تصوف نابغہ ءروزگار لوگوں‌کی آخری پناہ گاہ ہے۔

ظفری

لائبریرین
میں ذرا بڑی چھلانگ لگا گیا۔ ذرا واپس آتے ہیں ۔اسلام اجتماعیت کا نام ہے نہ کہ انفرادیت کا ۔ یعنی اسلام کی اصل روح اس معاشرے کی تکمیل ہے جہاں انسانوں کو حکومت الہی کے تحت بسایا جائے ان سے معاملات کئے جائیں ۔ جبکہ صوفیت کا کردار کلی طور پر فرد کے لئے ہے نہ کہ معاشرے کے لئے ۔ اگر دلیل یہ دی جائے کہ صوفیا فرد کی تربیت کر کے اس سے ایک متوازن معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو یہ مفروضہ ہی غلط ہو جائے گا کہ آج تک کوئی صوفی اس کام کو انجام نہ دے سکے ۔ اور سب سے اہم چیز ہے کہ صوفیت کا تصور نہ تو محسن انسانیت کے یہاں ملتا ہے اور نہ ان کے رفقاء کے یہاں ۔ ہمیں کہیں بھی یہ اعلٰی ہستیاں گوشہ نشین نظر نہیں آتیں ۔ بلکہ ان کا کردار چند افراد کی تربیت ، پھر اس سے ایک حکومت الہٰی اور اس کے ذریعے سے ایک مکمل متوازن معاشرے کی تشکیل نظر آتی ہے۔ جبکہ صوفیت اس سے قطعی طور پر محروم ہے ۔ پھر انھیں کامیاب قرار دینا ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
وسلام
طالوت آپ نے صحیح تشخیص کی ہے ۔
دین بذات خود دو مقاصد رکھتا ہے یعنی دین تزکیہ نفس کے ساتھ معاشرے کی اصلاح اور تربیت کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے ۔اس حوالے سے دین کی حیثیت انقلاب کی سی ہے ۔ اور انقلاب کے لیئے ضروری ہے کہ اس میں ٹہراؤ نہ آئے ، جمود کا شکار نہ ہو ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے بھی انقلابات دنیا میں آئے ۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا معاشی ، وہ انتشار کا شکار ہوئے ۔ ان پر جمود کا غلبہ ہوا ۔ اسی نتیجے میں فرقہ پیدا ہوئے ۔ مختلف مکتبِ فکر کا وجود پذیر ہوا ۔ اختلافِ رائے نظر آئے ، اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ معاشرے میں بھی بہت سی تبدیلوں نے جنم لیا ۔ حکومتوں نے بھی اپنے رنگ بدلے ۔ مثال کے طور پر خلافتِ راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہوگئی ۔ جبر اور استبداد کا عمل شروع ہوگیا ۔اس دوران جتنے بھی عالم اور مبلغ تھے ۔ ان ایک بڑی صف ملوکیت اور بادشاہت کے زیرِ اثر آگئی ۔ جس سے کئی قسم کے رویوں پیدا ہوئے ۔ جس میں اک رویہ صوفی ازم کا رویہ ہے ۔ اور میرا خیال ہے تاریخی طور پر صوفی ازم کو صوفی ازم بھی کہنا ٹھیک نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی یونیفائید یا آرگنائزیڈ تحریک نہیں ہے ۔ اس کا کوئی مستقل ایجنڈا نہیں ہے جو اس انقلاب کو بڑھانے میں معاون ہوسکے یا ان مقاصد کو جس کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ لہذا تزکیہ نفس اس حوالے سے ایک معمولی بات رہ جاتی ہے ۔ جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہو ۔ دین کے راستے سے لوگ ہٹ رہے ہوں ۔ یعنی آپ اپنے مقصدِ اولیٰ سے ہٹ جاتے ہیں تو ذاتیات میں جو تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا کیا مقصد رہ جاتا ہے ۔ صوفیوں کے ہاں اجتماعیت کے مسائل کبھی بھی زیرِ بحث نہیں آئے ۔ یعنی جب اسلامی معاشرہ دورِ انحطاط میں تھا ۔ جبر و استبداد دین اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے تھے ۔ اس وقت صوفیاء نے دین کی اشاعت و ترویح اور معاشرے کی اصلاح کا کام نہیں کیا ۔ صرف تزکیہ ِ نفس پر اکتفا کیا ۔ جو کہ سو فیصد انفرادی عمل تھا ۔ وہ دین کی ان توجہات اور تشریحات میں الجھے رہے جن میں کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا ۔ ان توجہات اور تشریحات پر تو جابر حکمران بھی اختلاف نہیں رکھتے تھے کہ ہم قرآن یا رسالت وغیرہ کو نہیں مانتے ۔ لہذا جو کیا جارہا تھا وہ دین کے مقصدِ اولیٰ یا بنیادی مقاصد سے مکمل انحراف تھا ۔
 

خرم

محفلین
برادرانِ عزیز اجازت دیجئے کہ دوبارہ آپ سے اختلاف کرسکوں۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے بنیادی کام جو کیا وہ فرد کی اصلاح‌تھا۔ تبلیغ اسلام فرد کی اصلاح سے شروع ہوئی پھر ایک معاشرہ کی تشکیل ہوئی جو کامل معاشرہ تھا۔ یہی وہ ماڈل ہے جس کی صوفیاء پیروی کرتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ صوفیاء گوشہ نشین ہوتے ہیں یا راہبانیت اختیار کرتے ہیں۔ لیکن آپ لاکھوں کروڑوں میں سے کتنے صوفیاء کا نام لے سکتے ہیں جو راہبانیت کی زندگی گزارتے تھے یا جو کاملاَ گوشہ نشین تھے؟ اپنی تربیت کے مراحل میں یقیناَ کچھ عرصہ آبادی سے الگ رہ کر صرف اللہ کی یاد میں زندگی گزاری جاتی ہے اور یہ کام بھی اتباع سنت میں کیا جاتا ہے جیسے نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان بعثت سے پہلے کا کچھ غار حرا میں صرف یاد الٰہی میں مشغول گزارا۔ لیکن بہرحال جب ایک مرید اپنے شیخ کا اعتماد حاصل کرلیتا ہے اور منصب ارشاد پر فائز ہونے کے لئے تیار ہوتا ہے تو پھر اسے انسانوں کی اصلاح کے لئے انہیں انسانوں میں‌بھیجا جاتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ بوالحسن خرقانی، جنید بغدادی، بایزید بسطامی، معین الدین چشتی، فرید الدین گنج شکر، علی ہجویری، شیخ احمد سرہندی، اور لاتعداد اولیاء و صوفیاء نے ان انسانوں کے درمیان رہ کر انہیں‌اللہ کی راہ پر چلایا۔ ہاں یہ طریقہ ضرور رہا اولیاء کا کہ وہ رہائش عموماَ آباد علاقوں سے کچھ دور رکھتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس آنے والا اپنے ماحول اور رویوں سے دور ہو تاکہ بات کے سُننے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔ لیکن نہ تو وہ تارک الدنیا ہوتے ہیں اور نہ مردم بیزار۔ لنگر کی روایت انسان دوستی کی ہی مثال ہے جسے اولیاء نے ہمیشہ بلا تخصیص مذہب و نسل تمام انسانیت کے لئے عام رکھا ہے۔
اب بات آگے آتی ہے تکمیل معاشرہ کی۔ دیکھئے اولیاء کا کام ہے کوشش کرنا۔ وہ ہر ایک کو اچھی بات سُناتے ہیں، اور اچھی بات بتانے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ ایک مثال دوں گا۔ اولیاء برصغیر میں ہزاروں برس سے لوگوں‌کی تربیت کرتے رہے، کتنی دفعہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ان کے تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ سے؟ آج ایک طبقہ ہے جو ان کے طریق و تعلیم سے الگ دین کی "تبلیغ" کرتا ہے، دین اور مسلمانوں کا کیا حشر ہو رہا ہے ان کے ہاتھوں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ کیا اصفیاء کا یہ کارنامہ کچھ کم ہے کہ صدیوں سے مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر و منافق سمجھے بغیر امن و آشتی سے زندگی گزار رہے تھے اور مسلمان ہی جیتے تھے اور مسلمان ہی مرتے تھے؟
 

طالوت

محفلین
افسوس کہ صوفیت کو رسول اللہ سے جوڑنا سخت کم علمی ہے ۔ ان کا ایک بھی عمل ایسا نہیں جسے صوفیا جیسا یا صوفیا کا رسول اللہ جیسا قرار دیا جا سکے ۔ ایک بھی ! صوفیاء کے پاس اپنی صوفیت کے حق میں کبھی بھی ان ہستیوں سے کوئی بات پیش کرنا ممکن نہیں رہا ۔ میرا خیال ہے آپ پھر سے انفرادیت و اجتماعیت اور اسلام کے آپس کو تعلق کو سمجھیں ۔
باقی باتیں موضوع سے ہٹا دیں گیں ورنہ صوفیاء کن کی b ٹیم کے طور پر کام کرتے رہے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ صوفیاء کا سارا زور ان علاقوں میں ہے جہاں ہم بستے ہیں ۔ انڈونیشیا ، ملائشیا ، کی طرف ، شام و حجاز کی طرف اور افریقہ کی طرف ان کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا بس صرف معمولی سا ۔ اور کیا ایسے افراد کا اور ایسی تربیت کا کچھ بھی فائدہ ہو سکتا ہے جو حکومت الہٰی قائم نہ کر سکیں ۔ ؟ کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ بغیر حکومت الٰہی اسلام کا مقصد کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا ۔ باقی اپنی اپنی نبیڑو کو آپ ابھی تک غلط ثابت نہیں کر سکے ۔
وسلام
 

خرم

محفلین
بھیا اگر کسی کا عمل نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطابقت نہیں رکھتا تو وہ صوفی ہی نہیں شعبدہ باز ہے۔ اس بات کو تو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ شام و حجاز کی طرف صوفیاء یقینا موجود رہے یہ تو شاہ سعود کے خاندان کی برکتیں‌ہیں کہ بزور ایک خاص طبقہ کا اسلام مسلط کیا گیا ویسے گورنر طائف کا خاندان ابھی تک اولیاء و صوفیاء کا عقیدت مند ہے اور وہ آل سعود میں سے بھی نہیں‌ہیں۔ اسی طرح حضرت غوث الاعظم بھی عرب میں ہی مقیم رہے۔ حکومت الٰہی تو آج کل دیکھئے پاکستان میں کس قدر زور و شور سے برپا کی جارہی ہے۔ یقیناَ‌صوفیاء کا ایسی کسی حکومت کے قیام کا کبھی مقصد نہیں رہا کہ کسی جگہ پر حکومت حاصل کرکے وہاں حکمرانی کا شوق پورا کیا جائے۔ بوقت ضرورت انہوں نے حکومت بھی کی لیکن اکا دُکا کہ اصل کام جمہور کو دین کی راہ پر چلانا ہے اور یہ کام حکومت سازی سے نہیں کردار سازی سے ہوتا ہے جیسے کہ سیرت سرور کائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ یہ حکومت الٰہی والی باتیں‌تو مجھ ایسے لوگ خواہش جانگیری میں کرتے ہیں وگرنہ جو اللہ کا ہوتا ہے اسے لوگوں‌پر حکومت کی نہیں لوگوں‌کی خدمت کی تمنا ہوتی ہے۔
 

طالوت

محفلین
تو پھر معذررت کے ساتھ تمام صوفیاء شعبدے باز ہی ٹھہرتے ہیں کہ رسول اللہ صوفی نہیں تھے اور نہ انھوں نے ادھورے کام کو اپنا مشغلہ بنایا ۔ اور پھر مزید ان کے عجیب و غریب کام (کرامات( جو نبیوں کو بھی نصیب نہ ہوئیں محض شعبدے بازی یا دوسرے لفظوں میں جھوٹ ہی رہ جاتا ہے۔
ایک آدھ مثال دینے سے سعود خاندان کا زور ثابت نہیں جا سکتا اور نہ ہی عرب صرف سعود ی عربیہ ہے ۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
بھیا اگر کسی کا عمل نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطابقت نہیں رکھتا تو وہ صوفی ہی نہیں شعبدہ باز ہے۔ اس بات کو تو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ شام و حجاز کی طرف صوفیاء یقینا موجود رہے یہ تو شاہ سعود کے خاندان کی برکتیں‌ہیں کہ بزور ایک خاص طبقہ کا اسلام مسلط کیا گیا ویسے گورنر طائف کا خاندان ابھی تک اولیاء و صوفیاء کا عقیدت مند ہے اور وہ آل سعود میں سے بھی نہیں‌ہیں۔ اسی طرح حضرت غوث الاعظم بھی عرب میں ہی مقیم رہے۔ حکومت الٰہی تو آج کل دیکھئے پاکستان میں کس قدر زور و شور سے برپا کی جارہی ہے۔ یقیناَ‌صوفیاء کا ایسی کسی حکومت کے قیام کا کبھی مقصد نہیں رہا کہ کسی جگہ پر حکومت حاصل کرکے وہاں حکمرانی کا شوق پورا کیا جائے۔ بوقت ضرورت انہوں نے حکومت بھی کی لیکن اکا دُکا کہ اصل کام جمہور کو دین کی راہ پر چلانا ہے اور یہ کام حکومت سازی سے نہیں کردار سازی سے ہوتا ہے جیسے کہ سیرت سرور کائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ یہ حکومت الٰہی والی باتیں‌تو مجھ ایسے لوگ خواہش جانگیری میں کرتے ہیں وگرنہ جو اللہ کا ہوتا ہے اسے لوگوں‌پر حکومت کی نہیں لوگوں‌کی خدمت کی تمنا ہوتی ہے۔
گویا آپ پوری ریاست مدینہ اور اس کے بعد کی مزید توسیع کی ہی نفی کر رہے ہیں ۔تو یہ بات چیت یہیں ختم سمجھیں ۔ اس سے پہلے ایک بار آپ نے عشق رسول میں خون پینے کو حلال ٹھہرا لیا تھا ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ ان کی بےسروپا باتوں کے علوہ قران کی طرف بھی توجہ دیں ۔ خصوصا قران میں رسول اللہ کی سیرت ، ان کا طریقہ تبلیغ و عمل ۔
وسلام
 

ظفری

لائبریرین
ہمیں جو بتایا گیا وہ یہ ہے کہ شریعت درخت ہے اور طریقت اس کا پھل۔ اگر شجر نہیں تو پھل بھی نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ بلا شریعت پر عمل کئے طریقت کی منزل کو پالے گا یا یہ کہ اس کی طریقت اسے شریعت سے آزاد کرتی ہے تو وہ گمراہ ہے۔


نہیں بھیا بحث کی بات ہی نہیں۔ عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ طریقت یا تصوف شریعت کے مخالف چلاتے ہیں سو عرض کی کہ ہمیں تو یہی سمجھایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز شریعت کے مخالف ہے تو وہ طریقت کا دعوٰی کرنے والا جھوٹا ہے۔

خرم بھائی ۔۔۔ یہ آپ ہی کی پوسٹیں ہیں ۔ جنہیں میں‌نے کلرڈ کیا ہے ۔ مجھے بتائیں کہ جو آپ کو "بتایا" اور " سمجھایا " گیا ہے وہ باتیں کہاں سے اخذ کیں گئیں ہیں ۔ اور اگر وہ باتیں ( عقائد) کہیں سے اخذ کی گئی ہیں تو ان کا ماخذ کیا ہے ۔ اور اگر آپ ان باتوں کو کا تعین کردیتے ہیں تو پھر آپ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتایئے کہ باتیں قرآن و سنت میں‌ کہاں بیان ہوئیں ہیں ۔ ایمانیات کے بارے میں میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تین چیزوں پر مشتمل ہے ۔ توحید ، رسالت اور قیامت کا یقین ۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس گفتگو کو جاری رکھنے سے پہلے صوفیاء کی کتابیں پڑھ لیں ۔ اور دیکھیں کہ انہوں نے کیا کچھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔ سب سے پہلے " توحید " پر ان کے عقائد پڑھ لیں ۔ پھر اس کے بعد نبوت اور دیگر ایمانی عقائد پر بات ہوگی ۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ جیسا قابل شخص " ہمیں یہی بتایا گیا ہے " اور " یہی سمجھایا گیا ہے " کہہ کر بحث سے بری الذمہ ہوجائے ۔
خلیل بھٹو نے جو اقتباسات یہاں پوسٹ کیئے ہیں ۔ وہ کتاب کے مصنف کے اپنے تجزیئے اور خیالات نہیں ہے ۔ بلکہ انہی صوفیاء کے کتب سے اقتباسات پیش کیئے ہیں‌ ۔ اگر آپ کو کتاب کے مصنف سے کوئی اختلاف ہے تو مذکورہ کسی بھی صوفی کی کتاب خود پڑھ لیں اور پھر بتائیں کہ ان کے عقائد اور قرآن و سنت کے کی تعلیمات میں کیا مماثلت ہے ۔ ؟ آپ نے شریعت اور طریقت کے درمیان جس شرط کو بیان کیا ہے ۔ مجھے بتائیں کہ ان کی طریقت کس طرح شریعت کے احکامات سے مماثلت رکھتی ہے ۔ شہاب الدین سہروردی تو اپنے الہام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس درجے میں پہنچ جاتا ہے کہ " لاء یتی باطل البین یدھ خفلیہ " یہ ان کے الفاظ ہیں ۔ میرا خیال ہے صوفیاء کی کتابیں ہم نے نہیں پڑھیں ہیں ۔اور ہم کو معلوم ہی نہیں ہے کہ انہوں‌نے کیا کچھ لکھا ہے ۔ میں سے سب سے پہلے بنیادی ایمان " توحید " پر بات کرتا ہوں ۔ اور جب آپ توحید کی پہلی ، دوسری اور تیسری قسموں کو بیان کرتے ہیں تو میں پوچھوں گا کہ اس توحید کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟ یعنی میں یہ بات تو جانتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ اور مجھے اس کے سامنے ہی سربجود ہونا ہے ۔ وہ زمیں‌و آسماں‌کا خالق ہے ، کوئی ا سکا ثانی نہیں ہے ۔ یہ ساری توحید تو قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔ اس کی تفصیر صوفیاء آٹھ ، دس صفحات میں کردیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کے بعد یہ ساری توحید جو قرآن میں بیان ہوئی ہے اس کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ یہ توحید " توحیدِ عامہ " ہے ۔ آؤ اب ہم بتاتے ہیں کہ " اخصا الاخواص " کی توحید کیا ہے ۔ اور اگر آپ اس توحید کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں تو آپ پر یہ بات واضع ہوجائے گی کہ صوفیاء کرام نے کس طرح دین کی حدود سے باہر قدم رکھا ہے ۔ اگر آپ چاہیں گے تو میں اس پر بھی گفتگو کرنے کے لیئے تیار ہوں ۔ مگر شرط صرف یہ ہے کہ موضوع اپنے پیرائے میں رہے ۔
 

خرم

محفلین
دیکھئے بھیا پہلے ایک سوال۔ کیا آپ کبھی کسی صوفی کی صحبت میں بیٹھے؟ اگر نہیں تو پھر پہلے انہیں دیکھئے جانچئے پھر رائے قائم کیجئے۔طالوت بھیا نے صوفیاء کی کرامات کا انکار کیا۔ چلئے آپ کو وہ شعبدہ بازی لگتی ہے تو ایسے ہی سہی۔ آپ نہ مانیں گے بھی تو آپ کے ایمان میں‌کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صوفیاء پر ایمان لانا اسلام کا رکن نہیں۔ میں نے ریاست مدینہ کی توسیع کی مخالفت نہیں کی بھیا یہ عرض کیا تھا کہ ہوس جہانگیری اسلام کا مقصد نہیں بلکہ اسلام کا مقصد فرد کی کردار سازی کے ذریعے معاشرہ اور پھر تمام روئے زمین کی کردار سازی ہے۔
ظفری بھیا، جی بالکل میں نے یہی عرض کیا تھا۔ جیسے کہ آپ کو علم ہے میں ایک سلسلہ سے وابستہ ہوں اور الحمد للہ تعلیم دیا جاتا ہوں۔ جو نکات آپ کے سامنے عرض کئے یہ ہمیں ابتدائی تعلیم کے طور پر سمجھائے گئے۔ جہاں تک صوفیاء کی کتب کا تعلق ہے، میرا اپنا علم ابھی اس درجہ پر نہیں کہ میں ان پر رائے زنی کر سکوں۔ ایک مثال عرض کروں گا سمجھانے کو، ایک بچے کو آپ میاں بیوی کے رشتے کی نوعیت سمجھانے لگیں تو اگرچہ آپ سچ ہی کہہ رہے ہوں، وہ بچہ اور تمام معاشرہ آپکو انتہائی بُرا انسان سمجھے گا۔ جب تک انسان کی ذہنی استعداد اس حد تک نہیں پہنچ جاتی کہ وہ ان حقائق کو سمجھ سکے، یہ بہتر ہے کہ ان معاملات میں غور نہ کیا جائے۔ ان موضوعات پر رسائل لکھے جاسکتے ہیں اور لکھے جاتے رہے ہیں لیکن سورج کی روشنی کو رسالوں سے بیان نہیں‌کیا جاسکتا وہ بیتنے کی چیز ہے۔ یہی حال تصوف کا ہے۔
 

طالوت

محفلین
دیکھئے بھیا پہلے ایک سوال۔ کیا آپ کبھی کسی صوفی کی صحبت میں بیٹھے؟ اگر نہیں تو پھر پہلے انہیں دیکھئے جانچئے پھر رائے قائم کیجئے۔طالوت بھیا نے صوفیاء کی کرامات کا انکار کیا۔ چلئے آپ کو وہ شعبدہ بازی لگتی ہے تو ایسے ہی سہی۔ آپ نہ مانیں گے بھی تو آپ کے ایمان میں‌کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صوفیاء پر ایمان لانا اسلام کا رکن نہیں۔ میں نے ریاست مدینہ کی توسیع کی مخالفت نہیں کی بھیا یہ عرض کیا تھا کہ ہوس جہانگیری اسلام کا مقصد نہیں بلکہ اسلام کا مقصد فرد کی کردار سازی کے ذریعے معاشرہ اور پھر تمام روئے زمین کی کردار سازی ہے۔
ظفری بھیا، جی بالکل میں نے یہی عرض کیا تھا۔ جیسے کہ آپ کو علم ہے میں ایک سلسلہ سے وابستہ ہوں اور الحمد للہ تعلیم دیا جاتا ہوں۔ جو نکات آپ کے سامنے عرض کئے یہ ہمیں ابتدائی تعلیم کے طور پر سمجھائے گئے۔ جہاں تک صوفیاء کی کتب کا تعلق ہے، میرا اپنا علم ابھی اس درجہ پر نہیں کہ میں ان پر رائے زنی کر سکوں۔ ایک مثال عرض کروں گا سمجھانے کو، ایک بچے کو آپ میاں بیوی کے رشتے کی نوعیت سمجھانے لگیں تو اگرچہ آپ سچ ہی کہہ رہے ہوں، وہ بچہ اور تمام معاشرہ آپکو انتہائی بُرا انسان سمجھے گا۔ جب تک انسان کی ذہنی استعداد اس حد تک نہیں پہنچ جاتی کہ وہ ان حقائق کو سمجھ سکے، یہ بہتر ہے کہ ان معاملات میں غور نہ کیا جائے۔ ان موضوعات پر رسائل لکھے جاسکتے ہیں اور لکھے جاتے رہے ہیں لیکن سورج کی روشنی کو رسالوں سے بیان نہیں‌کیا جاسکتا وہ بیتنے کی چیز ہے۔ یہی حال تصوف کا ہے۔

اسی طرف تو ظفری نے اشارہ کیا تھا ۔ :) ۔ رہی صوفیاء کی کتب کی بات تو ممکن ہے ان کے بھی کوئی ظاہری و باطنی معنی ہوں بلکہ یقینآ ایسا ہی ہے ۔ اسلئے تو میں بی ٹیم کا ذکر کر رہا تھا ۔ بہرحال کردار سازی کیا بھاڑ میں جھونکنی ہے ؟ جب اس کا کچھ اثر ہی نہ ہو ۔ تیس چالیس برس پہلے پاکستان میں نہ تو اس قدر سلسلہیات تھے اور نہ جماعتیں اب تو ہر نکڑ پر کوئی نہ کوئی کھڑا تبلیغ کر رہا ہے مگر معاشرے کی حالت بری سے بری تر ہوتی جا رہی ہے۔
اس کی مثال کچھ یوں سمجھئے کہ جماعت اسلامی کے ایک صاحب سے ایک نشست میں اس سلسلے پر بات چلی ۔ تو انھوں نے بھی عرض کیا کہ کردار سازی تو ہو لینے دیں ۔ اب اس کردار سازی کے نتیجے میں جو گزشتہ ساٹھ دہایئوں سے زیادہ جاری ہے کیا مثبت نتیجہ سامنے آیا ہے ؟ یہی حالت صوفی ازم کی بھی ہے اور دوسرے تیسرے تمام گروہوں کی ۔ نتیجہ بلا شک و شبہ صفر ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ صوفیاء کے پاس سوائے جھوٹی تسلی دینے کو اور ایک مخصوص سوچ میں قید رکھنے کو کچھ بھی نہیں ۔ جسے شاید ہپٹنازم کہتے ہیں ۔
خیر یہ تو سطحی باتیں ہیں ۔ مجھے طفری کے اٹھائے گئے اعتراضات و خدشات کے جوابات کا انتظار ہے ۔
وسلام
 

خرم

محفلین
جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی تو ہم بات ہی نہیں کر رہے کہ موضوع تصوف ہے۔
ایک بنیادی فرق ہے میرے اور آپ کے دیکھنے میں۔ آپ چاہتے ہیں کہ پہلے ایک اسلامی مملکت کا قیام ہوجائے پھر کردار سازی بھی ہو جائے گی۔ میں اس نقطہ نظر کا حامی ہوں کہ مملکت اپنے افراد کے مجموعی رویہ کا اظہاریہ ہوتی ہے۔ اسی لئے جیسے جیسے افراد کی مجموعی بلندی کردار میں‌تغیر آتا گیا، مسلمان بحیثیت ملت بھی تنزل کا شکار ہوتے رہے اور اس کی ابتداء خلافت راشدہ سے ہی ہو گئی تھی۔ اس موضوع پر ایک مضمون بھی ہے ہمارے حضور پیر صاحب کا جو موقع ملنے پر نقل کروں گا انشاء اللہ۔
ظفری بھیا کی بات کا ایک مختصر سا جواب دیتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ کہہ دیا سو توحید کا فرض پورا ہوگیا۔ آپ مسلمان ہوگئے۔ اب اس سے آگے ایک اور درجہ ہے جسے سلطان باہو نے ایسے کہا
جو دم غافل سو دم کافر
یعنی ہر وقت دل میں اللہ کی یاد رہے اور کسی لمحہ انسان اس سے غفلت نہ کرے۔ یہاں کفر کا فتوٰی معنوی نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا کہ جو دم اللہ کی یاد کے بغیر گزر گیا تو ایسے جیسے میں اس دم کافر رہا۔ یہ خواص کا مقام ہے۔ میں ان معاملات پر زیادہ بات کرنے سے اس لئے کتراتا ہوں کہ اول تو میرا اپنا علم اس سطح کا نہیں دوم یہ کہ تمام معاملات ہر کسی سے بیان کرنے کے نہیں اور ان میں باتوں سے زیادہ واردات قلبی کا تعلق ہوتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی تو ہم بات ہی نہیں کر رہے کہ موضوع تصوف ہے۔
ایک بنیادی فرق ہے میرے اور آپ کے دیکھنے میں۔ آپ چاہتے ہیں کہ پہلے ایک اسلامی مملکت کا قیام ہوجائے پھر کردار سازی بھی ہو جائے گی۔ میں اس نقطہ نظر کا حامی ہوں کہ مملکت اپنے افراد کے مجموعی رویہ کا اظہاریہ ہوتی ہے۔ اسی لئے جیسے جیسے افراد کی مجموعی بلندی کردار میں‌تغیر آتا گیا، مسلمان بحیثیت ملت بھی تنزل کا شکار ہوتے رہے اور اس کی ابتداء خلافت راشدہ سے ہی ہو گئی تھی۔ اس موضوع پر ایک مضمون بھی ہے ہمارے حضور پیر صاحب کا جو موقع ملنے پر نقل کروں گا انشاء اللہ۔
ظفری بھیا کی بات کا ایک مختصر سا جواب دیتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ کہہ دیا سو توحید کا فرض پورا ہوگیا۔ آپ مسلمان ہوگئے۔ اب اس سے آگے ایک اور درجہ ہے جسے سلطان باہو نے ایسے کہا
جو دم غافل سو دم کافر
یعنی ہر وقت دل میں اللہ کی یاد رہے اور کسی لمحہ انسان اس سے غفلت نہ کرے۔ یہاں کفر کا فتوٰی معنوی نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا کہ جو دم اللہ کی یاد کے بغیر گزر گیا تو ایسے جیسے میں اس دم کافر رہا۔ یہ خواص کا مقام ہے۔ میں ان معاملات پر زیادہ بات کرنے سے اس لئے کتراتا ہوں کہ اول تو میرا اپنا علم اس سطح کا نہیں دوم یہ کہ تمام معاملات ہر کسی سے بیان کرنے کے نہیں اور ان میں باتوں سے زیادہ واردات قلبی کا تعلق ہوتا ہے۔

معافی کا خواستگار ہوں خرم بھائی ۔۔۔۔ آپ نے یہ جملہ کہہ کر ساری بحث ہی ختم کردی ہے ۔ علمی بحث تو میں‌ کہوں‌گا ہی نہیں‌ کہ آپ کی طرف سے ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ سوائے صوفیانہ عقائد کے آپ نے کوئی بات دلیل ، استدلال اور ثبوت کیساتھ نہیں پیش کی ۔ میری طرف سے بحث ختم سمجھیں ۔
 

طالوت

محفلین
[/color]
اس کی مثال کچھ یوں سمجھئے کہ جماعت اسلامی کے ایک صاحب سے ایک نشست میں اس سلسلے پر بات چلی ۔ وسلام

جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی تو ہم بات ہی نہیں کر رہے کہ موضوع تصوف ہے۔
ایک بنیادی فرق ہے میرے اور آپ کے دیکھنے میں۔ آپ چاہتے ہیں کہ پہلے ایک اسلامی مملکت کا قیام ہوجائے پھر کردار سازی بھی ہو جائے گی۔ میں اس نقطہ نظر کا حامی ہوں کہ مملکت اپنے افراد کے مجموعی رویہ کا اظہاریہ ہوتی ہے۔ اسی لئے جیسے جیسے افراد کی مجموعی بلندی کردار میں‌تغیر آتا گیا، مسلمان بحیثیت ملت بھی تنزل کا شکار ہوتے رہے اور اس کی ابتداء خلافت راشدہ سے ہی ہو گئی تھی۔ اس موضوع پر ایک مضمون بھی ہے ہمارے حضور پیر صاحب کا جو موقع ملنے پر نقل کروں گا انشاء اللہ۔
ظفری بھیا کی بات کا ایک مختصر سا جواب دیتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ کہہ دیا سو توحید کا فرض پورا ہوگیا۔ آپ مسلمان ہوگئے۔ اب اس سے آگے ایک اور درجہ ہے جسے سلطان باہو نے ایسے کہا
جو دم غافل سو دم کافر
یعنی ہر وقت دل میں اللہ کی یاد رہے اور کسی لمحہ انسان اس سے غفلت نہ کرے۔ یہاں کفر کا فتوٰی معنوی نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا کہ جو دم اللہ کی یاد کے بغیر گزر گیا تو ایسے جیسے میں اس دم کافر رہا۔ یہ خواص کا مقام ہے۔ میں ان معاملات پر زیادہ بات کرنے سے اس لئے کتراتا ہوں کہ اول تو میرا اپنا علم اس سطح کا نہیں دوم یہ کہ تمام معاملات ہر کسی سے بیان کرنے کے نہیں اور ان میں باتوں سے زیادہ واردات قلبی کا تعلق ہوتا ہے۔
واردات قلبی ;)
وسلام
 

نایاب

لائبریرین
معافی کا خواستگار ہوں خرم بھائی ۔۔۔۔ آپ نے یہ جملہ کہہ کر ساری بحث ہی ختم کردی ہے ۔ علمی بحث تو میں‌ کہوں‌گا ہی نہیں‌ کہ آپ کی طرف سے ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ سوائے صوفیانہ عقائد کے آپ نے کوئی بات دلیل ، استدلال اور ثبوت کیساتھ نہیں پیش کی ۔ میری طرف سے بحث ختم سمجھیں ۔

السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
سدا خوش رہیں آمین
بحث نہ سمجھیں تو کچھ پوچھنا چاہوں گا ۔
قران پاک میں سورہ الضحی میں یہ جو آیت قرانی ہے کہ
" ووجدک ضالا فی الھدی "
اس کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے ۔؟
نایاب
 

نایاب

لائبریرین

السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
سدا خوش رہیں آمین
بحث سے درگزر کرتے ہوئے کیا آپ مجھے " سورہ الفتح "
کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کر سکتے ہیں ۔ ؟
کہ اس کے نزول کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے ۔
اللہ کرے زور علم و عمل اور زیادہ آمین
نایاب
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
سدا خوش رہیں آمین
بحث نہ سمجھیں تو کچھ پوچھنا چاہوں گا ۔
قران پاک میں سورہ الضحی میں یہ جو آیت قرانی ہے کہ
" ووجدک ضالا فی الھدی "
اس کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے ۔؟
نایاب
نایاب بھائی گستاخی کے لیئے معذرت خواہ ہوں مگر مجھے آپ کے اس اندازِگفتگو سے الجھن ہونے لگی ہے ۔ آپ اور خرم بھائی نے ابھی تک میرے ایک بھی اعتراض اور خدشات کا جواب نہیں دیا ہے ۔ اور پھر ایک نیا مدعا شروع ہوجاتا ہے ۔ پہلے آپ میری باتوں کے جوابات ارشاد کردیجیئے پھر بات آگے بڑھے گی ۔ ورنہ گفتگو ختم ہی سمجھیں ۔ کیونکہ حجت برائے حجت صرف وقت کا ضیاع ہے ۔
شکریہ
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی گستاخی کے لیئے معذرت خواہ ہوں مگر مجھے آپ کے اس اندازِگفتگو سے الجھن ہونے لگی ہے ۔ آپ اور خرم بھائی نے ابھی تک میرے ایک بھی اعتراض اور خدشات کا جواب نہیں دیا ہے ۔ اور پھر ایک نیا مدعا شروع ہوجاتا ہے ۔ پہلے آپ میری باتوں کے جوابات ارشاد کردیجیئے پھر بات آگے بڑھے گی ۔ ورنہ گفتگو ختم ہی سمجھیں ۔ کیونکہ حجت برائے حجت صرف وقت کا ضیاع ہے ۔
شکریہ

السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
آپ کی بحث خرم بھائی سے ہو رہی تھی ۔
میں نے تو ذرا بھی بحث نہ کی ۔ اور آج جب آپ بحث سے باہر نکلے
تو اک سوال پوچھ لیا آپ سے ۔
میں ایسی بحث کر ہی نہیں سکتا ۔
" لکم دینکم ولی دین "
والی راہ بہتر سمجھتا ہوں ۔
معذرت آپ نے میرے سوال کو بحث کا حصہ سمجھا ۔
نایاب
 

زونی

محفلین
میرے خیال سے نظریہء‌تصوف انفرادی طور پہ کسی حد تک مفید ہو سکتا ھے لیکن قرآن مجید سے اس کا اثبات نہیں ملتا ، اسلیئے اسے دین کا حصہ نہیں قرار دیا جانا چاہیئے ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرے خیال سے نظریہء‌تصوف انفرادی طور پہ کسی حد تک مفید ہو سکتا ھے لیکن قرآن مجید سے اس کا اثبات نہیں ملتا ، اسلیئے اسے دین کا حصہ نہیں قرار دیا جانا چاہیئے ۔

دین کا حصہ تو ہے ہاں البتہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے ۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
سدا خوش رہیں آمین
بحث سے درگزر کرتے ہوئے کیا آپ مجھے " سورہ الفتح "
کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کر سکتے ہیں ۔ ؟
کہ اس کے نزول کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے ۔
اللہ کرے زور علم و عمل اور زیادہ آمین
نایاب

یقینآ آپ کی اس خواہش کا تعلق موضوع سے نہیں ۔
وسلام
 
Top