تقلید

فاخر رضا

محفلین
سلام
مجھے یہاں ایک بات اور کرنی ہے، ہو سکتا ہے جلد ہی یہ لڑی مقفل ہوجائے مگر اگر یہ بات پوسٹ ہوگئی تو میرا مؤقف واضح ہوجائے گا اور اگر نہ ہو تو پیسے واپس. مزید وضاحت درکار ہو تو سوال کرسکتے ہیں
دین مبین اسلام کچھ اصولوں اور کچھ فروع پر مبنی ہے
مثلاً اللہ، رسول اور معاد (قیامت) پر یقین اصول ہیں
اسی طرح فروع بھی ہیں جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے مگر اصول جتنی نہیں
مثلاً نماز، روزہ، حج زکوٰۃ وغیرہ. ان کا منکر تو کافر ہے مگر غیر عامل کافر نہیں صرف گناہگار ہے اور ان کی قضا بھی انجام دی جاسکتی ہے
میرے محترم بھائی جن باتوں میں دلیل و برہان کی ضرورت لازمی ہے وہ توحید و نبوت و قیامت ہے. ہر شخص پر لازم ہے کہ ان کے لیے دلیل ڈھونڈے. ان معاملات میں تقلید حرام ہے اور مذموم ہے جیسا کہ کلام پاک میں ارشاد ہوا
إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى‏ أُمَّةٍ وَ إِنَّا عَلى‏ آثارِهِمْ مُقْتَدُون
ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
ترجمہ : جب انہیں کہا جاتا ہے کہ جو اللہ کی طرف سے اور اسکے رسول کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں :ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے ،کیا وہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کےآباؤ اجداد نہ کسی چیز کو جانتے ہیں اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔

اس کے مقابل احکامات ہیں جن میں تقلید مذموم نہیں بلکہ بعض اوقات ناگزیر ہے اور قرآن سے اس کے دلائل بھی ہیں. جیسا کہ ارشاد ہوا
و‌ما‌کانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون
اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔

فَس۔ئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون
ترجمہ :پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔
بات یہ ہے کہ رسول کریم کی وفات کے بعد لوگ ولایت کی نعمت سے دور ہوگئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک دردناک تاریخ ہے. اس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں. والسلام
میں سمجھتا ہوں کہ اس مراسلے کے بعد مزید کسی بات کی گنجائش نہیں بچتی. اگر اس کا جواب ہے تو بتائیں ورنہ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا. مجھے تقریباً یقین ہو چلا ہے کہ جو آپ نے لکھا تھا نہ تو وہ آپ کی سوچ تھی نہ آپ نے اسے ٹھیک سے سمجھا. بس میں نامانوں والی گردان یاد ہے. آپ بحث آگے بڑھا ہی نہیں سکتے ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے
 

فاخر رضا

محفلین
لکم دینکم ولی دین۔ اسکے بعد نہ تقلید کی ضرورت ہے نہ اجتہاد کی
یقیناً خدا کسی ایک آیت سے بھی انسان کو ایمان و عمل کے آخری درجے پر پہنچا سکتا ہے. ویسے یہ والی آیت سورہ کافرون میں آئی ہے اور مجھ سمیت سب ہی نے اسے استعمال کیا ہے. میرے خیال میں اس آیت کو اس کے مقام پر ہی استعمال کرنا چاہیئے. اس سے بہتر ہوتا اگر آپ سورہ زلزال کی آخری آیات نقل کرتے، یعنی ذرہ برابر نیکی و بدی کو انسان دیکھ لے گا. اس میں اعمال کا ذکر ہے. ہمیں کسی کے ایمان پر شک کرنے کا حق نہیں ہے
خدا مجھے معاف فرمائے
 

abuhuraira farooqi

محفلین
میں سمجھتا ہوں کہ اس مراسلے کے بعد مزید کسی بات کی گنجائش نہیں بچتی. اگر اس کا جواب ہے تو بتائیں ورنہ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا. مجھے تقریباً یقین ہو چلا ہے کہ جو آپ نے لکھا تھا نہ تو وہ آپ کی سوچ تھی نہ آپ نے اسے ٹھیک سے سمجھا. بس میں نامانوں والی گردان یاد ہے. آپ بحث آگے بڑھا ہی نہیں سکتے ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے
آپ کے الفاظ کی چاشنی آپ کے تبصرات پر پردہ نہیں ڈال سکتی نہ ماننے والی گردان شاید موصوف کو اچھی ٹرائی گئی ہے بات بڑھانی ہے تو میں اصولی بات کی ہے باقی میں نہ مانوں کا علاج میرے پاس نہیں ہے
 

abuhuraira farooqi

محفلین
میں سمجھتا ہوں کہ اس مراسلے کے بعد مزید کسی بات کی گنجائش نہیں بچتی. اگر اس کا جواب ہے تو بتائیں ورنہ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا. مجھے تقریباً یقین ہو چلا ہے کہ جو آپ نے لکھا تھا نہ تو وہ آپ کی سوچ تھی نہ آپ نے اسے ٹھیک سے سمجھا. بس میں نامانوں والی گردان یاد ہے. آپ بحث آگے بڑھا ہی نہیں سکتے ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے
آپ کے سمجھنے سے تو آپ کی سوچ کا ہر زاویہ تو درست ہو سکتا مگر یہ ضروری نہیں کہ حاضرین کو بھی اطمنان ہو اور اپنے اطمنان کےلئے آپ کا یہ اصول بہت اچھا ہے
بھائی ہر بات کو خاص عینک پہن کر نہ دیکھا کریں بسااوقات کچھ چیزیں بغیر عینک کے بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں
 
لکیر کے فقیر مت بنیں، اردو اور عربی میں تقلید کے معنی وسیع ہیں
ڈاکٹر، مکینک، معمار، درزی وغیرہ وغیرہ سے آپ جو مشورے لیتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں تیکنیکی لحاظ سے وہ بھی تقلید ہے.
الفاظ کے پیچھے بھاگنا جھکی پن کہلاتا ہے

صاحب دھاگا نے تقلید اور اتباع کا فرق قرآن پاک کے مطابق ذکر کیا ہے ناکہ اردو میں مستعمل ہونے کے حساب سے
 
تقلید کے لغوی معنی

تقلید کے لفظ کا مادہ "قلادہ" ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو "ہار" کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو "پٹہ" کہلاتا ہے۔

تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلد قلادۃ" کے معنی ہار پہننے کے ہیں؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنی میں استعمال ہوا ہے:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: "اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً"۔ (بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا،حدیث نمبر:۴۷۶۶، شامله، موقع الإسلام) ترجمہ:انہوں نے حضرت اسماءؓ سے ہار عاریۃً لیا تھا۔
 
تقلید کے اصطاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی:

دلیل کا مطالبہ کئے بغیر کسی امام مجتہدکی بات مان لینے اور اس پرعمل کرنے کے ہیں،

قاضی محمدعلی لکھتے ہیں:

"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔

(کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)

ترجمہ: تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی قول و فعل میں دلیل طلب کیئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
 
جائز وناجائز اتبا و تقلید
جس طرح لغت کے اعتبار سے کتیا کے دودھ کو بھی دودھ ہی کہا جاتا ہے اور بھینس کے دودھ کو بھی دودھ کہتے ہیں۔ مگر حکم میں حرام اور حلال کا فرق ہے اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت کے لئے اپنے گمراہ وڈیروں کی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئے تقلید کرے کہ میں مسائل کا براہ راستی استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کتاب و سنت کو ہم سے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلیے اس سے خدا و رسول ﷺ کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔

علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:

احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی.

عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانے-والا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اس طرح رسول الله صلے الله علیہ وسلم اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ. عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول_دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو"(٧:٣).

اسی طرح الله تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں"(٢:١٧٠)

اسی طرح الله تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام_حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم - حکم دینے والا), اللہ کو چھوڑ کر..."(٩:٣١)

دوسری قسم: احکام_شرعیہ، اور ان کی دو قسمیں ہیں:

١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی معنی نہیں.

٢) دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے.

اللّہ تعالٰیٰ کے قول "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧) کی دلیل سے.

اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام_شرعیہ کے استنباط (٤:٨٣) کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے. الله تعالٰیٰ کا ارشاد ہے: "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧)

حضرت ابن_عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگئے، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل_علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: ٢٨٤(٣٣٦)

دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہل_اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہ_علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.

مومن (اسلام کے ماننے والے) باپ دادا کی اتباع: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے...(٥٢:٢١) الفقيه والمتفقه: ٢ /١٢٨-١٣٣،علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ)، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ
 
تقلید مطلق
تقلید مطلق سے مراد یہ ہے کہ مسائل و احکام کی تحقیق میں انسان کسی ایکفقیہ کا پابند ہوکر نہ رہ جائے؛ بلکہ مختلف مسائل میں مختلف اصحاب علم سے فائدہ اٹھائے، یہ تقلید ہر زمانہ میں ہوتی رہی ہے، خود قرآن اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:

(1) "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ" کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:

"أُولِي الْأَمْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔

ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:

"أُولِي الْأَمْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔

فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {4:59}

پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.

مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:

"اولو الامر" کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالٰیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعالٰیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کی بعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن : 2/257]

(2) ... فَس۔َٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣)

...پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.

اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چنانچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) رح اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) رح اقلیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے.[تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]

حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے. الله تعالٰیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ... پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے. (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني » بَابُ الْمِيمِ » مَنِ اسْمُهُ : مُحَمَّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیر_در_منثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "أُولِي الْأَمْرِ" کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔


تقلیدِ شخصی

تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسا کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں.

مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:

"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "

[سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان; (جامع ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:۱۲۴۹، شاملہ، موقع الإسلام]

ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔

پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا.
 
کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے
درج بالہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مجتہد کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہ پائے تو اجتہاد کرسکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع و تقلید ضروری ہوگی.

مثال کے طور پر چند جدید مسائل_اجتہادیہ؛ جن کا واضح حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں:

١. ٹیلیفون کے ذریعے نکاح

٢. انتقال_خون(خون کا کسی مریض کو منتقل کرنا)

٣. اعضاء کی پیوند-کاری

٤. حالت_روزہ میں انجیکشن کا مسئلہ

٥. لاؤڈ-اسپیکر پر اذان کا مسئلہ

٦. ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ


کن کی تقلید کی جائے ؟

ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ

قیاس مظہر لامثبت (شرح عقائد نسفی)

یعنی ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت و اجماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں


کون تقلید کرے؟

مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں:

جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب و سنت پر عمل کرے گا

اور غیر مجتہد یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اس لیے کتاب و سنت کے ماہر سے پوچھ لوں کہ میں کتاب و سنت کا کیا حکم ہے۔ اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ اور مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدا اور مراد رسول ﷺ سے آگاہ کیا ہے۔
 
میرا تجربہ ہے کہ اکثر اوقات لوگ کسی موضوع پر اس لئے تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ اصل باعث تنازع بات کو ڈیفائن نہیں کرتے یعنی تعریف بیان نہیں کرتے اگر تعریف پر اتفاق کر لیا جائے تو شاید آدھے سے زیادہ اختلاف اسی وقت ختم ہوجائے۔ باقی رہی سہی کسر گفت و شنید سے پوری کی جاسکتی ہے۔ مگر اس کے لئے متعلقہ موضوع پر پورا مطالعہ ہونا چاہئے اور کانسیپٹ کلیر ہونا چاہئے اور یہ خوبی کسی عالم میں ہی ہوسکتی ہے کسی کا جذباتی خطاب سن کر خود جذباتی ہو کر ایسا دھاگہ کھول کر مقلدین پر تنقید کر لینا بہت آسان ہے مگر موضوع کے تقاضوں کو پورا کرنا بہت مشکل۔
ہم جیسے طالب علموں کو چاہئے کہ وہ اس مقولے پر عمل کیا کریں "اپنا چھوڑو مت اور کسی کو چھیڑو مت"
 

ہادیہ

محفلین
اپنے اپنے ظرف کی بات ہے بھائی۔
والسلام
پہلے تو اپنے مراسلوں میں تدوین کردی تھی ۔ آپ سب کے ظرف کی اعلی مثال اسی تھریڈ میں مل جاتی ہے۔ اور ڈاکٹر فاخر رضا جلتی پر تیل کا کام یہاں بہت سے لوگوں نے سنبھال رکھا ہے اس لیے ہادیہ ایسے کام نہیں کرتی۔ میرے عام سے مراسلے کو اپنی سوچ کے مطابق اچھا مطلب دیا ہے۔ بہت شکریہ دونوں صاحبان کا۔ اب اگر تسلی نہیں ہوئی تو مزید لکھ دیجیے گا۔ کیونکہ بہت آسان ہے دوسروں کے بارے میں اندازہ لگانا۔
 
تقلیدِ_شخصی حیات_نبوی (صلی الله علیہ وسلم) میں
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَسَّانَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرَّثَ أُخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌّ .(تیسیر کلکتہ : صفحہ#٣٧٩، کتاب الفرائض، فصل ثانی)

ترجمہ: أسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ (بن جبل رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔

فائدہ: اس حدیث سے تقلید_شخصی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی حیات_رسول الله صلے الله علیہ وسلم میں. کیونکہ جب رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے تعلیم_احکام اور فیصلوں کے لئے قاضی مقرر کرتے حضرت معاذ (رضی الله عنہ) کو یمن بھیجا تو يقينا اہل_یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلے میں ان سے رجوع کریں اور یہی تقلید_شخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا.


تقلیدِ_شخصی بعد حیات_نبوی (صلی الله علیہ وسلم)

(1) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ فَلَمْ أَجِدْكَ ؟ قَالَ أَبِي : كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ " [صحيح مسلم » كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ » بَاب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ ...رقم الحديث: 4405(2388)]

ترجمہ: حضرت محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لئے فرمایا، اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو؟) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے پاس آ جانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کی خلافت بلا فصل اور تقلید_شخصی ثابت اور واضح ہے, اس عورت کو آپ صلے الله علیہ وسلم سے مسئلہ ہی تو پوچھنا تھا.[جن احادیث میں سوال کا لفظ واضح لکھا ہے:

فائدہ: "من بعدی" سے ان کی تقلید_شخصی ثابت اور واضح ہے، پس ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلید_شخصی ہے. کیونکہ حقیقت_تقلید_شخصی یہ ہے کہ ایک شخص کو جو مسئلہ پیش آوے وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے اور اس سے تحقیق کر کے عمل کیا کرے. اور اس مقام میں اس کے وجوب سے بحث نہیں اور آگے مذکور ہے اس کا جواز اور مشروعیت اور موافقت اور سنّت ثابت کرنا مقصود ہے، گویا ایک معین زمانے کے لئے سہی.

(2) عن هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ ، قَالَ : " سُئِلَ أَبُو مُوسَى ، عَنْ بِنْتٍ ، وَابْنَةِ ابْنٍ ، وَأُخْتٍ ، فَقَالَ : لِلْبِنْتِ النِّصْفُ ، وَلِلْأُخْتِ النَّصْفُ " ، وَأَتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعْنِي ، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ ، وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى ، فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ " أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لِلْابْنَةِ النِّصْفُ ، وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ " . فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى ، فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ . [صحيح البخاري » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: 6269]

ترجمہ: حضرت هذيل بن شرحبيل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابن_مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو.- روایت کیا اس کو بخاری، ابو داود اور ترمذی نے

فائدہ: حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے اس فرمانے سے کہ ان کے ہوتے ہوے مجھ سے مت پوچھو، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لئے فرمایا ہے اور یہی تقلید_شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کر کے عمل کرے.


صحابہ_کرام رضی الله عنھم اور تقلید

اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرف_صحبت_نبوی کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه، متقی، خدا-پرست اور پاکباز تھے، مگر فہم_قرآن، تدبر_حدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے.

امام الفقیہ اور احد الاعلام حضرت امام مسروق رح (المتوفی ٢٣-ہجری) سے مروی ہے کہ میں نے اصحاب_رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے علم کی خوشبو حاصل کی تو میں نے ان کے علم کی انتہا چھ (٦) پر پائی، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبدالله، حضرت معاذ(بن جبل)، حضرت ابو درداء اور حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہم. میں نے ان کے علم کی خوشبو پائی تو مجھے تو مجھے ان کے علم کی انتہا حضرت علی اور حضرت عبدالله (بن مسعود) رضی الله عنہم پر ملی.طبقات ابن سعد:٢/٢٥، تذكرة الحفاظ:١/٢٤ و مقدمه ابن صلاح:٢٦٢ مع شرح العراقي، مستدرك حاكم:٣/٤٦٥، اور اس روایت پر امام حاکم اور امام ذہبی رح خاموش رہے یعنی جرح نہیں فرمائی]

معلوم ہوا کہ صحابہ_کرام رض بھی فقہ_دین (قرآن=٩:١٢٢) پر عمل-پیرا تھے اور اپنے دور کے چھے بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے. کتب_احادیث مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، تہذیب الآثار طبری، شرح معانی الآثار طحاوی،کتاب الآثار امام محمّد، کتاب الآثار امام ابی یوسف میں صحابہ اور تابعین کے ہزارہا فتاویٰ درج ہیں جن کے ساتھ دلائل مذکور نہیں، انہوں نے بلا-ذکر_دلیل یہ فتاویٰ صادر فرماتے، اور سب لوگوں نےبلا-مطالبہ_دلیل ان پر عمل کیا، یہ عمل اسلام میں پہلے دن سے آج تک تواتر سے ثابت ہے.
 
تقلید پر اجماع_صحابہ
اسی لئے امام غزالی (شافعی) رح فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع_صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل_ضروریات_دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]


ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر اجماع

ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:

اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔

اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے: رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ․ ورخصة: وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا: ۲۱۹۔

چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بےمہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:

(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔

ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)

(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:

وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع

یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)

(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین

یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امامکی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)

(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة

یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)

(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)

(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)

(۷)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:

أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہیامام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)

اصول دین یعنی عقائد میں تقلید جائز نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اصول دین میں ظن اور گمان پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ اعتقاد، دلیل و یقین محکم کا نام ہے اس کے برعکس احکام اور فروع دین میں تقلید کافی ہے، قابل ذکر بات ہے کہ اسلامی عقائد اور اعتقادات کے دو حصے ہیں- اس کا ایک حصہ اصول دین ہے اور اس کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اسلام کے محقق ہونے اور ایک انسان کے مسلمان ہونے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے ،مثلاًتوحید ورسالت کا اقرار-اللہ تعالیٰ کے وجود کا اعتقاد یا انبیاء علیهم السلام کی نبوت اور حضرت محمد صلی الله علیه وآلہ وسلم کی رسالت کا اعتقاد ، معاد و قیامت کا اعتقاد کہ انسان مرنے کے بعد دوباره زنده ہوں گے، تاکہ اپنے اعمال کی جزا پا سکیں، جیسے اصولوں پر اعتقاد رکھنا علم و یقین پر مبنی ہونا ہے، اس سلسلہ میں گمان اور دوسروں کی تقلید کرنا کافی نہیں ہے- عقائد کا دوسرا حصہ، اصول دین کی تفصیل اور جزئیات ہیں، مثال کے طور پر کہ کیا اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی عین ذات ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کتنی قسمیں ہیں، صفات فعلی کے کیا معنی ہیں؟ اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کی کیفیت کیا ہے کیا نبوت میں عصمت ضروری ہے یا نہیں؟ عصمت کے حدود کیا ہیں؟ کیا معاد جسمانی ہے یا روحانی؟ بہشت کی کیفیت کیا ہے؟ کیا اهل دوزخ ہمیشہ دوزخ میں ہوں گے یا نہیں؟ مشرکانہ باتیں کیا ہیں ،کفریہ اعمال کیا ہیں - اگرچہ یہ بھی عقائد و اعتقادات میں شمار ہوتے ہیں، جن کو ہم اعتقاد کے فروعی مسائل کہہ سکتے ہیں ان فروعی مسائل میں ہم باعتبار تعلیم ہم کسی مستند اور معتبر عالم کی اقتدا کرسکتے ہیں۔ ۔ واضح ہے کہ انسان ، اصول دین کے بارے میں اعتقاد اور یقین حاصل کرنے کے لیے ۔۔۔ تعبدی و نقلی دلیل کے عنوان سے ۔۔۔ آیات و روایات کی طرف رجوع نهیں کر سکتا ہے، کیونکہ اس صورت میں تسلسل لازم آتا ہے- اس کے برخلاف احکام اور فروع دین کو آیات و روایات کی طرف رجوع کیئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے- اس بنا پر، عقائد کا احکام سے موازنہ کرنا ایک بے جا موازنہ ہے- جس چیز کو احکام اور فروعات سے موازنہ کیا جا سکتا ہے، وہ عقائد کی تفصیلات اور جزئیات ہیں کہ ان میں تقلید کرنا جائز ہے، اگرچہ ان میں سےبہت سی چیزوں میں تقلید کرنا واجب اور ضروری نہیں ہے- مجتہد کی طرف رجوع کرنے اور مرجع تقلید کو پہچاننے کے سلسلہ میں دَور اور تسلسل لازم نهیں آتا ہے، کیونکہ مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے لیے علم و فقہ میں مہارت اور اس مجتہدکے ساتھ معاشرت کی ضرورت نهیں ہے، بلکہ معاشره میں شائع ہونے اور مشہور ہونے یا چند قابل اعتماد افراد کے بیان جیسی راہوں سے بھی مجتہد و اعلم کوپہچانا جا سکتا ہے-
 

فاخر رضا

محفلین
خالد محمود چوہدری
کیا بات ہے جوان، حق ادا کر دیا. دل سے دعائیں نکل رہی ہیں. بہت خوب. آپ نے بہت زیادہ محنت کی ہے ان باتوں کو لکھنے میں. خدا آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے اور آپ کو ہر غم سے دور رکھے.
آپ نے جو تحریر کیا ہے اس کے بعد کسی کے دل پر تالے ہوں وہ ہی آپ کی باتوں کا انکار کرسکتا ہے
آج مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اگر عقل استعمال کی جائے تو نتائج الگ الگ نہیں نکل سکتے.
 

فاخر رضا

محفلین
پہلے تو اپنے مراسلوں میں تدوین کردی تھی ۔ آپ سب کے ظرف کی اعلی مثال اسی تھریڈ میں مل جاتی ہے۔ اور ڈاکٹر فاخر رضا جلتی پر تیل کا کام یہاں بہت سے لوگوں نے سنبھال رکھا ہے اس لیے ہادیہ ایسے کام نہیں کرتی۔ میرے عام سے مراسلے کو اپنی سوچ کے مطابق اچھا مطلب دیا ہے۔ بہت شکریہ دونوں صاحبان کا۔ اب اگر تسلی نہیں ہوئی تو مزید لکھ دیجیے گا۔ کیونکہ بہت آسان ہے دوسروں کے بارے میں اندازہ لگانا۔
بات بات پر ناراض نہ ہوں ہادیہ. بار بار سوری کرنا پڑتا ہے
 

abuhuraira farooqi

محفلین
کاپی پیسٹ ہی کرنا ہے تو شاید یہ کام کسی کےلئے بھی مشکل نہیں۔۔۔
بات اتنی کی جائے جتنی ضرورت ہو۔۔۔
اور سرسری نظر سے اتنا ضرور محسوس ہوا کہ ساری کاپی پیسٹ میں میرے سوال کا کہیں بھی جواب دیا گیا اپنی مرضی ہی کے استدلال کرنے ہیں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں نہ مانوں کا علاج میرے پاس نہیں
 
Top