تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

ناکامی

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا
غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا

وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک

وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک

وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک

کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی!
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا

دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا

میری تخیل کا شیرازہء برہم ہے وہی
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی

وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال

آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
مجھے سوچنے دے

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا

زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی

لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاوں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ

اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ

جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ

بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں

نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد

ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم

لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں

یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار

دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار

درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں

یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے

اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اشعار

عقائد وہم ہیں، مذہب خیال خام ہے ساقی
ازل سے ذہنِ انساں بستہء اوہام ہے ساقی

حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے
عروسِ آگہی پروردہء ابہام ہے ساقی

مبارک ہو ضعیفی کو خرد کا فلسفہ رانی؟
جوانی بے نیاز عبرتِ انجام ہے ساقی

ہوس ہوگی اسیرِ حلقہء نیک و بد عالم
محبت ماورائے فکرِ ننگ و نام ہے ساقی

ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے
مرا ذوق طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی

وہاں بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردہء شب کو
جہاں ہر صبح کے دامن پہ عکس شام ہے ساقی

مرے ساغر میں مے ہے اور ترے ہاتھوں میں بربط ہے
وطن کی سرزمیں میں بھوک سے کہرام ہے ساقی

زمانہ برسرِ پیکار ہے پر ہول شعلوں سے
ترے لب پر ابھی تک نغمہء خیام ہے ساقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
صبحِ نوروز

پھوٹ پڑیں مشرق سے کرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناو سالِ نو کے

نکلی ہے بنگے کے در سے
اک مفلس دہقان کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
انچل سے سینے کوچھپاتی
مٹھی میں اک نوٹ دبائے
جشن مناو سالِ نو کے

بھوکے، زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اُٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کجھلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن مناو سالِ نو کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گریز

مرا جنونِ وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہوگیا تیرا فسوانِ زیبائی

ان آرزوں پہ چھائی ہے گردِ مایوسی
جنہوں نے تیرے تبسم میں پرورش پائی

فریبِ شوق کے رنگیں طلسم ٹوٹ گئے
حقیقتوں نے حوادث سے پھر جلاپائی

سکون و خواب کے پردے سرکتے جاتے ہیں
دل و دماغ میں وحشت کی کارفرمائی

وہ تارے جن میں محبت کا نورِ تاباں تھا
وہ تارے ڈوب گئے لے کے رنگِ و رعنائی

سلاگئی تھیں جنھیں تیر ملتفت نظریں
وہ درد جاک اُٹھے پھر سے لے کے انگڑائی

عجیب عالمِ افسردگی ہے رو بہ فروغ
نہ اب نظر کو تقاضا نہ دل تمنائی

تری نظر، ترے گیسو، تری جبیں ، ترے لب
مری اداس طبعیت ہے سب سے اکتائی

میں زندگی کے حقائق سے بھاگ آیا تھا
کہ مجھ کو خود میں چھپا لے تری فسوں زائی

مگر یہاں بھی تعاقب کیا حقائق نے
یہاں بھی مل نہ سکی جنتِ شکیبائی

ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے
حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی

مرے ہر ایک طرف ایک شور گونج اٹھا
اور اس میں ڈوب گئی عشرتوں کی شہنائی

کہاں تلک کوئی زندہ حقیقتوں سے بچے
کہاں تلک کرے چھپ چھپ کے نغمہ پیرائی

وہ دیکھ سامنے کے پر شکوہ ایواں سے
کسی کرائے کی لڑکی چیخ ٹکرائی

وہ پھر سماج نے دو پیار کرنے والوں کو
سزا کے طور پر بخشی طویل تنہائی

پھر ایک تیرہ و تاریک چھونپڑی کے تلے
سسکتے بچے پہ بیوہ کی آنکھ بھر آئی

وہ پھر بکی کسی مجبور کی جواں بیٹی!
وہ پھر جھکا کسی در پر غرورِ برنائی

وہ پھر کسانوں کے مجمع پہ گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی

سکوتِ حلقہء زنداں سے ایک گونج اُٹھی
اور اس کے ساتھ مرے ساتھیوں کی یاد آئی

نہیں نہیں مجھے یوں ملتفت نظر سے نہ دیکھ
نہیں نہیں مجھے اب تابِ نغمہ پیرائی

مرا جنونِ وفاہے زوال آمادہ
شکست ہوگیا تیرا فسونِ زیبائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کچھ باتیں

دیس کے ادبار کی باتیں کریں
اجنبی سرکار کی باتیں کریں

اگلی دنیا کے فسانے چھوڑ کر
اس جہنم زار کی باتیں کریں

ہو چکے اوصاف پردے کے بیاں
شاہدِ بازار کی باتیں کریں

دہر کے حالات کی باتیں کریں
اس مسلسل رات کی باتیں کریں

من و سلویٰ کا زمانہ جا چکا
بھوک اور آفات کی باتیں کریں

آو پرکھیں دین کے اوہام کو
علمِ موجودات کی باتیں کریں

جابرو مجبور کی باتیں کریں
اس کہن دستور کی باتیں کریں

تاجِ شاہی کے قصیدے ہو چکے
فاقہ کش جمہور کی باتیں کریں

گرنے والے قصر کی توصیف کیا
تیشہء مزدور کی باتیں کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
چکلے

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ پر پیج گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار

یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

تعفن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں

یہ بکتی ہوئی کھوکلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن

یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ گونچے ہوئے قہقہے راستوں پر
یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑکیوں پر

یہ آواز کھنچتے ہوئے آنچلوں پر
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے

یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب

لپکے ہوئے پاوں زینوں کی جانب
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی، ابا میاں بھی

یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی

پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

بلاو خدایانِ دین کو بلاو
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاو

ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لاو
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

طرحِ نو

سعئی بقائے شوکتِ اسکندری کی خیر
ماحولِ خشت بار میں شیشہ گری کی خیر

بیزار ہے کنشت و کلیسا سے اک جہاں
سوداگرانِ دین کی سوداگری کی خیر

فاقہ کشوں کے خون میں ہے جوشِ انتقام
سرمایہ کے فریب جہاں پروری کی خیر

طبقاتِ متبذل میں ہے تنظیم کی نمود
شاہنشہوں کے ضابطہء خود سری کی خیر

احساس بڑھ رہا ہے حقوقِ حیات کا
پیدائشی حقوقِ ستم پروری کی خیر

ابلیس خندہ زن ہے مذاہب کی لاش پر
پیغمبرانِ دہر کی پیغمبری کی خیر

صحنِ جہاں میں رقص کناں ہیں تباہیاں
آقائے ہست و بود کی صنعت گری کی خیر

شعلے لپک رہے ہیں جہنم کی گود سے
باغِ جناں میں جلوہء حورو پری کی خیر

انساں اُلٹ رہا ہے رخِ زیست کا نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر

الحاد کر رہا ہے مرتب جہانِ نو
دیرو حرم کے حیلہء غارت گری کی خیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تاج محل

تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیء رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟

ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

میری محبوب پس پردہ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

سینہء دہر کے ناسور میں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی!
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق


میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
طلوعِ اشتراکیت

چشن بپا ہے کٹیاوں میں، اونچے ایواں کانپ رہے ہیں
مزدروں کے بگڑے تیور دیکھ کے سلطاں کانپ رہے ہیں

جاگے ہیں افلاس کے مارے، اُٹھے ہیں بے بس دکھیارے
سینوں میں طوفاں کا تلاطم ، آنکھوں میں بجلی کے شرارے

چوک چوک پر گلی گلی میں سرخ پھریرے لہراتے ہیں
مظلوموں کے باغی لشکر سیل صفت اُمڈے آتے ہیں

شاہی درباروں کے در سے فوجی پہرے ختم ہوئے ہیں
ذاتی جاگیروں کے حق اور مہمل دعوے ختم ہوئے ہیں

شور مچا ہے بازاروں میں، ٹوٹ گئے در زندانوں کے
واپس مانگ رہی ہے دنیا غصب شدہ حق انسانوں کے

رسوا بازاری خاتونیں حقِ نسائی مانگ رہی ہیں
صدیوں کی خاموش زبانیں سحر نوائی مانگ رہی ہیں

روندی کچلی آوازوں کے شور سے دھرتی گونج اٹھی ہے
دنیا کے انیائے نگر میں حق کی پہلی گونج اُٹھی ہے

جمع ہوئے ہیں چوراہوں پر آکے بھوک اور گداگر
ایک لپکتی آندھی بن کر ایک بھبکتا شعلہ ہو کر

کاندھوں پر سنگین کدالیں ہونٹوں پر بے باک ترانے
دہقانوں کے دل نکلے ہیں اپنی بگڑی آپ بنانے

آج پرانی تدبیروں سے آگ کے شعلے تھم نہ سکیں گے
اُبھرے جذبے دب نہ سکیں گے اکھڑے پرچم جم نہ سکیں گے

راج محل کے دربانوں سے یہ سرکش طوفاں نہ رکے گا
چند کرائے کے تنکوں سے سیلِ بے پایاں نہ رکے گا

کانپ رہے ہیں ظالم سلطاں ٹوٹ گئے دل جباروں کے
بھاگ رہے ہیں ظلِ الہیٰ منہ اترے ہیں غداروں کے

ایک نیا سورج چمکا ہے، ایک انوکھی ضوباری ہے
ختم ہوئی افرادکی شاہی، اب جمہور کی سالاری ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اجنبی محافظ

اجنبی دیس کے مضبوط گرانڈیل جواں
اونچے ہوٹل کے درِ خاص پہ استادہ ہیں
اور نیچے مرے مبور وطن کی گلیاں
جن میں آوارہ پھرا کرتے ہیں بھوکوں کے ہجوم
زرد چہروں پہ نقاہت کی نمود
خون میں سینکڑوں سالوں کی غلامی کا جمود
علم کے نور سے عاری۔۔۔۔۔محروم
فلکِ ہند کے افسردہ ۔۔۔۔نجوم
جن کی تخیل کے پر
چھو نہیں سکتے ہیں اس اونچی پہاڑی کا سرا
جس پہ ہوٹل کے دریچوں میں کھڑے ہیں تن کر
اجنبی دیس کے مضبوط گرانڈیل جواں
منہ میں سگریٹ لیے ہاتھوں میں برانڈی کا گلاس
جیب میں نقرئی سکوں کی کھنک
بھوکے دہقانوں کے ماتھے کا عرق
رات کو جس کے عوص بکتا ہے
کسی افلاس کی ماری کا تقدس ۔۔۔۔یعنی
کسی دوشیزہ مجبور کی عصمت کا غرور
محفلِ عیش کے گونجے ہوئے ایوانوں میں
اونچے ہوٹل کے شبستانوں میں
قہقہے مارتے ہنستے ہوئے استادہ ہیں
اجنبی دیس کے مضبوط گرانڈیل جواں
اسی ہوٹل کے قریب
بھوکے مجبور غلاموں کے گروہ
ٹکٹکی باندھ کے تکتے ہوئے اوپر کی طرف
منتظر بیٹھے ہیں اس ساعتِ نایاب کے جب
بوٹ کی نوک سے نیچے پھینکے
اجنبی دیس کے بے فکر جوانوں کا گروہ
کوئی سکہ، کوئی سگریٹ، کوئی کیک
یا ڈبل روٹی کے جھوٹے ٹکڑے
چھینا جھپٹی کے مناظر کا مزہ لینے کو
پالتو کتوں کے احساس پہ ہنس دینے کو
بھوکے مجبور غلاموں کا گروہ
ٹکٹکی باندھ کے تکتا ہوا استادہ ہے
کاش یہ بے حس و بے وقعت و بیدل انساں
روم کے ظلم کی زندہ تصویر
اپنا ماحول بدل دینے کے قابل ہوتے
ڈیڑھ سو سال کے پابند سلاسل کتے
اپنے آقاوں سے لے سکتے خراجِ قوت
کاش یہ اپنے لیے آپ صف آراء ہوتے
اپنی تکلیف کا خود آپ مداوا ہوتے
ان کی دل میں ابھی باقی رہتا
قومی غیرت کا وجود
ان کی سنگین و سیہ سینوں میں
گل نہ ہوتی ابھی احساس کی شمع
اور پورب سے اُمڈتے ہوئے خطرے کے لیے
یہ کرائے کے محافظ نہ منگانے پڑتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بلاوا

دیکھو افق کے ضوسے جھانک رہا ہے سرخ سویرا
جاگو اے مزدور کسانو!
اُٹھو اے مظلوم انسانو!
دھرتی کے ان داتا تم ہو
جگ کے پران ودھاتا تم ہو
دھنیوں کی خوشحالی تم ہو
کھیتوں کی ہریالی تم ہو
اونچے محل بنائے تم نے
شاہی تخت سجائے تم نے
ہیرے لعل نکالے تم نے
نیزے بھالے ڈھالے تم نے
ہر بگیا کے مالی تم ہو
اس سنسار کے والی تم ہو
وقت ہے دھرتی کو اپنا لو
آگے بڑھو ہتھیار سنبھالو
اٹھو اے مظلوم انسانو
جاگو اے مزدور کسانو
دیکھو دھرتی کانپ رہی ہے
گرد پھریر ڈھانپ رہی ہے
کشٹ کی جولا پھوٹ پڑی ہے
وقت ہے تھوڑا جنگ کڑی ہے
پھیل رہے ہیں کال کے گھیرے
تھامو اپنے سرخ پھریرے
تم ہو جگ جنتا کے سینک
پاپ کے ناشک ستیہ کے رکھشک
بھوک کے عادی ظلم کے پالے
کالی کٹیاوں کے اجالے
کیا روکے گی تم کو شاہی
تم ہو بہادر سرخ سپاہی
جاگو اے مزدور کسانو
اٹھو اے مظلوم انسانو

دیکھو دور افق کی ضو سے جھانک رہا ہے سرخ سویرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شہزادے

ذہن میں عظمتِ اجداد کے قصے لے کر
اپنے تاریک گھروندوں کے خلا میں کھو جاو
مرمریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سو جاو
ابر پاروں پہ چلو، چاند ستاروں میں اڑو
یہی اجداد سے ورثہ میں ملا ہے تم کو
دور مغرب کی فضاوں میں دہکتی ہوئی آگ
اہلِ سرمایہ کی آویزش باہم نہ سہی
جنگِ سرمایہ ومحنت ہی سہی
دور مغرب میں ہے۔۔۔مشرق کی فضا میں تو نہیں
تم کو مغرب کے بکھیڑوں سے بھلا کیا لینا؟
تیرگی ختم ہوئی سرخ شعائیں پھیلیں
دورِ مغرب کی فضاوں میں ترانے گونجے
فتح جمہور کے ، انصاف کے، آزادی کے
ساحل شرق پہ گیسوں کا دھواں چھانے لگا
آگ برسانے لگے اجنبی توپوں کے دہن
خواب گاہوں کی چھتیں گرنے لگیں
اپنے بستر سے اُٹھو
نئے آقاوں کی تعظیم کرو
اور ۔۔۔۔پھر اپنے گھرندوں کے خلا میں کھو جاو
تم بہت دیر۔۔۔۔۔بہت دیر تلک سوئے رہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شعاعِ فردا

تیرہ و تار فضاوں میں ستم خوردہ بشر
اور کچھ دیر اجالے کے لیے ترسے گا
اور کچھ دیر اٹھے گا دل گیتی سے دھواں
اور کچھ دیر فضاوں سے لہو برسے گا

اور پھر احمریں ہونٹوں کے تبسم کی طرح
رات کے چاک سے پھوٹے گی شعاعوں کی لکیر
اور جمہور کے بیدار تعاون کے طفیل
ختم ہو جائے گی انساں کے لہو کی تقطیر

اور کچھ دیر بھٹک لے مرے درماندہ ندیم
اور کچھ دن ابھی زہراب کے ساغر پی لے
نور افساں چلی آتی ہے عروسِ فردا
حال تاریک و سم افشاں سہی لیکن جی لے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

بنگال

جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو!
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں

یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے

زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے

مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں

چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں

زمیں کی قوتِ تخلیق کے خداوندو!
مِلوں کے منتظمو! سلطنت کے فرزندو

پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
فن کار

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

آج دکان پہ نیلام اٹھے گا اُن کا
تو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس

آج چاندی کے ترازو میں تلے گی ہر چیز
میرے افکار، مری شاعری ، میرا احساس

جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں کو
مفلسی جنس بنانے پہ اتر آئی ہے

بھوک تیرے رخِ رنگیں کے فسانوں کے عوص
چند اشیائےضرورت کی تمنائی ہے

دیکھ اس عرسہ گہہِ محنت و سرمایہ میں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کبھی کبھی


کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا

ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا

حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں

گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے

مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں

نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری

انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
فرار

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناوں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے

میرے ماضی کو اندھیروں میں دبا رہنے دو
مرا ماضی مری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
میری امیدوں کا حاصل مری کاوش کاصلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر
کتنی بے ربط تمناوں کے مبہم سائے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر


مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
مجھ کو کہنے دو کہ میں نے انہیں چاہا ہی نہیں
اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں
میں نے ن مست نگاہوں کو سراہا ہی نہیں

مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتاہوں
عشق ناکام سہی، زندگی ناکام نہیں
ان کو اپنانے کی خواہش انہیں پانے کی طلب
شوقِ بے کار سہی، سعیء غم انجام نہیں

وہی گیسو، وہی نظریں ، وہی عارض، وہی جسم
میں جو چاہوں تو مجھ اور بھی مل سکتے ہیں
وہ کنول جن کو کبھی ان کے لیے کھلنا تھا
ان کی نظروں سے بہت دور بھی کھل سکتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کل اور آج

کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
۔۔۔اور کوی نے سوچا تھا

بادل یہ آکاش کے سپنے ان زلفوں کے سائے ہیں
دوش ہوا پر میخانے ہی میخانے گھر آئے ہیں
رت بدلے گی پھول کھلیں گے جھونکے مدھ برسائیں گے
اُجلے اُجلے کھیتوں میں رنگین آنچل لہرائیں گے
چرواہے بنسی کی دھن سے گیت فضا میں بوئیں گے
آموں کے جھنڈوں کے نیچے پردیسی دل کھوئیں گے
پینگ بڑھاتی گوری کے ماتھے سے کوندے لپکیں گے
جوہڑ کے ٹھہرے پانی میں تارے آنکھیں جھپکیں گے
الجھی الجھی راہوں میں وہ آنچل تھامے آئیں گے
دھرتی، پھول ، آکاش ، ستارے سپنا سا بن جائیں گے

کل بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
اور کوی نے سوچا تھا

2

آج بھی بوندیں برسیں گی
آج بھی بادل چھائے ہیں
۔۔۔اور کوی اس سوچ میں ہے

بستی پر بادل چھائے ہیں پر یہ بستی کس کی ہے
دھرتی پر امرت برسے گا لیکن دھرتی کس کی ہے
ہل جوتے گی کھیتوں میں الہڑ ٹولی دہقانوں کی
دھرتی سے پھوٹے گی محنت فاقہ کش انسانوں کی
فصلیں کاٹ کے محنت کش گلے کے ڈھیر لگائیں گے
جاگیروں کے مالک آکر سب پونجی لے جائیں گے
بوڑھے دہقانوں کے گھر ، بنیے کی قرقی آئے گی
اور قرضے کے سود میں کوئی گوری بیچی جائے گی
آج بھی جنتا بھوکی ہے کل بھی جنتا ترسی تھی
آج بھی رم جھم برکھا ہوگی کل بھی بارش برسی تھی

آج بھی بادل چھائے ہیں
آج بھی بوندیں برسیں گی
۔۔۔۔اور کوئی اس سوچ میں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ہراس

تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
میرے تخیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے
یوں اچانک ترے عارض کا خیال آتا ہے
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے

تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے مرے ذہن میں لہراتی ہے
رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
ترے انفاس، ترے جسم کی آنچ آتی ہے

میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کردوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے
رات کے خواب اجالے میں بیاں تو کردوں
ان حسین خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے

تیری سانسوں کی تھکن، تیری نگاہوں کا سکوت
درحقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم، وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو

سوچتا ہوں کہ تجھے مل کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مقسوم سمجھ لوں تو کہوں
میں ترے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں
تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں

کہیں ایسا نہ ہو پاوں مرے تھرا جائیں
اور تری مرمریں بانہوں کا سہارا نہ ملے
اشک بہتے رہیں خاموش سیہ راتوں میں
اور ترے ریشمی انچل کا کنارا نہ ملے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top