تمنا بن گئی ہے مایۂ الزام کیا ہوگا ۔ بیکل اتساہی

فرخ منظور

لائبریرین
تمنا بن گئی ہے مایۂ الزام کیا ہوگا
مگر دل ہے ابھی تک تشنۂ پیغام کیا ہوگا

وہ بیتابِ تماشہ ہی سہی اے تابِ نظارہ
لرز اٹھتا ہے دل یہ سوچ کر انجام کیا ہوگا

یہاں جو کچھ بھی ہے وہ پرتوِ احساس ہے ساقی
بجز بادہ جوابِ گردشِ ایام کیا ہوگا

کبھی جس کے یقیں سے کائنات عشق روشن تھی
وہی اب ہے اسیر حلقۂ اوہام کیا ہوگا

جنونِ شوق کا عالم ہمہ مستی سہی لیکن
یہ عالم بھی جوابِ شوخیِ پیغام کیا ہوگا

چلے تو ہو مزاج یار کی پرسش کو اے بیکلؔ
مگر یہ سوچ لو اندازِ استفہام کیا ہوگا

(بیکلؔ اتساہی)
 
Top