تم سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔القرآن

تم سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔القرآن

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(یٰاَ یُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلُ فَاسْتَمِعُوْ ا لَہ ط اِ نَّ الَّذِ یْنَ تَدْعُوْ نَ مِنْ دُوْ نِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْ ا ذُ بَا بًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْ ا لَہ ط وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّ بَا بُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُ وْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّا لِبُ وَ الْمَطْلُوْ بُ ہ مَا قَدَ رُ و ا ا للّٰہَ حَقَّ قَدْ رِ ہ ط اِ نَّ اللّٰہَ لَقَوِ یُّ عَزِیْزُ)

''لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے.'' ۔ (الحج: 73-74)

سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ابھی تک یہ ناممکن ہے کہ ہم مکھی یا اس جیسی کوئی چیز بنا سکیں۔قرآن کا یہ چیلنج عام ہے تمام بنی نوع انسان اس میں شریک ہیں اوریہ چیلنج بڑا واضح ہے کہ دنیا کے تمام انسان اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ایک مکھی نہیں بنا سکتے ،بلکہ مکھی اگر ان سے کوئی خوراک چھین لے جائے تو وہ ا س سے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھی کو بنانا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح گدھا یا گھوڑا بنانا ،اس لیے کہ مکھی کی زندگی میں کئی حیرت انگیز پہلو موجود ہیں ۔

مکھی کی آنکھیں چھ ضلعی عدسوں سے بنتی ہیں ۔ایک عام عدسے کی نسبت ان سے زیادہ وسیع وعریض علاقے کو دیکھا جاسکتا ہے ۔کچھ مکھیوں میں ان عدسوں کی تعداد بعض اوقات 5000 بھی ہوتی ہے ۔ اس کی آنکھ کی گولائی میں بنی ہوئی ساخت اسے اپنے پیچھے بھی دیکھ لینے میں مدد دیتی ہے ۔یہ آنکھ یوں اسے اپنے دشمنوں پر بڑی فوقیت دے دیتی ہے ۔

امریکہ میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مکھیوں کو مارنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔ تجربات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ مکھیاں یہ بات بھی جان جاتی ہیں کہ حملے کی صورت میں انہیں کس قدر جسمانی حرکت کی ضرورت ہوگی۔

کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے اپنے تجربات کے دوران مکھیوں کی متعدد فلمیں بنائیں جس سے یہ پتہ چلا کہ مکھیاں جس مقام پر بھی بیٹھتی ہیں وہاں بیٹھنے سے پہلے ہی کسی حملے کی صورت میں فرار کا راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔ماضی میں مکھیوں کی بچنے کی صلاحیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکھیاں اپنے تیز دماغ اور قبل از وقت منصوبہ بندی کی صلاحیت کی وجہ سے بچ جاتی ہیں۔اس بات کا پتہ انتہائی تیز رفتار اوربہترین ریزولیوشن والی ویڈیوز سے چلا جس نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح مکھیاں آنے والے خطرے سے خبردار ہو کر فرار کی راہ متعین کر لیتی ہیں۔

سانئسدانوں کی تحقیق کے مطابق خطرے کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے مکھیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ جب چھلانگ لگاتی ہیں تو ان کو یہ فیصلہ کرنے میں 200ملی سیکنڈکا وقت درکار ہوتاہے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مکھیاں چاہے خوراک حاصل کر رہی ہوں یا پھر ویسے ہی چل رہی ہوں ان کا ردعمل ہر حالت میں قریباً ایک جتنا تیز ہوتا ہے۔مکھیوں میں افزائش نسل کا عمل بھی انتہائی تیز رفتار ہو تا ہے ۔ اب تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق اگر مکھیوں کا ایک جوڑا عمل تولید کا عمل اپریل میں شروع کرے اور انڈوں سے نکلنے والے تمام لاروے زند ہ رہیں اور حالات بھی موزوں رہیں تونسل درنسل چلتے ہوئے یہ سلسلہ اس قدر پھیل جائے گاکہ اگست تک 191,010,000,000,000,000,000 مکھیاں جنم لے چکی ہوں گیں۔

قرآ ن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ ،ان الفا ظ سے کرتا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو یہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھیاں اپنے ساتھ کئی خطرناک بیماریوں مثلاً میعادی بخار ، پیچس اور آشوب چشم وغیرہ کے جراثیم لیے اڑتی رہتی ہیں۔یہ کمزور مخلو ق انسان کوکئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔جبکہ انسان بھی اتنا کمزور ہے کہ مکھی جیسی کمزور اور ناتواں مخلوق اگر ان سے کوئی چیز مثلاً کھانے کا کچھ حصہ لے کر اُڑ جائے تو وہ اس سے واپس لینے میں عاجز ہے ۔

جدید سائنسی تحقیق سے قبل ہم قرآن کے اس دعوٰی کو اس طرح سے سمجھتے تھے کہ آخر مکھی جیسی ننھی سی مخلوق کھانے کی جس قد رمقدار لے کر جاسکتی ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ وہ خوراک کا کتنا حصہ لے کر گئی ہے اور اسے کہاں رکھا ہے ،تو اس سے واپس لینے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا ۔مگر اللہ جو کائنا ت کا رب ہے ،اسے اس ٹیکنالوجی کا بھی پتہ ہے جسے انسان نے قیامت تک حاصل کرتے رہنا ہے ۔اس لیے جوں جو ں ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے ،ویسے ہی ہمارے لیے قرآن مجید کی ان مخصوص آیات کے لطیف پہلوؤں کو سمجھنا نہایت آسان اور واضح ہو تا جارہا ہے۔

چناچہ جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق جب مکھی کہیں سے خوراک کا کچھ حصہ حاصل کرتی ہے تو اپنے پیٹ میں سے کچھ مادوں کو نکال کر اس میں ملا دیتی ہے جس سے خوراک کی نوعیت بدل جاتی ہے ۔پھر کسی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس خوراک کی تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل شکل میں واپس لائے۔مکھی کی اہم خصوصیات میں سے ایک اس کا کھانا ہضم کرنے کا طریقہ ہے ۔یہ اس طرح کھانا ہضم نہیں کرتی جس طرح کے زمین پر دوسرے جاندار کرتے ہیں،مکھیا ں خوراک منہ میں ہضم کرنے کی بجائے اپنے جسم سے باہر کرتی ہیں۔مکھیاں اپنی سونڈ کے ذریعے ایک خاص قسم کا محلول خوراک پر ڈالتی ہیں جس سے وہ مناسب حد تک گاڑھاہو جاتا ہے اور مکھیوں کے لیے اسے چوسنا آسان ہو جاتاہے۔چناچہ اس کے بعد مکھیا ں اپنے گلے میں لگے چوسنے والے پمپ سے خوراک کو چوس لیتی ہیں ۔

آئیے اب اس بات کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں کہ مکھی خوراک کسی طرح کھاتی یا چوستی ہے ۔جب مکھی کو کچھ کھانا ہوتا ہے تو وہ اپنے منہ کولمبا کرتی ہے یعنی اس کے منہ سے ایک ٹیوب نما نالی نکلتی ہے جو خوراک تک پہنچتی ہے ،اس ٹیوب کاآخری حصہ ویکم کلینر کی طرح چوڑ اہوتا ہے ۔جب مکھی اپنی ٹیوب کو خوراک تک پہنچا دیتی ہے تو پھر اس سے کچھ خامرے یا کیمیائی محلول نکلتاہے جو کھا نے پر پھیل جاتاہے اور کھانے کے اجزاء کو توڑ کر محلول کی شکل میں بدل دیتا ہے۔ اس پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد مکھی کے لیے سہل ہوجاتاہے کہ وہ اس Ingested Food کو چوس سکے ۔ چناچہ اس تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ مکھی کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطاکی ہوئی ہے کہ وہ کھانے سے پہلے خوراک کے اجزاء کو مخصوص کیمیائی مادوں کے ذریعے توڑ سکے اوریہ فعل وہ جسم سے باہر کرتی ہے ۔۔

آئیے اب ہم دوبارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف لوٹتے ہیں اور اس کے الفاظ پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ۔ا س کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان کے پاس کوئی ایسے اوزار نہیں ہیں کہ وہ اس کے منہ سے یہ خوراک نکا ل سکے بلکہ اس سائنسی تحقیق کے بعد اس کی تفسیر یوں ہو سکتی ہے کہ مکھی چونکہ خوراک کو کھانے سے پہلے،کیمیائی مادوں کے ذریعے اس کی طبعی حالت کوبدل چکی ہوتی ہے لہذا اگر انسان کسی طرح وہ خوراک واپس لے بھی لے تو وہ خوراک کی اصل شکل نہیں ہوگی اورسائنسدانوں کے مطابق خوراک کی اس تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل حالت میں واپس لانا بھی ناممکن ہے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ مکھی جو لے جاتی ہے اس کو اس کی اصل حالت میں واپس لے آنا ناممکن ہے اور قرآن کا یہ دعوٰی ہے کہ انسان اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔

چناچہ قرآن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کو 2چیلنج کرتا ہے ۔اول یہ کہ انسان کبھی بھی مکھی نہیں بنا سکتا ،دوم یہ کہ اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین لے جائے تو وہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔جدید سائنسی تحقیقی نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ قرآن مجید کے یہ دونوں دعوے بالکل برحق ہیں اور یہ قرآن کی سچائی کی ایک روشن دلیل ہے۔اس آیت کریمہ سے ایک اور نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح مکھی ایک کمزور مخلوق ہے ،انسان بھی اسی طر ح ناتواں و بے کس ہے ۔



حواشی
اللہ کی نشانیاں عقل والوں کے لیے۔ از ہارون یحییٰ
The Fly in Bible and Quran
 

طالوت

محفلین
میں صدقے ہارون یحیٰی کے ، کہاں کی چیز کہاں فٹ کر ماری ۔ ہمارے ایسے “عالموں“ کی بہتات نے یہ اتنے سارے چن چڑھا رکھے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
مکھی کا تمثیلی ذکر تو قرآن پاک میں موجود ہے۔ لیکن آج انسان کلوننگ کے ذریعہ دوسرے انسانوں کی کاپیاں تک پیدا کرنے پر قادر ہے۔ یا مختلف جانوروں کی اقسام کو ملا کر نئی نسل بنا سکتا ہے۔
حال ہی میں ریسرچ پڑھ رہا تھا کہ اب سائنسدان جسم کے کسی بھی حصے سے سیلز اٹھاکر انکی لیبارٹری میں کاپیاں بنا سکتے ہیں۔ اور یہ سب بغیر کسی انسانی حمل کے۔ اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طریقہ کو مختلف بیماریوں یا حادثات میں ضائع ہو جانے والے جسمانی عضو کو واپس بنا کر لگایا جا سکتا ہے۔ اور ہمارا جسم اسکو بخوبی قبول کرے گا کیونکہ اسکی تخلیق باقائدہ ہمارے جسم ہی سے ہوتی ہے :)
http://www.lifesitenews.com/ldn/2010/oct/10100111.html

باقی جہاں تک مکھی تک کو نہ بنا سکنے کا چیلنج ہے۔ یہ بھی تمثیلی ہے۔ یاد رہے کہ تمام مخلوقات الارض ایک کمپلکس اور ارب ہا سال کےارتقا ئی عمل کا نتیجہ ہیں۔ ہم جیسے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں، اسی طرح باقی جانور ماحول سے۔ جو مخلوقات اپنے آپ کو سب سے زیادہ ماحول پسند بناتی ہیں وہی جیتی ہیں۔ باقی اپنے آپ مر جاتی ہیں۔ حضرت انسان کی بھی کئی نسلیں تھیں، جن میں سے آج ہم ہی زندہ بچے ہیں۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Human_evolution
چونکہ انسان ذہین تھا اور اپنے آپکو بدلتے ماحول میں ایڈجسٹ کر سکتا تھا۔ یوں اپنے سے زیادہ جسمانی طاقت ور نسلوں تک کو باآسانی پچھاڑ گیا۔ یوں ہماری زیادہ تر تاریخ ایک دوسرے کو مرتے مارتےہی گزری ہے کیونکہ قدرت تو ہمیں ختم کرنے سے رہی! :)
آج انسان دنیا کا مالک بننا چاہتا ہے اس دنیا کا جسنے اسکو زندگی بخشی۔ مگر اسکا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ نیز یہ ارتقائی عمل مسلسل جاری ہے۔ آج سے کئی لاکھ سال بعد ہماری کیا حالت ہوگی، یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ پہلے ہم کافی لمبے اور دیوقامت ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ اوزاروں پر دسترس نے یہ سائز بھی کم کر دیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
 

میر انیس

لائبریرین
عارف صاحب قران نے جو دعوٰی کیا ہے کلوننگ اس پر پوری نہیں اترتی ۔ کلوننگ جس جاندار کیلئے کی جارہی ہوتی ہے اس سے ہی پہلے مدد لی جاتی ہے یعنی اگر آپ کو ایک نئی مکھی بنانی ہے تو آپ کو اس مکھی سے ہی سیلز لینے ہونگے یعنی آپ ایک مکھی کو اسکی ہی کسی ہم جنس کی مدد کے بغیر نہیں بنا سکتے اور مکھی تو دوسری مکھی کو جنم دیتی ہی ہے اللہ قران میں جس سمت اشارہ کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ بغیر کسی مدد کے بغیر کسی وجود کے کسی نئی چیز کو وجود میں لانا اللہ کے علاوہ کسی اور ذات کی قدرت سے باہر ہے اللہ نے مکھی تب بنائی جب اس جیسی کوئی مثال اسکے سامنے نہیں تھی جب کے کسی چیز کی کاپی کرنا کوئی فن نہیں ہے۔ اگر ارتقاء کا نظریہ اتنا ہی صحیح ہے تو اب تک انسان سے بہتر کوئی مخلوق کیوں وجود میں نہ آسکی جہاں تک قد کاٹھ کی بات ہے تو وہ ایک الگ بحث ہے
 

عثمان

محفلین
اگر ارتقاء کا نظریہ اتنا ہی صحیح ہے تو اب تک انسان سے بہتر کوئی مخلوق کیوں وجود میں نہ آسکی

"انسان سے بہتر" کی آپ کے نزدیک کیا تعریف ہے؟ :confused:
نظریہ ارتقاء سائنس کا نظریہ ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال کی کامیاب سائنسی تحقیق سے اس کے مزید راز کھلتے جارہے ہیں۔ کائنات پر نظر دوڑائیے تو معلوم ہوگا کہ کل کائنات ارتقاء اور تغیر ہی کا نتیجہ ہے۔ انسان موجود شکل میں لاکھوں سال کے ارتقاء کے بعد پہنچا ہے۔ کیا معلوم کہ دس لاکھ سال بعد روئے زمین پر پھرنے والی مخلوقات کی ہیت کیا ہو؟
حقیقت کسی کی مذہبی تاویلات کے تابع نہیں۔
 

عثمان

محفلین
کتنی دلچسپ بات ہے کہ یار لوگ سائنس کو صرف اس وقت مانتے ہیں جب وہ انکے تصور کردہ مذہبی نظریات کی تسکین کرے۔
ورنہ ہرچیز ان کے نزدیک جھوٹ ہے۔
 

arifkarim

معطل
“دیو قامتی“ کا کوئی ثبوت ؟ اور کس قدر دیو قامت ؟
یہاں دیکھیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Neanderthal
عارف صاحب قران نے جو دعوٰی کیا ہے کلوننگ اس پر پوری نہیں اترتی ۔ کلوننگ جس جاندار کیلئے کی جارہی ہوتی ہے اس سے ہی پہلے مدد لی جاتی ہے یعنی اگر آپ کو ایک نئی مکھی بنانی ہے تو آپ کو اس مکھی سے ہی سیلز لینے ہونگے یعنی آپ ایک مکھی کو اسکی ہی کسی ہم جنس کی مدد کے بغیر نہیں بنا سکتے اور مکھی تو دوسری مکھی کو جنم دیتی ہی ہے اللہ قران میں جس سمت اشارہ کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ بغیر کسی مدد کے بغیر کسی وجود کے کسی نئی چیز کو وجود میں لانا اللہ کے علاوہ کسی اور ذات کی قدرت سے باہر ہے اللہ نے مکھی تب بنائی جب اس جیسی کوئی مثال اسکے سامنے نہیں تھی جب کے کسی چیز کی کاپی کرنا کوئی فن نہیں ہے۔ اگر ارتقاء کا نظریہ اتنا ہی صحیح ہے تو اب تک انسان سے بہتر کوئی مخلوق کیوں وجود میں نہ آسکی جہاں تک قد کاٹھ کی بات ہے تو وہ ایک الگ بحث ہے
یہاں آپ کی بات میں وزن ہے۔ ارتقا کے مطابق زندگی کیسی بھی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ لیکن اس زندگی میں “مقصد“ کیسے آگیا۔ یہ سائنس کیلئے بھی ایک عجوبہ ہے۔
"انسان سے بہتر" کی آپ کے نزدیک کیا تعریف ہے؟ :confused:
نظریہ ارتقاء سائنس کا نظریہ ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال کی کامیاب سائنسی تحقیق سے اس کے مزید راز کھلتے جارہے ہیں۔ کائنات پر نظر دوڑائیے تو معلوم ہوگا کہ کل کائنات ارتقاء اور تغیر ہی کا نتیجہ ہے۔ انسان موجود شکل میں لاکھوں سال کے ارتقاء کے بعد پہنچا ہے۔ کیا معلوم کہ دس لاکھ سال بعد روئے زمین پر پھرنے والی مخلوقات کی ہیت کیا ہو؟
حقیقت کسی کی مذہبی تاویلات کے تابع نہیں۔
بے شک!
کتنی دلچسپ بات ہے کہ یار لوگ سائنس کو صرف اس وقت مانتے ہیں جب وہ انکے تصور کردہ مذہبی نظریات کی تسکین کرے۔
ورنہ ہرچیز ان کے نزدیک جھوٹ ہے۔
یہ بھی ایک مسئلہ ہے :(
 

محمد سعد

محفلین
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(یٰاَ یُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلُ فَاسْتَمِعُوْ ا لَہ ط اِ نَّ الَّذِ یْنَ تَدْعُوْ نَ مِنْ دُوْ نِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْ ا ذُ بَا بًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْ ا لَہ ط وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّ بَا بُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُ وْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّا لِبُ وَ الْمَطْلُوْ بُ ہ مَا قَدَ رُ و ا ا للّٰہَ حَقَّ قَدْ رِ ہ ط اِ نَّ اللّٰہَ لَقَوِ یُّ عَزِیْزُ)

''لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے.'' ۔ (الحج: 73-74)

السلام علیکم۔
میرا تو خیال تھا کہ یہ آیت ان بتوں کے متعلق ہے جنہیں مشرکین پوجتے ہیں۔
اگر انسان کے متعلق ہو تب بھی یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسان عدم سے ایک ذرہ بھی وجود میں نہیں لا سکتا (پھر ذرے کے اندر بھی ایک اور ہی دنیا ہے)، مکھی تو بہت دور کی بات ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
کتنی دلچسپ بات ہے کہ یار لوگ سائنس کو صرف اس وقت مانتے ہیں جب وہ انکے تصور کردہ مذہبی نظریات کی تسکین کرے۔
ورنہ ہرچیز ان کے نزدیک جھوٹ ہے۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو ہر اس جگہ ٹانگیں اڑانے کا شوق ہوتا ہے جہاں مذہب کا معاملہ بیچ میں آتا ہو یا کسی کا مذاق اڑانے کا موقع ملتا ہو۔ ورنہ سنجیدہ علمی مواد میں تو دونوں اطراف کے "انتہا پسندوں" کا جو عالم ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ یہاں سائنس کے زمرے میں موجود ان تحاریر کا تناسب دیکھ لیں جنہیں کسی طور پر علمی مواد کہا جا سکتا ہے۔

کوئی سال بھر پہلے پاگل پن کا دورہ پڑا تھا کہ اگر سائنس کا ایک الگ فورم ہو تو شاید لوگ اس میں دلچسپی ظاہر کریں۔ لیکن ایک سال بعد بھی اس میں اتنی تحاریر جمع نہ ہو سکیں جتنی یہاں سیاست کے زمرے میں ایک ہفتے میں جمع ہو جاتی ہیں۔ نبیل بھائی بھی کہتا ہوگا کہ یوں ہی خاموخاہ میں مجھ سے ڈسک سپیس اور ڈیٹابیس لے کر بیٹھا ہے۔
یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مناسب تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ چنانچہ ایک بار پھر ربط ڈال دیتا ہوں۔
http://science.urducoder.com
 

arifkarim

معطل
کوئی سال بھر پہلے پاگل پن کا دورہ پڑا تھا کہ اگر سائنس کا ایک الگ فورم ہو تو شاید لوگ اس میں دلچسپی ظاہر کریں۔ لیکن ایک سال بعد بھی اس میں اتنی تحاریر جمع نہ ہو سکیں جتنی یہاں سیاست کے زمرے میں ایک ہفتے میں جمع ہو جاتی ہیں۔ نبیل بھائی بھی کہتا ہوگا کہ یوں ہی خاموخاہ میں مجھ سے ڈسک سپیس اور ڈیٹابیس لے کر بیٹھا ہے۔
یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مناسب تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ چنانچہ ایک بار پھر ربط ڈال دیتا ہوں۔
http://science.urducoder.com

سائنس ہر دعوے کی دلیل مانگتی ہے۔ جو کہ دینا مشکل ہے۔ اورمذہب اور سیاست میں دلیل کے علاوہ ہر چیز جائز ہے۔ کیونکہ یہاں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا معاملہ ہوتا ہے۔ اسلئے آپکے سائنسی بلاگ کی طرف افراد کا رجحان کم ہے۔
 
سائنس ہر دعوے کی دلیل مانگتی ہے۔ جو کہ دینا مشکل ہے۔ اورمذہب اور سیاست میں دلیل کے علاوہ ہر چیز جائز ہے۔ کیونکہ یہاں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا معاملہ ہوتا ہے۔ اسلئے آپکے سائنسی بلاگ کی طرف افراد کا رجحان کم ہے۔

محترم اسلام صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنا نام تبدیل کرلیں ۔اس نام سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید آپ دین اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے والے ہیں اور اس کا دفاع بھی کرنے والے ہیں۔ مگر آپ کی گزارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بھی روشن خیال اسلام پسند کرتے ہیں ۔ اسلام میں ہرچیز دلیل پر قائم ہے سوائے ایمان بالاغیب کے۔ مگر اس پر بھی ایمان لانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دلیل بنایا گیا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور وہی کہتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے۔اسی نبی کے کہنے پر ہم اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ صد افسوس ہے آپ لوگوں پر کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں پر تو سچے دل سے ایمان نہیں رکھتے ہاں مسٹر ڈارون کے بیوقوفانہ مفروضوں پرسائنس کے نام پر ضرور ایمان رکھتے ہیں۔ میں انشاء اللہ ایک تھریڈ پیش کررہا ہوں جس میں ثابت کیا جائے گا کہ ڈارون کا نظریہ ایک جھوٹ اور فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ اللہ ہمیں ایمان میں ثابت قدم رکھے ۔آمین
 
"انسان سے بہتر" کی آپ کے نزدیک کیا تعریف ہے؟ :confused:
نظریہ ارتقاء سائنس کا نظریہ ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال کی کامیاب سائنسی تحقیق سے اس کے مزید راز کھلتے جارہے ہیں۔ کائنات پر نظر دوڑائیے تو معلوم ہوگا کہ کل کائنات ارتقاء اور تغیر ہی کا نتیجہ ہے۔ انسان موجود شکل میں لاکھوں سال کے ارتقاء کے بعد پہنچا ہے۔ کیا معلوم کہ دس لاکھ سال بعد روئے زمین پر پھرنے والی مخلوقات کی ہیت کیا ہو؟
حقیقت کسی کی مذہبی تاویلات کے تابع نہیں۔

یہ سائنس کا متفقہ نظریہ نہیں ہے ۔ اور یہ سراسر بکواس ہے۔
کتنی دلچسپ بات ہے کہ یار لوگ سائنس کو صرف اس وقت مانتے ہیں جب وہ انکے تصور کردہ مذہبی نظریات کی تسکین کرے۔
ورنہ ہرچیز ان کے نزدیک جھوٹ ہے۔

اگر آپ کا ایمان سچا ہو تو ایک بات پوچھوں ۔۔کیا اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں غلط باتیں بتائی ہیں یا سائنس کا اللہ اور اس کے رسول سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سائنس اور ہے اورمذہب اور؟ محترم کیا جس نے یہ ساری کائنا ت بنائی وہ ہمیں موجود سائنسی اصولوں سے متضاد باتیں بتا سکتا ہے۔؟ مجھے آپ لوگوں کی سوچ پر حیرانی ہے کہ آپ مسلمان بھی بنتے ہیں مگر ایمان مسٹر ڈارون پر رکھتے ہیں۔۔ خوب یاد رکھیے اگر کوئی سائنسی نظریہ فی الحال اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی نظر آتا ہے تو وہ انشاء اللہ ضرور ایک دن اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اس لیے کہ میرا ایمان ہے سائنسدانوں کی تحقیق تو غلط ہو سکتی ہے مگر اللہ اور اس کے رسول کی باتیں غلط نہیں ہوسکتیں۔ انشاء اللہ
السلام علیکم۔
میرا تو خیال تھا کہ یہ آیت ان بتوں کے متعلق ہے جنہیں مشرکین پوجتے ہیں۔
اگر انسان کے متعلق ہو تب بھی یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسان عدم سے ایک ذرہ بھی وجود میں نہیں لا سکتا (پھر ذرے کے اندر بھی ایک اور ہی دنیا ہے)، مکھی تو بہت دور کی بات ہے۔
محترم من دون اللہ سے مراد صرف بت نہیں ہوتے ۔ یہ غلط فہمی نکا ل دیں ۔ اس میں اللہ کے فرشتے اور نیک انسان بھی شامل ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
محترم اسلام صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنا نام تبدیل کرلیں ۔اس نام سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید آپ دین اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے والے ہیں اور اس کا دفاع بھی کرنے والے ہیں۔ مگر آپ کی گزارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بھی روشن خیال اسلام پسند کرتے ہیں ۔ اسلام میں ہرچیز دلیل پر قائم ہے سوائے ایمان بالاغیب کے۔ مگر اس پر بھی ایمان لانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دلیل بنایا گیا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور وہی کہتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے۔اسی نبی کے کہنے پر ہم اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ صد افسوس ہے آپ لوگوں پر کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں پر تو سچے دل سے ایمان نہیں رکھتے ہاں مسٹر ڈارون کے بیوقوفانہ مفروضوں پرسائنس کے نام پر ضرور ایمان رکھتے ہیں۔ میں انشاء اللہ ایک تھریڈ پیش کررہا ہوں جس میں ثابت کیا جائے گا کہ ڈارون کا نظریہ ایک جھوٹ اور فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ اللہ ہمیں ایمان میں ثابت قدم رکھے ۔آمین

ایک نکتے پر اختلاف کروں گا۔ میں اس کو "روشن خیال" نہیں، "مشرف خیال" نظریات کہنا پسند کرتا ہوں۔ کیونکہ حقیقی روشن نظام تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعے ہم کو عطا کیا۔

ویسے بڑے مزے کی بات ہے کہ کچھ لوگ نظریۂ ارتقاء کی بات کرتے ہوئے سائنس میں "نظریے" کی تعریف کو ہی بھول جاتے ہیں۔ "نظریہ" کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ ابھی تک پوری طرح ثابت نہیں ہوا ہے اور اس کے غلط ہونے کے امکانات بھی اچھے خاصے ہیں۔ جبکہ ارتقاء پرست "نظریۂ ارتقاء" کو "قانونِ ارتقاء" کے طور پر پیش کرنے لگ جاتے ہیں جس میں گویا شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ ہو۔ تبھی تو ان کو "ارتقاء پرست" کہا جاتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
محترم اسلام صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنا نام تبدیل کرلیں ۔اس نام سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید آپ دین اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے والے ہیں اور اس کا دفاع بھی کرنے والے ہیں۔ مگر آپ کی گزارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بھی روشن خیال اسلام پسند کرتے ہیں ۔ اسلام میں ہرچیز دلیل پر قائم ہے سوائے ایمان بالاغیب کے۔ مگر اس پر بھی ایمان لانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دلیل بنایا گیا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور وہی کہتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے۔اسی نبی کے کہنے پر ہم اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ صد افسوس ہے آپ لوگوں پر کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں پر تو سچے دل سے ایمان نہیں رکھتے ہاں مسٹر ڈارون کے بیوقوفانہ مفروضوں پرسائنس کے نام پر ضرور ایمان رکھتے ہیں۔ میں انشاء اللہ ایک تھریڈ پیش کررہا ہوں جس میں ثابت کیا جائے گا کہ ڈارون کا نظریہ ایک جھوٹ اور فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ اللہ ہمیں ایمان میں ثابت قدم رکھے ۔آمین

“اسلام صاحب“ :rolleyes:

جوش میں ہوش بھی کھو دئیے ۔ ہوتا ہے ہوتا ہے ۔ جب ہم نئے نئے تھے تو ایسے ہی ہوش کھو بیٹھتے تھے اور پھر بعد آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے تھے۔
 
“اسلام صاحب“ :rolleyes:

جوش میں ہوش بھی کھو دئیے ۔ ہوتا ہے ہوتا ہے ۔ جب ہم نئے نئے تھے تو ایسے ہی ہوش کھو بیٹھتے تھے اور پھر بعد آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے تھے۔

آپ کو آپ کی ترقی مبارک ہو۔ مگر اللہ ہمیں ایسی تنزلی سے بچائے۔ آمین
 

arifkarim

معطل
محترم اسلام صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنا نام تبدیل کرلیں ۔اس نام سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید آپ دین اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے والے ہیں اور اس کا دفاع بھی کرنے والے ہیں۔ مگر آپ کی گزارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بھی روشن خیال اسلام پسند کرتے ہیں ۔ اسلام میں ہرچیز دلیل پر قائم ہے سوائے ایمان بالاغیب کے۔ مگر اس پر بھی ایمان لانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دلیل بنایا گیا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور وہی کہتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے۔اسی نبی کے کہنے پر ہم اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ صد افسوس ہے آپ لوگوں پر کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں پر تو سچے دل سے ایمان نہیں رکھتے ہاں مسٹر ڈارون کے بیوقوفانہ مفروضوں پرسائنس کے نام پر ضرور ایمان رکھتے ہیں۔ میں انشاء اللہ ایک تھریڈ پیش کررہا ہوں جس میں ثابت کیا جائے گا کہ ڈارون کا نظریہ ایک جھوٹ اور فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ اللہ ہمیں ایمان میں ثابت قدم رکھے ۔آمین

اسلام صاحب؟
نہ تو میں اسلام کے حق میں ہوں اور نہ ہی اسکے خلاف۔ ایک زمانہ تھا کہ خود اسلامی علما سائنسی ایجادات پر فتوے لگالگا نوجوان مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی سے دور کرنے میں اہم رول ادا کرتے تھے۔ آج یہ کام الحمدللہ سائنسی ایجاد یعنی انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ کر تے ہیں :)
یہ دوغلہ پن اپنے پاس ہی رکھئے، نیز ارتقائی دھاگہ کا شکریہ۔ نہ تو ڈارون میرا خلیفہ ہے اور نہ ہی بندر میرا باپ۔ میرے نظریات مشاہدہ معائنہ پر منحصر ہیں۔ اگر آپ مجھے یہ کہیں گے قرآن کی رو سے زمین ساکن ہے تو مسلمان ہونے کے باوجود میں اسکو نہیں مانوں گا کیونکہ مشاہدہ اسکے خلاف ہے۔
 
اسلام صاحب؟
نہ تو میں اسلام کے حق میں ہوں اور نہ ہی اسکے خلاف۔

میرے نظریات مشاہدہ معائنہ پر منحصر ہیں۔ اگر آپ مجھے یہ کہیں گے قرآن کی رو سے زمین ساکن ہے تو مسلمان ہونے کے باوجود میں اسکو نہیں مانوں گا کیونکہ مشاہدہ اسکے خلاف ہے۔

اگر آپ اسلام کے حق میں بھی نہیں تو پھر کس طرح کے مسلمان ہیں ؟؟؟ ذرا وضاحت فرمائیں۔
 
Top