تقطیع کے اصول

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تقطیع کے اصول

عروضی اصطلاح میں تقطیع سے مراد یہ ہے کہ مصرع کے الفاظ کو اتنے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے کہ جتنے اس بحر میں ارکان ہیں ۔ تقطیع کے دوران مصرع کے الفاظ کو توڑ توڑ کر بحر کے ارکان پر اس طرح منطبق کیا جاتا ہے کہ ساکن حرف کے مقابل ساکن اور متحر ک حرف کے مقابل متحر ک حرف آجائے ۔
اس مضمون میں پہلے تقطیع کے بنیادی اصول بیان کیے جائیں گے ۔ بعد ازاں تقطیع کے کم و بیش پینتیس اصولوں کی تفصیل مراسلہ بہ مراسلہ پیش کی جائے گی۔

بنیادی اصول:
1۔ تقطیع میں حروف پر موجود حرکات کے تغیر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا یعنی زیر ، زبر اور پیش میں کوئی فرق نہیں ۔ باطل اور گلشن دونوں ایک ہی وزن فعلن پر ہیں ۔
2۔ تقطیع میں وہی حروف شمار یا محسوب کیے جاتے ہیں جو ملفوظی ہوں یعنی جن کا تلفظ ادا کیا جاتا ہے۔ وہ حروف جو لکھے تو جاتے ہیں لیکن تلفظ میں نہیں آتے انہیں تقطیع کرتے وقت نظر انداز (حذف) کردیا جاتا ہے۔ مثلاً لفظ خوش ( خش )کی تقطیع فع کے وزن پر کی جاتی ہے۔ اور بالکل کو بلکل پڑھتے ہوئے فعلن کے وزن پر تقطیع کیا جاتا ہے۔
3۔ تقطیع کرتے وقت صرف مندرجہ ذیل حروف ہی گرانے جائز ہیں ۔ ی ، ے ، و،ا ، ہ ، ء
4۔ نون غنہ کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا۔
5۔ مرکب حروف بھ ، پھ ، تھ، چھ، گھ وغیرہ کو ایک حرف مانا جاتا ہے ۔
6۔ تقطیع میں لازم نہیں کہ ایک رکنِ واحد کے مقابل لفظِ واحد ہی آئے ۔ ایک رکن کے مقابل ایک سے زیادہ الفاظ بھی آسکتے ہیں ۔مثلاً خبر ہوگی مفاعیلن کے وزن پر ہے ۔ اسی طرح ایک لفظ کا ایک حصہ ایک رکن میں اور دوسرا حصہ دوسرے رکن میں آسکتا ہے ۔ مثلاً : ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ( فعولن فعولن فعولن فعولن ) کی تقطیع یوں ہو گی: ابھی عش۔ ق کے ام۔ تحا او۔ ربھی ہے
7۔مشدد حرف (وہ حرف جس پر تشدید ہو) چونکہ دو بار پڑھا جاتا ہے اس لئے اسے تقطیع میں دو دفعہ شمار کرتے ہیں ۔ پہلا حرف ساکن اور دوسرا متحرک ۔ امّی ، ابّا اور بچّے تینوں کا وزن فعلن ہے۔
8۔ تنوین کو ایک حرف یعنی نون شمار کیا جاتا ہے کیونکہ تلفظ میں اس کی آواز نون ساکن کی ہوتی ہے ۔ یقیناً (یقینن)کو فعولن کے وزن پر تقطیع کیا جائے گا اور ضرورتاً (ضرورتن) کو مفاعلن کے وزن پر۔
9۔ الف ممدودہ یا الف مدہ (آ) کو دو الف کے برابر تقطیع کیا جاتا ہے مثلاً آخر کا وزن فعلن ہوگا ۔

۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ساکن حروف کی تقطیع کے اصول

(۱) تقطیع کرتے وقت کسی لفظ کےمتحرک حرف کو ساکن کرنا جائز نہیں ۔
لفظ کے درمیان میں آنے والے ساکن حرف کو متحرک کرنا جائز نہیں ۔
لیکن لفظ کے آخر میں آنے والے ساکن حروف کے اصول مندرجہ ذیل ہیں۔

(۲) اگر کسی لفظ کے آخری دو حروف ساکن ہوں تو دوسرے حرف کو موقوف کہتے ہیں ۔ اگر مصرع میں ایسا کوئی لفظ آجائےتو تقطیع کرتے وقت موقوف حرف کو متحرک کردیا جاتا ہے۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
فاعلاتن مفاعلن فعلن
تم مرے پا۔ سہوتہو۔ گویا
اس مصرع میں لفظ پاس کے سین کو بحر کے وزن پر ڈھالنے کی خاطر متحرک کردیا گیا۔

(۲) جس لفظ کے آخر میں تین ساکن حروف ہوں اور وہ لفظ مصرع کے شروع یا درمیان میں آجائے تو پہلا حرف ساکن رہے گا جبکہ دوسرا متحرک اور تیسرا تقطیع سے ساقط ہو جائے گا یعنی تقطیع میں نہیں لیا جائے گا۔ لیکن ایسے الفاظ اردو میں بہت کم ہیں ۔ مثلاً دوست ، برداشت ، زیست ، برخواست وغیرہ۔
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
دو سہوتا – نہی ہرہا۔ تھ ملانے ۔ والا
اس مصرع میں دوست کی ت ساقط کردی گئی۔

(۳) اگر تین ساکن حروف مصرع کے آخر میں آئیں تو پہلے دو ساکن رہیں گے جبکہ تیسرا تقطیع سےساقط ہو جائے گا۔
اے عزیزاں مجھے نہیں برداشت
فاعلاتن مفاعلن فعلن
اے عزیزا ۔ مجھے نہی ۔ برداش

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلان
کو نروتا ۔ ہکسی او - رکخاطر - اے دوس

(۴) اگر الف سے پہلے دو ساکن حروف ہوں تو الف کو گرا کر دوسرے ساکن کو متحرک کر دیا جاتا ہے۔
اڑا کرتا ہے رستے سے الگ ہٹ کر غبار اپنا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
اڑا کرتا - ہرستے سے ۔ الگ ہٹ کر ۔ غبارپنا

غبار کی ر کو متحرک کرکے اپنا کا الف گرادیا گیا۔ اس کی مزید تفصیل الف کی تقطیع کے اصولوں میں آگے آئے گی۔

(۴) اگر الف سے پہلے تین ساکن ہوں تو پہلا حرف ساکن اور دوسرا متحرک ہوجائے گا ۔ پھر الف کو گرا کر تیسرے ساکن کو بھی متحرک کر دیا جائے گا۔
نہ دوست اور نہ کسی کا کوئی عدو نکلے
اگر یہ نقش مٹادیں تو تُو ہی تُو نکلے
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
ندو-ستر -نکسی کا۔ کئی عدو- نکلے
اس میں دوست کے سین اور ت کو متحرک کرکے اور کا الف گرادیا گیا۔

نوٹ: لفظ اور کو ار کے وزن پر تقطیع کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الف کی تقطیع کے اصول

(۱)الف جب مصرع کے شروع میں آتا ہے تو قطعی نہیں گرایا جا سکتا۔

آئے ہے بیکسیِ عشق پہ رونا غالب
یا

اب یادِ رفتگان کی بھی ہمت نہیں رہی

(۲)الف جب دو ساکن حروف کے درمیان آجائے تو اس کی حرکت پہلے والے ساکن حرف کو دے دی جاتی ہے اور وہ الف تقطیع میں نہیں لیا جاتا۔
نقاب اک دن الٹ دینا تھا اس روئے دل آرا کو
ہم اپنا سا بنا لیتے کبھی تو اہل دنیا کو
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
نقابِک دن ۔ الٹ دینا ۔ تھ اُس روئے ۔ دلا را کو
ہمپنا سا ۔ بنا لیتے ۔ کبھی تو اِہ ۔ لدنیا کو
نقاب اک کا الف اور ہم اپنا کا الف دونوں تقطیع سے گرادیے گئے ہیں اور الف کی حرکت اس سے پہلے کے ساکن حرف کو دے دی گئی ہے۔ یعنی اک کے الف کی حرکت نقاب کی ب کو اور اپنا کے الف کی حرکت ہم کے میم کو دے دی گئی ہے۔
نوٹ: مندرجہ بالا الف کا گرانا لازم نہیں ، جائز ہے ۔ حسبِ ضرورت ایسے الف کو گرایا بھی جاسکتا ہے اور تقطیع میں شمار بھی کیا جاسکتا ہے۔

(۳) وہ مختصر حروف جن کا الف اکثر گرادیا جاتا ہے : کا ، سا ، تھا ، گا وغیرہ

(۴) ہندی یا ہندوستانی الفاظ کے آخر میں آنے والا الف حسبِ ضرورت گرایا جاسکتا ہے ۔ مثلاً میرا ، تیرا ، کھایا ، دیکھا ، بیٹھا

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ڈرے کو مے ۔ رقاتل کا ۔ رہے گا اس ۔ کگردن پر
اس مصرع میں میرا کا الف ساقط کردیا گیا ہے۔

(۵) الف ممدودہ یعنی آ کو د و حروف کے برابر لیا جاتا ہے۔ اگر الف ممدودہ مصرع کے شروع میں آئے تو ہمیشہ دو حروف کے برابر شمار کیا جاتا ہے ۔ لیکن اگر مصرع کے درمیان میں ہو تو مندرجہ بالا اصولوں کے تحت ان میں سے ایک الف کو گرایا بھی جاسکتا ہے۔
اپنی قربت کے سب آثار بھی لیتے جانا
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن
اپن قر بت ۔ ک سبا ثا۔ ربھلے تے ۔ جانا
یہاں آثار کے الف ممدودہ کو ایک حرف تقطیع کیا گیا ہے ۔

(۶) وہ عربی الفاظ جو الف لام سے شروع ہوتے ہیں ان کا الف تقطیع میں نہیں لیا جاتا ۔ جیسے دارالحکومت، عبداللہ ، بیت المال وغیرہ ۔ یہ الف لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ۔ یعنی یہ الف مکتوبی ہے ،ملفوظی نہیں ۔ اس الف کو عربی میں ہمزۃ الوصل بھی کہا جاتا ہے۔


۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top