تنقید کے مثبت ومنفی پہلواورحوصلہ

ایک قابل ادیب بھی تنقید کو باآسانی ھضم نہیں کر پاتا اس لئے کہ بعض اوقات اس نے جس زاویے سے تحریر لکھی ھوتی ھے تنقید نگار اس زاویے سے دیکھ نہیں پاتا اور کونفلکٹ آف اوپینئین کھڑا ھو سکتا ھے

یہی حال تعریف کے معاملے میں بھی پیش آتا ھے، بعض لوگ تحریر نگار کے اپنے مدعا سے بڑھ کر اس تحریر کی افادیت کے پہلو سامنے لا دیتے ھیں

اسی فرق کو مدنظر رکھتے ھوئے نئے تحریر نگار پر عمومی تنقید سے اجتناب کرنا چاھئے کیونکہ تنقید سے نئے لوگ مرجھا جاتے ھیں، بہت کم ایسے ھیں جو اس صورتحال میں حوصلہ قائم رکھتے ھیں، اس لئے میں خود عمومی تنقید سے گریز کرتا ھوں بلکہ اسے جرم سمجھتا ھوں لیکن جہاں کوئی ادب کے بارے میں غلط تصور رکھتا ھو، اصول ادب کے خلاف کسی چیز کا فروغ چاھتا ھو، وھاں معاملے کی تشریح کو مقدم جانتا ھوں

ادب میں جگہ بنانے کے لئے تخلیقی مماثلت سے زیادہ تخلیقی اختلاف کی اھمیت ھے، دوسروں سے مختلف خیال، علیحدہ انداز فکر، جداگانہ اسلوب اور دلچسپ موضوع بہت جلد آپ کی حیثیت کو نمایاں کرتا ھے

اگر کوئی عام اسلوب کی بجائے مرصع نویسی کا جداگانہ انداز اپناتا ھے جو مروجہ ڈگر سے ھٹ کر ھو اور اس کےلئے منفرد شناخت کا باعث ھو تو کسی کو اس کی حوصلہ شکنی کا کوئی حق حاصل نہیں خواہ آپ کو پسند ھو یا ناپسند ھو

یہ جو ادیب ھوتے ھیں یہ گلدستے کی طرح ھوتے ھیں، ھر کسی کا رنگ الگ، شکل الگ، خوشبو الگ، ایک پھول سے گلدستہ نہیں بنتا اور ایک ھی قسم کے پھولوں سے بھی گلدستہ نہیں بنتا ورنہ قدرت ایک ھی پھول پیدا کرتی، قدرت نے اپنی تخلیقات میں تنوع رکھا ھے، ادب میں بھی مختلف انواع کا قائم رھنا ادب کے حسن اور اس کی زندگی کا ضامن ھے

رنگ گل میں تفرق کا تقاضا ھو سکتا ھے لیکن پانی میں تفرق کا کیا تقاضا، یہاں تو پانی ایک رنگ کا نہیں، تالاب کے پانی میں پیندا نظر آتا ھے، ندی نالے کا پانی گدلا، جھیل کا پانی نیلا، دریا کا پانی گہرا اور سمندر کہیں نیلا، کہیں سبزی مائل، کہیں سیاھی مائل، اب اور کیا کیا گنواؤں یہی صورتحال ھر چیز میں موجود ھے

ادب بھی تنوع مانگتا ھے اور یہ صفت خیال کی محتاج ھے، ھر کسی کو ایک جیسا خیال نہیں آتا اس لئے ادب کا تخلیق کار قدرتی طور پر کسی دوسرے کے ذوق کا پابند نہیں ھو سکتا، وہ اپنے وجدان سے لکھتا ھے اس کے نہاں خانے میں کسی دوسرے کی سوچ کا کوئی دخل نہیں ھوتا اگر ھوتا ھے تو صرف اس قدر کہ جس مقدار میں وہ خارج کی چیزیں اپنے وجدان میں داخل کرتا ھے

اگر ایک مرصع نویس کوئی نادر خیال پیش کرتا ھے تو اس پر پابندی کیوں، جس کو سمجھ نہیں آتی وہ اپنا معیار بلند کرے یا اس کے ترجمے کا انتظار کرے، جب کسی کو انگریزی نہیں آتی تھی تب محمد حسین آزاد نے انگریزی مضامین کا ترجمہ نیرنگ خیال میں پیش کیا جو اپنی جگہ ایک خوبصورت ادب پارہ بن گیا، یہ کام متوازی تخلیق کہلاتا ھے

انگریزی اور اردو ادب کے مابین فرق کی طرح ایک آسان نویس اور ایک مرصع نویس مدمقابل نہیں بلکہ بین بین ھوتے ھیں، یہ سب ساتھ ساتھ چلنے والی کہانی ھے، ایک بندہ اچھی تخلیقی سطح کا مرصع نویس ھے تو کوئی دوسرا اس کی تخلیقات کو عام فہم لبادہ اوڑھا دے، یہ ایک متوازی تخلیق کہلائے گی اور عین ادبی خدمت ھے

لیکن یہ خواھش مناسب نہیں کہ کوئی اپنا ڈھنگ بدلے، ادب کو مرصع نویس کے لکھنے سے کوئی نقصان نہیں بلکہ اس کے نہ لکھنے سے ادب کا نقصان ھے

رھی بات نہ سمجھنے والوں کی تو یہ کوئی جواز نہیں ھے، جتنے لوگوں کو اس دور میں غالب کی سمجھ نہیں اتنے لوگوں کو اس دور میں بھی غالب کی کوئی سمجھ نہیں آئی تھی، مولانا آزاد کے دور میں بھی دوسرا ثقیل نویس آزاد موجود نہیں تھا، میر کے مقابل کوئی ریختہ نویس نہیں، انیس کے مقابل کوئی المیہ نگار نہیں، میر درد کے مقابل میر اثر نہیں، غلام عباس کے مقابل قاسمی صاحب نہیں، منشا کے مقابل اجمل نیازی نہیں، سب لوگ اپنا اپنا انداز فکر اور مختلف اسلوب نگارش رکھتے ھیں، ان سب کا کام بھی مختلف ھے اگر اس اختلاف پر پابندی لگ جائے تو اس ادبی گلدستے کا سارا حسن جاتا رھے گا۔
تحریر: لالہ صحرائی
 
Top