تصوف نابغہ ءروزگار لوگوں‌کی آخری پناہ گاہ ہے۔

خرم

محفلین
معافی کا خواستگار ہوں خرم بھائی ۔۔۔۔ آپ نے یہ جملہ کہہ کر ساری بحث ہی ختم کردی ہے ۔ علمی بحث تو میں‌ کہوں‌گا ہی نہیں‌ کہ آپ کی طرف سے ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ سوائے صوفیانہ عقائد کے آپ نے کوئی بات دلیل ، استدلال اور ثبوت کیساتھ نہیں پیش کی ۔ میری طرف سے بحث ختم سمجھیں ۔
ظفری بھیا میں معافی کا خواستگار ہوں کہ آپ کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ جیسا کہ بارہا عرض کی کہ میں اس موضوع پر ایک بحث سے بچنا چاہتا ہوں کہ میرا اپنا علم اس قدر نہیں کہ میں ان عظیم الشان ہستیوں کے علم کا خلاصہ بیان کرسکوں۔ میں تو ایک طفل مکتب اور وہ بھی انتہائی ابتدائی درجہ کا ہوں۔ سو اس بار گراں کو اٹھانا اپنی حیثیت و استعداد سے بہت زیادہ سمجھتا ہوں۔ صوفیاء پر الزامات کا سلسلہ آج سے نہیں شروع۔ یہ بہت پُرانا ہے لیکن پھر بھی وہ کیا وجہ ہے کہ آج بھی لوگ ان لوگوں کا نام ادب و احترام سے لیتے ہیں؟ میرے تئیں تو یہی بات سوچنے والی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حضرت علی ہجویری جن کے پاس نہ مال تھا، نہ جاہ، نہ رُتبہ نہ اولاد لیکن پھر بھی ان کا نام زندہ ہے، ان کا کام زندہ ہے اور لوگ بنا کسی دھمکی، دباؤ کے ان سے عقیدت رکھتے ہیں؟ لاہور میں ایک فرمانروائے ہندوستان اور اس کی ملکہ مدفون ہیں، ایک شہنشاہ کے خسر اور ایک کے برادر نسبتی مدفون ہیں، لیکن پھر بھی یہ شہر داتا کی نگری کہلاتا ہے جہانگیر یا نورجہاں کی نگری نہیں۔ آپ نے سوال کیا کہ یہ ذاتی تزکیہ نفس کرتے رہے، اجتماعی نہیں۔ ایسا ہی ہوگا بھیا لیکن خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کو کہاں رکھئے گا، بابافرید الدین کی سعی کو کیا کہئے گا، حضرت نظام الدین اولیاء کی جہد کو کیسے صرف ذاتی تزکیہ گردانئے گا اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی سعی کو کیا کیجئےگا؟ قیام پاکستان میں آپ مشائخ کا کردار دیکھئے، سب نے ایک جان ایک زبان ہوکر قائد اعظم کی حمایت کی جب کہ "علماء" اس وقت بھی کافر اعظم کے فتاوٰی جڑ رہے تھے۔
میں دوبارہ اعتراف کرتا ہوں کہ میرا علم بہت محدود ہے۔ میں تو خود ابھی ابتدائی اسباق پر عمل کی کوشش کررہا ہوں لیکن سوچنے کو بہت کچھ ہے اور نشانیاں سامنے بکھری پڑی ہیں۔ بزرگوں کی تصنیفات پر بحث کرنے کے لئے یا ان کے مطالب بیان کرنے کے لئے بندے کے پاس تھوڑا بہت علم تو ہو۔ میں اس منزل سےکوسوں‌دور ہوں سو نفس کے زیر اثر کیوں اپنی اور آپ کی راہ کھوٹی کروں۔ ہاں جو کچھ ٹوٹا پھوٹا مجھے علم ہے وہ آپ کے گوش گزار کر دیتا ہوں۔ ویسے بھی دیگ کے چند دانے ہی چکھ کر ذائقہ کا پتہ چل جاتا ہے۔
 

خرم

محفلین
یہ ایک سبق آپ کی نظر کے لئے۔ کسی بحث کے لئے نہیں، کسی مسئلہ کو بیان کرنے کے لئے نہیں بس یہ بتانے کے لئے کہ ہمیں کیا سکھایا جاتا ہے۔

حضور پیر نظیر احمد نے فرمایا: انسان کی زندگی کا اساسی مسئلہ یہ ہے کہ اس دنیا میں اس کی زندگی کا مقصود کیا ہے؟

انسانی زندگی ایک خاص مقصد کے لیے ہے اللہ پاک نے انسان کو اس دنیا میں نہایت مختصر وقت کے لیے بھیجا ہے یہاں جو آتا ہے یہاں سے جانے کے لیے آتا ہے کسی کو یہاں قرار نہیں مالک نے بشریت کے قالب میں ایک عظیم الشان شے رکھ دی ہے ۔جس میں لامحدود عظمتیں پنہاں ہیں ۔ زندگی کا اصل مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہےاللہ پاک کی غلامی اختیار کر کے اس کی خوشنودی اور قرب الٰہی حاصل کرنا

عام طور پر انسان دنیا میں آ کر بشریت سے مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کی نورانی کیفیت پس پشت پڑ جاتی وہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اور دنیا کی طرف ہی متوجہ ہو جاتا ہے یہی انسان کی غفلت اور اس کا نسیان ہے۔دراصل دنیا میں انسان کو اس طرح رہنا چاہیے کہ اپنی غفلت کو دور کر کے نورانیت سے مغلوب کیا جائے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا اور اسباب دنیا سارے کے سارے محض سہولت اور قیام زندگی کے لیے ہیں اور زندگی صرف مالک الملک کی غلامی اور عبودیت کے لیے ہے زندگی اللہ پاک کے عشق اور صحیح خیال میں گزرنی چاہیے۔

انسان کا خیال نہایت قیمتی شے ہے اگر یہ خیال صحیح ہو جائے اور صحیح راستوں پر چلنا شروع کر دے تو یہ خیال قرب الٰہی کو پہنچا دیتا ہے اپنے خیال کو صحیح رکھنا چاہیے اور اصل مقصود بالذات یعنی قرب الٰہی پر مرکوز رکھنا چاہیے کوئی لمحہ ایسانہ گزرے جو مالک کی یاد سے غافل ہو معبود حقیقی نے جو حدود انسان کے لیے مقرر کر دی ہیں ان کی پابندی کرتے ہوئے وہ جو کام بھی کرے گا وہ عبادت ہو گا۔

قرآن مجید میں انسانی مقصدِ حیات کا تعین خود اللہ تعالی نے فرما دیا ہے

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون(الذریت :۵۶)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں

عموما تفسیروں میں لیعبدون کا ترجمہ عبادت سے تعبیر کرتے ہیں اور مدعا محض نماز،روزہ،زکوۃ اور حج لیتے ہیں یہ عبادت کا محدود مقصد ہے اصل میں عبدیت مراد ہے۔ورنہ تمام فرشتے اور کائنات کی ہر چیز ہر وقت مصروف عبادت ہے۔ یسبح للہ ما فی السموات وما فی الارض(التغابن:۱)
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمینوں میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہیں۔

عبدیت جو عظیم تر ہے وہ مقصود ہے۔چنانچہ کلمہ شہادت میں مقام عبدیت کو مقام رسالت پر مقدم رکھا گیا ہے۔اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔عبد پہلے آتا ہے اور رسول بعد میں ہے ۔ مدعا یہ ہے کہ عبدہ کا مقام رسولہ سے افضل ہے۔

انسان کو اس دنیا میں اپنے خالق، مالک اور معبود حقیقی کے عبد(بندے) کی حیثیت سے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرنا اور زندگی بسر کرنا ہے اور اس کی عبدیت اختیار کرنا ہے تاکہ وہ اس کا قرب اور خوشنودی حاص کر سکے یہی اس کا مقصود حیات ہے۔
 

خرم

محفلین
ویسے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سب کی تصوف کی تعریف ہی مختلف ہو؟ ابھی تک ظفری بھیا نے یا طالوت بھائی نے تصوف کی کوئی تعریف تو متعین ہی نہیں فرمائی۔ اگر میری نظر چوک گئی ہو تو معذرت۔
 

طالوت

محفلین
ویسے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سب کی تصوف کی تعریف ہی مختلف ہو؟ ابھی تک ظفری بھیا نے یا طالوت بھائی نے تصوف کی کوئی تعریف تو متعین ہی نہیں فرمائی۔ اگر میری نظر چوک گئی ہو تو معذرت۔

قابل لوگ جب دنیا کو اپنے اندازوں پر سمیٹ نہیں پاتے تو وہ تصوف کا رخ کر لیتے ہیں ۔ یعنی کیتا کرایا کھوو ! کیونکہ تصوف ایک ایسا نشہ ہے جو ہر غم و الم سے بیگانہ کر کے خیالی دنیا میں زندہ رکھتا ہے ۔
وسلام
پچھلے صفحے پر تعریف کر دی تھی ۔
وسلام
 

خرم

محفلین
بھیا اس میں آپ نے تعریف تو نہیں کی بلکہ ایک عمومی بات کی ہے۔ تصوف کی تعریف سے مراد یہ کہ کیا عقائد ہیں جن کی بنیاد پر تصوف کی عمارت قائم ہے؟ تصوف یا طریقت کہتے کسے ہیں؟ اس کا مدعا کیا ہے اور کیوں‌ہے؟ قصہ مختصرآپ کسے صوفی کہیں گے؟
 

زونی

محفلین
نہیں آبی یہ مذاق کی بات نہیں بلکہ ایک سنجیدہ مسئلہ ھے ، مجھے لگتا ھے کہ اس چیز نے مسلمانوں میں سے عملیت کا رجحان ہی ختم کر دیا ھے ، دین کا اصل مقصد تو ایک مفید معاشرے کے اسباب پیدا کرنا ہی ھے ناں ، لیکن تصوف تو کسی اور ہی دنیا میں کھو جانے کا نام ھے ، یعنی اجتماعی زندگی کی نفی ،اور یہ کسی طور سے دین کا حصہ نہیں ھے ۔
 

خرم

محفلین
ارے بھیا آپ لوگ الزامات دُہرائے جا رہے ہیں لیکن تصوف کی تعریف بھی تو کر دیجئے پہلے۔بنا کوئی جامع تعریف مقرر کئے یہ تو وہی "میدان جنگ" کے دھاگے والی بات ہوئی۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
نہیں آبی یہ مذاق کی بات نہیں بلکہ ایک سنجیدہ مسئلہ ھے ، مجھے لگتا ھے کہ اس چیز نے مسلمانوں میں سے عملیت کا رجحان ہی ختم کر دیا ھے ، دین کا اصل مقصد تو ایک مفید معاشرے کے اسباب پیدا کرنا ہی ھے ناں ، لیکن تصوف تو کسی اور ہی دنیا میں کھو جانے کا نام ھے ، یعنی اجتماعی زندگی کی نفی ،اور یہ کسی طور سے دین کا حصہ نہیں ھے ۔

سبحان اللہ ، یعنی جتنے بھی بے عملے یا بد عملے مسلمان ہیں وہ سب تصوف کی تعلیمات کا شاخسانہ ہیں لا حوال ولا قوۃ ۔ ۔ ۔ ارے تصوف ہی تو عمل پر زور دیتا ہے بد عملوں اور بے عملوں کو عمل والا بناتا ہے اور یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ تصوف تو کسی اور ہی دنیا کا نام ہے ؟؟؟؟؟'
 

آبی ٹوکول

محفلین
ارے بھیا آپ لوگ الزامات دُہرائے جا رہے ہیں لیکن تصوف کی تعریف بھی تو کر دیجئے پہلے۔بنا کوئی جامع تعریف مقرر کئے یہ تو وہی "میدان جنگ" کے دھاگے والی بات ہوئی۔

بھیا تصوف تزکیہ نفس کا نام ہے اور قرآن پاک کی آیت کا مصداق ہے قد افلح من تزکٰی ۔ ۔ ۔ ۔یہی تصوف کی مختصر اور جامع ترین تعریف ہے ۔ ۔ ۔ ۔
 

فہیم

لائبریرین
میں نے یہ دھاگہ پورا نہیں پڑھا ہے۔
بس چند ایک پوسٹس دیکھی ہیں۔

اور میں‌ پہلے کبھی اس قسم کے کسی دھاگے میں پایا بھی نہیں گیا ہونگا۔

اور میں کسی بحث میں بھی نہیں پڑنا چاہتا۔

بس یہ کہوں گا ان حضرات کو جو تصوف کے خلاف لکھ رہے ہیں۔
اور اولیاء کرام کو نہیں مانتے۔ تصوف کو بدعت قرار دینے پر تلے ہیں۔


رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت میں ایک شخص ایسا ہے جس کی وجہ سے قبیلہ بنو امیہ کے بھیڑ بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر مسلمانوں کی بخشش ہوگی۔

وہ شخص کون تھے۔

وہ شخص حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ تھے۔
اور دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتا مبارک رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انہیں کو دیا گیا تھا۔
جو کہ حضرت عمر فاروق اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ خود جاکر انہیں دے کر آئے تھے۔

اب جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہو تو اس میں تو کہیں سے بھی کسی قسم کی بحث کی یا اسے نہ ماننے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ کہ اللہ معاف فرمائے یہ بات غلط ہو۔


تو صاحبوں حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کون تھے؟

چونکہ کبھی ظاہری طور پر ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا شرف حاصل نہ تھے۔ اس لیے ان کا شمار صحابہ میں نہیں بلکہ تابعین میں ہوتا ہے۔



اگر آپ ان کے حالات پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اکثر جذب کی سی کیفیت میں رہتے تھے۔
اکثر ویرانوں میں نکل جاتے تھے۔
تو بھائی یہ کیا ہے۔
کیا یہ تصوف نہیں؟


اگر تو تصوف کوئی غلط چیز ہوتا۔
تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت اویس قرنی کے متعلق یہ بات فرماتے؟


باقی آپ خود سوچ سمجھ سکتے ہیں۔







اگر کچھ غلط لکھ دیا ہوں۔
تو اللہ معاف فرمائے (آمین)
 

فہیم

لائبریرین
ایک بات اور کہ
حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار اولیاء کرام میں بھی ہوتا ہے۔
 

خرم

محفلین
یقیناَ فہیم اور پھر اس قصہ میں یہ بات بھی کہ جب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پہنچا تو سجدے میں گر گئے اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ اصحاب عمر و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خیال گزرا کہ کہیں ان کی وفات نہ ہوگئی ہو سو انہیں ہلایا۔ اس پر حضرت اویس قرنی نے سر سجدے سے اُٹھایا اور فرمایا کہ "آپ نے ناحق مجھے سجدے سے اٹھا دیا وگرنہ آج میں اللہ سے ساری امت کی خطائیں بخشوا دیتا لیکن پھر بھی اللہ نے اپنی رحمت سے بنو امیہ کی بھیڑ بکریوں کے بال برابر امت کی بخشش کا وعدہ فرمایا ہے"۔ اب اس قصہ سے اگر آپ انکاری نہیں تو پھر یہ تمام باتیں سوچنےپر ضرور مجبور کرتی ہیں لیکن پہلے یہ کہ تصوف ہے کیا؟
 

طالوت

محفلین
ہاہاہا ۔ وہی عجیب و غریب کہانیاں ، محنت کسی کی بھل کسی کو ۔ اس کے جواب میں نے شمار قرانی آیات پیش کی جا سکتی ہیں مگر کیا فائدہ ۔
وسلام
 

خرم

محفلین
ہوسکتا ہے آپ کی بات درست ہو میرے پیارے بھائی لیکن پہلے آپ تصوف/طریقت کی تعریف تو کیجئے وگرنہ تو ہم سب ہوا میں تلواریں ہی چلا رہے ہیں۔
 

فہیم

لائبریرین
میرے خیال میں یہاں تصوف کا مطلب کچھ اور لیا جارہا ہے۔
کہ انسان دنیا سے بالکل ہی لاتعلق ہوجائے۔

جبکہ ایسا نہیں ہے۔


اگر مشہور صوفی بزرگ حضرت علی ہجویر رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کے حالات و واقعات کا مطالعہ کیا جائے۔
تو معلوم ہو کہ انہوں نے اپنی زندگی بھرے پرے شہر میں انسانوں کے درمیان عام انداز میں ہی بسر کی۔

اور اسی عرصے میں انہوں نے بے تحاشہ لوگوں کو مسلمان بھی کیا۔
یعنی کہ نہ وہ ویرانوں میں ہی چلہ کشی کرتے رہے نہ ہی دنیا سے بالکل لاتعلق ہوئے۔
 

طالوت

محفلین
آپ اس بات کے لئے بضد ہیں جو میں کر چکا ۔ اور جس کی تفصیل بھی کئی ایک بار ہو چکی ۔
وسلام
 
Top