میر تقی مِیؔر ::::::مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف::::::Mir -Taqi -Mir

طارق شاہ

محفلین

غزل
میرتقی میؔر

مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف
جاتا ہے صید آپ سے اِس دام کی طرف

دِل اپنا عدلِ داورِ محشر سے جمع ہے
کرتا ہے کون عاشقِ بدنام کی طرف

اِس پہلُوئے فِگار کو بستر سے کام کیا
مُدّت ہُوئی، کہ چُھوٹی ہے آرام کی طرف

یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو ،سو اب مُدام
رہتی ہے چشمِ ماہ تِرے بام کی طرف

آنکھیں جِنھوں کی زُلف و رُخ ِیار سے لگیں
وے دیکھتے نہیں سَحر و شام کی طرف

جُوں چشم یار بزم میں اُگلا پَڑے ہے آج
ٹک دیکھ شیخ مَے کے بَھرے جام کی طرف

خارا شگاف و سینہ خراش، ایک سے نہیں
لیکن نظر نہیں ہے تجھے کام کی طرف

دِل پک رہے ہیں جن کے اُنھیں سے ہَمَیں ہے شَوق
مَیلان طبع ، کب ہے کِسو خام کی طرف

دیکھی ہے جب سے، اُس بت کافر کی شکل میؔر!
جاتا نہیں ہے جی، تنک اِسلام کی طرف

میر تقی میرؔ

 
Top