تعمیرِ وطن کا خواب

عینی مروت

محفلین
ایک جذبۂ امید وطنِ عزیز اور اپنے ہم وطنوں کے نام ۔۔۔۔
٭

ٍتعمیرِ وطن کا خواب

میرے، حالات کے مارے ہوئے لوگو!۔
وطن میں چار سو پھیلی
فضائے بدگمانی،غربت و افلاس ،
بد امنی سے تم نومید نہ ہونا
یہ جو قلب و نظر میں ٹوٹتی امید کے لرزاں دیے
آلام کے طوفاں کی زد میں ہیں
انہیں بجھنے نہ تم دینا
وہی ارضِ وطن ہے یہ۔۔۔۔!
جہاں پرکھوں نے خود اپنے لہو سے۔۔
فکرِ نو کے نام اک تحریر لکھی تھی۔۔
نئی آزاد صبحوں کی حسیں تقدیر لکھی تھی!
فضاؤں میں ابھی بھی ان پرستارانِ حر کے نعرۂ تکبیر
کی تاثیر باقی ہے
مگر اک خواب جو دیکھا کئی بے چین آنکھوں نے
وہی تعبیر ادھوری ہے
اسی تعبیر کی تکمیل باقی ہے!۔
یہ دھرتی پھر ہمیں آواز دیتی ہے!۔
میرے لوگو!۔
میرے دیوار و در کی خستگی کی خیر
ہمیں اس گھر کی دیواروں کو یوں مسمار ہونے سے بچانا ہے
کہ خشتِ عزم سے اس کی فصیلوں کی
نئی تعمیر باقی ہے
میرے پرچم کی پیشانی پہ اب بھی
بخت کا تارادمکتا ہے
ہمیں اسکو کبھی بھی سرنگوں ہونے نہیں دینا
میرے لوگو! کبھی نومید نہ ہونا
مصائب کی شبِ تاریک سے اک دن
کبھی تو صبحِ نو کا،آس کا سورج نکلنا ہے
کبھی تو وقت کی بےرحم موجوں کا
ہمیں دھارا بدلنا ہے

تبھی تعمیرِ ملک و قوم کے اس خواب کو۔۔۔
تعبیر کا اعزاز ملنا ہے!۔

٭

نورالعین عینی

 

ندیم مراد

محفلین
ایک بار تحریک آزادی پر بات ہو رہی تھی، سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے کہ ایک خاتون جو میری رشتہ دار بھی ہیں ، کہنے لگیں " مجھے تو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور جناح صاحب نکل کھڑے ہوئے چھینی ہتھوڑا لیکر تعمیر وطن کے لئے،"
سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے ،
میری رائے یہ ہے کہ " آج ساٹھ سالوں سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ آزادی کے نام پر مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی یہ سازش کس کی تھی اور آلہء کار کون تھا، نصاب سے ہٹ کر تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ علماء ہند کی 100 سالہ تحریک آزادی جو قربانیوں سے اقتباس ہے، قطعا تقسیم کے لئے نہ تھی، "
سوچئے گا ضرور
 

arifkarim

معطل
ایک بار تحریک آزادی پر بات ہو رہی تھی، سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے کہ ایک خاتون جو میری رشتہ دار بھی ہیں ، کہنے لگیں " مجھے تو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور جناح صاحب نکل کھڑے ہوئے چھینی ہتھوڑا لیکر تعمیر وطن کے لئے،"
سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے ،
میری رائے یہ ہے کہ " آج ساٹھ سالوں سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ آزادی کے نام پر مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی یہ سازش کس کی تھی اور آلہء کار کون تھا، نصاب سے ہٹ کر تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ علماء ہند کی 100 سالہ تحریک آزادی جو قربانیوں سے اقتباس ہے، قطعا تقسیم کے لئے نہ تھی، "
سوچئے گا ضرور


پھر وہی سازشی تھیوری! یہ سچ ہے کہ اسلامی علماء ہند تقسیم ہند کے حق میں نہ تھے اور اسی لئے انہوں نے سیکولر پاکستان کی مخالفت کی اور آج تک کررہے ہیں جہاں وہ اپنا من پسند مولویانہ "شرعی" نظام جبرا نافظ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر تو بھارت بھی ہے تو پھر پاکستان کس حوالہ سے بہتر منصوبہ تھا؟ یہ اس زمانہ کے سیکولر مسلمان سیاست دانوں، متفکرین کو اسلئے کرنا پڑا کیونکہ ایک آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں کے مقابلہ میں کہیں کم تھی۔ چونکہ بھارتی کانگریس کا منشور مغربی سیکولر تھا یعنی ایک آدمی، ایک ووٹ، یوں مسلم لیگ کو یہ مسئلہ درپیش آیا کہ مستقبل میں ہندوؤں کی اکثریت محض اپنی ووٹنگ کی طاقت سے مسلمان اقلیت کو دبا کر رکھے گی۔ اور یہ خوف آزادی کے بعد بالکل سچ بن کر سامنے آیا جب آزاد بھارت میں 60 سے زائد برس گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں کی حالت دو ٹکے کے شہری جیسی ہے۔ انکو ملازمت، تعلیم، الغرض زندگی کے ہر میدان میں ہندو اکثریت کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ترقی کی رفتار اپنی اتنی بڑی آبادی اور وسائل کے باوجود چین جیسے ممالک کے سامنے انتہائی کم ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے بعد پاکستانی اپنے ملک کو اس احسن انداز میں چلاتے کہ باقی بھارتی مسلمان جو آزادی کے بعد وہاں رہ گئے تھے خود ہجرت کر کے آہستہ آہستہ یہاں آکر آباد ہو جاتے۔ لیکن ظلم و ستم، فرقہ واریت، فوجی آمریت اور غیر ملکی سیاسی مداخلت کی آگ جو تقسیم ہند کے بعد یہاں لگی تھی اسنے20 سال کے اندر اندر خود ہی پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیئے اور تب سے یہ دو قومی نظریہ جو پاکستانی تحریک کا نظریہ تھا تباہ ہوگیا۔ تب سے بنگلہ دیش آزاد ہوگیا اور پاکستانیوں کا یہ جھوٹا نظریہ بھی فیل ہوگیا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان پر "قبضہ" کی خاطر پاکستان کے دو ٹکڑے کئے کیونکہ اگر قبضہ اسکا اصل مقصد ہوتا تو سقوط ڈھاکہ کے بعد اسکو بھارت کا ایک صوبہ کیوں نہیں بنا دیا گیا؟ اصل بات وہی ہے کہ بنگالی مسلمانوں یا پاکستانیوں نے آزادی مملکت خداداد پاکستان سے اسکے ظلم و ستم اور عدل کی غیر موجودگی کی وجہ سے حاصل کی جو پاکستان کی پیدائش سے انکو نہیں ملا تھا۔ جیسے بنگالی اپنی زبان کے سرکاری استعمال کا مطالبہ کرتے تھے۔ مغربی پاکستان نے انپر اردو مسلط کردی ۔ 1970 کے جنرل الیکشن میں جیت مشرقی پاکستانی پارٹی عوامی لیگ کو ہوئی کیونکہ آبادی کیلحاظ سے وہ مغربی پاکستان سے زیادہ تھے۔ لیکن بھٹو صاحب کو اپنی ہار منظور نہیں تھی یہاں تک انہوں یہ تک کہہ دیا کہ جو پاکستانی ڈھاکہ جائے گا اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ یہ ٹانگیں تو نہیں ٹوٹیں لیکن پورا ملک ٹوٹ گیا!
http://en.wikipedia.org/wiki/Bangladesh_Liberation_War
 

سید ذیشان

محفلین
ایک بار تحریک آزادی پر بات ہو رہی تھی، سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے کہ ایک خاتون جو میری رشتہ دار بھی ہیں ، کہنے لگیں " مجھے تو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور جناح صاحب نکل کھڑے ہوئے چھینی ہتھوڑا لیکر تعمیر وطن کے لئے،"
سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے ،
میری رائے یہ ہے کہ " آج ساٹھ سالوں سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ آزادی کے نام پر مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی یہ سازش کس کی تھی اور آلہء کار کون تھا، نصاب سے ہٹ کر تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ علماء ہند کی 100 سالہ تحریک آزادی جو قربانیوں سے اقتباس ہے، قطعا تقسیم کے لئے نہ تھی، "
سوچئے گا ضرور

چونکہ یہ زمرہ شاعری کا ہے اس میں صرف شاعری پر بات ہونی چاہیے۔ آپ کی رشتہ دار خاتون اور آپ کے سوال کا جواب ایک الگ دھاگے کا متقاضی ہے۔ آپ ایک نیا دھاگہ کھولیں اس پر دل کھول کر بحث کرتے ہیں۔
 

عینی مروت

محفلین
کمال ہے !نظم میں تعمیرِ وطن کا پیغام دیا جا رہا ہے اور بحث کا رخ کس طرف مڑ گیا!!!:unsure:
کیا یہ بہتر نہیں کہ مثبت سوچ کا جواب مثبت دیا جائے!؟

:nottalking:
 

عینی مروت

محفلین
ایک بار تحریک آزادی پر بات ہو رہی تھی، سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے کہ ایک خاتون جو میری رشتہ دار بھی ہیں ، کہنے لگیں " مجھے تو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور جناح صاحب نکل کھڑے ہوئے چھینی ہتھوڑا لیکر تعمیر وطن کے لئے،"
سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے ،
میری رائے یہ ہے کہ " آج ساٹھ سالوں سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ آزادی کے نام پر مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی یہ سازش کس کی تھی اور آلہء کار کون تھا، نصاب سے ہٹ کر تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ علماء ہند کی 100 سالہ تحریک آزادی جو قربانیوں سے اقتباس ہے، قطعا تقسیم کے لئے نہ تھی، "
سوچئے گا ضرور

یہ خاتون جانتی ضرور ہونگی کہ۔۔ اقبال ایسے صاحبِ بصیرت کا خیال محض دو آنکھوں کا خواب، دو لوگوں یا کسی ایک گروہ کا نظریہ نہیں تھا بلکہ پوری قوم نظریاتی طور پر انکے ساتھ متفق تھی اور بعد کے حالات کے مطابق عملی طور پر شریک بھی۔
اور نہ ہی محمد علی جناح نےاتنا بڑا تاریخی فیصلہ بیٹھے بٹھائے کیا تھاکہ "" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکل کھڑے ہوئے!"

خیر مجھے اتنا یقین ہےکہ "بہت زیادہ سوچ بچار" کے بعد بھی میرے احساسات کی کیفیت وہی ہوگی
جو اس نظم کا حصہ ہے
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
خوبصورت نظم۔۔۔۔اور یہ وہی احساس ہے عینی جو ہم سب کے دلون مین ۔۔۔ہماری رگون مین اپنے وطن کی محبت بن کر گردش کرتا ہے۔۔۔!!! یہ سر زمین اس قدر زرخیز ہے کہ اس سے ناامیدی جنم لے ہی نہی سکتی!
میرے وطن کی مٹی کی تو خوشبو ہی اس قدر دلفریب ہے کہ روح معطر ہوجائے۔۔۔!

آپ نے اس محبت کی بھرپور عکاسی کی ہے۔۔!! بہت سی داد!
بہت سی دعائین اس خوبصورت سوچ پر۔۔!!
 

الف عین

لائبریرین
بہت اچھی نظم ہے۔ حب الوطنی کے جذبات اور احساسات کی خوبصورت پیشکش۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں، اگرچہ اس نوعیت کی بحثیں بہت ہو چکی ہیں، اور ان میں شامل نہیں ہونا چاہتا پھر۔
فنی طور پر صرف دو باتیں کہوں گا۔
زیادہ تر ’میرےیا میری کا محل نہیں، مرا، مری۔ رے وزن میں درست آتا ہے۔
نو مید ’نہ‘ ہونا کی بجائے اگر ’مت ہونا‘ کر دو تو بہتر ہے۔
اور درمیان میں ’تعبیر ادھوری‘ کیوں، ’باقی‘ بہتر نہیں ہے جو کئی جگہ ردیف بھی استعمال ہو رہی ہے
 

عینی مروت

محفلین
خوبصورت نظم۔۔۔ ۔اور یہ وہی احساس ہے عینی جو ہم سب کے دلون مین ۔۔۔ ہماری رگون مین اپنے وطن کی محبت بن کر گردش کرتا ہے۔۔۔ !!! یہ سر زمین اس قدر زرخیز ہے کہ اس سے ناامیدی جنم لے ہی نہی سکتی!
میرے وطن کی مٹی کی تو خوشبو ہی اس قدر دلفریب ہے کہ روح معطر ہوجائے۔۔۔ !

آپ نے اس محبت کی بھرپور عکاسی کی ہے۔۔!! بہت سی داد!
بہت سی دعائین اس خوبصورت سوچ پر۔۔!!

بالکل صحیح کہا عینی جی!

لاکھ معطر اور شاداب زمینیں ہوں
اپنی مٹی اور ہی خوشبو دیتی ہے

پسندیدگی اور دلکش تبصرے کے لیے بہت نوازش
سلامت رہیں
 

عینی مروت

محفلین
بہت اچھی نظم ہے۔ حب الوطنی کے جذبات اور احساسات کی خوبصورت پیشکش۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں، اگرچہ اس نوعیت کی بحثیں بہت ہو چکی ہیں، اور ان میں شامل نہیں ہونا چاہتا پھر۔
فنی طور پر صرف دو باتیں کہوں گا۔
زیادہ تر ’میرےیا میری کا محل نہیں، مرا، مری۔ رے وزن میں درست آتا ہے۔
نو مید ’نہ‘ ہونا کی بجائے اگر ’مت ہونا‘ کر دو تو بہتر ہے۔
اور درمیان میں ’تعبیر ادھوری‘ کیوں، ’باقی‘ بہتر نہیں ہے جو کئی جگہ ردیف بھی استعمال ہو رہی ہے

کلام پسند کرنے، اسکی قدر افزائی اور رہنمائی کے لیے آپکی بہت مشکور ہوں لیکن آخری بات کی مزید وضاحت کی ضرورت محسوس کر رہی ہوں استاد محترم!
سلامت رہیں


ٍتعمیرِ وطن کا خواب

مرے، حالات کے مارے ہوئے لوگو!۔
وطن میں چار سو پھیلی
فضائے بدگمانی،غربت و افلاس ،
بد امنی سے تم نومید مت ہونا
یہ جو قلب و نظر میں ٹوٹتی امید کے لرزاں دیے
آلام کے طوفاں کی زد میں ہیں
انہیں بجھنے نہ تم دینا
وہی ارضِ وطن ہے یہ۔۔۔ ۔!
جہاں پرکھوں نے خود اپنے لہو سے۔۔
فکرِ نو کے نام اک تحریر لکھی تھی۔۔
نئی آزاد صبحوں کی حسیں تقدیر لکھی تھی!
فضاؤں میں ابھی بھی ان پرستارانِ حر کے نعرۂ تکبیر
کی تاثیر باقی ہے
مگر اک خواب جو دیکھا کئی بے چین آنکھوں نے
وہی تعبیر ادھوری ہے
اسی تعبیر کی تکمیل باقی ہے!۔
یہ دھرتی پھر ہمیں آواز دیتی ہے!۔
مرے لوگو!۔
مرے دیوار و در کی خستگی کی خیر
ہمیں اس گھر کی دیواروں کو یوں مسمار ہونے سے بچانا ہے
کہ خشتِ عزم سے اس کی فصیلوں کی
نئی تعمیر باقی ہے
میرے پرچم کی پیشانی پہ اب بھی
بخت کا تارادمکتا ہے
ہمیں اسکو کبھی بھی سرنگوں ہونے نہیں دینا
مرے لوگو! کبھی نومید مت ہونا
مصائب کی شبِ تاریک سے اک دن
کبھی تو صبحِ نو کا،آس کا سورج نکلنا ہے
کبھی تو وقت کی بےرحم موجوں کا
ہمیں دھارا بدلنا ہے

تبھی تعمیرِ ملک و قوم کے اس خواب کو۔۔۔
تعبیر کا اعزاز ملنا ہے!۔

٭
 

الف عین

لائبریرین
فضاؤں میں ابھی بھی ان پرستارانِ حر کے نعرۂ تکبیر
کی تاثیر باقی ہے
مگر اک خواب جو دیکھا کئی بے چین آنکھوں نے
وہی تعبیر ادھوری ہے
اسی تعبیر کی تکمیل باقی ہے!۔

ان مصرعوں کو دیکھو۔
اگر یوں ہو تو بہتر ہو گا نا!!

فضاؤں میں ابھی بھی ان پرستارانِ حر کے نعرۂ تکبیر
کی تاثیر باقی ہے
مگر اک خواب جو دیکھا کئی بے چین آنکھوں نے
وہی تعبیر باقی ہے
(۔۔بلکہ یہاں بھی غلطی ہے، وہی کا استعمال غلط ہے، خواب اور تعبیر ہم معنی نہیں۔ اس مصرع کو یوں کہو تو
اسی اک خواب کی تعبیر باقی ہے)
اسی تعبیر کی تکمیل باقی ہے!۔
 

ندیم مراد

محفلین
پھر وہی سازشی تھیوری! یہ سچ ہے کہ اسلامی علماء ہند تقسیم ہند کے حق میں نہ تھے اور اسی لئے انہوں نے سیکولر پاکستان کی مخالفت کی اور آج تک کررہے ہیں جہاں وہ اپنا من پسند مولویانہ "شرعی" نظام جبرا نافظ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر تو بھارت بھی ہے تو پھر پاکستان کس حوالہ سے بہتر منصوبہ تھا؟ یہ اس زمانہ کے سیکولر مسلمان سیاست دانوں، متفکرین کو اسلئے کرنا پڑا کیونکہ ایک آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں کے مقابلہ میں کہیں کم تھی۔ چونکہ بھارتی کانگریس کا منشور مغربی سیکولر تھا یعنی ایک آدمی، ایک ووٹ، یوں مسلم لیگ کو یہ مسئلہ درپیش آیا کہ مستقبل میں ہندوؤں کی اکثریت محض اپنی ووٹنگ کی طاقت سے مسلمان اقلیت کو دبا کر رکھے گی۔ اور یہ خوف آزادی کے بعد بالکل سچ بن کر سامنے آیا جب آزاد بھارت میں 60 سے زائد برس گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں کی حالت دو ٹکے کے شہری جیسی ہے۔ انکو ملازمت، تعلیم، الغرض زندگی کے ہر میدان میں ہندو اکثریت کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ترقی کی رفتار اپنی اتنی بڑی آبادی اور وسائل کے باوجود چین جیسے ممالک کے سامنے انتہائی کم ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے بعد پاکستانی اپنے ملک کو اس احسن انداز میں چلاتے کہ باقی بھارتی مسلمان جو آزادی کے بعد وہاں رہ گئے تھے خود ہجرت کر کے آہستہ آہستہ یہاں آکر آباد ہو جاتے۔ لیکن ظلم و ستم، فرقہ واریت، فوجی آمریت اور غیر ملکی سیاسی مداخلت کی آگ جو تقسیم ہند کے بعد یہاں لگی تھی اسنے20 سال کے اندر اندر خود ہی پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیئے اور تب سے یہ دو قومی نظریہ جو پاکستانی تحریک کا نظریہ تھا تباہ ہوگیا۔ تب سے بنگلہ دیش آزاد ہوگیا اور پاکستانیوں کا یہ جھوٹا نظریہ بھی فیل ہوگیا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان پر "قبضہ" کی خاطر پاکستان کے دو ٹکڑے کئے کیونکہ اگر قبضہ اسکا اصل مقصد ہوتا تو سقوط ڈھاکہ کے بعد اسکو بھارت کا ایک صوبہ کیوں نہیں بنا دیا گیا؟ اصل بات وہی ہے کہ بنگالی مسلمانوں یا پاکستانیوں نے آزادی مملکت خداداد پاکستان سے اسکے ظلم و ستم اور عدل کی غیر موجودگی کی وجہ سے حاصل کی جو پاکستان کی پیدائش سے انکو نہیں ملا تھا۔ جیسے بنگالی اپنی زبان کے سرکاری استعمال کا مطالبہ کرتے تھے۔ مغربی پاکستان نے انپر اردو مسلط کردی ۔ 1970 کے جنرل الیکشن میں جیت مشرقی پاکستانی پارٹی عوامی لیگ کو ہوئی کیونکہ آبادی کیلحاظ سے وہ مغربی پاکستان سے زیادہ تھے۔ لیکن بھٹو صاحب کو اپنی ہار منظور نہیں تھی یہاں تک انہوں یہ تک کہہ دیا کہ جو پاکستانی ڈھاکہ جائے گا اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ یہ ٹانگیں تو نہیں ٹوٹیں لیکن پورا ملک ٹوٹ گیا!
http://en.wikipedia.org/wiki/Bangladesh_Liberation_War
بہت شکریہ آپ نے وہی جواب دیا جس کی مجھے امید تھی کہ کچھ نصاب ذدہ لوگ ایک دم حقیقت سے آنکھیں چرا نے کے لئے بھڑک اٹھیں گے،
بہرحال تاریخ کچھ بھی رہی ہو اب یہ وطن ہمارا ہے اسے ہم نے ہی سنوارنا ہے اس کا اک اک ذرہ ہمیں جان سے پیارا ہے،
پہلی بات تو ہم ھندوستان میں کم نہیں تھے، ھندوؤں کی معمولی اکثریت کسی کام کی نہ تھی، اور مسلمانوں نے کب اپنی کثرت پر کوئی معرکہ سر کیا ہے۔
اور ایسا تھا بھی تو یہ کس غیرت کے قانون میں ہے کے اپنے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے والے بھائیوں کو کم ظرف دشمن کے حوالے کرکے علیدہ ہوجاؤ۔
کیا ھندو تقسیم ہوا ؟ نہیں! صرف مسلمان ہی بٹا
اب واقعی مسلمان اقلیت میں ہے اور پاکستان کا حامی ہونے کا مجرم بھی ہے محب وطن بھی نہیں ، اسے کس خوشی میں اے گریڈ شہری بنایا جائے،
نصاب سے ہٹ کر سوچئے،
اس خالص شاعرانہ دھاگے میں اس موضوع پر میرا آخری پیغام
وسلام خوش رہیں
 

ندیم مراد

محفلین
چونکہ یہ زمرہ شاعری کا ہے اس میں صرف شاعری پر بات ہونی چاہیے۔ آپ کی رشتہ دار خاتون اور آپ کے سوال کا جواب ایک الگ دھاگے کا متقاضی ہے۔ آپ ایک نیا دھاگہ کھولیں اس پر دل کھول کر بحث کرتے ہیں۔
میں آپ سے 100 فیصد متفق ہوں جو ہوا اس کی معافی چاہتا ہوں، موضوع کے اعتبار سے ایک شوخ سا کمنٹس کیا تھا، کسی کی دل آزاری مقصود نہیں،
 

ندیم مراد

محفلین
یہ خاتون جانتی ضرور ہونگی کہ۔۔ اقبال ایسے صاحبِ بصیرت کا خیال محض دو آنکھوں کا خواب، دو لوگوں یا کسی ایک گروہ کا نظریہ نہیں تھا بلکہ پوری قوم نظریاتی طور پر انکے ساتھ متفق تھی اور بعد کے حالات کے مطابق عملی طور پر شریک بھی۔
اور نہ ہی محمد علی جناح نےاتنا بڑا تاریخی فیصلہ بیٹھے بٹھائے کیا تھاکہ "" ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ نکل کھڑے ہوئے!"

خیر مجھے اتنا یقین ہےکہ "بہت زیادہ سوچ بچار" کے بعد بھی میرے احساسات کی کیفیت وہی ہوگی
جو اس نظم کا حصہ ہے
آپ کے احساسات کی قدر کرتے ہوئے
آپ کی نظم کی پسندیدگی کے ساتھ
ذرا شوخ سے کمنٹس کر دئے تھے،
لیکن اقبال ایسے صاحب بصیرت شاعر بھی تضادات کا شکار تھے، خواب دیکھنے سے پہلے ان ہی کے چند مصرعے لکھ رہا ہوں
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پہرہن اس کا ہے وہ مزہب کا کفن ہے
پھر فرماتے ہیں، کیا خوب نظم ہے افسوس مجھے پوری یاد نہیں
رہ بحر میں آزاد ِ وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پر گواہی
وغیرہ وغیرہ
وطن سے محبت تو سنت ہے
اس لئے گمان نہ کیجئے گا کہ مجھے اپنے ملک سے محبت نہیں
ہمارے خاندان کا ذاتی طور پر آزادی کی تحریک میں حصہ ہے
میرے دادا نے ریشمی رومال تحریک میں حصہ لیا اور تحریک ناکام ہونے پر سختیوں کا سامنہ بھی کیا، ہم سب تاریخ کو اتنا ہی جانتے ہے، جتنا ہمیں نصاب میں پڑھایا جاتا ہے،
اس لئے میں کہتا ہوں نصاب سے ہٹ کر سوچئے
 
Top