تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

اسی دوراہے پر

اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اپنی نادار محبت کی شکستوں کے طفیل
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی جھنجلائی تھی

اوریہ عہد کیا تھا کہ بہ ایں حال تباہ
اب کبھی پیار بھرے گیت نہیں گاوں گا
کسی چلمن نے پکارا بھی تو بڑھ جاوں گا
کوئی دروازہ کھلا بھی تو پلٹ آوں گا

پھر ترے کانپتے ہونٹوں کی فسوں کار ہنسی
جال بننے لگی، بنتی رہی، بنتی ہی رہی
میں کھنچا تجھ سے ، مگر تو مری راہوں کے لیے
پھول چنتی رہی، چنتی رہی، چنتی ہی رہی

برف برسائی مرے ذہن و تصور نے مگر
دل میں اک شعلہء بے نام سا لہرا ہی گیا
تیری چپ چاپ نگاہوں کو سلگتے پاکر
میری بیزار طبیعت کو بھی پیار آہی گیا

اپنی بدلی ہوئی نظروں کے تقاضے نہ چھپا
میں اس انداز کا مفہوم سمجھ سکتا ہوں
تیرے زرکار دریچوں کی بلندی کی قسم
اپنے اقدام کا مقسوم سمجھ سکتا ہوں

اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اسی سرمایہ و افلاس کے دوراہے پر
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی جھنجلائی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایک تصویرِ رنگ

میں نے جس وقت تجھے پہلے پہل دیکھا تھا
تو جوانی کا کوئی خواب نظرآئی تھی
حسن کا نغمہء جاوید ہوئی تھی معلوم
عشق کا جذبہء بے تاب نظر آئی تھی

اے طرب زار جوانی کی پریشان تتلی
تو بھی اک بوئے گرفتار ہے معلوم نہ تھا
تیرے جلووں میں بہاریں نظر آتی تھیں مجھے
تو ستمِ خوردہء ادبار ہے معلوم نہ تھا

تیرے نازک سے پروں پر یہ زروسیم کا بوجھ
تیری پرواز کو آزار نہ ہونے دےگا
تو نے راحت کی تمنا میں جو غم پالا ہے
وہ تری روح کو آباد نہ ہونے دے گا

تو نے سرمائے کی چھاوں میں پنپنے کے لیے
اپنے، دل اپنی محبت کا لہو بیچا ہے
دن کی تزئینِ فسردہ کا اثاثہ لے کر
شوخ راتوں کی مسرت کا لہو بیچا ہے

زخم خوردہ ہیں تخیل کا اڑانیں تیری
تیرے گیتوں میں تری روح کے غم پلتے ہیں
سرمگیں آنکھوں میں یوں حسرتیں لو دیتی ہیں
جیسے ویران مزاروں پہ دیے جلتے ہیں

اس سے کیا فائدہ ؟ رنگین لبادوں کے تلے
روح جلتی رہے، گھلتی رہے، پژمردہ رہے
ہونٹ ہنستے ہوں دکھاوے کے تبسم کے لیے
دل غمِ زیست سے بوجھل رہے ، آزردہ رہے

دل کی تسکن بھی ہے آسائشِ ہستی کی دلیل
زندگی صرف زروسیم کا پیمانہ نہیں
زیستِ احساس بھی ہے، شوق بھی ہے، درد بھی ہے
صرف انفاس کی ترتیب کا افسانہ نہیں

عمر بھر رینگے رہنے کسے کہیں بہتر ہے
ایک لمحہ جو تری روح میں وسعت بھر دے
ایک لمحہ جو ترے گیت کو شوخی دے دے
ایک لمحہ جو تیری لے میں مسرت بھر دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایک شام

قمقموں کی زہر اگلتی روشنی
سنگ دل پر ہول دیواروں کے سائے
آہنی بت، دیو پیکر اجنبی
چیختی چنگھاڑتی خونیں سرائے

روح الجھی جارہی ہے کیا کروں

چار جانب ارتعاشِ رنگ و نور
چار جانب اجنبی بانہوں کے جال
چار جانب خوں فشاں پرچم بلند
میں، مری غیرت، مرا دستِ سوال

زندگی شرما رہی ہے کیا کروں

گار گاہِ زیست کے ہر موڑ پر
روح چنگیزی برافگندہ نقاب
تھام اے صبح جہانِ نو کی ضوء
جاگ اے مستقبلِ انساں کے خواب

آس ڈوبی جارہی ہے کیا کروں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
احساسِ کامراں

افقِ روس سے بھوٹی ہے نئی صبح کی ضو
شب کا تاریک جگر چاک ہوا جاتا ہے
تیرگی جتنا سنبھلنے کے لیے رکتی ہے
سرخ سیل اور بھی بے باک ہوا جاتا ہے

سامراج اپنے وسیلوں پہ بھروسہ نہ کرے
کہنہ زنجیروں کی جھنکاریں نہیں رہ سکتیں
جذبہ نصرتِ جمہور کی بڑھتی رو میں
ملک اور قوم کی دیواریں نہیں رہ سکتیں

سنگ و آہن کی چٹانیں ہیں عوامی جذبے
موت کے رینگتے سایوں سے کہو ہٹ جائیں
کروٹیں لے کے مچلنے کو ہے سیلِ انوار
تیرہ و تار گھٹاوں سے کہو چھٹ جائیں

سالہا سال کے بے چین شراروں کا خروش
اک نئی زیست کا درباز کیا چاہتا ہے
عزمِ آزادیء انساں، پہ ہزاروں جبروت
اک نئے دورکا آغاز کیا چاہتا ہے

برتر اقوام کے مغرور خداوں سے کہو
آخری بار ذرا اپنا ترانہ دھرائیں
اور پھر اپنی سیاست پہ پیشماں ہو کر
اپنے ناکام ارادوں کا کفن لے آئیں

سرخ طوفان کی موجوں کو جکڑنے کے لیے
کوئی زنجیر ِ گراں کام نہیں آسکتی
رقص کرتی ہوئی کرنوں کے تلاطم کی قسم
عرصہ دہر پہ اب شام نہیں چھا سکتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میرے گیت تمہارے ہیں

اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی
موت کے قدموں کی آہٹ بھی جیون کی انگڑائی بھی
مستقبل کی کرنیں بھی تھیں حال کی بوجھل ظلمت بھی
طوفانوں کا شور بھی تھا اور خوابوں کی شہنائی بھی

آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھر دوں گا
مدہم، لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھردوں گا
جیون کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کرنکلوں
دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھر دوں گا

آج سے اے مزدور کسانو! میرے گیت تمہارے ہیں
فاقہ کش انسانو! میرے جوگ بہاگ تمہارے ہیں
جب تک تم بھوکے ننگے ہو، یہ نغمے خاموش نہ ہونگے
جب تک بے آلام ہوتم یہ نغمے راحت کوش نہ ہونگے

مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے لوگ مجھے فنکار نہ مانیں
فکر و فن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
میرا فن میری امیدیں ، آج سے تم کو ارپن ہیں!
آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سکھ کا درپن ہیں

تم سے قوت لے کر اب میں تم کو راہ دکھلاوں گا
تم پرچم لہرانا ساتھی میں بربط پر گاوں گا
آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے
آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساوں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی تباہی کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میں نہیں تو کیا؟

مرے لیے یہ تکلف، یہ دکھ ،یہ حسرت کیوں
مری نگاہِ طلب، آخری نگاہ نہ تھی
حیات زارِ جہاں کی طویل راہوں میں
ہزار دیدہء حیراں فسوں بکھیریں گے
ہزار چشم تمنا بنے گی دستِ سوال
نکل کے خلوتِ غم سے نظر اُٹھاو تو

وہی شفق ہے، وہی ضو ہے، میں نہیں تو کیا؟

مرے بغیر بھی تم کامیابِ عشرت تھیں
مرے بغیر بھی آباد تھے نشاط کدے
مرے بغیر بھی تم نے دیے جلائے ہیں
مرے بغیر بھی دیکھا ہے ظلمتوں کا نزول
مرے نہ ہونے سے امید کا زیاں کیوں ہو
بڑھی چلو مئے عشرت کا جام چھلکاتی
تمہاری سیج، تمہارے بدن کے پھولوں پر

اسی بہار کا پرتو ہے، میں نہیں تو کیا؟

مرے لیے یہ اداسی، یہ سوگ کیوں آخر
ملیح چہرے پہ گردِ فسردگی کیسی
بہارِ غازہ سے عارض کو تازگی بخشو
علیل آنکھوں میں کاجل لگاو رنگ بھرو
سیاہ جوڑے میں کلیوں کی کہکشاں گوندھو
ہزار ہاہنپتے سینے ہزار کانپتے لب
تمہاری چشمِ توجہ کے منتظر ہیں ابھی
جلو میں نغمہ و رنگ و بہارو نور لیے

حیات گرمِ تگ و دو ہے، میں نہیں تو کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
خود کشی سے پہلے

اُف یہ بے درد سیاہی یہ ہوا کے جھونکے
کس کو معلوم ہے اس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
اک نظر تیرے دریچے کی طرف دیکھ تو لوں
ڈوبتی آنکھوں میں پھر تابِ نظر ہو کہ نہ ہو

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستانوں کے دیے
نیلگوں پردوں سے چھنتی ہیں شعائیں اب تک
اجنبی بانہوں کے حلقے میں لچکتی ہوں گی
تیرے مہکے ہوئے بالوں کی روائیں اب تک

سرد ہوتی ہوئی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
ہاتھ پھیلائے بڑھے آتے ہیں بوجھل سائے
کون پونچھے مری آنکھوں کے سلگتے آنسو
کون الجھے ہوئے بالوں کی گرہ سلجھائے

آہ یہ غارِ ہلاکت، یہ دیے کا مجلس
عمر اپنی انہی تاریک مکانوں میں کٹی
زندگی فطرت بے حسن کی پرانی تقصیر
اک حقیقت تھی مگر چند فسانوں میں کٹی

کتنی آسائشیں ہنستی رہیں ایوانوں میں
کتنے در میری جوانی پہ سدا بند رہے
کتنے ہاتھوں نے بنا اطلس و کمخواب مگر
میرے ملبوس کی تقدیر میں پیوند رہے

ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے

وہی ظلمت ہے فضاوں پہ ابھی تک طاری
جانے کب ختم ہو انساں کے لہو کی تقطیر
جانے کب نکھرے سیہ پوش فضا کا جوبن
جانے کب جاگے ستم خوردہ بشر کی تقدیر

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستاں کے دیے
آج میں موت کے غاروں میں اتر جاوں گا
اور دم توڑتی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
سرحدِ مرگِ مسلسل سے گزر جاوں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
پھر وہی کنجِ قفس

چند لمحوں کے لیے شور اٹھا ڈوب گیا
کہنہ زنجیرِ غلامی کی گرہ کٹ نہ سکی

پھر وہی سیلِ بلا، وہی دامِ امواج
ناخداوں میں سفینے کی جگہ بٹ نہ سکی

ٹوٹتے دیکھ کے دیرینہ تعلطل کا فسوں
نبضِِ امیدِ وطن ابھری، مگر ڈوب گئی
پیشواوں کی نگاہوں میں تذبذب پاکر
ٹوٹتی رات کے سائے میں سحر ڈوب گئی

میرے محبوب وطن! تیرے مقدر کے خدا
دستِ اغیار میں قمست کے عناں چھوڑ گئے
اپنی یک طرفہ سیاست کے تقاضوں کے طفیل
ایک بار اور تجھے نوحہ کناں چھوڑ گئے

پھر وہی گوشہء زنداں ہے ، وہی تاریکی
پھر وہی کہنہ سلاسل، وہی خونیں جھنکار
پھر وہی بھوک سے انساں کی ستیزہ کاری
پھر وہی ماوں کے نوحے، وہی بچوں کی پکار
تیرے رہبر تجھے مرنے کے لیے چھوڑ چلے
ارضِ بنگال! انھیں ڈوبتی سانسوں کی پکار

بول! چٹگاوں کی مظلوم خموشی کچھ بول
بول اے پیپ سے رستے ہوئے سینوں کی بہار
بھوک اور قحط کے طوفان بڑھے آتے ہیں
بول اے عصمت و عفت کے جنازوں کی قطار

روک ان ٹوٹتے قدموں کو انھیں پوچھ ذرا
بوچھ اے بھوک سے دم توڑتے ڈھانچوں کی قطار

زندگی جبر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک
ان فضاوں میں ابھی موت پلے گی کب تک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اشعار

نفس کے لوچ میں رم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
حیات، ساغر سم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

تری نگاہ مرے غم کی پاسدار سہی
مری نگاہ میں غم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

مری ندیم! محبت کی رفعتوں سے نہ گر
بلند بامِ حرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

یہ اجتناب ہے عکسِ شعورِمحبوبی
یہ احتیاطِ ستم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

ادھر بھی ایک اچٹتی نظر کہ دنیا میں
فروغِ محفلِ جم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

نئے جہان بسائے ہیں فکرِ آدم نے
اب اس زمیں پہ ارم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

مرے شعور کو آوارہ کر دیا جس نے
وہ مرگِ شادی و غم ہی نہیں، کچھ اور بھی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور جہاں کے مزار پر

پہلوئے شاہ میں دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کاپتہ دیتی ہے
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لیے
سالہا سال حسیناوں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لیے
سرخ محلوں میں جواں جسموں کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی تھیں تزئین حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظل سبحان کی الفت کے بھرم کی خاطر

کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کر سکتی تھی بے لوث وفاوں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ہاتھوں کا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ

سہمی سہمی سی فضاوں میں یہ ویراں مرقد
اتنا خاموش ہے فریاد کناں ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جسیے

تو مری جان! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں کوئی بھی جہاں نور و جہاں گیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جاگیر

پھر اُسی وادیء شاداب میں لوٹ آیا ہوں
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
میرے احباب کے سامانِ تعیش کے لیے
شوخ سینے ہیں، جواں جسم حسیں‌بانہیں ہیں

سبز کھتوں میں یہ دہکی ہوئی دوشیزائیں
ان کی شریانوں میں کس کس کا لہو جاری ہے
کس میں جرات ہے کہ اس راز کی تشہیر کرے
سب کے لب پر مری ہیبت کا فسوں طاری ہے

ہائے وہ گرم و دل آویز ابلتے سینے
جن سے ہم سطوتِ آبا کاصلہ لیتے ہیں
جانے ان مرمریں جمسوں کو یہ مریل دہقاں
کیسے ان تیرہ گھرندوں میں جنم دیتے ہیں

یہ لہکتے ہوئے پودے، یہ دمکتے ہوئے کھیت
پہلے اجداد کی جاگیر تھے اب میرے ہیں
یہ چراگاہ، یہ ریوڑ، یہ مویشی یہ کساں
سب کے سب میرے ہیں، سب میرے ہیں، سب میرے ہیں

ان کی محنت بھی میری، حاصل محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے قوتِ‌بازو بھی مری
میں‌خداوند ہوں اُس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری نکہتِ گیسو بھی مری

میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
عذر کی ساعتِ ناپاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے

خاک پر رینگنے والے یہ فسردہ ڈھانچے
ان کی نظریں کبھی تلوار بنی ہیں نہ بنیں
ان کی غیرت پہ ہر اک ہاتھ چھپٹ سکتا ہے
ان کے ابرو کی کمانیں نہ تنی ہیں نہ تنیں

ہائے یہ شام، یہ جھرنے ، یہ شفق کی لالی
ہیں ان آسودہ فضاوں میں‌ ذرا جھوم نہ لوں
وہ دے پاوں ادھر کون چلی جاتی ہے
بڑھ کے اس شوخ کے ترشے ہوئے لب چوم نہ لوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
مادام

آپ بے وجہ پریشاں سی کیوں ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں‌ڈھل سکتی

لوگ کہتے ہیں تو لوگوں کو تعجب کیسا
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں، مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ بھی کہیئے، غریبوں کی شرافت کیسی

نیک مادام! بہت جلد وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں‌گے
اپنی ذلت کی قسم، آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہوں گے

ہم نے ہر دور میں‌تذلیل سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں‌ محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنا بخشی ہے

لیکن اس تلخ مباحث سے بھلا کیاحاصل
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میں‌ جہاں ہوں وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے

وجہء بے رنگی گلزار کہوں یا نہ کہوں!!
کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
مفاہمت

نشبِ ارض پہ ذروں کو مشتعل پا کر
بلندیوں پہ سفید و سیاہ مل ہی گئے
جو یادگار تھے باہم ستیزہ کاری کی
بہ فیضِ وقت وہ دامن کے چاک سل ہی گئے

جہاد ختم ہوا دور آتشی آیا!
سنبھل کے بیٹھ گئے محملوں میں دیوانے
ہجوم تشنہ لباں کی نگاہ اوجھل
چھلک رہے ہیں شراب ہوس کے پیمانے

یہ چشن، چشنِ مسرت نہیں تماشا ہے
نئے لباس میں نکلا ہے رہزنی کا جلوس
ہزار شمع اخوت بجھا کے چمکے ہیں
یہ تیرگی کے ابھارے ہوئے حسین فانوس
یہ شاخِ نور جسے ظلمتوں نے سینچا ہے
اگر پھلی تو شراروں کے پھول لائے گی
یہ پھل سکی تو نئی فصلِ گل کے آنے تک
ضمیرِ ارض میں اک زہر چھوڑ جائے گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آج

ساتھیو! میں نے برسوں تمہارے لیے
چاند، تاروں،بہاروں کے سپنے بنے

حسن اورعشق کے گیت گاتا رہا
آرزوں کے ایواں سجاتا رہا
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے
جب بھی آیا نئے گیت گاتا رہا
آج لیکن مرے دامنِ چاک میں
گردِ راہِ سفر کے سوا کچھ نہیں

میرے بربط کے سینے میں نغموں کا دم گھٹ گیا

تانیں چیخوں کے انبار میں‌دب گئیں
اورگیتوں کے سر ہچکیاں بن گئے ہیں
میں تمہارا مغنی ہوں، نغمہ نہیں ہوں
اور نغمے کی تخلیق کا سازو ساماں
ساتھیو! آج تم نے بھسم کر دیا ہے
اور میں اپنا ٹوٹا ہوا ساز تھامے
سرد لاشوں کے انبار کو تک رہا ہوں

میرے چاروں طرف موت کی وحشتیں ناچتی ہیں
اور انساں کی حیوانیت جاگ اٹھی ہے

بربریت کے خوں خوار عفریت
اپنے ناپاک جبڑوں کو کھولے
خون پی پی کے غرا رہے ہیں

بچھے ماوں کی گودوں میں سہمے ہوئے ہیں
عصمتیں سربرہنہ پریشاں ہیں
ہر طرف شورِ آہ و بکا ہے
اور میں اس تباہی کے طوفاں میں
آگ اور خوں کے ہیجان میں
سرنگوں‌اور شکستہ مکانوں کے ملبے سے پر راستوں پر
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
دربدرپھر رہا ہوں!
مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
میری گیتوں کی لے، میرا سر ، میری نے
میرے مجروح ہونٹوں کو پھر سونپ دو
ساتھیو! میں نے برسوں تمہارے لیے
انقلاب اور بغاوت کے نغمے الاپے
اجنبی راج کے ظلم کی چھاوں میں
سرفروشی کے خوابیدہ جذبے ابھارے
اوراس صبح کی راہ دیکھی!
جس میں‌اس ملک کی روح آزاد ہ
آج زنجیر محکومیت کٹ چکی ہے
اور اس ملک کے بحروبر بام و در
اجنبی قوم کے ظلمت افشاں پھریرے کی منحوس چھاوں سے آزاد ہیں
کھیت سونا اگلنے کو بے چین ہیں
وادیاں لہلہانے کو بے تاب ہیں
کوہساروں کے سینے میں ہیجان ہے
سنگ اور خشت بے خواب وبیدار ہیں
ان کی آنکھوں میں‌تعمر کے خواب ہیں
ان کے خوابوں‌کو تکمیل کاروپ دو
ملک کی وادیاں، گھاٹیاں، کھیتیاں
عورتیں‌بچیاں
ہاتھ پھیلائے خیرات کی منتظر ہیں
ان کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
ماوں کو ان کے ہونٹوں کی شادابیاں
ننھے بچوں کوان کی خوشی بخش دو
مجھ کو میری ہنر میری لے بخش دو
آج ساری فضا ہے بھکاری
اور میں اس بھکاری فضا میں
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
دربدر پھر رہا ہوں
مجھ کو پھر میرا کھویا ہوا ساز دو
میں تمہار مغنی تمہارے لیے
جب بھی آیا نئے گیت لاتا رہوں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
غزل

طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری
دلِ زندہ! تیرے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری

زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

ہمیں یہ فکر اُن کی انجمن کس حال میں‌ ہوگی
انھیں یہ غم کہ اُن سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گزری

میرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اب تک
مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں‌ پہ کیا گزری

یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں‌ جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری

چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آگئے لیکن
خدا کی مملکت میں‌ سوختہ جانوں پہ کیا گزری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کردو

فریبِ جنتِ فردا کے جال ٹوٹ گئے
حیات اپنی امیدوں پہ شرمسار سی ہے
چمن میں جشن و درودِ بہار ہو بھی چکا
مگر نگاہِ گل و لالہ سوگوار سی ہے

فضا میں گرم بگولوں کا رقص جاری ہے
افق پہ خون کی مینا چھک رہی ہے ابھی
کہاں کامہرِ منور کہاں کی تنویریں
کہ بام و در پہ سیاہی جھلک رہی ہے ابھی

فضائیں سوچ رہی ہیں کہ ابنِ آدم نے
خرد گنوا کے جنوں آزمان کے کیا پایا
وہی شکستِ تمنا وہی غمِ ایام!
نگارِ زیست نے سب کچھ لٹا کے کیا پایا

جھٹک کے رہ گئیں نظریں خلا کی وسعت میں
حریمِ شاہدِ رعنا کا کچھ پتہ نہ ملا
طویل راہ گزر خم ہو گئی لیکن
ہنوز اپنی مسافت کا منتہا نہ ملا

سفر نصیب رفیقو! قدم بڑھائے چلو
پرانے رہنما لوٹ کر نہ دیکھیں گے
طلوعِ صبح سے تاروں کی موت ہوتی ہے
شبوں کے راج دلارے ادھر نہ دیکھیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شکستِ زنداں

چینی شاعر یانگ سو کے نام جس نے چیانک کائی شیک کے جیل میں لکھا تھا بیس سال قید کاغذ کے ایک پرزے پر لکھے ہوے چند الفاظ کی بنا پر ہو سکتا ہے کہ میں بیس سال تک سورج کی شکل نہ دیکھ سکوں، لیکن کیا تمہارا فرسودہ نظام جو لمحہ بہ لمحہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بیس سال تک زندہ رہ سکے گا


خبر نہیں کہ بلا خانہء سلاسل میں
تیری حیاتِ ستم آشنا پہ کیا گزری
خبر نہیں کہ نگارِ سحر کی حسرت میں
تمام رات چراغِ وفا پہ کیا گزری

مگر وہ دیکھ فضا میں غبار سا اُٹھا
وہ تیرے سرخ جوانوں کے رہوار آئے
نظر اٹھا کہ وہ تیرے وطن کے محنت کش
گلے سے کہنہ غلامی کا طوق اتار آئے

افق پہ صبح بہاراں کی آمد آمد ہے
فضا میں سرخ پھریروں کے پھول کھلتے ہیں
زمین خندہ بلب ہے شفیق ماں کی طرح
کہ اس کی گو میں بچھڑے رفیق ملتے ہیںل

شکستِ مجلس و زنداں کا وقت آپہنچا
وہ تیرے خواب حقیقت میں ڈھال آئے ہیں
نظر اُٹھا کہ ترے دیس کی فضاوں پر
نئی بہار نئی جنتوں کے سائے ہیں

دریدہ تن ہے وہ قحبائے سیم و زر جس کو
بہت سنبھال کے لائے تھے شاطرانِ کہن
رباب چھیڑ غزل خواں ہو رقص فرما ہو
کہ جشنِ نصرت محنت ہے جشنِ نصرتِ فن

میں تجھ سے دور سہی لیکن اے رفیق مرے
تری وفا کو مری جہدِ مستقل کا سلام
ترے وطن کو تری ارضِ با حمیت کو
دھڑکتے کھھولتے ہندوستاں کے دل کا سلام


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
لہو نذر دے رہی حیات

مرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے
یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے ہیں

دھنک کے رنگ نہیں سرمئی فضاوں میں
افق سے تابہ اُفق پھانسیوں کے جھولے ہیں
پھر ایک منزلِ خونبار کی طرف ہیں رواں
وہ رہنما جو کئی بار راہ بھولے ہیں
بلند دعویٰ جمہوریت کے پردے میں
فروغِ مجلسِ زنداں ہیں تازیانے ہیں
بنامِ امن ہیں جنگ و جدل کے منصوبے
یہ شورِ عدل، تفاوت کے کارخانے ہیں
دلوں پہ خوف کے پہرے لبوں پہ قفل سکوت
سروں پہ گرم سلاخوں کے شامیانے ہیں

مگر ہٹے ہیں کہیں جبر اور تشدد مٹے
وہ فلسفے کہ جلا دے گئے دماغوں کو
کوئی سپاہِ ستم پیشہ چور کر نہ سکی
بشر کی جاگی ہوئی روح کے ایاغوں کو
قدم قدم پہ لہو نذر دے رہی ہے حیات
سپاہیوں سے الجھتے ہوئے چراغوں کو

رواں ہے قافلہء ارتقائے انسانی
نظامِ آتش و آہن کا دل ہلائے ہوئے
بغاوتوں کے دہل بج رہے ہیں چار طرف
نکل رہے ہیں جواں مشعلیں جلائے ہوئے
تمام ارضِ جہاں کھولتا سمندر ہے
تمام کوہ بیاباں میں تلملائے ہوئے

مری صدا کو دبانا تو خیر ممکن ہے
مگر حیات کی للکار، کون روکے گا؟
فصیلِ آتش و آہن بہت بلند سہی
بدلتے وقت کی رفتار کون روکے گا؟
نئے خیال کی پرواز روکنے والے
نئے عوام کی تلوار کون روکے گا؟

پناہ لیتا ہے جن مجلسوں میں تیرہ نظام
وہیں سے صبح کے لشکر نکلنے والے ہیں
ابھر رہے ہیں فضاوں میں احمریں پرچم
کنارے مشرق و مغرب کے ملنے والے ہیں
بزار برق گرے، لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی
ازسرِ نو داستانِ شوق دھرائی گئی

بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر
زندگانی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی

اے غمِ دنیا! تجھے کیا علم تیرے واسطے
کن بہانوں سے طبعیت رہ پر لائی گئی

ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی
اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی

کیسے کیسے چشم و عارض گردِ غم سے بجھ گئے
کیسے کیسے پیکروں کی شان زیبائی گئی

دل کی دھڑکن میں توازن آچلا ہے خیر ہو
میری نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائی گئی

اُن کا غم ، اُن کا تصور ان کے شکوے اب کہاں
اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئیں

جرات انساں پہ گو تادیب کے پہرے رہے
فطرتِ انساں کو کب زنجیر پہنچائی گئی

عرصہء ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے
رسمِ چنگیزی اُٹھی، توقیر دارائی گئی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آوازِ آدم

دبے گی کب تلک آوازِ آدم ہم بھی دیکھیں گے
رکیں گے کب تلک جذبات برہم ہم بھی دیکھیں گے
چلو یونہی سہی یہ جورِ پیہم ہم بھی دیکھیں گے

درزنداں سے دیکھیں یا عروجِ دار سے دیکھیں
تمہیں رسوا سرِ بازارِ عالم ہم بھی دیکھیں گے
ذرا دم لو ماآلِ شوکتِ جم، ہم بھی دیکھیں گے

یہ زعمِ قوتِ فولاد و آہن دیکھ لو تم بھی
بہ فیض جذبہء ایمان محکم ہم بھی دیکھیں گے
جبیں کج کلاہی خاک پرخم، ہم بھی دیکھیں گے

مکافاتِ عمل، تاریخ انساں کی روایت ہے
کروگے کب تلک ناوک فراہم، ہم بھی دیکھیں گے
کہاں تک ہے تمہارے ظلم میں دم ہم بھی دیکھیں گے

یہ ہنگامِ وداع شب ہے، اے ظلمت کے فرزندو
سحر کے دوش پر گلنار پرچم ہم بھی دیکھیں گے
تمہیں بھی دیکھنا ہوگا یہ عالم ہم بھی دیکھیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top