تشہیر کرنا۔

رشید حسرت

محفلین
تشہِیر کرنا۔




لِکھا میں نے تُمہیں اب تُم مُجھے تحرِیر کرنا
گواہی دے تِرا دِل جو وُہی تعبِیر کرنا

تُمہیں جب بھی لگے میں تُم سے باہر جا رہا ہوں
بس اپنی زُلف میرے پاؤں کی زنجِیر کرنا

مُجھے تُم ایک تھیلا دے کے آٹا سوچتے ہو
تُمہارا حق ہے میری ہر طرح تشہِیر کرنا

بُڑھاپے کی مِرے تُم لِکھ رہے ہو گر کہانی
جوانی بھی مِری پھر کھینچ کر تصوِیر کرنا

تُمہی جو گاؤں کے سردار ٹھہرے، کیا شِکایت
تُمہارا خاندانی حق مِری تحقِیر کرنا

تُمہارے قصرِ شاہی کو مُنہدِم دیکھتا ہوں
رہیں گے کب، قلعے جِتنے بھی تم تعمِیر کرنا

نہیں ہے ماں تو اب حسرتؔ دُعائیں بھی نہیں ہیں
سنبھل جا دِل نہیں اب تُو کوئی تقسِیر کرنا۔

رشِید حسرتؔ۔
 
اگر ناگوارِ خاطر نہ ہو تو کچھ گزارشات

تُمہارے قصرِ شاہی کو مُنہدِم دیکھتا ہوں

منہدم کو آپ نے ہ ساکن کے ساتھ باندھا ہے جبکہ مُنہَدِم میں ہ پر زبر ہے۔ اس طرح یہ مصرع وزن میں نہیں۔

تُمہارا حق ہے میری ہر طرح تشہِیر کرنا

ہمارے خیال سے آپ نے زیادہ تر غزلیں کہی ہیں۔ غزلوں کے عنوان نہیں ہوتے۔ کوئی ایک مکمل مصرع استعمال کرسکتے ہیں۔ مندرجہ بالا بھی غزل ہی ہے، یعنی اس غزل کا عنوان یہ پورا مصرع ہوسکتا ہے، صرف "تشہیر کرنا" نہیں۔
 
Top