تعویذ گنڈے کی شرعی حیثیت

x boy

محفلین
تعویذ گنڈے کی شرعی حیثیت

تحریر : ابو عبداللہ عنایت اللہ سنابلی
-----------------------
تعویذ کی لغوی واصطلاحی تعریف:

اردو میں مستعمل لفظ ”تعویذ“ کا عربی نام ”التمیمة“ ہے۔ عربی زبان میں ”االتمیمة‘ کے معنی اس دھاگے، تار ، یا گنڈے کے ہیں، جسے گلے یا جسم کے کسی اور حصے میں باندھا جائے۔

اصطلاح میں تمیمة کسے کہتے ہیں اس سلسلے میں حافظ ابن حجر اور ابن الأثیر الجزری وغیرہ اہل علم کی تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھاگے، گنڈے اور تیر کے تانت ہیں جنھیں اہل عرب جاہلیت میں انسانوں ، جانوروں یا گھروں وغیرہ پر کسی متوقع یا بالفعل واقع شر مثلاً، مرض، نظربد، بخار ، جادو، ٹونے اور ٹوٹکے یا دیگر آفات ومصائب وغیرہ سے حفاظت کی خاطر لٹکایا کرتے تھے ، جسے اسلام نے حرام قرار دیاہے۔(فتح الباری،10/166، والنھایة، 1/19۔

اہل علم کی تعریف کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ہر وہ شے جسے کسی متوقع یا بالفعل واقع شر کے دفع کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ، اور اس شر کے دفع کرنے میں اسے موٴثر سمجھا جائے وہ تمیمة کے حکم میں داخل ہے ، خواہ وہ دھاگے، کاغذات، لکڑی کی کھپچیاں، معادن (سونے ، چاندی، تانبے، پیتل، اور لوہے وغیرہ) یا گھوڑے کے نعل یا اس طرح کی کوئی بھی چیز ہو۔

تمیمہ (تعویذ)کا حکم:تعویذ کی دو قسمیں ہیں:

۱- وہ تعویذ جو قرآ نی آیات، ادعیہٴ ماثورہ کے علاوہ سے بنائی جائے۔

۲- وہ تعویذ جو قرآ نی آیات، اسماء وصفات الٰہی اورادعیہٴ ماثورہ سے بنائی جائے۔

پہلی قسم: غیرقرآن سے بنائی گئی تعویذ کا حکم

ایسی تعویذ لٹکانا بالاتفاق حرام ہے،اس کی دلیلیں کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں:

۱- قرآن کریم میں شل کا ارشاد ہے: ﴿وان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشف لہ الا ھو، وان یمسسک بخیر فھو علی کل شی ء قدیر﴾۔”اور اگرشتمھیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والاش کے سوا اور کوئی نہیں، اور اگر تمھیں شد کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے“(الأنعام:17)

۲- نیز ارشاد ہے: ﴿وان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشف لہ الا ھو،وان یردک بخیرٍ فلا رادّ لفضلہ یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھو الغفور الرحیم﴾۔”اور اگر ش تمھیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والاش کے سوا اور کوئی نہیں، اور اگروہ تمھیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والاکوئی نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے“ (یونس:107)۔
ان آیا ت کریمہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ہر طرح کے شر اور مصائب و بلیات کا دور کرنے والا صرف اور صرف شل ہی ہے ، لہٰذا ان تعویذوں کا لٹکانا اور انھیں ان مصائب وبلیات کے دور کرنے میں موٴثر سمجھناشل کے حکم کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔

احادیث رسول ﷺ میں تعویذ اور گنڈے کی حرمت کی بے شمار دلیلیں موجود ہیں، بغر ض اختصار چند کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:

۱- عن عمران بن الحصین أن النبي ﷺ رأی رجلاً في یدہ حلقة من صفر فقال ما ھذہ ؟ قال: من الواھنة ، قال انزعھا فانھا لا تزیدک الا وھناً فانک لو مت وھيعلیک ما أفلحت أبداً“ (احمد،4/445، والحاکم، 4/216، وصححہ ووافقہ الذھبی)۔ ”حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہشکے رسول ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا تھا ، تو آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: واھنہ(ایک بیماری جس سے کندھے یا بازو کی رگیں پھول جاتی ہیں)کے سبب ، آپ نے فرمایا: اسے نکال دے کیونکہ اس سے تیری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا، اور اگراسی حالت میں تیری موت واقع ہو گئی تو تو کبھی کامیاب نہ ہوگا“۔

۲- قال النبيﷺ :”من تعلق تمیمة فلا أتم اللہ لہ، ومن تعلق ودعة فلا ودع اللہ لہ“ (مسند احمد: 4/154۔ والحاکم: 4/216 وصححہ ووافقہ الذھبی)۔ ”جس نے تعویذ لٹکایا ش اس کی مراد پوری نہ کرے، اور جس نے سیپ لٹکائی ش اسے آرام نہ دے“۔

۳- حضرت عقبہ بن عامر جہنیصسے مروی ہے کہ رسول ش ﷺ کے پاس دس آدمیوں کا ایک وفد آیا، آپ نے ان میں سے نو(۹) افراد سے بیعت کی اور ایک سے نہ کی، انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے نو سے بیعت کی اور ایک کو چھوڑ دیا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اس لیے کہ اس نے تعویذ لٹکا رکھی ہے، اس شخص نے ہاتھ ڈال کر تعویذ کاٹ کر پھینک دی ، پھرآپ ﷺ نے اس سے بیعت کی اور فرمایا:” جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا“ ۔(احمد:4/156۔ والصحیحہ للألبانی، رقم/492)

۴- حضرت حذیفہ رض ایک مریض کے پاس آئے تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک دھاگا بندھا ہوا ہے، چنانچہ آپ نے اسے کاٹ کر پھینک دیا اور فرمایا:﴿وما یوٴمن أکثرھم باللہ الا وھم مشرکون﴾، ” اور ان میں سے اکثر لوگش ل پر ایمان لا نے کے باوجود بھی مشرک ہیں“(یوسف:106)۔
۵- حضرت عبد اللہ بن مسعود رض فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:”ان الرقیٰ والتمائم والتولة شرک“ ۔”جھاڑ پھونک، (نظر بد یا کسی بھی مرض سے حفاظت کے لیے) تعویذ ، گنڈے لٹکانا، اور میاں بیوی میں محبت وغیرہ کی خاطر کیا جانے والا عمل شرک ہیں“ (صحیح ابن ماجہ للألبانی:2/269۔ ومسند احمد،1/381)۔

ان تمام احادیث سے قطعی طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تعویذ ، گنڈے، چھلے اور کڑے وغیرہ کسی بھی غرض سے لٹکانا شر ک ہے اور حرام ہے۔

دوسری قسم: قرآن کریم، اسماء وصفات الٰہی اور ادعیہ ماثورہ سے تعویذ لٹکانے کا حکم:

تعویذ کی اس قسم کے سلسلے میں سلف صالحین، صحابہ کرام ، تابعین عظام، وغیرہم کی دو رائیں ہیں:

۱- قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ثابت دعاوٴں کے ذریعے تعویذ لٹکانا حرام تعویذ کے حکم میں شامل نہیں ہے، بلکہ وہ جائز ہے، یہ رائے سعید بن المسیب ،عطاء، ابو جعفر باقر، امام مالک،امام قرطبی، علامہ ابن عبد البررحمہم ش وغیرہم کی ہے۔

۲- قرآن کریم اور ادعیہٴ ماثورہ سے بھی تعویذ لٹکانا جائز نہیں، یہ رائے حضرت ابن عباس ، ابن مسعود، حذیفہ، عقبہ بن عامر، ابن عکیمث، ابراہیم نخعی، ابن العربی ، امام محمد بن عبد الوہاب نجدی ، شیخ عبد الرحمن السعدی ،حافظ حکمی، شیخ محمد حامد الفقی، اور معاصرین میں سے محدث عصر علامہ البانی اور مفتی عصر علامہ ابن بازرحمہ اللہ ہے۔

پہلی رائے کی دلیلیں حسب ذیل ہیں:

۱- فرمان باری:﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمة للموٴمنین﴾۔ ”اور ہم قرآن کریم میں ایسی چیزیں اتارتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفااور رحمت ہیں“ (الاسراء:82)۔(اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کو شفاکہا گیا ہے)

۲- حضرت اماں عائشہ رضی ش عنہانے فرمایا کہ: ”(تمیمہ) تعویذ اسے کہتے ہیں جسے کسی مصیبت کے لاحق ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ اس کے بعد“ (البیہقی: 9/351)۔

۳- حضرت عبد اللہ بن عمر و ص کا عمل: آپ سے مروی ہے کہ آپ اپنے نابالغ بچوں کے گلے میں گھبراہٹ کی درج ذیل دعا لکھ کر لٹکایا کرتے تھے: ”بسم اللہ أعوذ بکلماتاللہ التامات …“ (احمد: 2/181۔ والترمذی:3528 وحسنہ)۔

دوسری رائے والوں نے ان دلائل کے جواب اس طرح دیئے ہیں:

۱- مذکورہ آیت کریمہ مجمل ہے، جس کی تفصیل احادیث رسول میں شرعی جھاڑ پھونک ،اورقرآن پڑھ کرمریض پر دم کرنے کی شکل میں موجودہے، جس میں تعویذ بنانے کا کہیں ذکر نہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام ثسے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔

۲- حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ اثر مجمل ہے ، اور اس میں قرآن کو تعویذ بنا کر لٹکانے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں صرف تمیمہ( تعویذ) کی ماہیت کا بیان ہے۔

۳- جہاں تک عبد اللہ بن عمروص کی روایت کا تعلق ہے تو وہ صحیح نہیں، کیونکہ محمد بن اسحاق نے جو کہ مدلس ہیں ، لفظ ”عن“ سے روایت کیا ہے، (صحیح سنن أبو داود للألبانی: 2/737۔ والسلسلة الصحیحة: 1/585)۔

نیز شیخ محمد حامد الفقی اس روایت پر تعلیقاً فرماتے ہیں: ” یہ روایت ضعیف ہے، مزید بر آنکہ اس سے مدعا ثابت بھی نہیں ہوتا ، کیونکہ روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ مذکورہ دعا بڑے بچوں کو یاد کراتے تھے ، اور چھوٹے بچوں کے گلوں میں اسی غرض سے تختیوں پر لکھ کر لٹکا دیتے تھے، لہٰذا اس کا مقصدیاد کرانا تھانہ کہ تعویذ بنانا ، دوسری بات یہ ہے کہ تعویذ کاغذوں پر لکھی جاتی ہے نہ کہ تختیوں پر“(فتح المجید:142)۔

دوسری رائے کی دلیلیں حسب ذیل ہیں:

۱- تعویذ کی حرمت کی دلیلیں عام ہیں، (جیسا کہ سابقہ سطور میں گزرا) اور ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے قرآنی تعویذوں کے جواز کی تخصیص ہوتی ہو۔

۲- اگر قرآنی تعویذیں لٹکانا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا ، جیسا کہ قرآنی آیات وغیرہ سے جھاڑ پھونک کے جواز کی وضاحت فرمائی ہے، بشرطیکہ شرکیات پر مشتمل نہ ہوں، ارشاد نبوی ﷺ ہے:”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقیٰ مالم تکن شرکا“ ،”مجھ پر اپنے رقیے (دم کے الفاظ) پیش کرو، ایسے رقیوں میں کوئی حرج نہیں جو شرکیات پر مشتمل نہ ہوں“ (مسلم)۔

۳- صحابہ کرام ثکے اقوال تعویذوں کی حرمت کے سلسلے میں منقول ہیں، اور جن بعض صحابہ سے جواز کی بات منقول ہے وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور صحابہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو غیروں سے زیادہ جاننے والے تھے، اسی طرح تابعین کے اقوال بھی معروف ہیں، ابراہیم نخعی صحابہ کرام ثکے بارے میں فرماتے ہیں:”کانوا یکرہون التمائم کلہا من القرآن وغیر القرآن“، ”صحابہ قرآنی اور غیرقرآنی دونوں قسم کی تعویذوں کو ناپسند کرتے تھے“ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7/374)۔

۴- شریعت اسلامیہ میں ذرائع کا سد باب ضروری ہے، تاکہ شرکیہ تعویذیں قرآنی تعویذوں سے گڈمڈ نہ ہوجائیں۔

۵- قرآنی تعویذوں کا لٹکانا قرآن کی بے ادبی اور اس کی حرمت کی پامالی کا سبب ہے ، مثلاً اسے لٹکاکر لیٹرن ، باتھ روم اور دیگر غیر مناسب جگہوں پر جانا، اسی طرح ہمبستری، حالت احتلام اور حیض ونفاس کی حالت میں اسے لٹکانا وغیرہ قرآن کی بے ادبی ہے اور یہ حرام ہے۔

۶- قرآنی تعویذوں کے جائز قرار دینے سے (جبکہ اس کا جواز وعدم جواز مشکوک ہے) قرآن کے شرعی علاج (دم وغیرہ)کوجو کہ جائز ہے معطل قرار دینا لازم آتا ہے۔

سلف صالحین حضرات صحابہ وتابعین ، ائمہ و محدثین کرام اور دیگر اہل علم کی رائے کے مطابق یہی بات راجح اور صحیح بھی ہے کہ تعویذ خواہ قرآنی ہو یا غیر قرآنی اس کا لٹکانا حرام ہے جیسا کہ ہر دو فریق کے دلائل کا علمی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔

تعویذ ماضی اور حال کے آئینے میں:

عہد جاہلیت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ لٹکانا اور غیرش سے مدد طلبی کفار ومشرکین کا شیوہ وشعار تھا، ارشاد باری ہے

:﴿وأنہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوہم رھقاً﴾ ،
”اور انسانوں میں سے بعض لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ لیتے تھے، تو اس سے ان لوگوں کی سر کشی میں اور اضافہ ہوگیا“(الجن:6)۔

غرض ان میں مختلف ناموں سے معروف کثرت سے تعویذوں کا رواج تھا، جنھیں وہ بچوں پر جن شیاطین، نظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے، میاں بیوی میں محبت کے لیے ، اسی طرح اونٹوں، گھوڑوں، اور دیگر جانوروں پر نظر بدوغیرہ سے حفاظت کے لیے لٹکایا کرتے تھے، جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی مقاصد کے لیے آج بھی بہت سارے مسلمان اپنی گاڑیوں کے آگے یا پیچھے جوتے یا چپل، آئینوں پر بعض دھاگے اور گنڈے لٹکاتے ہیں، اسی طرح بعض مسلمان اپنے گھروں اور دوکانوں کے دروازوں پر گھوڑے کے نعل وغیرہ لٹکاتے ہیں، یا مکانوں پر کالے کپڑے لہراتے ہیں،غور کریں کیا جاہلیت میں کیے جانے والے اعمال اورموجودہ مسلمانوں کے اعمال میں کوئی فرق ہے؟

اسی طرح بعض لوگ بالخصوص عورتیں نظر بد وغیرہ سے بچاوٴ کے لیے بچوں کے تکیے کے نیچے چھری ،لوہا، ہرن کی کھال ، خرگوش کی کھال، اور تعویذیں وغیرہ رکھتی ہیں یا دیواروں پر لٹکاتی ہیں، یہ ساری چیزیں زمانہ جاہلیت کی ہیں، جن سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر۔

آپ کہیں سے نقل کر کے من و عن یہاں چسپاں کر دیتے ہیں۔ مراسلہ پوسٹ کرنے سے پہلے اس پڑھ لیا کریں تاکہ املاء کی غلطیاں دور کر سکیں۔ اس تحریر میں بھی املاء کی کئی ایک غلطیاں ہیں۔ ان غلطیوں کی وجہ سے مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ اس لیے احتیاط کیا کیجیے۔

مندرجہ بالا مراسلے میں جہاں بھی "اللہ" آنا چاہیے تھا، وہاں پر حرف ش لکھا ہوا ہے۔
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ خیر۔

آپ کہیں سے نقل کر کے من و عن یہاں چسپاں کر دیتے ہیں۔ مراسلہ پوسٹ کرنے سے پہلے اس پڑھ لیا کریں تاکہ املاء کی غلطیاں دور کر سکیں۔ اس تحریر میں بھی املاء کی کئی ایک غلطیاں ہیں۔ ان غلطیوں کی وجہ سے مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ اس لیے احتیاط کیا کیجیے۔

مندرجہ بالا مراسلے میں جہاں بھی "اللہ" آنا چاہیے تھا، وہاں پر حرف ش لکھا ہوا ہے۔
بہت شکریہ
ان شاء اللہ اس بات کا خیال کرونگا۔
جہاں سے لیا ہے وہاں تو صحیح ہے یہاں کیوں ہوا ایسا وجہ معلوم نہیں۔
 
آخری تدوین:
Top