں۔ ’’نا‘‘ الٹ یا نفی کے معانی میں جو ترکیب کی صورت میں ہوتا ہے۔ ناکارہ، نابکار، نارسیدہ، ناسپاس، قدر نا شناس، ناسپاس، نارسائی، ناکامی وغیرہ۔ اس کو’’نہ‘‘ سے خلط ملط نہ کیا جائے۔


جناب شیرازخان
جناب الف عین
جناب محمد وارث
جناب محمد اسامہ سَرسَری
جناب سید شہزاد ناصرجنا محمد خلیل
جناب@شیرازخان صاحب۔ غیرمانوس بحروں سے اپنی تو جان جاتی ہے بھائی۔ آپ جانئے یا پھر مزمل شیخ بسمل جانیں۔

ایک دو اور چیزیں توجہ طلب ہیں:
دوسرا کے معنی میں ’’دوجا‘‘ ہوتا ہے ’’دوجھا‘‘ نہیں۔
’’چھالے زدہ‘‘ ترکیب درست نہیں ہے۔
نافیہ ’’نہ‘‘ کے درست ہجے ’’ہ‘‘ کے ساتھ ہیں: ’’نہ‘‘: میں نہ اٹھوں گا نہ اٹھنے دوں گا۔ یوں تو نہ کرو دوست۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔
الف کے ساتھ ’’نا‘‘ نافیہ نہیں تاکیدی ہوتا ہے۔ جیسے: اٹھو نا، یار (یعنی: اٹھنے پر زور دیا جا رہا ہے)۔ اب دیکھو نا، تمہارا مطالبہ بہت عجیب ہے (دیکھنا، بمعنی غور کرنا، سوچنا، سمجھنا: یعنی اس عمل کی تاکید کی جا رہی ہے)۔ اب آئے نا، سیدھی راہ پر (میرا خیال ہے وضاحت کی مزید ضرورت نہیں)۔
مردہ خانوں میں منہ دکھانے والا؟ معانی در بطنِ شاعر۔

آخری دونوں شعر، آپ نے بہت عمدہ تخیل بلکہ نظریہ بلکہ ایمانیات کی بات کی ہے مگر انداز دل پذیر نہیں ہے۔ پند و نصائح کو شاعری میں آنا چاہئے، بالکل آنا چاہئے، مگر وہ ’’خشک ناصحانہ پن‘‘ (یہ ترکیب میں نے پہلی بار پروفیسر انور مسعود سے سنی) نہیں قبول ہوتا۔ اس کو مقصدیت کہہ لیجئے۔ مقصدیت اور شعریت ان میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے۔ شعریت نہ رہی تو نصیحت بھی اپنا اثر کھو بیٹھی۔ اقبال کو دیکھ لیجئے۔ وہ کہیں زیاد دقیق باتیں کر گئے ہیں، اور نظریہ اور ایمانیات کے حوالے سے کیا کچھ کہہ گئے ہیں۔ مگر شعر کی چاشنی متأثر نہیں ہونے دی۔ ان کی شاعری میں مقصدیت اور فن یوں یک جان ہیں کہ ہم کسی ایک کو بھی منہا نہیں کر سکتے۔

جناب الف عین
جناب محمد وارث
جناب محمد اسامہ سَرسَری (آپ سے ایک اور بھی درخواست کرنی ہے۔ یہ سَرسَری کی دونوں زبریں لکھنا روانی کو متاثر کرتا ہے، اس کا کوئی مناسب حل ہو سکے تو نوازش!)
جناب سید شہزاد ناصر
رہنمائی فرمانے کا بہت شکریہ جناب۔۔۔چلیں گے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔۔۔۔آپ کی صلاح کے مطابق ان اشعار کی جگہ نئے اشعار ڈالے ہیں برائے مہربانی مزید رہنمائی فرمائیے گا ۔۔۔؟؟؟

تنہائی کے جو ہیں کرب ان سے بچانے والا ہوں
میں ایک پودے کے ساتھ دوجا لگانے والا ہوں

خانہ خرابیاں ایسی کہ یہ آبلوں والاپیر
زخمی ہوا جس پتھر سے وہ سر پہ کھانے والا ہوں

اپنی بقاء کی خاطر یہ آ دیکھ کیسے لڑتے ہیں
کوّے کے اک بچے کومیں تھوڑا ستانے والا ہوں

آنا نہیں ہے اُس کو بھی پھر بھی ندامت کا ڈر ہے
میں جھوٹ کہہ آیا ہوں کہ راہیں سجانے والا ہوں

ہرگز نہیں جانا ٹھیک پر دیکھ کر اب ساحل کو
میں پھر ہرساں موجوں میں اک بار جانے والا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
مبتدیوں کو پہلے مانوس بحور میں ملکہ حاصل کرنا چاہئے۔ یہ کیا کہ تقطیع کی اٹھا پٹک میں ہی لگے رہیں۔ ایسی بحروں کے اشعار تو درست بھی کرنے میں مشکل ہوتی ہے، دوبارہ تقطیع کرنی پڑتی ہے اور تب بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی لفظ غلط ہجے میں باندھا گیا ہے یا نہیں۔
 
Top