فرخ منظور
لائبریرین
تعصب
تحریر: سرسید احمد خان
انسان کی خصلتوں میں سے تعصب ایک بدترین خصلت ہے ۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے ۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے ، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے ۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا ، کیونکہ اس کا تعصب اُس کے برخلاف بات سننے،سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے ، بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔
تعصب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے ۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے ، مگر صرف تعصب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور برائی میں گرفتار اوربھلائی سے بیزار رہتا ہے ۔
انسان کو ہمیشہ مددگار وں کی جو دوستی اور محبت سے ہاتھ آتے ہیں ضرورت ہوتی ہے ، مگر متعصب تمام لوگوں سے بیزار رہتا ہے اور کسی کو دوستی اور محبت کی طرف بجز اُن چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے ہیں مائل نہیں ہوتا۔
وہ ان تمام دلچسپ اور مفید باتوں سے محض جاہل اور ناواقف رہتا ہے ۔ اُس کی عقل اور اُس کے دماغ کی قوت بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوئی ہے اس کے سوا اور کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوت نہیں رہتی ۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتاہے کہ اس کو جو کچھ آتا ہے اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔ بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصب کے باعث سے تمام باتوں میں اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجے کو پہنچ گئی ہیں اور بہت سے قومیں ہیں جنھوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچھی اچھی باتیں اخذ کیں اورادنیٰ درجے سے ترقی کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر پہنچ گئیں ۔
مجھ کو اپنے ملک کے بھائیوں پر اس بات کی بدگمانی ہے کہ وہ بھی تعصب کی بد خصلت میں گرفتار ہیں اور اس سبب سے ہزاروں قسم کی بھلائیوں کے حاصل کرنے سے محروم اور ذلت اور خواری اور بے عملی اور بے ہنری کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور اسی لیے میری خواہش ہے کہ وہ اس بد خصلت سے نکلیں اور اعلیٰ درجے کی عزت تک پہنچیں ۔
ہم مسلمانوں میں ایک غلطی یہ پڑی ہے کہ بعض دفعہ ایک غلط نما نیکی کے جذبے سے تعصب کو اچھا سمجھتے ہیں اور جو شخص اپنے مذہب میں بڑا متعصب ہو اور تما م شخصوں کو جو اُس مذہب کے نہیں ہیں اور تمام اُن علوم و فنون جو اس مذہب کے لوگوں میں نہیں ہیں نہایت حقارت سے دیکھے اور برا سمجھے ۔ اس شخص کو نہایت قابل تعریف اور توصیف کے اور بڑا پختہ اور پکا اپنے مذہب میں سمجھتے ہیں، مگر ایسا سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہے ۔
اب ہم یہ بات بتاتے ہیں کہ اپنے مذہب میں پختہ ہونا جدابات ہے اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت ہے جو کسی اہل مذہب کے لیے ہوسکتی ہے اور تعصب ، گوکہ وہ مذہبی باتوں میں کیوں نہ ہو نہایت برا اور خود مذہب کو نہایت نقصان پہنچانے والا ہے ۔
غیر متعصب ، مگر اپنے مذہب میں پختہ ہمیشہ سچا دانا دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور نیکیوں کو پھیلاتا ہے ، اس کے اصول کو دلائل سے ثابت کرتا ہے مخالفوں اور برا کہنے والوں کی باتوں کو ٹھنڈے دِل سے سنتا ہے اور خود بھی اس کے دفعیے پر مستعد ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس کے دفیعے کا موقع دیتا ہے ۔
برخلاف اس کے متعصب ۔ نادان دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے ۔وہ سراسر اپنی نادانی سے اپنے مذہب کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ اپنے مذہب کی خوبیوں کے پھیلنے اور لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنے کے بدلے اُلٹا اس کا ہارج قوی ہوتا ہے ۔ اپنے تعصب کے سبب بداخلاق اور مغرور اورسخت دِل ہو جاتا ہے ۔
غرضکہ تعصب خواہ دینی ہو یادنیاوی باتوں میں ، نہایت برا اور بہت سی خرابیوں کو پیدا کرنے والاہے ۔ مغرور ومتکبر ہو جانا اور اپنے ہم جنسوں کو سوائے چند کے نہایت حقیر و ذلیل سمجھنا متعصب کا خاصہ ہوتا ہے ۔
اس کے اصول کا مقتضایہ ہوتا ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں سے سوائے چند کے کنارہ گزیں ہو ، مگر ایسا کرنہیں سکتا اور بہ مجبوری ہر ایک سے ملتا ہے اور اوپری دل سے ان کا ادب اوراپنی جھوٹی نیازمندی بھی ظاہر کرتا ہے اور ایسا کرنے سے ایک اور بدخصلت فریب و مکاری کی صفت اپنے میں پیدا کرتا ہے ۔
دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے خود ہی تمام کمالات اور تمام خوبیاں اور خوشیاں حاصل کی ہوں ، بلکہ ہمیشہ ایک قوم نے دوسری قوم سے فائدہ اُٹھایا ہے مگر متعصب شخص ان نعمتوں سے بد نصیب رہتا ہے ۔
علم میں اس کی ترقی نہیں ہوتی ، ہنروفن میں اس کی دست گاہ نہیں ہوتی ، دنیا کے حالات سے وہ ناواقف رہتا ہے ، عجائبات قدرت سے محروم ہوتا ہے حصول معاش اور دنیاوی عزت اورتمول ، مثل تجارت وغیرہ کے وسیلے جاتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا کے انسانوں میں روز بروز ذلیل و خوار ہوتا جاتاہے ۔
تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں جاتا کوئی ہنرو کمال اُس میں نہیں آتا ۔ تربیت و شایستگی ، تہذیب وانسانیت کا مطلق نشان نہیں پایا جاتا اورجب کہ وہ مذہبی غلط نمانیکی کے پردے میں ظہور کرتا ہے تو اور بھی سم قاتل ہوتا ہے ، کیونکہ مذہب سے اور تعصب سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔ انسان کے خراب و برباد کرنے کے لیے شیطان کا سب سے بڑا داؤ تعصب کو مذہبی رنگت سے دل میں ڈالنا اور اس تاریکی کے فرشتے کو روشنی کا فرشتہ کرکے دکھلانا ہے ۔
پس میری التجا اپنے بھائیوں سے یہ ہے کہ ہماراخدا نہایت مہربان اور بہت بڑا منصف ہے اورسچا،سچائی پسند کرنے والا ہے ، وہ ہمارے دلوں کے بھیدجانتا ہے ، وہ ہماری نیتوں کو پہچانتا ہے ۔ پس ہم کو اپنے مذہب میں نہایت سچائی سے پختہ رہنا ، مگر تعصب کو جو ایک بُری خصلت ہے چھوڑنا چاہیے ۔ تمام نبی نوع انساں ہمارے بھائی ہیں ، ہم کو سب سے محبت اور سچا معاملہ رکھنا اور سب سے سچی دوستی اور سب کی سچی خیر خواہی کرنا ہمارا قدرتی فرض ہے ۔ پس اسی کی ہم کو پیروی کرنی چاہیے ۔
تحریر: سرسید احمد خان
انسان کی خصلتوں میں سے تعصب ایک بدترین خصلت ہے ۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے ۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے ، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے ۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا ، کیونکہ اس کا تعصب اُس کے برخلاف بات سننے،سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے ، بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔
تعصب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے ۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے ، مگر صرف تعصب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور برائی میں گرفتار اوربھلائی سے بیزار رہتا ہے ۔
انسان کو ہمیشہ مددگار وں کی جو دوستی اور محبت سے ہاتھ آتے ہیں ضرورت ہوتی ہے ، مگر متعصب تمام لوگوں سے بیزار رہتا ہے اور کسی کو دوستی اور محبت کی طرف بجز اُن چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے ہیں مائل نہیں ہوتا۔
وہ ان تمام دلچسپ اور مفید باتوں سے محض جاہل اور ناواقف رہتا ہے ۔ اُس کی عقل اور اُس کے دماغ کی قوت بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوئی ہے اس کے سوا اور کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوت نہیں رہتی ۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتاہے کہ اس کو جو کچھ آتا ہے اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔ بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصب کے باعث سے تمام باتوں میں اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجے کو پہنچ گئی ہیں اور بہت سے قومیں ہیں جنھوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچھی اچھی باتیں اخذ کیں اورادنیٰ درجے سے ترقی کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر پہنچ گئیں ۔
مجھ کو اپنے ملک کے بھائیوں پر اس بات کی بدگمانی ہے کہ وہ بھی تعصب کی بد خصلت میں گرفتار ہیں اور اس سبب سے ہزاروں قسم کی بھلائیوں کے حاصل کرنے سے محروم اور ذلت اور خواری اور بے عملی اور بے ہنری کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور اسی لیے میری خواہش ہے کہ وہ اس بد خصلت سے نکلیں اور اعلیٰ درجے کی عزت تک پہنچیں ۔
ہم مسلمانوں میں ایک غلطی یہ پڑی ہے کہ بعض دفعہ ایک غلط نما نیکی کے جذبے سے تعصب کو اچھا سمجھتے ہیں اور جو شخص اپنے مذہب میں بڑا متعصب ہو اور تما م شخصوں کو جو اُس مذہب کے نہیں ہیں اور تمام اُن علوم و فنون جو اس مذہب کے لوگوں میں نہیں ہیں نہایت حقارت سے دیکھے اور برا سمجھے ۔ اس شخص کو نہایت قابل تعریف اور توصیف کے اور بڑا پختہ اور پکا اپنے مذہب میں سمجھتے ہیں، مگر ایسا سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہے ۔
اب ہم یہ بات بتاتے ہیں کہ اپنے مذہب میں پختہ ہونا جدابات ہے اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت ہے جو کسی اہل مذہب کے لیے ہوسکتی ہے اور تعصب ، گوکہ وہ مذہبی باتوں میں کیوں نہ ہو نہایت برا اور خود مذہب کو نہایت نقصان پہنچانے والا ہے ۔
غیر متعصب ، مگر اپنے مذہب میں پختہ ہمیشہ سچا دانا دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور نیکیوں کو پھیلاتا ہے ، اس کے اصول کو دلائل سے ثابت کرتا ہے مخالفوں اور برا کہنے والوں کی باتوں کو ٹھنڈے دِل سے سنتا ہے اور خود بھی اس کے دفعیے پر مستعد ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس کے دفیعے کا موقع دیتا ہے ۔
برخلاف اس کے متعصب ۔ نادان دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے ۔وہ سراسر اپنی نادانی سے اپنے مذہب کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ اپنے مذہب کی خوبیوں کے پھیلنے اور لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنے کے بدلے اُلٹا اس کا ہارج قوی ہوتا ہے ۔ اپنے تعصب کے سبب بداخلاق اور مغرور اورسخت دِل ہو جاتا ہے ۔
غرضکہ تعصب خواہ دینی ہو یادنیاوی باتوں میں ، نہایت برا اور بہت سی خرابیوں کو پیدا کرنے والاہے ۔ مغرور ومتکبر ہو جانا اور اپنے ہم جنسوں کو سوائے چند کے نہایت حقیر و ذلیل سمجھنا متعصب کا خاصہ ہوتا ہے ۔
اس کے اصول کا مقتضایہ ہوتا ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں سے سوائے چند کے کنارہ گزیں ہو ، مگر ایسا کرنہیں سکتا اور بہ مجبوری ہر ایک سے ملتا ہے اور اوپری دل سے ان کا ادب اوراپنی جھوٹی نیازمندی بھی ظاہر کرتا ہے اور ایسا کرنے سے ایک اور بدخصلت فریب و مکاری کی صفت اپنے میں پیدا کرتا ہے ۔
دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے خود ہی تمام کمالات اور تمام خوبیاں اور خوشیاں حاصل کی ہوں ، بلکہ ہمیشہ ایک قوم نے دوسری قوم سے فائدہ اُٹھایا ہے مگر متعصب شخص ان نعمتوں سے بد نصیب رہتا ہے ۔
علم میں اس کی ترقی نہیں ہوتی ، ہنروفن میں اس کی دست گاہ نہیں ہوتی ، دنیا کے حالات سے وہ ناواقف رہتا ہے ، عجائبات قدرت سے محروم ہوتا ہے حصول معاش اور دنیاوی عزت اورتمول ، مثل تجارت وغیرہ کے وسیلے جاتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا کے انسانوں میں روز بروز ذلیل و خوار ہوتا جاتاہے ۔
تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں جاتا کوئی ہنرو کمال اُس میں نہیں آتا ۔ تربیت و شایستگی ، تہذیب وانسانیت کا مطلق نشان نہیں پایا جاتا اورجب کہ وہ مذہبی غلط نمانیکی کے پردے میں ظہور کرتا ہے تو اور بھی سم قاتل ہوتا ہے ، کیونکہ مذہب سے اور تعصب سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔ انسان کے خراب و برباد کرنے کے لیے شیطان کا سب سے بڑا داؤ تعصب کو مذہبی رنگت سے دل میں ڈالنا اور اس تاریکی کے فرشتے کو روشنی کا فرشتہ کرکے دکھلانا ہے ۔
پس میری التجا اپنے بھائیوں سے یہ ہے کہ ہماراخدا نہایت مہربان اور بہت بڑا منصف ہے اورسچا،سچائی پسند کرنے والا ہے ، وہ ہمارے دلوں کے بھیدجانتا ہے ، وہ ہماری نیتوں کو پہچانتا ہے ۔ پس ہم کو اپنے مذہب میں نہایت سچائی سے پختہ رہنا ، مگر تعصب کو جو ایک بُری خصلت ہے چھوڑنا چاہیے ۔ تمام نبی نوع انساں ہمارے بھائی ہیں ، ہم کو سب سے محبت اور سچا معاملہ رکھنا اور سب سے سچی دوستی اور سب کی سچی خیر خواہی کرنا ہمارا قدرتی فرض ہے ۔ پس اسی کی ہم کو پیروی کرنی چاہیے ۔