تصوف نابغہ ءروزگار لوگوں‌کی آخری پناہ گاہ ہے۔

طالوت

محفلین
قابل لوگ جب دنیا کو اپنے اندازوں پر سمیٹ نہیں پاتے تو وہ تصوف کا رخ کر لیتے ہیں ۔ یعنی کیتا کرایا کھوو ! کیونکہ تصوف ایک ایسا نشہ ہے جو ہر غم و الم سے بیگانہ کر کے خیالی دنیا میں زندہ رکھتا ہے ۔
وسلام
 

خرم

محفلین
تصوف ہے کیا آپ کے نزدیک اور کونسی خیالی دُنیا کا ذکر کر رہے ہیں‌پیارے بھیا؟
قابل لوگ جب اس دنیا کی حقیقت سے آشنا ہوجاتے ہیں اور ادراک ذات کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو انہیں‌صوفی کہا جاتا ہے اور اس راستہ کو تصوف۔ خیال تو یہ دُنیا ہے، حقیقت تو وہ دُنیا ہے جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
تصوف ہے کیا آپ کے نزدیک اور کونسی خیالی دُنیا کا ذکر کر رہے ہیں‌پیارے بھیا؟
قابل لوگ جب اس دنیا کی حقیقت سے آشنا ہوجاتے ہیں اور ادراک ذات کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو انہیں‌صوفی کہا جاتا ہے اور اس راستہ کو تصوف۔ خیال تو یہ دُنیا ہے، حقیقت تو وہ دُنیا ہے جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔

السلام علیکم
محترم خرم بھائی
سدا خوش رہیں آمین
ادراک ذات ۔۔ اپنی حقیقت کی پہچان ۔
اپنی روح کی اس دنیائے فانی میں آمد و باعث کی حقیقت
اس جسم خاکی کی حقیقت و معرفت ۔
مختصر جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے حق کو پہچان لیا ۔
جس نے حق کو پہچانا وہ دنیا میں اپنے فرائض و واجبات کو ادا کرتے ہوئے
فلاح انسانیت کے لیئے سرگرم رہا ۔
گویا کسی نے ایسا لباس پہن لیا جو اسے موسموں کے سرد و گرم سے بچاتا ہے ۔
صوفی ۔ صوف کا لبادہ اوڑھنے والا ہو
یا
قلب صفاء کا مالک ۔
دونوں صورتوں میں آزار سے محفوظ ۔
نایاب
 

ظفری

لائبریرین
مسلمان جب زوال آشنا ہوئے تو ان کے علماؤں اور لیڈروں نے زوال پذیری کی جوتشخیص کی انتہائی غلط کی اور جو علاج تجویز کیا وہ بھی غلط کیا ہے ۔ دیکھیں۔۔۔ پچھلے دو تین سو سالوں سے کیا تشخیص کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی خلافت کا استحکام قائم نہیں رکھا اور جہاد کو ترک کردیا ہے ۔ اگر اب بھی وہ جہاد کرنے کے لیئے نکل کھڑے ہوں‌ تو اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ دنیا پر ان کا تسلط قائم کردے گا ۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے زوال کے اصل حقائق جاننے کے بجائے اس تشخیص کو صحیح جانتے ہوئے اس نسخہ کو آزمانا شروع کیا ۔ پچھلے دو تین سو سالوں میں مسلمانوں نے اس نوعیت کے جتنے بھی اقدامات کیئے ان میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہیں ہوا ۔ اور یہ اقدامات آپ اور میرے جیسوں لوگوں نے ہی نہیں کیئے بلکہ بڑے صالحین ، بہت نیک لوگوں نے بھی کیئے ۔ مگر سب ناکامیابی سے ہمکنار ہوئے ایک بھی کامیاب نہیں‌ ہوا ۔ اور آج بھی مسلمانوں کی لیڈرشپ میں‌ کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ آج بھی ان کا درس یہی ہے کہ تم لوگوں پر کچھ لوگوں نے سازشیں کرکے غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ سارا قصور انہی لوگوں کا ہے اور تم لوگ باہر نکلو اور ان سے لڑنے مرنے لیئے تیار ہوجاؤ۔ اور آج اسی نسخے پر عمل کرتے ہوئے ہماری کیا حالت ہوگئی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔

اگر زوال پذیری کے عوامل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دوسری اور تیسری صدی کے بعد مسلمانوں کے علم و عمل کا محور قرآن نہیں رہا ۔ جو آدمی مسلمانوں کی تاریخ پر نگاہ رکھتا ہے اسے اس بات کا بخوبی علم ہوگا ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کو وسعت دی ۔ تو بجائے اس کہ وہ سائنسی اور طبعی علوم کی طرف بڑھتے ان کی دلچسپی کا مرکز فلسفہ اور تصوف بن گیا ۔ بڑے بڑے ذہین لوگ اسی طرف راغب رہے ۔ اور اب جن چند سائنسدانوں کا لوگ ذکر کرتے ہیں تو مغرب کی سائنسی ترقی سے متاثر ہوکر کرتے ہیں ۔ مسلمانوں نے اس دور میں ان کی کبھی بھی قدر نہیں کی ۔

تصوف اور فلسفہ جو مسلمانوں کے زوال پذیری کے اسباب میں سے ایک ہے ۔میں‌نے ابھی ایک طرح کی تمہید باندھی ہے مگر اس پر میں مکمل بحث کرنے لیئے تیار ہوں ۔
 

علی ذاکر

محفلین
تصوف ہے کیا آپ کے نزدیک اور کونسی خیالی دُنیا کا ذکر کر رہے ہیں‌پیارے بھیا؟
قابل لوگ جب اس دنیا کی حقیقت سے آشنا ہوجاتے ہیں اور ادراک ذات کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو انہیں‌صوفی کہا جاتا ہے اور اس راستہ کو تصوف۔ خیال تو یہ دُنیا ہے، حقیقت تو وہ دُنیا ہے جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔

خرم ذرا اس دنیا کے بارے میں کچھ بتائیں گے آخر وہ کون سی دنیا ہے جو ہماری نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم سے اوجھل ہے ؟

مع السلام
 

نایاب

لائبریرین
مسلمان جب زوال آشنا ہوئے تو ان کے علماؤں اور لیڈروں نے زوال پذیری کی جوتشخیص کی انتہائی غلط کی اور جو علاج تجویز کیا وہ بھی غلط کیا ہے ۔ دیکھیں۔۔۔ پچھلے دو تین سو سالوں سے کیا تشخیص کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی خلافت کا استحکام قائم نہیں رکھا اور جہاد کو ترک کردیا ہے ۔ اگر اب بھی وہ جہاد کرنے کے لیئے نکل کھڑے ہوں‌ تو اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ دنیا پر ان کا تسلط قائم کردے گا ۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے زوال کے اصل حقائق جاننے کے بجائے اس تشخیص کو صحیح جانتے ہوئے اس نسخہ کو آزمانا شروع کیا ۔ پچھلے دو تین سو سالوں میں مسلمانوں نے اس نوعیت کے جتنے بھی اقدامات کیئے ان میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہیں ہوا ۔ اور یہ اقدامات آپ اور میرے جیسوں لوگوں نے ہی نہیں کیئے بلکہ بڑے صالحین ، بہت نیک لوگوں نے بھی کیئے ۔ مگر سب ناکامیابی سے ہمکنار ہوئے ایک بھی کامیاب نہیں‌ ہوا ۔ اور آج بھی مسلمانوں کی لیڈرشپ میں‌ کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ آج بھی ان کا درس یہی ہے کہ تم لوگوں پر کچھ لوگوں نے سازشیں کرکے غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ سارا قصور انہی لوگوں کا ہے اور تم لوگ باہر نکلو اور ان سے لڑنے مرنے لیئے تیار ہوجاؤ۔ اور آج اسی نسخے پر عمل کرتے ہوئے ہماری کیا حالت ہوگئی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔

اگر زوال پذیری کے عوامل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دوسری اور تیسری صدی کے بعد مسلمانوں کے علم و عمل کا محور قرآن نہیں رہا ۔ جو آدمی مسلمانوں کی تاریخ پر نگاہ رکھتا ہے اسے اس بات کا بخوبی علم ہوگا ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کو وسعت دی ۔ تو بجائے اس کہ وہ سائنسی اور طبعی علوم کی طرف بڑھتے ان کی دلچسپی کا مرکز فلسفہ اور تصوف بن گیا ۔ بڑے بڑے ذہین لوگ اسی طرف راغب رہے ۔ اور اب جن چند سائنسدانوں کا لوگ ذکر کرتے ہیں تو مغرب کی سائنسی ترقی سے متاثر ہوکر کرتے ہیں ۔ کبھی مسلمانوں نے اس دور میں ان کی کبھی بھی قدر نہیں کی ۔

تصوف اور فلسفہ جو مسلمانوں کے زوال پذیری کے اسباب میں سے ایک ہے ۔میں‌نے ابھی ایک طرح کی تمہید باندھی ہے مگر اس پر میں مکمل بحث کرنے لیئے تیار ہوں ۔
السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
سدا خوش رہیں آمین
بحث کرنی تو مجھ کم علم کے لیے بہت مشکل ہے ۔
اور آج تک کبھی بحث سے فلاح آمیز نتیجہ نکلتا نہیں دیکھا ۔
اک سوال کرنا چاہوں گا لیکن بحث کے تناظر میں نہیں ۔
صرف علم میں اضافے کے لیے ۔
تاریخ اسلام میں سب سے پہلی بحث کونسی ہے ۔ ؟
اور کس موضوع پر ہے ۔ ؟
نایاب
 

طالوت

محفلین
اگر زوال پذیری کے عوامل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دوسری اور تیسری صدی کے بعد مسلمانوں کے علم و عمل کا محور قرآن نہیں رہا ۔ جو آدمی مسلمانوں کی تاریخ پر نگاہ رکھتا ہے اسے اس بات کا بخوبی علم ہوگا ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کو وسعت دی ۔ تو بجائے اس کہ وہ سائنسی اور طبعی علوم کی طرف بڑھتے ان کی دلچسپی کا مرکز فلسفہ اور تصوف بن گیا ۔ بڑے بڑے ذہین لوگ اسی طرف راغب رہے ۔ اور اب جن چند سائنسدانوں کا لوگ ذکر کرتے ہیں تو مغرب کی سائنسی ترقی سے متاثر ہوکر کرتے ہیں ۔ مسلمانوں نے اس دور میں ان کی کبھی بھی قدر نہیں کی ۔
۔
اور بد قسمتی سے قران کی متشہبات کی مرضی کی تاویلات کر کے یا احکامی آیات کو وضعی روایتوں کی قربان گاہ پر چڑھا کر ایسے طریقے ایجاد کیے گئے جن سے اسلام محض رہبانیت رہ گیا اور ان راہبوں کو آنے والوں اپنی مرضی کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے ساتھ ساتھ ساری ملت کو تباہی کی طرف دھکیلا ۔ اور آج بھی ہمارا حال کچھ مختلف نہیں ۔
وسلام
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم اراکین محفل
سدا خوش رہیں آمین
اک دوست نے اک سوال پوچھا ہے ۔
کیا میری کچھ مدد کر سکیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ اکثر مذہب کی بات کرتے ہوئے کچھ خاص قسم کی اصطلاعات سامنے آتی ہیں ۔
1 ۔۔ شریعت
2 ۔۔ معرفت
3 ۔۔ طریقت
4 ۔۔ حقیقت
ان منازل کی ترتیب کیا ہے ۔ ؟
کیا یہ چاروں اک ہی درجہ کی منازل ہیں ۔ ؟
یا ان میں کچھ فرق ہے ۔ ؟
امید ہے میری الجھن سلجھ جائے گی ۔
نایاب
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
سدا خوش رہیں آمین
بحث کرنی تو مجھ کم علم کے لیے بہت مشکل ہے ۔
اور آج تک کبھی بحث سے فلاح آمیز نتیجہ نکلتا نہیں دیکھا ۔
اک سوال کرنا چاہوں گا لیکن بحث کے تناظر میں نہیں ۔
صرف علم میں اضافے کے لیے ۔
تاریخ اسلام میں سب سے پہلی بحث کونسی ہے ۔ ؟
اور کس موضوع پر ہے ۔ ؟

نایاب

محترم نایاب بھائی ۔۔۔ یقین مانیئے میری حیثیت بلکل ایک طالب علم کی ہے ۔ میں جب تک سوال کا مقصد یا سیاق و سباق نہیں سمجھ پاتا اپنی طرف سے کوئی بھی کہنے سے احتراز کرتا ہوں ۔ آپ اپنے سوال کی وضاحت کجیئے کہ آپ بحث کہاں سے شروع کرنا چاہ رہے ہیں ۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم نایاب بھائی ۔۔۔ یقین مانیئے میری حیثیت بلکل ایک طالب علم کی ہے ۔ میں جب تک سوال کا مقصد یا سیاق و سباق نہیں سمجھ پاتا اپنی طرف سے کوئی بھی کہنے سے احتراز کرتا ہوں ۔ آپ اپنے سوال کی وضاحت کجیئے کہ آپ بحث کہاں سے شروع کرنا چاہ رہے ہیں ۔

السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
انکساری اور کسر نفسی پھلدار درخت کی پھلون سے بھری شاخ جیسی ۔
سوال یہ تھا کہ
دین اسلام کے پیروکاروں میں بحث ( اختلاف رائے و فکر و خیال )کی شروعات کس حقیقی قصے سے شروع ہوتی ہے ۔
اگر آپ اس سوال کو بحث سمجھیں تو میں اپنی اس گستاخی کی معذرت چاہوں گا ۔
جو آپ کی بحث والی بات کو ہائی لائٹ کر کے سوال کیا ہے ۔
نایاب
 

خرم

محفلین
اور بد قسمتی سے قران کی متشہبات کی مرضی کی تاویلات کر کے یا احکامی آیات کو وضعی روایتوں کی قربان گاہ پر چڑھا کر ایسے طریقے ایجاد کیے گئے جن سے اسلام محض رہبانیت رہ گیا اور ان راہبوں کو آنے والوں اپنی مرضی کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے ساتھ ساتھ ساری ملت کو تباہی کی طرف دھکیلا ۔ اور آج بھی ہمارا حال کچھ مختلف نہیں ۔
وسلام
بھیا رہبانیت کا تصوف یا اسلام سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ رہبانیت تو تارک الدنیا ہوجانے کا نام ہے جبکہ تصوف دنیا کے اندر رہتے ہوئے اپنے اعمال شریعت کے مطابق چلاتے ہوئے نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل متابعت کا نام ہے۔ صوفیاء نے لوگوں کے دلوں کو بدلا اپنے حسن کردار سے۔ آج ہم کہتے ہیں کہ پہلے دو تین سو سال کے بعد مسلمان بس آرام سے بیٹھ گئے۔ اب اگر خواجہ معین الدین چشتی اجمیر آکر نہ بیٹھتے، حضرت علی ہجویری لاہور ڈیرا نہ ڈالتے، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر اجودھن میں قیام پذیر نہ ہوتے اور حضرات قطب الدین بختیار کاکی اور نظام الدین اولیاء دہلی سکونت نہ اختیار کرتے تو پھر یہ جم غفیر جو مسلمان ہے آج ہندوستان اور پاکستان میں یہ کیسے مسلمان ہوتا؟ یہ سب تو پہلے تین سو سال کے بہت بعد ہوا۔ اسلام بادشاہوں نے تو نہیں‌پھیلایا کہ جو اس وقت کے بادشاہ تھے وہ تو آج کے بادشاہوں جیسے ہی کردار کے مالک تھے پھر یہ اتنے لوگ مسلمان کیسے رہے؟ اور پھر یہی لوگ ہیں جو دور دراز کے علاقوں میں جاکر اپنے عمل سے لوگوں کو دین پر قائم اور مائل رکھتے۔ آج بھی آپ کو شائد ہی سرحد، پنجاب اور سندھ کا کوئی گوشہ ملے جہاں کسی اللہ والے کا مزار نہ ہو۔ یہ لوگ جاہل نہیں تھے اور نہ انہوں نے لوگوں کو حرفت و دیگر علوم کی تحصیل سے باز رکھا۔ ان کا کام صرف یہ تھا کہ لوگوں کا ناتا ان کے رب سے جُڑا رہے اور اس میں ترقی ہوتی رہے تاکہ شیطان کے پھندوں سے بچ کر نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اپنے مقصود حقیقی تک پہنچے۔
دنیا دار اس وقت بھی تھے، علوم کو حاصل کرنے والے اس وقت بھی تھے لیکن سوائے اہلیان تصوف کے کسی نے بھی اپنی ذمہ داری کو کما حقہ ادا نہ کیا اور نتیجہ زوال کی صورت میں نکلا۔ مغلوں نے تاج محل تو بنا ڈالا لیکن انجنیئرنگ یونیورسٹی کی تعلیم کا انتظام نہ کیا۔ بحری بیڑے نہ بنائے۔ توپیں ہندوستان میں‌بابر لایا لیکن اس کے جانشین ان توپوں‌میں ترقی نہ کر سکے۔ کسی ایسے علم کی سرپرستی ہی نہ کی کہ قوم ترقی کرتی۔ یہی حال باقی امت کا بھی تھا۔ ان تمام عوامل کا ذمہ دار اہلیان تصوف کو قرار دینا زیادتی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
انکساری اور کسر نفسی پھلدار درخت کی پھلون سے بھری شاخ جیسی ۔
سوال یہ تھا کہ
دین اسلام کے پیروکاروں میں بحث ( اختلاف رائے و فکر و خیال )کی شروعات کس حقیقی قصے سے شروع ہوتی ہے ۔
اگر آپ اس سوال کو بحث سمجھیں تو میں اپنی اس گستاخی کی معذرت چاہوں گا ۔
جو آپ کی بحث والی بات کو ہائی لائٹ کر کے سوال کیا ہے ۔
نایاب

نایاب بھائی ۔۔۔۔ میں نے خود کو طالب علم گردانا ہے ۔ ایک سوال کا جواب اگر آپ کے پاس موجود ہے توا سے پیش کیا جائے تاکہ اس پر اختلافِ رائے یا اتفاقِ رائے کا جواز بن سکے ۔ مگر سوال خود کسی کی علمیت کا ناپنے کا پیمانہ بنا ہوا ہے ۔ یقین مانیئے مجھے اس قسم کے سوالوں سے قدرے الجھن ہوتی ہے ۔ اگر آپ کوئی موضوع چھیڑنا چاہ رہے ہیں تو آپ بسمہ اللہ کردیجیئے ۔ اس میں سوال کی کیا ضرورت ہے ۔ ویسے میری ناقص معلومات کے مطابق مسلمانوں میں پہلا اختلاف ہی خلیفہ کے انتخاب پر ہوا تھا ۔
 

طالوت

محفلین
دنیا دار اس وقت بھی تھے، علوم کو حاصل کرنے والے اس وقت بھی تھے لیکن سوائے اہلیان تصوف کے کسی نے بھی اپنی ذمہ داری کو کما حقہ ادا نہ کیا اور نتیجہ زوال کی صورت میں نکلا۔ مغلوں نے تاج محل تو بنا ڈالا لیکن انجنیئرنگ یونیورسٹی کی تعلیم کا انتظام نہ کیا۔ بحری بیڑے نہ بنائے۔ توپیں ہندوستان میں‌بابر لایا لیکن اس کے جانشین ان توپوں‌میں ترقی نہ کر سکے۔ کسی ایسے علم کی سرپرستی ہی نہ کی کہ قوم ترقی کرتی۔ یہی حال باقی امت کا بھی تھا۔ ان تمام عوامل کا ذمہ دار اہلیان تصوف کو قرار دینا زیادتی ہے۔
میرے خیال میں آپ صوفی ازم کی ابتدا کا جائزہ لیں تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اسلام کے پھیلانے میں صوفیا کا کردار بے شک رہا ہو گا مگر ان کی تبلیغ سے کیسے مسلم پیدا ہوئے یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور مضبوط بنیاد کے بغیر کسی مضبوط عمارت کی تعمیر کی کوشش بے سود ہے حالت آپ کے سامنے ہے۔۔ میں ان عوامل کا ذمہ دار صوفیا کو قرار نہیں دے رہا بلکہ ان عوامل کے نتیجہ میں صوفیا پیدا ہوئے ۔ یعنی اپنی اپنی نبیڑو ۔ اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر درست اسلامی معاشرے کا تصور بھی محال ہے ۔ اور اس سلسلے میں صوفیا کا کردار صفر سے بھی کم درجہ پر ہے۔
مسلمانوں میں پہلا اختلاف ہی خلیفہ کے انتخاب پر ہوا تھا ۔
درست ۔
وسلام
 

خرم

محفلین
میرے خیال میں آپ صوفی ازم کی ابتدا کا جائزہ لیں تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اسلام کے پھیلانے میں صوفیا کا کردار بے شک رہا ہو گا مگر ان کی تبلیغ سے کیسے مسلم پیدا ہوئے یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور مضبوط بنیاد کے بغیر کسی مضبوط عمارت کی تعمیر کی کوشش بے سود ہے حالت آپ کے سامنے ہے۔۔ میں ان عوامل کا ذمہ دار صوفیا کو قرار نہیں دے رہا بلکہ ان عوامل کے نتیجہ میں صوفیا پیدا ہوئے ۔ یعنی اپنی اپنی نبیڑو ۔ اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر درست اسلامی معاشرے کا تصور بھی محال ہے ۔ اور اس سلسلے میں صوفیا کا کردار صفر سے بھی کم درجہ پر ہے۔
وسلام
بھیا صوفیاء کی تبلیغ سے مسلمان پیدا ہوئے۔ ہندوستان جیسے ملک میں‌آج کروڑہا مسلمان بستے ہیں کن کی محنت سے؟‌وہ تاتار جنہیں‌مسلمانوں کی کوئی فوج نہ روک سکی، کس کی وجہ سے مسلمان ہوئے اور قسطنطنیہ فتح کیا؟ اسلامی حکومت بنیاد نہیں عمارت ہے میرے بھائی۔ بنیاد مسلمان ہیں، عام لوگ ہیں جنہیں تعلیم دینے کی جنہیں ان کے رب سے جوڑے رکھنے کی یہ لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ صوفیا کا کام حکومت سازی نہیں شخصیت سازی رہا ہے جو سنت نبوی ہے۔ حکومتیں تو مسلمانوں کی چودہ سو سال سے چلی آرہی ہیں اور اب بھی ہیں بلکہ بزعم خود کئی "اسلامی" بھی ہیں۔ ان کی ناکامی کا ذمہ دار آپ ان حکومتوں والوں کو ٹھہرائیں۔ صوفیاء کا تو یہ کام ہے کہ وہ پیار سے اور اپنے عمل سے لوگوں کو دین کی راہ پر چلاتے جا رہے ہیں۔ دور کیسا بھی رہا ہو، ان لوگوں نے اپنے کام سے کوتاہی نہیں‌کی۔ طعن و تشنیع بھی ان پر ہمیشہ آزمائے گئے لیکن جو عالم پناہ تھے ان کے مقبروں پر خاک اُڑتی ہے اور جو اللہ کے ہو کر اس کے بندوں کو اس سے ملانے کی کوشش میں مصروف لوگوں‌کے طعنے سُنتے رہے، ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ آپ مرض کے اسباب کی غلط تشخیص کررہے ہیں۔ مجرموں کو تو پوچھ ہی نہیں‌رہے اور جو اپنا کام کرتے رہے ان پر تمام الزام دھر رہے ہیں‌:)
 

ظفری

لائبریرین
خلیل بہت افسوس کہ آپ کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو علمی تحقیق کی عادت نہیں۔
میرے پہلے سوال کا جواب آپ نے غلط دیا۔ آپ نے کہیں بھی کسی بھی ولی سے نقص شریعت کا الزام ثابت نہیں کیا۔ مجذوب کے لئے کیونکہ شریعت کی قید ہی نہیں سو وہ اس زمرہ میں آتے ہی نہیں۔دوسرے سوال کا جواب آپ پی گئے۔
تیسرے سوال کے جواب میں آپ تین سے چار لاکھ صحابہ شمار کروا دئیے۔ یہ گنتی کہاں سے لی؟ صحابہ کی کرامات کے بارے میں آپ کی معلومات کم ہیں۔ اور کیا کرامت اور معجزہ میں فرق جانتے ہیں آپ؟ بہت بڑی جسارت ہے کہہ دینا کہ کرامات کے مقابلے میں انبیاء کے معجزے ہیچ نظر آتے ہیں۔ ایسا بکنے سے پہلے سوچ لیا کرتے ہیں۔ کسی ولی نے تو ایسی گمراہ کن بات نہ کہی۔ جو لوگ ایسی باتیں پھیلاتے ہیں ان کا فہم دین تو ہر دیدہ ور کو سمجھ آ جانا چاہئے۔
تیسرے سوال کا جواب ٹریڈ مارک رجسٹرڈ تھا۔ ویسے اصول شرع یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی ممانعت نہیں تو وہ جائز ہے۔ آپ کو علم ہے کیا؟
میں نے ابن تیمیہ کو درست نہیں کہا۔ صرف اتنا کہا ہے کہ اپنی فہم کے مطابق انہوں نے غالباَ درست کہا۔ میں ان کے نیت کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں لیکن ان کے عقائد سے اختلاف۔
اور جن صاحب کی آپ نے کتاب کا حوالہ دیا انہیں تو ہندو مت کی الف بے بھی نہیں پتا۔ انہیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ ہندو کہتے کسے ہیں۔ اگر اب آپ کو کہوں کہ اصل میں آپ "ہندو" ہیں تو لٹھ لیکر میرے پیچھے پڑ جائیں گے آپ حالانکہ حقیقت یہی ہے۔ غصہ کرنے سے پہلے لفظ "ہندو" کے متعلق تحقیق کیجئے وگرنہ یہ خاکسار ہی عرض کردے گا۔

جب سے تصوف کا مسلمانوں میں رواج ہوا ہے ہمیشہ دو آراء رہیں ہیں ۔ ایک نکتہِ نظر یہ رہا ہے کہ یہ دین کی تصحیح تعبیر ہے ۔ اس میں دین کی حقیقت کو پیشِ نظر رکھ کر جہدو جہد کی جاتی ہے ۔ اور تصوف آپ کو بتاتا ہے کہ ان احکامات کے پیچھے اصل چیز کیا ہے جسے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دوسرا نکتہِ نظر ان لوگوں کا رہا ہے ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف میں دین کے اصولوں کے برخلاف کچھ اور اصولوں پر اس سارے علم کی بنیاد رکھی گئی ہے اور عمل کے معاملے میں بھی کچھ ایسے حدود قائم کردیئے گئے ہیں جو دین کے حدود سے تجاویز ہوگئے ہیں ۔ یہ دوسری رائے بھی معمولی درجے کے لوگوں کی نہیں ‌رہی ہے بلکہ آئمہ اسلام میں بڑے بڑے بزرگوں کی ہیں ۔

ان دو آراء کے بعد مقدمے کی نوعیت کچھ اس طرح بنے گی کہ تصوف کا معاملہ وہ نہیں‌ جو دین کا ہے ۔ دین کے بارے میں آپ کچھ جاننا چاہیں گے تو آپ کو بتایا جائے گا کہ مذہب کی مستند ترین چیز قرآن مجید ہے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں ۔ اگر اسلام سے پہلے الہامی مذاہب پر گفتگو کرنی مقصود ہو تو وہاں تورات ، انجیل اور زبور ہیں ۔ چنانچہ اگر میں کسی چیز کے بارے میں یہ کہوں کہ یہ " دین " ہے تو میرے پاس اس کے ماخذ کے ساتھ دلائل اور ثبوت بھی موجود ہونگے ۔ تصوف کے معاملے میں کچھ ایسا نہیں ہے ۔ تصوف کے بارے میں جن بڑے بڑے لوگوں نے تحقیق کرکے لکھا ہے ۔ اور ان کی تحقیق اور لکھنے کے نتیجے میں تصوف ، علم کی دنیا میں قابلِ اعتناء بنا ہے ۔ ان میں شیخ محب الدین ابن عربی ہیں، غزالی ہیں ، ابوطالب مکی ہیں ، ابنِ تیمیہ ہیں ، ابو اسماعیل ہیں ، شاہ ولی اللہ ہیں ،شیخ سرہندی ، شاہ اسمعیل اور بہت سے جلیل والقدر علماء شامل ہیں ۔

اگر اس درجے کے لوگ تصوف کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے تو پھر تصوف قابلِ اعتناء اور قابل ِ تبصرہ نہیں بنتا ۔ اور اگر اس درجے کے لوگوں نے تصوف کے بارے میں لکھا ہے تو پھر قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے کہ تصوف کا قرآن و سنت سے کیا تعلق بنتا ہے ۔ اور تعلق کو دیکھنے کے لیئے یہ بات بھی مدِ نظر رہنا چاہیئے کہ خود اربابِ تصوف کے ہاں یہ تفریق موجود ہے کہ جب وہ عوام کیساتھ گفتگو کرتے ہیں تو وہی باتیں بیان کرتے ہیں جو میں اور آپ بیان کرتے ہیں کہ وہی روزہ ، وہی نماز ، حج ، وغیرہ ۔ مگر جب وہ خواص کے لیئے دین کو بیان کرتے ہیں تو وہاں پھر وہ اپنا خاص نکتہ نظر بھی بیان کریں گے ۔ اگر خواص کے لیئے جو بات بیان کی جا رہی ہے ، وہ دین کی روح ہے اور دین کے دائرے میں ہے تو پھر کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ۔ لیکن اگر وہ دین سے ماوراء دوسری دنیا بنا دیتی ہے ( جو کہ بنا دیتی ہے ) تو پھر یہ ضرور غور کرنا چاہیئے کہ اس کی دین کے ساتھ کیا مناسبت پیدا ہوتی ہے ۔ دین دو چیزوں کا نام ہے ۔ ایمان اور عمل ۔ایمانیات کی بنیاد توحید ہے ۔ رسالت اور قیامت کا تصور ہے ۔ عمل میں سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ دین نے یہاں کیا حدود مقرر کردیئے ہیں کہ جس کے تحت ہم نجات پائیں گے ۔ اور وہ جگہ کیا ہے جہاں‌دین کا جمال و کمال ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ یہ ساری باتیں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی بیان ہوگئیں ہیں ۔ اس روشنی میں جب آپ جائزہ لیتے ہیں تصوف کی کوئی اور ہی شکل سامنے آتی ہے ۔ مگر یہاں سے اگر بات آگے بڑھے گی تو پھر اس کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا ۔
 

خرم

محفلین
ہمیں جو بتایا گیا وہ یہ ہے کہ شریعت درخت ہے اور طریقت اس کا پھل۔ اگر شجر نہیں تو پھل بھی نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ بلا شریعت پر عمل کئے طریقت کی منزل کو پالے گا یا یہ کہ اس کی طریقت اسے شریعت سے آزاد کرتی ہے تو وہ گمراہ ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
ہمیں جو بتایا گیا وہ یہ ہے کہ شریعت درخت ہے اور طریقت اس کا پھل۔ اگر شجر نہیں تو پھل بھی نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ بلا شریعت پر عمل کئے طریقت کی منزل کو پالے گا یا یہ کہ اس کی طریقت اسے شریعت سے آزاد کرتی ہے تو وہ گمراہ ہے۔

میں سمجھا کہ آپ کوئی علمی بحث کریں گے ۔ !
 

خرم

محفلین
نہیں بھیا بحث کی بات ہی نہیں۔ عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ طریقت یا تصوف شریعت کے مخالف چلاتے ہیں سو عرض کی کہ ہمیں تو یہی سمجھایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز شریعت کے مخالف ہے تو وہ طریقت کا دعوٰی کرنے والا جھوٹا ہے۔
 

طالوت

محفلین
بھیا صوفیاء کی تبلیغ سے مسلمان پیدا ہوئے۔ ہندوستان جیسے ملک میں‌آج کروڑہا مسلمان بستے ہیں کن کی محنت سے؟‌وہ تاتار جنہیں‌مسلمانوں کی کوئی فوج نہ روک سکی، کس کی وجہ سے مسلمان ہوئے اور قسطنطنیہ فتح کیا؟ اسلامی حکومت بنیاد نہیں عمارت ہے میرے بھائی۔ بنیاد مسلمان ہیں، عام لوگ ہیں جنہیں تعلیم دینے کی جنہیں ان کے رب سے جوڑے رکھنے کی یہ لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ صوفیا کا کام حکومت سازی نہیں شخصیت سازی رہا ہے جو سنت نبوی ہے۔ حکومتیں تو مسلمانوں کی چودہ سو سال سے چلی آرہی ہیں اور اب بھی ہیں بلکہ بزعم خود کئی "اسلامی" بھی ہیں۔ ان کی ناکامی کا ذمہ دار آپ ان حکومتوں والوں کو ٹھہرائیں۔ صوفیاء کا تو یہ کام ہے کہ وہ پیار سے اور اپنے عمل سے لوگوں کو دین کی راہ پر چلاتے جا رہے ہیں۔ دور کیسا بھی رہا ہو، ان لوگوں نے اپنے کام سے کوتاہی نہیں‌کی۔ طعن و تشنیع بھی ان پر ہمیشہ آزمائے گئے لیکن جو عالم پناہ تھے ان کے مقبروں پر خاک اُڑتی ہے اور جو اللہ کے ہو کر اس کے بندوں کو اس سے ملانے کی کوشش میں مصروف لوگوں‌کے طعنے سُنتے رہے، ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ آپ مرض کے اسباب کی غلط تشخیص کررہے ہیں۔ مجرموں کو تو پوچھ ہی نہیں‌رہے اور جو اپنا کام کرتے رہے ان پر تمام الزام دھر رہے ہیں‌:)
میں ذرا بڑی چھلانگ لگا گیا۔ ذرا واپس آتے ہیں ۔اسلام اجتماعیت کا نام ہے نہ کہ انفرادیت کا ۔ یعنی اسلام کی اصل روح اس معاشرے کی تکمیل ہے جہاں انسانوں کو حکومت الہی کے تحت بسایا جائے ان سے معاملات کئے جائیں ۔ جبکہ صوفیت کا کردار کلی طور پر فرد کے لئے ہے نہ کہ معاشرے کے لئے ۔ اگر دلیل یہ دی جائے کہ صوفیا فرد کی تربیت کر کے اس سے ایک متوازن معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو یہ مفروضہ ہی غلط ہو جائے گا کہ آج تک کوئی صوفی اس کام کو انجام نہ دے سکے ۔ اور سب سے اہم چیز ہے کہ صوفیت کا تصور نہ تو محسن انسانیت کے یہاں ملتا ہے اور نہ ان کے رفقاء کے یہاں ۔ ہمیں کہیں بھی یہ اعلٰی ہستیاں گوشہ نشین نظر نہیں آتیں ۔ بلکہ ان کا کردار چند افراد کی تربیت ، پھر اس سے ایک حکومت الہٰی اور اس کے ذریعے سے ایک مکمل متوازن معاشرے کی تشکیل نظر آتی ہے۔ جبکہ صوفیت اس سے قطعی طور پر محروم ہے ۔ پھر انھیں کامیاب قرار دینا ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
وسلام
 
Top