تلاش

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرے بے سہارا قلم 2005 کے آئے زلزلے کی تباہی کی طرح ذہن بوس ہو چکا تھا۔ ڈوبتی ہوئی Titanic کی مانند میں اپنا قلم بچانے کی ناکام کوششوں میں ہوں ۔ یہ جانتے ہوئے کہ اتنے وسیع و عریض سمندرمیں سوائے ٹھند سے برف ہوتی لاشؤں کے اور کچھ نہیں بچا ہے میں نے بھی امید کا آخری سرا تھامنے کی کوشش کی امید پر ہی تو دنیا قائم ہے میں نے سوچا۔ مجھے سوچوں کے گرداب سے نکلنے کے لئے ڈوبتی کشتی کا آخری حصہ تھامنا تھا اور میں نے تھام لیا۔ دور تک پھیلے سمندر کو کبوتر کی مانند آدھی آنکھیں کھول کر دیکھا اور سمندر کو بلی سمجھ کر آنکھیں موند لیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب مجھے اسی کی خوراک بننا ہے۔سوچوں کا بھنور دماغ کی نرم و نازک زمین پر یہاں وہاں پاگل کتے کی مانند کلبلاتا پھر رہا تھا میں اسے پکڑنے کے لئے بے چین ہوئی تھی۔ اچھے بھلے پرُسکون سمندر میں ٹائی ٹینک کے ڈوبنے سے شور برپا ہوا تھا اور اس شور کی گونج بہت دور تک سنائی دی تھی۔ دل کے دروازے پر دستک کی صورت بھونچال آیا تھا اتنی بڑی کشتی کا ڈوبنا کوئی عام بات نا تھی۔ اتنی تباہی کے بعد لامتناہی سوچوں کے سلسلے نے ذہن و دل پر ایک رقص کرنا شروع کر دیا تھا یوں لگ رہا تھا لعل شہباز قلندر کے دربار کے باہر شازیہ خشک مستی میں جھوم رہی ہو۔ غزہ کی سر زمین پر ٹوٹے بکھرے بے آسرا لاشے دیکھ کر بھی بے رحم آنکھوں میں پانی نہیں آپایا تھا! آنکھوں کی سوکھی چمڑی پتھر کو بھی پیچھے چھوڑ گئی تھی کہ اس میں بھی مسلسل بہتا پانی سوراخ کر دیتا تھا!
جذبات اور احساسات کو ایک کشتی میں بیٹھا کر میں نے پھر سے کوشش کی کہ ایک بار میرا اپنا کھویا قلم ڈھونڈ پاؤں ، ساری بتیاں بجھ گئیں تھیں وہاں کوئی آواز نا تھی ، خاموشی کسی ببر شیر کی طرح قبضہ جمائے غرا رہی تھی ۔ بڑی دور تک اس کی غراہٹ سے ڈرتے قدم اٹھاتی گئی، خود کو بہادری کا تمغہ پہنائے میں نے سارا جنگل اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چھان مارا پر وہاں ہریالی کا نام و نشان ہی نا تھا۔ بس ہر طرف قبریں ہی قبریں تھی مجھے ڈر تھا کسی قبر سے کوئی لاش بر آمد ہوگی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر لے جائے گی اور پھر میرا وجود یا میرےقلم کا کسی کو نام و نشان نہیں ملے گا۔ کسی خوبصورت مچھلی کے بچے کی مانند آنکھوں میں پانی بھی تیرنے لگا میں چند لمحوں میں اپنی آنکھیں رگید ڈالیں اور بے حس ہونے کی پوری کوشش کی جذبات اور احساسات نے ایک لمحے کو ہلچل مچائی اور پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگا ۔ اپنے اندر کے وحشی اور تاریک جنگل سے ناکام لوٹنے پر سخت مایوسی ہوئی۔ راستے میں غراتی خاموشی نے پورے زور سے حملہ کیا میں نے خود کو یقین دلایا کہ میں سب سے بہادر ہوں اور اس سے مقابلہ کرنے کی ڈھانی جونہی میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ایک ناکام کوشش کی ان میں پھیلی درندگی نے مجھ پر آگہی کا نیا در وا کیا مجھے اپنی بہادر اور اپنے قلم سے زیادہ اپنی جان کے لالے پڑ گئے اورمیں نے بزدلوں کی طرح واپس جانے کو قدم بڑھا دئیے ۔
 
آخری تدوین:
Top