تندی بادِ مخالف میں اڑان

یونس عارف

محفلین
اسلام ٹائمز
مظفر اعجاز
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسلامی جمہوریہ ایران پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ایران وہ اسلامی ملک ہے جس پر گزشتہ چند برسوں میں چوتھی مرتبہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1929 کے ذریعے ممبر ممالک کو ایران سے آنے اور جانے والے بحری جہازوں کی تلاشی اور ممنوعہ سامان قبضے میں لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔اس قرارداد کے حق میں 15 میں سے 12 اور مخالفت میں 2 ووٹ آئے۔وہ دو ممالک ترکی اور برازیل ہیں۔جب کہ لبنان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اِس مرتبہ جو پابندیاں لگی ہیں ان کے ذریعے ایران پر سیاسی دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دباﺅ ڈال کر ایران سے کچھ شرائط منوانے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن ایرانی صدر محموداحمدی نژاد نے امریکا کے دباﺅ پر پاس ہونے والی اس قرارداد کے بارے میں کہا ہے کہ یہ پابندیاں ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیں گے،ان کا وہی مقام ہے۔

امریکیوں کا کہنا ہے کہ اِس مرتبہ مزید ممالک نے ایران پر پابندیوں کی حمایت کی ہے۔لیکن یہ بات واضح نظر آ رہی ہے کہ اگرچہ چین اور روس نے اس قرارداد کو منظور کرنے کی حمایت کی ہے،لیکن ان دونوں ممالک نے اس قرارداد کو نرم کروایا ہے،بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ اس قرارداد کو غیر موثر کر دیا گیا ہے۔جب کہ ترکی اور برازیل نے کھل کر اس کی مخالفت کی ہے۔لبنان نے عالمی دباﺅ کے پیش نظر مخالفت نہیں کی،لیکن داخلی دباﺅ کے پیش نظر حمایت بھی نہیں کی،اس لیے بھاگ کھڑا ہوا۔کہا گیا ہے کہ رکن ممالک ایران آنے اور جانے والے بحری جہازوں کی تلاشی لیں گے اور ممنوعہ سامان ضبط کریں گے۔ہمارے خیال میں دنیا بھر میں کوئی بھی ملک بحری جہازوں کے ذریعے ممنوعہ سامان کو نہ تو اپنے ملک میں آنے دیتا ہے اور نہ وہاں سے جانے دیتا ہے۔لہٰذا یہ پابندی تو ویسے بھی محض ایک شق کی حیثیت رکھتی ہے،البتہ ممنوعہ سامان کی جو فہرست فراہم کی گئی ہے اس میں جوہری مواد یا اس سے متعلق چیزیں شامل ہیں۔تو کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ جوہری مواد یا اس سے متعلق اشیاء ظاہر کر کے لے جائی جائیں۔لہٰذا جس کو یہ اشیاء ایران پہنچانی ہیں یا وہاں سے کہیں لے جانی ہیں وہ چور راستہ ہی اختیار کرے گا۔

ایران کے بینکوں پر نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے،کہ کسی بینک کا جوہری کاروبار سے تعلق ثابت ہو جائے تو اس کے لائسنس کو منسوخ کر دیا جائے۔ہمارے خیال میں جوہری کاروبار بھی جوہری کاروبار کے نام پر نہیں ہوتا،اس کو کوئی نہ کوئی آڑ ملتی ہے۔لہٰذا یہ شق بھی بے معنی ہے۔جہاں تک ایران کو بھاری اسلحہ کی فراہمی پر پابندی کا تعلق ہے تو یہ بات درست ہے کہ پابندی پر عمل ہو گا۔
لیکن حقائق کیا ہیں؟حقائق تو ہیں کہ جب ایران کو عراق سے بھِڑوایا گیا تھا اُس وقت بھی ایران پر اسلحہ حاصل کرنے پر پابندی تھی،لیکن اسلحہ کے تاجر تو سلامتی کونسل یا امریکا کے فیصلوں کے پابند نہیں ہوتے۔کھلی مارکیٹ سے ایران نے اسلحہ حاصل کیا اور جنگ لڑتا رہا۔اب کیا ہو گا؟

اب اس سے بھی زیادہ مختلف صورت حال ہے۔اب تو بہت سا روایتی اور غیر روایتی اسلحہ ایران خود بنا رہا ہے،یہاں تک کہ شہاب میزائل اور ذوالفقار ٹینک بھی۔جب کہ ایک وقت تھا معاشی پابندیوں کی آڑ میں ایران کو مسافر بردار طیاروں کے پرزے بھی نہیں دیئے جا رہے تھے۔اس کا حل ایران نے یہ نکالا کہ اب مسافر طیارے بھی ایران میں تیار ہو رہے ہیں۔اور مزید یہ کہ جن معاشی پابندیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور جن کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایران سے کاروبار بند کریں ان میں امریکی،چینی،جاپانی اور دیگر مغربی ممالک کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو تو فرانسیسی کمپنی ٹوٹل کے صدر نے مخاطب کر کے کہا تھا: ”مسٹر کلنٹن ٹوٹل فرانسیسی کمپنی ہے،امریکی قانون اور پابندی کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔“اِس مرتبہ پاسدارانِ انقلاب کی کمپنیوں سمیت کئی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے اور ایرانی ایٹمی پروگرام کے سربراہ کے سفر پر پابندیاں وغیرہ عائد کر دی گئی ہیں۔ان کے اثاثے بھی منجمد کیے جائیں گے۔دیگر کمپنیوں کو بھی اقوام متحدہ کی اس فہرست میں شامل کیا جائے گا،جن کو بلیک لسٹ قرار دیا گیا ہے۔

ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو استعمال کرتے ہوئے جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کے بارے میں ایرانی صدر نے کہا ہے کہ یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں،انہیں ہم کچرے کے ڈبے میں ڈالیں گے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہی ذہنیت کارفرما ہے۔ایک ہی طرح کے اہلکار ہر ادارے میں بیٹھے ہیں۔چنانچہ ایران پر پابندی کی جو قرارداد منظور کرائی گئی ہے اس کو ردی کی کسی ٹوکری سے ہی نکالا گیا ہے۔یہ پابندیاں جو لگائی گئی ہیں ان میں سے کوئی ایسی نہیں ہے،جس پر کوئی ملک عمل نہ کرتا رہتا ہو یا اس قسم کا کوئی کاروبار نہیں ہوتا،جس پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔جہاں تک کمپنیوں کا تعلق ہے تو ایرانی کمپنیوں کے بیرون ملک کتنے اثاثے ہوں گے اور ان کا کتنا کاروبار باہر سے ہو گا،اور بیرونی کمپنیوں میں سے ایک پر بھی پابندی لگا کر دیکھ لیں۔حوالے کے لیے فرانسیسی کمپنی ٹوٹل کے صدر کا سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو جواب کافی ہے۔

دوسری طرف اگر دنیا کے حقائق کو دیکھنا ہے تو عربوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت،حزب اللہ، حماس،الفتح اور دیگر تنظیموں کی مسلح مزاحمت کے لیے اسرائیل کے اسلحہ تاجروں سے ہی اسلحہ خریدا جاتا تھا۔جنگ عظیم ہو یا خلیج کی جنگ،یا ایران عراق جنگ.... سب میں حریف ایک دوسرے کے ملکوں سے ہی اسلحہ حاصل کرتے رہے۔دس سالہ افغان جنگ میں مجاہدین کو اسلحہ روسی فوجیوں سے ملتا تھا۔امریکی اسلحہ تو پاکستانی فوج کے ہاتھ لگا یا اس کے چہیتے گروپوں کو دیا گیا۔اور یہ نکتہ شاید اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی نہیں سمجھ سکے گی کہ جنگ اسلحہ سے نہیں جیتی جاتی۔پابندیاں لگا کر ایران کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔اب تو ترکی بھی آگے بڑھ رہا ہے۔کیا ترکی پر بھی پابندیاں لگائی جائیں گی؟ ہمیں تو لگتا ہے کہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے ردعمل کو کم کرنے کے لیے اس موقع پر ایران کو الجھایا گیا ہے،تاکہ عالمی سیاست کا رخ بدل جائے۔یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اسرائیل کے جرائم ریکارڈ پر ہیں،اس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز ہو رہی ہیں،لیکن اس پر پابندی نہیں ہے،جبکہ ایران پر لگا دی گئی ہے۔بہرحال ایرانی قوم کو پابندیاں مبارک ”....یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے“۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب۔

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
 
Top