تشدد یا محبت

ساجد

محفلین
مسلمان برصغیر میں آئے تو یہاں کے باشندوں نے ان کے اعلی اخلاق اور ترقی یافتہ تہذیب کو خوش آمدید کہا ۔ کافی لوگ مسلمان ہوئے اور جو نہیں بھی ہوئے انہوں نے مسلمانوں کی بو دو باش کو بہتر پا کر اسے قبول کر لیا ۔ یوں ایک نیا مشترکہ کلچر وجود میں آیا جس میں اسلامی تعلیمات کی جھلک بہت نمایاں تھی ۔
پھر یوں ہوا کہ ہم نے اپنی اعلی روایات کو ترک کر دیا اور اسلامی تہذیب کو بالائے طاق رکھ کر بس نام کے مسلمان ہونا کافی سمجھ لیا اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ڈنڈے کے زور پر دوسروں کو مسلمان کرنے کی کوشش شروع کر دی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے ہم سے نفرت کرنے لگے اور ہمیں شدت پسند کہنے لگے ۔
ہم نے ادراک نہ کیا کہ ہمارے دین کی تبلیغ ہمارے عمل سے ہوئی تھی نہ کہ زور زبردستی اور ڈنڈے سے ۔
---------------------------------؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
اب یہ حالت ہے کہ زور زبردستی کے اس ڈنڈے کو ہم نے اسلام کی تبلیغ کا اہم جزو سمجھ لیا ہے ۔ غیر مسلم تو رہے الگ اسے اپنے ہم مذہبوں پر بھی بلا دریغ استعمال کرتے ہیں اور اسلامی احکامات میں دوسروں کی رائے پر غور کرنے کی بجائے ان پر کفر کا لیبل چسپاں کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے ۔
تشدد ، عدم رواداری اور بے عملی کا یہ رویہ نہ کبھی اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ رہا ہے اور نہ ہی بن سکے گا ۔ اس لئے اس سے جتنی جلدی ہو سکے پیچھا چھڑا لیں اور اس طرز عمل کو اپنا لیں جو ہمارے اسلاف اور بزرگان دین کا طرہ امتیاز تھا ۔۔۔۔۔ یعنی اسلام کا خود پر عملی نفاذ اور بلا تفریقِ مذہب انسانوں سے محبت ۔
(ساجد)
 
Top